Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 10, 2025

شدید سردی اور آم کا فراق

میلبورن میں سردی ہے! کڑاکے کی سردی!

ٹمپریچر دن کے وقت چھ یا سات تک اور رات کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ سردی نہیں! تیز طوفانی ہوا ہے جو جھکڑ کی طرح چلتی ہے۔ کم ہی ایسے دن ہوتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھا جا سکے۔ اسلام آباد کی جاڑوں کی دھوپ یاد آتی ہے۔ سنہری اور خواب آور دھوپ! میلبورن میں جب تیز وحشت ناک ہوا شور مچاتی ہے اور درخت جھکڑ کے زور سے کُبڑے ہونے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ برطانوی بھی کیا لوگ ہیں! دنیا کے اس آخری کنارے میں آکر آباد ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی بھلا! لندن اور میلبورن کا درمیانی فاصلہ سترہ ہزار کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود انگریز یہاں نہ صرف پہنچے بلکہ آباد ہوئے۔ یہاں کے تیز جھکڑوں کو تسخیر کیا۔ میلبورن شہر کی کُل عمر 190 سال ہے! 190 برسوں میں اس شہر کو انگریزوں نے اور ان کی ذریت نے اس درجۂ کمال تک پہنچایا کہ اسے اکثر و بیشتر رہنے کیلئے دنیا کا بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تعمیر و ترقی میں چینی بھی شامل رہے‘ بر صغیر سے لائے گئے شتربان بھی اور کچھ دیگر اقوام بھی‘ مگر منصوبہ بندی اور آئیڈیاز انگریز بہادر ہی کے تھے۔ پھر یہ لوگ یہاں سے بھی آگے گئے۔ نیوزی لینڈ کا دارالحکومت ویلنگٹن ہے جو لندن سے تقریباً انیس ہزار کلو میٹر دور ہے۔ اس شہر کی عمر میلبورن سے بھی کم ہے۔ انگریز وہاں بھی پہنچے اور حکومت کی۔ آج بھی آئینی طور پر برطانیہ کا بادشاہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کا بھی بادشاہ ہے اور ان ریاستوں کا سربراہ!
قدرت کی ہر کاریگری عجیب ہے اور دماغ کو چکرا دینے والی! ان دنوں جب ہمارے جنوبی ایشیا میں گرمی زوروں پر ہے نصف کرۂ جنوبی میں خوب سردی پڑ رہی ہے۔ نصف جنوبی کرے کے مشہور ملکوں میں برازیل‘ جنوبی افریقہ‘ ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ پیرو اور چلی شامل ہیں۔ ان سب ملکوں میں مئی‘ جون‘ جولائی میں سردی پڑتی ہے۔ ان ملکوں میں اردو پڑھنے والے اگر اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر پڑھیں گے: مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ؍ بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ ‘تو حیران ہوں گے کیونکہ ان ملکوں میں تو مئی سرد ہوتا ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے کہا ہے کہ: کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں؍ آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں‘ لیکن ان ملکوں میں دسمبر کی دھوپ گرمیوں کی دھوپ ہوتی ہے۔ انگریزی ادب پڑھنے والے بھی سٹپٹاتے ہوں گے۔ ورڈز ورتھ اور کیٹس کے برطانیہ میں بہار مارچ‘ اپریل میں ہوتی ہے اور آسٹریلیا اور زمین کے جنوبی حصے کے دوسرے ملکوں میں ستمبر‘ اکتوبر میں! سارا مسئلہ اس معشوق کا ہے جسے سورج کہتے ہیں۔ جدھر سورج کا منہ ہو گا اُدھر روشنی اور گرمی ہو گی۔
زمیں کا نصف جس میں ہم ہیں‘ روشن ہو گیا ہے
خوشا قسمت! کسی نے اس طرف چہرا کیا ہے
ان ملکوں میں سال کا طویل ترین دن اکیس یا بائیس دسمبر ہوتا ہے اور طویل تر ین رات اکیس جون کی ہوتی ہے۔ ایرانی بھائیوں کیلئے الگ مشکل ہے۔ ایران میں طویل ترین رات اکیس دسمبر کی ہوتی ہے۔ اس رات ایرانی ''شبِ یلدا‘‘ مناتے ہیں۔ مگر آسٹریلیا میں اکیس دسمبر کی رات مختصر ترین ہوتی ہے!!
