Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 29, 2025

…ایک خط‘ اسسٹنٹ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے لیے



میرے گاؤں کے ایک پڑھے لکھے صاحب ، انتصار صاحب ، نے اپنے ایریا کی اسسٹنٹ کمشنر کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی خدمت میں جو گزارشات انہوں نے پیش کی ہیں‘ وہ گزارشات صوبائی حکومت کی طرف سے ہدایات کی شکل میں جاری ہونی چاہیے تھیں! مگر المیہ یہ ہے کہ حکومت اس بات پر غور نہیں کرتی کہ انتظامیہ کے افسر وں کے تعلقات عوام کے ساتھ کیسے ہونے چاہئیں۔ حکومت کا سارا زور اس پہلو پر ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے افسر حکومت کے کتنے فرمانبردار ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری صوبائی حکومتوں کو ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقامی حکومتیں قائم کرنے سے روکتا ہے۔ یس سر‘ یس سر کی جو رَٹ اے سی یا ڈی سی یا کمشنر لگاتا ہے‘ وہ رَٹ منتخب نمائندہ کبھی نہیں لگائے گا۔ ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے وہ جمہوریت کے ساتھ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ صوبوں کو چیف منسٹروں نے اپنی اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ جکڑنے کے اس عمل میں چیف سیکرٹری‘ کمشنر‘ ڈی سی اور اے سی چیف منسٹر کی مدد کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوام کا کوئی عمل دخل‘ کوئی Say نہیں! یہاں ایک بار پھر یہ سچ دہرانا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ عہد سے جو خیر کا پہلو نکلا تھا وہ ضلعی حکومتوں کی تشکیل تھی۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جو ہمیں کئی دہائیاں آگے لے گیا تھا۔ افسوس! صد افسوس! جمہوریت واپس آئی تو اس نے سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے اس نظام کو ڈسا اور ہلاک کیا۔ ہم کئی سال پیچھے پلٹ آئے۔ اب مجبور اور مقہور عوام بیورو کریسی کی اُس دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں جس میں کوئی دروازہ نہیں! یہ وہ حاکم ہیں جن کی علاقے میں جڑیں ہیں نہ انہوں نے تبادلہ ہو جانے کے بعد کبھی یہاں پلٹ کر آنا ہے۔ جو ضلع ناظم یا تحصیل ناظم لوگوں کے ووٹوں کی مدد سے حاکم بنے گا وہ صحیح معنوں میں عوام کا خادم ہوگا۔ اس نے یہیں رہنا ہو گا۔ یہیں مرنا ہو گا۔ یہیں سیاست کرنا ہو گی۔ اس کے سیاسی حریف اس کی کڑی نگرانی کر رہے ہوں گے۔ وہ کوئی غلط کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کرے گا اس لیے کہ اسے تادمِ مرگ انہی لوگوں میں رہنا ہو گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ عوام کی بات سننے کے لیے دستیاب ہو گا۔ اس کے رشتہ دار‘ اس کے احباب‘ اس کے خیر اندیش‘ اسے ہر وقت فیڈ بیک دیں گے۔ سرکاری فنڈز استعمال کرنے میں وہ محتاط بھی ہو گا اور دور اندیش بھی! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عوامی نمائندہ اَن پڑھ بھی ہو تو مقامی مسائل سے اُس نوکر شاہی کی نسبت زیادہ آگاہ ہو گا جو لندن یا ہارورڈ سے پڑھ کے آئی ہو گی! وہ یس سر‘ یس سر نہیں کہے گا بلکہ اپنا مؤقف بلا کھٹکے‘ دلیل کے ساتھ پیش کرے گا اور اپنی تحصیل کے لیے‘ اپنے ضلع کے لیے‘ اپنے علاقے کے لیے سٹینڈ لے گا! جو جانتا ہے وہ جانتا ہے‘ جو نہیں جانتا‘ وہ جان لے کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے بغیر‘ اور فنڈز پر ان کے اختیار کے بغیر جمہوریت محض ایک دھوکا ہے۔ اے سی اور ڈی سی سسٹم انگریزی عہد کی یادگار ہے۔ یہ سسٹم ملکہ برطانیہ کے اقتدار کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ سسٹم اگر اچھا ہوتا تو برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی موجود ہوتا۔
اب وہ خط پڑھیے جو اسسٹنٹ کمشنر کو لکھا گیا ہے:
''سب سے پہلے بطور اسسٹنٹ کمشنر‘ تعیناتی پر دلی مبارکباد قبول کیجیے۔ آپ جیسی تعلیم یافتہ‘ نوجوان اور پُرعزم خاتون کو اس عہدے پر دیکھ کر دل میں خوشی اور امید دونوں ابھرتی ہیں۔ یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں۔ یہ ایک بھاری‘ باوقار اور عوامی خدمت سے جڑی ہوئی ذمہ داری ہے‘ جہاں محض فائلوں پر دستخط نہیں ہوتے بلکہ ایک پوری تحصیل کی دعائیں یا بددعائیں وابستہ ہوتی ہیں۔ فتح جنگ‘ جو سرکاری نقشوں میں ایک تحصیل کہلاتی ہے‘ اصل میں ایک وسیع اور متنوع انسانی بستی ہے۔ 203 گاؤں‘ 23 یونین کونسلیں‘ ہزاروں افراد اور سینکڑوں مسائل۔ اور یہ سب آخرکار آپ کے دفتر کی دہلیز تک آتے ہیں۔ آپ کی حیثیت صرف ایک انتظامی افسر کی نہیں بلکہ ایک سرکاری مسیحا کی بھی ہے‘ جس سے لوگ اپنے دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں۔ یقیناً آپ اپنی صلاحیتوں‘ جذبے اور تجربے سے ان ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں گی۔
تاہم ایک سادہ سی گزارش ہے جو ہر روز آپ کے دفتر میں آنے والے ان سائلین کے تجربات سے جڑی ہے‘ جو فائلیں سنبھالے‘ امیدیں باندھے‘ کبھی پیدل‘ کبھی سوزوکی‘ کبھی موٹر سائیکل یا بس پر بیٹھ کر کئی کئی کلومیٹر طے کرکے آپ کے دفتر پہنچتے ہیں۔ کوئی اسلام آباد سے آتا ہے‘ کوئی اٹک سے‘ کوئی کسی دور دراز گاؤں سے۔ کوئی نوجوان‘ کوئی بزرگ‘ کوئی بیمار‘ کوئی لاچار۔ کسی کو صرف دستخط درکار ہوتے ہیں‘ کسی کی زمین کا فرد آپ کی منظوری کا محتاج ہوتا ہے‘ کوئی پٹواری سے تنگ آ کر آیا ہوتا ہے اور کوئی وراثتی کاغذات کے سلسلے میں۔ لیکن جب یہ سائل دفتر پہنچ کر آپ کے سٹاف سے یہ سنتے ہیں کہ ''نہیں معلوم میڈم کب آئیں گی... اگر میٹنگ کے لیے اٹک چلی گئیں تو شاید آج نہ آئیں...‘‘ تو ان کے چہروں سے امید چھن جاتی ہے۔ کچھ لوگ یہ جملہ سن کر وہیں بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید بیٹھے رہنے سے کوئی معجزہ رونما ہو جائے‘ اور کچھ اگلے دن آنے کا ارادہ لے کر خاموشی سے لوٹ جاتے ہیں۔ دفتر کے باہر بیٹھنے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں۔ صرف چند نیلے رنگ کی پلاسٹک کی کرسیاں ہیں‘ جن میں سے کچھ ٹوٹی ہوئی ہیں‘ کچھ پر بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ اوپر لگے پنکھے کے بارے میں سٹاف کہتا ہے کہ وہ ''جل چکا ہے‘‘۔ ایسے میں لوگ پسینے سے شرابور‘ اپنی فائلوں سے خود کو ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ انہیں یہ نہیں علم ہوتا کہ انتظار کریں یا واپس چلے جائیں۔ دفتر آپ کے لیے ایک معمول کی جگہ ہے لیکن سائل کے لیے آخری امید ہوتا ہے۔
سو‘ گزارش ہے کہ عوامی ملاقات کے لیے روزانہ کا ایک واضح‘ مقررہ وقت طے کر دیں۔ چاہے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے‘ جتنا ممکن ہو۔ یہ وقت باقاعدہ طور پر تحصیل کے تمام گاؤں‘ یونین کونسلوں اور عوامی مقامات پر مشتہر کیا جائے‘ تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ کب آنا ہے اور کب آپ سے ملاقات یقینی ہو گی۔ آپ کے دفتر سے قریبی پبلک ٹرانسپورٹ سٹاپ کم از کم ڈیڑھ سے دو کلومیٹر دور ہے۔ ایسے میں جو بزرگ حضرات پبلک ٹرانسپورٹ سے آتے ہیں‘ وہ اس شدید گرمی میں پیدل چل کر دفتر پہنچتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہو کہ اس مخصوص وقت میں آپ خود موجود ہوں گی‘ تو نہ صرف ان کا سفر بامقصد ہو گا‘ بلکہ ان کے اندر اس نظام پر اعتماد بھی بحال ہو گا۔ اور اس مخصوص وقت میں اگر کوئی اعلیٰ افسر بھی میٹنگ کے لیے بلائے‘ تو آپ فخر سے یہ بھی کہہ سکیں گی کہ ''یہ وقت میں نے اپنے عوام کے لیے مخصوص کر رکھا ہے‘‘۔ اگرچہ یہ ایک بڑا مشکل کام ہوگا آپ کے لیے۔
یہ ایک چھوٹا سا قدم ہو گا‘ لیکن اس کا اثر بڑا اور دوررس ہو گا۔ اس قسم کے اقدامات آپ کی تحصیل کو ایسی مثالی تحصیل بنائیں گے جہاں عوام کو نظام سے شکایت نہیں بلکہ سہولت ملتی ہے۔ امید ہے آپ اس گزارش کو ایک شکایت کے طور پر نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر دیکھیں گی‘ ایک موقع کہ آپ خلقِ خدا کا دل جیت سکیں! ایک موقع کہ آپ بیورو کریسی کو ایک انسان دوست ادارہ ثابت کر سکیں‘‘۔

Thursday, July 24, 2025

قبائلی سرداروں کا خفیہ اجلاس

یہ خفیہ اجلاس ایسے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام پر منعقد ہو رہا تھا جہاں کوئی سرکاری چڑیا یا میڈیا کا کبوتر خواب میں بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بحیرۂ عرب کا ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ کچھ کہتے ہیں یہ بلوچستان کے اونچے پہاڑوں کے درمیان ایک ایسی جگہ تھی جس کا علم ان قبائلی سرداروں کے علاوہ کسی کو بھی نہ تھا۔ ایک ذریعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کی سمندری حدود سے پرے‘ بحر ہند میں ایک عظیم الجثہ بحری جہاز میں برپا ہوا۔ یہ جہاز بحری قزاقوں کا تھا جن سے ان سرداروں کا گہرا اور پرانا پیشہ ورانہ (پروفیشنل) تعلق تھا۔ اجلاس کے مقام کے ارد گرد دور دور تک اتنا کڑا پہرا تھا کہ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ سرداروں نے بڑی بڑی پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے خوفناک‘ لمبی‘ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں! ایک ایک سردار کے پچاس پچاس‘ سو سو محافظ تھے۔ ان کے پاس بندوقیں‘ ریوالور‘ کلاشنکوفیں‘ دستی گرنیڈ اور نجانے کیا کیا تھا۔ کھانے کے لیے بیسیوں دنبے‘ درجنوں بکرے اور بڑی تعداد میں مرغ‘ تیتر اور بٹیر لائے گئے تھے۔ اتنی سکیورٹی‘ اتنا پروٹوکول‘ اتنی خدمت اور اتنی حفاظت ملکوں کے سربراہ اکٹھے ہوں تو تب بھی نہیں ہوتی۔

سرداروں کی اکثریت خوف زدہ تھی! اجلاس کے دوران انہوں نے اس خوف کا اظہار برملا کیا۔ بانو اور احسان اللہ کے وحشیانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پر عوام نے جس طرح احتجاج کیا اور جس طرح یہ روح فرسا خبر پوری دنیا میں پھیلی‘ اس سے سردار اس ڈر میں مبتلا ہو گئے تھے کہ حکومت کوئی سخت ایکشن نہ لے لے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ سزا دینا ان کا حق ہے۔ قبائلی روایات کی حفاظت ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یکے بعد دیگرے ہر سردار نے انہی خدشات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آج اگر کاروکاری پر پابندی لگا دی تو کل جلتے کوئلوں پر چلا کر چور کو پکڑنے کی روایت پر پابندی لگا دیں گے۔ پرسوں کہیں گے کہ سردار کا قبیلے کے لوگوں کی نجی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اس طرح تو قبیلے پر سردار کی حاکمیت بے اثر ہوتے ہوتے ایک دن بالکل ہی ختم ہو جائے گی۔ سردار تو قبیلے کے لوگوں کی زندگیوں کا مالک ہے۔ وہ جسے چاہے زندہ رکھے‘ جسے چاہے مار دے۔ جسے چاہے تعلیم حاصل کرنے سے روک دے۔ اس کا حق ہے کہ ''مجرم‘‘ کے جسم پر گُڑ کا شیرہ مل کر چیونٹیوں بھری غار میں پھینک دے۔ جب سرکاری ملازموں کو سردار کی پرچی کے بغیر تنخواہ نہیں مل سکتی تو قبیلے کے ارکان کی کیا حیثیت ہے کہ سردار کے سامنے زبان کھولیں یا اس کے حکم سے سرتابی کریں۔ بڑا سردار جو اجلاس کی صدارت کر رہا تھا‘ سب کی تقریریں سنتا رہا۔ اس کا چہرا کسی قسم کے تاثر یا رد عمل سے خالی تھا۔ اسے اپنے جذبات چھپانے پر اتنی ہی قدرت تھی جتنی اپنے ارادے چھپانے پر۔ اس کی سرداری کا دائرہ وسیع و عریض تھا۔ اس کے اعصاب مضبوط تھے۔ اس کا دل رحم سے خالی تھا۔ اس کے لیے قتل‘ سنگسار‘ اندھے کنویں میں پھینکنا‘ ٹانگیں اور بازو توڑ دینا‘ میاں بیوی کو الگ کر دینا‘ بیوی‘ بیٹی چھین لینا‘ یہ سب معمول کی کارروائیاں تھیں۔
پہلے سیشن کے اختتام پر کھانے کا وقفہ ہوا۔ تکوں‘ کبابوں کی بہار تھی۔ دم پخت اور کھڈا کباب وافر تھے۔ مسلّم بکرے اور دنبے ہی نہیں‘ بھُنی ہوئی سالم گائیں بھی حاضر تھیں۔ کھانے کے بعد قہوے کا دور چلا۔ دوسرے سیشن میں بڑے سردار کی صدارتی تقریر تھی۔ مکمل سناٹا تھا۔ بڑے سردار نے بولنا شروع کیا۔ کیا خود اعتمادی تھی! ایسی خود اعتمادی جو سسلی مافیا کے سب سے بڑے ڈان کو بھی نصیب نہ ہوئی تھی! بڑے سردار نے کہا ''میں نے تم سب کے مؤقف سنے۔ بظاہر تمہارے خدشات معقول نظر آتے ہیں! مگر اصل میں ایسا نہیں! تمہاری باتیں سطحی ہیں۔ تمہارا تجزیہ ناقص ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھو۔ جس سردار نے کوئٹہ میں دن دہاڑے ٹریفک پولیس کے اہلکار حاجی عطا اللہ کو اپنی گاڑی کے نیچے قتل کر دیا تھا کیا اسے سزا ملی؟ کیا اسے پھانسی پر لٹکایا گیا؟ اس ملک کے نظامِ انصاف سے تمہارا اعتماد کیوں اٹھنے لگا ہے؟ یہ نظامِ انصاف تمہارے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔ یہ تمہاری حفاظت کر رہا ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ بانو اور احسان اللہ کے قتل کا حکم دینے والا اور قتل کرنے والے سب بخیرو عافیت واپس آجائیں گے۔ چند پیشیاں ہوں گی‘ کچھ دن جیل میں رہیں گے۔ اس کے بعد ستّے خیراں! اور جیل ہو یا پیشی‘ پروٹوکول انہیں پورا ملے گا۔ تم بھول رہے ہو کہ تمہاری قوت کا منبع جرگہ سسٹم ہے۔ یہ جرگے‘ یہ پنچایتیں‘ یہی تو قبائلی نظام کی بنیادیں ہیں! تم خود سوچو! یہ 2025ء ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور مہذب جمہوری ملک میں نجی عدالتوں کا وجود ہے؟ اگر یہ متوازی عدالتیں آج تک کسی حکومت نے ختم نہیں کیں تو آئندہ کون مائی کا لعل ہے جو انہیں ختم کرے؟ کوئی اور ملک ہوتا تو جرگوں میں بیٹھنے والوں اور فیصلے صادر کرنے والوں کے زن بچے کولہو میں پیلوا دیے جاتے۔ جرگوں اور پنچایتوں کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا۔ تم خود سوچو! بانو اور احسان اللہ کے قتل کے بعد کسی اسمبلی‘ کسی کابینہ میں جرگہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھی ہے؟ کسی حکمران میں اتنی ذہانت ہی نہیں کہ مسئلے کی تہہ تک جائے۔ انہیں ادراک ہی نہیں! یہ تو وہ حکومتیں ہیں جو کینسر کا علاج پیراسیٹامول سے کرتی ہیں۔ تمہارے اقتدار کی کنجی جرگہ سسٹم میں ہے۔ یہ جرگہ سسٹم ہے جس کی وجہ سے تمہارا قبیلہ تم سے ڈرتا ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جرگے کی صدارت اور فیصلہ سازی سردار کے پاس ہے۔ اور میں تمہیں قول دیتا ہوں کہ جرگہ سسٹم کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ عدلیہ ہے یا مقننہ یا انتظامیہ‘ کسی میں اتنا ادراک نہیں کہ بیماری کو جڑ سے پکڑے! یہ سطحی دماغ ہیں۔ اور یہ سطحیت‘ یہ اوسط سے کم درجے کی ذہانت‘ یہی تمہاری خوش قسمتی ہے! اور ہاں! میں تمہیں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ بلوچستان کا سرداری نظام جو ہمارے اقتدار کی اصل بنیاد ہے‘ قائم و دائم رہے گا۔ یہ وہ نظام ہے جس کی مثال افریقہ کے جنگلوں میں شاید مل جائے‘ باقی دنیا میں نہیں مل سکتی! پاکستان کی کسی حکومت میں دم خم نہیں کہ ہمارے سرداری نظام کو نقصان پہنچا سکے۔ بلوچستان کے گورنروں اور چیف منسٹروں کی اب تک کی فہرست دیکھ لو‘ صوبے کی حکومت ہمارے پاس ہی رہی ہے۔ ایک آدھ بار ڈاکٹر عبدالمالک جیسا عام بلوچی وزیراعلیٰ بنا بھی تو جلد ہی ہٹا بھی تو دیا گیا۔ سو‘ نوجوان سردارو! دل چھوٹے نہ کرو! ہمت نہ ہارو! اپنے قدم دھرتی پر مضبوطی سے رکھو! لوگوں کو غیرتعلیم یافتہ کرنے کی کوشش میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ سکولوں اور کالجوں کو خطرے کی گھنٹی سمجھو۔ جہالت اور غربت تمہارے اقتدار کے ستون ہیں۔ یہ جو سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو تم نے غلے کے گوداموں میں تبدیل کر دیا ہے اور ان میں اپنے مویشی باندھتے ہو تو بالکل ٹھیک کیا ہے۔ اپنے بچوں کو بے شک اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجو مگر یاد رکھو‘ قبیلے کے عام افراد کے بچے کراچی اور لاہور تک بھی نہ جائیں! انہیں شہروں کی ہوا نہ لگنے پائے۔ اور ہاں! انہیں باور کراتے رہو کہ پنجاب ان کا دشمن ہے۔ انہیں اسی غلط فہمی میں رہنے دو!‘‘۔
خفیہ اجلاس کے اختتام پر سب سردار ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۔ ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں۔ اور بڑے سردار کا شکریہ ادا کیا۔
وضاحت۔ اس اجلاس کی روداد مجھے صدر ٹرمپ نے سنائی ہے۔ جس نے تصدیق کرنی ہو‘ صدر ٹرمپ سے رابطہ کر لے۔

Tuesday, July 22, 2025

میں‘ گھڑ سوار اور کوڑے



آپ اس گھڑ سوار کو دیکھ رہے ہیں؟
اس کا گھوڑا بہترین ہے۔ اس گھوڑے کی خوراک میں مربّے‘ بادام اور سیب شامل ہیں۔ اس کی لگام اور رکابیں سونے کی ہیں۔ زین چاندی کی ہے۔ وہ تو گھڑ سوار کا بس نہیں چلتا ورنہ اس گھوڑے کی آنکھ ستارہ ہوتی اور نعل ہلال ہوتا! جو ملازم اس گھوڑے کی دیکھ بھال پر مامور ہے‘ اس کی تنخواہ وزیر کی تنخواہ سے زیادہ ہے اور مرتبہ بلند تر! اور گھڑ سوار کی تو کیا ہی شان و شوکت ہے! اس کا لباس مخمل کا ہے۔ اس کے جوتوں پر نگینے جڑے ہیں۔ تاج ہیروں اور جواہر سے مزیّن ہے۔ اس کا ترکش اور نیام از حد قیمتی ہے۔
اس عیش و عشرت کے‘ اس طمطراق‘ اس آن بان‘ اس شان و شکوہ‘ اس کرو فر کے اور اس شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں؟ بھائی! اس کے اخراجات میری جیب سے جاتے ہیں۔ میری حالت پر‘ میری ہیئت کذائی پر اور میرے میلے‘ پھٹے پرانے ملبوس پر نہ جاؤ‘ یہ نہ دیکھو کہ میرے جوتوں میں چھید ہیں‘ میری ٹوپی بوسیدہ ہے‘ میرے پاس سواری کے لیے ایک مریل گدھے کے سوا کچھ نہیں‘ میرا گھر مٹی اور بھوسہ ملے گارے سے اور بانس کی تیلیوں اور درختوں کی شاخوں سے بنا ہے۔ یقین کرو کہ اس سب کچھ کے باوجود یہ میں ہوں جو اس گھڑ سوار کے آسماں بوس معیارِ زندگی کو برقرار رکھے ہوں! وہ یوں کہ میں جو کچھ کماتا ہوں اور جو کچھ اُگاتا ہوں اور جو کچھ پکاتا ہوں سب اس گھڑ سوار کے حوالے کر دیتا ہوں! اور ایسا بھی نہ سوچنا کہ میں دریدہ لباس‘ کمزور سا شخص آخر کتنا کما لیتا ہوں گا اور کتنا اُگا لیتا ہوں گا اور کتنا پکا لیتا ہوں گا۔ میں جو کچھ کھیت سے اُگاتا ہوں اور کارخانے میں بناتا ہوں اور جو کچھ تجارت سے حاصل کرتا ہوں اور جو کچھ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر کماتا ہوں اس کا معتدبہ حصہ اس گھڑ سوار ہی کے پاس جاتا ہے۔ جو کچھ بھی اس کے وزیروں‘ مشیروں‘ امرا اور عمائدین کے پاس ہے سب میرا دیا ہوا ہے۔ میں آٹا خریدتا ہوں یا چینی‘ ادویات یا لباس‘ جوتے یا جرابیں‘ ہر شے کی قیمت میں اس گھڑ سوار کا حصہ ہے۔ میں ایک ہزار کا کریڈٹ موبائل فون میں ڈلواؤں تو اس میں سے بھی اڑھائی تین سو روپے گھڑ سوار کو جاتے ہیں! تم نے سنا ہو گا کہ کسی زمانے میں
 Serfdom
کا راج تھا۔ اس عہد میں غلام جو کچھ کماتے تھے‘ مالک کو دے دیتے تھے۔ کسی زمانے میں 
Fiefdom
کا بول بالا تھا۔ اس دور میں ہاری اور مزارع سب کچھ جاگیردار کے حوالے کر دیتے تھے مگر میرے زمانے میں یہ سب موجود ہیں اور پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ تم مانو یا نہ مانو‘ میں غلام بھی ہوں‘ ہاری بھی ہوں اور مزارع بھی!
اور مجھے اس سب کچھ کا صلہ کیا ملتا ہے؟ کیا تم نے وہ کوڑا نہیں دیکھا جو گھڑ سوار کے ہاتھ میں ہے؟ اس کا دستہ خالص سونے کا ہے۔ اس کے آگے کے حصے میں وہ چمڑا ہے جو سوکھ کر سخت ہو گیا ہے۔ صلے میں مجھے یہ کوڑا ہی پڑتا ہے۔ ہر ضرب سے میری پیٹھ کی کھال اُدھڑتی ہے۔ ایک کوڑا پڑتا ہے تو میرے بجلی کے بل میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک اور کوڑا پڑتا ہے تو میرے سولر پینل کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ پھر ایک اور کوڑا پڑتا ہے‘ اس سے میری بنائی ہوئی چینی برآمد ہو جاتی ہے۔ گھڑ سوار کی‘ اس کے درباریوں کی‘ اس کے عمائدین کی چاندی ہو جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد کوڑے کی سنسناہٹ پھر سنائی دیتی ہے اور میری پشت سے اُترے ہوئے گوشت کی سڑاند میری ہی ناک میں آتی ہے۔ اب کے چینی درآمد ہوتی ہے‘ درآمد کیے جانے پر ٹیکس معاف ہو جاتا ہے مگر میرے لیے چینی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ چینی کے کارخانے ہیں یا بجلی پیدا کرنے والے کارخانے‘ سب گھڑ سوار کے ہیں یا اس کے درباریوں اور امرا و عمائدین کے!
اور ہاں ایک بات تو میں بتانا بھول ہی گیا۔ گھوڑا وہی رہتا ہے‘ گھوڑے کی دیکھ بھال کرنے والے مراعات یافتہ ملازم بھی وہی رہتے ہیں‘ بس گھڑ سوار بدلتا رہتا ہے! نئے گھڑ سوار کا لباس بھی مخملیں ہو جاتا ہے۔ جوتوں پر نگینے بھی لگ جاتے ہیں۔ ہیروں والا تاج اس کے سر پر بھی طاقت کی بہار دکھانے لگ جاتا ہے۔ مگر گھڑ سوار کے بدلنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے ایک گھڑ سوار آیا‘ اس نے میری ننگی پیٹھ پر کوڑا مارا تو دنیا میں میرے جہازوں اور پائلٹوں پر پابندی لگ گئی۔ کروڑوں اربوں کا نقصان ہوا مگر کسی نے گھڑ سوار سے کچھ پوچھا‘ نہ اس کے وزیر سے! اب ایک اور گھڑ سوار مجھے ایک اور کوڑے کی ضرب لگا کر خوشخبری دیتا ہے کہ جس ٹریفک والے نے اس کے بیٹے کی سکیورٹی کی گاڑی کا چالان کیا ہے‘ اسے شاباش دی گئی ہے۔ یہ شاباش بھی کوڑے کی ضرب ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیٹے کو سکیورٹی اور پروٹوکول کی گاڑیاں کس قانون کے تحت دی گئی ہیں؟ گاڑیوں کا خرچ اور ان کے کوچوانوں کی تنخواہوں کا خرچ بھی مجھ سیاہ بخت کی جیب سے نکالا جائے گا! افسوس صد افسوس!! تو کیا ہم مغلوں‘ خلجیوں اور تغلقوں کے عہد میں جی رہے ہیں؟ ان مطلق العنان بادشاہوں کے زمانے میں سرکاری خزانے سے شہزادوں اور شہزادیوں پر روپیہ لٹایا جاتا تھا۔ کوئی پوچھنے والا تھا نہ خزانہ دار کی ہمت تھی کہ انکار کرے! شاہی اخراجات کے آڈٹ کا تصور ہی نہیں تھا۔ پھر انگریز آئے۔ 1777ء میں اکاؤنٹنٹ جنرل تعینات کر دیا گیا۔ گیارہ سال بعد آڈیٹر نے بھی کام شروع کر دیا۔ 1843ء میں جب بہادر شاہ ظفر مشاعروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا‘ انگریز حکومت نے سیکرٹری فنانس کی پوسٹ قائم کر دی اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو ہدایت کی کہ سیکرٹری فنانس کی منظوری کے بغیر کوئی بل نہ پاس کیا جائے۔ یہ تھا وہ مستحکم مالیاتی نظام جو ورثے میں ملا تھا مگر یہ نظام شاید کوڑوں کی شدید ضربوں سے ہلاک ہو چکا ہے۔ جن افراد کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں‘ ان پر کیے جانے والے ''سرکاری‘‘ اخراجات کی منظوری متعلقہ سیکرٹری فنانس کیوں دے رہا ہے؟ اور اگر سیکرٹری فنانس کی منظوری نہیں ہے تو اکاؤنٹنٹ جنرل کیوں روپے دے رہا ہے؟ اور ڈی جی آڈٹ کیا کر رہا ہے؟ یہ سب ادارے جن پر کروڑوں اربوں خرچ ہو رہے ہیں‘ کیا معجون کھا کر سو رہے ہیں؟ کیا یہ باشاہوں کا زمانہ ہے؟ کیا کوڑے مارنے والے کم تھے کہ کوڑے مارنے والوں کی آل اولاد بھی ہم پر ستم ڈھا رہی ہے!
شاعر نے تو کہا تھا کہ
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تختہ جگہ آزادی کی یا تخت مقام آزادی کا
مگر لگتا ہے اب جو دو ہی ٹھکانے ہیں وہ مری ہے یا لندن! دونوں مقامات گرمی سے دور ہیں۔ میری یہ حالت ہے کہ اے سی نہیں چلا سکتا کیونکہ بجلی کے بل کی ضرب کوڑے کی ضرب ہے! مری نہیں جا سکتا کہ سب کچھ تو گھڑ سوار لے جاتا ہے۔ لندن میں تو میرا ٹھکانہ اگر ہزار سال جیوں تب بھی نہیں بن سکتا! بچوں کا پیٹ کاٹ کر جو سولر پینل لگوایا تھا‘ اس پر گھڑ سوار کی نظر ہے کیونکہ امرا کے بجلی گھروں کو زندہ رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ چنانچہ میں کوڑے کھاتا رہوں گا۔ گھڑ سوار جو بھی آئے گا‘ میں ایک عالی شان معیارِ زندگی اسے‘ اس کے گھوڑے کو اور اس کے وزیروں‘ امیروں اور درباریوں کو مہیا کرتا رہوں گا۔

Thursday, July 17, 2025

مہمان دیہاتی‘ مرزا فرحت اللہ بیگ اور ڈاکٹر


''چینی کی تیس کروڑ ڈالر کی درآمد عوامی مفاد میں نہیں! اس کا فوراً جائزہ لیا جائے۔ عام آدمی چینی کا بڑا صارف نہیں! بلکہ اصل فائدہ خوراک ومشروبات کی صنعت کو ہو گا۔ پہلے چینی کی برآمد کی اجازت دی اور اب صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے درآمد؟ اصل مسئلہ مافیا کا کردار ہے۔ چینی انسانی صحت کیلئے خطرناک ہے۔ قیمتی زرمبادلہ اس پر کیوں خرچ کیا جا رہا ہے؟ عام آدمی نہ مشروبات خرید سکتا ہے اور نہ مٹھائیاں! پھر ان کے نام پر درآمد کیوں؟ برآمد کی اجازت دینے پر کیا کوئی جواب دہ ہو گا؟ چینی مافیا‘ بروکرز اور ذخیرہ اندوزی کی تحقیقات کب ہوں گی؟ کیا ایف بی آر نے پچھلے پانچ سال میں چینی کی صنعت کے منافع پر ٹیکس لیا؟‘‘
یہ بیان تحریک انصاف کا ہے نہ مولانا فضل الرحمان کا نہ اپوزیشن کی کسی اور جماعت کا! یہ نوکیلا اور تیز دھار بیان فواد حسن فواد صاحب کا ہے جو مقتدر سیٹ اَپ کے دست راست رہے ہیں! صرف وہی نہیں‘ ہر شخص چینی کے مسئلے پر پریشان ہے۔ یہ کھیل ہر سال کھیلا جاتا ہے۔ چینی برآمد کی جاتی ہے‘ پھر در آمد کی جاتی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ متعلقہ حلقوں کے پاس کام کوئی نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ پاجامہ ادھیڑ کر دوبارہ سی لو یا باغ میں گملوں کی ترتیب بدل لو‘ تو اسی حساب سے فارغ بیٹھے ہوئے حلقے وقت گزارنے کیلئے پہلے چینی ملک سے باہر بھیجتے ہیں‘ پھر درآمد کرتے ہیں۔ مصروفیت کی مصروفیت اور مزے کا مزا! یہ الگ بات کہ اس مصروفیت میں عوام کا تیا پانچہ ہو جاتا ہے۔ رہا چینی مافیا کے خلاف تحقیقات کا مسئلہ‘ تو کیا کسی اور مافیا کے خلاف تحقیقات ہوئی ہیں؟ ایسے ایسے مافیا ہیں کہ نام ہی نہ لیے جائیں تو بہتر ہے۔ سسلی کا مافیا دنیا کا مشہور ترین مافیا ہے مگر اب یوں لگتا ہے سسلی مافیا سبق پڑھنے کیلئے اُن مافیاز کے سامنے آکر زانوئے تلمذ تہہ کرے گا جو ہمارے ہاں جاری وساری ہیں اور مسلسل زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص کی بیوی کے پاس سانپ بیٹھا ہوا تھا۔ اس شخص نے سانپ سے کہا کہ میری بیوی کو ڈس لو! سانپ نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ نا سائیں نا!! میں تو آپ کی بیگم صاحبہ سے زہر ڈاؤن لوڈ کرانے آیا ہوں!
ہمارا ماتھا تو اسی دن ٹھنک گیا تھا جس دن فواد حسن فواد صاحب نے پی آئی اے کو فروخت کرنے کے حوالے سے موجودہ حکومت پر تنقید کی تھی۔ آج کل میرٹ کا بہت چرچا ہے۔ میرٹ‘ میرٹ اور میرٹ! لگتا ہے کہ فواد حسن فواد صاحب ''میرٹ‘‘ کی نظروں میں نہیں آسکے! ورنہ پہلے تو وہ بڑے بڑے مناصب پر فائز رہے یہاں تک کہ وزیر بھی رہے! ان کے سابق رفقائے کار آج بھی میرٹ کی نظروں میں سربلند وسرفراز ہیں۔ ایک تو ماشاء اللہ سینیٹر ہیں اور وفاقی وزیر! دوسرے بار بار میرٹ کی نظروں کے سامنے آتے رہے ہیں! ماڈل ٹاؤن معاملے کے بعد عالمی تجارتی تنظیم میں ایلچی مقرر ہو گئے۔ پھر میرٹ ہی پر انہیں عالمی بینک بھیجا گیا۔ پھر میرٹ پر انہیں واپس بلا کر وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے۔ چشم بددور! پچیس کروڑ افراد میں اگر ان تمام اسامیوں کیلئے ایک ہی شخص میرٹ کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے تو معترضین کو کیا تکلیف ہے؟
ان دنوں میرٹ کا غلغلہ ہے‘ اس سے عربی کی وہ مشہور حکایت یاد آ رہی ہے جو ہم میں سے اکثر نے سنی ہوئی ہے۔ ایک دیہاتی ایک شہری کے گھر آ کر ٹھہرا۔ شہری نے کھانے کیلئے مرغی روسٹ کرائی۔ جب کھانے کیلئے دسترخوان پر بیٹھے تو شہری نے مہمان کی تکریم کرتے ہوئے عرض کیا کہ مہمان ہی مرغی کی تقسیم کرے۔ میزبان کے گھر کے افراد چھ تھے۔ میاں‘ بیوی‘ دو بیٹے اور دو بیٹیاں! میرٹ پسند مہمان نے مرغی کی تقسیم یوں کی۔ بھنی ہوئی مرغی کا سر کاٹ کر میزبان کو دیا اور کہا کہ آپ خاندان کا سر یعنی سردار ہیں‘ اس لیے سر آپ کا! پھر دونوں بازو دو لڑکوں کو دیے اور کہا کہ بیٹے باپ کے بازو ہوتے ہیں۔ پھر کہا کہ بیٹیاں خاندان کی عزت ہوتی ہیں اور لازم ہے کہ عزت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو؛ چنانچہ دونوں پنڈلیاں کاٹ کر دونوں بیٹیوں کو دیں۔ پھر پچھلا حصہ‘ جو دُم پر مشتمل تھا‘ میزبان کی بیوی کو دیا اس لیے کہ شوہر کہیں جاتا ہے تو بیوی گھر کی حفاظت کرتی ہے۔ اب رہ گیا تھا مرغی کا جسم‘ تو وہ میرٹ پسند دیہاتی نے خود رکھ لیا۔ اس تقسیم سے میزبان اور اس کے گھر والے دنگ رہ گئے اور پریشان بھی ہوئے۔ بہرطور میزبان ابھی میرٹ سے مزید لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ دوسرے دن اس نے بیوی سے کہا کہ پانچ مرغیاں بھونو۔ دستر خوان پر بیٹھے تو مہمان نے کہا کہ شاید آپ لوگوں کو میری کل والی تقسیم پسند نہیں آئی۔ میزبان نے کہا: نہیں! جناب! آپ نے تو میرٹ پسندی کی مثال قائم کر دی۔ پھر اس نے مہمان کو ایک بار پھر مرغیاں تقسیم کرنے کی زحمت دی۔ مہمان نے پوچھا: طاق طریقے سے تقسیم کروں یا جفت طریقے سے؟ میزبان نے کہا: طاق طریقہ آزمائیے آج!! میرٹ پسند دیہاتی نے ایک مرغی میاں بیوی دونوں کو دی اور بتایا کہ تم دو اور ایک مرغی‘ کُل تین ہوئے۔ ایک مرغی دونوں بیٹوں کو دی اور کہا: تم دو اور ایک مرغی‘ کل تین ہوئے۔ پھر ایک مرغی دونوں بیٹیوں کو دی اور انہیں بتایا کہ تم دو اور ایک مرغی‘ کل ہوئے تین۔ باقی دو مرغیاں بچی تھیں۔ وہ مہمان نے خود لیں اور کہا: دو مرغیاں اور ایک میں‘ کل ہوئے تین! میرٹ نے میزبان اور اس کے اہلِ خانہ کو ایک بار پھر ڈس لیا تھا۔ تیسرے دن میزبان نے پھر پانچ مرغیاں روسٹ کرائیں۔ دسترخوان پر بیٹھے تو مہمان سے کہا کہ جناب! آج جفت طریقے سے تقسیم کیجیے۔ مہمان خوش ہوا کہ آج پھر میرٹ پرستی کا دن ہے۔ اس نے ماں اور دو بیٹیوں کو ایک مرغی دی اور کہا تم تین اور ایک مرغی۔ کل چار ہوئے۔ پھر میزبان اور اس کے دو بیٹوں کو ایک مرغی دی اور بتایا کہ تم تین اور ایک مرغی۔ کل چار ہوئے۔ باقی بچی تھیں تین مرغیاں‘ وہ اس نے اپنے لیے رکھیں اور کہا کہ تین مرغیاں اور ایک میں‘ کل ہوئے چار!! اس حکایت کے آخر میں یہ بھی درج ہے کہ مہمان نے آسمان کی طرف منہ کیا اور کہا: قدرت کی خصوصی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے میرٹ پر فیصلے کرنے کی توفیق دی! میرٹ پر مبنی ایک فیصلے کی مثال مرزا فرحت اللہ بیگ نے بھی دی ہے۔ قانون کے امتحان میں پوچھا گیا کہ ایک شخص کو قتل کر دیا گیا‘ مقتول نے اپنے پیچھے بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے۔ قتل کے دو گواہ بھی موجود ہیں۔ معاملہ آپ کے سامنے عدالت میں پیش ہوا۔ کیا فیصلہ کریں گے؟ مرزا صاحب نے جو فیصلہ کیا وہ یہ تھا کہ قاتل کی مقتول کی بیوہ سے شادی کرا دی جائے‘ دونوں بیٹوں کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا جائے۔ رہے گواہ‘ تو دونوں کو جیل میں بند کر دیا جائے۔
دنیا میں کم ہی ایسے ملک ہوں گے جو میرٹ پسندی میں ہمارا مقابلہ کر سکیں۔ توتلے ہمارے ہاں داستان گوئی کرتے ہیں۔ اندھوں کو ہم ستارے گننے پر مامور کرتے ہیں۔ لنگڑے ہزار میٹر کی دوڑ جیتتے ہیں۔
میرٹ پر تعینات کیا گیا ڈاکٹر مریض کا آپریشن کرنے لگا تو کہنے لگا: نصیر! گھبراؤ مت! چھوٹا سا آپریشن ہے۔ مریض نے کہا کہ اس کا نام نصیر نہیں! ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ''نصیر میرا نام ہے!‘‘

