Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 04, 2025

رویتِ ہلال کمیٹی کی حمایت میں


اس لحاظ سے ہم خوش بخت ہیں کہ ملک میں ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے۔ چاند کب نظر آتا ہے‘ کب نہیں‘ یہ محکمہ موسمیات کا کام نہیں‘ نہ سائنسدانوں ہی کے بس کی بات ہے۔ یہ صرف اور صرف رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے اور اسی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ حال ہی میں رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز‘ قابلِ احترام سربراہ نے صوبوں کے گورنروں اور چند وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ نالائق لوگ اعتراض کریں گے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کا گورنروں سے کیا تعلق؟ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اربابِ اقتدار سے میل ملاقاتوں کا اثر چاند دیکھنے پر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ کچھ احمق سائنسدانوں نے اگلے ایک سو سال کا کیلنڈر بنا کر چاند نکلنے کے دن اور تاریخیں بتا دی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم سائنس‘ ٹیکنالوجی اور موسمیات کے علوم پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر سائنس پر یقین کریں گے تو رویتِ ہلال کمیٹی کا کیا ہو گا؟
تاہم رمضان میں یہ جو افطار اور سحری کے اوقات گھڑی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں‘ یہ ہرگز مناسب نہیں! قرنِ اول میں گھڑیاں کہاں تھیں؟ ان گھڑیوں کی حیثیت بالکل اُس کیلنڈر جیسی ہے جو کچھ برخود غلط سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور جو اگلے سو سال کے لیے رمضان کے آغاز اور اختتام کا تعین کرتا ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ گھڑی دیکھ کر روزہ کھولو اور گھڑی دیکھ کر سحری کے وقت کھانا پینا بند کرو! حکم تو یہ ہے کہ اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ اس صاف اور واضح حکم کی تعمیل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز سربراہ‘ بنفس نفیس یا ان کا کوئی قابلِ اعتماد نمائندہ سحری کے وقت چھت پر چڑھ کر دیکھے اور جیسے ہی سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ ئے‘ سحری بند ہونے کا اعلان کر ے۔
اور خدا کا خوف کیجیے۔ یہ جو ہر مسجد میں اوقاتِ نماز کے لمبے چوڑے چارٹ لگے ہیں‘ ان کا کیا جواز ہے ؟ اور یہ جو الیکٹرک (برقی) بورڈ ہر مسجد میں محراب کے ساتھ والی دیوار پر ٹنگے ہیں‘ جن پر آنے والی نماز کا وقت روشن ہوتا ہے‘ ان برقی بورڈوں کی حیثیت اسی کیلنڈر کے برابر ہے جو رمضان اور عید کی تاریخوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر کیلنڈر کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھا جا سکتا اور اگر کیلنڈر کی بنیاد پر عید نہیں منائی جا سکتی تو گھڑیوں اور برقی بورڈوں کی بنیاد پر نمازیں کیسے پڑھی جا سکتی ہیں؟ ایک معروف مذہبی ویب سائٹ پر نماز کے اوقات معلوم کرنے کا جو اصل طریقہ درج ہے‘ اسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔
''رات کے آخری پہر میں صبح ہوتے وقت مشرق کی طرف سے آسمان کی لمبائی میں کچھ سفیدی دکھائی دیتی ہے‘ جو تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتی ہے‘ اور اندھیرا ہو جاتا ہے‘ اسے ''صبح کاذب‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس کے تھوڑی دیر بعد آسمان کے کنارے پر کچھ سفیدی چوڑائی میں دکھائی دیتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے‘ اور تھوڑی دیر میں بالکل روشنی ہو جاتی ہے‘ اسے ''صبح صادق‘‘ کہا جاتا ہے‘ جس سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج نکلنے تک باقی رہتا ہے‘ اور جب سورج تھوڑا سا بھی طلوع ہو جائے تب فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
