بیٹھنے کی جگہ کوئی خاص نہیں۔ لکڑی کے بنچ اور خستہ شکستہ کرسیاں! مگر اس ڈھابے پر چائے بہت اچھی ملتی ہے۔
یہ گھر سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ جب بھی کوئی بے تکلف دوست آتا ہے‘ اسے لے کر ڈھابے پر چلا جاتا ہوں۔ جوتے اتار کر لکڑی کے بنچ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا ہوں۔ اردگرد مزدور‘ ڈرائیور اور اسی قسم کے لوگ بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں یا دال سبزی کے ساتھ روٹی کھا رہے ہوتے ہیں۔اصل پاکستان کی خوشبو نتھنوں سے ٹکراتی ہے تو ایک سرور سا طاری ہو جاتا ہے۔ اطمینان کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ڈھابے کے مالک کے سوا وہاں کوئی نہیں جانتا کہ میں بغل والی ''باعزت‘‘ آبادی میں رہتا ہوں۔ ہاں جب کوئی ایسا ملاقاتی آتا ہے جو اپنی حیثیت کے حوالے سے حساس ہوتا ہے‘ دوسرے لفظوں میں کمپلیکس کا مارا ہوا! تو اسے اُس کمرے میں بٹھاتا ہوں جسے عرفِ عام میں ڈرائنگ روم کہتے ہیں اور جسے میں بیٹھک کہتا ہوں۔ وہاں وہ ٹی بیگ والی چائے نوش کرتا ہے۔ وہی ٹی بیگ والی چائے جسے ڈرائیور حضرات حقارت سے دھاگے والی چائے کا نام دیتے ہیں۔
کل میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈھابے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈھابے کے مالک نے کاؤنٹر سے آواز دی اور ہماری طرف اشارہ کیا ''اوئے چھوٹے! ان سے آڈر لو‘‘۔ ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ ہمارے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ٹکڑا تھا۔ اس سے اس نے ہمارے سامنے پڑی اُس بے ڈھب سی چیز کو صاف کیا جسے ٹیبل کہا سکتا ہے۔ پھر پوچھا: سَر! کیا لیں گے؟ ہم نے چائے کا کہا۔ وہ واپس کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا تو میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے بڑے پوتے جتنا تھا۔ ملیشیا کی شلوار قمیض پہنے تھا۔ سر پر چترالی ٹوپی۔ پاؤں میں پشاوری چپل جس کی ایڑیاں گھِس چکی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد چائے لایا تو میں نے کہا: بیٹے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ کہنے لگا: صاحب! ابھی تو کام کا وقت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں گاہکوں کا رش ہے۔ پوچھا: چھٹی کس وقت ہو گی؟ جواب ملا: صاحب جی رات گیارہ بجے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں رات گیارہ بجے آؤں گا۔
رات گیارہ بجے گیا تو بچہ برتن دھو رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا: صاحب جی! دو منٹ بیٹھیے! تین دیگچے رہتے ہیں۔ بس ابھی فارغ ہوا۔ تھوڑی دیر میں وہ آگیا۔ اس سے گفتگو ہوئی۔ اس کے دو بھائی اور تھے۔ ایک کسی بیگم صاحبہ کے گھر میں ملازم تھا۔ دوسرا ایک اور ریستوران میں کام کر رہا تھا۔ باپ ایک کوٹھی میں چوکیدار تھا۔ ماں مختلف گھروں میں جھاڑو پوچے کا کام کرتی تھی۔ میں نے اسے خوشخبری دی کہ بہت جلد تمہارے یہ مشقت کے دن ختم ہو جائیں گے۔ تم اور تمہارے دونوں بھائی سکول میں داخل ہو جائیں گے۔ اس پر وہ حیران ہوا ''صاحب! وہ کیسے؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ کل خواندگی کا عالمی دن تھا۔ وزیراعظم صاحب نے ''تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے قوم کو بتایا ہے کہ ایک مہم شروع کی جائے گی جس کے تحت بچوں کو سکولوں میں داخل کیا جائے گا اور دو پہر کا کھانا بھی فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک جامع منصوبے کا نفاذ کیا جا رہا ہے جس کی رُو سے ٹیکنالوجی کو تعلیمی نظام میں ضم کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے تعلیمی ایمرجنسی کے موضوع پر منعقد ہونے والی ''قومی کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت جو اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں انہیں سکولوں میں داخل کیا جائے گا۔ میں نے بچے کو یقین دلایا کہ بہت جلد ڈھابے کی اس گندی نوکری سے اس کی جان چھوٹ جائے گی۔
بچے نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر جو کچھ اُس نے کہا سن کر یقین نہ آیا کہ واقعی وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ بول رہا ہے۔ کہنے لگا: صاحب! یا تو آپ بہت ہی سادہ لوح شخص ہیں یا مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ بہرطور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ہنساتے بہت ہیں۔ آپ کو مجھ سے زیادہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ خواندگی کا بین الاقوامی دن ایک تکلف‘ ایک مذاق‘ ایک ڈھکوسلے کے سواکچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ کیا یہ دن ہر سال نہیں آتا اور کیا اس قسم کے اعلانات ہر بار نہیں کیے جاتے؟ اور یہ جو وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اڑھائی کروڑ‘ یا دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو کیا جنابِ وزیراعظم بتائیں گے کہ گزشتہ برس کتنے بچے‘ ان اڑھائی کروڑ بچوں میں سے‘ سکولوں میں داخل کرائے گئے؟ عالمی یومِ خواندگی کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ یہ بدبخت آوارہ دن ہر سال آن ٹپکتا ہے۔ متعلقہ بیورو کریٹ وہ بیان لکھتے ہیں جو اس موقع پر وزیراعظم نے پڑھ کر سنانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سارا سال اس ضمن میں کسی کارکردگی‘ کسی پراگریس کا پوچھا جاتا ہے نہ ہی معائنہ کیا جاتا ہے۔
یہ سب ایک روٹین ہے۔ یہ اڑھائی کروڑ کی تعداد بھی سخت غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ملک کے دور افتادہ گوشوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا وجود ہی کوئی نہیں! اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔جہاں لوگ لڑکیوں کی تعداد بتانے کو غیرت کا مسئلہ بناتے ہوں وہاں یہ کون بتائے گا کہ کتنی بچیاں سکول جاتی ہیں اور کتنی سکول سے باہر ہیں! کیا وزیراعظم کو اُن بچوں کی تعداد معلوم ہے جو ورکشاپوں‘ ڈھابوں اور ریستورانوں میں کام کر رہے ہیں اور کتنے گھروں میں نوکر ہیں۔ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ ان بچوں کے ساتھ کیا کیا ظلم اور بدسلوکیاں روا رکھی جاتی ہیں؟ رہا یہ پروگرام کہ بچوں کو دوپہر کا کھانا دیا جائے گا تو حکومت ملک کے اطراف واکناف میں پھیلے سرکاری سکولوں کی گرتی ہوئی چھتوں اور دیواروں کی تو پہلے مرمت کرا لے۔ اساتذہ کی تعداد تو پوری کر لے۔ دیہی سکولوں میں بچے کیڑوں والا اور مٹی والا پانی پی رہے ہیں۔ ٹاٹ تک نہیں ہیں۔ صاحب جی! آپ بھی یہیں ہیں! میں بھی یہیں ہوں۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ میں کس سکول میں جاؤں گا اور میرے دو بھائی کس سکول میں داخل کیے جائیں گے!‘‘
میرے پاس اُس کی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ جاتے ہوئے اس نے مجھے غور سے دیکھا اور چلا گیا۔ وہ رات اسی ڈھابے میں گزارتا تھا کیونکہ صبح سات بجے اس کی ڈیوٹی شروع ہو جاتی تھی۔ واپسی پر مجید امجد کی نظم ''پہاڑوں کے بیٹے‘‘ نہ جانے کیوں یاد آ گئی۔
مرے دیس کی اُن زمینوں کے بیٹے؍ جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا؍ جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما؍ پہاڑوں کے بیٹے؍ چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں‘ سنگِ خارا کے ریزے؍ سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل؍ شعاعوں ہواؤں کے زخمی؍ چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں؍ وطن ڈھیر اک اَن منجھے برتنوں کا؍ جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں؍ وطن وہ مسافر اندھیرا؍ جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر؍ کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے؍ ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں؍ مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما؍ ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں؍ تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!
No comments:
Post a Comment