ویسے سچ یہ ہے کہ جو مزے ہماری گرمیوں کے ہیں وہ ان ملکوں کی سردیوں میں کہاں! مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست میں ہمارے ہاں دن روشن ہوتے ہیں۔ کھلے ماتھے والے! شام کو باہر بیٹھنے کا مزا آتا ہے۔ آج کی نسل جو پنکھوں اور ایئر کنڈیشنروں کی غلام ہو چکی ہے‘ یہ بات نہیں سمجھے گی! ہماری عمر کے لوگوں نے گرمیوں کے خوب خوب مزے لوٹے ہیں۔ گاؤں میں تب بجلی تھی نہ برقی پنکھے! دوپہر کو ہاتھوں سے پنکھیاں جھلتے تھے۔ بازوؤں کی ورزش ہوتی تھی۔ ادھر عصر ہوتی‘ اُدھر صحنوں میں چھڑکاؤ کر دیا جاتا۔ چارپائیاں کمروں سے نکال کر صحن میں بچھائی جاتیں۔ ان پر مچھر دانیاں نصب کی جاتیں! کچھ لوگ چھت پر سوتے‘ کچھ صحن میں! ہوا چلتی اور رات کا پچھلا پہر اتنا خنک ہو جاتا کہ اوپر چادر یا کھیس لینا پڑتا۔ برصغیر پاک و ہند میں گرمی شدید ہے تو قدرت نے آم کی صورت میں تلافی بھی کر دی ہے۔ جو آم برصغیر میں پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پایا جاتا۔ جتنی زیادہ گرمی ہو گی اتنا ہی آم میٹھا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کو یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی گئی ہے۔ ملتان کے بارے میں جس نے بھی یہ شعر کہا ہے: چہار چیز است تحفۂ ملتان؍ گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان‘ اس نے انصاف نہیں کیا۔ عجیب شاعر تھا جسے ملتان کے آم نہیں یاد رہے۔ چونسا (ثمر بہشت) ہو اور بہت سا ہو تو گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان کی بھرپور تلافی ہو جاتی ہے۔ یہاں میلبورن میں پاکستانی آم ملتے ہیں مگر مہنگے اور محدود مقدار میں! جس مقدار میں ہم لوگ پھل‘ خاص طور پر آم تناول فرماتے ہیں‘ سفید فام لوگ اس مقدار کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم تو پیٹیوں کے حساب سے کھاتے ہیں۔ مونگ پھلی کی آمد سے پہلے ہمارے علاقے (فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ) میں دیسی خربوزے ہوتے تھے۔ مختلف رنگوں کے اور ازحد شیریں! ہمارے دادا نانا ہمارے لیے کھوتوں کے حساب سے منگواتے تھے۔ یعنی جتنے خربوزے ایک گدھا اٹھا سکتا! یہاں سفید فام لوگوں کو پھل خریدتے دیکھتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی! چار مالٹے یا آدھا تربوز! بہت ہوا تو ایک مکمل خربوزہ یا چار پانچ کیلے! اس پر یہ ستم ظریفی مستزاد کہ مالٹے ہوں یا کیلے‘ سب تول کر!! اسلام آباد میں ایک دوست کی رشتہ داری ایک امریکی سفید فام نوجوان سے ہے۔ (پاکستانی لڑکی سے شادی کی بنا پر)۔ وہ اسلام آباد آکر کچھ دن قیام پذیر رہا۔ اس کا میزبان‘ یعنی میرا دوست بتاتا ہے کہ پھل بیچنے والوں کو دیکھ کر یہ امریکی حیران ہوتا تھا۔ پھلوں سے اَٹی ہوئی ریڑھیاں اور دکانیں قطار اندر قطار! کہتا تھا تمہیں قدرت نے کتنے زیادہ پھل دیے ہیں! ابھی تو اس نے آم کے موسم میں پورے ملک میں آم کی پیٹیوں کی نقل و حرکت اور آمد و رفت نہیں دیکھی ورنہ شاید بے ہوش ہی ہو جاتا! مقدار کا مسئلہ تو غالب حل کر گئے تھے کہ بہت سے ہوں! اور میٹھے بھی! آم کی صفت میں جو قصیدہ کہا اس میں فرماتے ہیں:
انگبیں کے بحکم رب الناس؍ بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
یعنی شہد کے سر بمہر گلاس!! آم کھانے کا اصل‘ قدیم طریقہ تو یہی ہے کہ نرم کر کے‘ اوپر سے چھوٹا سوراخ کر کے چوسا جائے۔ اس طریقے سے اس کا رس پیا جا سکتا ہے گویا گلاس کے ساتھ تشبیہ جو دی ہے‘ نہایت بر محل ہے!! کیا کمال کی تشبیہ عطا کی ہے !! آج کل جس طریقے سے آم کھایا جانے لگا ہے‘ کاٹ کر مکعب 

