نظر کا چشمہ نویں جماعت ہی میں لگ گیا تھا یعنی چودہ سال کی عمر میں! نمبر بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ عینک کے ساتھ ساری زندگی کی رفاقت رہی۔ اس سے جدائی صرف تین حالتوں میں رہی۔ نہاتے دھوتے وقت‘ نماز کے دوران اور نیند کی حالت میں! عمر بھر جو نصابی اور غیرنصابی‘ فضول اور کارآمد‘ مفید اور غیرمفید‘ سنجیدہ اور غیرسنجیدہ‘ مشکل اور آسان کتابیں پڑھیں اور جس زبان میں بھی پڑھیں‘ نثر کی یا شاعری کی یا جس فن کی بھی‘ عینک کی مدد ہی سے پڑھیں۔ کتاب فروشوں کی طرح عینک سازوں سے بھی دوستی رہی۔
یہ کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ ہمارے ساتھ کے کئی صاحبان نے سفید موتیے (کیٹا ریکٹ) کی سرجری کرا لی ہے۔ ہمیں بھی معائنہ کروا لینا چاہیے۔ اہلیہ کو لیا اور ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور کہا کہ آپ دونوں میاں بیوی فوراً سرجری کرائیے۔ ان کا انداز اور اصرار کچھ ایسا تھا کہ ہم دل میں قائل نہ ہوئے اور زبان سے ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آگئے۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ ان کی باتوں سے بھی کاروبار کی میٹھی میٹھی خوشبو آرہی تھی اور کاروبار کی خوشبو اس مزاج کو کبھی راس نہ آئی کہ بقول غالب:
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
بالآخر جنرل مظہر اسحاق صاحب کے پاس گیا کہ ان سے شناسائی تھی۔ جس زمانے میں وہ کرنل تھے‘ ابا جی کو انہی کے پاس لے جاتا رہا۔ انہوں نے سیدھے سادھے دو سوال پوچھے۔ کیا لکھنے پڑھنے میں دقت ہو رہی ہے‘ اور کیا گاڑی چلانے میں تکلیف ہو رہی ہے؟ دونوں کا جواب نفی میں تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پچاس‘ ساٹھ سال سے اوپر موتیا تو اکثر لوگوں کی آنکھوں میں اتر ہی آتا ہے مگر سرجری تب کرانی چاہیے جب ضرورت محسوس ہو۔ اُسی سال جب آسٹریلیا گیا تو صاحبزادے ماہرِ امراضِ چشم کے پاس لے گئے جو اُن کے دوست بھی تھے۔ یہ ڈاکٹر صہیب تھے۔ سات سال کی عمر میں ڈھاکہ سے برطانیہ چلے گئے۔ وہیں تعلیم حاصل کی۔ ماہرِ امراضِ چشم بنے۔ کئی سال تک پریکٹس بھی وہیں کی۔ پھر آسٹریلیا آگئے۔ انہوں نے مکمل معائنہ کیا اور یہی رائے دی کہ سرجری ایسا کام نہیں جو شوقیہ کرایا جائے۔ جب کام کرنے میں دقت نہیں ہو رہی تو وقفے وقفے سے معائنہ کراتے رہیے۔ اس کے بعد جب بھی آسٹریلیا جانا ہوا‘ ڈاکٹر صاحب سے معائنہ کراتا رہا۔
سالِ رواں کا آغاز تھا جب بہت آہستگی سے احساس ہوا کہ کتاب پڑھتے ہوئے ذرا سی دِقت ہونے لگی ہے۔ کتاب کی بھی تو کئی صورتیں ہیں۔ جب فرمایا گیا کہ ''ذالک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ تو اس وقت کاغذ تھا نہ چھاپہ خانہ۔ معلوم ہوا کہ کتاب صرف وہ نہیں ہوتی جو کاغذ سے بنی ہو اور الفاظ اور حروف جس پر سے دیکھ کر پڑھے جائیں۔ کتاب کی شکل ہر زمانے میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اب کتاب کاغذ سے آئی پیڈ پر اور ای ریڈر پر اور انٹر نیٹ پر‘ اور نہ جانے کہاں کہاں نئی صورتوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔ جو دقت محسوس ہو رہی تھی
وہ کاغذ والی کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی۔ ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کتاب کی سافٹ کاپی آئی پیڈ پر منتقل ہو جائے۔ اس طرح لفظ کا سائز (فونٹ) بڑا کیا جا سکتا ہے‘ مگر ہر کتاب کی سافٹ کاپی میسر نہیں ہو سکتی۔ پھر کاغذ کی کتاب پڑھنے کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ حاشیے پر کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میری پڑھی ہوئی کتاب کسی اور کے کام کم ہی آ سکتی ہے کیونکہ انڈر لائن کر کرکے اور حاشیوں پر لکھ لکھ کر کتاب کی صورت ہی تبدیل کر دیتا ہوں۔ القصہ مختصر کاغذ والی کتاب پڑھتے ہوئے دقت محسوس ہونے لگی۔ دقت دبے پاؤں ہی آئی اور دبے پاؤں ہی خراماں خراماں آگے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ سال کے وسط میں دقت بڑھ چڑھ کر بولنے لگی۔ انہی دنوں صاحبزادے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ جڑواں شہروں کے ایک بہت ہی معروف ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پہلا دھچکا جاتے ہی لگا کہ سرجری کی فیس کریڈٹ کارڈ سے لی جائے گی‘ نہ چیک سے اور نہ ہی بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جا سکے گی بلکہ صرف اور صرف‘ اور صرف کیش ہی میں لی جائے گی۔ خیر اس دھچکے کو ہم باپ بیٹا برداشت کر گئے۔ اگر ایف بی آر اس عظیم الشان ''حب الوطنی‘‘ کو برداشت کر رہا ہے تو مریض اور اس کے لواحقین کس کھیت کی مولی ہیں۔ ایک طرف تو حکومت واویلا کرتی ہے کہ معیشت کو دستاویزی
