Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, September 30, 2024

قرۃ العین حیدر کی فیملی


موت کی خبر بھی اتنی ہی طاقتور ہے جتنی موت ہے۔ جس طرح موت کو روکنا ناممکن ہے‘ ( تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو۔ النساء) اسی طرح موت کی خبر بھی ساری رکاوٹیں ہٹا کر‘ سارے ٹائم زون پار کر کے‘ سارے سمندر عبور کر کے‘ ساری ہواؤں‘ جھکڑوں‘ طوفانوں‘ بارشوں سے گزر کر جہاں پہنچنا ہو پہنچ جاتی ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں تھا‘ یعنی وقت کے لحاظ سے پاکستان سے آٹھ گھنٹے آگے! پہلے تو برادرم غالب صاحب کا‘ جو ریٹائرمنٹ سے قبل وزیراعظم کے دفتر میں وفاقی سیکرٹری تھے‘ پیغام ملا۔ کچھ دیر کے بعد قاضی عمران الحق‘ سابق ڈپٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا وٹس ایپ موصول ہوا۔ دونوں کا متن ایک ہی تھا۔ ہماری سابق رفیقہ کار اور پچاس سالہ پرانی دوست‘ نور العین حیدر‘ اپنی مقررہ مدت اس دنیائے فانی میں پوری کر کے وقت کی سرحد کے پار اُتر گئیں۔
وہ اردو ادب کی عظیم لیجنڈ قرۃ العین حیدر کی سگی بھتیجی تھیں۔ یہ اتنی بڑی نسبت تھی کہ اس نے مجھے ہمیشہ ان کے قریب رکھا۔ سی ایس ایس کے امتحان کے نتیجے میں ہم دونوں پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس کے لیے (جو بعد میں پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں ضم ہو گئی) منتخب ہوئے۔ یہ کامن ٹریننگ شروع ہونے سے ایک سال پہلے کی بات ہے۔ آج والٹن میں جو سول سروس اکیڈمی ہے‘ یہ اُس وقت صرف مالیاتی سروسز کے لیے مختص تھی۔ اس میں ملٹری اکاؤنٹس‘ ریلوے اکاؤنٹس‘ انکم ٹیکس اور کسٹم کے گروپوں کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ تب یہ ''فنانس سروسز اکیڈمی‘‘ کہلاتی تھی۔ ہم چالیس کے قریب زیر تربیت افسران تھے۔ نور العین حیدر واحد خاتون افسر تھیں۔ جہاں چالیس مرد ہوں‘ تو ظاہر ہے وہاں ہر افتاد طبع کے لوگ ہوں گے۔ اچھے بھی اور کم اچھے بھی۔ نور العین حیدر نے جس متانت اور نجابت کے ساتھ ایک سالہ تربیت کا یہ عرصہ گزارا اور ملک کے مختلف حصوں کے دوروں میں سب کے ساتھ رہیں‘ اس سے ان کے کردار کا اجلا پن نکھر کر سامنے آیا۔ مزاج میں ایک صحت مند قسم کی کم آمیزی تھی‘ اس توازن کے ساتھ کہ اسے رعونت یا تکبر کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نہیں معلوم ہمارے ساتھیوں میں سے کتنے قرۃ العین حیدر سے واقف تھے اورکتنوں نے اُن کی کتابیں پڑھی تھیں مگر میں‘ ادب کا طالب علم ہونے کے سبب ان کی کتابوں کا دلدادہ تھا۔ ہم جب بھی اکٹھے بیٹھتے‘ انہی کی باتیں کرتے۔ میں نے اس عظیم ادیبہ کی زندگی کے مختلف گوشوں کے متعلق ان کی اس بھتیجی سے بے شمار معلومات حاصل کیں! ملازمت کا زیادہ عرصہ نورالعین نے کراچی گزارا۔ جب بھی جانا ہوتا‘ کراچی جمخانہ میں مہمان نوازی کرتیں۔ گریڈ اکیس میں آئیں تو تبادلہ اسلام آباد میں ہو گیا۔ ہمارے گھر آتیں‘ میری اہلیہ سے اُن کی دوستی تھی۔ پہلے ان کا طرزِ زندگی آزادانہ تھا۔ اردو ادب کے طالب علم جانتے ہیں کہ اُن کی دادی‘ سجاد حیدر یلدرم کی بیگم‘ روایت شکن قسم کی خاتون تھیں۔ تاہم حج کرنے کے بعد نور العین حیدر نے التزام کے ساتھ سر ڈھانپنا شروع کر دیا تھا۔
ہم آگے پیچھے ہی ریٹائر ہوئے۔ وہ جنوری میں‘ میں مئی میں۔ وہ کراچی چلی گئیں۔ ٹھیک دو سال بعد‘ جولائی2010ء میں کراچی سے آنے والا مسافر بردار طیارہ اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں میں گر ا۔ تمام مسافر جاں بحق ہو گئے۔ ان میں نور العین حیدر کے شوہر فاروق نعیم صدیقی بھی تھے۔ میں نے اور میری اہلیہ نے جب تعزیت کے لیے فون کیا تو نور العین کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ فاروق زندہ ہیں اور ان کی وفات کی خبر غلط ہے۔ اس کے بعد جب بھی فون پر بات ہوئی وہ نارمل نہ دکھائی دیں۔
یہ پانچ بہن بھائی تھے۔ تین بہنیں‘ دو بھائی۔ اور پانچوں سول سروس میں تھے۔ دو بہن بھائی‘ شہناز حیدر اور سب سے چھوٹے‘ طویل قامت‘ سجاد حیدر‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں تھے۔ سجاد حیدر ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل بھی رہے اور دو‘ تین سال پہلے ریٹائر ہوئے۔ ناہید حیدر اور جلال حیدر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تھے۔ جلال حیدر بہت اچھے دوست تھے۔ میرے گاؤں بھی آئے۔ خوشی اور غم میں شریک ہونے والے تھے۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر رہے۔ پھر مرکز میں جوائنٹ سیکرٹری رہے۔ کسی افسر نے پریشان کیا تو ملازمت کو خیرباد کہا اور کینیڈا ہجرت کر گئے۔ میں اور بیگم ٹورنٹو میں ایک ہفتہ اُن کے ہاں ٹھہرے تھے۔ انہوں نے بال لمبے کر لیے تھے۔ کان میں بالی تھی۔ خیالات میں بھی بہت زیادہ تبدیلی آگئی تھی۔ گزر اوقات کے لیے ایک دو مکان خریدے اور کرائے پر چڑھائے۔ ایک دن کہنے لگے: ایک کرایہ دار نے شکایت کی ہے‘ اُس کے باتھ روم میں کچھ مسئلہ ہے۔ مجھے ساتھ لیا۔ یہ ٹورنٹو کی کوئی نواحی بستی تھی جہاں یہ مکان تھا۔ پانی کے نظام میں کوئی خرابی تھی۔ جلال نے کار کی ڈگی کھولی تو دنیا بھر کے اوزاروں سے بھری تھی۔ انہوں نے ایک مشاق کاریگر کی طرح مرمت کا یہ کام کیا اور مسئلہ حل ہو گیا۔ کہنے لگے: جب مکان خرید کر کرائے پر دیا تو سوچا کہ کرایہ دار کبھی کہے گا باتھ روم میں خرابی ہے‘ کبھی کہے گا کچن میں۔ اگر مستری‘ پلمبر‘ الیکٹریشن وغیرہ بلائے تو وہ بہت مہنگے پڑیں گے۔ ان ملکوں میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی اجرتیں آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں؛ چنانچہ فیصلہ کیا کہ ''ہَینڈی مَین‘‘ کا کورس کریں گے۔ ہینڈی مین اُس شخص کو کہتے ہیں جو گھر میں خراب ہونے والی چیزوں کی مرمت کر لے۔ جیسے ہیٹر‘ اے سی‘ چولہا‘ باتھ روم کی فٹنگز وغیرہ۔ یہاں رک کر دو پہلوؤں پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی اجرتیں زیادہ ہیں۔ یعنی ان کا معیارِ زندگی وہاں پڑے لکھوں کے معیارِ زندگی سے کم نہیں۔ دوسرے‘ کوئی انہیں حقارت سے نہیں دیکھتا۔ ہم فقط زبان سے کہتے ہیں کہ الکاسب حبیب اللہ کہ ( ہاتھ سے) کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے‘ مگر ہاتھ سے کام کرنے والے کو معاشرے کی پست ترین سطح پر رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر رہنے والا حاکم‘ مغربی ملکوں میں ہینڈی مین بن کر رہتا ہے اور وہی عزت‘ حفاظت اور حقوق پاتا ہے جو پاکستان میں بڑے افسر کو حاصل ہیں۔ کچھ معاملات ایسے تھے جن کے سبب جلال ناخوش رہتے تھے۔ اکثر کہتے تھے: 

I will walk alone to my grave

۔ میں اپنی قبر کی طرف اکیلا جاؤں گا۔ یہی ہوا! چند ماہ پہلے وہ کراچی آئے ہوئے تھے۔ قضا نے یہیں انہیں گھیر لیا۔ خاندان والے کینیڈا میں تھے۔ میتیں عام طور پر دیارِ غیر سے وطن آتی ہیں مگر جلال کا جسدِ خاکی کراچی سے کینیڈا گیا۔ جس طرح یہ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ آخری سانسیں کہاں لے گا (اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا۔ سورۂ لقمان) اسی طرح یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ دفن کہاں ہو گا۔ بزرگ کہا کرتے تھے نہیں معلوم ڈھیری کہاں بنے گی۔
قرۃ العین حیدر نے اپنی شہرہ آفاق خودنوشت ''کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں اپنی ان بھتیجیوں اور بھتیجوں کا ذکر کیا ہے۔ کتاب میں ان کی تصاویر بھی ہیں۔ ایک بار قرۃ العین حیدر اسلام آباد آئیں تو شہر کے شاعروں سے انہیں ملوایا گیا۔ انہوں نے سب سے شعر بھی سنے۔ یہ نشست مشاہد حسین سید کے گھر پر منعقد ہوئی۔ مشاہد حسین سید کے سسر‘ جری احمد سید‘ قرۃ العین کے قریبی عزیز تھے۔ خود نوشت میں جری احمد سید کا بھی ذکر ہے اور تصویر بھی۔ وہ کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ جلال مرحوم کے ہاں ایک نادر کتاب دیکھی تھی۔ یہ قرۃ العین کی زندگی بھر کی تصویروں پر مشتمل تھی۔ ہر تصویر کے ساتھ تفصیل بھی لکھی تھی۔ اب یاد نہیں آ رہا یہ کہاں کی چھپی ہوئی تھی۔ شاید بھارت کی۔ قصہ مختصر‘ یہ ایک لائق اور جینئس خاندان تھا جس کے اکثر ارکان دنیا سے جا چکے۔

Thursday, September 26, 2024

مرا ہاتھ دیکھ برہمنا


ہم مری کے پرل کانٹی نینٹل ( پی سی) بھوربن میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک غیر ملکی کمپنی نے اپنے سیمینار میں مدعو کیا تھا۔ شرکا کو اجازت تھی کہ بیگمات بھی ساتھ آ سکتی ہیں۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ ہوٹل کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔کراچی‘ فیصل آباد اور دیگر امیر شہروں کے صنعتکار اور تاجر مری کا لطف اٹھانے کے لیے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ سیمینار جس شام ختم ہوا اس کے دوسرے دن صبح میں اور اہلیہ ہوٹل کے اندر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک بڑا ہال نظر آیا۔اس کے باہر بینر تھا یا بورڈ‘ اس پر لکھا تھا ''قسمت کا حال معلوم کیجیے‘‘۔ ہال کے اندر داخل ہوئے تو ایک کونے میں اس قسمت کا حال بتانے والے نے سٹال لگایا ہوا تھا۔ اس سے گپ شپ ہوئی۔ پوچھا: اتنے بڑے ہوٹل میں تم اچھا خاصا کرایہ دیتے ہو گے لیکن کیا آمدنی بھی اُسی حساب سے ہو جاتی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کرایہ واقعی زیادہ ہے مگر آمدنی بھی خاصی معقول ہے۔ پھر پوچھا کہ یہاں آخر کون لوگ ہیں جو قسمت کا حال جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: یہ جو دولت مند لوگ یہاں امیر شہروں سے آتے ہیں اور پورے پورے کنبوں کے ہمراہ ہفتوں ٹھہرتے ہیں‘ یہی بہت بے تابی اور تجسس سے مستقبل کا حال پوچھتے ہیں۔ میں نے اُس وقت کھدر کی عام سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پَیروں میں ہوائی چپل تھی۔ اہلیہ نے سر پر بڑی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ قسمت بیچنے والے اس دکاندار کے سامنے رکھا اور کہا کہ میں مولوی ٹائپ آدمی ہوں۔ انگریزی پڑھنے اور جاننے کا بہت شوق ہے مگر کامیابی نہیں ہو رہی۔ ذرا بتاؤ کہ کیا میری یہ خواہش پوری ہو گی؟ کیا میں انگریزی پڑھ لکھ سکوں گا؟ اس نے میرا ہاتھ دیکھا‘ ادھر ادھر سے دبایا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ پھر بولا ''مولوی صاحب! تمہاری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ ہاں اگر میں پڑھاؤں تو سیکھ جاؤ گے!‘‘۔ میری اہلیہ کچھ کہنے والی تھیں کہ میں نے انہیں اشارے سے روک دیا۔ اس کے بعد اس سے مزید گپ شپ ہوئی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ مظہر علی اظہر کا پوتا ہے۔ اب یہ اس نے بتایا نہ میں نے پوچھا کہ کیا وہ سگا پوتا ہے یا رشتے میں پوتا ہے۔ دادا کے بھائی یا کزن کو بھی ہماری ثقافت میں دادا ہی کہا جاتا ہے۔ اگر وہ اصل میں مظہر علی اظہر کے بھائی‘ یا بہن یا کزن کا پوتا تھا تو ایک لحاظ سے مظہر علی اظہر کا بھی پوتا ہوا۔ ہو سکتا ہے وہ مظہر علی اظہر کا سگا پوتا ہو۔ بہرطور میں نے یہ سن کر عبرت پکڑی اور قدرت کے کاموں پر حیران ہوا۔ مظہر علی اظہر احراری لیڈر تھا۔ اسی شخص نے قائداعظم کو 'کافرِ اعظم‘ کہا تھا۔ اس کا جس مسلک سے تعلق تھا اس میں پیروں فقیروں‘ نجومیوں‘ پامسٹوں سے قسمت کا حال پوچھنے اور اسے ماننے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اسی کا پوتا یہ دھندا کر رہا تھا۔ اور یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسے پیشے سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز بھی ہے یا نہیں؟
پندرہ بیس سال پرانا یہ واقعہ اب کیوں یاد آ رہا ہے ؟ ایک خاتون مختلف ٹی وی چینلوں پر مستقبل کا حال بتاتی ہیں۔ کافی عرصہ سے وہ یہ کام کر رہی ہیں۔ کل پرسوں ایک وڈیو کے ذریعے معلوم ہوا کہ انہوں نے شادی کی۔ میاں کے ساتھ حج پر تشریف لے گئیں۔ وہاں میاں بیمار پڑ گئے۔ ڈاکٹروں نے خاتون کو بتایا کہ ان کے میاں کا دل کا مسئلہ تو پہلے سے چل رہا ہے۔ سٹنٹ‘ پیس میکر

 (Pace maker)

 وغیرہ دل میں پہلے سے لگے ہوئے ہیں۔ قدرت کو یہی منظور تھا۔ وہ انتقال کر گئے۔ اب وہ نجومی خاتون اینکر کو بتا رہی تھیں کہ انہیں افسوس اس بات کا ہے کہ شادی کرتے وقت انہیں میاں کے دل کی بیماری کے حوالے سے سچ نہیں بتایا گیا بلکہ چھپایا گیا۔ واقعی افسوس کا مقام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ موصوفہ ساری دنیا کو ماضی اور مستقبل سے آگاہ کرتی ہیں تو شادی طے کرتے وقت میاں کا ماضی ستاروں کی مدد سے کیوں نہ معلوم کر لیا؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ پامسٹری‘ ستارہ شناسی وغیرہ علوم نہیں ہیں۔ ہوں گے! لیکن اگر یہ علوم ہیں بھی تو محض ظنّی علوم ہیں۔ محض اندازے‘ ظن اور تخمین پر مشتمل!! ان کی بنیاد پر آپ کوئی منصوبہ‘ کوئی پلان نہیں بنا سکتے! شاہ عباس صفوی بہت طاقتور بادشاہ تھا۔ اسے عباس بزرگ یا عباس دی گریٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پاس کچھ نئے پودے آئے۔ اُس وقت باغبان حاضر نہ تھا۔ اس نے نجومی کو بلا کر حکم دیا کہ اپنا حساب کتاب لگا کر انہیں باغ میں ایسی جگہوں پر لگاؤ جہاں یہ ہمیشہ رہیں۔ نجومی نے تعمیلِ حکم کر دی۔ دوسرے دن باغبان آیا اور نئے پودوں کو دیکھا تو اس کے علم اور تجربے کی رُو سے یہ بالکل غلط مقامات پر لگائے گئے تھے‘ اس نے انہیں اکھاڑ کر پھینک دیا۔ شاہ کو معلوم ہوا تو اسے بلایا اور کہا کہ تم نے کتنا بڑا نقصان کیا۔ نجومی نے تو حساب کر کے لگائے تھے کہ ہمیشہ رہیں گے۔ باغبان نے کمال کا جواب دیا۔ جہاں پناہ! اس نے کیا حساب لگایا! پودے تو دو دن نہیں نکال سکے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ایک نجومی نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ صرف ایک سال زندہ رہے گا۔ وزیر دانا تھا۔ اس نے نجومی سے پوچھا: تم خود کتنا عرصہ جیو گے؟ نجومی نے کہا: بارہ سال۔ وزیر نے تلوار نکالی اور اس کا سر قلم کر دیا۔ پھر بادشاہ کو بتایا کہ جسے اپنی عمر کی خبر نہ تھی‘ وہ آپ کی عمر کیا جانتا۔
نجومیوں‘ پامسٹوں اور اس قسم کی مخلوقات کے پاس جانے والے‘ عام طور پر دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول ضعیف الاعتقاد‘ دوم دولت اور اقتدار کے حریص! ویسے ہوتے یہ بھی ضعیف الاعتقاد ہی ہیں۔ جنرل ضیا اس قسم کے ''ماہرین‘‘ سے رابطہ رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک ''ماہر‘‘ سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ کہنے لگا: سورہ ''اشقاق‘‘ میں ہاتھ دیکھنے کا ذکر ہے۔ جہلم سے تھا۔ مرحوم ہو چکا۔ اشقاق نام کا کوئی سورہ ہی نہیں‘ ہاں سورۃ الانشقاق ضرور ہے۔ اس میں ہاتھ کا ذکر قیامت کے حوالے سے یوں آیا ہے ''پھر جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا‘‘۔ بہت سے سیاستدان بھی مستقبل کی خبریں بتانے والوں کے دروازے باقاعدگی سے کھٹکھٹاتے ہیں۔ منہ کی بھی کھاتے ہیں اور پیٹھ پر چھڑیاں بھی کھاتے ہیں۔ اس ضمن میں جو آخری بات ہے اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ غیب کی خبر بتانے والا میرا ماضی بتائے گا یا مستقبل۔ اپنا ماضی مجھے پہلے سے معلوم ہے۔ رہا مستقبل‘ تو جہاں قدرت نے انسان کو بے پناہ اور محیر العقول صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ اگر مستقبل جاننا انسان کے لیے مفید ہوتا تو اسے یہ صلاحیت بھی ضرور دیتی۔ اس لیے میں مستقبل کا حال جاننا ہی نہیں چاہتا۔ کسی کو بتائیں کہ تم بس کے حادثے میں مروگے تو بقیہ زندگی بس سے دور بھاگتا پھرے گا۔ کسی کو معلوم ہو کہ اس نے دو سو سال جینا ہے تو ابھی سے ماتم شروع کر دے گا کہ ہائے ایک دن اور کم ہو گیا۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔
مگر اینکر حضرات کی دکانداری کے اور ہی تقاضے ہیں۔ کبھی جنّات پکڑنے والے بابوں کو چینل پر لے آتے ہیں‘ کبھی نجومیوں اور جوتشیوں کو! انسان کی فطرت ہے کہ ایسی چیزوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ ریٹنگ کی لالچ میں کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لالچ دولت کی ہو یا اقتدار کی یا ریٹنگ کی‘ بُری ہے اور ذہنی پستی پر دلالت کرتی ہے۔

Tuesday, September 24, 2024

روداد ایک کتاب کی

۔۔

2005
ء میں میری نواسی زینب پیدا ہوئی۔ یہ میری پہلی گرینڈ کِڈ تھی۔ (اُردو میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو پوتوں پوتیوں‘ نواسوں نواسیوں یعنی سب کے لیے استعمال کیا سکے)۔ یہ چند ماہ کی تھی کہ اپنی جنم بھومی امریکہ سے واپس آگئی۔ اس کے بعد زیادہ تر ہمارے (یعنی نانا نانو کے) پاس ہی رہی۔ یہ عجیب و غریب تجربہ تھا۔ معلوم ہوا کہ زندگی کا یہ مرحلہ باقی تمام مراحل سے مختلف ہے۔ زیادہ شیریں‘ زیادہ پُرکشش! اُن دنوں میں وزارتِ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری ( برائے دفاع) تھا۔ شام کی تمام مصروفیات منسوخ کرکے سارا وقت زینب کے ساتھ گزارتا۔ شام پارکوں اور باغوں میں گزرتی۔ بچپن ہی سے رات کے مطالعہ کی عادت تھی۔ وہ عادت بھی ہوا ہو گئی۔ کہانیاں گھڑنے اور سنانے کا اپنا مزا تھا۔ کہانی سنانے کے دوران زینب کے عجیب و غریب سوالات ذہن کی پرتوں کو اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیتے۔ پھر اللہ نے دو نواسے عطا کیے۔ 2010ء میں میلبورن میں پہلے پوتے کا ورود ہوا جو وہاں رہتے ہوئے بھی اردو اور پنجابی روانی سے بولتا ہے۔
ان بچوں کے فراق کے مراحل آئے تو یہ تجربہ جاں گسل تھا۔ کبھی بچے سفر کرکے دور چلے جاتے۔ کبھی مجھے سفر درپیش ہوتا اور ان سے دور جانا پڑتا۔ فراق کے درد کو کم کرنے کے لیے‘ اور کتھارسس کے لیے اس موضوع پر لکھنا شروع کر دیا۔ پہلا کالم شاید وہ تھا جس کا عنوان ''ٹُر گیا ماہیا‘‘ تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ یہ کالم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اردو دان نانیوں‘ دادیوں اور بابوں میں مقبول ہوئے۔ فیڈ بیک ملنے لگا ایسا کہ حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور اس موضوع پر لکھنے کی مزید تحریک بھی! جو موضوع ذاتی حوالے سے چنا تھا وہ بے حد مقبول ہوا۔ انسان جس مذہب کا ہو‘ جس رنگ کا ہو اور جس نسل سے ہو‘ بچوں کے بچوں سے والہانہ اور بے پناہ محبت کرتا ہے۔ دادا دادی‘ نانا نانی مشرق کے ہوں یا مغرب کے‘ چینی ہوں یا امریکی‘ سفید فام ہوں یا سیاہ فام‘ بچوں کے بچے ان کے گہرے دوست ہوتے ہیں۔ یہ دو طرفہ دوستی فطری ہے۔ صرف گرینڈ پیرنٹس 
(Grandparents) 
بچوں کی بات غور سے سنتے ہیں اور ان کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح بوڑھوں کی باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت بچے دیتے ہیں۔ شاید یہ واقعہ پہلے بھی شیئر کیا ہے۔ کینیڈا کے ایک ریستوران میں ایک سفید فام عمر رسیدہ خاتون دس بارہ سال کے ایک بچے کے ساتھ بیٹھی تھی۔ بچہ کچھ کھا رہا تھا اور وہ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اس سے پوچھا :پوتا ہے یا نواسا؟ کہنے لگی: نواسا۔ میں نے کہا کہ ہم پر الزام ہے کہ ہم بچوں کو بگاڑتے ہیں۔ کہنے لگی: ہاں! ہم بگاڑتے ہیں! اور بگاڑیں گے! یہی ہمارا کام ہے۔ اس لیے کہ ہم 
Grandparents 
ہیں!
بات اُن تحریروں کی ہو رہی تھی جو بچوں کے بچوں کے بارے میں لکھیں۔ کچھ عرصہ سے بہت سے دوست تقاضا کر رہے تھے کہ اس موضوع پر جتنی تحریریں ہیں‘ یکجا کر دی جائیں ۔ اسی طرح جو تحریریں گاؤں اور گاؤں کی بھولی بسری زندگی پر لکھیں‘ وہ بھی اُن احباب کے لیے بیک وقت تسکین اور ناسٹلجیا کا باعث بنیں جو دور دراز دیسوں میں رہتے ہیں۔ گاؤں کی جو زندگی ہماری عمر کے لوگوں نے دیکھی اور گزاری‘ آج کے گاؤں میں وہ ملتی بھی نہیں۔ سو یہ دہرا ناسٹلجیا ہے۔ سالہا سال اپنی مٹی سے دور زندگی گزارنے والے ان قارئین کا مطالبہ تھا کہ یہ تحریریں کتاب کی صورت یکجا کر دی جائیں۔ چنانچہ فیصلہ یہ کیا کہ ایک ہی کتاب اس طرح ترتیب دی جائے کہ پہلا حصہ ان تحریروں پر مشتمل ہو جو گرینڈ کِڈز کے حوالے سے لکھی گئی ہیں اور دوسرے حصے میں گاؤں کی زندگی پر لکھی گئی تحریریں شامل کی جائیں۔ اس فیصلے سے عزیزم امر شاہد (بُک کارنر) کو مطلع کیا تو انہوں نے اس پلان کی مکمل پذیرائی کی اور فوراً شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دوسری طرف میرا آسٹریلیا کا سفر سر پر تھا۔ گنے چنے چند دن رہتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آسٹریلیا سے واپسی پر اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ مگر امر شاہد نے کہا کہ جانے سے پیشتر مسودہ مکمل کر کے دے دوں۔ کچھ تحریریں پہلے سے کمپوزڈ تھیں‘ کچھ امر نے فوراً کمپوز کرائیں۔ درمیان میں ایک پروف ریڈر بی بی نے سیاپا ڈالا۔ اس نے پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ مسودے کی اصلاح کا بیڑہ بھی اٹھا لیا۔ مصنف کی خوب خوب ''غلطیاں‘‘ نکالیں اور کتاب کو حشو و زوائد سے بھر دیا۔ میں نے ہمت ہار دی کہ اب جانے سے پہلے تکمیل مشکل ہے۔ مگر امر نے ہمت کی اور بی بی کی‘ کی ہوئی ''اصلاح‘‘ سے مسودے کو پاک کیا۔ دو تین دن میں فائنل نظر ثانی کرکے مسودہ بھجوا دیا۔ اب ٹائٹل کا مسئلہ درپیش تھا۔ اب تک چھپنے والی کتابوں میں سے زیادہ تر کے ٹائٹل عزیزم ڈاکٹر اسرارالحق نے بنائے تھے یا ان کی چھوٹی بہن‘ یعنی میری بیٹی نے۔ اب ایک ایسا سرورق چاہیے تھا جس میں بچہ بھی ہو اور گاؤں بھی! ان دونوں نے مل کر ایک ایسی تصویر ڈھونڈ نکالی جس میں میرا پوتا حمزہ‘ گاؤں کے ایک کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جھانک رہا ہے۔ کمرہ کچھ کچھ شکستہ ہے‘ بالکل ایسا جیسے گاؤں میں ہوتے ہیں۔ بچے کا چہرا نظر نہیں آرہا کیونکہ اس کا منہ دوسری طرف ہے۔ اس تصویر کو عزیزم امر نے ٹائٹل میں اس مہارت سے سمویا کہ یہ ایک بہت پُر کشش ٹائٹل ثابت ہوا اور متعدد نامور ادیبوں نے اسے سراہا! دوست گرامی پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر نے کتاب کو تقریظ سے نوازا۔ جیسے ہی کتاب کی ساری تیاریاں مکمل ہوئیں‘ میں آسٹریلیا آ گیا۔ میرے آنے کے تقریباً تین ہفتے بعد یہ کتاب ''سمندر، جزیرے اور جدائیاں‘‘ چھپ کر آگئی۔ گویا‘ ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے۔ یہ اس فقیر کی پہلی کتاب ہے جو غیر حاضری کے دوران منظر عام پر آئی۔ اس میں مصنف کا کمال کم اور پبلشر کا کمال زیادہ ہے۔ میرے خیال میں کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ لکھا ہے‘ محفوظ ہو جائے۔ آگے کتاب اور مصنف کے بھاگ۔ پڑھنے والے کتاب کو پسند کر لیں اور خدا ان کے دلوں میں مصنف کی محبت بھی ڈال دے تو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسے اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے۔ صرف اور صرف پروردگار کا کرم سمجھنا چاہیے۔ ورنہ ایک سے بڑھ کر ایک کتاب بازار میں موجود ہے۔ بڑے بڑے لائق فائق حضرات کی تصانیف پڑی ہیں۔ عجز اختیار کرنا چاہیے اور برکت کی دعا کرنی چاہیے۔ 
آسٹریلیا میں موسم سرد ہے۔ تیز ٹھنڈی ہوا اتنے زور سے چلتی ہے کہ دھوپ میں بیٹھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ واک کے علاوہ مشاغل دو ہی ہیں۔ لکھنا پڑھنا اور بچوں کے ساتھ‘ ان کا نہیں‘ اپنا وقت گزارنا۔ ہم یہاں آئے تو سات سالہ سالار نے ایک خوبصورت کارڈ دیا۔ اس پر لکھا تھا: Dear 
grandpa and grandma Thank you for coming. I do not want you to go back to Pakistan. 
کہ ''دادا جان اور دادی جان! آپ کے آنے کا شکریہ! میں نہیں چاہتا کہ آپ واپس پاکستان جائیں!‘‘ کل شام ہم نے یہاں ایک چھوٹا سا پاکستان بنایا۔ یارِ دیرینہ‘ خالد مسعود خان‘ ایک ہفتے کے لیے میلبورن میں ہیں جہاں وہ اپنی دخترِ نیک اختر سے ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے غریب خانے کو تشریف آوری سے نوازا۔ میلبورن کے ادب دوست حضرات بھی موجود تھے۔ خالد مسعود وقت کے ابنِ بطوطہ ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری تو چار دانگ عالم میں مشہور ہے ہی‘ گفتگو بھی اتنی خوبصورت کرتے ہیں جیسے کرنیں بکھیر رہے ہوں! 
اس خارزارِ درد میں احباب کا وجود 
اس دھوپ میں ہیں چھاؤں کے ٹکڑے لگے ہوئے!

Monday, September 23, 2024

تو کیا ہم غلام ہیں؟

چھ جوان ہمارے پرسوں شہید ہوئے۔ پہلی بار نہیں! شہادتوں پر شہادتیں ہو رہی ہیں! ہوتی جا رہی ہیں! اتنا جانی نقصان ہمارا تین جنگوں میں نہیں ہوا ہوگا جتنا اس غیر اعلانیہ جنگ میں ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ آئے دن مغربی سرحد سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے افسر‘ ہمارے جوان خون میں نہا رہے ہیں۔ مائیں سینہ کوبی کر رہی ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ خواتین بیوہ ہو رہی ہیں۔ ہمارے بوڑھوں کے ہاتھوں سے ‘ ان کے سہارے ‘ ان کے جوان بیٹے چھینے جا رہے ہیں! ہم بے بس ہیں۔ ہم بظاہر ایٹمی طاقت ہیں مگر مار کھا رہے ہیں۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے ؟ یا ہمیں دفاع کی اجازت نہیں! تو کیا ہم غلام ہیں؟

ہم ثبوت دے چکے ہیں کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ پکے ثبوت! ناقابلِ تردید ثبوت! حملہ آور وہیں سے آتے ہیں! ان کی تربیت گاہیں وہاں ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے جو اُن کے سرپرست انہیں دے رہے ہیں۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کس کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے ۔ بچے بچے کو پتا ہے کہ کون حملہ آوروں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ مگر جب بتایا جاتا ہے‘ اور ثبوت کے ساتھ بتایا جاتا ہے تو وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں: 
Lying through your teeth‘
 تو سفید جھوٹ بولا جاتا ہے کہ نہیں! ہماری سرزمین تو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی‘ نہ ہو سکتی ہے۔ یہ جواب سن کر ہم خاموش ہو جاتے ہیں! ہم اس سفید جھوٹ کو چیلنج نہیں کرتے۔ اتنے میں وہاں سے حملہ آور پھر آتے ہیں اور قتل وغارت کرتے ہیں۔ کیا ہم بے بس ہیں؟ یا ہمیں کچھ کرنے کی اجازت نہیں؟ تو کیا ہم غلام ہیں؟ 
ہماری معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ پہلے لوٹ مار ہوتی تھی۔ ظاہر ہے پیداوار تو وہاں کبھی بھی نہیں تھی۔ بھوک ستاتی تو جتھے حملہ آور ہوتے۔ کبھی غزنوی! کبھی ابدالی! کبھی درانی! ہم نے سادہ لوحی کے سبب انہیں ہیرو قرار دیا۔ ورنہ یہ سارا ''جہاد‘‘ لوٹ مار کے لیے ہوتا تھا۔ دروازے تک اکھاڑ کر غزنی لے جائے گئے اور شہر کی فصیل میں نصب کیے گئے۔ پنجاب سے گندم کا اایک ایک دانہ لوٹ لیا جاتا تھا۔ یہ محاورہ تو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے ''کھادا پیتا لاہے دا ‘ تے باقی احمد شاہے دا‘‘ یعنی جو کھا لو گے وہی تمہارا ہو گا‘ باقی احمد شاہ ابدالی لوٹ لے گا۔ حملوں کا زمانہ ختم ہوا تو سمگلنگ شروع ہو گئی۔ گندم‘ گھی‘ چینی‘ کپڑا‘ سیمنٹ‘ سب کچھ یہاں سے جاتا ہے۔ پاکستان صرف اپنے لیے نہیں کماتا اُن کے لیے بھی کماتا ہے۔ ڈالر سارا وہاں پہنچ گیا ہے۔ ہمارے نام نہاد معیشت دان کچھ بھی نہیں کر رہے۔ سمگلنگ کو بند کیا جاتا ہے نہ ڈالروں کی منتقلی کو۔ ہمارا ریٹ کہاں اور اُن کا ریٹ کہاں! کیا ہم ایکشن لینے سے ڈرتے ہیں؟ کیا ہم اصلاحی اقدامات نہیں کر سکتے! تو کیا ہم غلام ہیں؟ 
یہ ایک لینڈ لاکڈ 
( Land locked) 
ملک ہے۔ کوئی بندرگاہ نہیں۔ یہ پاکستان ہے جو اپنی بندرگاہ سے چیزیں اٹھاتا ہے اور اُن کے دروازے تک پہنچاتا ہے۔ ساری زیادتیوں‘ سارے قتل وغارت کے باوجود ہم یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ احسان کیے جا رہے ہیں۔ شکر یہ تو دور کی بات ہے‘ الٹا آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں۔ سارے مریض پاکستان کے ہسپتالوں میں آ رہے ہیں۔ پشاور سے لے کر لاہور تک تمام ہسپتالوں سے ان کے مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ساری اکڑفوں کے باوجود اتنی لیاقت نہیں کہ اپنے ہسپتال ہی بنا لو! عورتوں کا پڑھنا لکھنا بند۔ مگر پاکستان میں اپنی خواتین لاتے ہیں تو لیڈی ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں! قول اور فعل کا عبرتناک تضاد!! سارے طالبعلم یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں! دوسری طرف یہ ہمارے بچوں‘ ہمارے جوانوں کو مارے جا رہے ہیں! کیا ہم اتنے ڈرپوک ہیں کہ ان کے مریضوں اور ان کے طالب علموں کو روک نہیں پا رہے؟ یہ کہاں کی انسانی ہمدردی ہے کہ انہی کا ایک گروہ ہمارے جوانوں پر حملے کر رہا ہے۔ جو باڑ بنائی تھی‘ اسے توڑ رہا ہے‘ اور ہم ان کے مریضوں کا علاج کیے جا رہے ہیں اور ان کے سٹوڈنٹس کی پرورش کیے جا رہے ہیں۔ تو کیا ہم غلام ہیں؟ 
لاکھوں افراد اُس ملک کے یہاں رہ رہے ہیں۔ دہائیاں ہو گئیں یہاں رہتے ہوئے۔ کئی نسلیں یہیں پیدا ہوئیں۔ یہیں پلیں بڑھیں‘ جوان ہوئیں۔ یہاں کی مٹی‘ ہوا ‘پانی‘ چاندنی‘ دھوپ اور اناج سے تمتع پایا۔ جب اس ملک سے ہمارے ملک پر آگ اور لوہا برسایا جاتا ہے تو ہماری حکومتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ اس بہت بڑی آبادی کو اس کے اپنے ملک میں واپس بھیجیں۔ کیا ایسا بھی ہوا ہے کہ جس گھر سے آپ پر گولیاں برسائی جا رہی ہوں آپ اُس گھر کے افراد کو اپنے گھر میں مہمان رکھیں؟ اب تو افغانستان میں تاریخ کی بہترین حکومت قائم ہے۔ اس حکومت میں عزتِ نفس کا مادہ بھی۔ اول تو اس حکومت کو خود ہی چاہیے تھا کہ اپنے لوگوں کو واپس لے جاتی۔ مگر یہ عجیب حکومت ہے جو ایک طرف ہم پر حملے کرنے والوں کو اپنی پناہ میں رکھتی ہے‘ دوسری طرف کہتی ہے کہ یہاں رہنے والوں کو واپس ان کے اپنے ملک میں نہ بھیجا جائے! یہ عجیب صورت حال ہے۔ مگر شکوہ تو اپنی حکومتوں سے ہے جو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی مثال ہیں۔ کیا یہ حکومتیں خائف ہیں؟ اگر خائف نہیں تو کیا ہم غلام ہیں؟
قومی ترانے کی توہین بھی ہماری حکومت ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر گئی! ریاست کی یہ بے حرمتی بھی پی گئی! ایک ضعیف اور نحیف سا احتجاج کیا گیا۔ یہ عذر لنگ بھی مضحکہ خیز تھا کہ موسیقی کی وجہ سے نہ اُٹھے۔ پاکستانی صحافیوں نے اس عذر کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔ بھارت اور چین کے ترانوں کی موسیقی جائز ہے مگر پاکستان کے قومی ترانے کی موسیقی حرام ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو!
اب بھی درخواست ہے کہ دشمنی ترک کر دیجیے۔ پاکستان کو احسانات کا بدلہ نہیں چاہیے۔ آپ کو شکوے ہیں تو وہ بھی سر آنکھوں پر! گلے شکوے سننے چاہئیں اور تدارک بھی کرنا چاہیے۔ مگر ہم پر حملے کرنے والوں کو پناہ تو نہ دیجیے۔ ہماری باڑ تو نہ اکھاڑیے۔ صدیوں کا تعلق ہے۔ آنکھیں ماتھے پر تو نہ رکھیے۔ ہماری فوج اور پولیس پر حملے کرنے والوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کا آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ قدرت کا بھی تو ایک نظام ہے۔ جن کی آپ سرپرستی کر رہے ہیں‘ کل آپ کے لیے وہ مکافاتِ عمل کی صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کا فائدہ باہمی دوستی میں ہے‘ دشمنی میں نہیں!
پس نوشت: میڈیا کے ایک حصے نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت آئین کی شق 215 میں ترمیم لانے پر غور کر رہی ہے تا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو دوبارہ پانچ سال کے لیے یہی منصب مل جائے۔ ان کے عہدے کی میعاد پانچ سال ہے اور یہ پانچ سال آنے والی جنوری میں ختم ہو رہے ہیں۔ ہم حکومت کی خدمت میں دست بستہ گزارش کر تے ہیں کہ خدا کے لیے اس ملک کو مذاق بنائیے نہ اپنے آپ کو۔ کوئی فردِ واحد ملک کے لیے ناگزیر نہیں۔ کیا پچیس کروڑ لوگوں میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی جگہ لے سکے؟ ایسے غیر سنجیدہ اور غیر صحت مند اقدامات سے ملک پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ ملک کو آئین کے مطابق چلنے دیجیے۔ آئین میں اپنی مرضی اور اپنے مفادات کے پیوند لگا کر آئین کی صورت مت بگاڑیے! امید ہے کہ چیف الیکشن کمشنر خود ہی توسیع لینے سے انکار کر دیں گے‘ اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہوگا!!

Thursday, September 19, 2024

ایک پاکستان کے اندر دو پاکستان!!

