Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, September 16, 2024


اس قصے کو فی الحال رہنے دیجیے کہ صوبے کا سربراہ کسی دوسرے ملک سے اپنے طور پر معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں‘ اس بات پر غور کیجیے کہ اگر گنڈا پور صاحب افغانستان سے مذاکرات کریں گے تو کون سا معاملہ طے کریں گے اور کیسے؟
اب تو اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ جب بھی حکومتِ پاکستان افغانستان کو کہتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں‘ تو افغان حکومت جواب میں دو باتیں کہتی ہے۔ اول: وہ یہ مانتی ہی نہیں کہ دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ دوم: اس کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘ وہ خود ٹی ٹی پی سے بات کرے۔ منطقی طور پر افغان حکومت یہی جواب گنڈا پور صاحب کو بھی دے گی۔ اب اگر گنڈا پور صاحب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرتے ہیں تو کیا وہ ٹی ٹی پی کے مطالبات مان لیں گے؟ ٹی ٹی پی کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں کی پرانی پوزیشن بحال کی جائے۔ اس سے ٹی ٹی پی کو ایک بیس مل جاتی ہے۔ جہاں وہ امارت اسلامیہ قائم کر سکتے ہیں۔ کیا گنڈا پور صاحب یہ مطالبہ مان لیں گے؟ اور اگر ٹی ٹی پی یہ مطالبہ منوائے بغیر‘ صرف گنڈاپور صاحب کی خاطر‘ یعنی تحریک انصاف کی خاطر پاکستان پر حملے بند کر دیتی ہے تو اس سے اس بات پر مُہرِ تصدیق ثبت ہو جائے گی تحریک انصاف اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریک انصاف کی حکومت میں ٹی ٹی پی کے ہزاروں افراد اور ان کے خاندانوں کو پاکستان میں کیسے آباد کیا گیا؟ تحریک انصاف آج تک وضاحت نہیں کر سکی کہ یہ افراد جو لائے گئے‘ مسلح تھے یا غیر مسلح؟
اب ایک اور نکتے پر غور کیجیے۔ عمران خان صاحب نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جب تک افغانستان سے تعلقات درست نہیں کریں گے دہشت گردی میں پھنسے رہیں گے‘‘۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دہشت گردی میں افغانستان ملوث ہے۔ اگر افغانستان ملوث نہیں ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے افغانستان سے تعلقات درست کرنا ضروری ہے۔ عمران خان صاحب کا یہ بیان افغان حکومت کے مؤقف سے متصادم ہے۔ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ افغانستان کی سر زمین کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی اور یہ کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ افغان حکومت کو چاہیے کہ یہ بات عمران خان کے بالواسطہ الزام کے جواب میں بھی کہے!
سچ کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی ہماری اپنی تلوّن مزاجی کا نتیجہ ہے۔ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ہماری پالیسیاں اتنی بار بدلی ہیں کہ شمار سے باہر ہے۔ ہم طالبان کے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی۔ اسی طرح ہم امریکہ کے حامی بھی رہے اور درپردہ مخالف بھی۔ امریکہ نے الزام بھی لگایا کہ ہم درپردہ طالبان کے حامی رہے۔ دوسری طرف ہم نے جو سلوک مُلا عبد السلام ضعیف کے ساتھ کیا‘ اسے کون بھلا سکتا ہے۔ ہم نے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح وضع کی۔ جنہیں ہم اچھے طالبان کہتے رہے آج وہ بھی ہمارے مخالف ہیں۔ ایک صاحب کو فاتح جلال آباد کا لقب بھی دیا گیا۔ جلال آباد فتح تو نہیں ہوا مگر ہماری ''خوش نیتی‘‘ کا علم افغانستان کو ضرور ہو گیا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی بدلتی پالیسیاں سیاسی حکومتوں کے اختیار میں بھی نہیں رہیں۔ پالیسیاں بناتا کوئی ہے اور منسوب کسی سے ہوتی ہیں۔ پہلے ہم اپنا گھر تو ٹھیک کریں!
رہی یہ بات کہ ایک صوبائی حاکم‘ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے ملک سے معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں تو جہاں تک عمران خان صاحب کا تعلق ہے انہوں نے گنڈا پور صاحب کی اس ضمن میں حمایت کی ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ کل کو جب عمران خان وزیراعظم ہوں گے اور پنجاب کا کوئی حاکم بھارت سے کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کرے گا اور سندھ کا حاکم بھارتی حکومت سے اپنے سرحدی مسائل کے حوالے سے بکھیڑے سلجھائے گا تو وزیراعظم عمران خان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک اصول طے کر لیا ہے کہ صوبے اپنے پڑوسی ملکوں سے معاملات وفاق کو خاطر میں لائے بغیر‘ خود طے کر سکتے ہیں! کل کو جب وہ‘ ان شاء اللہ‘ وزیر اعظم بنیں گے تو حکم صادر فرمائیں گے کہ ایران کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بلوچستان کا حاکم طے کرے گا۔ خارجہ پالیسی کا بہت سا بوجھ وفاق کے کندھوں سے اُتر جائے گا۔ اللہ اللہ خیر سلّا!
جو واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا ہے اس کی مثال پاکستان کے علاوہ کسی اور مسلمان ملک میں نہیں ملتی۔ توہینِ مذہب کا ایک مبینہ ملزم ایک تھانے کی حوالات میں بند تھا۔ تھانے پر ہجوم نے حملہ کر دیا۔ ملک کے مؤقّر ترین انگریزی اخبار کے مطابق یہ ہجوم مذہبی جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اخبار نے ایک خاص مذہبی جماعت کا نام بھی لکھا ہے۔ ملزم کو ہجوم سے بچانے کے لیے ایک اور تھانے میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں ملزم کو ایک پولیس کانسٹیبل نے اپنے ذاتی پستول سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ توہینِ مذہب کے حوالے سے باقاعدہ قانون ہے۔ ملزم کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے اور ریاست کا۔ ایک مدت سے یہ ذمہ داری پاکستانی عوام نے اپنے سر لی ہوئی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ملزم کو سزا عدالت نے نہیں دی۔ اس صورتحال کی ذمہ داری سو فیصد ریاست پر آرہی ہے۔ریاست نے آج تک ایسے اقدامات نہیں کیے جو اس ہجوم گردی کو روک سکیں۔ کسی مجرم کو کبھی سزا نہیں ملی۔ زیادہ تر ایسے واقعات میں مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتے ہیں جن کے ذریعے ہجوم کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنی‘ نہ ہی کوئی قانون سازی ہوئی ہے۔
عوام کا یہ مائنڈ سیٹ کیسے بنا؟ کون اس ذہن سازی کا ذمہ دار ہے؟ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ ان تین سوالوں کے جواب حکومتوں کو دینے چاہیے تھے مگر کسی حکومت نے اس ضمن میں اپنے فرائض نہیں ادا کیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کابینہ کی یا پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی‘ کوئی کمیشن اس پر کام کرے‘ تحقیق کر کے ان تینوں سوالوں کا جواب دے اور اس سلسلے میں تجاویز بھی پیش کرے۔ ان تجاویز پر کابینہ میں یا پارلیمنٹ میں بحث ہو اور پھر فیصلے کیے جائیں۔ پے در پے ہونے والے ایسے واقعات کی وجہ سے پاکستان کا جو امیج دنیا میں بن گیا ہے وہ قابلِ رشک ہر گز نہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ یہ امیج زیادہ گہرا ہو رہا ہے۔ اس امیج میں کبھی سیالکوٹ رنگ بھر رہا ہے‘ کبھی جڑانوالہ‘ کبھی سرگودھا اور کبھی سوات!! الجزیرہ سے لے کر بی بی سی تک عالمی میڈیا ان واقعات کو رپورٹ کرتا ہے۔ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ ایک طرف مذہب کے نام پر ہم قتل و غارت کر رہے ہیں دوسری طرف ہم ہر اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کے بارے میں تصور کیا سکتا ہے۔ پچھلے سال ایک ارب 23کروڑ روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ برآمد کیے جانے والے کھُسّوں سے منشیات پکڑی گئی ہیں۔ یو اے ای نے شکوہ کیا ہے کہ پاکستان سے بھکاری آرہے ہیں۔ پاکستانیوں کو ویزے دینے سے انکار پر انکار ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ جون ایلیا نے یہ شعر پاکستان ہی کے حوالے سے کہا:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