(Cubes)

 کی شکل میں‘ وہ آم کے ساتھ صریح زیادتی ہے۔ آم نخروں اور نزاکتوں کے ساتھ نہیں کھایا جاتا‘ دو دو ہاتھ کر کے کھایا جاتا ہے۔ مغل ہندوستان میں آئے تو دو چیزوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ آم اور پان! شاہ جہان نے اورنگزیب کو دکن کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ہمیشہ گلہ کرتا کہ آم اچھے نہیں بھیجتا۔ اورنگزیب نے بھی اپنے بیٹے کو دکن کا گورنر لگایا۔ ''رقعاتِ عالم گیری‘‘ میں شکوہ کرتا ہے کہ میٹھے آم رکھ لیتے ہو اور خراب والے مجھے بھیج دیتے ہو! یوں تو اپنی اپنی پسند ہے مگر بھارت میں آج بھی عام طور پر جس آم (الفانسو) کو بہترین سمجھا جاتا ہے وہ جنوبی ہند ہی میں پیدا ہوتا ہے!
بات دور نکل گئی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ آسٹریلیا کے سرما میں پاکستان کی گرمیاں بہت یاد آتی ہیں! بقول افتخار عارف:
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ

Tuesday, July 08, 2025

واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن ! واہ!


خدا کسی کو بُرا پڑوسی نہ دے۔
میرے پڑوسی کے گھر سے میرے گھر میں پتھر آتے ہیں‘ اینٹیں پھینکی جاتی ہیں‘ کوڑا کرکٹ گرایا جاتا ہے۔ میں اس کی منت کرتا ہوں‘ بھائی چارے کا واسطہ دیتا ہوں‘ مگر بے سود! میں نے کیا نہیں کیا اپنے پڑوسی کے لیے۔ جب بھی اسے ضرورت پڑی‘ میں فوراً حاضر تھا۔ تھانے کچہری میں ہمیشہ اس کے ساتھ گیا۔ جب کھانے کے لیے اس کے گھر میں کچھ نہ تھا‘ میں نے خوراک بھیجی۔ بیمار ہوا تو اسے ہسپتال لے کر گیا۔ ادویات پہنچائیں۔ اس کے گھر پر دشمنوں نے قبضہ کیا تو اس کی خاطر اُن سے لڑا۔ اس کی چھت گر گئی تو اسے اپنے ہاں پناہ دی۔ لیکن اس کے رویے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ مجھ سے مسلسل فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے مسلسل نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے سانپ پالے ہوئے ہیں اور یہ زہریلے سانپ میرے گھر بھیجتا ہے۔ بدترین پڑوسی کسی نے دیکھنا ہو تو اسے دیکھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو‘ اس پڑوسی پر ایک سو ایک فیصد صادق آتا ہے۔
میں اس پر احسان کیے جا رہا ہوں۔ وہ میرے رخسار پر تھپڑ مارتا ہے تو میں اسے دوسرا رخسار پیش کرتا ہوں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ میرے اپنے گھر میں فاقے ہیں اور میں روٹیاں اس کے ہاں بھجوا رہا ہوں۔ میر ے اپنے بچوں کے پاس کتابیں ہیں نہ سکول کی فیس کے پیسے‘ مگر میں اپنے پڑوسی کے بچے پڑھانے چلا ہوں۔ کتابیں لے کر دیتا ہوں۔ ان کی فیسیں بھرتا ہوں۔ یہاں تک کہ اپنے گھر کا ایک کمرہ بھی ان کے لیے مختص کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اس میں بیٹھ کر پڑھیں! مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ میں مومن ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہوں اور ایک ہی سوراخ سے بار بار‘ بار بار ڈسا بھی جا رہا ہوں۔ شاید میں مومن ہی نہیں۔ شاید میں منافق ہوں! میری یہ روداد سن کر آپ مجھ سے ہمدردی تو کیا کریں گے‘ الٹا مجھ پر نفرین بھیجیں گے۔ دنیا کا کوئی شخص مجھے عقلمند نہیں کہہ سکتا مگر میں اپنی احمقانہ پالیسی پر قائم ہوں!!
آپ کا کیا خیال ہے میں اپنا پیٹ ننگا کر کے آپ کو کیوں دکھا رہا ہوں؟ اپنے گندے کپڑے سر بازار کیوں دھو رہا ہوں ؟ اس لیے کہ پاکستان میں ایک ادارہ ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اس نے اسی پڑوسی کے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنے خرچ پر پڑھانے کے لیے پاکستان بلا لیا ہے۔ تین سو پچاس پہنچ چکے ہیں۔ چند ماہ بعد ڈیڑھ سو مزید آئیں گے! یہ بندوق علامہ اقبال کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ یہ سکالرشپ علامہ کے نام منسوب کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ علامہ اقبال نے جس افغانستان کی تعریف کی تھی وہ اور افغانستان تھا۔ علامہ نے تو صاف کہا ہے۔ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ یہ بھی کہا ہے کہ: اے کُشتہ سلطانی و مُلّائی و پیری! اور یہ بھی کہا ہے کہ 
دلِ ملّا گرفتارِ غمی نیست ؍ نگاہی ہست‘ در چشمش نمی نیست
کہ مُلّا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے‘ اس میں نمی نہیں۔
علامہ اقبال آج کے افغانستان میں پاؤں رکھتے تو فوراً سے پیشتر انہیں گرفتار کر لیا جاتا اس لیے کہ ان کی ظاہری شکل وصورت آج کے افغانستان میں قابلِ قبول ہی نہ ہوتی!
ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عالی دماغ اور عالی مرتبت دیدہ وروں سے پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اپنے ملک کے تمام مستحق طلبہ وطالبات کو وہ سکالر شپ دے چکے ہیں؟
تو کارِ زمین را نکو ساختی؍ کہ با آسمان نیز پرداختی
کیا زمین کے کام مکمل ہو چکے تھے کہ جناب آسمانوں پر کرم فرمائی کرنے چلے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک کے لاکھوں ذہین‘ لائق اور ذکی طلبہ وطالبات صرف اس لیے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وہ غریب ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عبقری اربابِ بست وکشاد کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقے بھی ہیں‘ جنوبی پنجاب کے پسے ہوئے عوام بھی ہیں اور بلوچستان بھی ہے۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ بھی ہے۔ یہ شہرہ آفاق شعر اسی نظم میں ہے:افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر؍ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔
ہمارے کروڑوں بچے سکول سے باہر خاک چھان رہے ہیں۔ لاکھوں طلبہ وطالبات یونیورسٹیوں میں جانے کی تمنا رکھتے ہیں اور قابلیت بھی‘ مگر اتنی مالی استطاعت نہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ آدھی تعلیم حاصل کر کے انتہائی ٹیلنٹڈ لڑکے پرائمری سکولوں میں پڑھا رہے ہیں یا کلرکی کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسے پر انہی پاکستانی طلبہ وطالبات کا حق ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن باجوڑ‘ وزیرستان‘ خیبر‘ مہمند‘ دیر‘ چترال‘ گلگت‘ بلتستان سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کو سکالرشپ کیوں نہیں دیتا؟ کیا ان کا حق فائق نہیں؟
اور پھر‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن پڑوسی ملک کے جن نوجوانوں کو پاکستانی خزانے سے نواز رہا ہے اور پاکستان کے اندر بٹھا رہا ہے‘ کیا کمیشن کو معلوم ہے کہ ان میں سے کتنے جاسوس ہیں؟ کتنے بھارت کے لیے کام کریں گے؟ کتنے خوارج کے ایجنٹ ہیں؟ کیا ایچ ای سی نہیں جانتا کہ ہم نصف صدی سے جنہیں پال رہے ہیں وہ پلٹ کر ہمیں ہی کاٹ رہے ہیں! ہمِیں پر غرا رہے ہیں! ہمیں پر حملہ آور ہیں! کیا کرکٹ کے میدانوں میں ہم پر انہوں نے حملے نہیں کیے؟ کیا ان کی زمین سے دہشت گرد ہم پر مسلسل حملے نہیں کر رہے؟ کیا ان کی سر زمین سے آنے والے خوارج ہماری عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم نہیں کر رہے؟ ہمارے جن جوانوں اور افسروں کو پڑوسی ملک سے آنے والے خارجی شہید کر رہے ہیں‘ ان شہدا کے خاندان ٹیکس بھی تو دے رہے ہیں۔ کیا ان ٹیکسو ں سے اکٹھا کیا ہوا روپیہ انہی دہشت گردوں کے مربّیوں پر خرچ کرنا حب الوطنی ہے؟؟ ایچ ای سی کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا! لاکھوں کروڑوں روپے اس ملک کے طلبہ پر کیوں صرف کیے جا رہے ہیں جہاں سے رات دن در اندازی ہو رہی ہے؟ یہ حب الوطنی ہے یا کچھ ''اور‘‘ ہے؟؟ کیا ایچ ای سی کی پیدائش کے وقت یہ طے کر دیا گیا تھا کہ دشمنی کرنے والوں پر قومی خزانہ لٹایا جائے گا؟
اور کیا ایچ ای سی ہمیں بتائے گا کہ یہ جو پڑوسی ملک سے سینکڑوں طلبہ منگوائے جا رہے ہیں‘ ان میں طالبات کتنی ہیں؟ غالباً ایک بھی نہیں! اگر ایچ ای سی کے دل میں پڑوس کے لیے اتنا ہی درد ہے تو کیا اس نے متعلقہ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ طالبات کو ضرور شامل کیا جائے؟ کیا ایچ ای سی طالبان حکومت کی خواتین دشمنی میں شریک ہو رہا ہے؟ اور 

