میرے گاؤں کے ایک پڑھے لکھے صاحب ، انتصار صاحب ، نے اپنے ایریا کی اسسٹنٹ کمشنر کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی خدمت میں جو گزارشات انہوں نے پیش کی ہیں‘ وہ گزارشات صوبائی حکومت کی طرف سے ہدایات کی شکل میں جاری ہونی چاہیے تھیں! مگر المیہ یہ ہے کہ حکومت اس بات پر غور نہیں کرتی کہ انتظامیہ کے افسر وں کے تعلقات عوام کے ساتھ کیسے ہونے چاہئیں۔ حکومت کا سارا زور اس پہلو پر ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے افسر حکومت کے کتنے فرمانبردار ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری صوبائی حکومتوں کو ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقامی حکومتیں قائم کرنے سے روکتا ہے۔ یس سر‘ یس سر کی جو رَٹ اے سی یا ڈی سی یا کمشنر لگاتا ہے‘ وہ رَٹ منتخب نمائندہ کبھی نہیں لگائے گا۔ ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے وہ جمہوریت کے ساتھ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ صوبوں کو چیف منسٹروں نے اپنی اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ جکڑنے کے اس عمل میں چیف سیکرٹری‘ کمشنر‘ ڈی سی اور اے سی چیف منسٹر کی مدد کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوام کا کوئی عمل دخل‘ کوئی Say نہیں! یہاں ایک بار پھر یہ سچ دہرانا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ عہد سے جو خیر کا پہلو نکلا تھا وہ ضلعی حکومتوں کی تشکیل تھی۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جو ہمیں کئی دہائیاں آگے لے گیا تھا۔ افسوس! صد افسوس! جمہوریت واپس آئی تو اس نے سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے اس نظام کو ڈسا اور ہلاک کیا۔ ہم کئی سال پیچھے پلٹ آئے۔ اب مجبور اور مقہور عوام بیورو کریسی کی اُس دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں جس میں کوئی دروازہ نہیں! یہ وہ حاکم ہیں جن کی علاقے میں جڑیں ہیں نہ انہوں نے تبادلہ ہو جانے کے بعد کبھی یہاں پلٹ کر آنا ہے۔ جو ضلع ناظم یا تحصیل ناظم لوگوں کے ووٹوں کی مدد سے حاکم بنے گا وہ صحیح معنوں میں عوام کا خادم ہوگا۔ اس نے یہیں رہنا ہو گا۔ یہیں مرنا ہو گا۔ یہیں سیاست کرنا ہو گی۔ اس کے سیاسی حریف اس کی کڑی نگرانی کر رہے ہوں گے۔ وہ کوئی غلط کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کرے گا اس لیے کہ اسے تادمِ مرگ انہی لوگوں میں رہنا ہو گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ عوام کی بات سننے کے لیے دستیاب ہو گا۔ اس کے رشتہ دار‘ اس کے احباب‘ اس کے خیر اندیش‘ اسے ہر وقت فیڈ بیک دیں گے۔ سرکاری فنڈز استعمال کرنے میں وہ محتاط بھی ہو گا اور دور اندیش بھی! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عوامی نمائندہ اَن پڑھ بھی ہو تو مقامی مسائل سے اُس نوکر شاہی کی نسبت زیادہ آگاہ ہو گا جو لندن یا ہارورڈ سے پڑھ کے آئی ہو گی! وہ یس سر‘ یس سر نہیں کہے گا بلکہ اپنا مؤقف بلا کھٹکے‘ دلیل کے ساتھ پیش کرے گا اور اپنی تحصیل کے لیے‘ اپنے ضلع کے لیے‘ اپنے علاقے کے لیے سٹینڈ لے گا! جو جانتا ہے وہ جانتا ہے‘ جو نہیں جانتا‘ وہ جان لے کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے بغیر‘ اور فنڈز پر ان کے اختیار کے بغیر جمہوریت محض ایک دھوکا ہے۔ اے سی اور ڈی سی سسٹم انگریزی عہد کی یادگار ہے۔ یہ سسٹم ملکہ برطانیہ کے اقتدار کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ سسٹم اگر اچھا ہوتا تو برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی موجود ہوتا۔
اب وہ خط پڑھیے جو اسسٹنٹ کمشنر کو لکھا گیا ہے:
