ڈاکٹر طاہرالقادری بگولے کی طرح آئے اور آندھی بن کر ملک کی سیاسی فضا پر چھا گئے۔ بنیادی موقف جس سے انہوں نے تحریک کا آغاز کیا عوام کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ ان کا تھیسس یہ تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے خواص کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور جو جمہوریت رائج ہے، اس میں قانون کی حکمرانی عنقا ہے۔ تاہم ان کے اس سارے قضیے کی تان الیکشن کمیشن پر ٹوٹی۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل اور تشکیلِ نو کے لیے وہ عدالتِ عظمیٰ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب طاہرالقادری نے ملک کی سیاسی فضا پر بے یقینی کی چھتری تان دی۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ مقدمہ جیت جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں میں شدید اضطراب پیدا ہوگیا اور بظاہر یوں لگتا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرانے میں ڈاکٹر صاحب کامیاب ہوجائیں گے اور یوں انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوپائیں گے۔
لیکن سپریم کورٹ نے قدم درست سمت میں بڑھایا۔ عدالتِ عظمیٰ نے طاہرالقادری کی درخواست خارج کردی۔ سیاسی فضا پر چھائی ہوئی بے یقینی کی گھٹا چھٹ گئی۔ انتخابات کے التوا کا امکان ختم ہوگیا۔ جو طالع آزما ٹیکنو کریٹ حکومت کے پردے میں آمریت کے خواب دیکھ رہے تھے‘ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انتخابات کو وقتِ مقررہ پر منعقد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کا یہ اتنا عظیم الشان کردار ہے جس کی تحسین پورا ملک کررہا ہے۔ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ سیاسی پختگی کی طرف ہم نے ایک اور قدم بڑھایا ہے۔ ایک بڑا قدم۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طاہرالقادری سے جو سوالات کیے اور جو ریمارکس دیے، ان سے کچھ قواعد وضوابط سامنے آئے ہیں اور کچھ قاعدے کلیے بنے ہیں۔ یہ قواعدوضوابط اور قاعدے کلیے بنیادی طورپر پانچ نکات پر مشتمل ہیں: اول۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے کینیڈا کا شہری ہونے کی وجہ سے غیرملکی کا لفظ استعمال کیا۔ دوم۔ یہ کہ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرنے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا۔ سوم ۔ طاہرالقادری نے (یا کینیڈا کی شہریت اختیار کرنے والوں نے) ملکہ الزبتھ کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا، پاکستان کے ساتھ وفاداری کا نہیں۔ چہارم۔ ایسے شخص کی وفاداری منقسم ہوتی ہے۔ پنجم۔ ایک دوسرے ملک اور حکمران کی وفاداری کا حلف اٹھانے والا پاکستان کا وفادار کس طرح ہوسکتا ہے؟
مقدمہ جو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کینیڈا کے شہری ہیں۔ ان کے پاس کینیڈا کا پاسپورٹ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وفاقی حکومت کے وزیر جناب صمصام بخاری نے صدر مملکت کو ایک ریفرنس ارسال کیا۔ 8اگست 2012ء کے قومی اخبارات میں اس ریفرنس کے مندرجات شائع ہوئے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ صدر مملکت نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے اس ریفرنس پر رائے بھی طلب کی۔ صمصام بخاری نے ریفرنس میں الزام لگایا کہ آڈیٹر جنرل نے کئی پاسپورٹ حاصل کیے جن میں کینیڈا کا پاسپورٹ بھی شامل ہے۔ اپنے محکمے کو اطلاع دیے بغیر دہری شہریت حاصل کی اور اس کے لیے حکومت پاکستان سے این او سی تک نہ لیا۔
محکمے کو اطلاع دینا یا حکومت سے این اوسی لینا تو محکمہ جاتی مراحل ہیں۔ ہمارا مقدمہ ان قواعد وضوابط کی بنیاد پر ہے جو طاہرالقادری کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سوالات سے وضع ہوئے۔ چنانچہ جو سوالات ابھرتے ہیں یہ ہیں:
1۔ کیا ایک غیرملکی آڈیٹر جنرل ملک کے آئینی منصب پر فائز ہوسکتا ہے؟
2۔ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرنے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا۔ اس حوالے سے کیا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو پاکستانی کہا جاسکتا ہے؟
3۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف اٹھایا، پاکستان سے نہیں۔
4۔ کیا آڈیٹر جنرل کی وفاداری بھی منقسم نہیں ؟
5۔ ایک دوسرے ملک اور حکمران کی وفاداری کا حلف اُٹھانے والا آڈیٹر جنرل پاکستان کا کس طرح وفادار ہوسکتا ہے ؟
منقسم وفاداری رکھنے والے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ان تمام معلومات تک رسائی حاصل ہے جو حساس ہیں‘ خفیہ ہیں اور نہ صرف خفیہ بلکہ سیکرٹ‘ ٹاپ سیکرٹ اور کلاسیفائڈ ہیں۔ ان میں ایٹمی توانائی والے ادارے بھی ہیں اور اسلحہ کے اعدادوشمار بھی۔ ان میں جی ایچ کیو کے ازحد حساس حصے بھی ہیں اور بحری اور فضائی افواج کے خفیہ معاملات بھی۔ ان میں حسّاس یونٹوں کا خفیہ محل وقوع بھی شامل ہے کیونکہ آڈیٹر جنرل کا جو عملہ محکمہ دفاع کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال کرتا ہے وہ
حسّاس مقامات کا محل وقوع بھی جانتا ہے‘ جبھی تو وہاں جاکر آڈٹ کرتا ہے۔ یہ ساری معلومات رپورٹوں کی شکل میں اس غیرملکی کو پیش کی جاتی ہیں جو آڈیٹر جنرل کے منصب پر بیٹھا ہے۔ ان ساری دستاویزات پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے آخری دستخط اس کینیڈین شہری کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ‘ عجیب وغریب ، مضحکہ خیز اور حیران کن صورت حال ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک ایک غیرملکی کو پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا ہے‘ لیکن پارلیمنٹ کی طرف سے پورے ملک کے حسابات کی جانچ پڑتال کرنے والا عہدیدار غیرملکی ہے۔ وہ اپنی آڈٹ رپورٹیں پارلیمنٹ کو پیش کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کی نامزدکردہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سارے کام کا مکمل انحصار آڈیٹرجنرل پر ہے۔ دفاعی بجٹ کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کی تفصیلات اس بجٹ تقریر کا حصہ نہیں ہوتیں جو وزیرخزانہ پارلیمنٹ میں کرتا ہے لیکن مسلح افواج‘ بجٹ کی تمام تفصیلات اس غیرملکی کو پیش کرتی ہیں جو آڈیٹر جنرل لگاہوا ہے۔ اس میں وہ تفصیلات بھی ہوتی ہوں گی جو ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کو اب یہ بھی طے کردینا چاہیے کہ منقسم وفاداری رکھنے والا غیرملکی آڈیٹر جنرل کے آئینی منصب پر فائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔
Monday, February 18, 2013
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment