ایک محترم وفاقی وزیر نے بھیک مانگتی فقیرنی کو‘ میڈیا کے بقول‘ جھاڑ پلائی ہے۔ اسے مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ''آپ کے گھر کے مرد کام نہیں کرتے کہ انہوں نے آپ کو کام پر لگا دیا ہے۔ بھیک مانگنا شرمناک کام ہے‘‘۔ فقیرنی نے بعد میں بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے مجبور ہے۔ گھر چلانا مشکل ہو چکا ہے۔
محترم وفاقی وزیر کا یہ اقدام‘ ہم سمجھتے ہیں‘ لائقِ تحسین ہے۔ اصل میں یہ اصلاحِ معاشرہ کی مہم ہے جو انہوں نے شروع کی ہے۔ ایک بات وہ بھول گئے۔ انہیں چاہیے تھا کہ فقیرنی کو آسان ترکیب بھی بتاتے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ۔ یاد آیا کہ جب عمران خان اپنی تقریروں میں لوگوں کے نام رکھتے تھے تو کہا جاتا تھا‘ اور درست کہا جاتا تھا‘ کہ کلامِ پاک میں تضحیک آمیز نام رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یقینا آج بھی کہا جائے گا‘ اور کہنا بھی چاہیے‘ کہ کلام پاک میں سوالی کو جھڑکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایک تو دیتے کچھ نہیں اوپر سے جھڑکتے بھی ہیں! وزیر صاحب کی اتباع میں ان کے شہر کی پولیس نے بھی اصلاحِ معاشرہ کی مہم شروع کر دی۔ آخری خبریں آنے تک 19بھکاریوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے اور تفتیش شروع کر دی گئی۔ یہ معلوم نہیں ان کے خلاف کون سی دفعہ لگے گی اور تفتیش کن خطوط پر ہو گی۔ کیا اس کی ذمہ داری معاشرے پر عائد کی جائے گی؟ یا ریاست پر؟ یا معاشرے کے متمول افراد پر؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ بھکاری مردوں‘ خواتین اور بچوں کو کب تک گرفتار رکھا جائے گا؟ کیا رہائی کے بعد انہیں کوئی روزگار دیا جائے گا؟ یا ریاست انہیں گھر اور دیگر اشیائے ضرورت مہیا کرے گی؟ ان پہلوؤں پر پولیس سوچتی ہے نہ وزرا کرام! ایسی سوچ کے لیے سطحی نہیں گہری سوچ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تدبر اور تفکر درکار ہے۔ اس کے لیے سنجیدگی چاہیے۔ جب حکومتیں سارا وقت اس فکر میں گزار دیں کہ وہ کب تک قائم رہتی ہیں اور مخالفین کو کیسے قابو میں رکھا جائے تو انہیں بھیک ختم کرنے کے لیے سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہو گی؟ جہاں حکومتیں سموگ ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتیں‘ وہاں بھکاریوں کو معزز شہری بنانے کا مشکل کام کون کرے گا؟ اور تعلیم اور زرعی اصلاحات جیسے مسائل پر کون سوچے گا؟
ان تمام مشکلات کے با وجود محترم وزیر صاحب نے جس اصلاحی تحریک کی ابتدا فقیرنی کو ڈانٹنے سے کی ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ محترم وزیر صاحب اس تحریک کو صرف بے بس‘ قلاش اور کم حیثیت‘ بلکہ بے حیثیت فقیرنیوں تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ رسی کا دوسرا سرا بھی پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ اپنی جماعت کے قائدین کو لندن لندن‘ جنیوا جنیوا کھیلنے سے منع کریں گے؟ جب اس بھوکی ننگی قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے خزانوں کی کوئی حد ہے نہ شمار‘ تو پھر وہ بار بار اس بے کنار امارت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ کبھی لندن کے ریستورانوں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی جنیوا کی شاہراہوں پر اطمینان بخش چہل قدمی نظر آتی ہے۔ پہلے قوم کو بتایا گیا کہ پانچ یورپی ملکوں کے دوروں پر تشریف لے جا رہے ہیں اور یہ کہ ان دوروں کے دوران اہم ملاقاتیں متوقع ہیں! قوم‘ بالخصوص پارٹی کے وابستگان اور جان نثار جاننا چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کی ملاقات پانچ یورپی ملکو ں کے کن سربراہوں‘ کن سیاستدانوں اور کن سٹیٹس مین سے ہوئی ہے؟ کیا کوئی طے شدہ ایجنڈا تھا؟ کیا کوئی مشترکہ پریس کانفرنس بھی ملاقاتوں کے بعد ہوئی اور کیا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا؟
