جو ظاہر ہے وہ دھوکا ہے۔ جو چھپا ہوا ہے وہ اصل ہے۔ اسی لیے اس مضمون کی دعا منقول ہے کہ اے خدا ہمیں چیزیں اس طرح دکھا جیسی ان کی حقیقت ہے‘ اس طرح نہیں جیسے دکھائی دیتی ہیں!
جو نیک دکھائی دیتے ہیں‘ ضروری نہیں وہ نیک ہوں! اکثر حالات میں وہ نیکی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جو برے دکھائی دیتے ہیں‘ لازم نہیں کہ برے ہوں۔ جو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں وہ اشتہار دیتے ہیں نہ اپنی تشہیر دیتے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر ایسا نہ ہو جیسے دعویٰ کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح نہیں رکھتے۔ وہ لباس ایسا نہیں پہنتے جو سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے خلقِ خدا کو اپنی طرف کھینچے‘ وہ ''ہجوم بازی‘‘ نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ میڈیا میں ان کا ذکر کیا جائے‘ وہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے کشف و کرامات کا پرچار ہو اور لوگوں کا رُخ ان کی طرف ہو جائے۔ وہ خلق سے کنارہ کرتے ہیں اس لیے کہ انہیں چہروں کے نیچے اصل چہرے نظر آ جاتے ہیں۔ وہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس بظاہر معزز انسان کا چہرا اصل میں فلاں جانور کا چہرا ہے۔ اور یہ جو عقیدت مندوں کا بازار لگاتا ہے‘ کس جانور کے مشابہ ہے۔ نیک انسان کو‘ پہنچے ہوئے انسان کو ڈھونڈنا نقلی اور کھرے سونے میں امتیاز کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ ہر شے دو صورتوں میں میسر ہوتی ہے۔ ایک صورت اصل ہے۔ دوسری صورت نقل ہے۔ نقل عام ہے۔ اصل خاص ہے۔ جو عام ہے اسے ڈھونڈنا آسان ہے۔ جو خاص ہے اسی کو تلاش کرنا مشکل ہے۔
کیا عجب وہ اَن پڑھ عورت جو گائوں میں بوسیدہ لباس پہنے اپنے گھر کے جانوروں کا گوبر سنبھال رہی ہے‘ جو دودھ بلو رہی ہے‘ جو گھاس کاٹ رہی ہے‘ وہ خدا کے نزدیک معتبر اور پسندیدہ ہو۔ خداوندِ قدوس ڈگریاں نہیں دیکھتا۔ لباس بھی اس کے لیے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا معیار اور ہے جو صرف اسی کو معلوم ہے۔ یہ وہ نصاب ہے جو بتایا نہیں جاتا۔ کیا عجب جس انسان کو ہم کوٹ پتلون میں دیکھتے ہیں‘ جو سوٹڈ بوٹڈ رہتا ہے‘ جو امیر بھی ہے جودنیا کے نقطۂ نظر سے کامیاب ہے‘ وہ پہنچا ہوا بھی ہو! ہمیں اس کے تمام اعمال کا علم نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی نیکی کرتا ہو‘ یا اس نے ایسی نیکی کی ہو جس نے اسے مقبولِ الٰہی بنا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے جو خاتون فیشن ایبل نظر آتی ہے‘ جسے اہلِ مذہب گنہگار سمجھتے ہیں‘ پہنچی ہوئی ہو۔ وہ ایک ہائوس وائف بھی ہو سکتی ہے‘ ایک افسر بھی ہو سکتی ہے‘ کسی کالج کی پرنسپل بھی ہو سکتی ہے‘ ایک خادمہ یا آیا بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں کیا علم اس کے اعمال کیا ہیں؟ یہ جو موچی ہے‘ بازار کے نکڑ پر بیٹھا ہوا‘ زمین پر اپنا سامان رکھے‘ یہی مستجاب الدعوات ہو! یہ جو قلی ہے‘ سر پر بھاری صندوق رکھے‘ لال قمیض پہنے‘ کیا عجب یہی وہ مردِ کامل ہو جس کی ہمیں تلاش ہے۔ مدت ہوئی ایک واقعہ پڑھا تھا‘ شاید احسان دانش صاحب کے حوالے سے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ کسی مستجاب الدعوات بندے کا پتا ہے؟ وہ پوچھنے والے کو لے کر شہر کی پُرپیچ گلیوں میں چلتے رہے۔ بالآخر ایک تھڑے پر پہنچے جس پر بیٹھا ایک موچی پرانے جوتوں کی مرمت کر رہا تھا۔ بتایا کہ یہ مستجاب الدعوات ہے۔ ایک صاحب ہیں‘ ایک ادارے میں عام قسم کی ملازمت کرتے ہیں۔ دیکھنے میں مذہبی نہیں لگتے۔ ( دیکھنے میں مذہبی لگنا بہت آسان ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے) مگر وہ دعا کریں تو کام بن جاتا ہے۔ کوئی ورد‘ وظیفہ‘ تجویز کریں تو قدرت کرم کرتی ہے۔ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ اسے بھی کچھ تعلیم دیں تاکہ وہ بھی ان جیسا ہو جائے۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے غیبت مکمل طور پر‘ سو فیصد‘ چھوڑنا ہو گی! پوچھنے والے صاحب ہنسے! کہا: حضرت! غیبت چھوڑیں گے تو دن کیسے گزرے گا اور شام کیسے کٹے گی؟ غور فرمائیے! غیبت سے اجتناب کتنا مشکل کام ہے۔ یہ تو کوہِ ہمالیہ پر چڑھنے والی بات ہے‘ مگر کچھ لوگ اسی دنیا میں موجود ہیں جو کسی اپنے پرائے کی غیبت نہیں کرتے! جو جھوٹ نہیں بولتے۔ واقعی جھوٹ نہیں بولتے! جو کم تولنے کو موت گردانتے ہیں۔ جو گالی نہیں دیتے! جو اپنے کام پر وقت پر پہنچتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی میں ناجائز نہ مکس ہو جائے۔ جو ہر حال میں وعدہ پورا کرتے ہیں۔ جو قطع رحمی سے بچتے ہیں‘ جنہیں غلطی یا کوتاہی پر معافی مانگنے سے شرم نہیں آتی۔ جو پوشیدہ رہ کر مستحقین کی خدمت کرتے ہیں‘ یوں کہ خود مستحقین کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ کس نے مدد کی ہے۔ جو اتنے محتاط ہیں کہ اپنی آمدنی میں رمق بھر آلودگی کی آمیزش نہیں ہونے دیتے! جو بیوی بچوں کے تمام حقوق پورے کرتے ہیں۔ وہ شخص پہنچا ہوا ہو ہی نہیں سکتا جو تارک الدنیا ہو جائے یا اپنے فرائض سے کنارہ کش ہو کر مہینوں مسجد میں بیٹھا رہے۔ کوئی پیغمبر دنیا کو عاق کر کے کسی کونے میں نہیں بیٹھا۔ پہنچا ہوا وہ ہو گا جو دنیا کے جبڑوں میں رہ کر دنیا کے دندانِ آز سے بچنے میں کامیاب ہو جائے۔ جو بازار‘ کارخانے ‘کھیت‘ دفتر بھی جائے‘ اپنی فیملی میں بھی رہے‘ اعزّہ واقارب سے بھی ملے‘ قوم اور ملک کے لیے بھی کام کرے اور یوں دنیا کے درمیان رہ کر لباسِ زندگی پر دنیا کی آلائشوں کا چھینٹا تک نہ پڑنے دے۔ جسے معلوم ہو کہ قلم کی روشنائی کا‘ سٹیپلر کی سوئی کا‘ گاڑی کے پٹرول کا‘ کارخانے کے تیل کا اور کھیت کے دانے کا بھی حساب ہو گا۔
پہلے بھی عرض کیا اور اس امر کی مسلسل یاددہانی لازم ہے کہ ہر مرد اور عورت کے دو پہنچے ہوئے بزرگ اور پیر اس کے گھر میں موجود ہیں اور وہ اس کے ماں باپ ہیں۔ ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم دیتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ نیک ہوں۔ وہ جیسے بھی ہیں‘ وہی اولاد کے پیر ہیں اور بزرگ ہیں۔ پِیروں کے پائوں میں جرابیں پہناتے ہو‘ ان کے جوتے سیدھے کرتے ہو‘ انہیں جھک کر ملتے ہو‘ انہیں نذرانے دیتے ہو‘ وہ کھڑے ہوں تو تم بیٹھتے نہیں‘ ان کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے‘ اپنے بچوں کو ان کی زیارت‘ خدمت اور اطاعت کے لیے آمادہ کرتے ہو‘ خدا کے بندو! یہ سب کچھ اپنے ماں باپ کے لیے کیوں نہیں کرتے؟ پیر صاحب کو نذرانہ دیتے ہو تو وہ مزید کی توقع رکھتے ہیں۔ ماں باپ پر خرچ کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ خرچہ کیوں کیا؟ انہیں تمہارے خون پسینے کی کمائی کا درد ہے۔ باپ اس زمین کے سینے پر اور اس آسمان کے نیچے وہ واحد مرد ہے جو تمہاری ترقی پر جلتا نہیں اور تمہاری کامیابی سے حسد نہیں کرتا۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ تم اس سے پیچھے رہو۔ صرف باپ چاہتا ہے کہ تم اس سے بھی آگے بڑھو! صرف ماں ہے جو اپنی جان تم پر نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ تم کسی کے گھر میں ایک ماہ رہو تو ساری زندگی اس کا احسان یاد رکھتے ہو۔ ماں تمہیں اپنے گھر میں نہیں‘ اپنے کمرے میں نہیں‘ اپنے بستر پر نہیں‘ اپنے وجود کے اندر نو ماہ رکھتی ہے اور اپنی خوراک‘ اپنا خون سب کچھ تمہیں عطا کرتی ہے۔ کیا کسی پیر نے‘ کسی اور بزرگ نے‘ کسی سوامی‘ کسی مہاتما‘ کسی سادھو نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے ؟
پہنچے ہوئے کو پانا اتنا آسان نہیں! پاس ہو تو ہمیں نظر نہیں آتا۔ دور ہو تو ہم پہنچ نہیں پاتے!!
No comments:
Post a Comment