misogyny 

کا حامی ہے؟
ایچ ای سی والے بیچارے اتنے غریب ہیں کہ جن دنوں بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کر رکھی تھی ‘ ان دنوں یہ اخبار خرید سکے نہ ہی ان کے پاس ٹی وی تھا۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ جس پڑوسی ملک کے نوجوانوں پر یہ قومی خزانہ لٹا رہے ہیں اس ملک نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی حمایت نہیں کی بلکہ وہاں سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ تو پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے اور یہ کہ پشتون اس جنگ سے دور رہیں!! ان کی حکومت کا ایک سرکردہ وزیر اُنہی دنوں بھارت کے خفیہ دورے پر بھی تھا! اتنا بڑا احسان پڑوسی ملک نے پاکستان پر کیا تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس احسان کا بدلہ تو دینا تھا!! واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن! واہ!

Thursday, July 03, 2025

شیخ غلام درہم کا جنازہ اور تدفین


اس کا معمول تھا کہ ہر ہفتے‘ نمازِ جمعہ ادا کر نے کے بعد‘ قبرستان جاتا۔ اپنے والد کی قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت اور دعاکرتا۔ پھر باقی اعزہ واقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا۔ کچھ قبروں پر سبز ٹہنیاں لگاتا۔ جو مزدور قبرستان میں صفائی کر رہے ہوتے‘ ان کی مالی امداد کرتا۔ قبرستان میں اسے ایک عجیب سا‘ پُراسرار سا‘ سکون حاصل ہوتا۔ دل تو اس کا چاہتا تھا کہ ہر روز اس خاموش بستی میں آئے‘ اس کے تنگ راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلے‘ مزدوروں سے بات چیت کرے اور قبروں پر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرے مگر زندگی کی مکروہات ہفتے میں صرف ایک بار ہی اس کام کی اجازت دیتیں۔
جس جمعے کی بات میں کر رہا ہوں‘ اُس دن گرمی زوروں پر تھی۔ دھوپ تیز تھی۔درجہ حرارت چالیس سے کافی اوپر تھا۔ گلیاں سنسان تھیں۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ قبرستان مغرب کے بعد چلا جائے مگر وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے معمولات میں رد وبدل برداشت نہیں کرتے۔ نماز کے بعد وہ حسبِ معمول سیدھا قبرستان پہنچا‘ تلاوت کی‘ فاتحہ خوانیاں کیں‘ مزدوروں کو پیسے دیے‘ پھر قبروں کے درمیان بنے ہوئے راستوں پر چلنے لگا۔ ایک کنارے پر چند نئی قبریں دکھائی دیں۔ نئی قبروں کے درمیان ایک پختہ راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ مہم جوئی کا مادہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس نے سیڑھیاں اتر کر نیچے کے طرف جانا شروع کر دیا۔ ابھی وہ آدھی سیڑھیاں ہی اترا تھا کہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ نیچے پہنچا تو یہ ایک اچھا خاصا بڑا ہال نما کمرہ تھا اور خوب روشن تھا۔ چاروں طرف ایئر کنڈیشنر نصب تھے جو مسلسل سرد ہوا پھینک کر کمرے کی فضا کو یخ بستہ کر رہے تھے۔ کمرے کے عین درمیان میں ایک جہازی سائز کی لینڈ کروزر کھڑی تھی۔اس کے اندر بھی ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ اس میں ایک پلنگ پڑا تھا۔ پلنگ کے اوپر کوئی لیٹا ہوا تھا جو شاید سو رہا تھا۔ اس کے اوپر چادر تنی تھی۔ ساتھ والی نشست پر ایک باریش صاحب بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ لینڈ کروزر میں سردی اس قدر تھی کہ باریش شخص نے کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ عجیب پُراسرار‘ ڈرانے والا ماحول تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ قبرستان! اس کے اندر اتنا بڑا تہہ خانہ! تہہ خانے میں بے پناہ ٹھنڈک! اس میں بڑی سی لینڈ کروزر! لینڈ کروزر میں‘ چادر اوڑھ کر سویا ہوا شخص! اس کے پاس سخت سردی میں‘ کمبل اوڑھے بیٹھا ایک باریش آدمی! کافی دیر تک وہ مختلف خیالات میں ڈوبا‘ وہیں کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ اُس شخص سے‘ جو باریش ہے اور کمبل اوڑھے ہے‘ پوچھے کہ یہ سارا سلسلہ کیا ہے؟ اس نے لینڈ کروزر کی کھڑکی کے شیشے پر دستک دی۔ پہلی دستک کا ردعمل کچھ بھی نہ تھا۔ دوسری بار اس نے شیشے پر نسبتاً زور سے ہاتھ مارا۔ کمبل والا باریش شخص ہڑبڑا کر جاگا اور نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر آنے کے لیے کہا۔ کمبل پوش کچھ دیر سوچتا رہا‘ پھر گاڑی سے نکل آیا اور استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے پہلے تو معذرت کی کہ اسے معاملات میں مخل ہونا پڑا۔ پھر پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کمبل پوش نے کہا ''کیا پوچھنا چاہتے ہو؟؟ ''یہ سب‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ قبرستان میں یہ تہہ خانہ اور یہ سارا سلسلہ آخر کیا ہے؟ یہ سب کچھ بہت پُراسرار ہے اور یہ کہ وہ اس کی تفصیل جاننے کا متمنی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ لینڈ کروزر میں سویا ہوا شخص کون ہے اور آپ کیوں اس کے پاس بیٹھے ہیں؟
