میلبورن میں سردی ہے! کڑاکے کی سردی!
ٹمپریچر دن کے وقت چھ یا سات تک اور رات کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ سردی نہیں! تیز طوفانی ہوا ہے جو جھکڑ کی طرح چلتی ہے۔ کم ہی ایسے دن ہوتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھا جا سکے۔ اسلام آباد کی جاڑوں کی دھوپ یاد آتی ہے۔ سنہری اور خواب آور دھوپ! میلبورن میں جب تیز وحشت ناک ہوا شور مچاتی ہے اور درخت جھکڑ کے زور سے کُبڑے ہونے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ برطانوی بھی کیا لوگ ہیں! دنیا کے اس آخری کنارے میں آکر آباد ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی بھلا! لندن اور میلبورن کا درمیانی فاصلہ سترہ ہزار کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود انگریز یہاں نہ صرف پہنچے بلکہ آباد ہوئے۔ یہاں کے تیز جھکڑوں کو تسخیر کیا۔ میلبورن شہر کی کُل عمر 190 سال ہے! 190 برسوں میں اس شہر کو انگریزوں نے اور ان کی ذریت نے اس درجۂ کمال تک پہنچایا کہ اسے اکثر و بیشتر رہنے کیلئے دنیا کا بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تعمیر و ترقی میں چینی بھی شامل رہے‘ بر صغیر سے لائے گئے شتربان بھی اور کچھ دیگر اقوام بھی‘ مگر منصوبہ بندی اور آئیڈیاز انگریز بہادر ہی کے تھے۔ پھر یہ لوگ یہاں سے بھی آگے گئے۔ نیوزی لینڈ کا دارالحکومت ویلنگٹن ہے جو لندن سے تقریباً انیس ہزار کلو میٹر دور ہے۔ اس شہر کی عمر میلبورن سے بھی کم ہے۔ انگریز وہاں بھی پہنچے اور حکومت کی۔ آج بھی آئینی طور پر برطانیہ کا بادشاہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کا بھی بادشاہ ہے اور ان ریاستوں کا سربراہ!
قدرت کی ہر کاریگری عجیب ہے اور دماغ کو چکرا دینے والی! ان دنوں جب ہمارے جنوبی ایشیا میں گرمی زوروں پر ہے نصف کرۂ جنوبی میں خوب سردی پڑ رہی ہے۔ نصف جنوبی کرے کے مشہور ملکوں میں برازیل‘ جنوبی افریقہ‘ ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ پیرو اور چلی شامل ہیں۔ ان سب ملکوں میں مئی‘ جون‘ جولائی میں سردی پڑتی ہے۔ ان ملکوں میں اردو پڑھنے والے اگر اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر پڑھیں گے: مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ؍ بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ ‘تو حیران ہوں گے کیونکہ ان ملکوں میں تو مئی سرد ہوتا ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے کہا ہے کہ: کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں؍ آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں‘ لیکن ان ملکوں میں دسمبر کی دھوپ گرمیوں کی دھوپ ہوتی ہے۔ انگریزی ادب پڑھنے والے بھی سٹپٹاتے ہوں گے۔ ورڈز ورتھ اور کیٹس کے برطانیہ میں بہار مارچ‘ اپریل میں ہوتی ہے اور آسٹریلیا اور زمین کے جنوبی حصے کے دوسرے ملکوں میں ستمبر‘ اکتوبر میں! سارا مسئلہ اس معشوق کا ہے جسے سورج کہتے ہیں۔ جدھر سورج کا منہ ہو گا اُدھر روشنی اور گرمی ہو گی۔
زمیں کا نصف جس میں ہم ہیں‘ روشن ہو گیا ہے
خوشا قسمت! کسی نے اس طرف چہرا کیا ہے
ان ملکوں میں سال کا طویل ترین دن اکیس یا بائیس دسمبر ہوتا ہے اور طویل تر ین رات اکیس جون کی ہوتی ہے۔ ایرانی بھائیوں کیلئے الگ مشکل ہے۔ ایران میں طویل ترین رات اکیس دسمبر کی ہوتی ہے۔ اس رات ایرانی ''شبِ یلدا‘‘ مناتے ہیں۔ مگر آسٹریلیا میں اکیس دسمبر کی رات مختصر ترین ہوتی ہے!!