اندازہ لگائیے۔ وزیراعظم اور صدرِ مملکت کے دفاتر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر‘ وفاقی دارالحکومت سے ایک بزنس مین اغوا ہوتا ہے۔ پولیس کے ہاں ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ بزنس مین ایک مہینہ کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ رہائی کے لیے آٹھ کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ رہائی میں پولیس کا کوئی حصہ نہیں۔ میڈیا کی رپورٹ کی رُو سے یہ رہائی ''جرگے‘‘ نے دلوائی۔ حکومت نے‘ جو عوام کے جان و مال کی ذمہ دار ہے‘ کچھ نہیں کیا۔ یہ خبر محض نمونے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ ورنہ ملک میں چوری‘ ڈاکا زنی‘ اغوا برائے تاوان عام ہے۔ گاڑی‘ موٹر سائیکل‘ زیور‘ جان‘ کچھ بھی‘ کہیں بھی محفوظ نہیں!
اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے۔ اس وقت پاکستان‘ اپنی سرحدوں کے اندر‘ دو پاکستانوں میں بٹ چکا ہے۔ پہلا پاکستان‘ یوں سمجھیے‘ فرسٹ ورلڈ ہے۔ یہ کھیل کے ایک وسیع میدان کی طرح ہے۔ اس میدان میں پانچ کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کے نام ہیں مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی‘ پی ٹی آئی‘ جے یو آئی اور ان کے علاوہ ایک اور‘ پانچواں کھلاڑی! ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں! دور دور کا بھی نہیں! یہ سب لوگ کروڑ پتی‘ ارب پتی بلکہ کچھ تو کھرب پتی ہیں۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔ یہ لوگ بازار سے خود سودا سلف نہیں خریدتے۔ ان کے بچوں کے سکول‘ کالج‘ ان کے ہسپتال‘ ان کی تفریح گاہیں‘ سب الگ ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے امرا کی بھی ایک کلاس جڑی ہوئی ہے۔ اس کلاس میں اَپر کلاس عدلیہ‘ سول اور خاکی بیورو کریسی کے بالائی حصے‘ ٹاپ کے جاگیردار‘ بلوچستان کے سردار‘ صنعت کار‘ بینکوں کے مالکان اور ٹریڈرز شامل ہیں۔ یہ سارے اُس پاکستان کا حصہ ہیں جو فرسٹ ورلڈ کی طرح ہے۔ انہیں عوام کی مشکلات‘ اذیتوں‘ مسائل اور دکھوں کا کوئی آئیڈیا ہی نہیں! چونکہ آئیڈیا نہیں اس لیے احساس بھی نہیں! زندگی کیا ہے‘ اور اس کی گہری‘ ناقابلِ عبور گھاٹیاں کتنی خوفناک ہیں‘ انہیں کچھ معلوم نہیں! نواز شریف صاحب‘ زرداری صاحب‘ شہباز شریف صاحب‘ حمزہ شہباز صاحب‘ بلاول بھٹو صاحب‘ مریم بی بی‘ مولانا صاحب‘ چودھری صاحبان‘ چودھریوں کے فرزندانِ کرام‘ عمران خان صاحب‘ ڈار صاحب‘ ترین صاحب‘ علیم صاحب‘ پی ٹی آئی کی ٹاپ براس‘ ان تمام پارٹیوں کے ٹاپ کے عمائدین‘ وزرا‘ ان میں سے کسی کو بھی آئیڈیا نہیں کہ یو پی ایس کی بیٹریاں کتنے میں آتی ہیں؟ گیس اور بجلی کا کنکشن کیسے ملتا ہے؟ ہسپتالوں میں دوا کیسے ملتی ہے؟ مکان بنوانا ہو تو نقشہ کیسے اور کیا دے کر منظور کرانا ہوتا ہے؟ پاسپورٹ بنوانے میں کتنی ذلت اٹھانا پڑتی ہے؟ بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کتنے پھیرے لگانا پڑتے ہیں؟ سبزی اور گوشت خریدتے ہوئے دل پر کیا گزرتی ہے؟ دوائیاں کتنی مہنگی ہیں؟ تھانوں میں کس کس مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے! پٹواری اور تحصیل دار سے ملاقات کتنی مشکل ہے؟ بجلی اور گیس کے بل کس طرح بچوں کا پیٹ کاٹ کر ادا کیے جا رہے ہیں؟ ان کے پاکستان میں یہ سارے سوال مضحکہ خیز ہیں۔ ذرا یہ معلوم کرنے کی کوشش تو کیجیے کہ اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں ہر نئی کابینہ آنے پر صرف ''مرمت اور تزیین و آرائش‘‘ پر (اصل لفظ تزیین ہے‘ تزئین نہیں) کتنے کروڑ اور کتنے ارب روپے سرکاری خزانے سے لگتے ہیں؟ پولیس کے انسپکٹر جنرلوں‘ کمشنروں‘ جرنیلوں کی سرکاری قیام گاہوں پر ہر سال قومی بجٹ کا کتنا حصہ اٹھ جاتا ہے؟ جو آمر یہاں حکومت کرتے رہے‘ ان کی نسلیں کس معیار کی زندگی گزار رہی ہیں؟ یہ سب پہلا پاکستان ہے۔ یوں سمجھیے یہ پاکستان امریکہ ہے یا سوئٹزر لینڈ! یا سیون سٹار ہوٹل ہے! یہاں زندگی لگژری‘ تعیش‘ آرام اور سہولت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کینیڈا‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ آئر لینڈ‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ جرمنی‘ فرانس اور برطانیہ کے حکمران‘ اس پہلے پاکستان کے اکثر اراکین کے معیارِ زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ تو غلط نہ ہو گا!
رہا دوسرا پاکستان تو وہ 90‘ 95 فیصد پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ رِینگ رِینگ کر‘ اپنے آپ کو گھسیٹ گھسیٹ کر‘ سسک سسک کر‘ بلک بلک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے گھر ڈاکا پڑ جائے‘ چوری ہو جائے‘ ان کی گاڑی یا موٹر سائیکل اٹھا لی جائے تو کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں۔ جس بزنس مین کے اغوا کا ذکر آغاز میں کیا ہے‘ وہ ایک ماہ کے بعد کروڑوں دے کر رہا ہوا ہے۔ کیا وزیراعظم یا وزیر داخلہ‘ پولیس کے مدار المہام سے جواب طلبی کریں گے؟ نہیں کبھی نہیں! یہ ان حضرات کا مسئلہ ہی نہیں! کمرشل سنٹر سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی شہر کا گنجان علاقہ ہے۔ وہاں سے پورا خاندان اغوا ہو گیا۔
وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ملک آٹو پر چل رہا ہے تو درست کہا ہے۔ سیاستدان‘ سب مل کر‘ کئی سال سے جو تیرہ تالی کھیل رہے ہیں‘ اور اقتدار لینے کے لیے‘ یا لیا ہوا اقتدار بر قرار رکھنے کے لیے‘ گھمسان کی جو لڑائی لڑ رہے ہیں‘ اس میں عوام کی فکر تو کیا‘ عوام کے ذکر کی بھی گنجائش نہیں! عدالتیں انہی اصحاب کے مقدموں میں مصروف ہیں۔ جیلوں میں بند لاکھوں افراد فیصلوں کے منتظر ہیں مگر اقتدار کے یہ کھلاڑی عدالتوں کو سانس ہی نہیں لینے دے رہے!
اس ملک کو ذلت و ادبار سے نکالنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے اور بڑے فیصلوں کی۔ زرعی اصلاحات بھارت نے تقسیم کے چار سال بعد کر لی تھیں۔ ہمارے ہاں پتھر کے زمانے کا سرداری اور جاگیردارانہ نظام بدستور موجود ہے۔ تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہر سال بے تحاشا بی اے‘ ایم اے‘ ایم بی اے نکل رہے ہیں‘ جیسے برسات میں پتنگے نکلتے ہیں۔ کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں جس کے تحت وہ مضامین پڑھے پڑھائے جائیں جن کی ملکی معیشت کو ضرورت ہے۔ ٹریفک کی لاقانونیت ختم کرنے کے لیے پولیس کی اوور ہالنگ چاہیے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے بلند پایہ صنعتی پالیسی درکار ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے حکومت کے پاس ان بنیادی فیصلوں کے لیے قابلیت موجود ہے؟ یہاں سارا نظام‘ اگر اسے نظام کہا جا سکتا ہے تو‘ حریفوں کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ ترجیحات میں ملک ہے نہ ملک کے عوام! سوال یہ ہے کہ حکومت ہے کہاں؟ اگر حکومت موجود ہے تو ڈاکے‘ چوریاں‘ اغوا برائے تاوان کو کیوں نہیں ختم کرتی؟ کیا پارلیمنٹ میں کوئی سوال اٹھائے گا کہ اسلام آباد میں ہر روز کتنی گاڑیاں‘ کتنے موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں؟ کتنے ڈاکے پڑ رہے ہیں؟ کسی بھی دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ صرف بڑے بڑے شہروں میں ہونے والی وارداتوں سے صفحے بھرے پڑے ہیں۔ انارکی ہے! مکمل انارکی! رشوت اور سفارش کے بغیر پَتّا بھی نہیں ہلتا۔ چار چار لاکھ روپے زمین کی گرداوری کے لیے مانگے جا رہے ہیں۔ زرعی زمین میں ٹرانسفارمر لگوا کر دیکھ لیجیے۔ زن بچہ کولہو میں پِس جائے گا۔
اور تو اور! اس ملک کی تو سرحدیں ہی نہیں ہیں! ایران کی سرحد پر کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا؟ مغربی سرحد کا وجود ہی نہیں! ملک میں لاکھوں غیرملکی دندناتے پھر رہے ہیں۔ کسی کو پروا ہے نہ فکر! افغانستان گلے میں پھانس بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری افغان پالیسی کیا ہے؟ کسی کو معلوم ہے تو ازراہِ کرم بتا دے! ذرا ڈالر کے مقابلے میں افغانی کی قدر دیکھیے اور پھر روپے کی! دیکھنے کے بعد چُلو بھر پانی کی ضرورت پڑے گی! جس مقدس طبقے اور جن مقدس ہستیوں کی ڈیوٹی ہے کہ روپے کی قدر کو پاتال سے اٹھائیں‘ انہیں اس سے کچھ فرق ہی نہیں پڑتا کہ ڈالر کتنا مہنگا ہے! ملک کیسے چل رہا ہے؟ شاید جون ایلیا کا یہ شعر سمجھا سکے:

ہم ہیں یہاں سے جا رہے جانے کہاں ہیں جا رہے
خیر جہاں ہیں جا رہے بس یہ سمجھ وہاں چلے

Tuesday, September 17, 2024

بھاگ مسافر میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ 

جمیل قمر پرانے دوست ہیں۔ ملازمت ایسی تھی کہ ملک ملک کا پانی پیا۔ چاڈ (افریقہ) میں تھے تو وہاں سے خاص سوغات لائے۔ تتلی کے پروں سے ترتیب دی ہوئی تصویر! ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا میں مقیم ہیں۔ جب معلوم ہوا کہ شو ہارن جمع کرنے کا فضول شوق ہے تو کینیڈا سے شو ہارن بھی بھیجا۔ کالم پڑھنے کا شوق تعلق کا سبب بنا۔ پندرہ سال پہلے میں نے اپنے پوتے کے ہجر میں ایک کالم لکھا ''ٹُر گیا ماہیا‘‘۔ یہ کالم بس ان کے دل میں اُتر گیا۔ جوان بیٹے سے ہمیشہ کی مفارقت کا صدمہ جھیلا۔ اب اُس کے بچوں کو سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں۔ شعر بہت اچھے کہتے ہیں ؎
اپنی عزت مجھے پیاری تھی سو خاموش رہا
میں نے ہمسائے کے بچے کو نصیحت نہیں کی
خدا کی اس زمیں پر سب کا حق یکساں نہیں ہونا
جو بے گھر ہیں انہوں نے بے گھری کے ساتھ رہنا ہے
چند روز پہلے انہوں نے فون کیاکہ ہر بدھ کو کچھ ہم خیال‘ سینئر حضرات مل بیٹھتے ہیں۔ یہ مجلس آرائی جسمانی نہیں بلکہ آن لائن ہوتی ہے اس ہفتہ وار محفل کے تمام ارکان‘ سرد وگرم چشیدہ‘ جہاندیدہ اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔ وکالت‘ اکاؤنٹس‘ آئی ٹی‘ صحافت‘ مینجمنٹ اور کئی دیگر میدانوں کے شہسوار! حافظہ کمزور نہ ہوتا تو سب حضرات کے اسمائے گرامی لکھتا۔ شاعروں کا حافظہ یوں بھی‘ غیر شاعروں کے مطابق‘ ضعیف ہی ہوتا ہے۔ بہت بڑے شاعر جناب ظفر اقبال نے تو اعتراف ہی کر لیا ؎
ظفرؔ ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں
جمیل قمر صاحب نے فرمائش کی کہ میں بھی اس مجلس میں حاضری دوں۔ چنانچہ ان کے حکم کی تعمیل میں اس بار حاضری دی۔ مجلس میں زیادہ حضرات تو کینیڈا ہی سے تھے مگر کچھ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ اور پاکستان سے بھی تھے۔ یہ انٹرنیٹ بھی ایک طلسم ہے۔ کفار نے کیا کیا چیزیں بنا ڈالی ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں بھی ہیں‘ مل بیٹھ سکتے ہیں۔ کانفرنس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ لیکچر دے اور سُن سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مریض ڈاکٹروں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ نئی کتاب آئی ہے تو چند منٹوں بعد آپ اسے حاصل کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ گھر بیٹھے دنیا بھر سے کسی بھی شے کی خریداری کر سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی سے نکلنے والا مشہور انگریزی روزنامہ اسلام آباد میں شام کو پہنچتا تھا۔ اب بٹن دبا کر آپ نہ صرف پاکستان کے‘ بلکہ امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت‘ اسرائیل اور ساری دنیا کے اخبارات پڑھ سکتے ہیں۔ یہ اور اس زمانے کی دیگر ایجادات اور دریافتیں غیر مسلموں کی ہیں۔ اب یہ نہ سمجھیے گا کہ ہم مسلمان اور پاکستانی ان لوگوں سے پیچھے ہیں۔ہم تو ان سب غیر مسلموں سے زیادہ لائق ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی مصروف ہیں۔ ہم ابھی یہ طے کر رہے ہیں کہ ہم میں سے درست مسلمان کون سے ہیں اور نادرست کون سے ؟ پہلے ان مسلمانوں کو ختم تو کر لیں جو ہمارے خیال میں نادرست ہیں۔ ابھی ہم پاکستان‘ افغانستان‘ شام‘ عراق‘ یمن‘ لیبیا‘ صومالیہ میں مسلمانوں کی صفائی میں مصروف ہیں۔ چوہے نے ہاتھی کے بچے سے عمر پوچھی تھی۔ ہاتھی کے بچے نے کہا: دو سال۔ اب ہاتھی کے بچے نے عمر پوچھی تو چوہے نے کہا کہ ہوں تو میں بھی دو سال کا مگر ذرا بیمار رہا ہوں۔ ہم بھی اہلِ مغرب سے کم لائق نہیں‘ بس ذرا زیادہ اہم امور میں مصروف ہیں ورنہ ایسی ایجادات اور دریافتیں ہمارے لیے کیا مشکل ہیں۔
یہ لکھنے والا ان لوگوں میں سے ہے جو پاکستانی تارکینِ وطن کے مسائل پر بہت غور کرتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس حوالے سے لکھتے ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ جن حضرات کے ساتھ یہ آن لائن نشست ہو رہی تھی‘ ان سے زیادہ تارکینِ وطن کے مسائل کو کون جان سکتا تھا۔ ان کا پس منظر پاکستان کا تھا اور زندگی کا معتد بہ حصہ انہوں نے دیارِ غیر میں بسر کیا تھا۔ ان کی زندگیاں متنوع نوعیت کے تجربات وحوادث پر مشتمل تھیں۔ گویا ان میں سے ہر شخص پر سعدی کا یہ شعر صادق آتا تھا ؎
تمتع ز ہر گوشۂ یافتم ؍ ہر خرمنی خوشۂ یافتم
دنیا کے کونے کونے سے استفادہ کیا اور ہر خرمن سے خوشہ اُٹھایا۔
وہی چبھتا ہوا سوال کہ کیا تارکینِ وطن‘ آخری تجزیے میں‘ خوش ہیں ؟ اپنی معروضات پیش کرنے کے بعد ان ثقہ حضرات سے‘ صرف استفادہ کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا آپ حضرات کی پیشانیوں پر کبھی عرقِ انفعال کے قطرے چمکے کہ کیوں وطن چھوڑا؟ کیا کبھی پچھتائے کہ کیوں اجنبی سرزمینوں پر آن بسے؟ کیا اعزّہ و اقارب‘ دوست احباب یاد آتے ہیں؟ میری توقع کے بالکل برعکس کسی نے بھی پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ‘ فون‘ وغیرہ کی سہولتوں نے بہت حد تک جدائی کی شدت کو کم کر دیا ہے۔ وہ جو فراق کا عفریت تھا اس کے خونیں دانت وڈیو کال کی وجہ سے کند ہو گئے ہیں۔ مگر ایک بات انہوں نے ایسی کی جو ہم اہلِ پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو پاکستان کے حالات ہیں‘ ان کے پیشِ نظر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ پاکستان سے نکل آئے۔ یہاں دیارِ غیر میں امن ہے‘ جان مال محفوظ ہے۔ پولیس سے ڈر نہیں لگتا بلکہ اسے دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے۔ یہاں جمہوری حکومتیں ہیں! اصل جمہوری حکومتیں! ایسی نام نہاد جعلی جمہوریتیں نہیں کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہوں۔ ان ملکوں میں پارلیمنٹس طاقتور ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سب حضرات کو ان ملکوں میں ٹاپ کلاس ملازمتیں صرف میرٹ پرملیں۔ یہاں ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی۔ ان کی آئندہ نسلوں کو بھی ان کا حق میرٹ پر مل رہا ہے۔
اس جواب کے مضمرات کیا ہیں؟ سرفہرست یہ ہے کہ اس صور تحال کے پیش نظر پاکستان میں 
Reverse Brain Drain 
کا کوئی امکان نہیں۔ یعنی ہمارے ماہرین جو بیرونِ ملک مقیم ہیں‘ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ بھارت کئی دہائیوں سے 
Reverse Brain Drain 
کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت سے باہر بھی بہت لوگ جا رہے ہیں مگر وہ معاشرے کی کریم نہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد باہر جا رہے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ میرٹ کُشی ہے اور دوست نوازی (کرونی ازم)۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ نوکر شاہی کا ایک رکن‘ جو ماڈل ٹاؤن فیم ہے‘ پہلے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر بنا کر بھیجا گیا حالانکہ موصوف کا تعلق ٹریڈ سے دور دور کا نہیں تھا۔ اب انہی صاحب کو ایک بار پھر بیرونِ ملک پوسٹنگ سے نوازا گیا ہے اور ورلڈ بینک کی پُرکشش تعیناتی دی گئی ہے۔ یہ تو (ن) لیگ کی ''سخاوت‘‘ کی صرف ایک مثال ہے۔ پیپلز پارٹی بھی ماشاء اللہ اس ضمن میں پیچھے نہیں۔ 2008ء میں جب ان کی حکومت آئی تو ''پسندیدہ‘‘ افراد جو دس دس‘ بارہ بارہ سال سے بھاگے ہوئے تھے‘ واپس آئے۔ مؤثر بہ ماضی بحال ہوئے۔ یعنی جو طویل عرصہ باہر گزارا تھا اس کی تنخواہیں لیں۔ کوئی وزیراعظم کا سیکرٹری لگ گیا تو کوئی صدر کا۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو کسی کو ایشیائی بینک میں منصب دیا گیا تو کسی کو پانچ سال کی مزید افسری یہیں مل گئی۔ یہ حکمران ''اپنا بندہ‘‘ کے چکر سے کبھی نہیں نکل سکتے۔ پاکستان میں بدترین کرونی ازم ہے اور مکروہ ترین میرٹ کُشی۔ تارکینِ وطن اس جہنم میں واپس کیوں آئیں؟ اور جو لائق افراد ملک میں موجود ہیں‘ وہ بھی باہر نہ جائیں تو کیا کریں؟ ؎
بھاگ مسافر میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں‘ بھیتر بھیتر آگ