Thursday, September 12, 2024

لٹریسی واک میں لٹریسی کتنی ہے اور واک کتنی



مُلّانصر الدین کا یہ لطیفہ ہم سب نے سنا ہؤا ہے کہ وہ  کوئی گم شدہ شے باہر سڑک پر ڈھونڈ رہا تھا ۔ پوچھا گیا وہ شے کہاں رکھی تھی۔  کہنے لگا کمرے میں۔پوچھنے والے نے کہا کہ کمرے میں  رکھی تھی تو کمرے ہی میں تلاش کرو۔ مُلّا نے جواب دیا کمرے میں اندھیرا ہے۔  نہیں معلوم مُلّا نصر الدین  کا وجود تھا یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ، ایک قوم کی حیثیت سے ، ہماری حرکتیں ملا نصر الدین  کی سی ہیں۔ہم ہر وہ شے کمرے سے باہر ڈھونڈتے ہیں جسے کمرے کے اندر  رکھا تھا۔ہم وہاں پانی دیتے ہیں جہاں بیج نہیں بوئے تھے۔ ہم ویرانے میں بازار لگاتے ہیں جب کہ  بازار کی ضرورت آبادی  میں ہوتی ہے۔ ہم سر پر چھتری وہاں تانتے ہیں جہاں دھوپ ہوتی ہے نہ بارش!ہم پچھتر برسوں سے یہی کچھ کر رہے ہیں ! ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ کئی برسوں سے ! کئی دہائیوں سے !!  نتیجہ یہ ہے کہ ہم قوموں کی فہرست میں پاتال سے بھی نیچے ہیں۔ اس پر بھی ہم خوش ہیں کہ نیچے سے ہماری پوزیشن دوسری یا تیسری ہے۔ 






خواندگی  کے عالمی دن پر “ لٹریسی ( خواندگی ) ڈے واک “  منعقد کی گئی ہے  ۔ یقین کیجیے  اس پر ملا نصرالدین بھی ہنس پڑے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ واک کہاں منعقد ہوئی؟  اسلام آباد میں ! جہاں خواندگی کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اسلام آباد میں بھی کہاں؟ کسی بازار، کسی سیکٹر، کسی محلے ، کسی آبادی میں ؟ نہیں ! یہ واک  بلیو ایریا  پر منعقد ہوئی۔ شہید ملت سیکریٹیریٹ سے لے کر ڈی چوک تک، جہاں دونوں طرف بینکوں اور کمپنیوں کے دفا تر ہیں!  اگر آپ اسلام آباد کے جغرافیے سے واقف ہیں تو ہنسے بغیر نہیں رہ سکیں گے!!  





یہ  واک، اور اسی طرح کی اور  

Walks 

چند آسودہ حال افراد کے چونچلوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کبھی ذیا بیطس  سے آگہی کے لیے اور کبھی دل کی بیماریوں کے حوالے سے واک منعقد کی جاتی ہے۔ شہر کی کسی بڑی شاہراہ پر! ایک آدھ فرلانگ کی واک! ہاتھوں میں کچھ بینر تھامے! دوسرے دن کچھ اخبارات  ( زیادہ تر انگریزی  اخبارات ) میں اور کچھ ٹی وی چینلوں پر ایک آدھ جھلکی! ایسی کوئی واک وہاں منعقد نہیں کی جاتی جہاں اس کی ضرورت ہے، جہاں عام آدمی اسے دیکھیں اور آگہی حاصل کریں! اب اس لٹریسی ڈے کی واک ہی کو دیکھ لیجیے۔ ارے بھئی! ناخواندگی  اسلام آباد کے بلیو ایریا  یا لاہور کی مال روڈ پر نہیں ، نا خواندگی تو ہماری بستیوں  ، قریوں اور قصبوں میں  ابلیس کی طرح رقص کناں ہے۔  جس تنظیم نے یہ واک منعقد کی  وہ سرکاری نہیں تو نیم سرکاری تو ضرور ہو گی۔ اسے حکومت کی طرف سے گرانٹ بھی ملتی ہو گی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس کا آڈٹ بھی کرتا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا  اس کی کارکردگی کا آڈٹ 

( Performance Audit ) 


بھی کبھی ہؤا؟ اس کے طفیل کتنی خواندگی بڑھی؟ اگر واک ہی منعقد کرنی ہے تو  کتنے اور کون کون سے گاؤں ہیں  جہاں آگہی پیدا کرنے کے لیے اور شعور بڑھانے کے لیے  واک کی گئی ؟ چلیں ، دیہات کو  بھی چھوڑ دیجیے، کون کون سے قصبے ہیں جہاں ایسی واک منعقد کی گئی؟ اگر ایسی واک کا واقعی کوئی فائدہ ہے تو یہ کم از کم ہر  ضلعے کی ہر تحصیل میں  منعقد کرنی چاہیے تھی ! 



پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 


Each one Teach one ( EOTO) 


پروگرام کے تحت ہر پڑھے لکھے فرد کو یہ ذمہ داری سونپی  گئی ہے کہ وہ کم از کم ایک ناخواندہ فرد کو پڑھنا لکھنا سکھا دے! بہت خوب! اچھی بات ہے۔  تو پھر یہ بھی ازراہ لطف و عنایت بتا دیجیے کہ یہ پروگرام  کب سے نافذ ہؤا؟ اب تک کتنے تعلیم یافتہ افراد نے کتنے افراد کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا ہے؟ اگر یہ پروگرام اسلام آباد کے  ۱۸۴ سکولوں اور کالجوں میں چل رہا ہے تو اب تک کی کارکردگی کیا ہے ؟ کتنے لوگ ناخواندگی کے اندھیرے سے نکل کر خواندگی کی روشنی میں آچکے ہیں؟ ان میں کتنے مرد ہیں اور کتنی عورتیں ہیں ؟  




حاشا و کَلّا  ! ہمارا مقصد محض تنقید برائے تنقید نہیں!  نہ ہی کسی تنظیم یا ادارے کی حوصلہ   شکنی  مقصود ہے۔ ہم نیت پر شک نہیں کر رہے۔ ہم صرف طریق کار   

( Modalities) 


کی بات کر رہے ہیں۔ اصل میدان اس کام کے لیے ملک کا دیہی حصہ ہے۔  

EOTO 

  ایک اچھا اور مفید تصور ہے۔ اصل مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے۔ ہمارے خیال میں ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں تین چار  ذمہ دار ، پڑھے لکھے، معزز اور بھلے مانس افراد اس پروگرام کے انچارج بنائے جائیں .فرض کیجیے ، ایک تحصیل میں  دو سو گاؤں ہیں تو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں چار معززین کو منتخب کیا جائے تا کہ ان میں سے ہر ایک کم از کم پچاس بستیوں میں یہ پروگرام نافذ کرے اور نگرانی بھی کرے۔ ایسے ہر انچارج کو حقیقت پسندانہ بنیاد پر سفر خرچ دیا جائے اور ضروری سٹیشنری بھی مہیا کی جائے۔ اس لکھنے والے کا تعلق ایک گاؤں سے ہے۔یقین کیجیے، کام کی لگن رکھنے والے درد مند افراد ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر، ہر قصبے اور ہر گاؤں میں موجود ہیں۔ انہیں صرف سرکار کی طرف سے رہنمائی چاہیے اور ضروری وسائل!! یہاں یہ وارننگ لازم ہے کہ خدا کے لیے  ڈی سی ، اے سی، اور اس قسم کے حکام سے اس پروگرام کو بچایا جائے ورنہ کانِ نمک میں جا کر یہ پروگرام بھی نمک میں تبدیل ہو جائے گا۔  