کمبل پوش اسے تہہ خانے کے ایک کونے میں لے گیا جہاں دو کرسیاں رکھی تھیں۔ ایک الماری سے شربت کی بوتل نکال کر اسے پیش کی۔ پھر پوچھا ''آپ اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ پڑھتا ہے بلکہ اس کے ہاں تو پانچ چھ اخبارات آتے ہیں! اس پر کمبل پوش نے حیران ہو کر کہا کہ کمال ہے! پھر بھی آپ شیخ غلام درہم کی وفات سے بے خبر لگتے ہیں۔ اس پر اسے یاد آیا کہ شہر کا امیر ترین اور معزز ترین شخص‘ شیخ غلام درہم پچھلے ہفتے انتقال کر گیا تھا۔ اس کا سیاست میں بھی عمل دخل تھا۔ اقتدار میں بھی بالواسطہ ہمیشہ شریک رہتا تھا۔ اکثر اس کی تصویریں اخبارات میں چھپتی تھیں اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتی تھیں جن میں وہ غریب لوگوں کی مدد کر رہا ہوتا تھا۔ اس نے کمبل پوش‘ باریش شخص سے پوچھا کہ ان کی وفات کی خبر تو پڑھ لی تھی مگر اس تہہ خانے سے ان کی وفات کا کیا تعلق ہے؟
اس پر کمبل پوش نے چہرے پر غم واندوہ کے سائے لہراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ ٹھنڈا تہہ خانہ دراصل ان کی قبر ہے۔ پھر کمبل پوش نے اسے یاد دلایا کہ غلام درہم کے جنازے کے لیے راتوں رات میدان نما جنازہ گاہ کو بڑے ہال میں تبدیل کیا گیا تھا اور اس میں درجنوں ایئر کنڈیشنر نصب کیے گئے تھے کیونکہ نمازِ جنازہ پڑھنے والے تمام حضرات کھرب پتی تھے اور لینڈ کروزروں میں آئے تھے۔ گرمی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ اگر چاہتے تو لینڈ کروزروں میں بیٹھے بیٹھے بھی نماز جنازہ ادا کر سکتے تھے۔ تدفین کا وقت آیا تو قبر کی گہرائی‘ تنہائی اور گرمی کا سوچ کر شیخ غلام درہم کے کھرب پتی پسماندگان نے یہ تہہ خانہ بنوایا۔ لینڈکروزر میں شیخ مرحوم ہی کفن میں لپٹے لیٹے ہیں۔ بہت زیادہ سرد ٹمپریچر اس لیے رکھا گیا ہے کہ ان کی میت خراب نہ ہو۔ تہہ خانے کے ساتھ والے بڑے کمرے میں کئی عظیم الجثہ جنریٹر لگے ہوئے ہیں جو تہہ خانے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس نے یہ تفصیل سنی اور کمبل پوش کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کہا کہ ایک آخری سوال رہ گیا ہے۔ آپ کیوں لینڈ کروز کی سردی میں بیٹھے ٹھٹھر رہے ہیں؟ آپ کا لینڈ کروز کے اندر کیا کام ہے؟ 
اس پر باریش کمبل پوش نے جواب دیا کہ صرف وہی نہیں‘ کئی درجن باریش اشخاص اس کام پر مامور ہیں جو باری باری آٹھ آٹھ گھنٹوں کے لیے لینڈ کروزر میں شیخ غلام درہم کے پاس موجود رہتے ہیں۔ ''مگر کیوں؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ کمبل پوش نے بتایا کہ چونکہ شیخ غلام درہم اپنی بے پناہ کاروباری‘ سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دین کی مبادیات سے آگاہی حاصل نہیں کر سکے تھے‘ اس لیے پسماندگان نے سوچا کہ منکر نکیر آئیں تو کوئی ایسا شخص موجود ہونا چاہیے جو دین کی مبادیات سے واقف ہو اور سوالوں کا جواب دینے میں شیخ مرحوم کی مدد کر سکے! یہ سن کر وہ حیران ہوا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا منکر نکیر زندہ انسانوں کو دکھائی دیتے ہیں؟ اس حیرت میں اس نے کمبل پوش کو بھی شامل کیا۔ مگر کمبل پوش نے اس کا جواب بہت ہی منطقی اور عقلی طریقے سے دیا۔ اس کے جواب کا لب لباب یہ تھا کہ آج تک کسی قبر میں میت کے پاس کوئی زندہ انسان موجود نہیں ہوا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منکر نکیر زندہ انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ دونوں امکانات‘ نظر آنے اور نظر نہ آنے کے‘ موجود ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دکھائی نہ دیں مگر ان کی آواز سنائی دے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس طرح کی قبر دنیا میں پہلی بار بنی ہے۔ آنا تو منکر نکیر نے قبر ہی میں ہے۔ کمبل پوش نے یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو یہاں موجود رہنے کا بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ منکر نکیر نظر آئیں یا نہ آئیں‘ ان کی آواز سنائی دے یا نہ سنائی دے‘ اسے اس سے کوئی غرض نہیں!!