Tuesday, July 15, 2025

شیر کی سواری اور نانا کا دُکھ


ہم چار پرانے دوست ہیں۔ سکول کے زمانے کے! کوشش کرتے ہیں کہ مہینے میں کم از کم ایک بار مل بیٹھیں۔ ہم ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ گزرے وقتوں کے تذکرے کرتے ہیں۔ اس عمر میں مسائل بھی یکساں ہوتے ہیں۔ اولاد کی شادیاں‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں‘ پیچھے گاؤں میں چھوڑے ہوئے کھیت اور حویلیاں‘ بیگمات کی صحت کے مسائل‘ عارضے جن میں ہم خود لاحق ہیں۔ آنکھوں میں اترتا موتیا اور اس کی سرجری۔ پروسٹیٹ کے مسائل! فلاں دوست بیمار ہے‘ فلاں یورپ یا امریکہ سدھار گیا! فلاں رخصت ہو گیا۔ ع کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں!
ہم میں سے کوئی جب ملک سے باہر ہوتا ہے تو دو یا تین ملک کے اندر رہ جانے والے دوست تب بھی مل بیٹھنے کا معمول باقاعدگی سے جاری رکھتے ہیں! جو ملک سے باہر ہوتا ہے یا ہوتے ہیں‘ کوشش کرتے ہیں کہ فون کے ذریعے یا وڈیو کے ذریعے ساتھ دیں! پرانے دوستوں کا کوئی نعم البدل نہیں! ان کے ساتھ مل بیٹھنا کئی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ میرے مستقل قارئین کو وہ تحریر یاد ہو گی جس میں حکیم غلام رسول بھٹہ صاحب کا ذکر کیا تھا۔ (دسمبر 2024ء میں یہ کالم روزنامہ دنیا ہی میں شائع ہوا تھا) ذہنی پریشانی اور ٹینشن کا علاج انہوں نے یہ بتایا کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار پرانے دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارو! سکول کالج کے زمانے کی شرارتوں کو یاد کرتے وقت ہم اُسی زمانے میں ایک بار پھر پہنچ جاتے ہیں اور حال کی تلخیاں تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی‘ بھول جاتے ہیں!
چند روز پیشتر پیچھے وطن میں‘ یہی محفل برپا تھی۔ میں دور ہونے کی وجہ سے وڈیو پر تھا۔ میں جب شامل ہوا تو خلافِ معمول تینوں حضرات خاموش تھے۔ بُجھے بُجھے دکھائی دے رہے تھے۔ احوال پرسی کی تو حمید اور ناصر نے بتایا کہ ہمارا چوتھا یار‘ الطاف ذہنی طور پر عدم اطمینان کا شکار ہے‘ پراگندہ دل اور پریشان خاطر ہے۔ الطاف سے پوچھا: یار کیا بات ہے؟ تم تو دوسروں کی پریشانیوں کا مداوا کرتے ہو‘ تمہی مغموم ہو گئے تو ہم لوگوں کا کیا بنے گا؟ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے؟ کہ بقول شاعر:
ہم نے تو کوئی دُکھ تمہیں ہرگز نہیں دیا
پھر دو جہاں کا کون سا غم کھا گیا تمہیں
الطاف نے شعر سن کر مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ کہنے لگا: ایک تو یہ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر چسپاں کرنے کی تمہاری عادت نہیں جاتی۔ میں نے کہا کہ شعر تو میری زندگی کا حصہ ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ شعروں کے علاوہ آتا بھی تو کچھ نہیں‘ مگر بتاؤ کہ مسئلہ کیا ہے؟ الطاف کہنے لگا: تمہیں معلوم ہے نہ کہ میری بیٹی‘ اپنے کنبے کے ساتھ چند ماہ پیشتر کینیڈا منتقل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: ہاں یاد ہے۔ تم اُس کے جانے پر اداس تھے مگر ساتھ ہی مطمئن بھی تھے کہ کہ بیٹی کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ الطاف نے جواب دیا کہ ہاں! اس کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ بے شمار دوسرے پاکستانی خاندانوں کی طرح وہ بھی کسی ترقی یافتہ مغربی ملک میں بسیرا کرے! تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مجھے اپنی نواسی کتنی عزیز ہے۔ اس کی پیدائش سے لے کر اس کے کینیڈا جانے تک وہی میری دلچسپیوں کا مرکز رہی۔ وہ اپنے گھر کی نسبت ہمارے گھر میں یعنی ننھیال میں زیادہ خوش رہتی تھی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ جب بھی آتی تھی‘ میں اپنی دوسری مصروفیات منسوخ کر دیتا تھا۔ یہ بھی ہوا کہ میں اس کے استقبال کیلئے کبھی چکری اور کبھی موٹر وے پلازا پہنچ جاتا۔ اس کی ہر خواہش کو پورا کرنا مجھے ایسی مسرت دیتا جس کا کوئی نعم البدل نہ ہوتا۔ جب بھی میں اور بیگم اسے مل کر واپس آ رہے ہوتے تو راستے میں اس کا فون آتا کہ واپس آ جائیے۔ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی مجھے عزیز تر از جان تھے۔ ایک بار ہم چند روز ان کے ہاں گزار کر واپس آئے تو میرا نواسا اپنی ماں سے کہنے لگا: اماں! مجھے گھر کے ہر کونے سے نانا ابوکی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ الطاف یہ سب باتیں بتا رہا تھا اور ہم تینوں سن رہے تھے۔ یہ اور بات کہ یہ سب باتیں ہمیں شروع ہی سے معلوم تھیں! وہ جب بھی ہم میں سے کسی کے گھر آتا تو نواسا یا نواسی ساتھ ہوتے۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے تمہیں ان سے بہت پیار ہے اور وہ بھی تم پر جان چھڑکتے ہیں مگر اس دنیا میں کوئی حالت مستقل نہیں! زمین پھر رہی ہے اور ہم سب کے حالات اس کی گردش کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ ہم تم اپنی زندگیاں گزار چکے‘ اب یہ ان کی زندگیاں ہیں جیسے بھی بسر کر یں! الطاف گویا ہوا کہ ہاں! جو تم کہہ رہے ہو وہی حقیقت ہے۔ میں اپنے دل کو سمجھا چکا ہوں مگر تین چار دن پہلے ان بچوں سے بات ہوئی تو مجھے معلوم ہوا‘ اور محسوس بھی کہ مغرب میں منتقل ہونے کے بعد اب وہ اُس مشینی زندگی میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں! میری انیس سالہ نواسی نے بتایا کہ ابھی اس کی باقاعدہ پڑھائی تو نہیں شروع ہوئی‘ تاہم اسے ایک جاب مل گئی ہے۔ وہ ایک کمپنی کی مارکیٹنگ ٹیم میں شامل ہو گئی ہے۔ مختلف اداروں اور دفتروں میں جا کر مارکیٹنگ کرے گی اور اسی حساب سے اسے کمیشن ملے گا۔ نواسوں نے بتایا کہ وہ شام کو پِزا ڈلیوری کرتے ہیں اور کچھ سو ڈالر کما بھی چکے ہیں۔ جس دن یہ سب باتیں معلوم ہوئیں اس دن سے میں بے حد اداس ہوں۔ یہی وہ جال ہے جس میں یہ ممالک انسان کو پھنساتے ہیں اور پھر وہ ساری زندگی اس سے نہیں نکل سکتا۔ نہ صرف یہ کہ نکل نہیں سکتا‘ اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک Vicious Circle کا اسیر ہو چکا ہے۔ ایرانی اس سرکل کو دائرہ ٔخبیثہ کہتے ہیں! اور درست کہتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے ہمارے والدین نے امیر نہ ہونے کے باوجود ہمیں کہا کہ جتنا پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر ہم نے اپنے بچوں کو اپنی تنخواہ میں پڑھایا۔ کوئی ڈاکٹر بنا‘ کوئی انجینئر‘ کوئی پروفیسر مگر دورانِ تعلیم انہیں پڑھائی کے علاوہ کسی فکر‘ کسی جدوجہد میں نہیں پڑنے دیا۔ ممکن ہے تم لوگ مجھے جذباتی اور غیر حقیقت پسند کہو اور نصیحت کرو کہ وہاں سب ایسا ہی کرتے ہیں مگر میں جب سوچتا ہوں کہ میرے پھول جیسے نواسے اور نواسی اپنے نانا اور نانی سے فرمائشیں کرنے کے بجائے نوکری کرنے لگ گئے ہیں تو دل میں حشر سا برپا ہو جاتا ہے۔ وہ شیر پر سوار ہو چکے ہیں۔ ان ملکوں میں جا کر رہنا شیر پر سواری کرنے والی بات ہے۔ شیر پر ایک بار جو سوار ہو جائے‘ اُتر نہیں سکتا۔ اب وہ دن کو کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھائی کریں گے اور شاموں کو نام نہاد جاب!! کسی کمپنی کی مارکیٹنگ! کسی فاسٹ فوڈ پر ملازمت! کہیں پزا ڈِلیوری! کہیں ''وال مارٹ‘‘ پر فی گھنٹہ اتنے ڈالر اور کہیں ''کروگر‘‘ پر اتنے گھنٹے ڈیوٹی!! اس جدوجہد میں ان کا لڑکپن گم ہو جائے گا۔ اب وہ مجھ سے راتوں کو کہانیاں نہیں سنیں گے! اب وہ راتوں کو سونے سے پہلے حساب کریں گے کہ اس ہفتے یا اس مہینے کتنے ڈالر کمائے ہیں! اب تعطیلات میں وہ نانا نانی کے پاس آکر مزے نہیں کریں گے بلکہ شاموں کے ساتھ ساتھ صبحیں بھی بے چہرہ کمپنیوں کی کَٹ تھروٹ‘ پُرشور اسیری میں گزاریں گے!! اب وقت ان کا اپنا ہے نہ زندگی اپنی! کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ قسطوں کا حساب کیا کریں گے۔ وطن کی اور اپنے پیاروں کی یادیں ان کے ذہنوں کے صفحوں پر دھندلی ہو جائیں گی! دھندلی اور ناقابلِ شناخت!
الطاف کی آواز بھرا گئی! ہم چاروں کی آنکھیں چھلک اُٹھیں!!

Thursday, July 10, 2025

شدید سردی اور آم کا فراق

میلبورن میں سردی ہے! کڑاکے کی سردی!

