Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, September 30, 2024

قرۃ العین حیدر کی فیملی


موت کی خبر بھی اتنی ہی طاقتور ہے جتنی موت ہے۔ جس طرح موت کو روکنا ناممکن ہے‘ ( تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو۔ النساء) اسی طرح موت کی خبر بھی ساری رکاوٹیں ہٹا کر‘ سارے ٹائم زون پار کر کے‘ سارے سمندر عبور کر کے‘ ساری ہواؤں‘ جھکڑوں‘ طوفانوں‘ بارشوں سے گزر کر جہاں پہنچنا ہو پہنچ جاتی ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں تھا‘ یعنی وقت کے لحاظ سے پاکستان سے آٹھ گھنٹے آگے! پہلے تو برادرم غالب صاحب کا‘ جو ریٹائرمنٹ سے قبل وزیراعظم کے دفتر میں وفاقی سیکرٹری تھے‘ پیغام ملا۔ کچھ دیر کے بعد قاضی عمران الحق‘ سابق ڈپٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا وٹس ایپ موصول ہوا۔ دونوں کا متن ایک ہی تھا۔ ہماری سابق رفیقہ کار اور پچاس سالہ پرانی دوست‘ نور العین حیدر‘ اپنی مقررہ مدت اس دنیائے فانی میں پوری کر کے وقت کی سرحد کے پار اُتر گئیں۔
وہ اردو ادب کی عظیم لیجنڈ قرۃ العین حیدر کی سگی بھتیجی تھیں۔ یہ اتنی بڑی نسبت تھی کہ اس نے مجھے ہمیشہ ان کے قریب رکھا۔ سی ایس ایس کے امتحان کے نتیجے میں ہم دونوں پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس کے لیے (جو بعد میں پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں ضم ہو گئی) منتخب ہوئے۔ یہ کامن ٹریننگ شروع ہونے سے ایک سال پہلے کی بات ہے۔ آج والٹن میں جو سول سروس اکیڈمی ہے‘ یہ اُس وقت صرف مالیاتی سروسز کے لیے مختص تھی۔ اس میں ملٹری اکاؤنٹس‘ ریلوے اکاؤنٹس‘ انکم ٹیکس اور کسٹم کے گروپوں کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ تب یہ ''فنانس سروسز اکیڈمی‘‘ کہلاتی تھی۔ ہم چالیس کے قریب زیر تربیت افسران تھے۔ نور العین حیدر واحد خاتون افسر تھیں۔ جہاں چالیس مرد ہوں‘ تو ظاہر ہے وہاں ہر افتاد طبع کے لوگ ہوں گے۔ اچھے بھی اور کم اچھے بھی۔ نور العین حیدر نے جس متانت اور نجابت کے ساتھ ایک سالہ تربیت کا یہ عرصہ گزارا اور ملک کے مختلف حصوں کے دوروں میں سب کے ساتھ رہیں‘ اس سے ان کے کردار کا اجلا پن نکھر کر سامنے آیا۔ مزاج میں ایک صحت مند قسم کی کم آمیزی تھی‘ اس توازن کے ساتھ کہ اسے رعونت یا تکبر کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نہیں معلوم ہمارے ساتھیوں میں سے کتنے قرۃ العین حیدر سے واقف تھے اورکتنوں نے اُن کی کتابیں پڑھی تھیں مگر میں‘ ادب کا طالب علم ہونے کے سبب ان کی کتابوں کا دلدادہ تھا۔ ہم جب بھی اکٹھے بیٹھتے‘ انہی کی باتیں کرتے۔ میں نے اس عظیم ادیبہ کی زندگی کے مختلف گوشوں کے متعلق ان کی اس بھتیجی سے بے شمار معلومات حاصل کیں! ملازمت کا زیادہ عرصہ نورالعین نے کراچی گزارا۔ جب بھی جانا ہوتا‘ کراچی جمخانہ میں مہمان نوازی کرتیں۔ گریڈ اکیس میں آئیں تو تبادلہ اسلام آباد میں ہو گیا۔ ہمارے گھر آتیں‘ میری اہلیہ سے اُن کی دوستی تھی۔ پہلے ان کا طرزِ زندگی آزادانہ تھا۔ اردو ادب کے طالب علم جانتے ہیں کہ اُن کی دادی‘ سجاد حیدر یلدرم کی بیگم‘ روایت شکن قسم کی خاتون تھیں۔ تاہم حج کرنے کے بعد نور العین حیدر نے التزام کے ساتھ سر ڈھانپنا شروع کر دیا تھا۔
ہم آگے پیچھے ہی ریٹائر ہوئے۔ وہ جنوری میں‘ میں مئی میں۔ وہ کراچی چلی گئیں۔ ٹھیک دو سال بعد‘ جولائی2010ء میں کراچی سے آنے والا مسافر بردار طیارہ اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں میں گر ا۔ تمام مسافر جاں بحق ہو گئے۔ ان میں نور العین حیدر کے شوہر فاروق نعیم صدیقی بھی تھے۔ میں نے اور میری اہلیہ نے جب تعزیت کے لیے فون کیا تو نور العین کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ فاروق زندہ ہیں اور ان کی وفات کی خبر غلط ہے۔ اس کے بعد جب بھی فون پر بات ہوئی وہ نارمل نہ دکھائی دیں۔
یہ پانچ بہن بھائی تھے۔ تین بہنیں‘ دو بھائی۔ اور پانچوں سول سروس میں تھے۔ دو بہن بھائی‘ شہناز حیدر اور سب سے چھوٹے‘ طویل قامت‘ سجاد حیدر‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں تھے۔ سجاد حیدر ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل بھی رہے اور دو‘ تین سال پہلے ریٹائر ہوئے۔ ناہید حیدر اور جلال حیدر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تھے۔ جلال حیدر بہت اچھے دوست تھے۔ میرے گاؤں بھی آئے۔ خوشی اور غم میں شریک ہونے والے تھے۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر رہے۔ پھر مرکز میں جوائنٹ سیکرٹری رہے۔ کسی افسر نے پریشان کیا تو ملازمت کو خیرباد کہا اور کینیڈا ہجرت کر گئے۔ میں اور بیگم ٹورنٹو میں ایک ہفتہ اُن کے ہاں ٹھہرے تھے۔ انہوں نے بال لمبے کر لیے تھے۔ کان میں بالی تھی۔ خیالات میں بھی بہت زیادہ تبدیلی آگئی تھی۔ گزر اوقات کے لیے ایک دو مکان خریدے اور کرائے پر چڑھائے۔ ایک دن کہنے لگے: ایک کرایہ دار نے شکایت کی ہے‘ اُس کے باتھ روم میں کچھ مسئلہ ہے۔ مجھے ساتھ لیا۔ یہ ٹورنٹو کی کوئی نواحی بستی تھی جہاں یہ مکان تھا۔ پانی کے نظام میں کوئی خرابی تھی۔ جلال نے کار کی ڈگی کھولی تو دنیا بھر کے اوزاروں سے بھری تھی۔ انہوں نے ایک مشاق کاریگر کی طرح مرمت کا یہ کام کیا اور مسئلہ حل ہو گیا۔ کہنے لگے: جب مکان خرید کر کرائے پر دیا تو سوچا کہ کرایہ دار کبھی کہے گا باتھ روم میں خرابی ہے‘ کبھی کہے گا کچن میں۔ اگر مستری‘ پلمبر‘ الیکٹریشن وغیرہ بلائے تو وہ بہت مہنگے پڑیں گے۔ ان ملکوں میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی اجرتیں آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں؛ چنانچہ فیصلہ کیا کہ ''ہَینڈی مَین‘‘ کا کورس کریں گے۔ ہینڈی مین اُس شخص کو کہتے ہیں جو گھر میں خراب ہونے والی چیزوں کی مرمت کر لے۔ جیسے ہیٹر‘ اے سی‘ چولہا‘ باتھ روم کی فٹنگز وغیرہ۔ یہاں رک کر دو پہلوؤں پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی اجرتیں زیادہ ہیں۔ یعنی ان کا معیارِ زندگی وہاں پڑے لکھوں کے معیارِ زندگی سے کم نہیں۔ دوسرے‘ کوئی انہیں حقارت سے نہیں دیکھتا۔ ہم فقط زبان سے کہتے ہیں کہ الکاسب حبیب اللہ کہ ( ہاتھ سے) کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے‘ مگر ہاتھ سے کام کرنے والے کو معاشرے کی پست ترین سطح پر رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر رہنے والا حاکم‘ مغربی ملکوں میں ہینڈی مین بن کر رہتا ہے اور وہی عزت‘ حفاظت اور حقوق پاتا ہے جو پاکستان میں بڑے افسر کو حاصل ہیں۔ کچھ معاملات ایسے تھے جن کے سبب جلال ناخوش رہتے تھے۔ اکثر کہتے تھے: 