Tuesday, July 01, 2025

راجواڑے‘ امریکہ اور بھارت

کتے کتیا کی شادی تھی۔ بہت بڑی تقریب ہوئی۔ بہت سے راجے‘ مہاراجے‘ نواب مدعو کیے گئے۔ خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ انگریز افسر بھی بلائے گئے۔ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔

یہ کوئی افسانہ نہیں۔ اصل میں ایسا ہی ہوا تھا۔ ہندوستان میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار تھا‘ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ملکہ برطانیہ کی حکمرانی براہِ راست در آئی۔ دونوں ادوار میں کچھ ریاستیں اور راجواڑے زندہ رکھے گئے۔ بڑی چھوٹی ریاستیں کل ملا کر پونے چھ سو کے لگ بھگ تھیں۔ حیدرآباد‘ پٹیالہ‘ کپور تھلہ‘ بہاولپور‘ خیرپور‘ گوالیار‘ میسور‘ ملیر کوٹلہ‘ سوات‘ الوَر‘ بیکانیر‘ جے پور اور کئی سو دوسری!! یہ ''آزادی‘‘ برائے نام تھی۔ ہر ریاست میں ایک انگریز افسر تعینات تھا۔ اسے ریزیڈنٹ کہتے تھے اور اس کی قیامگاہ کو ریزیڈنسی!! ریزیڈنسی عام طور پر ایک عالی شان عمارت ہوتی تھی اس لیے کہ یہ انگریزی اقتدار کی علامت تھی۔ اہم فیصلے یہیں ہوتے تھے۔ اصل اور حقیقی حکمران یہی ریزیڈنٹ تھے۔ جانشینی کا فیصلہ بھی ریزیڈنٹ ہی کرتا تھا۔ ریزیڈنٹ مقامی راجہ یا نواب کی کڑی نگرانی کرتا تھا کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جو انگریز سرکار کے مفادات کے خلاف ہو۔ ایک لحاظ سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے کام ریزیڈنٹ کرتا تھا اور راجہ یا نواب صرف عیاشی! بڑے بڑے محلات‘ متعدد بیگمات‘ ہاتھی گھوڑے اور دیگر عیش وعشرت کے اسباب کام میں لائے جاتے۔ کھانے پینے پر زور تھا۔ شیر مال‘ شامی کباب اور کئی دیگر کھانے لکھنؤ کے حکمرانوں کے لیے اسی عہد میں ایجاد ہوئے۔ باورچیوں کو دور دراز سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا جاتا۔ ایک ریاست میں راجہ تھا کہ نواب‘ اس نے کتیا کتے کی شادی شان وشوکت سے کی۔ ڈیفنس کی پروا نہ تھی اس لیے کہ یہ کام انگریز نے سنبھال رکھا تھا۔
آج کے مشرقِ وسطیٰ کا یہی حال ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں اور راجواڑوں کا مائی باپ انگریز تھا‘ بعینہٖ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا مائی باپ امریکہ ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں کا ڈیفنس انگریز کے ذمہ تھا‘ اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا ڈیفنس امریکہ کے ذمہ ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ جب برطانوی ہند کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دیا ہے تو پھر ریزیڈنسیاں کہاں ہیں اور ریزیڈنٹ کون ہیں؟ یہ کوئی پیچیدہ معمہ نہیں۔ سب کچھ واضح ہے۔ یہ جو ہر ریاست میں امریکی بیس موجود ہے‘ یہی تو ریزیڈنسی ہے۔ بیس کا سالارِ اعلیٰ ریزیڈنٹ ہی تو ہے۔ امریکی سفیرکو بھی آپ ریزیڈنٹ کے مقام پر فائز کر سکتے ہیں۔ آپ اسے وائسرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ بیس کمانڈر اور سفیر اِن ریاستوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی پالیسی سے امریکی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ جس طرح راجہ یا نواب کا سب سے بڑا کام انگریز ریزیڈنٹ کو خوش رکھنا ہوتا تھا اور وہ ریزیڈنٹ کو قیمتی تحفے دیتا تھا اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بھی ہر حال میں امریکہ کو خوش رکھتی ہیں۔ اگر تمام امریکی سربراہوں کو ان ریاستوں کی طرف سے ملے ہوئے ہیروں‘ جواہرات اور زیورات کا وزن کیا جائے تو یقینا سیروں میں نہیں منوں تک جا پہنچے گا۔ اب تو جہاز بھی تحفے میں دیے جانے لگے ہیں۔ نو خیز لڑکیوں کے بال استقبال میں لہرائے گئے ہیں۔ کیا شان ہے ان ریاستوں میں امریکہ کی!! یوں لگتا ہے امریکی صدر مالک ومختار ہے۔ آقا ہے۔
ایک حکمران کے لیے مشکل ترین کام اپنے ملک کا دفاع ہوتا ہے۔ جب ان ریاستوں نے اپنا دفاع امریکہ کو سونپ دیا تو گویا ان کے حکمران مشکل ترین فرض سے بری الذمہ ہو گئے۔ فراغت پا کر یہ اپنے اپنے شوق کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ بلند ترین عمارتوں کی تعمیر کا شوق! جزیرے خریدنے کا شوق! محلات کا شوق! سونے چاندی کا شوق! سونے سے بنی ہوئی گاڑیوں کا شوق! لگژری بجروں