ٹمپریچر دن کے وقت چھ یا سات تک اور رات کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ سردی نہیں! تیز طوفانی ہوا ہے جو جھکڑ کی طرح چلتی ہے۔ کم ہی ایسے دن ہوتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھا جا سکے۔ اسلام آباد کی جاڑوں کی دھوپ یاد آتی ہے۔ سنہری اور خواب آور دھوپ! میلبورن میں جب تیز وحشت ناک ہوا شور مچاتی ہے اور درخت جھکڑ کے زور سے کُبڑے ہونے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ برطانوی بھی کیا لوگ ہیں! دنیا کے اس آخری کنارے میں آکر آباد ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی بھلا! لندن اور میلبورن کا درمیانی فاصلہ سترہ ہزار کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود انگریز یہاں نہ صرف پہنچے بلکہ آباد ہوئے۔ یہاں کے تیز جھکڑوں کو تسخیر کیا۔ میلبورن شہر کی کُل عمر 190 سال ہے! 190 برسوں میں اس شہر کو انگریزوں نے اور ان کی ذریت نے اس درجۂ کمال تک پہنچایا کہ اسے اکثر و بیشتر رہنے کیلئے دنیا کا بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تعمیر و ترقی میں چینی بھی شامل رہے‘ بر صغیر سے لائے گئے شتربان بھی اور کچھ دیگر اقوام بھی‘ مگر منصوبہ بندی اور آئیڈیاز انگریز بہادر ہی کے تھے۔ پھر یہ لوگ یہاں سے بھی آگے گئے۔ نیوزی لینڈ کا دارالحکومت ویلنگٹن ہے جو لندن سے تقریباً انیس ہزار کلو میٹر دور ہے۔ اس شہر کی عمر میلبورن سے بھی کم ہے۔ انگریز وہاں بھی پہنچے اور حکومت کی۔ آج بھی آئینی طور پر برطانیہ کا بادشاہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کا بھی بادشاہ ہے اور ان ریاستوں کا سربراہ!
قدرت کی ہر کاریگری عجیب ہے اور دماغ کو چکرا دینے والی! ان دنوں جب ہمارے جنوبی ایشیا میں گرمی زوروں پر ہے نصف کرۂ جنوبی میں خوب سردی پڑ رہی ہے۔ نصف جنوبی کرے کے مشہور ملکوں میں برازیل‘ جنوبی افریقہ‘ ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ پیرو اور چلی شامل ہیں۔ ان سب ملکوں میں مئی‘ جون‘ جولائی میں سردی پڑتی ہے۔ ان ملکوں میں اردو پڑھنے والے اگر اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر پڑھیں گے: مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ؍ بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ ‘تو حیران ہوں گے کیونکہ ان ملکوں میں تو مئی سرد ہوتا ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے کہا ہے کہ: کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں؍ آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں‘ لیکن ان ملکوں میں دسمبر کی دھوپ گرمیوں کی دھوپ ہوتی ہے۔ انگریزی ادب پڑھنے والے بھی سٹپٹاتے ہوں گے۔ ورڈز ورتھ اور کیٹس کے برطانیہ میں بہار مارچ‘ اپریل میں ہوتی ہے اور آسٹریلیا اور زمین کے جنوبی حصے کے دوسرے ملکوں میں ستمبر‘ اکتوبر میں! سارا مسئلہ اس معشوق کا ہے جسے سورج کہتے ہیں۔ جدھر سورج کا منہ ہو گا اُدھر روشنی اور گرمی ہو گی۔
زمیں کا نصف جس میں ہم ہیں‘ روشن ہو گیا ہے
خوشا قسمت! کسی نے اس طرف چہرا کیا ہے
ان ملکوں میں سال کا طویل ترین دن اکیس یا بائیس دسمبر ہوتا ہے اور طویل تر ین رات اکیس جون کی ہوتی ہے۔ ایرانی بھائیوں کیلئے الگ مشکل ہے۔ ایران میں طویل ترین رات اکیس دسمبر کی ہوتی ہے۔ اس رات ایرانی ''شبِ یلدا‘‘ مناتے ہیں۔ مگر آسٹریلیا میں اکیس دسمبر کی رات مختصر ترین ہوتی ہے!!
ویسے سچ یہ ہے کہ جو مزے ہماری گرمیوں کے ہیں وہ ان ملکوں کی سردیوں میں کہاں! مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست میں ہمارے ہاں دن روشن ہوتے ہیں۔ کھلے ماتھے والے! شام کو باہر بیٹھنے کا مزا آتا ہے۔ آج کی نسل جو پنکھوں اور ایئر کنڈیشنروں کی غلام ہو چکی ہے‘ یہ بات نہیں سمجھے گی! ہماری عمر کے لوگوں نے گرمیوں کے خوب خوب مزے لوٹے ہیں۔ گاؤں میں تب بجلی تھی نہ برقی پنکھے! دوپہر کو ہاتھوں سے پنکھیاں جھلتے تھے۔ بازوؤں کی ورزش ہوتی تھی۔ ادھر عصر ہوتی‘ اُدھر صحنوں میں چھڑکاؤ کر دیا جاتا۔ چارپائیاں کمروں سے نکال کر صحن میں بچھائی جاتیں۔ ان پر مچھر دانیاں نصب کی جاتیں! کچھ لوگ چھت پر سوتے‘ کچھ صحن میں! ہوا چلتی اور رات کا پچھلا پہر اتنا خنک ہو جاتا کہ اوپر چادر یا کھیس لینا پڑتا۔ برصغیر پاک و ہند میں گرمی شدید ہے تو قدرت نے آم کی صورت میں تلافی بھی کر دی ہے۔ جو آم برصغیر میں پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پایا جاتا۔ جتنی زیادہ گرمی ہو گی اتنا ہی آم میٹھا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کو یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی گئی ہے۔ ملتان کے بارے میں جس نے بھی یہ شعر کہا ہے: چہار چیز است تحفۂ ملتان؍ گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان‘ اس نے انصاف نہیں کیا۔ عجیب شاعر تھا جسے ملتان کے آم نہیں یاد رہے۔ چونسا (ثمر بہشت) ہو اور بہت سا ہو تو گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان کی بھرپور تلافی ہو جاتی ہے۔ یہاں میلبورن میں پاکستانی آم ملتے ہیں مگر مہنگے اور محدود مقدار میں! جس مقدار میں ہم لوگ پھل‘ خاص طور پر آم تناول فرماتے ہیں‘ سفید فام لوگ اس مقدار کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم تو پیٹیوں کے حساب سے کھاتے ہیں۔ مونگ پھلی کی آمد سے پہلے ہمارے علاقے (فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ) میں دیسی خربوزے ہوتے تھے۔ مختلف رنگوں کے اور ازحد شیریں! ہمارے دادا نانا ہمارے لیے کھوتوں کے حساب سے منگواتے تھے۔ یعنی جتنے خربوزے ایک گدھا اٹھا سکتا! یہاں سفید فام لوگوں کو پھل خریدتے دیکھتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی! چار مالٹے یا آدھا تربوز! بہت ہوا تو ایک مکمل خربوزہ یا چار پانچ کیلے! اس پر یہ ستم ظریفی مستزاد کہ مالٹے ہوں یا کیلے‘ سب تول کر!! اسلام آباد میں ایک دوست کی رشتہ داری ایک امریکی سفید فام نوجوان سے ہے۔ (پاکستانی لڑکی سے شادی کی بنا پر)۔ وہ اسلام آباد آکر کچھ دن قیام پذیر رہا۔ اس کا میزبان‘ یعنی میرا دوست بتاتا ہے کہ پھل بیچنے والوں کو دیکھ کر یہ امریکی حیران ہوتا تھا۔ پھلوں سے اَٹی ہوئی ریڑھیاں اور دکانیں قطار اندر قطار! کہتا تھا تمہیں قدرت نے کتنے زیادہ پھل دیے ہیں! ابھی تو اس نے آم کے موسم میں پورے ملک میں آم کی پیٹیوں کی نقل و حرکت اور آمد و رفت نہیں دیکھی ورنہ شاید بے ہوش ہی ہو جاتا! مقدار کا مسئلہ تو غالب حل کر گئے تھے کہ بہت سے ہوں! اور میٹھے بھی! آم کی صفت میں جو قصیدہ کہا اس میں فرماتے ہیں:
انگبیں کے بحکم رب الناس؍ بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
یعنی شہد کے سر بمہر گلاس!! آم کھانے کا اصل‘ قدیم طریقہ تو یہی ہے کہ نرم کر کے‘ اوپر سے چھوٹا سوراخ کر کے چوسا جائے۔ اس طریقے سے اس کا رس پیا جا سکتا ہے گویا گلاس کے ساتھ تشبیہ جو دی ہے‘ نہایت بر محل ہے!! کیا کمال کی تشبیہ عطا کی ہے !! آج کل جس طریقے سے آم کھایا جانے لگا ہے‘ کاٹ کر مکعب 

(Cubes)

 کی شکل میں‘ وہ آم کے ساتھ صریح زیادتی ہے۔ آم نخروں اور نزاکتوں کے ساتھ نہیں کھایا جاتا‘ دو دو ہاتھ کر کے کھایا جاتا ہے۔ مغل ہندوستان میں آئے تو دو چیزوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ آم اور پان! شاہ جہان نے اورنگزیب کو دکن کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ہمیشہ گلہ کرتا کہ آم اچھے نہیں بھیجتا۔ اورنگزیب نے بھی اپنے بیٹے کو دکن کا گورنر لگایا۔ ''رقعاتِ عالم گیری‘‘ میں شکوہ کرتا ہے کہ میٹھے آم رکھ لیتے ہو اور خراب والے مجھے بھیج دیتے ہو! یوں تو اپنی اپنی پسند ہے مگر بھارت میں آج بھی عام طور پر جس آم (الفانسو) کو بہترین سمجھا جاتا ہے وہ جنوبی ہند ہی میں پیدا ہوتا ہے!
بات دور نکل گئی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ آسٹریلیا کے سرما میں پاکستان کی گرمیاں بہت یاد آتی ہیں! بقول افتخار عارف:
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ

Tuesday, July 08, 2025

واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن ! واہ!


خدا کسی کو بُرا پڑوسی نہ دے۔
میرے پڑوسی کے گھر سے میرے گھر میں پتھر آتے ہیں‘ اینٹیں پھینکی جاتی ہیں‘ کوڑا کرکٹ گرایا جاتا ہے۔ میں اس کی منت کرتا ہوں‘ بھائی چارے کا واسطہ دیتا ہوں‘ مگر بے سود! میں نے کیا نہیں کیا اپنے پڑوسی کے لیے۔ جب بھی اسے ضرورت پڑی‘ میں فوراً حاضر تھا۔ تھانے کچہری میں ہمیشہ اس کے ساتھ گیا۔ جب کھانے کے لیے اس کے گھر میں کچھ نہ تھا‘ میں نے خوراک بھیجی۔ بیمار ہوا تو اسے ہسپتال لے کر گیا۔ ادویات پہنچائیں۔ اس کے گھر پر دشمنوں نے قبضہ کیا تو اس کی خاطر اُن سے لڑا۔ اس کی چھت گر گئی تو اسے اپنے ہاں پناہ دی۔ لیکن اس کے رویے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ مجھ سے مسلسل فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے مسلسل نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے سانپ پالے ہوئے ہیں اور یہ زہریلے سانپ میرے گھر بھیجتا ہے۔ بدترین پڑوسی کسی نے دیکھنا ہو تو اسے دیکھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو‘ اس پڑوسی پر ایک سو ایک فیصد صادق آتا ہے۔
میں اس پر احسان کیے جا رہا ہوں۔ وہ میرے رخسار پر تھپڑ مارتا ہے تو میں اسے دوسرا رخسار پیش کرتا ہوں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ میرے اپنے گھر میں فاقے ہیں اور میں روٹیاں اس کے ہاں بھجوا رہا ہوں۔ میر ے اپنے بچوں کے پاس کتابیں ہیں نہ سکول کی فیس کے پیسے‘ مگر میں اپنے پڑوسی کے بچے پڑھانے چلا ہوں۔ کتابیں لے کر دیتا ہوں۔ ان کی فیسیں بھرتا ہوں۔ یہاں تک کہ اپنے گھر کا ایک کمرہ بھی ان کے لیے مختص کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اس میں بیٹھ کر پڑھیں! مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ میں مومن ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہوں اور ایک ہی سوراخ سے بار بار‘ بار بار ڈسا بھی جا رہا ہوں۔ شاید میں مومن ہی نہیں۔ شاید میں منافق ہوں! میری یہ روداد سن کر آپ مجھ سے ہمدردی تو کیا کریں گے‘ الٹا مجھ پر نفرین بھیجیں گے۔ دنیا کا کوئی شخص مجھے عقلمند نہیں کہہ سکتا مگر میں اپنی احمقانہ پالیسی پر قائم ہوں!!
آپ کا کیا خیال ہے میں اپنا پیٹ ننگا کر کے آپ کو کیوں دکھا رہا ہوں؟ اپنے گندے کپڑے سر بازار کیوں دھو رہا ہوں ؟ اس لیے کہ پاکستان میں ایک ادارہ ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اس نے اسی پڑوسی کے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنے خرچ پر پڑھانے کے لیے پاکستان بلا لیا ہے۔ تین سو پچاس پہنچ چکے ہیں۔ چند ماہ بعد ڈیڑھ سو مزید آئیں گے! یہ بندوق علامہ اقبال کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ یہ سکالرشپ علامہ کے نام منسوب کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ علامہ اقبال نے جس افغانستان کی تعریف کی تھی وہ اور افغانستان تھا۔ علامہ نے تو صاف کہا ہے۔ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ یہ بھی کہا ہے کہ: اے کُشتہ سلطانی و مُلّائی و پیری! اور یہ بھی کہا ہے کہ 
دلِ ملّا گرفتارِ غمی نیست ؍ نگاہی ہست‘ در چشمش نمی نیست
کہ مُلّا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے‘ اس میں نمی نہیں۔
علامہ اقبال آج کے افغانستان میں پاؤں رکھتے تو فوراً سے پیشتر انہیں گرفتار کر لیا جاتا اس لیے کہ ان کی ظاہری شکل وصورت آج کے افغانستان میں قابلِ قبول ہی نہ ہوتی!
ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عالی دماغ اور عالی مرتبت دیدہ وروں سے پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اپنے ملک کے تمام مستحق طلبہ وطالبات کو وہ سکالر شپ دے چکے ہیں؟
تو کارِ زمین را نکو ساختی؍ کہ با آسمان نیز پرداختی
کیا زمین کے کام مکمل ہو چکے تھے کہ جناب آسمانوں پر کرم فرمائی کرنے چلے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک کے لاکھوں ذہین‘ لائق اور ذکی طلبہ وطالبات صرف اس لیے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وہ غریب ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عبقری اربابِ بست وکشاد کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقے بھی ہیں‘ جنوبی پنجاب کے پسے ہوئے عوام بھی ہیں اور بلوچستان بھی ہے۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ بھی ہے۔ یہ شہرہ آفاق شعر اسی نظم میں ہے:افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر؍ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔
ہمارے کروڑوں بچے سکول سے باہر خاک چھان رہے ہیں۔ لاکھوں طلبہ وطالبات یونیورسٹیوں میں جانے کی تمنا رکھتے ہیں اور قابلیت بھی‘ مگر اتنی مالی استطاعت نہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ آدھی تعلیم حاصل کر کے انتہائی ٹیلنٹڈ لڑکے پرائمری سکولوں میں پڑھا رہے ہیں یا کلرکی کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسے پر انہی پاکستانی طلبہ وطالبات کا حق ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن باجوڑ‘ وزیرستان‘ خیبر‘ مہمند‘ دیر‘ چترال‘ گلگت‘ بلتستان سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کو سکالرشپ کیوں نہیں دیتا؟ کیا ان کا حق فائق نہیں؟
اور پھر‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن پڑوسی ملک کے جن نوجوانوں کو پاکستانی خزانے سے نواز رہا ہے اور پاکستان کے اندر بٹھا رہا ہے‘ کیا کمیشن کو معلوم ہے کہ ان میں سے کتنے جاسوس ہیں؟ کتنے بھارت کے لیے کام کریں گے؟ کتنے خوارج کے ایجنٹ ہیں؟ کیا ایچ ای سی نہیں جانتا کہ ہم نصف صدی سے جنہیں پال رہے ہیں وہ پلٹ کر ہمیں ہی کاٹ رہے ہیں! ہمِیں پر غرا رہے ہیں! ہمیں پر حملہ آور ہیں! کیا کرکٹ کے میدانوں میں ہم پر انہوں نے حملے نہیں کیے؟ کیا ان کی زمین سے دہشت گرد ہم پر مسلسل حملے نہیں کر رہے؟ کیا ان کی سر زمین سے آنے والے خوارج ہماری عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم نہیں کر رہے؟ ہمارے جن جوانوں اور افسروں کو پڑوسی ملک سے آنے والے خارجی شہید کر رہے ہیں‘ ان شہدا کے خاندان ٹیکس بھی تو دے رہے ہیں۔ کیا ان ٹیکسو ں سے اکٹھا کیا ہوا روپیہ انہی دہشت گردوں کے مربّیوں پر خرچ کرنا حب الوطنی ہے؟؟ ایچ ای سی کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا! لاکھوں کروڑوں روپے اس ملک کے طلبہ پر کیوں صرف کیے جا رہے ہیں جہاں سے رات دن در اندازی ہو رہی ہے؟ یہ حب الوطنی ہے یا کچھ ''اور‘‘ ہے؟؟ کیا ایچ ای سی کی پیدائش کے وقت یہ طے کر دیا گیا تھا کہ دشمنی کرنے والوں پر قومی خزانہ لٹایا جائے گا؟
اور کیا ایچ ای سی ہمیں بتائے گا کہ یہ جو پڑوسی ملک سے سینکڑوں طلبہ منگوائے جا رہے ہیں‘ ان میں طالبات کتنی ہیں؟ غالباً ایک بھی نہیں! اگر ایچ ای سی کے دل میں پڑوس کے لیے اتنا ہی درد ہے تو کیا اس نے متعلقہ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ طالبات کو ضرور شامل کیا جائے؟ کیا ایچ ای سی طالبان حکومت کی خواتین دشمنی میں شریک ہو رہا ہے؟ اور 