Monday, September 16, 2024

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں


اس قصے کو فی الحال رہنے دیجیے کہ صوبے کا سربراہ کسی دوسرے ملک سے اپنے طور پر معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں‘ اس بات پر غور کیجیے کہ اگر گنڈا پور صاحب افغانستان سے مذاکرات کریں گے تو کون سا معاملہ طے کریں گے اور کیسے؟
اب تو اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ جب بھی حکومتِ پاکستان افغانستان کو کہتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں‘ تو افغان حکومت جواب میں دو باتیں کہتی ہے۔ اول: وہ یہ مانتی ہی نہیں کہ دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ دوم: اس کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘ وہ خود ٹی ٹی پی سے بات کرے۔ منطقی طور پر افغان حکومت یہی جواب گنڈا پور صاحب کو بھی دے گی۔ اب اگر گنڈا پور صاحب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرتے ہیں تو کیا وہ ٹی ٹی پی کے مطالبات مان لیں گے؟ ٹی ٹی پی کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں کی پرانی پوزیشن بحال کی جائے۔ اس سے ٹی ٹی پی کو ایک بیس مل جاتی ہے۔ جہاں وہ امارت اسلامیہ قائم کر سکتے ہیں۔ کیا گنڈا پور صاحب یہ مطالبہ مان لیں گے؟ اور اگر ٹی ٹی پی یہ مطالبہ منوائے بغیر‘ صرف گنڈاپور صاحب کی خاطر‘ یعنی تحریک انصاف کی خاطر پاکستان پر حملے بند کر دیتی ہے تو اس سے اس بات پر مُہرِ تصدیق ثبت ہو جائے گی تحریک انصاف اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریک انصاف کی حکومت میں ٹی ٹی پی کے ہزاروں افراد اور ان کے خاندانوں کو پاکستان میں کیسے آباد کیا گیا؟ تحریک انصاف آج تک وضاحت نہیں کر سکی کہ یہ افراد جو لائے گئے‘ مسلح تھے یا غیر مسلح؟
اب ایک اور نکتے پر غور کیجیے۔ عمران خان صاحب نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جب تک افغانستان سے تعلقات درست نہیں کریں گے دہشت گردی میں پھنسے رہیں گے‘‘۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دہشت گردی میں افغانستان ملوث ہے۔ اگر افغانستان ملوث نہیں ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے افغانستان سے تعلقات درست کرنا ضروری ہے۔ عمران خان صاحب کا یہ بیان افغان حکومت کے مؤقف سے متصادم ہے۔ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ افغانستان کی سر زمین کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی اور یہ کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ افغان حکومت کو چاہیے کہ یہ بات عمران خان کے بالواسطہ الزام کے جواب میں بھی کہے!
سچ کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی ہماری اپنی تلوّن مزاجی کا نتیجہ ہے۔ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ہماری پالیسیاں اتنی بار بدلی ہیں کہ شمار سے باہر ہے۔ ہم طالبان کے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی۔ اسی طرح ہم امریکہ کے حامی بھی رہے اور درپردہ مخالف بھی۔ امریکہ نے الزام بھی لگایا کہ ہم درپردہ طالبان کے حامی رہے۔ دوسری طرف ہم نے جو سلوک مُلا عبد السلام ضعیف کے ساتھ کیا‘ اسے کون بھلا سکتا ہے۔ ہم نے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح وضع کی۔ جنہیں ہم اچھے طالبان کہتے رہے آج وہ بھی ہمارے مخالف ہیں۔ ایک صاحب کو فاتح جلال آباد کا لقب بھی دیا گیا۔ جلال آباد فتح تو نہیں ہوا مگر ہماری ''خوش نیتی‘‘ کا علم افغانستان کو ضرور ہو گیا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی بدلتی پالیسیاں سیاسی حکومتوں کے اختیار میں بھی نہیں رہیں۔ پالیسیاں بناتا کوئی ہے اور منسوب کسی سے ہوتی ہیں۔ پہلے ہم اپنا گھر تو ٹھیک کریں!
رہی یہ بات کہ ایک صوبائی حاکم‘ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے ملک سے معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں تو جہاں تک عمران خان صاحب کا تعلق ہے انہوں نے گنڈا پور صاحب کی اس ضمن میں حمایت کی ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ کل کو جب عمران خان وزیراعظم ہوں گے اور پنجاب کا کوئی حاکم بھارت سے کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کرے گا اور سندھ کا حاکم بھارتی حکومت سے اپنے سرحدی مسائل کے حوالے سے بکھیڑے سلجھائے گا تو وزیراعظم عمران خان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک اصول طے کر لیا ہے کہ صوبے اپنے پڑوسی ملکوں سے معاملات وفاق کو خاطر میں لائے بغیر‘ خود طے کر سکتے ہیں! کل کو جب وہ‘ ان شاء اللہ‘ وزیر اعظم بنیں گے تو حکم صادر فرمائیں گے کہ ایران کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بلوچستان کا حاکم طے کرے گا۔ خارجہ پالیسی کا بہت سا بوجھ وفاق کے کندھوں سے اُتر جائے گا۔ اللہ اللہ خیر سلّا!
جو واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا ہے اس کی مثال پاکستان کے علاوہ کسی اور مسلمان ملک میں نہیں ملتی۔ توہینِ مذہب کا ایک مبینہ ملزم ایک تھانے کی حوالات میں بند تھا۔ تھانے پر ہجوم نے حملہ کر دیا۔ ملک کے مؤقّر ترین انگریزی اخبار کے مطابق یہ ہجوم مذہبی جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اخبار نے ایک خاص مذہبی جماعت کا نام بھی لکھا ہے۔ ملزم کو ہجوم سے بچانے کے لیے ایک اور تھانے میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں ملزم کو ایک پولیس کانسٹیبل نے اپنے ذاتی پستول سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ توہینِ مذہب کے حوالے سے باقاعدہ قانون ہے۔ ملزم کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے اور ریاست کا۔ ایک مدت سے یہ ذمہ داری پاکستانی عوام نے اپنے سر لی ہوئی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ملزم کو سزا عدالت نے نہیں دی۔ اس صورتحال کی ذمہ داری سو فیصد ریاست پر آرہی ہے۔ریاست نے آج تک ایسے اقدامات نہیں کیے جو اس ہجوم گردی کو روک سکیں۔ کسی مجرم کو کبھی سزا نہیں ملی۔ زیادہ تر ایسے واقعات میں مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتے ہیں جن کے ذریعے ہجوم کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنی‘ نہ ہی کوئی قانون سازی ہوئی ہے۔
عوام کا یہ مائنڈ سیٹ کیسے بنا؟ کون اس ذہن سازی کا ذمہ دار ہے؟ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ ان تین سوالوں کے جواب حکومتوں کو دینے چاہیے تھے مگر کسی حکومت نے اس ضمن میں اپنے فرائض نہیں ادا کیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کابینہ کی یا پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی‘ کوئی کمیشن اس پر کام کرے‘ تحقیق کر کے ان تینوں سوالوں کا جواب دے اور اس سلسلے میں تجاویز بھی پیش کرے۔ ان تجاویز پر کابینہ میں یا پارلیمنٹ میں بحث ہو اور پھر فیصلے کیے جائیں۔ پے در پے ہونے والے ایسے واقعات کی وجہ سے پاکستان کا جو امیج دنیا میں بن گیا ہے وہ قابلِ رشک ہر گز نہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ یہ امیج زیادہ گہرا ہو رہا ہے۔ اس امیج میں کبھی سیالکوٹ رنگ بھر رہا ہے‘ کبھی جڑانوالہ‘ کبھی سرگودھا اور کبھی سوات!! الجزیرہ سے لے کر بی بی سی تک عالمی میڈیا ان واقعات کو رپورٹ کرتا ہے۔ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ ایک طرف مذہب کے نام پر ہم قتل و غارت کر رہے ہیں دوسری طرف ہم ہر اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کے بارے میں تصور کیا سکتا ہے۔ پچھلے سال ایک ارب 23کروڑ روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ برآمد کیے جانے والے کھُسّوں سے منشیات پکڑی گئی ہیں۔ یو اے ای نے شکوہ کیا ہے کہ پاکستان سے بھکاری آرہے ہیں۔ پاکستانیوں کو ویزے دینے سے انکار پر انکار ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ جون ایلیا نے یہ شعر پاکستان ہی کے حوالے سے کہا:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

Thursday, September 12, 2024

لٹریسی واک میں لٹریسی کتنی ہے اور واک کتنی



مُلّانصر الدین کا یہ لطیفہ ہم سب نے سنا ہؤا ہے کہ وہ  کوئی گم شدہ شے باہر سڑک پر ڈھونڈ رہا تھا ۔ پوچھا گیا وہ شے کہاں رکھی تھی۔  کہنے لگا کمرے میں۔پوچھنے والے نے کہا کہ کمرے میں  رکھی تھی تو کمرے ہی میں تلاش کرو۔ مُلّا نے جواب دیا کمرے میں اندھیرا ہے۔  نہیں معلوم مُلّا نصر الدین  کا وجود تھا یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ، ایک قوم کی حیثیت سے ، ہماری حرکتیں ملا نصر الدین  کی سی ہیں۔ہم ہر وہ شے کمرے سے باہر ڈھونڈتے ہیں جسے کمرے کے اندر  رکھا تھا۔ہم وہاں پانی دیتے ہیں جہاں بیج نہیں بوئے تھے۔ ہم ویرانے میں بازار لگاتے ہیں جب کہ  بازار کی ضرورت آبادی  میں ہوتی ہے۔ ہم سر پر چھتری وہاں تانتے ہیں جہاں دھوپ ہوتی ہے نہ بارش!ہم پچھتر برسوں سے یہی کچھ کر رہے ہیں ! ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ کئی برسوں سے ! کئی دہائیوں سے !!  نتیجہ یہ ہے کہ ہم قوموں کی فہرست میں پاتال سے بھی نیچے ہیں۔ اس پر بھی ہم خوش ہیں کہ نیچے سے ہماری پوزیشن دوسری یا تیسری ہے۔ 






خواندگی  کے عالمی دن پر “ لٹریسی ( خواندگی ) ڈے واک “  منعقد کی گئی ہے  ۔ یقین کیجیے  اس پر ملا نصرالدین بھی ہنس پڑے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ واک کہاں منعقد ہوئی؟  اسلام آباد میں ! جہاں خواندگی کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اسلام آباد میں بھی کہاں؟ کسی بازار، کسی سیکٹر، کسی محلے ، کسی آبادی میں ؟ نہیں ! یہ واک  بلیو ایریا  پر منعقد ہوئی۔ شہید ملت سیکریٹیریٹ سے لے کر ڈی چوک تک، جہاں دونوں طرف بینکوں اور کمپنیوں کے دفا تر ہیں!  اگر آپ اسلام آباد کے جغرافیے سے واقف ہیں تو ہنسے بغیر نہیں رہ سکیں گے!!  