ناخواندگی  کا اصل چیلنج لڑکیوں کے حوالے سے ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ کام بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر اُن صوبوں اور اُن علاقوں میں جہاں روایت پرستی کا زور ہے اور جہاں عورت کا ووٹ ڈالنے کے لیے  بھی نکلنا دشوار ہے۔ بد قسمتی سے پڑوسی ملک میں جب سے نئی حکومت آئی ہے ، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ملحقہ پاکستانی علاقے بھی اس مائنڈ سیٹ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہو گی کہ یہ کام آسان نہیں۔ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ پہلے پولیو ٹیمیں بھی نقصان اٹھا چکی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی  یہی صورت حال ہے بلکہ سچ پوچھیے تو پنجاب  میں بھی عورت دشمنی کم نہیں! پنجاب میں بھی بیٹی کی  پیدائش پر باپ اور دادی کو موت پڑ جاتی ہے۔ ماضی قریب میں ہی ایک خبر کے مطابق ، پنجاب کے ایک قصبے میں ایک بد بخت نے بیٹی کی پیدائش کا سن کر بیوی کو اُسی وقت طلاق دے دی جب کہ ابھی وہ ہسپتال ہی میں تھی۔ عورتوں کی خواندگی اور تعلیم مردوں کی تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہے۔   جدید سنگا پور کے  معمار نے اپنے لوگوں سے کہا تھا”  تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، پھر دیکھو میں سنگاپور کو کہاں لے جاتا ہوں۔ “ بد  قسمتی سے ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے میں  یہ تصور کارفرما ہے کہ خواندگی اور تعلیم صرف ملازمت کے لیے ہے۔ اس تصور کو ختم کرنا ہو گا۔ عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک اچھی شہری بنے اور بچوں کی تربیت اس طرح کرے  کہ وہ بھی معاشرے کے لیے بوجھ کے بجائے اثاثہ بنیں۔ 



اور آخری گذارش! ہمارے ہاں ہر منصوبہ، ہر پروگرام، ہر مہم، بڑے شہروں سے شروع ہو تی ہے اور وہیں پر ختم ہو جا تی ہے۔ اگر خواندگی زیادہ کرنے کے  لیے کوئی ادارہ ہے تو اس کا ہیڈ کوارٹر  اسلام آباد  کے بجائے کسی قصبے  میں  ہونا چاہیے۔ تعلیم یوں بھی اب وفاق کی نہیں صوبوں کی  ذمہ ذمہ داری ہے۔ ہر صوبے کا اپنا خواندگی کا ادارہ ہو نا چاہیے۔ اس کے ذیلی دفاتر  تمام اضلاع  میں ہونے چاہییں! ہاں اگر مقصد صرف گرانٹ کو خرچ کرنا ہے اور چند  افراد  میں ملازمتیں بانٹنا ہے تو اور بات ہے !! 

…………………………………………………………………………………

Tuesday, September 10, 2024

خواندگی کا عالمی دن


بیٹھنے کی جگہ کوئی خاص نہیں۔ لکڑی کے بنچ اور خستہ شکستہ کرسیاں! مگر اس ڈھابے پر چائے بہت اچھی ملتی ہے۔
یہ گھر سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ جب بھی کوئی بے تکلف دوست آتا ہے‘ اسے لے کر ڈھابے پر چلا جاتا ہوں۔ جوتے اتار کر لکڑی کے بنچ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا ہوں۔ اردگرد مزدور‘ ڈرائیور اور اسی قسم کے لوگ بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں یا دال سبزی کے ساتھ روٹی کھا رہے ہوتے ہیں۔اصل پاکستان کی خوشبو نتھنوں سے ٹکراتی ہے تو ایک سرور سا طاری ہو جاتا ہے۔ اطمینان کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ڈھابے کے مالک کے سوا وہاں کوئی نہیں جانتا کہ میں بغل والی ''باعزت‘‘ آبادی میں رہتا ہوں۔ ہاں جب کوئی ایسا ملاقاتی آتا ہے جو اپنی حیثیت کے حوالے سے حساس ہوتا ہے‘ دوسرے لفظوں میں کمپلیکس کا مارا ہوا! تو اسے اُس کمرے میں بٹھاتا ہوں جسے عرفِ عام میں ڈرائنگ روم کہتے ہیں اور جسے میں بیٹھک کہتا ہوں۔ وہاں وہ ٹی بیگ والی چائے نوش کرتا ہے۔ وہی ٹی بیگ والی چائے جسے ڈرائیور حضرات حقارت سے دھاگے والی چائے کا نام دیتے ہیں۔
کل میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈھابے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈھابے کے مالک نے کاؤنٹر سے آواز دی اور ہماری طرف اشارہ کیا ''اوئے چھوٹے! ان سے آڈر لو‘‘۔ ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ ہمارے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ٹکڑا تھا۔ اس سے اس نے ہمارے سامنے پڑی اُس بے ڈھب سی چیز کو صاف کیا جسے ٹیبل کہا سکتا ہے۔ پھر پوچھا: سَر! کیا لیں گے؟ ہم نے چائے کا کہا۔ وہ واپس کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا تو میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے بڑے پوتے جتنا تھا۔ ملیشیا کی شلوار قمیض پہنے تھا۔ سر پر چترالی ٹوپی۔ پاؤں میں پشاوری چپل جس کی ایڑیاں گھِس چکی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد چائے لایا تو میں نے کہا: بیٹے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ کہنے لگا: صاحب! ابھی تو کام کا وقت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں گاہکوں کا رش ہے۔ پوچھا: چھٹی کس وقت ہو گی؟ جواب ملا: صاحب جی رات گیارہ بجے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں رات گیارہ بجے آؤں گا۔
رات گیارہ بجے گیا تو بچہ برتن دھو رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا: صاحب جی! دو منٹ بیٹھیے! تین دیگچے رہتے ہیں۔ بس ابھی فارغ ہوا۔ تھوڑی دیر میں وہ آگیا۔ اس سے گفتگو ہوئی۔ اس کے دو بھائی اور تھے۔ ایک کسی بیگم صاحبہ کے گھر میں ملازم تھا۔ دوسرا ایک اور ریستوران میں کام کر رہا تھا۔ باپ ایک کوٹھی میں چوکیدار تھا۔ ماں مختلف گھروں میں جھاڑو پوچے کا کام کرتی تھی۔ میں نے اسے خوشخبری دی کہ بہت جلد تمہارے یہ مشقت کے دن ختم ہو جائیں گے۔ تم اور تمہارے دونوں بھائی سکول میں داخل ہو جائیں گے۔ اس پر وہ حیران ہوا ''صاحب! وہ کیسے؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ کل خواندگی کا عالمی دن تھا۔ وزیراعظم صاحب نے ''تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے قوم کو بتایا ہے کہ ایک مہم شروع کی جائے گی جس کے تحت بچوں کو سکولوں میں داخل کیا جائے گا اور دو پہر کا کھانا بھی فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک جامع منصوبے کا نفاذ کیا جا رہا ہے جس کی رُو سے ٹیکنالوجی کو تعلیمی نظام میں ضم کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے تعلیمی ایمرجنسی کے موضوع پر منعقد ہونے والی ''قومی کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت جو اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں انہیں سکولوں میں داخل کیا جائے گا۔ میں نے بچے کو یقین دلایا کہ بہت جلد ڈھابے کی اس گندی نوکری سے اس کی جان چھوٹ جائے گی۔
بچے نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر جو کچھ اُس نے کہا سن کر یقین نہ آیا کہ واقعی وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ بول رہا ہے۔ کہنے لگا: صاحب! یا تو آپ بہت ہی سادہ لوح شخص ہیں یا مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ بہرطور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ہنساتے بہت ہیں۔ آپ کو مجھ سے زیادہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ خواندگی کا بین الاقوامی دن ایک تکلف‘ ایک مذاق‘ ایک ڈھکوسلے کے سواکچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ کیا یہ دن ہر سال نہیں آتا اور کیا اس قسم کے اعلانات ہر بار نہیں کیے جاتے؟ اور یہ جو وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اڑھائی کروڑ‘ یا دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو کیا جنابِ وزیراعظم بتائیں گے کہ گزشتہ برس کتنے بچے‘ ان اڑھائی کروڑ بچوں میں سے‘ سکولوں میں داخل کرائے گئے؟ عالمی یومِ خواندگی کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ یہ بدبخت آوارہ دن ہر سال آن ٹپکتا ہے۔ متعلقہ بیورو کریٹ وہ بیان لکھتے ہیں جو اس موقع پر وزیراعظم نے پڑھ کر سنانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سارا سال اس ضمن میں کسی کارکردگی‘ کسی پراگریس کا پوچھا جاتا ہے نہ ہی معائنہ کیا جاتا ہے۔
یہ سب ایک روٹین ہے۔ یہ اڑھائی کروڑ کی تعداد بھی سخت غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ملک کے دور افتادہ گوشوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا وجود ہی کوئی نہیں! اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔جہاں لوگ لڑکیوں کی تعداد بتانے کو غیرت کا مسئلہ بناتے ہوں وہاں یہ کون بتائے گا کہ کتنی بچیاں سکول جاتی ہیں اور کتنی سکول سے باہر ہیں! کیا وزیراعظم کو اُن بچوں کی تعداد معلوم ہے جو ورکشاپوں‘ ڈھابوں اور ریستورانوں میں کام کر رہے ہیں اور کتنے گھروں میں نوکر ہیں۔ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ ان بچوں کے ساتھ کیا کیا ظلم اور بدسلوکیاں روا رکھی جاتی ہیں؟ رہا یہ پروگرام کہ بچوں کو دوپہر کا کھانا دیا جائے گا تو حکومت ملک کے اطراف واکناف میں پھیلے سرکاری سکولوں کی گرتی ہوئی چھتوں اور دیواروں کی تو پہلے مرمت کرا لے۔ اساتذہ کی تعداد تو پوری کر لے۔ دیہی سکولوں میں بچے کیڑوں والا اور مٹی والا پانی پی رہے ہیں۔ ٹاٹ تک نہیں ہیں۔ صاحب جی! آپ بھی یہیں ہیں! میں بھی یہیں ہوں۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ میں کس سکول میں جاؤں گا اور میرے دو بھائی کس سکول میں داخل کیے جائیں گے!‘‘
میرے پاس اُس کی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ جاتے ہوئے اس نے مجھے غور سے دیکھا اور چلا گیا۔ وہ رات اسی ڈھابے میں گزارتا تھا کیونکہ صبح سات بجے اس کی ڈیوٹی شروع ہو جاتی تھی۔ واپسی پر مجید امجد کی نظم ''پہاڑوں کے بیٹے‘‘ نہ جانے کیوں یاد آ گئی۔
مرے دیس کی اُن زمینوں کے بیٹے؍ جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا؍ جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما؍ پہاڑوں کے بیٹے؍ چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں‘ سنگِ خارا کے ریزے؍ سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل؍ شعاعوں ہواؤں کے زخمی؍ چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں؍ وطن ڈھیر اک اَن منجھے برتنوں کا؍ جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں؍ وطن وہ مسافر اندھیرا؍ جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر؍ کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے؍ ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں؍ مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما؍ ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں؍ تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!

