Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 30, 2024

بحرِ مُردار کا جزیرہ

یہ عجیب و غرسیب ملک بحرِ مُردار کے ایک منحوس جزیرے پر مشتمل تھا۔ یہاں رہنے والے لوگ ٹیکس دے دے کر ادھ موئے ہو چکے تھے۔ اُن کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں۔ گال پچک گئے تھے۔ بچوں کے پیٹ کمر سے جا لگے تھے۔ عورتیں گھر کا کام کرتے کرتے گر جاتی تھیں۔ بوڑھے دہلیزوں پر پڑے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ وہ ہر شے پر ٹیکس دے رہے تھے۔ ماچس خریدتے یا نمک مرچ‘ کپڑا خریدتے یا دوا‘ موبائل میں کریڈٹ ڈلواتے یا ریستوران میں ایک پیالی چائے پیتے‘ ہر شے کی قیمت کے ساتھ اضافی رقم ٹیکس کی لگائی جاتی! بچوں کا دودھ‘ ان کی کتابیں‘ کاپیاں‘ کفن‘ لحد پر لگنے والی سلیں‘ قبر پر ڈالی جانے والی مٹی‘ قُل کے لیے خریدے جانے والے چاول‘ نماز والی ٹوپی‘ چارپائی کی ادوائن والی رسّی‘ غرض ہر شے پر ٹیکس تھا۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود شہنشاۂ معظم اور ان کے وزیراعظم کے اخراجات پورے نہیں پڑ رہے تھے۔ ملکی خزانہ ان اخراجات کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ شہنشاہ کے محل میں استعمال ہونے والی ہر شے‘ کراکری سے لے کر بستر کی چادروں تک‘ سرکاری خزانے سے خریدی جاتی تھی۔ باورچیوں‘ باغبانوں اور دیگر خدام کا شمار مشکل تھا۔ پورے ملک میں جہاں جہاں ان حکمرانوں کے گھر تھے‘ سب کو شاہی محل کا درجہ دے دیا گیا۔ ملک میں کئی گورنر‘ کئی وزیر اور کئی عمائدین تھے۔ یہ سب ملکی خزانے پر پَل رہے تھے۔ ان کے بچے‘ رشتہ دار‘ دوست احباب سب سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ان سب کا علاج معالجہ اور ملک کے اندر اور ملک سے باہر سفر بھی سرکار ی خرچ سے ہوتا تھا۔ ان حضرات کی دعوتوں پر بیسیوں قسم کے پکوان رکھے جاتے تھے۔ ان دعوتوں کا بوجھ بھی عوام پر ہی پڑتا تھا۔

آخر کہاں تک؟ ایک دن خزانہ دار نے حکمرانوں کو آگاہ کیا کہ ان کی مزید پرورش اور کفالت مشکل ہو رہی ہے۔ خزانے میں مزید گنجائش نہیں رہی۔ اس پر ایمرجنسی اجلاس طلب ہو گئے۔ غور و فکر ہوا۔ اس حقیقت پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ عوام حکومت کی مالی مدد اتنی نہیں کر رہے جتنی انہیں کرنی چاہیے۔ مثلاً یہ نوٹ کیا گیا کہ لوگوں نے گھروں میں درخت لگا رکھے ہیں جن کی چھاؤں اور پھلوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؛ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر درخت پر ٹیکس لگے گا۔ درختوں کی کیٹیگریز بنائی گئیں۔ پھل دینے والے‘ صرف سایہ بہم پہنچانے والے‘ سدا بہار‘ خزاں میں سوکھ جانے والے‘ ان کی لکڑی کا کیا کیا مصرف ہے؟ ہر درخت کی عمر‘ ان کے پتوں کا سائز! ٹہنیوں کی مو ٹائی‘ کون کون سے پرندے کس کس درخت پر گھونسلے بناتے ہیں؟ ان سب اقسام پر ٹیکس لگائے گئے۔ کسی پر زیادہ‘ کسی پر بہت زیادہ! خزانہ اتنا بھر گیا کہ ایک سال تک حکمرانوں کی پرورش مزید ہو سکے۔ اس ایک سال کے دوران تمام سرکاری محلات کی تزئینِ نو کی گئی۔ پردے‘ فرنیچر‘ سجاوٹ کی اشیا‘ کرسٹل‘ کراکری‘ کٹلری‘ آئینے‘ باتھ روموں کی فٹنگ‘ ہر شے نئی منگوائی اور نئی بنوائی گئی۔ سال گزر گیا تو خزانچی نے پھر خطرے کا الارم بجا دیا۔ پھر اجلاس بلائے گئے۔ کئی روز تک غور و فکر کیا گیا۔ ان اجلاسوں میں شرکت کرنے کا الاؤنس الگ دیا جاتا تھا اور ہر اجلاس میں چائے اور کھانے کے بلند مرتبہ لوازمات مہیا کیے جاتے تھے۔ آخر میں مالی مشکلات کا ایک اور حل یہ نکالا گیا کہ جس شہر یا جس بستی یا جس قصبے یا جس گاؤں پر بارش برسے‘ اس کے باشندوں پر ''بارش ٹیکس‘‘ عائد کیا جائے۔ بارش کی بھی اقسام وضع کی گئیں۔ سردیوں کی بارش‘ گرمیوں کی بارش‘ اولوں والی بارش‘ تیز ہوا یا طوفان والی بارش۔ اسی حساب سے ٹیکس لگایا گیا؛ چنانچہ جب بھی بارش ہوتی‘ جہاں بھی ہوتی‘ وہاں کے لوگوں سے بارش ٹیکس لیا جاتا۔ پھر گوبر ٹیکس لگایا گیا۔ مرغیوں اور بطخوں کی بیٹ سے لے کر بھینسوں‘ بیلوں‘ بکریوں‘ بھیڑوں اور گھوڑوں کی لِد تک ٹیکس کے دائرے میں آ گئے۔ ہر گھر میں‘ ہر فارم پر اہلکار ہر روز سرِ شام پہنچ کر دن بھر کے گوبر کا وزن کرتے اور مختلف شرحوں کے حساب سے ٹیکس لگایا جاتا۔ کسانوں اور زمینداروں سے ایک ایک پیسہ‘ ایک ایک پائی نچوڑی گئی۔ بیچارے غلہ بیچ کر گوبر ٹیکس ادا کرتے۔ زراعت کے شعبے کا برا حال ہو گیا۔ اناج اور دیگر اجناس کی پیداوار کم ہو گئی۔ خوراک مہنگی ہو گئی‘ مگر مقصد پورا ہو گیا۔ شہنشاۂ معظم اور ان کے نیچے حکمران‘ درجہ بدرجہ‘ اپنے معیارِ زندگی کو مزید بلند کرکے‘ زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ مگر خزانہ‘ خزانہ تھا سمندر تو تھا نہیں‘ ہر سال دو سال کے بعد خالی ہونے لگتا۔ بحرِ مُردار کے اس منحوس جزیرہ نما ملک کے بھوکے ننگے قلاش لوگوں پر خوب خوب ٹیکس لگائے جاتے رہے! تہواروں کے حوالے سے ہر گھر پر ٹیکس لگایا گیا۔ چھوٹی عید‘ بڑی عید‘ میلاد‘ محرم‘ بیساکھی‘ بسنت‘ یومِ آزادی‘ نیا سال‘ نئی دہائی‘ ان تمام مواقع پر ہر شخص سے ٹیکس لیا جاتا۔ پھر ہر ولیمے‘ ہر برات‘ ہر جنازے‘ ہر جمعرات‘ ہر دسویں‘ ہر چالیسویں‘ یہاں تک کہ ہر ختمِ قرآن پرکھانے میں حکومت کا حصہ مقرر کیا گیا جسے ٹیکس کی صورت ادا کیا جاتا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ سالگرہ پر ٹیکس لگایا گیا۔ کھانسنے پر‘ چھینکنے پر‘ جماہی لینے پر‘ ڈکارنے پر‘ ہنسنے پر‘ رونے پر‘ مسکرانے پر‘ چیخنے پر اور غصہ کرنے پر ٹیکس لگایا گیا۔ پھر ''جھگڑا ٹیکس‘‘ نافذ کیا گیا۔ شروع شروع میں تو جھگڑا ٹیکس صرف میاں بیوی کے باہمی جھگڑوں پر لگا مگر آخر کار جب بھی جہاں بھی جھگڑا ہو رہا ہوتا‘ ٹیکس والے پہنچ جاتے۔ وہ چھڑانے والوں کو بھگا دیتے کیونکہ جھگڑا جتنا لمبا ہوتا‘ ٹیکس اتنا ہی زیادہ بنتا!
تنگ آکر لوگوں نے دوسرے ملکوں کو ہجرت شروع کر دی۔ کوئی پرتگال تو کوئی امریکہ یا برطانیہ کا رُخ کرنے لگا۔ شہنشاہ نے اس سے بھی فائدہ اٹھانے کا سوچا اور حکم دیا کہ جس گھر کا کوئی فرد ملک سے باہر گیا ہے اُس گھر پر ٹیکس لگے گا۔ دوسری طرف حالت یہ تھی کہ ریاست عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی تھی۔ ملک میں پانی ٹینکروں سے خریدا جاتا تھا۔ گیس نذرانے کی مدد سے لگتی تھی‘ علاج نجی شعبے سے ہوتا تھا۔ سرکاری سکول بیکار تھے۔ ٹریفک بے ہنگم تھی۔ شاہراہوں پر ہر روز مسافر مرتے تھے۔ بازاروں میں گرانی اس قدر تھی کہ سوچ سے بھی ماورا۔ عورتوں کے لباس چیتھڑوں میں بدل چکے تھے۔ مرد لنگوٹیوں میں تھے۔ شاہی اخراجات آسمان کو چھو رہے تھے۔ اب صرف چاندنی اور دھوپ رہ گئی تھیں؛ چنانچہ نیا قانون بنا کہ سورج کی روشنی پر بھی ٹیکس لگے گا اور چاند کی چاندنی پر بھی۔ سرکاری بجلی اتنی مہنگی تھی کہ عوام کے لیے اس کا حصول ناممکن تھا۔ لوگ مجبوراً دھوپ چھتوں پر جمع کر لیتے تھے اور اس سے بجلی پیدا کر لیتے تھے۔ اب جب چھتوں پر اور چھتوں پر جمع کی گئی دھوپ پر ٹیکس لگا دیا گیا تو لوگ اس آخری سہارے سے بھی گئے۔ ایک ہی راستہ بچا تھا۔ درختوں پر ٹیکس تو لگ ہی رہا تھا۔ لوگوں نے درخت کاٹے‘ کشتیاں بنائیں اور جزیرہ چھوڑ کر چلے گئے۔ سنا ہے اب شاہی خاندان اور دیگر حکمرانوں کا بلند معیارِ زندگی بر قرار رکھنے کے لیے دوسرے ملکوں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔ بھیک مانگنے میں بھی شرم نہیں محسوس کی جاتی!
وضاحت۔ اس تحریر کا حاشا و کَلّا اُس خبر سے کوئی تعلق نہیں جس کے مطابق سولر توانائی پر ٹیکس لگانے کا سوچا جا رہا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ سولر سے بنی ہوئی جو بجلی واپڈا کو بیچی جائے گی اس پر بھی ٹیکس لگ سکتا ہے۔ حالانکہ سیلز ٹیکس خریدار دیتا ہے۔