یہ  واک، اور اسی طرح کی اور  

Walks 

چند آسودہ حال افراد کے چونچلوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کبھی ذیا بیطس  سے آگہی کے لیے اور کبھی دل کی بیماریوں کے حوالے سے واک منعقد کی جاتی ہے۔ شہر کی کسی بڑی شاہراہ پر! ایک آدھ فرلانگ کی واک! ہاتھوں میں کچھ بینر تھامے! دوسرے دن کچھ اخبارات  ( زیادہ تر انگریزی  اخبارات ) میں اور کچھ ٹی وی چینلوں پر ایک آدھ جھلکی! ایسی کوئی واک وہاں منعقد نہیں کی جاتی جہاں اس کی ضرورت ہے، جہاں عام آدمی اسے دیکھیں اور آگہی حاصل کریں! اب اس لٹریسی ڈے کی واک ہی کو دیکھ لیجیے۔ ارے بھئی! ناخواندگی  اسلام آباد کے بلیو ایریا  یا لاہور کی مال روڈ پر نہیں ، نا خواندگی تو ہماری بستیوں  ، قریوں اور قصبوں میں  ابلیس کی طرح رقص کناں ہے۔  جس تنظیم نے یہ واک منعقد کی  وہ سرکاری نہیں تو نیم سرکاری تو ضرور ہو گی۔ اسے حکومت کی طرف سے گرانٹ بھی ملتی ہو گی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس کا آڈٹ بھی کرتا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا  اس کی کارکردگی کا آڈٹ 

( Performance Audit ) 


بھی کبھی ہؤا؟ اس کے طفیل کتنی خواندگی بڑھی؟ اگر واک ہی منعقد کرنی ہے تو  کتنے اور کون کون سے گاؤں ہیں  جہاں آگہی پیدا کرنے کے لیے اور شعور بڑھانے کے لیے  واک کی گئی ؟ چلیں ، دیہات کو  بھی چھوڑ دیجیے، کون کون سے قصبے ہیں جہاں ایسی واک منعقد کی گئی؟ اگر ایسی واک کا واقعی کوئی فائدہ ہے تو یہ کم از کم ہر  ضلعے کی ہر تحصیل میں  منعقد کرنی چاہیے تھی ! 



پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 


Each one Teach one ( EOTO) 


پروگرام کے تحت ہر پڑھے لکھے فرد کو یہ ذمہ داری سونپی  گئی ہے کہ وہ کم از کم ایک ناخواندہ فرد کو پڑھنا لکھنا سکھا دے! بہت خوب! اچھی بات ہے۔  تو پھر یہ بھی ازراہ لطف و عنایت بتا دیجیے کہ یہ پروگرام  کب سے نافذ ہؤا؟ اب تک کتنے تعلیم یافتہ افراد نے کتنے افراد کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا ہے؟ اگر یہ پروگرام اسلام آباد کے  ۱۸۴ سکولوں اور کالجوں میں چل رہا ہے تو اب تک کی کارکردگی کیا ہے ؟ کتنے لوگ ناخواندگی کے اندھیرے سے نکل کر خواندگی کی روشنی میں آچکے ہیں؟ ان میں کتنے مرد ہیں اور کتنی عورتیں ہیں ؟  




حاشا و کَلّا  ! ہمارا مقصد محض تنقید برائے تنقید نہیں!  نہ ہی کسی تنظیم یا ادارے کی حوصلہ   شکنی  مقصود ہے۔ ہم نیت پر شک نہیں کر رہے۔ ہم صرف طریق کار   

( Modalities) 


کی بات کر رہے ہیں۔ اصل میدان اس کام کے لیے ملک کا دیہی حصہ ہے۔  

EOTO 

  ایک اچھا اور مفید تصور ہے۔ اصل مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے۔ ہمارے خیال میں ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں تین چار  ذمہ دار ، پڑھے لکھے، معزز اور بھلے مانس افراد اس پروگرام کے انچارج بنائے جائیں .فرض کیجیے ، ایک تحصیل میں  دو سو گاؤں ہیں تو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں چار معززین کو منتخب کیا جائے تا کہ ان میں سے ہر ایک کم از کم پچاس بستیوں میں یہ پروگرام نافذ کرے اور نگرانی بھی کرے۔ ایسے ہر انچارج کو حقیقت پسندانہ بنیاد پر سفر خرچ دیا جائے اور ضروری سٹیشنری بھی مہیا کی جائے۔ اس لکھنے والے کا تعلق ایک گاؤں سے ہے۔یقین کیجیے، کام کی لگن رکھنے والے درد مند افراد ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر، ہر قصبے اور ہر گاؤں میں موجود ہیں۔ انہیں صرف سرکار کی طرف سے رہنمائی چاہیے اور ضروری وسائل!! یہاں یہ وارننگ لازم ہے کہ خدا کے لیے  ڈی سی ، اے سی، اور اس قسم کے حکام سے اس پروگرام کو بچایا جائے ورنہ کانِ نمک میں جا کر یہ پروگرام بھی نمک میں تبدیل ہو جائے گا۔  




ناخواندگی  کا اصل چیلنج لڑکیوں کے حوالے سے ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ کام بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر اُن صوبوں اور اُن علاقوں میں جہاں روایت پرستی کا زور ہے اور جہاں عورت کا ووٹ ڈالنے کے لیے  بھی نکلنا دشوار ہے۔ بد قسمتی سے پڑوسی ملک میں جب سے نئی حکومت آئی ہے ، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ملحقہ پاکستانی علاقے بھی اس مائنڈ سیٹ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہو گی کہ یہ کام آسان نہیں۔ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ پہلے پولیو ٹیمیں بھی نقصان اٹھا چکی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی  یہی صورت حال ہے بلکہ سچ پوچھیے تو پنجاب  میں بھی عورت دشمنی کم نہیں! پنجاب میں بھی بیٹی کی  پیدائش پر باپ اور دادی کو موت پڑ جاتی ہے۔ ماضی قریب میں ہی ایک خبر کے مطابق ، پنجاب کے ایک قصبے میں ایک بد بخت نے بیٹی کی پیدائش کا سن کر بیوی کو اُسی وقت طلاق دے دی جب کہ ابھی وہ ہسپتال ہی میں تھی۔ عورتوں کی خواندگی اور تعلیم مردوں کی تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہے۔   جدید سنگا پور کے  معمار نے اپنے لوگوں سے کہا تھا”  تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، پھر دیکھو میں سنگاپور کو کہاں لے جاتا ہوں۔ “ بد  قسمتی سے ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے میں  یہ تصور کارفرما ہے کہ خواندگی اور تعلیم صرف ملازمت کے لیے ہے۔ اس تصور کو ختم کرنا ہو گا۔ عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک اچھی شہری بنے اور بچوں کی تربیت اس طرح کرے  کہ وہ بھی معاشرے کے لیے بوجھ کے بجائے اثاثہ بنیں۔ 



اور آخری گذارش! ہمارے ہاں ہر منصوبہ، ہر پروگرام، ہر مہم، بڑے شہروں سے شروع ہو تی ہے اور وہیں پر ختم ہو جا تی ہے۔ اگر خواندگی زیادہ کرنے کے  لیے کوئی ادارہ ہے تو اس کا ہیڈ کوارٹر  اسلام آباد  کے بجائے کسی قصبے  میں  ہونا چاہیے۔ تعلیم یوں بھی اب وفاق کی نہیں صوبوں کی  ذمہ ذمہ داری ہے۔ ہر صوبے کا اپنا خواندگی کا ادارہ ہو نا چاہیے۔ اس کے ذیلی دفاتر  تمام اضلاع  میں ہونے چاہییں! ہاں اگر مقصد صرف گرانٹ کو خرچ کرنا ہے اور چند  افراد  میں ملازمتیں بانٹنا ہے تو اور بات ہے !! 

…………………………………………………………………………………

Tuesday, September 10, 2024

خواندگی کا عالمی دن


بیٹھنے کی جگہ کوئی خاص نہیں۔ لکڑی کے بنچ اور خستہ شکستہ کرسیاں! مگر اس ڈھابے پر چائے بہت اچھی ملتی ہے۔
یہ گھر سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ جب بھی کوئی بے تکلف دوست آتا ہے‘ اسے لے کر ڈھابے پر چلا جاتا ہوں۔ جوتے اتار کر لکڑی کے بنچ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا ہوں۔ اردگرد مزدور‘ ڈرائیور اور اسی قسم کے لوگ بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں یا دال سبزی کے ساتھ روٹی کھا رہے ہوتے ہیں۔اصل پاکستان کی خوشبو نتھنوں سے ٹکراتی ہے تو ایک سرور سا طاری ہو جاتا ہے۔ اطمینان کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ڈھابے کے مالک کے سوا وہاں کوئی نہیں جانتا کہ میں بغل والی ''باعزت‘‘ آبادی میں رہتا ہوں۔ ہاں جب کوئی ایسا ملاقاتی آتا ہے جو اپنی حیثیت کے حوالے سے حساس ہوتا ہے‘ دوسرے لفظوں میں کمپلیکس کا مارا ہوا! تو اسے اُس کمرے میں بٹھاتا ہوں جسے عرفِ عام میں ڈرائنگ روم کہتے ہیں اور جسے میں بیٹھک کہتا ہوں۔ وہاں وہ ٹی بیگ والی چائے نوش کرتا ہے۔ وہی ٹی بیگ والی چائے جسے ڈرائیور حضرات حقارت سے دھاگے والی چائے کا نام دیتے ہیں۔
کل میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈھابے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈھابے کے مالک نے کاؤنٹر سے آواز دی اور ہماری طرف اشارہ کیا ''اوئے چھوٹے! ان سے آڈر لو‘‘۔ ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ ہمارے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ٹکڑا تھا۔ اس سے اس نے ہمارے سامنے پڑی اُس بے ڈھب سی چیز کو صاف کیا جسے ٹیبل کہا سکتا ہے۔ پھر پوچھا: سَر! کیا لیں گے؟ ہم نے چائے کا کہا۔ وہ واپس کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا تو میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے بڑے پوتے جتنا تھا۔ ملیشیا کی شلوار قمیض پہنے تھا۔ سر پر چترالی ٹوپی۔ پاؤں میں پشاوری چپل جس کی ایڑیاں گھِس چکی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد چائے لایا تو میں نے کہا: بیٹے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ کہنے لگا: صاحب! ابھی تو کام کا وقت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں گاہکوں کا رش ہے۔ پوچھا: چھٹی کس وقت ہو گی؟ جواب ملا: صاحب جی رات گیارہ بجے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں رات گیارہ بجے آؤں گا۔
رات گیارہ بجے گیا تو بچہ برتن دھو رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا: صاحب جی! دو منٹ بیٹھیے! تین دیگچے رہتے ہیں۔ بس ابھی فارغ ہوا۔ تھوڑی دیر میں وہ آگیا۔ اس سے گفتگو ہوئی۔ اس کے دو بھائی اور تھے۔ ایک کسی بیگم صاحبہ کے گھر میں ملازم تھا۔ دوسرا ایک اور ریستوران میں کام کر رہا تھا۔ باپ ایک کوٹھی میں چوکیدار تھا۔ ماں مختلف گھروں میں جھاڑو پوچے کا کام کرتی تھی۔ میں نے اسے خوشخبری دی کہ بہت جلد تمہارے یہ مشقت کے دن ختم ہو جائیں گے۔ تم اور تمہارے دونوں بھائی سکول میں داخل ہو جائیں گے۔ اس پر وہ حیران ہوا ''صاحب! وہ کیسے؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ کل خواندگی کا عالمی دن تھا۔ وزیراعظم صاحب نے ''تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے قوم کو بتایا ہے کہ ایک مہم شروع کی جائے گی جس کے تحت بچوں کو سکولوں میں داخل کیا جائے گا اور دو پہر کا کھانا بھی فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک جامع منصوبے کا نفاذ کیا جا رہا ہے جس کی رُو سے ٹیکنالوجی کو تعلیمی نظام میں ضم کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے تعلیمی ایمرجنسی کے موضوع پر منعقد ہونے والی ''قومی کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت جو اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں انہیں سکولوں میں داخل کیا جائے گا۔ میں نے بچے کو یقین دلایا کہ بہت جلد ڈھابے کی اس گندی نوکری سے اس کی جان چھوٹ جائے گی۔
بچے نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر جو کچھ اُس نے کہا سن کر یقین نہ آیا کہ واقعی وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ بول رہا ہے۔ کہنے لگا: صاحب! یا تو آپ بہت ہی سادہ لوح شخص ہیں یا مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ بہرطور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ہنساتے بہت ہیں۔ آپ کو مجھ سے زیادہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ خواندگی کا بین الاقوامی دن ایک تکلف‘ ایک مذاق‘ ایک ڈھکوسلے کے سواکچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ کیا یہ دن ہر سال نہیں آتا اور کیا اس قسم کے اعلانات ہر بار نہیں کیے جاتے؟ اور یہ جو وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اڑھائی کروڑ‘ یا دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو کیا جنابِ وزیراعظم بتائیں گے کہ گزشتہ برس کتنے بچے‘ ان اڑھائی کروڑ بچوں میں سے‘ سکولوں میں داخل کرائے گئے؟ عالمی یومِ خواندگی کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ یہ بدبخت آوارہ دن ہر سال آن ٹپکتا ہے۔ متعلقہ بیورو کریٹ وہ بیان لکھتے ہیں جو اس موقع پر وزیراعظم نے پڑھ کر سنانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سارا سال اس ضمن میں کسی کارکردگی‘ کسی پراگریس کا پوچھا جاتا ہے نہ ہی معائنہ کیا جاتا ہے۔
یہ سب ایک روٹین ہے۔ یہ اڑھائی کروڑ کی تعداد بھی سخت غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ملک کے دور افتادہ گوشوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا وجود ہی کوئی نہیں! اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔جہاں لوگ لڑکیوں کی تعداد بتانے کو غیرت کا مسئلہ بناتے ہوں وہاں یہ کون بتائے گا کہ کتنی بچیاں سکول جاتی ہیں اور کتنی سکول سے باہر ہیں! کیا وزیراعظم کو اُن بچوں کی تعداد معلوم ہے جو ورکشاپوں‘ ڈھابوں اور ریستورانوں میں کام کر رہے ہیں اور کتنے گھروں میں نوکر ہیں۔ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ ان بچوں کے ساتھ کیا کیا ظلم اور بدسلوکیاں روا رکھی جاتی ہیں؟ رہا یہ پروگرام کہ بچوں کو دوپہر کا کھانا دیا جائے گا تو حکومت ملک کے اطراف واکناف میں پھیلے سرکاری سکولوں کی گرتی ہوئی چھتوں اور دیواروں کی تو پہلے مرمت کرا لے۔ اساتذہ کی تعداد تو پوری کر لے۔ دیہی سکولوں میں بچے کیڑوں والا اور مٹی والا پانی پی رہے ہیں۔ ٹاٹ تک نہیں ہیں۔ صاحب جی! آپ بھی یہیں ہیں! میں بھی یہیں ہوں۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ میں کس سکول میں جاؤں گا اور میرے دو بھائی کس سکول میں داخل کیے جائیں گے!‘‘
میرے پاس اُس کی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ جاتے ہوئے اس نے مجھے غور سے دیکھا اور چلا گیا۔ وہ رات اسی ڈھابے میں گزارتا تھا کیونکہ صبح سات بجے اس کی ڈیوٹی شروع ہو جاتی تھی۔ واپسی پر مجید امجد کی نظم ''پہاڑوں کے بیٹے‘‘ نہ جانے کیوں یاد آ گئی۔
مرے دیس کی اُن زمینوں کے بیٹے؍ جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا؍ جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما؍ پہاڑوں کے بیٹے؍ چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں‘ سنگِ خارا کے ریزے؍ سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل؍ شعاعوں ہواؤں کے زخمی؍ چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں؍ وطن ڈھیر اک اَن منجھے برتنوں کا؍ جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں؍ وطن وہ مسافر اندھیرا؍ جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر؍ کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے؍ ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں؍ مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما؍ ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں؍ تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!

