ہم نے سفر ساتھ ساتھ شروع کیا تھا! پھر ہم آگے نکل گئے۔ بھارت پیچھے رہ گیا۔ کئی کوس‘ کئی میل پیچھے! کیوں؟ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں
ہم نے اپنے عوام کی امنگوں کا خیال رکھا۔ ان کی لسانی‘ نسلی اور علاقائی حساسیت کو سمجھا اور مطمئن کیا۔ ہم نے کئی نئے صوبے بنائے۔ جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے نئے صوبے بنائے۔ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور شنکیاری سے لوگوں کو پشاور جانا پڑتا تھا۔ ہم نے ہزارہ کے نا م سے الگ صوبہ بنا دیا۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو پشاور جانے کی صعوبت سے بچاتے ہوئے جنوبی کے پی کا ایک اور صوبہ بنایا۔ سندھ کے شمالی اضلاع شکارپور‘ کشمور‘ جیکب آباد‘ سکھر‘ خیرپور‘ دادو وغیرہ کو کراچی کے نکاح میں دینے کی کیا تُک تھی۔ ہم نے انتظامی طور پر شمالی اضلاع کو کراچی کی انتظامیہ سے نکال کر شمالی سندھ کے نام سے الگ صوبہ بنا دیا۔ نئے صوبے بنانے سے اختیارات کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ اب تھرپارکر‘ عمرکوٹ‘ میرپور خاص اور سانگڑ کے اضلاع پر مشتمل مشرقی سندھ کے نام سے ایک اور صوبہ بنا رہے ہیں! سیاستدان کراچی‘ لاہور‘ پشاور کو خوش کرنے کے بجائے مقامی مسائل پر توجہ دینے لگ گئے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی حکومتوں کی نااہلی اور کم فہمی کا اندازہ لگائیے۔ جب سے انگریز گئے ہیں‘ ایک بھی نیا صوبہ نہیں بنایا۔ وہی لکیر کے فقیر! وہی بنے بنائے راستوں پر دھول اڑاتا ناکام سفر۔ کاش بھارت پاکستان سے کچھ سیکھتا! اور عوام کی خواہشات کا احترام کر کے انہیں سہولتیں بہم پہنچاتا!
ٹرانسپورٹ کی طرف آئیے۔ بھارت پاکستان سے کئی نُوری سال پیچھے ہے۔ پاکستان کی دور اندیش حکومتوں اور منصوبہ سازوں کو علم تھا کہ بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنی ہے تو اس کی بہترین صورت انڈر گراؤنڈ‘ یعنی زیر زمین ریلوے ہے۔ یہی سوچ لندن‘ پیرس‘ نیویارک اور دیگر بڑے شہروں کی تھی۔ پاکستان کو یہ بھی روزِ اول سے علم تھا کہ جتنی بسیں‘ ویگنیں‘ سوزوکیاں چلائیں گے‘ مسئلہ حل نہیں ہو گا سوائے زیر زمین ریلوے کے۔ چنانچہ آج پاکستان کے تمام گنجان آباد شہروں میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کامیابی سے چل رہی ہے۔ اسلام آباد کی زیر زمین ریلوے نے ٹیکسلا‘ ترنول‘ روات اور دیگر مضافاتی بستیوں کو اسلام آباد کے مرکز سے جوڑ دیا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ فیصل آباد اور سکھر میں انڈر گراؤنڈ ریلوے بے مثال کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ اسلام آباد میں میلوڈی مارکیٹ سے زیر زمین ریلوے میں سوار ہوں تو آدھ گھنٹے میں ایئر پورٹ پہنچا دے گی اور بیس منٹ میں پنڈی صدر! یہی حال لاہور‘ کراچی کا ہے۔ اس سے فضائی آلودگی بھی کم ہوئی ہے اور ترقی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے باعزت ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ یہ تھی دور اندیشی پاکستانی لیڈر شپ کی۔ بھارت اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہلی‘ کولکتہ اور دیگر بڑے شہروں کے لوگ پرانی کھٹارا بسوں میں اور دھواں اڑاتے رکشوں میں خوار ہو رہے ہیں۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے ان کے خیال وخواب میں بھی نہیں۔ ٹیکسی والوں کی چاندی ہے۔ پاکستان نے خیر سگالی اور خیر خواہی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کو بے لوث پیشکش کی تھی کہ پاکستان زیر زمین ریلوے کے منصوبوں میں بھارت کی مدد کرنے کو تیار ہے مگر بھارت کی جھوٹی انا حسبِ معمول آڑے آئی۔
اب ذرا آئی ٹی کا ذکر ہو جائے۔ ہم اس وقت پوری دنیا کا اس حوالے سے مر کز ہیں۔ فیصل آباد‘ بہاولپور‘ مردان‘ ٹنڈو اللہ یار‘ گھوٹکی‘ لاڑکانہ اس وقت پوری دنیا کی آئی ٹی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ بل گیٹس سال میں کئی چکر پاکستان کے لگاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ہم نے بھارت کو پُرخلوص پیشکش کی کہ ہم حیدرآباد‘ بنگلور‘ چنائی اور گڑگاؤں کو آئی ٹی کے ضمن میں اپنے پَیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں مگر بھارت تعصب کے کنویں سے نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ اس وقت امریکہ میں تمام بڑی بڑی کارپوریشنوں اور آئی ٹی کے اداروں کے سربراہ پاکستانی ہیں۔ ٹرمپ اور کملا ہیرس‘ دونوں کے مشیروں کی بڑی تعداد پاکستانیوں سے تھی۔ اس وقت ایشیا میں‘ بالخصوس جنوبی ایشیا میں پاکستان کی پوزیشن وہی ہے جو یورپ میں لندن کی ہے اور امریکہ میں نیویارک کی ہے۔