misogyny 

کا حامی ہے؟
ایچ ای سی والے بیچارے اتنے غریب ہیں کہ جن دنوں بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کر رکھی تھی ‘ ان دنوں یہ اخبار خرید سکے نہ ہی ان کے پاس ٹی وی تھا۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ جس پڑوسی ملک کے نوجوانوں پر یہ قومی خزانہ لٹا رہے ہیں اس ملک نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی حمایت نہیں کی بلکہ وہاں سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ تو پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے اور یہ کہ پشتون اس جنگ سے دور رہیں!! ان کی حکومت کا ایک سرکردہ وزیر اُنہی دنوں بھارت کے خفیہ دورے پر بھی تھا! اتنا بڑا احسان پڑوسی ملک نے پاکستان پر کیا تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس احسان کا بدلہ تو دینا تھا!! واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن! واہ!

Thursday, July 03, 2025

شیخ غلام درہم کا جنازہ اور تدفین


اس کا معمول تھا کہ ہر ہفتے‘ نمازِ جمعہ ادا کر نے کے بعد‘ قبرستان جاتا۔ اپنے والد کی قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت اور دعاکرتا۔ پھر باقی اعزہ واقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا۔ کچھ قبروں پر سبز ٹہنیاں لگاتا۔ جو مزدور قبرستان میں صفائی کر رہے ہوتے‘ ان کی مالی امداد کرتا۔ قبرستان میں اسے ایک عجیب سا‘ پُراسرار سا‘ سکون حاصل ہوتا۔ دل تو اس کا چاہتا تھا کہ ہر روز اس خاموش بستی میں آئے‘ اس کے تنگ راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلے‘ مزدوروں سے بات چیت کرے اور قبروں پر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرے مگر زندگی کی مکروہات ہفتے میں صرف ایک بار ہی اس کام کی اجازت دیتیں۔
جس جمعے کی بات میں کر رہا ہوں‘ اُس دن گرمی زوروں پر تھی۔ دھوپ تیز تھی۔درجہ حرارت چالیس سے کافی اوپر تھا۔ گلیاں سنسان تھیں۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ قبرستان مغرب کے بعد چلا جائے مگر وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے معمولات میں رد وبدل برداشت نہیں کرتے۔ نماز کے بعد وہ حسبِ معمول سیدھا قبرستان پہنچا‘ تلاوت کی‘ فاتحہ خوانیاں کیں‘ مزدوروں کو پیسے دیے‘ پھر قبروں کے درمیان بنے ہوئے راستوں پر چلنے لگا۔ ایک کنارے پر چند نئی قبریں دکھائی دیں۔ نئی قبروں کے درمیان ایک پختہ راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ مہم جوئی کا مادہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس نے سیڑھیاں اتر کر نیچے کے طرف جانا شروع کر دیا۔ ابھی وہ آدھی سیڑھیاں ہی اترا تھا کہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ نیچے پہنچا تو یہ ایک اچھا خاصا بڑا ہال نما کمرہ تھا اور خوب روشن تھا۔ چاروں طرف ایئر کنڈیشنر نصب تھے جو مسلسل سرد ہوا پھینک کر کمرے کی فضا کو یخ بستہ کر رہے تھے۔ کمرے کے عین درمیان میں ایک جہازی سائز کی لینڈ کروزر کھڑی تھی۔اس کے اندر بھی ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ اس میں ایک پلنگ پڑا تھا۔ پلنگ کے اوپر کوئی لیٹا ہوا تھا جو شاید سو رہا تھا۔ اس کے اوپر چادر تنی تھی۔ ساتھ والی نشست پر ایک باریش صاحب بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ لینڈ کروزر میں سردی اس قدر تھی کہ باریش شخص نے کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ عجیب پُراسرار‘ ڈرانے والا ماحول تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ قبرستان! اس کے اندر اتنا بڑا تہہ خانہ! تہہ خانے میں بے پناہ ٹھنڈک! اس میں بڑی سی لینڈ کروزر! لینڈ کروزر میں‘ چادر اوڑھ کر سویا ہوا شخص! اس کے پاس سخت سردی میں‘ کمبل اوڑھے بیٹھا ایک باریش آدمی! کافی دیر تک وہ مختلف خیالات میں ڈوبا‘ وہیں کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ اُس شخص سے‘ جو باریش ہے اور کمبل اوڑھے ہے‘ پوچھے کہ یہ سارا سلسلہ کیا ہے؟ اس نے لینڈ کروزر کی کھڑکی کے شیشے پر دستک دی۔ پہلی دستک کا ردعمل کچھ بھی نہ تھا۔ دوسری بار اس نے شیشے پر نسبتاً زور سے ہاتھ مارا۔ کمبل والا باریش شخص ہڑبڑا کر جاگا اور نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر آنے کے لیے کہا۔ کمبل پوش کچھ دیر سوچتا رہا‘ پھر گاڑی سے نکل آیا اور استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے پہلے تو معذرت کی کہ اسے معاملات میں مخل ہونا پڑا۔ پھر پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کمبل پوش نے کہا ''کیا پوچھنا چاہتے ہو؟؟ ''یہ سب‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ قبرستان میں یہ تہہ خانہ اور یہ سارا سلسلہ آخر کیا ہے؟ یہ سب کچھ بہت پُراسرار ہے اور یہ کہ وہ اس کی تفصیل جاننے کا متمنی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ لینڈ کروزر میں سویا ہوا شخص کون ہے اور آپ کیوں اس کے پاس بیٹھے ہیں؟
کمبل پوش اسے تہہ خانے کے ایک کونے میں لے گیا جہاں دو کرسیاں رکھی تھیں۔ ایک الماری سے شربت کی بوتل نکال کر اسے پیش کی۔ پھر پوچھا ''آپ اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ پڑھتا ہے بلکہ اس کے ہاں تو پانچ چھ اخبارات آتے ہیں! اس پر کمبل پوش نے حیران ہو کر کہا کہ کمال ہے! پھر بھی آپ شیخ غلام درہم کی وفات سے بے خبر لگتے ہیں۔ اس پر اسے یاد آیا کہ شہر کا امیر ترین اور معزز ترین شخص‘ شیخ غلام درہم پچھلے ہفتے انتقال کر گیا تھا۔ اس کا سیاست میں بھی عمل دخل تھا۔ اقتدار میں بھی بالواسطہ ہمیشہ شریک رہتا تھا۔ اکثر اس کی تصویریں اخبارات میں چھپتی تھیں اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتی تھیں جن میں وہ غریب لوگوں کی مدد کر رہا ہوتا تھا۔ اس نے کمبل پوش‘ باریش شخص سے پوچھا کہ ان کی وفات کی خبر تو پڑھ لی تھی مگر اس تہہ خانے سے ان کی وفات کا کیا تعلق ہے؟
اس پر کمبل پوش نے چہرے پر غم واندوہ کے سائے لہراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ ٹھنڈا تہہ خانہ دراصل ان کی قبر ہے۔ پھر کمبل پوش نے اسے یاد دلایا کہ غلام درہم کے جنازے کے لیے راتوں رات میدان نما جنازہ گاہ کو بڑے ہال میں تبدیل کیا گیا تھا اور اس میں درجنوں ایئر کنڈیشنر نصب کیے گئے تھے کیونکہ نمازِ جنازہ پڑھنے والے تمام حضرات کھرب پتی تھے اور لینڈ کروزروں میں آئے تھے۔ گرمی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ اگر چاہتے تو لینڈ کروزروں میں بیٹھے بیٹھے بھی نماز جنازہ ادا کر سکتے تھے۔ تدفین کا وقت آیا تو قبر کی گہرائی‘ تنہائی اور گرمی کا سوچ کر شیخ غلام درہم کے کھرب پتی پسماندگان نے یہ تہہ خانہ بنوایا۔ لینڈکروزر میں شیخ مرحوم ہی کفن میں لپٹے لیٹے ہیں۔ بہت زیادہ سرد ٹمپریچر اس لیے رکھا گیا ہے کہ ان کی میت خراب نہ ہو۔ تہہ خانے کے ساتھ والے بڑے کمرے میں کئی عظیم الجثہ جنریٹر لگے ہوئے ہیں جو تہہ خانے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس نے یہ تفصیل سنی اور کمبل پوش کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کہا کہ ایک آخری سوال رہ گیا ہے۔ آپ کیوں لینڈ کروز کی سردی میں بیٹھے ٹھٹھر رہے ہیں؟ آپ کا لینڈ کروز کے اندر کیا کام ہے؟ 
اس پر باریش کمبل پوش نے جواب دیا کہ صرف وہی نہیں‘ کئی درجن باریش اشخاص اس کام پر مامور ہیں جو باری باری آٹھ آٹھ گھنٹوں کے لیے لینڈ کروزر میں شیخ غلام درہم کے پاس موجود رہتے ہیں۔ ''مگر کیوں؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ کمبل پوش نے بتایا کہ چونکہ شیخ غلام درہم اپنی بے پناہ کاروباری‘ سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دین کی مبادیات سے آگاہی حاصل نہیں کر سکے تھے‘ اس لیے پسماندگان نے سوچا کہ منکر نکیر آئیں تو کوئی ایسا شخص موجود ہونا چاہیے جو دین کی مبادیات سے واقف ہو اور سوالوں کا جواب دینے میں شیخ مرحوم کی مدد کر سکے! یہ سن کر وہ حیران ہوا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا منکر نکیر زندہ انسانوں کو دکھائی دیتے ہیں؟ اس حیرت میں اس نے کمبل پوش کو بھی شامل کیا۔ مگر کمبل پوش نے اس کا جواب بہت ہی منطقی اور عقلی طریقے سے دیا۔ اس کے جواب کا لب لباب یہ تھا کہ آج تک کسی قبر میں میت کے پاس کوئی زندہ انسان موجود نہیں ہوا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منکر نکیر زندہ انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ دونوں امکانات‘ نظر آنے اور نظر نہ آنے کے‘ موجود ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دکھائی نہ دیں مگر ان کی آواز سنائی دے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس طرح کی قبر دنیا میں پہلی بار بنی ہے۔ آنا تو منکر نکیر نے قبر ہی میں ہے۔ کمبل پوش نے یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو یہاں موجود رہنے کا بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ منکر نکیر نظر آئیں یا نہ آئیں‘ ان کی آواز سنائی دے یا نہ سنائی دے‘ اسے اس سے کوئی غرض نہیں!!