Monday, September 09, 2024

مراعات یافتہ طبقے کی ایک اور جیت


وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ اور اگر یہی ہوتا رہے گا تو مستقبل مخدوش ہے۔
مراعات یافتہ طبقہ ایک بار پھر جیت گیا۔ وہی مراعات یافتہ طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُترَفین‘‘ کہا گیا ہے! بے بس طبقہ ایک بار پھر ہار گیا۔ وہی بے بس طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُستَضعَفین‘‘ کہا گیا ہے!! اور یہ جو مُستَضعَفین ہیں ان سے پوچھا جائے گا تم کس حال میں تھے‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے‘ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ کتنے برسوں سے‘ کتنی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے۔ طاقتور طبقہ کمزوروں کو کچل رہا ہے۔ نہ صرف اپنی بڑی بڑی گاڑیوں کے سفاک پہیّوں کے نیچے‘ بلکہ اپنی دولت‘ قانون شکنی‘ دھونس‘ جبر و استبداد‘ غرور‘ تکبر‘ نخوت اور خودسری کے پہیوں کے نیچے بھی!! مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے میں انصاف حاصل کر لیا گیا۔ صنعتکار خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون جو‘ مبینہ طور پر نشے میں تھی‘ بچا لی گئی۔ عمران عارف اور اس کی جواں مرگ بیٹی آمنہ عمران کی روحیں یہ انصاف دیکھ رہی ہوں گی! انصاف کا یہ منظر فرشتوں نے بھی دیکھا ہو گا۔ انہوں نے انتظار کیا ہو گا کہ ابھی بستیوں کو الٹنے کا حکم ملے گا مگر حکم ڈھیل دینے کا ملا! رسی دراز کی جا رہی ہے۔ قدرت دیکھ رہی ہے کہ یہ ملک جسے اپنے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے بنایا گیا تھا کس طرح ظلم کے راستے پر بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا ہے۔ ایسے مقدموں میں جہاں ایک فریق حد سے زیادہ طاقتور اور دوسرا فریق حد سے زیادہ کمزور ہوتا ہے‘ ریاست کو مدعی بننا چاہیے تا کہ طاقتور فریق کمزور فریق کو مجبور اور مرعوب نہ کر سکے۔ مگر یہ بھی یہاں کیسے ممکن ہو گا۔ جب ریاست کا اپنا اہلکار‘ کوئٹہ کا حاجی عطا اللہ‘ عین ڈیوٹی دیتے وقت کچل دیا گیا تو ریاست ہی مدعی تھی۔ مگر سردار صاحب کے مقابلے میں ریاست کمزور اور بے بس ہی ثابت ہوئی۔ یا پھر‘ کیا ریاست نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا؟
صورت حال یہ آ بنی ہے کہ جس کا بس چل رہا ہے‘ ہجرت کر رہا ہے۔ طاقتور طبقے کے ارکان کی ہجرت میں اور عام پاکستانی کی ہجرت میں بہت فرق ہے۔ طاقتور طبقے کے افراد لندن یا سپین یا یو اے ای جاتے ہیں تو قانون کو جُل دینے کے لیے۔ اور پھر جیسے ہی موقع پاتے ہیں واپس آکر ایک بار پھر حکومت سنبھال لیتے ہیں۔ اس کے برعکس عام پاکستانی ہجرت کرتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں کو بھی بلا لے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ غالباً ابن انشا نے کہا تھا
ہو جائیں گے پردیس میں جا کر کہیں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے
ہم میں سے اکثر پاکستانیوں کا‘ جو پاکستان کے اندر رہتے ہیں‘ یہ خیال ہے کہ ہمارے لوگ صرف ڈالر یا پاؤنڈ کمانے کے لیے ملک چھوڑتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ تارکینِ وطن کی اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان میں لا قانونیت‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور سرکاری محکموں میں رائج سرخ فیتے سے تنگ آکر ملک چھوڑ گئے۔ بہت سے اس لیے چلے گئے کہ پولیس نے ان کی تذلیل کی تھی۔ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر اور آئی ٹی کے ماہرین اس لیے جا رہے ہیں کہ ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی قدر نہیں کی جا رہی۔ بہت سے اس لیے چلے گئے اور جا رہے ہیں کہ مذہبی‘ مسلکی‘ نسلی اور لسانی حوالے سے ایذا رسانی کا شکار ہیں! اگر ایک جملے میں مسئلے کو بیان کرنا ہو تو یوں کہیے کہ ضابطوں‘ قاعدوں اور قانون کو پامال کیا جاتا ہے جس سے بددل ہو کر لوگ ہجرت کر جاتے ہیں۔
بظاہر نظر نہیں آ رہا کہ حالات تبدیل ہو جائیں گے! اگر حالات نے تبدیل ہونا ہوتا تو ریمنڈ ڈیوس کو باہر بھجوانے میں جن لوگوں نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ ان کا یوم حساب آ چکا ہوتا۔ بی بی سی کے مطابق ''امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے 2017ء میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی 'دا کنٹریکٹر‘ میں پاکستان میں اپنی گرفتاری‘ مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش‘ مقدمے کا احوال اور بالآخر رہائی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ کتاب کے مطابق وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ نے کہا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو انہیں پکڑ کر کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا گیا اور کارروائی سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس (یعنی وہ افراد جن کے وہ وکیل تھے) سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ 'دا کنٹریکٹر‘ کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ 23 فروری 2011ء کو عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صَرف ہوا کہ پاکستانی عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ ڈیوس کی گلوخلاصی ہو پائے۔ ڈیوس لکھتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی کے دوران ایک صاحب مسلسل کیمرون منٹر (امریکی سفیر) کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ جب دیت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ 14 مارچ کو اہلکار حرکت میں آئے اور انہوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا‘ اُن کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے اور اُن سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے: یا تو وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں ورنہ... کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے‘ اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید وصول کرتے اور باہر آ جاتے۔ جونہی یہ کارروائی مکمل ہوئی ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سیسنا
 (Cessna) 
طیارہ رن وے پر اُس کا انتظار کر رہا تھا‘‘۔
حالات تبدیل ہونا ہوتے تو ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق سیکھتے اور اپنے آپ کو بدل چکے ہوتے۔ ہم نے وہاں طاقت کا استعمال کیا اور نتیجہ دیکھ لیا۔ آج بھی کسی شہر میں‘ یا صوبے میں‘ یا علاقے میں شورش برپا ہے تو اس کا سدباب طاقت سے نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اور صرف بات چیت سے ہو سکتا ہے۔ تالیفِ قلوب سے ہو سکتا ہے۔ حکمت‘ تدبر اور تحمل سے ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی طاقتیں‘ ہمارے پڑوسیوں سمیت‘ ہماری سلامتی کے درپے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم دوستوں کی تعداد بڑھائیں اور دشمنوں کی تعداد کم کریں۔ طاقت کے بے محابا استعمال سے ردعمل پیدا ہوتا ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ردعمل کا کوئی تعلق منطق سے یا اعتدال سے یا عقل سے نہیں ہوتا۔ ردعمل انتہا پسندی پر مشتمل ہوتا ہے۔ عقلمند حکمران وہ ہوتے ہیں جو ردعمل پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ وہ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں‘ نمک نہیں چھڑکتے۔ کسی عقل مند حکمران کا یہ قول مشہور ہے کہ رعایا دھاگا کھینچتی ہے تو میں ڈھیلا چھوڑ دیتا ہوں۔ اور اُس وقت کھینچتا ہوں جب رعایا ڈھیلا چھوڑتی ہے۔ اگر حکمران اور عوام دونوں بیک وقت کھینچیں گے تو دھاگا ٹوٹ جائے گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں 
مانو نہ مانو‘ جانِ جہاں! اختیار ہے

Thursday, September 05, 2024

ملک اس حال تک یونہی نہیں پہنچ گیا!


کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔
یہ رونا تو کئی بار رویا جا چکا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کتابوں کی تجارت نہیں ہو رہی۔ رہی اُن کتابوں کی بات جو امریکہ یا یورپ میں شائع ہوتی ہیں تو جب تک کوئی کتاب ہمارے ملک میں پہنچتی ہے اس وقت تک اس موضوع پر دس اور کتابیں وہاں چھپ چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ مغرب سے آنے والی کتاب اب بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ڈالر اور پاؤنڈ کے مقابلے میں روپے کی جو قدر ہے‘ اس نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ چار پانچ ہزار سے کم میں شاید ہی کوئی درآمد شدہ کتاب آتی ہو۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی ایک بی بی نندینی داس نے‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے‘ تھامس راؤ کے قیامِ ہندوستان پر ایک تفصیلی کتاب لکھی ہے (ہم جانتے ہیں کہ تھامس راؤ برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے شہنشاہ جہانگیر کے دربار سے وابستہ رہا تھا)۔ چند ہفتے پہلے لاہور کی ایک معروف کتابوں کی دکان سے یہ کتاب خریدی تو ساڑھے چار ہزار روپے میں پڑی۔ اب ان حالات میں گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ روپے کی ناقدری نے پاکستان کو کہیں کا نہیں رکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمرانوں‘ وزیروں‘ امیروں اور سرکاری عمائدین کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آئے دن مغربی ملکوں کی یاترا کو جاتے ہیں اور خریداری کے ریکارڈ توڑ کر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اور ہمارے جیسے عامی ہیں‘ جو صرف کتابیں خریدنے کا شوق رکھتے ہیں مگر روپے کی مسلسل پسپائی کے سبب یہ فقیرانہ شوق بھی پورا نہیں کر سکتے۔ کیا روپیہ اپنی حیثیت بحال کر پائے گا؟ بظاہر تو سرنگ میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں نظر آرہی۔ جنوبی ایشیا میں رُسوا ترین حالت اس وقت پاکستانی روپے ہی کی ہے۔ آج کی صورتحال کے مطابق ایک امریکی ڈالر 278.68 پاکستانی روپے کا ہے۔ یہی امریکی ڈالر بھارت کے 84 روپوں میں آجاتا ہے۔ بنگلہ دیشی 119 ٹکے ایک ڈالر کے برابر ہیں۔ اور تو اور 70 افغانی ایک ڈالر کے برابر ہیں اور ہمارا منہ چڑا رہے ہیں! ہمارے معاشی جادوگروں کو‘ جو لندن میں رہ کر زیادہ خوش رہتے ہیں‘ ملکی معیشت کی فکر کم ہے اور اپنے مقدمے سیدھے کرانے کی فکر زیادہ ہے۔ یوں بھی اگر آدھا دبئی جیب میں ہو تو روپے کی ناقدری سے کیا تعلق رہ جاتا ہے! دو افراد سفر کے دوران دوست بن گئے۔ ان میں سے ایک کنویں میں گر گیا۔ دوسرے نے اوپر سے جھانک کر کہا ''جہاں رہو خوش رہو‘ میں تو چلا‘‘۔ تو ہم عوام کنویں میں ہیں اور حکمران اوپر سے جھانک کر تسلی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا!
تحریر کے آغاز میں عرض کیا ہے کہ کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔ یہ کتاب ایک امریکی خاتون پروفیسر کیرولین ایلکنز (Caroline Elkins) نے لکھی ہے۔ اس کا موضوع برطانوی استعمار کی چیرہ دستیاں ہیں جو اس نے محکوم قوموں پر ڈھائیں۔ اس سفید فام خاتون نے افریقہ‘ خاص طور پر کینیا میں کیے گئے برطانوی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ کتاب پر جو تبصرہ نظر سے گزرا ہے اس کی رُو سے کیرولین ایلکنز نے ان مظالم کا بھی تذکرہ کیا ہے جو انگریزی تسلط نے بر صغیر پر کیے۔ اس سے پہلے معروف بھارتی سکالر اور پارلیمنٹیرین ششی تھرور نے اسی موضوع پر ایک معرکہ آرا کتاب لکھی جس کا نام ''تاریکی کا دور‘‘ ہے۔ یہ 2016ء میں چھپی تھی۔ اُس وقت بھارت اور پاکستان میں کتابوں کا دو طرفہ تبادلہ ممکن تھا۔ یہ کتاب پاکستان میں خاصی مقبول ہوئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کیرولین ایلکنز کی کتاب کیسے اور کہاں سے حاصل کی جائے؟؟ اتفاق سے  آسٹریلیا جانا تھا۔ وہاں کی چار پانچ لائبریریوں کا ممبر ہوں۔ ممبر شپ مفت ہے۔ آپ مقامی ہیں یا غیر ملکی‘ صرف نام اور مقامی ایڈریس بتا کر لائبریری کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اور یہ ممبر شپ پانچ منٹ سے کم وقت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ بیک وقت 30 کتابیں جاری کرا سکتے ہیں۔ اللہ کا نام لے کر ایک لائبریری کو‘ جو قیام گاہ کے قریب ہے‘ ای میل کی اور درخواست کی کہ یہ کتاب لائبریری میں نہیں ہے تو ازراہِ کرم خریدی جائے۔ دوسرے دن ای میل کی رسید موصول ہو گئی۔ دو اڑھائی ہفتے پہلے جب میلبورن پہنچا تو دوسرے ہی دن لائبریری میں جا موجود ہوا۔ گمان غالب یہ تھا کہ کتاب ایک ای میل کے نتیجے میں کہاں منگوائی جا سکتی ہے! لائبریرین سے استفسار کیا تو اس نے سامنے پڑی ہوئی طلسمی مشین پر کلک کی۔ صرف کتاب کی مصنفہ کا نام پوچھا اور چند ثانیوں کے بعد مجھے میرا نام بتا کر آگاہ کیا کہ آپ کی ای میل ملی تو ہم نے کتاب کا آرڈر کر دیا تھا اور یہ کہ کتاب آنے والی ہے۔ جیسے ہی آئی آپ کو اطلاع کر دی جائے گی۔
ان ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی سہولتیں اور آسانیاں ایک حساس پاکستانی کو خوشی اور اطمینان نہیں دیتیں بلکہ نیزے کی اَنی کی طرح چبھتی ہیں! فوراً دل میں یہ حسرت جاگ اُٹھتی ہے کہ ایسی کارکردگی ہم پاکستانیوں کو اپنے ملک میں کیوں نہیں حاصل؟ کیا ہے ہمارا گناہ؟ ہم بھی انسان ہیں! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی انسان نہیں ہیں‘ Sadist ہیں۔ دوسروں کو اذیت پہنچانے سے مسرت کشید کرتے ہیں۔ چھوٹے سے کام میں بھی ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالتے ہیں کہ بندہ ان کی منفی سوچ اور شیطانی ذہانت پر اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ ذاتی طور پر گز شتہ ایک ماہ میں دو تجربے ہوئے۔ سی ڈی اے میں ایک چھوٹا سا کام تھا۔ اس کام کی فیس دس ہزار روپے تھے۔ دس ہزار کا پے آرڈر جمع کرا دیا۔ ایک ہفتے بعد سی ڈی اے سے ایک صاحب کا فون آیا کہ پے آرڈر پر آپ کے دستخط نہیں ہیں۔ آکر دستخط کیجیے تاکہ آپ کا کام کیا جا سکے۔ سرکاری برآمدوں میں طویل عرصہ کی آوارہ گردی نے ایک خاص قسم کا غیر خوشگوار اعتماد بخشا ہے۔ پوچھا کہ جب سی ڈی اے نے اپنے اکاؤنٹ میں یہ پے آرڈر جمع کرایا یا کرانا چاہا تو کیا بینک نے میرے دستخط مانگے؟ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ جس قانون کی رو سے میرے دستخط پے آرڈر پر ہونے لازم ہیں‘ اس قانون کا حوالہ وٹس ایپ کر دیجیے تاکہ حاضر ہو کر قانونی تقاضا پورا کر سکوں۔ اس غیر متوقع جواب پر پکے کا یہ ڈاکو خاموش ہو گیا اور بغیر کچھ کہے فون رکھ دیا۔ ملک سے آتے وقت کتابوں کی وجہ سے سامان زیادہ تھا۔ زائد سامان کی پاداش میں کچھ پیسے دینے پڑے۔ کریڈٹ کارڈ دیا۔ مشین سے رقم کی رسید نکلی۔ میرے سامنے رسید رکھتے ہوئے کاؤنٹر والا کہنے لگا اس پر دستخط کیجیے۔ میں چونک پڑا۔ پوچھا کیوں؟ بھلا کریڈٹ کارڈ کی جو رسید مشین سے نکلتی ہے‘ اس پر کبھی کسی نے دستخط کیے؟ یہ سن کر اس سیہ دل کے چہرے پر سیاہی کا بادل سا آیا اور رسید اس نے میرے آگے سے ہٹا لی۔یہ رویہ‘ غیرضروری اور غیرقانونی مطالبات پیش کرنے کا یہ منحوس رویہ پاکستان کی جڑوں تک پھیلا ہوا ہے اور زہر پھیلا رہا ہے۔ بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ سائل کو سہولت نہیں بہم پہنچانی بلکہ نانی یاد دلانی ہے۔ جس لائبریری کا ذکر اوپر کیا ہے‘ اس کے کاؤنٹر پر کسی پاکستانی کو بٹھا کر دیکھ لیجیے۔ سب سے پہلے تو وہ تحریری درخواست مانگے گا۔ پھر شناختی کارڈ۔ پھر آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں‘ اس کے کاغذات۔ پھر ایک فارم بھروائے گا کہ میں لائبریری کے قوانین کی پابندی کروں گا۔ پھر کہے گا کہ اس فارم کو کسی سرکاری افسر سے 
Attest
 کرا کر لائیے۔ آپ دوسرے دن یہ بھی کرا لائیں گے۔ پھر وہ کہے گا کہ ایک ہفتے کے بعد آئیے۔ آج ملک کی جو حالت ہے‘ یونہی نہیں ہوئی۔ اس حالت تک پہنچنے کے لیے ہم نے بہت محنت کی ہے!