Monday, September 09, 2024

مراعات یافتہ طبقے کی ایک اور جیت


وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ اور اگر یہی ہوتا رہے گا تو مستقبل مخدوش ہے۔
مراعات یافتہ طبقہ ایک بار پھر جیت گیا۔ وہی مراعات یافتہ طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُترَفین‘‘ کہا گیا ہے! بے بس طبقہ ایک بار پھر ہار گیا۔ وہی بے بس طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُستَضعَفین‘‘ کہا گیا ہے!! اور یہ جو مُستَضعَفین ہیں ان سے پوچھا جائے گا تم کس حال میں تھے‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے‘ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ کتنے برسوں سے‘ کتنی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے۔ طاقتور طبقہ کمزوروں کو کچل رہا ہے۔ نہ صرف اپنی بڑی بڑی گاڑیوں کے سفاک پہیّوں کے نیچے‘ بلکہ اپنی دولت‘ قانون شکنی‘ دھونس‘ جبر و استبداد‘ غرور‘ تکبر‘ نخوت اور خودسری کے پہیوں کے نیچے بھی!! مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے میں انصاف حاصل کر لیا گیا۔ صنعتکار خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون جو‘ مبینہ طور پر نشے میں تھی‘ بچا لی گئی۔ عمران عارف اور اس کی جواں مرگ بیٹی آمنہ عمران کی روحیں یہ انصاف دیکھ رہی ہوں گی! انصاف کا یہ منظر فرشتوں نے بھی دیکھا ہو گا۔ انہوں نے انتظار کیا ہو گا کہ ابھی بستیوں کو الٹنے کا حکم ملے گا مگر حکم ڈھیل دینے کا ملا! رسی دراز کی جا رہی ہے۔ قدرت دیکھ رہی ہے کہ یہ ملک جسے اپنے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے بنایا گیا تھا کس طرح ظلم کے راستے پر بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا ہے۔ ایسے مقدموں میں جہاں ایک فریق حد سے زیادہ طاقتور اور دوسرا فریق حد سے زیادہ کمزور ہوتا ہے‘ ریاست کو مدعی بننا چاہیے تا کہ طاقتور فریق کمزور فریق کو مجبور اور مرعوب نہ کر سکے۔ مگر یہ بھی یہاں کیسے ممکن ہو گا۔ جب ریاست کا اپنا اہلکار‘ کوئٹہ کا حاجی عطا اللہ‘ عین ڈیوٹی دیتے وقت کچل دیا گیا تو ریاست ہی مدعی تھی۔ مگر سردار صاحب کے مقابلے میں ریاست کمزور اور بے بس ہی ثابت ہوئی۔ یا پھر‘ کیا ریاست نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا؟
صورت حال یہ آ بنی ہے کہ جس کا بس چل رہا ہے‘ ہجرت کر رہا ہے۔ طاقتور طبقے کے ارکان کی ہجرت میں اور عام پاکستانی کی ہجرت میں بہت فرق ہے۔ طاقتور طبقے کے افراد لندن یا سپین یا یو اے ای جاتے ہیں تو قانون کو جُل دینے کے لیے۔ اور پھر جیسے ہی موقع پاتے ہیں واپس آکر ایک بار پھر حکومت سنبھال لیتے ہیں۔ اس کے برعکس عام پاکستانی ہجرت کرتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں کو بھی بلا لے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ غالباً ابن انشا نے کہا تھا
ہو جائیں گے پردیس میں جا کر کہیں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے
ہم میں سے اکثر پاکستانیوں کا‘ جو پاکستان کے اندر رہتے ہیں‘ یہ خیال ہے کہ ہمارے لوگ صرف ڈالر یا پاؤنڈ کمانے کے لیے ملک چھوڑتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ تارکینِ وطن کی اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان میں لا قانونیت‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور سرکاری محکموں میں رائج سرخ فیتے سے تنگ آکر ملک چھوڑ گئے۔ بہت سے اس لیے چلے گئے کہ پولیس نے ان کی تذلیل کی تھی۔ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر اور آئی ٹی کے ماہرین اس لیے جا رہے ہیں کہ ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی قدر نہیں کی جا رہی۔ بہت سے اس لیے چلے گئے اور جا رہے ہیں کہ مذہبی‘ مسلکی‘ نسلی اور لسانی حوالے سے ایذا رسانی کا شکار ہیں! اگر ایک جملے میں مسئلے کو بیان کرنا ہو تو یوں کہیے کہ ضابطوں‘ قاعدوں اور قانون کو پامال کیا جاتا ہے جس سے بددل ہو کر لوگ ہجرت کر جاتے ہیں۔
بظاہر نظر نہیں آ رہا کہ حالات تبدیل ہو جائیں گے! اگر حالات نے تبدیل ہونا ہوتا تو ریمنڈ ڈیوس کو باہر بھجوانے میں جن لوگوں نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ ان کا یوم حساب آ چکا ہوتا۔ بی بی سی کے مطابق ''امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے 2017ء میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی 'دا کنٹریکٹر‘ میں پاکستان میں اپنی گرفتاری‘ مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش‘ مقدمے کا احوال اور بالآخر رہائی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ کتاب کے مطابق وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ نے کہا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو انہیں پکڑ کر کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا گیا اور کارروائی سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس (یعنی وہ افراد جن کے وہ وکیل تھے) سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ 'دا کنٹریکٹر‘ کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ 23 فروری 2011ء کو عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صَرف ہوا کہ پاکستانی عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ ڈیوس کی گلوخلاصی ہو پائے۔ ڈیوس لکھتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی کے دوران ایک صاحب مسلسل کیمرون منٹر (امریکی سفیر) کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ جب دیت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ 14 مارچ کو اہلکار حرکت میں آئے اور انہوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا‘ اُن کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے اور اُن سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے: یا تو وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں ورنہ... کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے‘ اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید وصول کرتے اور باہر آ جاتے۔ جونہی یہ کارروائی مکمل ہوئی ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سیسنا
 (Cessna) 
طیارہ رن وے پر اُس کا انتظار کر رہا تھا‘‘۔
حالات تبدیل ہونا ہوتے تو ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق سیکھتے اور اپنے آپ کو بدل چکے ہوتے۔ ہم نے وہاں طاقت کا استعمال کیا اور نتیجہ دیکھ لیا۔ آج بھی کسی شہر میں‘ یا صوبے میں‘ یا علاقے میں شورش برپا ہے تو اس کا سدباب طاقت سے نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اور صرف بات چیت سے ہو سکتا ہے۔ تالیفِ قلوب سے ہو سکتا ہے۔ حکمت‘ تدبر اور تحمل سے ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی طاقتیں‘ ہمارے پڑوسیوں سمیت‘ ہماری سلامتی کے درپے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم دوستوں کی تعداد بڑھائیں اور دشمنوں کی تعداد کم کریں۔ طاقت کے بے محابا استعمال سے ردعمل پیدا ہوتا ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ردعمل کا کوئی تعلق منطق سے یا اعتدال سے یا عقل سے نہیں ہوتا۔ ردعمل انتہا پسندی پر مشتمل ہوتا ہے۔ عقلمند حکمران وہ ہوتے ہیں جو ردعمل پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ وہ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں‘ نمک نہیں چھڑکتے۔ کسی عقل مند حکمران کا یہ قول مشہور ہے کہ رعایا دھاگا کھینچتی ہے تو میں ڈھیلا چھوڑ دیتا ہوں۔ اور اُس وقت کھینچتا ہوں جب رعایا ڈھیلا چھوڑتی ہے۔ اگر حکمران اور عوام دونوں بیک وقت کھینچیں گے تو دھاگا ٹوٹ جائے گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں 
مانو نہ مانو‘ جانِ جہاں! اختیار ہے