Wednesday, April 24, 2024

حکومتوں اور پولیس کے درمیان غیر اعلانیہ معاہدہ


یہ آج کی بات نہیں‘ سینکڑوں سال سے یہی ہو رہا ہے!
تغلقوں‘ خلجیوں‘ لودھیوں اور مغلوں کے عہد میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ آج کے پاکستان میں‘ آج کے جمہوری‘ یا‘ نام نہاد جمہوری دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مغل بادشاہ جب سفر کرتے تھے تو ہراول دستے کے پہریدار‘ راستے میں آنے والے راہگیروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے تھے۔ اکثر راہگیر اُن کے ڈنڈوں اور تلواروں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اُتر جاتے تھے۔ مگر شاہی جلوس کی رفتار کا اتنا پریشر ہوتا تھا کہ ان کیڑوں مکوڑوں کی موت پر رکتا کوئی نہیں تھا۔ آج بھی جب کوئی حکمران راستے میں ہوتا ہے تو ان کی پروٹوکول کی گاڑیوں کے نیچے آ کر مرجانے والے کیڑوں مکوڑوں کے لیے کوئی نہیں رکتا! 
تیرے امیر مال مست‘ تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی
پنجاب کی وزیر اعلیٰ دن رات محنت کر رہی ہیں۔ کیا عجب مریم سپیڈ‘ شہباز سپیڈ اور محسن سپیڈ‘ دونوں سے بازی لے جائے۔ بہت خوش آئند بات ہے۔مگر ک

یا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعلیٰ یہ حکم دیتیں کہ ان کے پروٹوکول قافلے

( Motorcade)