''سب سے پہلے بطور اسسٹنٹ کمشنر‘ تعیناتی پر دلی مبارکباد قبول کیجیے۔ آپ جیسی تعلیم یافتہ‘ نوجوان اور پُرعزم خاتون کو اس عہدے پر دیکھ کر دل میں خوشی اور امید دونوں ابھرتی ہیں۔ یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں۔ یہ ایک بھاری‘ باوقار اور عوامی خدمت سے جڑی ہوئی ذمہ داری ہے‘ جہاں محض فائلوں پر دستخط نہیں ہوتے بلکہ ایک پوری تحصیل کی دعائیں یا بددعائیں وابستہ ہوتی ہیں۔ فتح جنگ‘ جو سرکاری نقشوں میں ایک تحصیل کہلاتی ہے‘ اصل میں ایک وسیع اور متنوع انسانی بستی ہے۔ 203 گاؤں‘ 23 یونین کونسلیں‘ ہزاروں افراد اور سینکڑوں مسائل۔ اور یہ سب آخرکار آپ کے دفتر کی دہلیز تک آتے ہیں۔ آپ کی حیثیت صرف ایک انتظامی افسر کی نہیں بلکہ ایک سرکاری مسیحا کی بھی ہے‘ جس سے لوگ اپنے دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں۔ یقیناً آپ اپنی صلاحیتوں‘ جذبے اور تجربے سے ان ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں گی۔
تاہم ایک سادہ سی گزارش ہے جو ہر روز آپ کے دفتر میں آنے والے ان سائلین کے تجربات سے جڑی ہے‘ جو فائلیں سنبھالے‘ امیدیں باندھے‘ کبھی پیدل‘ کبھی سوزوکی‘ کبھی موٹر سائیکل یا بس پر بیٹھ کر کئی کئی کلومیٹر طے کرکے آپ کے دفتر پہنچتے ہیں۔ کوئی اسلام آباد سے آتا ہے‘ کوئی اٹک سے‘ کوئی کسی دور دراز گاؤں سے۔ کوئی نوجوان‘ کوئی بزرگ‘ کوئی بیمار‘ کوئی لاچار۔ کسی کو صرف دستخط درکار ہوتے ہیں‘ کسی کی زمین کا فرد آپ کی منظوری کا محتاج ہوتا ہے‘ کوئی پٹواری سے تنگ آ کر آیا ہوتا ہے اور کوئی وراثتی کاغذات کے سلسلے میں۔ لیکن جب یہ سائل دفتر پہنچ کر آپ کے سٹاف سے یہ سنتے ہیں کہ ''نہیں معلوم میڈم کب آئیں گی... اگر میٹنگ کے لیے اٹک چلی گئیں تو شاید آج نہ آئیں...‘‘ تو ان کے چہروں سے امید چھن جاتی ہے۔ کچھ لوگ یہ جملہ سن کر وہیں بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید بیٹھے رہنے سے کوئی معجزہ رونما ہو جائے‘ اور کچھ اگلے دن آنے کا ارادہ لے کر خاموشی سے لوٹ جاتے ہیں۔ دفتر کے باہر بیٹھنے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں۔ صرف چند نیلے رنگ کی پلاسٹک کی کرسیاں ہیں‘ جن میں سے کچھ ٹوٹی ہوئی ہیں‘ کچھ پر بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ اوپر لگے پنکھے کے بارے میں سٹاف کہتا ہے کہ وہ ''جل چکا ہے‘‘۔ ایسے میں لوگ پسینے سے شرابور‘ اپنی فائلوں سے خود کو ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ انہیں یہ نہیں علم ہوتا کہ انتظار کریں یا واپس چلے جائیں۔ دفتر آپ کے لیے ایک معمول کی جگہ ہے لیکن سائل کے لیے آخری امید ہوتا ہے۔
سو‘ گزارش ہے کہ عوامی ملاقات کے لیے روزانہ کا ایک واضح‘ مقررہ وقت طے کر دیں۔ چاہے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے‘ جتنا ممکن ہو۔ یہ وقت باقاعدہ طور پر تحصیل کے تمام گاؤں‘ یونین کونسلوں اور عوامی مقامات پر مشتہر کیا جائے‘ تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ کب آنا ہے اور کب آپ سے ملاقات یقینی ہو گی۔ آپ کے دفتر سے قریبی پبلک ٹرانسپورٹ سٹاپ کم از کم ڈیڑھ سے دو کلومیٹر دور ہے۔ ایسے میں جو بزرگ حضرات پبلک ٹرانسپورٹ سے آتے ہیں‘ وہ اس شدید گرمی میں پیدل چل کر دفتر پہنچتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہو کہ اس مخصوص وقت میں آپ خود موجود ہوں گی‘ تو نہ صرف ان کا سفر بامقصد ہو گا‘ بلکہ ان کے اندر اس نظام پر اعتماد بھی بحال ہو گا۔ اور اس مخصوص وقت میں اگر کوئی اعلیٰ افسر بھی میٹنگ کے لیے بلائے‘ تو آپ فخر سے یہ بھی کہہ سکیں گی کہ ''یہ وقت میں نے اپنے عوام کے لیے مخصوص کر رکھا ہے‘‘۔ اگرچہ یہ ایک بڑا مشکل کام ہوگا آپ کے لیے۔
یہ ایک چھوٹا سا قدم ہو گا‘ لیکن اس کا اثر بڑا اور دوررس ہو گا۔ اس قسم کے اقدامات آپ کی تحصیل کو ایسی مثالی تحصیل بنائیں گے جہاں عوام کو نظام سے شکایت نہیں بلکہ سہولت ملتی ہے۔ امید ہے آپ اس گزارش کو ایک شکایت کے طور پر نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر دیکھیں گی‘ ایک موقع کہ آپ خلقِ خدا کا دل جیت سکیں! ایک موقع کہ آپ بیورو کریسی کو ایک انسان دوست ادارہ ثابت کر سکیں‘‘۔