Thursday, September 05, 2024

ملک اس حال تک یونہی نہیں پہنچ گیا!


کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔
یہ رونا تو کئی بار رویا جا چکا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کتابوں کی تجارت نہیں ہو رہی۔ رہی اُن کتابوں کی بات جو امریکہ یا یورپ میں شائع ہوتی ہیں تو جب تک کوئی کتاب ہمارے ملک میں پہنچتی ہے اس وقت تک اس موضوع پر دس اور کتابیں وہاں چھپ چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ مغرب سے آنے والی کتاب اب بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ڈالر اور پاؤنڈ کے مقابلے میں روپے کی جو قدر ہے‘ اس نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ چار پانچ ہزار سے کم میں شاید ہی کوئی درآمد شدہ کتاب آتی ہو۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی ایک بی بی نندینی داس نے‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے‘ تھامس راؤ کے قیامِ ہندوستان پر ایک تفصیلی کتاب لکھی ہے (ہم جانتے ہیں کہ تھامس راؤ برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے شہنشاہ جہانگیر کے دربار سے وابستہ رہا تھا)۔ چند ہفتے پہلے لاہور کی ایک معروف کتابوں کی دکان سے یہ کتاب خریدی تو ساڑھے چار ہزار روپے میں پڑی۔ اب ان حالات میں گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ روپے کی ناقدری نے پاکستان کو کہیں کا نہیں رکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمرانوں‘ وزیروں‘ امیروں اور سرکاری عمائدین کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آئے دن مغربی ملکوں کی یاترا کو جاتے ہیں اور خریداری کے ریکارڈ توڑ کر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اور ہمارے جیسے عامی ہیں‘ جو صرف کتابیں خریدنے کا شوق رکھتے ہیں مگر روپے کی مسلسل پسپائی کے سبب یہ فقیرانہ شوق بھی پورا نہیں کر سکتے۔ کیا روپیہ اپنی حیثیت بحال کر پائے گا؟ بظاہر تو سرنگ میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں نظر آرہی۔ جنوبی ایشیا میں رُسوا ترین حالت اس وقت پاکستانی روپے ہی کی ہے۔ آج کی صورتحال کے مطابق ایک امریکی ڈالر 278.68 پاکستانی روپے کا ہے۔ یہی امریکی ڈالر بھارت کے 84 روپوں میں آجاتا ہے۔ بنگلہ دیشی 119 ٹکے ایک ڈالر کے برابر ہیں۔ اور تو اور 70 افغانی ایک ڈالر کے برابر ہیں اور ہمارا منہ چڑا رہے ہیں! ہمارے معاشی جادوگروں کو‘ جو لندن میں رہ کر زیادہ خوش رہتے ہیں‘ ملکی معیشت کی فکر کم ہے اور اپنے مقدمے سیدھے کرانے کی فکر زیادہ ہے۔ یوں بھی اگر آدھا دبئی جیب میں ہو تو روپے کی ناقدری سے کیا تعلق رہ جاتا ہے! دو افراد سفر کے دوران دوست بن گئے۔ ان میں سے ایک کنویں میں گر گیا۔ دوسرے نے اوپر سے جھانک کر کہا ''جہاں رہو خوش رہو‘ میں تو چلا‘‘۔ تو ہم عوام کنویں میں ہیں اور حکمران اوپر سے جھانک کر تسلی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا!
تحریر کے آغاز میں عرض کیا ہے کہ کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔ یہ کتاب ایک امریکی خاتون پروفیسر کیرولین ایلکنز (Caroline Elkins) نے لکھی ہے۔ اس کا موضوع برطانوی استعمار کی چیرہ دستیاں ہیں جو اس نے محکوم قوموں پر ڈھائیں۔ اس سفید فام خاتون نے افریقہ‘ خاص طور پر کینیا میں کیے گئے برطانوی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ کتاب پر جو تبصرہ نظر سے گزرا ہے اس کی رُو سے کیرولین ایلکنز نے ان مظالم کا بھی تذکرہ کیا ہے جو انگریزی تسلط نے بر صغیر پر کیے۔ اس سے پہلے معروف بھارتی سکالر اور پارلیمنٹیرین ششی تھرور نے اسی موضوع پر ایک معرکہ آرا کتاب لکھی جس کا نام ''تاریکی کا دور‘‘ ہے۔ یہ 2016ء میں چھپی تھی۔ اُس وقت بھارت اور پاکستان میں کتابوں کا دو طرفہ تبادلہ ممکن تھا۔ یہ کتاب پاکستان میں خاصی مقبول ہوئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کیرولین ایلکنز کی کتاب کیسے اور کہاں سے حاصل کی جائے؟؟ اتفاق سے  آسٹریلیا جانا تھا۔ وہاں کی چار پانچ لائبریریوں کا ممبر ہوں۔ ممبر شپ مفت ہے۔ آپ مقامی ہیں یا غیر ملکی‘ صرف نام اور مقامی ایڈریس بتا کر لائبریری کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اور یہ ممبر شپ پانچ منٹ سے کم وقت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ بیک وقت 30 کتابیں جاری کرا سکتے ہیں۔ اللہ کا نام لے کر ایک لائبریری کو‘ جو قیام گاہ کے قریب ہے‘ ای میل کی اور درخواست کی کہ یہ کتاب لائبریری میں نہیں ہے تو ازراہِ کرم خریدی جائے۔ دوسرے دن ای میل کی رسید موصول ہو گئی۔ دو اڑھائی ہفتے پہلے جب میلبورن پہنچا تو دوسرے ہی دن لائبریری میں جا موجود ہوا۔ گمان غالب یہ تھا کہ کتاب ایک ای میل کے نتیجے میں کہاں منگوائی جا سکتی ہے! لائبریرین سے استفسار کیا تو اس نے سامنے پڑی ہوئی طلسمی مشین پر کلک کی۔ صرف کتاب کی مصنفہ کا نام پوچھا اور چند ثانیوں کے بعد مجھے میرا نام بتا کر آگاہ کیا کہ آپ کی ای میل ملی تو ہم نے کتاب کا آرڈر کر دیا تھا اور یہ کہ کتاب آنے والی ہے۔ جیسے ہی آئی آپ کو اطلاع کر دی جائے گی۔
ان ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی سہولتیں اور آسانیاں ایک حساس پاکستانی کو خوشی اور اطمینان نہیں دیتیں بلکہ نیزے کی اَنی کی طرح چبھتی ہیں! فوراً دل میں یہ حسرت جاگ اُٹھتی ہے کہ ایسی کارکردگی ہم پاکستانیوں کو اپنے ملک میں کیوں نہیں حاصل؟ کیا ہے ہمارا گناہ؟ ہم بھی انسان ہیں! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی انسان نہیں ہیں‘ Sadist ہیں۔ دوسروں کو اذیت پہنچانے سے مسرت کشید کرتے ہیں۔ چھوٹے سے کام میں بھی ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالتے ہیں کہ بندہ ان کی منفی سوچ اور شیطانی ذہانت پر اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ ذاتی طور پر گز شتہ ایک ماہ میں دو تجربے ہوئے۔ سی ڈی اے میں ایک چھوٹا سا کام تھا۔ اس کام کی فیس دس ہزار روپے تھے۔ دس ہزار کا پے آرڈر جمع کرا دیا۔ ایک ہفتے بعد سی ڈی اے سے ایک صاحب کا فون آیا کہ پے آرڈر پر آپ کے دستخط نہیں ہیں۔ آکر دستخط کیجیے تاکہ آپ کا کام کیا جا سکے۔ سرکاری برآمدوں میں طویل عرصہ کی آوارہ گردی نے ایک خاص قسم کا غیر خوشگوار اعتماد بخشا ہے۔ پوچھا کہ جب سی ڈی اے نے اپنے اکاؤنٹ میں یہ پے آرڈر جمع کرایا یا کرانا چاہا تو کیا بینک نے میرے دستخط مانگے؟ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ جس قانون کی رو سے میرے دستخط پے آرڈر پر ہونے لازم ہیں‘ اس قانون کا حوالہ وٹس ایپ کر دیجیے تاکہ حاضر ہو کر قانونی تقاضا پورا کر سکوں۔ اس غیر متوقع جواب پر پکے کا یہ ڈاکو خاموش ہو گیا اور بغیر کچھ کہے فون رکھ دیا۔ ملک سے آتے وقت کتابوں کی وجہ سے سامان زیادہ تھا۔ زائد سامان کی پاداش میں کچھ پیسے دینے پڑے۔ کریڈٹ کارڈ دیا۔ مشین سے رقم کی رسید نکلی۔ میرے سامنے رسید رکھتے ہوئے کاؤنٹر والا کہنے لگا اس پر دستخط کیجیے۔ میں چونک پڑا۔ پوچھا کیوں؟ بھلا کریڈٹ کارڈ کی جو رسید مشین سے نکلتی ہے‘ اس پر کبھی کسی نے دستخط کیے؟ یہ سن کر اس سیہ دل کے چہرے پر سیاہی کا بادل سا آیا اور رسید اس نے میرے آگے سے ہٹا لی۔یہ رویہ‘ غیرضروری اور غیرقانونی مطالبات پیش کرنے کا یہ منحوس رویہ پاکستان کی جڑوں تک پھیلا ہوا ہے اور زہر پھیلا رہا ہے۔ بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ سائل کو سہولت نہیں بہم پہنچانی بلکہ نانی یاد دلانی ہے۔ جس لائبریری کا ذکر اوپر کیا ہے‘ اس کے کاؤنٹر پر کسی پاکستانی کو بٹھا کر دیکھ لیجیے۔ سب سے پہلے تو وہ تحریری درخواست مانگے گا۔ پھر شناختی کارڈ۔ پھر آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں‘ اس کے کاغذات۔ پھر ایک فارم بھروائے گا کہ میں لائبریری کے قوانین کی پابندی کروں گا۔ پھر کہے گا کہ اس فارم کو کسی سرکاری افسر سے 
Attest
 کرا کر لائیے۔ آپ دوسرے دن یہ بھی کرا لائیں گے۔ پھر وہ کہے گا کہ ایک ہفتے کے بعد آئیے۔ آج ملک کی جو حالت ہے‘ یونہی نہیں ہوئی۔ اس حالت تک پہنچنے کے لیے ہم نے بہت محنت کی ہے!