 کے جس ڈرائیور نے‘ میڈیا اطلاعات کی رُو سے‘ تئیس سالہ ابو بکر کو ہلاک کیا‘ اسے گرفتار کیا جائے۔ کاش وہ ہلاک ہونے والے نوجوان کی ماں اور باپ کے گھر جا کر افسوس کا اظہار کرتیں! شاہی سواریوں کی لپیٹ میں آنے والا کبھی پہلے بچا نہ آئندہ بچے گا! یہ پروٹوکول قافلے حکمرانوں کے خوف کی وجہ سے رکتے بھی نہیں کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ رُک کر زخمی کو ہسپتال پہنچانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا!
میڈیا نے بتایا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر سے کرتارپور گئیں۔ تو پھر ایلیٹ فورس کی پروٹو کول گاڑیاں شاہراہوں پر کیا کر رہی تھیں؟ یہ بھی زندگی گزارنے کا ایک سٹائل ہے‘ ایک انداز ہے‘ ایک ادا ہے‘ ایک شیوہ ہے کہ حکمران فضا میں سفر کرے اور پروٹوکول کے کارواں‘ فضا کے نیچے‘ زمین پر چلیں!!
اطلاعات کے مطابق موت کے گھاٹ اُترنے والا نوجوان ابو بکر ماں باپ کا واحد سہارا تھا۔ بیٹے کی دردناک موت کی خبر سُن کر بوڑھے باپ کی حالت خراب ہو گئی۔اسے طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جانا پڑا۔ایسے تمام واقعات کے بعد ایک خاص ڈرل دہرائی جاتی ہے۔ سب سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ حکمرانِ وقت نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس کے بعد پولیس کا بیان آتا ہے جو عام طور پر عینی گواہوں کے بیانات سے مختلف ہوتا ہے۔ آخری خبر یہ ہوتی ہے کہ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ بس! اس کے بعد اک لمبی چُپ! رہا مجرم تو وہ کبھی نہیں پکڑا جاتا! پکڑا جائے تو سزا نہیں دی جاتی۔ سزا دے بھی دی جائے تو وہ مذاق کی طرح ہوتی ہے!
یوں تو ہمار ی کارکردگی تمام شعبوں میں ناقابلِ رشک ہے مگر جو قتل عام شاہراہوں پر ہورہا ہے اس کے حساب سے ہم اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ ہماری حکومتوں سے آج تک ٹریفک کا نظام درست نہ ہو سکا۔ یوں لگتا ہے ایک خانہ جنگی ہے جو سڑکوں پر جاری ہے۔ اس خانہ جنگی میں ہر مذہب‘ ہر مسلک‘ ہر نسل اور ہر عمر کا پاکستانی حصہ لے سکتا ہے۔ صلائے عام ہے۔ کوئی سا ہتھیار لے کر سڑک پر آجائیے۔ موٹر سائیکل‘ کار‘ ویگن‘ بس‘ ٹرک‘ جو ہتھیار ہاتھ آتا ہے‘ بس لے کر نکل پڑیے۔ کسی کو نیچے دے دیجیے۔ کسی کو ٹکر ماریے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر ہزار ہا انسانوں کو قتل کر چکے ہیں۔ ان کے ڈرائیور جانوروں سے بد تر ہیں۔ ناخواندہ اور مادر پدر آزاد۔ راتوں کو ان خطرناک گاڑیوں کے آگے یا پیچھے بتیاں ہی نہیں ہوتیں! آپ دوسرے شہروں کی تو بات ہی نہ کریں۔ وفاقی دارالحکومت کی کسی بھی بڑی شاہراہ کے کنارے شام ڈھلنے کے بعد کھڑے ہو جائیے۔ ہر پانچ منٹ کے بعد آپ کو ایک گاڑی یا ایک موٹر سائیکل لائٹ کے بغیر ملے گا۔امریکہ میں ایک عزیز نے بتایا کہ اگر آپ سگنل پر رکے ہیں اور آپ کی گاڑی کے اگلے پہیوں کا رُخ بھی دائیں یا بائیں طرف مڑا ہوا ہے تو ٹریفک والے پکڑ لیں گے۔دو بنیادی اصول ہیں۔ چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر آنے والا ہر حال میں رکے گا۔ اور اوور ٹیک بائیں طرف سے نہیں کیا جائے گا۔ یہ دونوں بنیادی اصول یہاں پامال ہوتے ہیں۔ آپ بڑی شاہراہ پر جا رہے ہیں مگر آپ کو ہر دم کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی چھوٹی سڑک سے کوئی سواری بڑی شاہراہ پر‘ ادھر اُدھر دیکھے بغیر‘ چڑھ آئے گی اور آپ کے سامنے آجائے گی! جو قوم ایٹمی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ٹریفک سسٹم اس کا جنگل کی یاد دلاتا ہے‘ اس قوم کی حالت پر‘ اور عقل پر‘ ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!
کتنے ہی لوگ شاہراہوں پر مر چکے‘ کتنے ہی لکھنے والے اس صورتحال پر رو چکے‘ شور مچا چکے‘ دہائی دے چکے‘ الیکٹرانک میڈیا شاہراہوں پر برپا قتلِ عام کی خبریں دے دے کر تھک چکا مگر زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد‘ ہمارے حکمرانوں اور ہماری پولیس کے کان پر جوں نہیں رینگتی! حکمرانوں کو ٹریفک کی لاقانونیت سے کبھی پالا نہیں پڑا۔ انہیں کہیں جانا ہو تو فضا میں اُڑتے پرندوں اور زمین پر رینگتے حشرات الارض کو بھی روک دیا جاتا ہے‘ انسان تو کسی شمار قطار میں نہیں! رہی پولیس‘ تو یہ فقیر اپنی یہ تھیوری پہلے بھی پیش کر چکا ہے کہ حکمرانوں اور پولیس کے درمیان ایک غیر تحریری‘ غیر اعلانیہ‘ معاہدہ کامیابی سے چل رہا ہے۔معاہدہ یہ ہے کہ پولیس حکمرانوں کی باندی بن کر رہے گی۔ ان کے کہنے پر پکڑے گی‘ ان کے کہنے پر چھوڑے گی۔ ان کے اشارۂ ابرو پر ہر غلط کام کرے گی۔ یہی کچھ ہو رہا ہے اور ہر حکمران‘ ہر پارٹی کے دور میں ہورہا ہے۔ اس کے بدلے میں پولیس کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ عیدی اکٹھی کرے‘ تھانوں میں ملزموں کو ہلاک کر دے‘ ماورائے عدالت قتل کر دے‘ لوگوں کے گھروں میں گھس جائے‘ چوروں کی سر پرستی کرے‘ سڑکوں پر راہگیروں کو مار دے‘ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ایک دن کے‘ صرف ایک دن کے اخبارات میں‘ صرف پنڈی اسلام آباد میں ہونے والی ڈکیتیوں اور چوریوں کی خبریں گن لیجیے اور پھر ان شہروں میں متعین پولیس کے افسروں اور جوانوں کی تعداد پر غور کیجیے۔ انہیں ملنے والی تنخواہوں‘ گاڑیوں اور دیگر بیسیوں مراعات کا حساب لگائیے۔آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے!
حکومت کا بنیادی فرض کیا ہے؟ عوام کی جان‘ عزت اور مال کی حفاظت!! کیا ہماری حکومتیں یہ بنیادی فرض ادا کر رہی ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! میرے سمیت ہر شخص نالہ کُناں ہے کہ سیاسی حکومتوں کو کُلی اختیارات نہیں دیے جا رہے۔ کئی پالیسیاں مقتدرہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہے! مگر سوال یہ ہے کہ جو کچھ حکومتوں کے اختیار میں ہے‘ کیا وہ کر رہی ہیں؟ ہم ٹریفک کی بد حالی کا رونا رو رہے ہیں۔ کیا یہ بھی سیاسی حکومتیں نہیں کر سکتیں؟ اس کے لیے تو امریکہ سے پوچھنا ضروری ہے نہ چین اور سعودی حکومت کو اعتماد میں لینا ہے نہ مقتدرہ کی اشیرباد لازم ہے۔ اللہ کے بندو! تم تو یہ بھی نہیں کر سکتے! کیا کسی وزیر اعظم نے یا کسی صوبے کے حاکم نے ٹریفک پولیس کے سربراہ کو بلا کر وارننگ دی ہے کہ اس ہفتے ٹریفک کے اتنے حادثے ہوئے ہیں‘ مجھے اگلے ہفتے کی رپورٹ چاہیے! مگر عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت ترجیحات میں شامل ہی نہیں! ترجیحات کیا ہیں؟ تام جھام! تزک و احتشام! شان و شوکت! پاؤں دھرنے کے لیے سرخ قالین! جاہ و جلال! پروٹوکول کے لمبے چوڑے تیز رفتار قافلے! موٹر کیڈز ! جنہیں دیکھ کر عوام سہم جائیں! رعب میں آجائیں! یہی ہوتا رہا ہے۔ یہی ہو رہا ہے! یہی ہوتا رہے گا!