ویسے سچ یہ ہے کہ جو مزے ہماری گرمیوں کے ہیں وہ ان ملکوں کی سردیوں میں کہاں! مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست میں ہمارے ہاں دن روشن ہوتے ہیں۔ کھلے ماتھے والے! شام کو باہر بیٹھنے کا مزا آتا ہے۔ آج کی نسل جو پنکھوں اور ایئر کنڈیشنروں کی غلام ہو چکی ہے‘ یہ بات نہیں سمجھے گی! ہماری عمر کے لوگوں نے گرمیوں کے خوب خوب مزے لوٹے ہیں۔ گاؤں میں تب بجلی تھی نہ برقی پنکھے! دوپہر کو ہاتھوں سے پنکھیاں جھلتے تھے۔ بازوؤں کی ورزش ہوتی تھی۔ ادھر عصر ہوتی‘ اُدھر صحنوں میں چھڑکاؤ کر دیا جاتا۔ چارپائیاں کمروں سے نکال کر صحن میں بچھائی جاتیں۔ ان پر مچھر دانیاں نصب کی جاتیں! کچھ لوگ چھت پر سوتے‘ کچھ صحن میں! ہوا چلتی اور رات کا پچھلا پہر اتنا خنک ہو جاتا کہ اوپر چادر یا کھیس لینا پڑتا۔ برصغیر پاک و ہند میں گرمی شدید ہے تو قدرت نے آم کی صورت میں تلافی بھی کر دی ہے۔ جو آم برصغیر میں پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پایا جاتا۔ جتنی زیادہ گرمی ہو گی اتنا ہی آم میٹھا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کو یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی گئی ہے۔ ملتان کے بارے میں جس نے بھی یہ شعر کہا ہے: چہار چیز است تحفۂ ملتان؍ گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان‘ اس نے انصاف نہیں کیا۔ عجیب شاعر تھا جسے ملتان کے آم نہیں یاد رہے۔ چونسا (ثمر بہشت) ہو اور بہت سا ہو تو گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان کی بھرپور تلافی ہو جاتی ہے۔ یہاں میلبورن میں پاکستانی آم ملتے ہیں مگر مہنگے اور محدود مقدار میں! جس مقدار میں ہم لوگ پھل‘ خاص طور پر آم تناول فرماتے ہیں‘ سفید فام لوگ اس مقدار کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم تو پیٹیوں کے حساب سے کھاتے ہیں۔ مونگ پھلی کی آمد سے پہلے ہمارے علاقے (فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ) میں دیسی خربوزے ہوتے تھے۔ مختلف رنگوں کے اور ازحد شیریں! ہمارے دادا نانا ہمارے لیے کھوتوں کے حساب سے منگواتے تھے۔ یعنی جتنے خربوزے ایک گدھا اٹھا سکتا! یہاں سفید فام لوگوں کو پھل خریدتے دیکھتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی! چار مالٹے یا آدھا تربوز! بہت ہوا تو ایک مکمل خربوزہ یا چار پانچ کیلے! اس پر یہ ستم ظریفی مستزاد کہ مالٹے ہوں یا کیلے‘ سب تول کر!! اسلام آباد میں ایک دوست کی رشتہ داری ایک امریکی سفید فام نوجوان سے ہے۔ (پاکستانی لڑکی سے شادی کی بنا پر)۔ وہ اسلام آباد آکر کچھ دن قیام پذیر رہا۔ اس کا میزبان‘ یعنی میرا دوست بتاتا ہے کہ پھل بیچنے والوں کو دیکھ کر یہ امریکی حیران ہوتا تھا۔ پھلوں سے اَٹی ہوئی ریڑھیاں اور دکانیں قطار اندر قطار! کہتا تھا تمہیں قدرت نے کتنے زیادہ پھل دیے ہیں! ابھی تو اس نے آم کے موسم میں پورے ملک میں آم کی پیٹیوں کی نقل و حرکت اور آمد و رفت نہیں دیکھی ورنہ شاید بے ہوش ہی ہو جاتا! مقدار کا مسئلہ تو غالب حل کر گئے تھے کہ بہت سے ہوں! اور میٹھے بھی! آم کی صفت میں جو قصیدہ کہا اس میں فرماتے ہیں:
انگبیں کے بحکم رب الناس؍ بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
یعنی شہد کے سر بمہر گلاس!! آم کھانے کا اصل‘ قدیم طریقہ تو یہی ہے کہ نرم کر کے‘ اوپر سے چھوٹا سوراخ کر کے چوسا جائے۔ اس طریقے سے اس کا رس پیا جا سکتا ہے گویا گلاس کے ساتھ تشبیہ جو دی ہے‘ نہایت بر محل ہے!! کیا کمال کی تشبیہ عطا کی ہے !! آج کل جس طریقے سے آم کھایا جانے لگا ہے‘ کاٹ کر مکعب
(Cubes)
کی شکل میں‘ وہ آم کے ساتھ صریح زیادتی ہے۔ آم نخروں اور نزاکتوں کے ساتھ نہیں کھایا جاتا‘ دو دو ہاتھ کر کے کھایا جاتا ہے۔ مغل ہندوستان میں آئے تو دو چیزوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ آم اور پان! شاہ جہان نے اورنگزیب کو دکن کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ہمیشہ گلہ کرتا کہ آم اچھے نہیں بھیجتا۔ اورنگزیب نے بھی اپنے بیٹے کو دکن کا گورنر لگایا۔ ''رقعاتِ عالم گیری‘‘ میں شکوہ کرتا ہے کہ میٹھے آم رکھ لیتے ہو اور خراب والے مجھے بھیج دیتے ہو! یوں تو اپنی اپنی پسند ہے مگر بھارت میں آج بھی عام طور پر جس آم (الفانسو) کو بہترین سمجھا جاتا ہے وہ جنوبی ہند ہی میں پیدا ہوتا ہے!
بات دور نکل گئی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ آسٹریلیا کے سرما میں پاکستان کی گرمیاں بہت یاد آتی ہیں! بقول افتخار عارف:
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