Tuesday, September 03, 2024

وفاقی دارالحکومت کی شہ رگ کا ماتم —- ایک بار پھر !

یہ ایک بہت بڑی ، عظیم الجثہ ، دیو پیکر ، عفریت نما عمارت تھی۔ اس  کے اندر کئی ہوائی جہاز کھڑے تھے۔ بڑے بڑے جنگی ہوائی جہاز! ( ایسی عمارت ،جس کے اندر  ہوائی جہاز پارک کیے جائیں، ہینگر کہلاتی ہے۔ ) ہمارے چینی میزبان تفصیلات بتا رہے تھے۔ ہم حیرت سے گُنگ ہوئے جا رہے تھے۔مگر اصل حیرت کا پہاڑ ابھی ٹوٹنے والا تھا۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا یہ عمارت کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ جواب ملا پورے ایک سال میں! اس سے ایک دن زیادہ نہ کم! یہاں تو پانچ سو گز ( یعنی جعلی ایک کنال ) کا گھر ڈیڑھ سال میں بن جائے تو آدمی خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔ ( جعلی کنال اس لیے کہا ہے کہ اصل کنال بیس مرلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب پانچ سو گز یعنی تقریبا” سترہ مرلوں کو ایک کنال کہا جانے لگا ہے۔ ) ہم نے میزبانوں سے پوچھا کہ  مقررہ مدت میں نہ بنے تو  ؟  اس پر انہوں نے کہا کہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو تاریخ طے ہوتی ہے اس سے آگے پیچھے ہونے کا امکان صفر سے بھی کم ہے۔ اس یقین کی پشت پر   سزا کا وہ تصور کار فرما ہے جو چین میں رائج ہے۔ معافی یا سفارش کے ذریعے بچ جانے کا کوئی سلسلہ نہیں! 

یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ کل کے اخبارات میں وفاقی دارالحکومت کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ بد بخت شاہراہ “ ایکسپریس وے “  کا ذکر ہے اور یہ ذکر ، ذکرِ خیر نہیں۔ ایک بار پھر مقررہ تاریخ ( ڈَیڈ  لائن) گذر گئی اور شاہراہ مکمل نہیں ہوئی۔ یہ ڈَیڈ لائن چودہ اگست تھی اور  یہ پہلی ڈَیڈ لائن نہیں تھی۔ اُن تاریخوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو دی گئیں اور ہر بار بتایا گیا کہ اس تاریخ تک سڑک مکمل ہو جائے گی۔ سڑک مکمل نہ ہوئی۔  کئی بار نئی تاریخ دی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ شاہراہ اسلام آباد کی شہ رگ ہے۔ ہر روز جہلم، چکوال، دینہ ، منگلا،گوجر خان اور سینکڑوں  دیگر بستیوں سے لاکھوں لوگ ایکسپریس وے سے وفاقی دارالحکومت آتے ہیں اور واپس جاتے ہیں۔ خود اس شاہراہ کے کناروں پر درجنوں آبادیاں ہیں جو اسلام آباد  کا  حصہ ہیں ۔ان کے  مکین اسی شاہراہ کے ذریعے دفتروں، بازاروں، سفارت خانوں اور تعلیمی اداروں میں پہنچتے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ شاہراہ زیر  تعمیر ہے۔ اس پر سفر کرنے والے بے پناہ اذیت  سے گذر رہے ہیں۔ بچے ، عورتیں ، بوڑھے گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں ۔آپ اندازہ لگائیے  جن حکومتوں سے چند کلو میٹر کی شاہراہ نہیں بن رہی، وہ دیگر بڑے بڑے کام کیا کریں گی! اگر کسی نے موجودہ پاکستان کی  حالت کو بیان کرنا ہو تو صرف اس شاہراہ کی حالت دکھا دے اور یہ بھی بتا دے کہ کتنے برسوں سے عوام کے ساتھ یہ ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے! 

اس صورت حال کا سبب کیا ہے ؟ ہمارے نزدیک تین   سبب ہیں۔ پہلا سبب  یہ ہے کہ جو  افراد تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں سزا نہیں دی جاتی! محاسبے کا کوئی نظام وجود نہیں رکھتا۔ جس ادارے نے فنڈز  فراہم کرنے تھے  کیا اس کی طرف سے تاخیر ہوئی؟ کیا میٹیریل فراہم کرنے میں تاخیر ہوئی؟ کیا انجینیر کا قصور تھا ؟ یا ٹھیکیدار کا؟ جب کسی قصور وار کو سزا نہیں ملے گی تو منصوبہ وقت پر کیونکر  مکمل ہو گا؟ چین نے چند دہائیوں میں فلک بوس عمارتوں،  طویل شاہراہوں، ریلوے لائنوں، اوور ہیڈ پلوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس کی پشت پر سزاؤں کا نفاذ ہے۔ یہ سزائیں جیل میں بھیجنے کے علاوہ موت کے گھاٹ اتارنے کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ہے کوئی ہماری نام نہاد  پارلیمنٹ میں   پوچھنے والا کہ کتنی بار مقررہ تاریخ کو جوتے کی نوک پر رکھا گیا اور یہ کہ ذمہ داروں کے نام کیا ہیں؟  قیامت تو آسکتی ہے مگر ذمہ داروں کو سزا نہیں  مل سکتی ! یوں بھی  پارلیمنٹ میں تشریف فرما ارکان کو کیا پڑی ہے کہ اس قبیل کے عوامی مسائل کا پوچھیں ! اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ! 

دوسرا سبب ہے متعلقہ اداروں کے سربراہوں کا رویہ اور مائینڈ سیٹ! ہمارے ہاں سرکاری ملازم اپنے آپ کو ملازم نہیں افسر سمجھتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے وفاقی ترقیاتی ادارے کا سربراہ زیر تعمیر ( یا زیر اذیت ) ایکس پریس وے کو ایک مہینے میں کتنی بار ذاتی طور پر آکر دیکھتا ہو گا ؟ ہمارے ناقص اندازے کے  مطابق ایک بار بھی نہیں !  اگر  اس اندازے کو ثبوت کے ساتھ غلط ثابت کیا جاتا  ہے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ایک ثانیے کا توقف بھی نہیں کریں گے ! جب تک افسری کا خمار نوکر شاہی کے سر سے جاتا نہیں اور جب تک سربراہ کو یقین نہیں دلایا جاتا کہ وہ منصوبے کی عدم تکمیل کا ذاتی طور پر ذمہ دار اور جوابدہ ہو گا تب تک منصوبے اسی طرح لٹکتے رہیں گے ! 

تیسرا سبب یہ ہے کہ نوکر شاہی عوام سے  مکمل طور پر  لا تعلق ہے۔  یہ حضرات عوام سے ملتے ہیں نہ ان کی درخواستوں  ، شکایتوں اور رابطوں   کا جواب دیتے ہیں نہ فون پر ہی بات کرنے کو تیار ہیں!!اداروں کے سربراہ رسائی سے مکمل طور پر  باہر ہیں۔  سی ڈی اے کے موجودہ سربراہ ، چوہدری محمد علی رندھاوا صاحب  ،مئی میں جب  سریر آرائے منصب ہوئے تو اس کالم نگار نے انہی صفحات کی وساطت سے ان کی توجہ چند اہم مسائل کی طرف مبذول کرانے کی کوشش  کی ۔ آپ کا کیا خیال ہے ان کی طرف سے کوئی جواب ، کوئی رسید ، کوئی رد عمل  آیا ہو گا ؟ نہیں!  وہ مسائل بھی شہر میں جوں کے توں ہیں۔اس لیے کہ بیورو کریٹ یہاں عوام سے مکمل طور پر کٹا ہؤا ہے۔ اس کا رابطہ اوپر ہے۔ نیچے کی طرف جانے والی کسی   لائن  کا وجود ہی نہیں۔ حالانکہ یہ عوام ہیں جن کا مقام اور سٹیٹس  نیچے کے بجائےاوپر ہے اور اوپر ہونا چاہیے! اس کے مقابلے میں عزت دار ، ترقی یافتہ ملکوں  میں کیا ہوتا ہے؟ میرا آسٹریلیوی صحافی دوست چند روز پہلے بتا رہا تھا کہ اس نے اخبار میں ایک چھوٹا  سا  پِیس ، شذرہ ، ایک مسئلے کے ضمن میں لکھا۔ ٹھیک  تین دن کے بعد اسے  صوبے کے سربراہ  
( Premier) 
 کے دفتر سے ای میل موصول ہوئی جس میں شکریہ ادا کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایکشن لیا جا رہا ہے۔

اگر سالہا سال کے بعد بھی ہم سے چند کلو میٹر لمبی شاہراہ کی تعمیر و توسیع مکمل نہیں ہو رہی تو ہم  نے اور کیا تیر مارنے ہیں۔ اسلام آباد کا ائر پورٹ بننے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور یہ ائر پورٹ، بنکاک، سنگاپور، کوالا لمپور، دبئی اور قطر کے ائر پورٹوں کے  سامنے ایسا ہی ہے جیسے مرزا غالب کے سامنے استاد امام  دین گجراتی! لکھنؤ میں ایک نواب صاحب کے ہاں دعوت تھی۔ معلوم ہؤا دہی نہیں حاضر کیا گیا۔ انہوں نے ملازم کو حکم دیا کہ جا کر دکان سے لے آئے۔ جیسے ہی ملازم کمرے سے نکلا، نواب صاحب نے کمنٹری شروع کر دی۔ “ اب ملازم نے جوتے پہنے ہیں۔اب وہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب وہ صدر دروازے سے نکلا ہے۔ اب گلی کے نکڑ پر ہے۔ اب دکان سے دہی لے رہا ہے۔ اب واپس چل پڑا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہؤا ہے۔  اب جوتے اتار رہا ہے۔ لیجیے آ گیا۔ اور ساتھ ہی ملازم دہی لیے کمرے میں  داخل ہو  گیا۔ وہاں ایک سردار صاحب  بھی تھے۔ واپس آکر انہوں نے بھی دعوت کی۔ ملازم کو اسی طرح دہی لینے بھیجا۔ ساتھ ہی کمنٹری شروع کر دی۔ جب آخر میں کہا کہ یہ لیجیے ملازم دہی لیے آن پہنچا  تو ملازم کا نام و نشان نہیں تھا۔ پوچھا تو اس نے باہر سے جواب دیا حضور میں تو ابھی جوتے تلاش کر رہا ہوں۔ 

ہم پون صدی سے جوتے ہی تلاش کر رہے ہیں! 

…………………………………………………………………………
 

powered by worldwanders.com