Thursday, April 18, 2024

کیا جناب چیف جسٹس ملک کی اس بدنامی کا نوٹس لیں گے؟؟

وفاقی دارالحکومت کے وسطی بازار میں ایک دکان ہے جہاں خالص چمڑے کی مصنوعات دستیاب ہیں۔ یہ لوگ اِس گئے گزرے زمانے میں بھی زینیں بناتے ہیں۔ بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے کبھی کبھی وہاں جانا ہوتا ہے اور ان لوگوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے شہروں میں زین ساز‘ شمشیر ساز‘ ظروف ساز اور کئی طرح کے اہلِ حرفہ ہوتے تھے۔ 

مرے بلخ‘ میرے ہرات شاد رہیں سدا
مرے کوزہ گر‘ مرے زین ساز سدا رہیں 
بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے زمانوں میں جو بھی دارالحکومت ہوتا تھا اس میں 32 ذاتیں‘ یعنی 32 پیشے ہوتے تھے تاکہ بادشاہ‘ اس کے عمائدین اور اس کی فوج کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔ جولاہے‘ درزی‘ کفش ساز‘ رنگ ساز‘ کوزہ گر‘ قالین باف‘ مٹھائیاں بنانے والے‘ اسپ فروش‘ نعل لگانے والے‘ سبزی اگانے والے‘ جلدساز اور کئی دیگر کاریگر ہوتے تھے۔ ہر پیشے کا اپنا الگ محلہ ہوتا تھا۔ شاہ اور شاہی محل کے مکینوں کی خدمت ان پیشوں کا اولین مقصد تھا۔ جیسے ترکی میں آج جو کرسٹل (بلور) عام بکتا ہے‘ کسی زمانے میں اس کرسٹل کے کارخانے صرف عثمانی سلاطین کے لیے کام کرتے تھے۔
کل بھی میں اس چرم ساز کے پاس بیٹھا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ ہمارے خاندان کی زینیں‘ جو پشت در پشت چلی آرہی تھیں‘ کس حال میں ہیں اور یہ کہ ہندوستانی زینوں اور انگریزی زینوں میں کیا فرق تھا۔ ایک سفید فام آدمی دکان میں داخل ہوا۔ جس طرح چرم ساز نے اس کی آؤ بھگت کی اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس کا پرانا گاہک ہے۔ وہ ایک خاص قسم کے چمڑے کے جوتے بنوانا چاہتا تھا جو اس کی پنڈلیوں کے نصف تک ہوں۔ ان سفید فاموں کے بھی کیا کیا شوق ہیں! ہم پاکستانی اور بھارتی زندگی بھر کی جو پونجی اولاد کے لیے چھوڑ جاتے ہیں‘ یہ سفید فام اس پونجی کو اپنی زندگی میں بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ چرم ساز نے اس سے میرا تعارف کرایا اور یہ بات خاص طور پر بتائی کہ اس کے پاس سو سال سے بھی زیادہ پرانی اس کی خاندانی زینیں ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سفید فام آدمی کی آنکھوں میں مسرت اور تجسس کی چمک آئی۔ اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ اسے پرانی زینوں میں بہت دلچسپی تھی۔ اس نے چترال کے بازار سے ایک بہت پرانی اور نادر زین خریدی تھی۔ اس نے چرم ساز سے کوئی بات کی مگر اس قدر آہستہ کہ میں سن نہ سکا۔ چرم ساز میری طرف متوجہ ہوا۔ کہنے لگا ''وِلیم آپ کے گھر جا کر زینیں دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ بصد شوق مگر ایک بات اسے بتا دو کہ یہ زینیں بیچی نہیں جا سکتیں۔ یہ پیشگی احتیاط میں نے اس لیے کی کہ پہلے ایک ناخوشگوار تجربہ ہو چکا ہے۔ ایک صاحب نے اصرار کے ساتھ (ایک دوست کی سفارش تھی) میری لائبریری دیکھی جس میں آبائی مجموعے کا بھی ایک حصہ پڑا ہے۔ شاہجہان کے زمانے کا ایک قلمی نسخہ دیکھا تو اس پر لٹو ہو گئے اور خریدنے پر اصرار کرنے لگے۔ پوچھا اس میں آپ کی دلچسپی کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے کہ یورپ کی کسی لائبریری کو بیچ دوں گا کہ وہاں ایسے نوادرات کے منہ مانگے دام ملتے ہیں۔ بہت مشکل سے جان چھڑائی۔
ولیم کو میں گھر لے آیا۔ زینوں کو اس نے دلچسپی کے ساتھ دیکھا۔ کئی سوال پوچھے۔ معلوم ہوا چرم اور چرم کی مصنوعات کے حوالے سے اس کی معلومات بہت تھیں۔ کیا پتا یہی اس کا کاروبار ہو۔ یہ لوگ ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں نہ پوچھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے چائے پی۔ باتوں باتوں میں اس نے ایک عجیب بات کہی۔ کہنے لگا :یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ تم لوگ خود بھی دنیا کو بتاؤ کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے؟؟ اس اچانک سوال پر ایک لمحے کے لیے میں گڑبڑایا مگر فوراً سنبھل گیا۔ میں نے کہا: پاکستان دہشت گردی کا گڑھ نہیں‘ دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس پر ولیم ہنسا۔ کہنے لگا: ایک ہی بات ہے۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ ملک محفوظ نہیں!! اور تم ساری دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہو کہ پاکستان ایک خطرناک جگہ ہے! غیر محفوظ ہے! یہاں مت آؤ! یہاں سرمایہ کاری نہ کرو! یہاں سیاحت کے لیے نہ آؤ۔ میں نے پوچھا کہ یہ بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ ولیم پھر ہنسا۔ کہنے لگا کہ میں عینی شاہد ہوں۔ تمہیں معلوم ہے اسلام آباد میں صرف دو فائیو سٹار ہوٹل ہیں۔ ایک تو شہر کے شمال میں ہے۔ مگر دوسرا ہوٹل شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ شہر کی تمام مصروف اور بڑی شاہراہیں اس دوسرے ہوٹل کے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ایک طرف ڈپلومیٹک انکلیو ہے۔ دوسری طرف مری اور بارہ کہو جانے والی بڑی شاہراہ ہے‘ تیسری طرف شہر کا سب سے بڑا بازار ہے۔ چوتھی طرف شاہراہِ دستور ہے جس پر سپریم کورٹ واقع ہے‘ قومی اسمبلی ہے اور صدر اور وزیراعظم کے دفاتر اور قیام گاہیں ہیں! اس شاہراہِ دستور کو جانے والا راستہ اسی ہوٹل کے سامنے سے گزرتا ہے۔ تم لوگوں نے اس ہوٹل میں کرکٹ ٹیموں کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ اور ان ٹیموں کی حفاظت کے نام پر یہ تمام بڑی بڑی شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں! میں اور میری بیوی بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہوٹل سے نکل کر کہیں جانا اور واپس ہوٹل میں آنا ایک عذاب سے کم نہیں! آج صبح ناشتے پر ہم غیرملکی ہنس رہے تھے کہ پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ پہلے شاہراہِ عام (Thoroughfare) پر کرکٹ ٹیم کو ٹھہرایا۔ پھر شاہراہِ عام بند کر دی! ہے نہ حماقت کی انتہا!!
ولیم چائے پی کر ہماری قومی بے وقوفی پر ہنس کر چلا گیا۔ مگر میں اُس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ یہ حماقت ہے یا سازش؟؟ جس نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کو شہر کے وسط میں ٹھہراؤ اور پھر ان کی حفاظت کے نام پر تمام بڑی شاہراہوں کو بند کردو‘ اس نے وزیراعظم سے بھی دشمنی کی ہے‘ حکومت سے بھی اور عوام سے بھی!! لوگ تو عذاب میں ہیں ہی‘ دنیا بھر کو یہ پیغام بھی جا رہا ہے کہ پاکستان خطرناک ملک ہے۔ پاکستان غیرمحفوظ ہے۔ یہاں کرکٹ ٹیموں کی حفاظت کے لیے بھی شہر کو بند کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟
کوئی ہے جو اس حماقت کا نوٹس لے؟ کوئی ہے جو اس سازش کا سد باب کرے؟ کیا وزیراعظم کو معلوم ہے کہ ان کے دفتر سے ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر غدر مچا ہوا ہے؟ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر راستے بند کرنے والوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں! شہر کے اس سب سے بڑے ہوٹل میں ٹھہرنے والے تمام غیرملکی پریشان بھی ہیں اور پاکستانیوں کی عقل پر ماتم کناں بھی!! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو گھُن کی طرح کھانے والے حکومت کے اندر ہی موجود ہیں۔ اندر سے حکومت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ سازش صرف حکومت کے خلاف نہیں‘ ملک کے بھی خلاف ہے! یہ بدنامی ریاست کی بدنامی ہے! ارے کم عقلو! بجائے اس کے کہ کرکٹ ٹیموں کو ایسی جگہ ٹھہراؤ جہاں ہر کسی کی نظر ہی نہ پڑے‘ انہیں شہر کے وسط میں‘ شاہراہِ عام کے کنارے ٹھہرا دیا ہے اور پھر تمام راستے بند کرکے اعلان عام کر رہے ہو کہ ٹیمیں یہاں ٹھہری ہوئی ہیں!! تم تو اُس گاؤدی کی طرح ہو جو بینک سے رقم نکلوا کر بیگ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے‘ سینے سے لگائے‘ کبھی دائیں طرف دیکھتا ہے کبھی بائیں طرف! بچہ بھی جان سکتا ہے کہ اس کے پاس رقم ہے! اور بیگ چھینا جا سکتا ہے!!
کیا عالی قدر چیف جسٹس ریاست کو بدنام کرنے کی اس سازش کا نوٹس لیں گے؟؟