سورج طلوع ہوکر جتنا اونچا ہو جاتا ہے‘ ہر چیز کا سایہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے‘ سو جب سورج سر پر آ جائے اور سایہ گھٹنا موقوف ہو جائے‘ یہ دوپہر کا وقت ہے‘ اس وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ ''اصلی سایہ‘‘ کہلاتا ہے‘ پھر جب سورج ڈھل جائے اور سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو اس کو ''زوال‘‘ کہتے ہیں‘ جس سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب ہر چیز کا سایہ (اس کے اصلی سایہ کے علاوہ) دو گنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ بہتر یہ ہے کہ ظہر کو ہر چیز کا سایہ ایک گنا ہونے تک پڑھ لیا جائے۔اور جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ اس کے دو مثل (دو گنا) ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج ڈوبنے تک باقی رہتا ہے۔اور جب سورج غروب ہو جائے تو مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب تک مغرب کی طرف آسمان کے کنارے پر سرخی کے بعد سفیدی باقی رہے‘ اس وقت تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے‘ اور شفقِ ابیض (سرخی کے بعد والی سفیدی) کے بعد مغرب کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔اور جب آسمان کے کنارے مغرب کی طرف کی سرخی کے بعد آنے والی سفیدی جاتی رہے تو عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور صبح صادق ہونے تک باقی رہتا ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نماز کے اوقات میں گھڑی کا کوئی عمل دخل نہیں! اب یا تو نمازوں کے اوقات کا اعلان رویتِ ہلال کمیٹی کے سپرد کیا جائے یا ایک اور سرکاری ادارہ بنایا جائے جس کا نام ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ ہو! یہ کمیٹی رات کے آخری پہر چھت پر جائے اور دیکھے کہ آسمان کی لمبائی میں سفیدی کب دکھائی دیتی ہے اور کب ختم ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کمیٹی صبح کاذب ہوجانے کا اعلان کرے۔ کچھ دیر کے بعد کمیٹی دوبارہ چھت پر چڑھے اور نوٹ کرے کہ آسمان کے کنارے پر سفیدی چوڑائی میں کس وقت دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت کمیٹی اعلان کرے کہ صبح صادق ہو گئی ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت طے کرنے کے لیے کمیٹی ایک چھڑی یا ڈنڈا زمین میں گاڑے۔ جب اس چھڑی یا ڈنڈے کا سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کے وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ اس کے اصلی سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ‘ اصل سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ عصر کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ مغرب کے لیے کمیٹی کو ایک بار پھر چھت پر جانا ہو گا۔ جب سرخی کے بعد والی سفیدی ختم ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ مغرب کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ تب عشاکا وقت شروع ہو جائے گا۔
ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت کا اختتام دیکھنے کے لیے جو لوگ وفاق میں اور صوبوں میں چھتوں پر چڑھ کر دیکھیں گے کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری کس وقت نمایاں نظر آ تی ہے‘ ان کے لیے وزارتِ خزانہ ''سحری الاؤنس‘‘ منظور کرے۔ اسی طرح ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ کے لیے بجٹ میں ''چھت الاؤنس‘‘ رکھا جائے۔ رہنما کمیٹی وفاق میں ہو گی‘ صوبوں کی ''اعلانِ نماز کمیٹیاں‘‘ وفاقی کمیٹی کے ماتحت کام کریں گی۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر‘ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے وفاق اور صوبوں میں نئی وزارتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان وزارتوں کا نام ہو گا ''وزارت برائے اختتام سحری و اوقاتِ نماز‘‘۔
یہ بھی لازم ہے کہ کوئی شخص اگر گھڑی کی مدد سے سحری ختم کرے یا گھڑی دیکھ کر نماز کے وقت کا تعین کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے جو چودہ سال سے لے کر عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ اور ہاں‘ اگر کوئی شہری رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لیے سائنس‘ ٹیکنالوجی یا علومِ موسمیات سے مدد لینے کی بات کرے تو اسے پھانسی کی سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ رویتِ ہلال کمیٹی کو تین یا چار چارٹرڈ جہاز اور ایک درجن ہیلی کاپٹر دیے جائیں تا کہ وہ بادلوں سے اوپر جا کر چاند کو نزدیک سے دیکھ سکیں!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com