ویسے یہ پانچ کا عدد بھی خاصا پُر اسرار لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب اور ان کے بچوں کے لیے یہ عدد متبرک بھی ہو۔ لندن میں مقیم ایک معروف صحافی نے دو سال پہلے 21نومبر 2022ء کو خبر دی تھی کہ ''سابق وزیراعظم نواز شریف‘ مریم نواز‘ ان کے بیٹے جنید صفدر اور حسین نواز لندن سے مختلف ممالک کی سیر کو چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق اگلے دس دنوں میں نواز شریف اور ان کی فیملی پانچ یورپی ممالک کا دورہ کریں گے‘‘۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دو سال پہلے بھی پانچ ممالک کا دورہ کیا گیا تھا اور وہ بھی نومبر ہی میں کیا گیا تھا؟ ایک عام پاکستانی کے لیے معاملہ پُر اسرار ہونا ہی ہے۔ اللہ ہماری وزیراعلیٰ کو صحت دے۔ سلامت رہیں اور طویل عمر‘ تندرستی کے ساتھ‘ پائیں۔ اللہ تعالی میاں صاحب کو بھی تا دیر سلامت رکھے اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ آخر وہ کون سا عارضہ ہے جس کا علاج لندن میں نہیں‘ جنیوا ہی میں ممکن ہے۔
لگے ہاتھوں محترم وفاقی وزیر یہ استفسار بھی کر لیں کہ کیا سینئر صوبائی وزیر کے بغیریہ دورہ نہیں ہو سکتا تھا؟ وہ سینئر وزیر ہونے کے علاوہ صوبے کی وزیرِ ماحولیات بھی ہیں۔ جب صوبہ سموگ کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا تو وہ جنیوا میں غایت درجے کی طمانیت کے ساتھ چل پھر رہی تھیں۔ اُس وقت لاہور کی ہوا کا انڈیکس بارہ سو تھا اور جنیوا کا پچاس کے لگ بھگ!! صوبے کے چیف بیورو کریٹ بھی ہمراہ تھے۔ وہ خوش بخت ہیں۔ سعدی نے حکایت لکھی ہے کہ دو بھائی تھے۔ ایک محنت مزدوری کرتا تھا اور آرام سے زمین پر بیٹھتا تھا۔ دوسرا سنہری پیٹی کمر سے باندھے بادشاہ کے حضور کھڑا رہتا تھا۔ سنہری پیٹی باندھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ سنہری پیٹی سے مراد سنہری پیٹی نہیں بلکہ اقتدار‘ اثر و رسوخ اور رعب داب ہے۔ بادشاہوں کا قرب بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اس کے لیے آرام اور نیند کو تج دینا معمولی قربانی ہے۔ بادشاہ آدھی رات کو بھی بلا سکتا ہے اور تڑکے بھی! باریابی کے لیے گھنٹوں نہیں پہروں انتظار گاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ مگر اس سب کچھ سے عوام میں جو ٹَور بنتی ہے‘ اس کا جواب نہیں! اور پھر ساتھ ہی لندن اور جنیوا کی سیر! اس موضوع پر اشفاق احمد کی ایک نظم کمال کی ہے۔ (کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ شاعری بھی کرتے تھے)
اوکھا گھاٹ فقیری دا بھئی! اوکھا گھاٹ فقیری دا
مِسلاں دے وِچ ویلا کڈھنا‘ میٹنگ دے وِچ بہنا
اوکھیاں دے نال متھا لا کے یس سر! یس سر! کہنا
ہسدے ہسدے رہنا
اپنی سیٹ تے عاجز بن کے اگے ہو کے بہنا
مرشد مُوہرے گل نہ کرنی‘ جو آکھے سو سہنا
دنیاداری کم نئیں‘ ایہہ کم ہے پِتّا چِیری دا
اوکھا گھاٹ فقیری دا
ہمارا شاہی خاندان یوں بھی اپنے پسندیدہ افسروں کی سرپرستی اور فلاح و بہبود کیلئے معروف ہے۔ ہاں! وفا داری شرط ہے۔ کسی کو سینیٹ کا رکن بنا دیتے ہیں کسی کو وفاقی وزیر! کسی کو ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن میں سفیر اور واپسی پر ورلڈ بینک میں تعیناتی۔ اسے کہتے ہیں تہہ در تہہ کرم فرمائیوں کی بارش اور وہ بھی موسلا دھار! ایسی ہی بارشوں میں ایچی سن کالج کا پرنسپل بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے! کون کہتا ہے کہ بادشاہوں کا زمانہ لد گیا۔ بادشاہ ہی تو ہیں جو دولت کا کروفر دکھا رہے ہیں!بس کر دو یار! خدا کیلئے بس کر دو!
No comments:
Post a Comment