Friday, February 01, 2013
دل بدستور سخت ہیں
یہ گزشتہ دسمبر تھا اور میں میلبورن میں تھا۔ گرمیاں تھیں لیکن خنک، ٹمپریچر بیس سے بھی کم ہو جاتا تھا۔ قریب ترین مسجد پینتیس منٹ کے پیدل فاصلے پر تھی۔ انتظام اس کا مصری حکومت کے پاس تھا اور نمازیوں کی اکثریت صومالیہ کے مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ میری رہائش گاہ کے دونوں طرف خوبصورت پارک تھے لیکن سیر کرنے کا پسندیدہ انداز یہی تھا کہ مسجد پیدل جائوں، ایک یا بعض اوقات دو نمازیں باجماعت ادا کروں اور پھر پیدل ہی واپس آئوں۔ واپسی پر ایک دوسرا راستہ بازار سے ہو کر جاتا تھا۔ وہاں سے گھر کا سودا سلف بھی خرید لیا جاتا۔
اُس دن ابھی میں راستے ہی میں تھا یا گھر پہنچا ہی تھا کہ اسلام آباد سے بیٹے کا فون آیا۔ وہ کچھ پریشان تھا۔ گھر کی پُشت پر ایک خالی پلاٹ تھا۔ اس کے ساتھ جن صاحب کا مکان تھا انہوں نے یہ پلاٹ خرید لیا اور دیوار چڑھا کر ہمارا عقبی گیٹ بند کر دیا۔ یہ گیٹ گلی میں تھا۔ گلی کا ایک حصہ پلاٹ میں شامل کرکے انہوں نے گلی کی چوڑائی بھی کم کر دی۔ میں نے بیٹے سے صرف ایک بات پوچھی کہ کیا وہ صاحب تمہارے پاس اجازت لینے یا بتانے آئے تھے؟ اس نے کہا نہیں! مجھے تو اس وقت معلوم ہوا جب دیوار بلند ہو گئی اور گیٹ اندھا ہو گیا۔ میں نے اسے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ تم نے کچھ بھی نہیں کرنا۔ ایک دوست سے بات کی۔ اس نے پیشکش کی کہ حکم امتناعی لے لیتے ہیں لیکن میں جھگڑے میں پڑنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا ؎
ہماری سرحدوں کا تم تعیّن کیا کرو گے
ہمارا اہلِ ظاہر سے کوئی جھگڑا نہیں ہے
آنکھوں کے سامنے ان صاحب کا متشرع نورانی چہرہ آ گیا۔ ہمارے قریب ترین پڑوسی وہی تھے۔ ایک سال پہلے جب ہم منتقل ہوئے تو سب سے پہلے انہی کے گھر حاضری دی۔ وہ گھر پر نہیں تھے۔ پیغام چھوڑ آیا کہ ہم آپ کے پڑوسی ہیں اور نئے نئے منتقل ہوئے ہیں۔ کئی دنوں کے بعد ان سے مسجد میں ملاقات ہوئی۔ بتایا کہ ان کے درِ دولت پر حاضری دی تھی اور پڑوسی ہونے کے ناتے وہ بھی تشریف لائیں۔ فرمانے لگے میں مصروف ہوں۔ وقت نہیں ملتا۔ انہی دنوں عرفان صدیقی کا‘ جو ٹوکیو میں رہتے ہیں‘ ایک مضمون پڑھا تھا‘ یاد آ گیا۔ ان کی جاپانی پڑوسن تحائف اُٹھائے، تعارفی ملاقات کے لیے ان کے گھر آئی تھی۔ عرفان لکھتے ہیں کہ اسلام کی ستّر فیصد تعلیمات جاپانی قوم کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ یہاں جاپانی سے مراد ساری ترقی یافتہ غیر مسلم اقوام ہیں!
اسلام آباد واپس آ کر محلے کے سرکردہ بزرگ صفدر محمود صاحب سے، جو فلاحی سرگرمیوں میں خوب حصہ لیتے ہیں، بات کی۔ مسکرا کر کہنے لگے… ’’میں نے آپ کے پڑوسی سے سلسلہ جنبانی کی تھی اور بتایا تھا کہ یہ گیٹ مسجد آنے جانے کے لیے رکھا گیا ہے۔ ساری ایک یا دو مربع فٹ کی بات ہے اور آپ تو ماشاء اللہ‘ اللہ کے راستے میں نکلنے اور محنت کرنے والی جماعت سے وابستہ ہیں۔ لیکن وہ نہ مانے…‘‘ اتمامِ حجت کے لیے میں نے خود بھی بات کر لی۔ ان کا جواب دو ٹوک تھا کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا!