Tuesday, September 03, 2024

وفاقی دارالحکومت کی شہ رگ کا ماتم —- ایک بار پھر !

یہ ایک بہت بڑی ، عظیم الجثہ ، دیو پیکر ، عفریت نما عمارت تھی۔ اس  کے اندر کئی ہوائی جہاز کھڑے تھے۔ بڑے بڑے جنگی ہوائی جہاز! ( ایسی عمارت ،جس کے اندر  ہوائی جہاز پارک کیے جائیں، ہینگر کہلاتی ہے۔ ) ہمارے چینی میزبان تفصیلات بتا رہے تھے۔ ہم حیرت سے گُنگ ہوئے جا رہے تھے۔مگر اصل حیرت کا پہاڑ ابھی ٹوٹنے والا تھا۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا یہ عمارت کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ جواب ملا پورے ایک سال میں! اس سے ایک دن زیادہ نہ کم! یہاں تو پانچ سو گز ( یعنی جعلی ایک کنال ) کا گھر ڈیڑھ سال میں بن جائے تو آدمی خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔ ( جعلی کنال اس لیے کہا ہے کہ اصل کنال بیس مرلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب پانچ سو گز یعنی تقریبا” سترہ مرلوں کو ایک کنال کہا جانے لگا ہے۔ ) ہم نے میزبانوں سے پوچھا کہ  مقررہ مدت میں نہ بنے تو  ؟  اس پر انہوں نے کہا کہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو تاریخ طے ہوتی ہے اس سے آگے پیچھے ہونے کا امکان صفر سے بھی کم ہے۔ اس یقین کی پشت پر   سزا کا وہ تصور کار فرما ہے جو چین میں رائج ہے۔ معافی یا سفارش کے ذریعے بچ جانے کا کوئی سلسلہ نہیں! 

یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ کل کے اخبارات میں وفاقی دارالحکومت کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ بد بخت شاہراہ “ ایکسپریس وے “  کا ذکر ہے اور یہ ذکر ، ذکرِ خیر نہیں۔ ایک بار پھر مقررہ تاریخ ( ڈَیڈ  لائن) گذر گئی اور شاہراہ مکمل نہیں ہوئی۔ یہ ڈَیڈ لائن چودہ اگست تھی اور  یہ پہلی ڈَیڈ لائن نہیں تھی۔ اُن تاریخوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو دی گئیں اور ہر بار بتایا گیا کہ اس تاریخ تک سڑک مکمل ہو جائے گی۔ سڑک مکمل نہ ہوئی۔  کئی بار نئی تاریخ دی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ شاہراہ اسلام آباد کی شہ رگ ہے۔ ہر روز جہلم، چکوال، دینہ ، منگلا،گوجر خان اور سینکڑوں  دیگر بستیوں سے لاکھوں لوگ ایکسپریس وے سے وفاقی دارالحکومت آتے ہیں اور واپس جاتے ہیں۔ خود اس شاہراہ کے کناروں پر درجنوں آبادیاں ہیں جو اسلام آباد  کا  حصہ ہیں ۔ان کے  مکین اسی شاہراہ کے ذریعے دفتروں، بازاروں، سفارت خانوں اور تعلیمی اداروں میں پہنچتے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ شاہراہ زیر  تعمیر ہے۔ اس پر سفر کرنے والے بے پناہ اذیت  سے گذر رہے ہیں۔ بچے ، عورتیں ، بوڑھے گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں ۔آپ اندازہ لگائیے  جن حکومتوں سے چند کلو میٹر کی شاہراہ نہیں بن رہی، وہ دیگر بڑے بڑے کام کیا کریں گی! اگر کسی نے موجودہ پاکستان کی  حالت کو بیان کرنا ہو تو صرف اس شاہراہ کی حالت دکھا دے اور یہ بھی بتا دے کہ کتنے برسوں سے عوام کے ساتھ یہ ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے! 