I will walk alone to my grave

۔ میں اپنی قبر کی طرف اکیلا جاؤں گا۔ یہی ہوا! چند ماہ پہلے وہ کراچی آئے ہوئے تھے۔ قضا نے یہیں انہیں گھیر لیا۔ خاندان والے کینیڈا میں تھے۔ میتیں عام طور پر دیارِ غیر سے وطن آتی ہیں مگر جلال کا جسدِ خاکی کراچی سے کینیڈا گیا۔ جس طرح یہ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ آخری سانسیں کہاں لے گا (اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا۔ سورۂ لقمان) اسی طرح یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ دفن کہاں ہو گا۔ بزرگ کہا کرتے تھے نہیں معلوم ڈھیری کہاں بنے گی۔
قرۃ العین حیدر نے اپنی شہرہ آفاق خودنوشت ''کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں اپنی ان بھتیجیوں اور بھتیجوں کا ذکر کیا ہے۔ کتاب میں ان کی تصاویر بھی ہیں۔ ایک بار قرۃ العین حیدر اسلام آباد آئیں تو شہر کے شاعروں سے انہیں ملوایا گیا۔ انہوں نے سب سے شعر بھی سنے۔ یہ نشست مشاہد حسین سید کے گھر پر منعقد ہوئی۔ مشاہد حسین سید کے سسر‘ جری احمد سید‘ قرۃ العین کے قریبی عزیز تھے۔ خود نوشت میں جری احمد سید کا بھی ذکر ہے اور تصویر بھی۔ وہ کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ جلال مرحوم کے ہاں ایک نادر کتاب دیکھی تھی۔ یہ قرۃ العین کی زندگی بھر کی تصویروں پر مشتمل تھی۔ ہر تصویر کے ساتھ تفصیل بھی لکھی تھی۔ اب یاد نہیں آ رہا یہ کہاں کی چھپی ہوئی تھی۔ شاید بھارت کی۔ قصہ مختصر‘ یہ ایک لائق اور جینئس خاندان تھا جس کے اکثر ارکان دنیا سے جا چکے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com