مگر افسوسناک ترین باب اس تذکرے کا بھارتی لیڈرشپ اور پاکستانی لیڈرشپ میں موازنے کا ہے۔ بھارتی قیادت پاکستانی قیادت کے مقابلے میں بالکل گاؤدی‘ بودی اور ہونّق نکلی۔ آپ سابق وزیراعظم گلزاری لال نندہ کو لے لیجیے۔ کرائے کے مکان میں عُسرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ جو آدمی اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل محفوظ نہ کر سکا‘ وہ اپنی قوم کے لیے کیا کرے گا۔ شاستری کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بینک میں چھ سو روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ کوئی بات ہے بھلا؟ منموہن سنگھ کی وارڈروب میں تین‘ چار کرتوں پاجاموں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔مہنگائی کے خلاف جلوس نکلتا تو اس کی پتنی اس جلوس میں شامل ہوتی۔ اسے دنیا میں دیانت دار ترین وزیراعظم قرار دیا گیا۔ ایسی دیانت کس کام کی۔ یہی حال واجپائی‘ گجرال اور مرار جی ڈیسائی کا رہا۔ یہ لوگ اس قدر نا لائق تھے کہ برطانیہ‘ امریکہ یا یو اے ای میں اپنے لیے ایک جھونپڑا تک نہ بنا سکے۔ مودی صاحب کے کُرتے سنا ہے بہت قیمتی ہوتے ہیں اور ان کے ناشتے کے لیے مشروم بھی باہر سے آتے ہیں مگر کم حیثیتی دیکھیے کہ بھارت سے باہر بینک بیلنس ہے نہ پراپرٹی۔ اس کے مقابلے میں کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جو ہماری لیڈرشپ کی مستقبل بینی کی داد نہ دے گا۔ ہمارے قائدین نواز شریف ہوں یا زرداری صاحب یا عمران خان‘ ایک خاص معیارِ زندگی رکھتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا وزیراعظم بھارت کے نصیب میں ہوا ہے جو تمام دورِ اقتدار میں صرف اور صرف ہیلی کاپٹر سے دفتر آیا گیا ہو۔ کیا کسی بھارتی صدر یا وزیراعظم کے لندن یا یو اے ای میں یا امریکہ میں محلات ہیں؟ کیا کسی نے کروڑوں کی گھڑی کلائی پر باندھی ہے؟ صاحبزادی کے ساتھ امریکہ‘ جنیوا اور باقی یورپ میں گھومنے کی سعادت کیا کسی سابق بھارتی وزیراعظم کے حصے میں آئی ہے۔ ظاہر ہے سرکاری کام تو ریٹائرڈ حیثیت میں ہو نہیں سکتا۔ مگر افسوس کہ بھارتی لیڈرشپ کی اتنی پسلی ہی نہیں! یہ افتخار ہمارا ہی ہے کہ ہمارے صدرِ مملکت علالت میں دبئی تشریف لے جاتے ہیں۔ ایسی حیثیت کسی بھارتی صدر کو نہیں ملی۔ یہ تو غیر جمہوری لیڈرشپ کا حال ہے۔ جمہوری لیڈر شپ کی‘ جیسے ایوب خان‘ ضیاالحق اور پرویز مشرف۔ ان کی آئندہ نسلیں سنور گئیں۔ اقتدار وراثت میں لکھ دیا گیا۔ ایوب خان کے پوتے ماشاء اللہ ہر پارٹی میں اور ہر حکومت میں ممتاز مناصب پر فائز رہے۔ ایک اور جمہوری جنرل صاحب کے صاحبزادے مستقل سیاست میں ہیں مگر ذریعۂ معاش کوئی نہیں جانتا۔ رہے جمہوری صدر جنرل پرویز مشرف تو انہوں نے تو ماشاء اللہ اقتدار کے بعد پاکستان کو طلاق ہی دے دی۔ اتنا کچھ بنا لیا تھا کہ اپنی اور خاندان کی بود وباش دساور ہی میں رکھی اور بڑے سٹائل میں رکھی۔ اس کے مقابلے میں بھارتی لیڈرشپ کی نالائقی پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ بھائی‘ اپنے لیے نہ سہی‘ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ہی کچھ کر لیتے۔ بھارت سے باہر کوئی محلات کوئی اپارٹمنٹ حاصل کر لیتے۔ ہماری لیڈرشپ کی دور اندیشی ملاحظہ ہو۔ بچوں کی قومیت تو فرنگستان کی ہے ہی‘ ماشاء اللہ! نواسے اور پوتے بھی پولو وہیں کھیلتے ہیں۔
یہ کوئی رسمی پیشکش نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ پڑوسی کا حق ہوتا ہے۔ اوپر بیان کردہ شعبوں میں کسی شعبے کے لیے بھی ہماری مدد یا ہمارے وسائل کی ضرورت ہو تو چشم ما روشن دلِ ما شاد! انسان ہی انسانوں کے اور قومیں ہی قوموں کے کام آتی ہیں! آزمائش شرط ہے!
No comments:
Post a Comment