Tuesday, April 16, 2024

وزیراعظم کے اصل مخالف


ہمارے جیسے ملکوں میں سب سے زیادہ بے خبر شخص کون ہوتا ہے؟ حکومت کا سربراہ!
روایت ہے کہ صدر ایوب کے ملاحظہ کے لیے ایک خصوصی اخبار چھاپا جاتا تھا جس کے واحد قاری وہ خود ہوتے تھے۔ اس میں ''سب اچھا ہے‘‘ کی تفصیل دلکش انداز میں بیان کی جاتی تھی۔ خصوصی اخبار یہ بھی بتاتا تھا کہ ایوب خان ملک کے محبوب ترین لیڈر ہیں اور ہر مرد و زَن معترف ہے کہ پاکستان کو انہوں نے پاتال سے اٹھا کر بامِ ثریا تک پہنچا دیا! سنا ہے کہ اقتدار کے آخری ایام میں کار کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر اُس وقت بھی لہراتے رہتے جب باہر کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ روایت بھی سنی ہے کہ جب یحییٰ خان کو معلوم ہوا کہ لوگ اسے برُا بھلا کہتے ہیں‘ یہاں تک کہ دشنام دہی سے بھی باز نہیں آ رہے تو اس نے حیران ہو کر پوچھا ''کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
صدیوں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ حکمران ''اپنوں‘‘ کا جو حصار اپنے اردگرد باندھتا ہے‘ اسی حصار سے حکمران کے خلاف سازشوں کا جال پھیلتا ہے۔ اس حصار کے اکثر اراکین ان سازشوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اگر نہیں آگاہ ہوتا تو تخت پر بیٹھا حکمران! جنرل ایوب خان نے جب‘ الطاف گوہر اینڈ کمپنی کی ''مہربانی‘‘ سے عشرۂ ترقی کا شور مچایا تھا تو لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات تھی۔ مشرقی پاکستان کے دریاؤں میں چلنے والی غریب مانجھیوں کی کشتیوں پر ''عشرۂ ترقی‘‘ کے بینر لگا دیے گئے تھے جو ہوا میں پھڑپھڑاتے تھے۔ اس کے جلد ہی بعد جنرل ایوب کی حکومت بھی پھڑپھڑانے لگ گئی۔ تازہ مثال دیکھیے۔ آٹے کے تھیلے پر بڑے میاں صاحب کی تصویر!! سبحان اللہ! یقینا میاں صاحب نے ایسا کرنے کو نہیں کہا ہو گا! یہ نادان دوستوں کا کارنامہ ہے۔ وہ بھی تو دوست تھا جس نے سوئے ہوئے دوست کے چہرے پر سے مکھی ہٹانے کے لیے چہرے پر پتھر مارا تھا! ارے بھئی! تصویر تو تب لگائیں جب تصویر والے نے آٹے کے یہ تھیلے اپنی جیب سے دیے ہوں۔ اگر یہ حکومتِ پنجاب کی جیب سے دیے جا رہے ہیں تو اس پر حکومت پنجاب کی مہر لگائیے۔ کسی شخصیت کا اس سے کیا لینا دینا! اب یہ کون سمجھائے کہ تصویر دیکھ کر نفرت بڑھتی ہے۔ اب مفلس اور قلاش بھی جانتا ہے کہ امیر کیوں امیر ہے اور غریب کیوں غریب ہے!!
اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف ان کے ''اپنے‘‘ جو زہر پھیلا رہے ہیں‘ ان سے پورا ملک واقف ہے سوائے خود وزیراعظم کے۔ لوگ ہنس رہے ہیں۔ لوگ قہقہے لگا رہے ہیں۔ لوگ ٹھٹھا اڑا رہے ہیں۔ لوگ تضحیک کر رہے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر شیئر کر کرکے مزے لے رہے ہیں۔ پہلا کارنامہ وزیراعظم کے ساتھیوں کا جس سے ان کی حکومت نَکّو بنی ایچی سن والا سانحہ تھا۔ یہ اتنا واضح کیس تھا کہ پورے ملک میں جگ ہنسائی ہوئی۔ اس پر وی لاگ ہوئے۔ تبصرے ہوئے۔ ٹی وی پروگرام ہوئے۔ مضامین لکھے گئے۔ سب کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کون زیادتی کر رہا ہے سوائے جنابِ وزیراعظم کے۔ گورنر صاحب سے لے کر پنجاب حکومت کے ایک وزیر تک سب نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق وفاقی حکومت کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر کی۔ بات صرف اتنی تھی کہ وزیراعظم اپنے وفاقی وزیر کو بلاتے اور کہتے کہ بھئی! تمہارے تو اعلان کیے گئے اثاثے ماشاء اللہ اتنے ہیں۔ تم نے یہ کیا تنازع کھڑا کیا ہے۔ ختم کرو یہ مذاق!! آپ اندازہ لگائیے کوتاہ نظری کا کہ ایچی سن کالج کا پرنسپل پاکستان چھوڑ کر چلا گیا اور ایک صوبائی وزیر صاحب اس کے جانے کے بعد اس پر اور اس کی بیوی پر الزامات لگا رہے ہیں۔
دوسرا سانحہ جس نے وفاقی اور پنجاب‘ دونوں حکومتوں کو ایکسپوز کر دیا بہاول نگر کا واقعہ ہے۔ فوج نے تو آئی ایس پی آر کے ذریعے اپنا مؤقف بیان کر دیا۔ حکومت کا مؤقف کہاں ہے؟ وزیراعظم‘ وفاقی وزیر اطلاعات‘ وزیراعلیٰ‘ صوبائی وزیر اطلاعات‘ وزیر داخلہ‘ سب مُہر بلب ہیں! پنجاب پولیس کے سربراہ نے جو وڈیو بیان دیا وہ ایک کمزور اور لِسّا بیان تھا۔ مُذَبذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ۔ پورے اس طرف نہ پورے اُس طرف!! دونوں ادارے اپنے ہیں۔ دونوں ادارے قومی ہیں۔ دونوں کی قوم کے لیے قربانیاں ہیں۔ دونوں نے شہیدوں کا خون قوم کی نذر کیا ہے۔ دونوں ملکی جسد کے اعضائے رئیسہ میں سے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے بیان آنا ضروری تھا۔ خم ٹھونک کر سامنے آنا لازم نہ تھا۔ آپ مملکت کے بڑے ہیں۔ آپ کی طرف سے ایسا بیان‘ ایسا مؤقف آنا چاہیے تھا جو دونوں فریقوں کو مطمئن کر دیتا۔ آپ خود نہ بھی کچھ کہتے تو آپ کے وزیر اطلاعات یا وزیر داخلہ آپ کی حکومت کا مؤقف بیان کر دیتے۔ ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جب حکمران کی دانائی‘ حکمت‘ دور اندیشی‘ فراست‘ ژرف نگاہی اور سوجھ بوجھ ظاہر ہوتی ہے اور عوام قائل ہو جاتے ہیں کہ صورتحال ہمارے حکمران کے کنٹرول میں ہے۔ پہلے زمانے کے حکمران کاروبارِ مملکت سیکھنے کے لیے اپنے اردگرد دانا افراد اکٹھے کرتے تھے۔ راتوں کو گلستانِ سعدی‘ سیاست نامہ طوسی اور قابوس نامہ جیسے شاہکار سنا کرتے تھے۔ یہ جو ناخواندہ اکبر‘ دنیا بھر میں اکبر اعظم بن کر چمکا‘ کسی جادو یا ٹونے کے سبب نہیں چمکا۔ سبب یہ تھا کہ اس نے اپنے اردگرد مملکت کے دانا ترین افراد جمع کیے تھے۔ اس کی کامیابی اُن پالیسیوں کی وجہ سے تھی جن کا تصور راجہ ٹوڈر مل‘ راجہ مان سنگھ‘ بیرم خان‘ عبد الرحیم خانخاناں‘ ابو الفضل‘ فیضی اور مرزا عزیز کوکلتاش اکبر کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ یہ عقل مند لوگ تھے۔ سمدھی اور بھتیجے نہیں تھے۔
وزیراعظم کو تیسرا بڑا نقصان اُن افلاطونوں اور ارسطوؤں نے پہنچایا ہے جنہوں نے جہاز کو پہلے جدہ کے بجائے مدینہ منورہ اُترنے پر مجبور کیا اور پھر اسلام آباد جانے کے بجائے اسے لاہور لے گئے۔ ان بزرجمہروں نے مسافروں کو پہلے جدہ میں دو گھنٹے انتظار کرنے پر مجبور کیا اور پھر یہی اذیت لاہور ہوائی اڈے پر دی! کون تھا یہ ذات شریف جسے یہ نادر خیال آیا؟ بدنام تو وزیراعظم ہوئے اور وزیراعلیٰ!! کھایا پیا سب نے اور گلاس توڑنے کے بارہ آنے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے سر پڑے!! 
مصائب دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اُن حالات کے سبب آتے ہیں جو اپنے اختیار میں نہیں ہوتے۔ دوسرے وہ جو اپنے ہاتھوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اپنی حماقتوں‘ کوتاہ اندیشی اور کور چشمی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ یہ کیسے لوگ اکٹھے کیے ہیں جناب وزیراعظم نے اپنے اردگرد؟ ان میں کتنے پی ایچ ڈی ہیں؟ ان میں سے کتنے ہیں جو کسی نہ کسی کارنامے کے لیے مشہور ہیں؟ معاف کیجیے گا۔ یہ اوسط سے کم درجے کے لوگ ہیں۔ اس کالم نگار کی سعد رفیق سے ملاقات ہے نہ تعارف نہ کوئی غرض! مگر جب انہوں نے ریلوے کا چارج لیا تھا تو ریلوے کے منہ کے راستے پانی پیٹ میں پہنچ چکا تھا اور ریلوے ڈوب رہی تھی۔ سعد رفیق نے دن رات محنت کی اور اسے نئی زندگی بخشی۔ یہ مجھے ذاتی طور پر اس لیے معلوم ہے کہ اس وقت میرے کچھ برخوردار ریلوے کی ٹاپ بیورو کریسی میں تھے اور رات گئے بھی وہ سعد رفیق کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھے ہوتے تھے۔ جبھی پی آئی اے کے چند درد مندوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہوا بازی کی وزارت بھی سعد رفیق کو دی جائے۔ 
آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور حکمران اپنے وزیروں اور مشیروں سے!!