Tuesday, July 01, 2025

راجواڑے‘ امریکہ اور بھارت

کتے کتیا کی شادی تھی۔ بہت بڑی تقریب ہوئی۔ بہت سے راجے‘ مہاراجے‘ نواب مدعو کیے گئے۔ خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ انگریز افسر بھی بلائے گئے۔ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔

یہ کوئی افسانہ نہیں۔ اصل میں ایسا ہی ہوا تھا۔ ہندوستان میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار تھا‘ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ملکہ برطانیہ کی حکمرانی براہِ راست در آئی۔ دونوں ادوار میں کچھ ریاستیں اور راجواڑے زندہ رکھے گئے۔ بڑی چھوٹی ریاستیں کل ملا کر پونے چھ سو کے لگ بھگ تھیں۔ حیدرآباد‘ پٹیالہ‘ کپور تھلہ‘ بہاولپور‘ خیرپور‘ گوالیار‘ میسور‘ ملیر کوٹلہ‘ سوات‘ الوَر‘ بیکانیر‘ جے پور اور کئی سو دوسری!! یہ ''آزادی‘‘ برائے نام تھی۔ ہر ریاست میں ایک انگریز افسر تعینات تھا۔ اسے ریزیڈنٹ کہتے تھے اور اس کی قیامگاہ کو ریزیڈنسی!! ریزیڈنسی عام طور پر ایک عالی شان عمارت ہوتی تھی اس لیے کہ یہ انگریزی اقتدار کی علامت تھی۔ اہم فیصلے یہیں ہوتے تھے۔ اصل اور حقیقی حکمران یہی ریزیڈنٹ تھے۔ جانشینی کا فیصلہ بھی ریزیڈنٹ ہی کرتا تھا۔ ریزیڈنٹ مقامی راجہ یا نواب کی کڑی نگرانی کرتا تھا کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جو انگریز سرکار کے مفادات کے خلاف ہو۔ ایک لحاظ سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے کام ریزیڈنٹ کرتا تھا اور راجہ یا نواب صرف عیاشی! بڑے بڑے محلات‘ متعدد بیگمات‘ ہاتھی گھوڑے اور دیگر عیش وعشرت کے اسباب کام میں لائے جاتے۔ کھانے پینے پر زور تھا۔ شیر مال‘ شامی کباب اور کئی دیگر کھانے لکھنؤ کے حکمرانوں کے لیے اسی عہد میں ایجاد ہوئے۔ باورچیوں کو دور دراز سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا جاتا۔ ایک ریاست میں راجہ تھا کہ نواب‘ اس نے کتیا کتے کی شادی شان وشوکت سے کی۔ ڈیفنس کی پروا نہ تھی اس لیے کہ یہ کام انگریز نے سنبھال رکھا تھا۔
آج کے مشرقِ وسطیٰ کا یہی حال ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں اور راجواڑوں کا مائی باپ انگریز تھا‘ بعینہٖ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا مائی باپ امریکہ ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں کا ڈیفنس انگریز کے ذمہ تھا‘ اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا ڈیفنس امریکہ کے ذمہ ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ جب برطانوی ہند کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دیا ہے تو پھر ریزیڈنسیاں کہاں ہیں اور ریزیڈنٹ کون ہیں؟ یہ کوئی پیچیدہ معمہ نہیں۔ سب کچھ واضح ہے۔ یہ جو ہر ریاست میں امریکی بیس موجود ہے‘ یہی تو ریزیڈنسی ہے۔ بیس کا سالارِ اعلیٰ ریزیڈنٹ ہی تو ہے۔ امریکی سفیرکو بھی آپ ریزیڈنٹ کے مقام پر فائز کر سکتے ہیں۔ آپ اسے وائسرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ بیس کمانڈر اور سفیر اِن ریاستوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی پالیسی سے امریکی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ جس طرح راجہ یا نواب کا سب سے بڑا کام انگریز ریزیڈنٹ کو خوش رکھنا ہوتا تھا اور وہ ریزیڈنٹ کو قیمتی تحفے دیتا تھا اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بھی ہر حال میں امریکہ کو خوش رکھتی ہیں۔ اگر تمام امریکی سربراہوں کو ان ریاستوں کی طرف سے ملے ہوئے ہیروں‘ جواہرات اور زیورات کا وزن کیا جائے تو یقینا سیروں میں نہیں منوں تک جا پہنچے گا۔ اب تو جہاز بھی تحفے میں دیے جانے لگے ہیں۔ نو خیز لڑکیوں کے بال استقبال میں لہرائے گئے ہیں۔ کیا شان ہے ان ریاستوں میں امریکہ کی!! یوں لگتا ہے امریکی صدر مالک ومختار ہے۔ آقا ہے۔
ایک حکمران کے لیے مشکل ترین کام اپنے ملک کا دفاع ہوتا ہے۔ جب ان ریاستوں نے اپنا دفاع امریکہ کو سونپ دیا تو گویا ان کے حکمران مشکل ترین فرض سے بری الذمہ ہو گئے۔ فراغت پا کر یہ اپنے اپنے شوق کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ بلند ترین عمارتوں کی تعمیر کا شوق! جزیرے خریدنے کا شوق! محلات کا شوق! سونے چاندی کا شوق! سونے سے بنی ہوئی گاڑیوں کا شوق! لگژری بجروں
 (Yatchs) 
کا شوق! ایسے طلسمی جہازوں کا شوق جن میں خوابگاہیں ہوں‘ ڈرائنگ روم ہوں اور اٹیچڈ باتھ روم ہوں! جہازوں پر سوار ہونے کے لیے سونے سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہوں! سیر وتفریح کے لیے جائیں تو ہزار ہزار اعزہ واقربا اور خدام ساتھ ہوں۔ تفریح کے لیے میلوں لمبے ساحل ریزرو کرائیں۔
جدید دنیا کی اکثر وبیشتر ایجادات کا سہرا امریکہ کے سر ہے۔ امریکہ کی طاقت اس کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ مغربی تہذیب کے سب سے بڑے مخالف علامہ اقبال تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ اور یہ بھی کہ 
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
مگر اس کے باوجود وہ مغرب کے علم و حکمت کے قائل تھے۔
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمین آتش چراغش روشن است
کہ مغرب کی طاقت اس کے علم و فن کی وجہ سے ہے۔ یہی وہ آگ ہے جس سے مغرب کا چراغ روشن ہے۔
یہ علم و فن ہی ہے اور دنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کرۂ ارض پر حکومت کر رہا ہے۔ اسکے پاس مہلک ترین ہتھیار ہیں جو اس نے اپنی قوتِ بازو سے بنائے ہیں! ہمارے مشرق وسطیٰ کے بھائیوں کے پاس جتنا روکڑا ہے شاید ہی دنیا میں کسی کے پاس ہو۔ مگر اس امارت کے باوجود انکی توجہ علم و فن کی طرف نہیں گئی۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنانے والے‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹی بھی آسانی سے بنا سکتے تھے۔ انڈسٹری لگانے میں بھی دوسرے ملکوں سے آگے بڑھ سکتے تھے۔ چلیے ایٹم بم بنانے میں امریکہ حائل ہے مگر ٹینک‘ ڈرون اور دیگر ہتھیار تو بنا سکتے تھے۔ ہوائی جہاز‘ گاڑیاں اور ٹرک بنانے کے کارخانے تو لگا سکتے تھے۔ ریسرچ کے مراکز تو قائم کر سکتے تھے۔ آئی ٹی کے میدان میں چاہتے تو انڈیا سے مقابلہ کر سکتے ۔ مگر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ دفاع دوسروں کے سپرد کر دیں۔ اور خود ایک ایسی زندگی گزاریں جس میں آرام ہی آرام ہو اور عشرت اور لگژری ہو۔
ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود جس طرح اپنی دفاعی ضروریات پر توجہ دی وہ قابلِ تحسین ہے۔ جس طرح ایران نے اسرائیل کا مقابلہ کیا اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ایران کی بھرپور حمایت کی۔ ہمارے چوٹی کے علما نے ایران کی حمایت کی۔ مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن نے کھل کر ساتھ دیا۔ مولانا فضل الرحمن سے ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی نے پوچھا کہ انہوں نے ایران کی حمایت کیوں کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ایران کی نہیں تو کیا اسرائیل کی حمایت کرتے؟ ہمارے مسلکی اختلافات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ دشمن کے مقابلے کا وقت آئے تو یہ اختلافات ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اولین معاملہ برادر مسلم ملک کی حمایت اور مدد کا ہوتا ہے۔ امید ہے بھارت کے حوالے سے ایران اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرے گا۔ بھارت ایران کے سامنے پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ ایران کو اب ان مسلم ملکوں کے حوالے سے بھی اپنی پالیسیاں بدل لینی چاہئیں جو اس کے مغرب میں واقع ہیں۔ خاص طور پر انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کی حکمت عملی کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس ایکسپورٹ پالیسی سے خوفزدہ ہو کر‘ اس کے رد عمل ہی میں ان ممالک کاجھکاؤ اسرائیل کی طرف ہوا۔ بہترین پالیسی بقائے باہمی کی پالیسی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جاسوسی کا نیٹ ورک جو ایران میں قائم تھا‘ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں میں سرایت کر چکا ہے۔ امید ہے یہ ممالک بھی بھارت کی اصلیت کو جلد ہی جان جائیں گے۔ مہاجن کسی کا دوست ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔

 

powered by worldwanders.com