Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, March 03, 2025

زینب …( 2)

تلخ نوائی …………

روزنامہ دنیا کا اجرا تین ستمبر 2012ء کو ہوا تھا۔ پہلے روز ہی میرا کالم ''بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد یعنی تیرہ ستمبر 2012ء کو اس مضمون (زینب) کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ کل کی طرح یاد ہے وہ تحریر میں نے سکردو میں سیبوں کے ایک باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اسی باغ میں لاہور سے فون آیا تھا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ رو رہی ہے کہ نانا ابو سے بات کرنی ہے۔ بات کی تو کہنے لگی: ابھی لاہور آ جائیے میرے پاس بس ابھی! تب زینب سات برس کی تھی۔ آج تیرہ برس بعد اس تحریر کی دوسری قسط لکھنے بیٹھا ہوں۔ پیدائش اس کی بحر اوقیانوس کے اُس طرف امریکہ میں ہوئی تھی۔ چند ماہ کی تھی کہ پاکستان آ گئی۔ ہر شخص کا مزاج قسّامِ ازل نے الگ تخلیق کیا ہے۔ ایسے نانے دادے بھی دیکھے ہیں جو نواسوں پوتیوں کا شور نہیں پسند کرتے! اللہ کا شکر ہے کہ ایسے سڑیل اور گلے سڑے بابے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ بہرطور میرے لیے زینب ایک عجیب چیز تھی۔ پہلی نواسی یا پوتی یا پوتا یا نواسہ (انگریزی میں سب کے لیے گرینڈ کِڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ایک ایسا کھلونا ہوتا ہے جس کا کوئی مثیل ہے نہ اسے لفظوں میں بیان 
(describe)
 ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں اسے ہر وقت ساتھ رکھتا۔ واک کے لیے جاتا تو اس کی پریم ساتھ ہوتی۔ دفتر سے سیدھا گھر آتا اور اسے اٹھا کر باہر نکل جاتا۔ ایک دن غباروں والا گھر کے سامنے سے گزرا تو اس سے پوچھا: کتنے غبارے ہیں؟ کہنے لگا: چالیس۔ میں نے کہا: سارے دے دو۔ لا کر زینب کے سامنے ڈال دیے۔ جتنی دیر ان سے کھیلتی رہی‘ میری نظریں ہٹیں نہیں! لاہور سے آتی تو ٹول پلازا پہنچ کر انتظار کرتا۔ اسے اس کی اماں ابا کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈال لیتا۔ جاتے وقت کئی بار چکری تک اس کے ساتھ گیا۔
وہ بڑی ہوتی گئی اور میرے لیے اس کھلونے کی کشش میں اضافہ ہوتا گیا۔ زندگی بھر کی مطالعہ کی عادت چھوٹ گئی کہ رات کو وہ دیر تک کہانیاں سنتی۔ کبھی کسی پلے لینڈ میں لے جاتا کبھی کسی پارک میں! ماں باپ اس کے لاہور میں تھے اور وہ زیادہ نانا نانی کے پاس اسلام آباد میں رہتی۔ ایک بار لاہور گئی تو ملازمہ سے یہ کہتی پائی گئی کہ ''میں اچھی بھلی اپنی زندگی جی رہی تھی اسلام آباد میں‘ اور یہ لوگ مجھے یہاں لاہور میں لے آئے ہیں‘‘۔ ہم جب بھی لاہور جا کر چند دن رہتے تو ہمارے واپس آنے پر ضرور روتی۔ راستے میں اس کی اماں کا پیغام ملتا کہ کہہ رہی ہے واپس آ جائیے۔ اسلام آباد سے جاتے وقت بھی اس کی ہچکی بندھ جاتی! جوں جوں بڑی ہوتی گئی‘ اس کی محبت اور ہمارے ساتھ اس کی وابستگی وہی رہی مگر انداز‘ اسلوب اور سٹائل بدلتا گیا۔ اب وہ مجھے بتاتی کہ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کون سی ٹائی کس قمیض کے ساتھ لگانی ہے۔ لاہور جاتا تو وارننگ دیتی کہ آپ نے دوستوں کے پاس نہیں جانا آپ ہمارے لیے آئے ہیں۔ دوستوں کی کسی محفل میں جانا ہوتا تو ساتھ جاتی۔ ورنہ فون کرتی کہ بہت دیر ہو گئی ہے‘ اب آپ واپس آئیے‘ میں انتظار کر رہی ہوں! اس کا چھوٹا بھائی ہاشم خان بھی بڑا ہو رہا تھا۔ یوسف زئی قبیلے کی روایت کے عین مطابق ہاشم خان پندرہ برس کا ہوا تو قد ماشاء اللہ چھ فٹ دو انچ ہو چکا تھا۔ جس دن ہم نے لاہور سے واپس آنا ہوتا تو اس سے پہلی رات‘ دونوں بہن بھائی آکر ہمارے پاس بیٹھ جاتے اور بحث کرتے کہ کل کیوں جا رہے ہیں؟ وہاں کون سا کام ہے جو آپ کے بغیر رکا ہوا ہے؟ ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ دوسرے دن اتنا شور مچاتے اور احتجاج کرتے کہ ہمیں ایک دو دن مزید رکنا پڑتا۔