Monday, April 15, 2024

نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں!

بنانا ری پبلک؟؟ 

نہیں! بنانا ری پبلک میں تو ری پبلک کا لفظ آتا ہے! یہ صرف بنانا ہے! آکسفورڈ لغت کی رُو سے ری پبلک وہ ریاست ہوتی ہے جس میں اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے یا اُن کے منتخب نمائندوں کے پاس!! جس ریاست میں ہم رہ رہے ہیں وہاں عوام کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو حکمرانوں نے مدینہ‘ جدہ اور پھر لاہور میں کیا!! رہے منتخب نمائندے تو ان کی طاقت کا مرکز پارلیمنٹ ہے!! ایک ری پبلک میں پارلیمنٹ حکومت کو گرا سکتی ہے اور بنا سکتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہو!
یہ ری پبلک نہیں! خدا کی قسم ! یہ ری پبلک نہیں! یہ ری پبلک ہوتی تو جہاز کا پائلٹ اور نام نہاد قومی ایئر لائن کا سربراہ دونوں برطرف ہو چکے ہوتے! جس جہاز نے جدہ اترنا تھا اسے‘ مبیّنہ طور پر‘ مدینہ منورہ اُتارا گیا۔ خبر کی رُو سے‘ مدینہ جہاز اتارنے والے حکمرانوں نے مسجد نبوی میں نوافل ادا کیے۔ واپسی پر جدہ ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار مسافروں کو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیونکہ ''سرکاری‘‘ وفد نے سوار ہونا تھا اور انہیں اس بات کی مطلق فکر تھی نہ پروا کہ سینکڑوں مسافر جہاز میں دو گھنٹے سے بیٹھے ہیں۔ سرکاری پوزیشن کے ذریعے عوام کو اذیت دینے کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ جہاز نے اسلام آباد جانا تھا۔ مگر اسے لاہور لے جایا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ سرکاری وفد نے لاہور جانا تھا اور سرکاری وفد کو اس بات کی فکر تھی نہ پروا‘ نہ احساس کہ سینکڑوں لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ اس وفد میں وزیراعظم تھے اور پنجاب کی چیف منسٹر!! دیگر متعلقین‘ وزرا اور عمائدین بھی شامل تھے۔ اذیت کا سلسلہ یہاں بھی ختم نہ ہوا۔ اس وفد کے‘ جو قانون سے بالا تھا‘ اُتر جانے کے بعد بھی جہاز کئی گھنٹے رکا رہا۔ سنا ہے مسافروں نے احتجاج کیا۔ وڈیو کلپ اس احتجاج کے وائرل ہوئے۔
کیا یہ معمولی واقعہ ہے؟ ہاں! پاکستان جیسے ملک میں یہ واقعہ معمولی ہے۔ اخبارات نے آخری صفحے پر یک کالمی خبر دی۔ ایسا واقعہ اگر امریکہ‘ برطانیہ یا کسی مہذب ملک میں رونما ہوا ہوتا تو طوفان آ جاتا۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر جلی سرخی ہوتی۔ جس شخص نے جہاز کا رُخ موڑنے کا حکم دیا ہوتا اس کا نام میڈیا میں آتا۔ اُسے سزا دی جاتی۔ مگر ان ملکوں میں ایسی دھاندلی‘ ایسی لاقانونیت‘ ایسی سنگدلی‘ ایسی رعونت‘ ایسے تکبر اور ایسی آمریت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا!
ترقی انفراسٹرکچر کا یا جہازوں کا یا کارخانوں کا یا موٹرویز کا نام نہیں! ایسا ہوتا تو مشرق وسطیٰ کے ممالک آج ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتے۔ انہیں ''فرسٹ ورلڈ‘‘ میں شامل کیا جاتا۔ ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں چند مراعات یافتہ افراد کی خاطر جہازوں کا رُخ نہیں موڑا جاتا۔ جہاں تین چار سو افراد کو زبردستی جہاز کے اندر حبسِ بے جا میں نہیں رکھا جاتا۔ جہاں ایسا واقعہ رونما ہو بھی جائے تو عوام سے معافی مانگی جاتی ہے! رومی نے کہا تھا کہ سنائی کی رحلت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ وہ تنکا نہیں تھا کہ ہوا اسے اُڑا لے جاتی نہ پانی تھا کہ سردی میں جم جاتا۔ وہ کنگھی نہیں تھا کہ بالوں میں کرنے سے ٹوٹ جاتی نہ ہی وہ دانہ تھا جو زمین میں چلا جاتا!
یہ جہاز والا واقعہ بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ تین چار سو مسافر انسان تھے۔ آزاد انسان! انہوں نے کرایہ ادا کیا تھا۔ ان کا ایئر لائن سے معاہدہ تھا کہ وہ جدہ اتارے گی اور جدہ سے فلاں وقت روانہ ہو کر سیدھی اسلام آباد آئے گی۔ یہ تین چار سو آزاد شہری آپ کے غلام تھے نہ ماتحت! آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ آپ ان سے اجازت لیے بغیر‘ انہیں باخبر رکھے بغیر ‘ پہلے جدہ میں دو گھنٹے جہاز میں بیٹھ کر انتظار کرنے پر مجبور کرتے اور پھر طاقت کے زور پر ان کی پرواز کو اسلام آباد کے بجائے لاہور لے جاتے اور وہاں پھر گھنٹوں انتظار کراتے۔ ان میں خیبر پختونخوا‘ کشمیر اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لوگ تھے۔ کسی کو اسلام آباد اُتر کر چترال جانا تھا کسی کو بنوں‘ کسی کو وزیرستان‘ کسی کو راولا کوٹ اور کسی کو مظفر آباد۔ آپ نے اُن کے ساتھ زیادتی کی۔ آپ نے انہیں اذیت میں مبتلا کیا۔ ان میں بچے تھے‘ بوڑھے بھی اور عورتیں بھی! انہیں عید کے موقع پر اپنے اپنے گھروں میں پہنچنا تھا۔ اس سب کچھ کے علاوہ‘ سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ کہ آپ نے انہیں احساس دلایا کہ وہ محکوم ہیں! وہ بے بس ہیں! آپ نے اُن کی عزتِ نفس کو مجروح کیا۔ آپ نے ثابت کیا کہ آپ قانون کو‘ ضابطے کو‘ طے شدہ پروگرام کو‘ اقتدار کے پاؤں کے نیچے روند سکتے ہیں! آپ کو دوسروں کے حقوق کا احساس ہے نہ جذبات کا۔ آپ کو یہ پروا بھی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے‘ عوام کا ردعمل کیا ہو گا۔ یہ بے حسی ہے۔ بے رحمی ہے۔ کٹھور پن ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر قانونی ہے۔ قومی ایئر لائن قوم کی ملکیت ہے۔ یہ کسی کی جاگیر نہیں۔ کسی چچا بھتیجی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسے ذاتی جہاز کی طرح جہاں چاہیں لے جائیں اور جب چاہیں جہاز کا رُخ تبدیل کر دیں!
یہ چوبیس مئی 2023ء کی بات ہے۔ امریکن ایئر لائنز کی پرواز ایریزونا سے میکسیکو جا رہی تھی۔ پرواز دیر سے روانہ ہوئی تھی۔ دورانِ پرواز پائلٹ اپنے کیبن سے باہر نکلا۔ مسافروں کے درمیان کھڑے ہو کر اس نے تاخیر پر معافی مانگی اور مسافروں کو خوش کرنے کے لیے مفت مشروب پیش کیا گیا۔ اور جاپان میں کیا ہوا؟ یہ 2017ء کا واقعہ ہے۔ ٹرین مقررہ وقت سے بیس سیکنڈ پہلے چلا دی گئی۔ ریل کمپنی نے مسافروں سے معافی مانگی! جاپان ہی میں اگر ریل چلنے یا پہنچنے میں تاخیر واقع ہو تو ہر مسافر کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اس پر لکھا ہوتا ہے کہ تاخیر کی ذمہ داری ریلوے پر ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ مسافر اپنے باس کو‘ یا ممتحن کو یا ایڈمنسٹریٹر کو دیتا ہے۔ کیا ہماری ایئر لائن کا پائلٹ یا سربراہ مسافروں سے معافی مانگے گا؟ نہیں! کبھی نہیں! کیا ایئر لائن کے سربراہ نے پائلٹ سے جواب طلبی کی؟ کیا اسے قانون شکنی اور مسافروں کو اذیت دینے کے جرم میں سزا دی گئی؟ آپ کبھی شمالی علاقوں کے لوگوں سے پوچھیے کہ ان کے ساتھ کیا کیا ستم ہوتے ہیں۔ کئی کئی دن پروازیں نہیں جاتیں۔ جہازوں کو دوسری منزلوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے اور بہانہ موسم کی خرابی کا بنایا جاتا ہے۔ ہماری قومی ایئر لائن کی کارکردگی بدترین ہے۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یا دوسرے نمبر پر ہے۔ ہر سال عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپے خسارے میں جانے والی اس ایئر لائن کے دہانے میں ڈالے جاتے ہیں۔ بے شمار پاکستانی اس کے جہازوں میں سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مسافروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اس واقعے پر غم اور غصے کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اُن کے حکم سے نہیں ہوا! نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں!! سوال یہ ہے کہ کسی نے تو یہ فیصلہ کیا ہو گا! کسی نے تو پائلٹ کو اس غیر قانونی کام کا حکم دیا ہو گا! اس کا نام کیوں نہیں بتایا جا رہا؟ اس کے خلاف ایکشن کیا لیا جا رہا ہے؟ وزیراعظم کو حبیب جالب کے باغیانہ اشعار پسند ہیں۔ وہ ترنم سے یہ اشعار سناتے ہیں۔ مگر کیا انہوں نے اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا یا سنا ہے؟
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