 (Yatchs) 
کا شوق! ایسے طلسمی جہازوں کا شوق جن میں خوابگاہیں ہوں‘ ڈرائنگ روم ہوں اور اٹیچڈ باتھ روم ہوں! جہازوں پر سوار ہونے کے لیے سونے سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہوں! سیر وتفریح کے لیے جائیں تو ہزار ہزار اعزہ واقربا اور خدام ساتھ ہوں۔ تفریح کے لیے میلوں لمبے ساحل ریزرو کرائیں۔
جدید دنیا کی اکثر وبیشتر ایجادات کا سہرا امریکہ کے سر ہے۔ امریکہ کی طاقت اس کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ مغربی تہذیب کے سب سے بڑے مخالف علامہ اقبال تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ اور یہ بھی کہ 
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
مگر اس کے باوجود وہ مغرب کے علم و حکمت کے قائل تھے۔
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمین آتش چراغش روشن است
کہ مغرب کی طاقت اس کے علم و فن کی وجہ سے ہے۔ یہی وہ آگ ہے جس سے مغرب کا چراغ روشن ہے۔
یہ علم و فن ہی ہے اور دنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کرۂ ارض پر حکومت کر رہا ہے۔ اسکے پاس مہلک ترین ہتھیار ہیں جو اس نے اپنی قوتِ بازو سے بنائے ہیں! ہمارے مشرق وسطیٰ کے بھائیوں کے پاس جتنا روکڑا ہے شاید ہی دنیا میں کسی کے پاس ہو۔ مگر اس امارت کے باوجود انکی توجہ علم و فن کی طرف نہیں گئی۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنانے والے‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹی بھی آسانی سے بنا سکتے تھے۔ انڈسٹری لگانے میں بھی دوسرے ملکوں سے آگے بڑھ سکتے تھے۔ چلیے ایٹم بم بنانے میں امریکہ حائل ہے مگر ٹینک‘ ڈرون اور دیگر ہتھیار تو بنا سکتے تھے۔ ہوائی جہاز‘ گاڑیاں اور ٹرک بنانے کے کارخانے تو لگا سکتے تھے۔ ریسرچ کے مراکز تو قائم کر سکتے تھے۔ آئی ٹی کے میدان میں چاہتے تو انڈیا سے مقابلہ کر سکتے ۔ مگر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ دفاع دوسروں کے سپرد کر دیں۔ اور خود ایک ایسی زندگی گزاریں جس میں آرام ہی آرام ہو اور عشرت اور لگژری ہو۔
ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود جس طرح اپنی دفاعی ضروریات پر توجہ دی وہ قابلِ تحسین ہے۔ جس طرح ایران نے اسرائیل کا مقابلہ کیا اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ایران کی بھرپور حمایت کی۔ ہمارے چوٹی کے علما نے ایران کی حمایت کی۔ مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن نے کھل کر ساتھ دیا۔ مولانا فضل الرحمن سے ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی نے پوچھا کہ انہوں نے ایران کی حمایت کیوں کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ایران کی نہیں تو کیا اسرائیل کی حمایت کرتے؟ ہمارے مسلکی اختلافات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ دشمن کے مقابلے کا وقت آئے تو یہ اختلافات ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اولین معاملہ برادر مسلم ملک کی حمایت اور مدد کا ہوتا ہے۔ امید ہے بھارت کے حوالے سے ایران اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرے گا۔ بھارت ایران کے سامنے پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ ایران کو اب ان مسلم ملکوں کے حوالے سے بھی اپنی پالیسیاں بدل لینی چاہئیں جو اس کے مغرب میں واقع ہیں۔ خاص طور پر انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کی حکمت عملی کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس ایکسپورٹ پالیسی سے خوفزدہ ہو کر‘ اس کے رد عمل ہی میں ان ممالک کاجھکاؤ اسرائیل کی طرف ہوا۔ بہترین پالیسی بقائے باہمی کی پالیسی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جاسوسی کا نیٹ ورک جو ایران میں قائم تھا‘ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں میں سرایت کر چکا ہے۔ امید ہے یہ ممالک بھی بھارت کی اصلیت کو جلد ہی جان جائیں گے۔ مہاجن کسی کا دوست ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔

 

powered by worldwanders.com