اس صورت حال کا سبب کیا ہے ؟ ہمارے نزدیک تین   سبب ہیں۔ پہلا سبب  یہ ہے کہ جو  افراد تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں سزا نہیں دی جاتی! محاسبے کا کوئی نظام وجود نہیں رکھتا۔ جس ادارے نے فنڈز  فراہم کرنے تھے  کیا اس کی طرف سے تاخیر ہوئی؟ کیا میٹیریل فراہم کرنے میں تاخیر ہوئی؟ کیا انجینیر کا قصور تھا ؟ یا ٹھیکیدار کا؟ جب کسی قصور وار کو سزا نہیں ملے گی تو منصوبہ وقت پر کیونکر  مکمل ہو گا؟ چین نے چند دہائیوں میں فلک بوس عمارتوں،  طویل شاہراہوں، ریلوے لائنوں، اوور ہیڈ پلوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس کی پشت پر سزاؤں کا نفاذ ہے۔ یہ سزائیں جیل میں بھیجنے کے علاوہ موت کے گھاٹ اتارنے کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ہے کوئی ہماری نام نہاد  پارلیمنٹ میں   پوچھنے والا کہ کتنی بار مقررہ تاریخ کو جوتے کی نوک پر رکھا گیا اور یہ کہ ذمہ داروں کے نام کیا ہیں؟  قیامت تو آسکتی ہے مگر ذمہ داروں کو سزا نہیں  مل سکتی ! یوں بھی  پارلیمنٹ میں تشریف فرما ارکان کو کیا پڑی ہے کہ اس قبیل کے عوامی مسائل کا پوچھیں ! اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ! 

دوسرا سبب ہے متعلقہ اداروں کے سربراہوں کا رویہ اور مائینڈ سیٹ! ہمارے ہاں سرکاری ملازم اپنے آپ کو ملازم نہیں افسر سمجھتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے وفاقی ترقیاتی ادارے کا سربراہ زیر تعمیر ( یا زیر اذیت ) ایکس پریس وے کو ایک مہینے میں کتنی بار ذاتی طور پر آکر دیکھتا ہو گا ؟ ہمارے ناقص اندازے کے  مطابق ایک بار بھی نہیں !  اگر  اس اندازے کو ثبوت کے ساتھ غلط ثابت کیا جاتا  ہے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ایک ثانیے کا توقف بھی نہیں کریں گے ! جب تک افسری کا خمار نوکر شاہی کے سر سے جاتا نہیں اور جب تک سربراہ کو یقین نہیں دلایا جاتا کہ وہ منصوبے کی عدم تکمیل کا ذاتی طور پر ذمہ دار اور جوابدہ ہو گا تب تک منصوبے اسی طرح لٹکتے رہیں گے ! 

تیسرا سبب یہ ہے کہ نوکر شاہی عوام سے  مکمل طور پر  لا تعلق ہے۔  یہ حضرات عوام سے ملتے ہیں نہ ان کی درخواستوں  ، شکایتوں اور رابطوں   کا جواب دیتے ہیں نہ فون پر ہی بات کرنے کو تیار ہیں!!اداروں کے سربراہ رسائی سے مکمل طور پر  باہر ہیں۔  سی ڈی اے کے موجودہ سربراہ ، چوہدری محمد علی رندھاوا صاحب  ،مئی میں جب  سریر آرائے منصب ہوئے تو اس کالم نگار نے انہی صفحات کی وساطت سے ان کی توجہ چند اہم مسائل کی طرف مبذول کرانے کی کوشش  کی ۔ آپ کا کیا خیال ہے ان کی طرف سے کوئی جواب ، کوئی رسید ، کوئی رد عمل  آیا ہو گا ؟ نہیں!  وہ مسائل بھی شہر میں جوں کے توں ہیں۔اس لیے کہ بیورو کریٹ یہاں عوام سے مکمل طور پر کٹا ہؤا ہے۔ اس کا رابطہ اوپر ہے۔ نیچے کی طرف جانے والی کسی   لائن  کا وجود ہی نہیں۔ حالانکہ یہ عوام ہیں جن کا مقام اور سٹیٹس  نیچے کے بجائےاوپر ہے اور اوپر ہونا چاہیے! اس کے مقابلے میں عزت دار ، ترقی یافتہ ملکوں  میں کیا ہوتا ہے؟ میرا آسٹریلیوی صحافی دوست چند روز پہلے بتا رہا تھا کہ اس نے اخبار میں ایک چھوٹا  سا  پِیس ، شذرہ ، ایک مسئلے کے ضمن میں لکھا۔ ٹھیک  تین دن کے بعد اسے  صوبے کے سربراہ  
( Premier) 
 کے دفتر سے ای میل موصول ہوئی جس میں شکریہ ادا کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایکشن لیا جا رہا ہے۔

اگر سالہا سال کے بعد بھی ہم سے چند کلو میٹر لمبی شاہراہ کی تعمیر و توسیع مکمل نہیں ہو رہی تو ہم  نے اور کیا تیر مارنے ہیں۔ اسلام آباد کا ائر پورٹ بننے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور یہ ائر پورٹ، بنکاک، سنگاپور، کوالا لمپور، دبئی اور قطر کے ائر پورٹوں کے  سامنے ایسا ہی ہے جیسے مرزا غالب کے سامنے استاد امام  دین گجراتی! لکھنؤ میں ایک نواب صاحب کے ہاں دعوت تھی۔ معلوم ہؤا دہی نہیں حاضر کیا گیا۔ انہوں نے ملازم کو حکم دیا کہ جا کر دکان سے لے آئے۔ جیسے ہی ملازم کمرے سے نکلا، نواب صاحب نے کمنٹری شروع کر دی۔ “ اب ملازم نے جوتے پہنے ہیں۔اب وہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب وہ صدر دروازے سے نکلا ہے۔ اب گلی کے نکڑ پر ہے۔ اب دکان سے دہی لے رہا ہے۔ اب واپس چل پڑا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہؤا ہے۔  اب جوتے اتار رہا ہے۔ لیجیے آ گیا۔ اور ساتھ ہی ملازم دہی لیے کمرے میں  داخل ہو  گیا۔ وہاں ایک سردار صاحب  بھی تھے۔ واپس آکر انہوں نے بھی دعوت کی۔ ملازم کو اسی طرح دہی لینے بھیجا۔ ساتھ ہی کمنٹری شروع کر دی۔ جب آخر میں کہا کہ یہ لیجیے ملازم دہی لیے آن پہنچا  تو ملازم کا نام و نشان نہیں تھا۔ پوچھا تو اس نے باہر سے جواب دیا حضور میں تو ابھی جوتے تلاش کر رہا ہوں۔ 

ہم پون صدی سے جوتے ہی تلاش کر رہے ہیں! 