وقت ایک زقند کے بعد دوسری زقند بھرتا گیا۔ اب زینب نے اے لیول پاس کر لیا تھا۔ گاڑی بھی چلانے لگی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کے لیے فلاحی کام بھی کر رہی تھی۔ وطن کی زمین پروفیشنل افراد پر تنگ ہو رہی تھی۔ اور تنگ ہو رہی ہے۔ اس کا والد‘ جو دل کا ایک نامور جرّاح ہے‘ واپس امریکہ چلا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ زینب کی اماں میری بیٹی ہے۔ لخت جگر ہے۔ یاد آتی ہے تو دل میں درد یوں لہراتا ہے جیسے بِین کی آواز پر سانپ لہراتا ہے۔ پھر بیٹی کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی یاد آتی ہے۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ماہ وَش زینب بن جاتی ہے اور زینب ماہ وَش بن جاتی ہے۔ وہ اپنی اماں کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس کی اماں میرے دل کا ٹکڑا۔ گویا میرے دل کے ٹکڑے میں ایک اور دل ہے اور اس دل میں ایک اور ٹکڑا۔ لخت در لخت! پارہ در پارہ! زخم میں مرہم ہے اور مرہم میں زخم!! درد میں دوا ہے اور دوا میں پھر درد ا! آنکھیں بند کر کے سوچتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتنے ٹائم زون‘ کتنے سمندر‘ کتنے براعظم‘ کتنے ممالک پڑتے ہیں۔کروڑوں تو بادل ہی ہوں گے! اربوں تو پرندے ہی ہوں گے!
ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں‘ پانی اور اندھیرا
کوئی دوری سی دوری ہے! کوئی فراق سا فراق ہے! کوئی ہجر سا ہجر ہے! کوئی جدائی سی جدائی ہے۔ جسم کے اندر وریدوں میں اور وریدوں کے اندر بہتے لہو میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اوپر چڑھے ماس میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں لاکھوں چراغ جیسے بجھ گئے ہیں اور ان کا دھواں بھر گیا ہے! یہ کیسا دھواں ہے کہ اندر سے باہر آتا ہے اور آنکھوں سے پانی بہاتا ہے‘ یوں کہ راستہ سجھائی نہیں دیتا! بیٹیاں مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کر کر کے مانگی تھیں۔ سخاوت کرنے والے نے بے نوا دریوزہ گر کو دو بیٹیاں عطا کیں۔ صورت میں سیرت سے بڑھ کر اور سیرت میں صورت سے بڑھ کر۔ ایک سمندر پار چلی گئی ہے۔ خود تو گئی ہی تھی‘ ساتھ زینب کو بھی لے گئی۔ گویا بینائی تو گئی ہی تھی ساتھ عصا بھی چلا گیا! میں تو مجید امجد کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ:
پلٹ پڑا ہوں شعائوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتا
دوست تسلی دیتے ہیں کہ اب تو وڈیو پر بات ہو جاتی ہے اور مجھے فراز کا شعر یاد آ جاتا ہے:
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
پھر سوچتا ہوں کرب کے اس ریگستان میں میں اکیلا تو نہیں! ہوا میں اُڑنے والے فولادی پرندوں نے گھر گھر سے ماہ وَش اور زینب اور ہاشم اور قاسم کو نگلا اور دور کے ساحلوں پر جا کر اگل دیا۔ کتنے ہی نانے دادے اور نانیاں دادیاں اپنی اپنی ماہ وَش اور اپنی اپنی زینب کے ہجر میں اداس بیٹھی ہیں۔ سانسوں کی آمد ورفت کا کاروبار ختم ہوا تو کون جانے زمین کے مختلف ٹکڑوں میں پھیلے ہوئے یہ لخت ہائے جگر‘ یہ بیٹے بیٹیاں‘ یہ پوتے پوتیاں‘ یہ نواسے نواسیاں پہنچ پائیں گی یا نہیں! یا بعد میں آکر کچی قبروں پر سبز پودے لگائیں گی! دعا کریں گی۔ آنسو بہائیں گی اور پھر اپنے اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر دور کے دیاروں میں گم ہو جائیں گی! ہجرتوں کا دور ہے! لگتا ہے اس ملک سے سارے ڈاکٹر‘ سارے سائنسدان‘ سارے اہلِ علم‘ سارے صنعتکار ہجرت کر جائیں گے۔ صرف ڈیرے دار وڈیرے‘ حکومتوں کے موروثی دعویدار اور نسل در نسل حکمرانی کرنے والے نیم خواندہ خاندان ہی پیچھے رہ جائیں گے!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com