(Documented)
کرنا ہے۔ نان فائلر کو بخشنا نہیں‘ دوسری طرف حکومت کی ناک کے عین نیچے‘ بلکہ نتھنوں کے درمیان ڈاکٹر حضرات کیش کے سوا مریض کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ راولپنڈی کے بارے میں بھی ایک عزیز یہی بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر صرف نقد رقم وصول کرتے ہیں۔ اب تو مرغی بیچنے والوں کے پاس بھی کریڈٹ کارڈ کی مشینیں پڑی ہیں۔ کھوکھے والوں کے بھی بینک اکاؤنٹ ہیں جن میں خریدار رقم منتقل کر سکتے ہیں مگر لاکھوں کی فیس لے کر سرجری کرنے والے ڈاکٹر صرف نقد روپیہ وصول کرنے پر مُصر ہیں! آخر کیوں؟ حکومت شاید اس لیے اس حوالے سے کچھ نہیں کرتی کہ حکومت کی آنکھ میں سفید موتیا اُتر آیا تو انہی ڈاکٹروں کے پاس آنا پڑے گا۔ حالانکہ حکومت کی آنکھوں میں سفید موتیا اُتر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو پہلے ہی گلوکوما (کالے موتیے) سے بھری ہوئی ہیں جس میں بینائی جاتے رہنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ یا پھر یوں کہیے کہ بصارت کی کمزوری حکومتوں کا مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں۔ حکومتوں کی آنکھوں میں سفید‘ یا کالا‘ یا سرخ یا ارغوانی یا کسی بھی رنگ کا موتیا نہیں اُتر سکتا۔ حکومتوں کی آنکھوں میں تو ہمیشہ خون اترتا ہے‘ وہ بھی عوام کو دیکھ کر!! ان کا مسئلہ ہمیشہ بصیرت کا فقدان رہا ہے۔ یہ وہ موتیا ہے جو حکومتوں کی اندر کی آنکھ میں اُترتا ہے اور یوں اُترتا ہے کہ پھر سیڑھیاں چڑھ کر باہر نہیں آ سکتا۔ یہ مرض لاعلاج ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر عاجز ہیں۔ یہ دوا کا نہیں دعا کا کام ہے۔ اسی لیے ہماری حکومت نے بیرونِ ملک سے مولانا حضرات کو درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ ایک مشہور مولانا صاحب کو جھاڑ پھونک کے لیے درآمد کیا گیا مگر وہ سنوارنے کے بجائے اندر کی آنکھ میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر گئے۔ اندازہ لگائیے دنیا کیش کا لین دین ختم کر رہی ہے اور ہمارے ڈاکٹر کیش کے لیے صندوکڑیاں کھولے بیٹھے ہیں۔ حکومت تاجروں کے پیچھے لگی ہے کہ فائلر بنیں۔ تو ڈاکٹر کیوں نہ فائلر بنیں؟ اور اگر ڈاکٹر فائلر ہیں تو فیس بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے سے خائف کیوں ہیں؟
اصل مسئلہ ہمیں یہ پیش آیا کہ مصنوعی عدسے
(Lens)
کی ساری ذمہ داری ڈاکٹر صاحب نے ایک خاتون ٹیکنیشین پر ڈالی ہوئی تھی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو ایک خاص احساسِ کمتری ہے کہ مریض کی پہنچ سے دور رہنا ہے۔ خاتون ٹیکنیشین ہمیں مطمئن نہ کر سکی کہ کون سا عدسہ ڈالا جائے گا۔ جب ہمارے صاحبزادے نے‘ جو خود بھی ڈاکٹر ہیں‘ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ خاتون ٹیکنیشین خود ہی ڈاکٹر صاحب سے بات کرے گی۔ یعنی کہ پھر ''نہ‘‘ ہی سمجھیں۔ ایک تو عینک کا نمبر بہت ہائی‘ پھر نمبر میں ایک اور مسئلہ بھی جسے
Stigmatism
کہا جاتا ہے‘ درپیش تھا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر صاحب کی نارسائی اور ان سے ڈسکس نہ کر سکنا بہت بڑی حوصلہ شکنی کا باعث بن گیا۔ دو ماہ بعد آسٹریلیا جانے کا پروگرام بنا ہی ہوا تھا چنانچہ یہی طے ہوا کہ ڈاکٹر صہیب ہی سے جراحی کرائی جائے۔ یوں بھی کئی سال سے وہ معائنہ کر رہے تھے اور مریض کی آنکھوں کی صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے۔ (جاری)
No comments:
Post a Comment