…………………………………………………………………………

Monday, September 02, 2024

پکّے کے ڈاکو


ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہے۔ خشکی ہے تو مقابلے میں تری ہے۔ روشنی ہے تو اندھیرا بھی ہے۔ رات کے ساتھ دن‘ بہار کے ساتھ خزاں‘ سردی کے ساتھ گرمی‘ خیر کے ساتھ شر‘ موت کے ساتھ زندگی! ایسا ہے تو کچے کے ڈاکوئوں کے ساتھ پکے کے ڈاکو بھی ہونے چاہئیں۔ مگر وہ کہاں ہیں؟ کچے کے ڈاکوؤں نے ڈراؤنی‘ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوتی ہیں۔ مگر پکے کے ڈاکوؤں کی کیا نشانی ہے؟ کچے کے ڈاکو لمبی قمیضیں اور کھلے پائنچوں کی بھاری بھرکم شلواریں پہنتے ہیں اور چادر لپیٹتے ہیں۔ پکے کے ڈاکوؤں کا لباس کیا ہے؟ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس بندوقیں‘ ریوالور‘ راکٹ اور گرنیڈ ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرتے ہیں! پکے کے ڈاکوؤں کے پاس کون کون سے ہتھیار ہوتے ہیں؟ کچے کے ڈاکو لوگوں کے گھر لوٹ لیتے ہیں اور خاندانوں کو برباد کر دیتے ہیں! تو کیا پکے کے ڈاکو بھی یہی کچھ کرتے ہیں؟ کچے کے ڈاکو قانون سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ بہت سے اشتہاری مجرم ہیں۔ کچھ کے تو سروں کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔ تو کیا پکے کے ڈاکو بھی قانون کو مطلوب ہیں؟
کئی دن سوچتا رہا کہ پکے کے ڈاکو کہاں ہوں گے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کہیں نہ ہوں کیونکہ ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہے۔ آخر انہیں کیسے ڈھونڈا جائے؟ رہنمائی کے لیے دیوانِ حافظ سے فال نکالی۔ فال میں یہ شعر نکلا:
مشکلِ خویش برِ پیرِ مغاں بردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معمّا می کرد
میں اپنی مشکل کل پیرِ مغاں کے حضور لے گیا۔ وہ اپنی گہری نظر اور فراست سے بڑی بڑی پہیلیاں بوجھ لیتا تھا۔
اس رہنمائی کی روشنی میں پیرِ مغاں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا کہ پکے کے ڈاکو کہاں ملیں گے؟ اس نے دوسرے دن آنے کو کہا۔ دوسرے دن پھر حاضر ہوا۔ پیرِ مغاں پہلے سے تیار تھا۔ کچھ بتائے بغیر‘ مجھے ساتھ لیا اور چل پڑا۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: جو سوال تم نے کل کیا تھا اسی کا جواب تلاش کرنے جا رہے ہیں۔ بہرطور تم زیادہ سوال جواب نہ کرو۔ بس دیکھتے جاؤ! چلتے چلتے پیر مغاں ترقیاتی ادارے میں پہنچ گیا۔ اب اس نے زنبیل سے ایک مکان کا نقشہ نکالا اور متعلقہ اہلکار سے کہا کہ یہ نقشہ منظور کرانا ہے تا کہ مکان کی تعمیر ہو سکے۔ اہلکار نے نقشہ لیا اور دیکھے بغیر کاغذات کے بڑے سے ڈھیر کے اوپر رکھتے ہوئے دوسرے دن آنے کا کہا۔ دوسرے دن ہم گئے تو وہ چھٹی پر تھا۔ تیسرے دن بتایا گیا کہ نماز پڑھنے گیا ہے۔ ہم دفتر بند ہونے تک انتظار کرتے رہے مگر وہ نماز کے بعد اپنی سیٹ پر آیا ہی نہیں۔ چوتھے دن پتا چلا کہ وہ ایک اہم نوعیت کی میٹنگ میں گیا ہوا ہے۔ پانچویں دن معلوم ہوا کہ وہ بڑے صاحب کے ساتھ کسی دوسرے شہر گیا ہوا ہے۔ غرض ہم کئی دن جاتے رہے۔ بیس دن کے بعد ایک خوش قسمت دوپہر کو وہ مل ہی گیا۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ ایک اور کمرے میں لے گیا۔ وہاں اس کا کوئی افسر ٹائپ بندہ بیٹھا تھا۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے‘ لگی لپٹی رکھے بغیر‘ پوچھا: بزرگو! کوئی سفارش ہے؟ پیرِ مغاں نے کہاکہ خدا کے سوا کوئی سفارش نہیں۔ اس پر اُس افسر ٹائپ بندے نے کہا کہ پچاس ہزار دو تو دس بارہ دن میں نقشہ پاس ہو جائے گا۔ کل لینا چاہتے ہو تو ایک لاکھ لگے گا۔ پیرِ مغاں نے کہا کہ آپ کو اس کام کی حکومت سے تنخواہ ملتی ہے‘ آپ پر لازم ہے کہ پیسے لیے بغیر‘ اپنی ڈیوٹی ادا کریں اور نقشہ منظور کریں۔ اس پر افسر پیر مغاں کو بہت دیر غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بہت ہی نرم اور مہربان لہجے میں کہا کہ اچھا پیسہ نہیں لیتے‘ چھ ماہ بعد آکر پتا کر لینا۔ پیر مغاں مجھے باہر لے آیا اور کہا کہ یہ تھا پکے کا ڈاکو!
اب پیر مغاں نے فیصلہ کیا کہ ادارے کے سربراہ کی توجہ اس افسوسناک صورت حال کی طرف مبذول کرانی چاہیے۔ چنانچہ وہ مجھے لے کر ادارے کے سربراہ کے دفتر چلا گیا۔ پی اے سے کہا کہ سربراہ کو ملنا چاہتے ہیں۔ اس نے وجہ پوچھی تو پیر مغاں نے تفصیل بتانے سے معذرت کی اور کہا کہ حساس معاملہ ہے‘ صرف بڑے صاحب کو بتائیں گے۔ پی اے نے پیر مغاں کا فون نمبر لیا اور کہا کہ جیسے ہی صاحب فارغ ہوں گے‘ پیر مغاں کو بلا لیا جائے گا۔ ہفتے مہینے گزر گئے۔کئی بار پوچھا بھی‘ ملاقات نہ ہو سکی۔ پھر پیر مغاں نے سربراہ کے نام خط لکھا۔ اس کا بھی جواب نہ آیا۔ ایک دن پیر مغاں نے بتایا کہ یہ بھی پکے کا ڈاکو ہے۔
اس شام پیر مغاں کے ایک پلاٹ پر ایک غنڈے نے قبضہ کر لیا۔ پیر مغاں نے مجھے ساتھ لیا اور تھانے لے گیا۔ تھانیدار تو موجود نہ تھا۔ ڈیوٹی پر جو محرر تھا اسے ناجائز قبضے کا بتایا اور مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر لکھوانی ہے۔ محرر نے کہا کہ یہ اس کے اختیار میں نہیں۔ کل آؤ اور ایس ایچ او صاحب کو ملو۔ کئی دن کے بعد ایس ایچ او ہاتھ آیا۔ جب ایف آئی آر کا کہا تو لیت ولعل کرنے لگا۔ کبھی کہتا کہ صلح کر لو۔ کبھی کہتا کہ قبضہ کرنے والے کو ساتھ لاؤ۔ مہینوں پر مہینے گزر گئے۔ کوئی داد رسی نہ ہو سکی۔ ایک دن پیر مغاں نے اپنا فیصلہ سنایا کہ یہ بھی پکے کا ڈاکو ہے۔ یہاں بھی محکمے کے سربراہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ پیر مغاں نے اس کا نام بھی پکے کے ڈاکوئوں میں لکھ لیا۔
پیر مغاں مجھے لیے جگہ جگہ پھرتا رہا۔ پاسپورٹ آفس میں ارجنٹ والی فیس دی۔ پھر بھی اتنی ہی دیر لگی جتنی عام فیس دینے پر لگتی تھی۔ زرعی زمین کے انتقال کے لیے کچہری کے چکر لگائے۔ رشوت دی تب انتقال ہوا۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سے ملنا چاہا۔ دھکے کھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ پیر مغاں نے مجھے سمجھانے اور بتانے کے لیے بندوق کا لائسنس حاصل کرنے کی کوشش کی‘ناکامی ہوئی۔ دوسری طرف ہر غنڈے اور ہر بدمعاش کے پاس لائسنس تھا۔ پیر مغاں گیس‘ پانی بجلی‘ اور کئی دوسرے محکموں میں لے کر گیا۔ کہیں بھی رشوت کے بغیر کام نہ ہوا۔ بازار میں گیا تو آٹا‘ دودھ‘ گاڑی میں ڈالا جانے والا تیل سب جعلی تھے۔ جس دن پیر مغاں کے ساتھ میرا آخری دن تھا‘ اس نے بٹھا کر بتایا کہ اسے معلوم تھا کہ کہیں بھی شرافت سے کام نہیں ہو گا۔ صرف مجھے سمجھانے کے لیے ہر جگہ لے کر گیا۔ اس نے کہا کہ کچے کے ڈاکو دُور سے پہچانے جاتے ہیں مگر پکے کے ڈاکو نہیں پہچانے جا سکتے۔ یہ عام لباس میں ہوتے ہیں۔ شلوار قمیض اور واسکٹ میں یا انگریزی سوٹ بوٹ میں۔ ان کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا۔ کاغذ‘ قلم اور کمپیوٹر ہوتا ہے جس سے سائل کو ہلاک کرتے ہیں۔ پکے کے یہ ڈاکو قانون سے بھاگتے نہیں بلکہ قانون خود ان سے دور بھاگتا ہے۔ کچے کے ڈاکو خاندانوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ پکے کے ڈاکو نسلوں کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پکے کے ڈاکو دیکھنے میں ڈاکو نہیں لگتے۔ یہ بظاہر مذہبی بھی ہو سکتے ہیں۔ مغرب کے تعلیم یافتہ بھی ہو سکتے ہیں۔ تاجر بھی ہو سکتے ہیں‘ جاگیردار بھی‘ صنعتکار بھی اور افسر بھی! حکومتی عمائدین میں سے بھی ہو سکتے ہیں! اور ہاں یہ بھی یاد رکھو کہ کچے کے ڈاکو ملک کی دولت ملک سے نکال کر بیرونِ ملک کبھی نہیں لے جاتے۔ پیر مغاں نے مجھے رخصت کیا۔ میں نے اپنا دیوانِ حافظ کا نسخہ سنبھالا اور پناہ لینے کے لیے کچے کے ڈاکوؤں کی طرف چل پڑا۔

 

powered by worldwanders.com