گیٹ کے بند ہونے سے گھر کے مکینوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا سوائے اس کے کہ مسجد کا راستہ لمبا ہو گیا ہے۔ لیکن اگر مولانا صاحب پڑوسی کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے گھر تشریف لے آتے اور جو بھی صورتِ حال تھی‘ اس کی نرم گفتاری سے وضاحت فرما دیتے تو انہیں اس ’’آپریشن‘‘ کی بخوشی اجازت دے دی جاتی۔ ان کے نامۂ اعمال میں نیکی کا اضافہ ہو جاتا اور گھر کے مکین اپنا مقدمہ روزِ جزا پر نہ اُٹھا رکھتے۔
واقعہ بیان کرنے کا مقصد اس آہ و فغاں کا اعادہ ہے کہ دینداری کا دعویٰ کرنے والے افراد اور گروہوں نے دین کو عبادات تک محدود کر دیا ہے۔ تلقین بھی صرف عبادات کی کرتے ہیں اور عمل کے حوالے سے بھی وہیں تک رہتے ہیں۔ دین کا غالب حصّہ جو معاملات، معاشرت اور حقوق العباد پر مشتمل ہے، پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ مثلاً صرف ایک معاملے ہی کو لے لیجیے۔ کاروں کی چوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث افراد میں اچھی خاصی بھاری تعداد متشرع لوگوں کی ہے۔ یہ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں! ایک صاحب اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ
اپنی اغوا شدہ کار کو چھڑانے کے لیے متعلقہ لوگوں کے پاس پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ابھی نماز کا وقت ہے۔ نماز کے بعد ’’بات چیت‘‘ شروع کرتے ہیں۔ کار کے مالک نے پوچھا کہ آپ نمازی اور متشرع لوگ ہیں۔ آخر کس اسلامی اصول کے تحت میری ہی کار کی ’’قیمت‘‘ مجھی سے وصول کرنا چاہتے ہیں؟ ان کا جواب مختصر تھا۔ ’’یہ تو ہمارے بچوں کی محنت ہے۔‘‘ ایک اور معاملے پر غور کیجیے۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ تجارت پیشہ حضرات کی اکثریت دیندار ہے لیکن ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز نفع خوری، خرابی ظاہر کیے بغیر خراب مال فروخت کرنا، ٹیکس چوری اور دکانوں کے سامنے ناجائز تجاوزات… یہ ساری لعنتیں جو تجارت سے متعلق ہیں جس کثرت سے پاکستان میں پائی جاتی ہیں، شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں!
یہ واقعہ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے ایک شخص کے بارے میں لوگوں سے رائے لی۔ عرض کیا گیا کہ وہ نمازیں خشوع و خضوع سے پڑھتا ہے اور روزے کثرت سے رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں! یہ تو اس کا اور اس کے پروردگار کا معاملہ ہے۔ مجھے یہ بتائو کہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں اس کا برتائو کیسا ہے؟
روزِ جزا کا مالک اپنے حقوق چاہے تو معاف فرما دے لیکن بندوں کے حقوق بندے خود ہی معاف کر سکیں گے۔ اوراد و وظائف یقینا ثواب اور خیر و برکت کا باعث ہیں لیکن بدقسمتی سے ان چیزوں کو قرآن اور فہمِ قرآن کا نعم البدل بنا دیا گیا ہے۔ ایک مذہبی گروہ کھلم کھلا اپنے وابستگان سے کہتا ہے کہ معنیٰ کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا صرف علماء کرام کا کام ہے حالانکہ کتاب مقدس میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ… ’’ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے…‘‘ پوری پوری زندگیاں فضائلِ قرآن پڑھنے پر صرف کر دی جاتی ہیں لیکن قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی نوبت نہیں آتی۔ اس ظاہر پرستی کا انجام یہ ہے کہ اُوپر اُوپر سے تبدیلی آ گئی لیکن دل بدستور سخت ہیں۔ ایک مذہبی گروہ‘ جو سب سے زیادہ صلح جُو، مرنجاں مرنج، غیر سیاسی اور بے ضرر سمجھا جاتا ہے‘ اس کے ہیڈ کوارٹر میں لسانی بنیادوں پر ماضی قریب میں اس قدر خوفناک مناقشہ ظہور پذیر ہوا کہ ٹرکوں کے ٹرک اسلحہ سے بھرے ہوئے منگوا لیے گئے!
قرآن پاک نہ صرف زندگی گزارنے کا اور لوگوں سے معاملات طے کرنے کا طریقہ بتاتا ہے بلکہ یہ پیغمبر اسلام ﷺ کی جامع ترین کتابِ سیرت بھی ہے! اس سے دور رہ کر اور اس کے بجائے دوسری چیزوں کا التزام کرکے بھلا کوئی کیسے فلاح پا سکتا ہے! ؎
عزیزی کہ از درگہش سر بتافت
بہر در کہ شُد، ہیچ عزت نیافت
اقبال نے اسی مضمون کو زیادہ لطیف پیرائے میں کہا ہے ؎
نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
بُہت اچّھا لکھا ہے ۔
Post a Comment