Tuesday, April 09, 2024

پُر اسرار خطوط کون بھیج رہا تھا؟


لے دے کر ایک‘ دور دراز رشتے کی چاچی رہ گئی ہے جو اصلی مکھڈی حلوہ پکاتی ہے۔ دور دراز رشتے کی یوں کہ وہ میرے والد صاحب مرحوم کے تھرڈ کزن کی بیگم ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ تھرڈ کزن کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم اردو الفاظ کے انگریزی متبادل ڈھونڈتے تھے۔ اب یہ وقت ہے کہ انگریزی لفظوں کی اردو پوچھتے ہیں۔ اصلی اور خالص مکھڈی حلوہ پکانا ذرا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے رات کو گندم کا آٹا بھگو کر رکھنا ہوتا ہے۔ پھر صبح صبح اس کا عرق نکالنا ہوتا ہے جسے ''دودھی‘‘ کہتے ہیں یعنی نشاستہ! اس حلوے کا آبائی وطن ضلع اٹک اور ضلع میانوالی کے علاقے ہیں۔ آج کی نسل گندم کے آٹے کا عرق نہیں نکالتی۔ اب ہر شے ''میڈ ایزی‘‘ ہے۔ سوجی کو پانی میں گھولیے۔ لیجیے نشاستہ یا نام نہاد نشاستہ تیار ہے۔ مگر ہماری رشتے کی چاچی ضعیف اور نحیف ہونے کے باوجود آٹے کا عرق نکالتی ہے۔ اسی لیے ہم کبھی کبھار گاؤں جا کر اس سے اصلی اور خالص مکھڈی حلوے کی فرمائش کرتے ہیں!
کچھ عرصہ پہلے اس چاچی کے بیٹے نے ایک عجیب حرکت کی! میرے ایک کھیت پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اس میں مونگ پھلی بو دی اور گاؤں میں مشہور کر دیا کہ زمین کا یہ ٹکڑا اصل میں اس کی ملکیت ہے اور یہ کہ غلطی سے میرے حصے میں سمجھا جا رہا تھا۔ گاؤں والوں نے مجھے اطلاع کی کہ فوراً پہنچو اور آ کر معاملے کو سنبھالو! مجھے معلوم تھا کہ میں گاؤں گیا تو فساد ہو گا۔ چاچی کے بیٹے نے بات سننی ہے نہ ماننی ہے۔ عزیز‘ رشتہ دار اور گاؤں کے دوسرے لوگ دو دھڑوں میں بٹ جائیں گے۔ بستی کی اجتماعی زندگی پر منفی اثر پڑے گا۔ یہ بات مجھے پسند نہ تھی۔ میں نے جدید اسلوبِ جنگ پر عمل کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اسے پروپیگنڈے کی مار دوں گا۔ چنانچہ تمام رشتہ داروں کو اطلاع دی کہ چاچے کے بیٹے نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے۔ کئی گاؤں‘ کئی قصبوں اور کئی شہروں پر پھیلا ہوا ہے۔ چاچے‘ مامے‘ تائے‘ پھپھیاں‘ ماسیاں‘ بہنیں‘ بھائی‘ پھر ان کے بچے‘ پھر آگے ان کے بچے‘ غرض ایک لمبا سلسلہ ہے۔ بس ایک پورا قبیلہ ہی سمجھیے۔ جب سب کو معلوم ہوا کہ فلاں نے میرا کھیت ہڑپ کر لیا ہے تو جیسے بھونچال آ گیا۔ پورے قبیلے میں ہر وقت یہی بات ہونے لگی۔ اظہارِ ہمدردی کے لیے آنے والے اعزّہ کا تانتا بندھ گیا۔ چاچے کے بیٹے کو جو بھی ملتا‘ لعن طعن کرتا۔ وہ سودا سلف لینے قریب کے قصبے میں جاتا تو رشتہ دار وہاں بھی اس سے یہی پوچھتے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے۔ کچھ لوگ تو اس کے پاس جا جا کر اسے سمجھانے لگے۔ اب وہ گھر سے کم ہی نکلتا۔ یہ بھی سنا کہ چڑچڑا رہنے لگا تھا۔
میں خوش تھا کہ جدید‘ نفسیاتی اسلحہ استعمال کر کے مخالف کو زچ کر دیا ہے۔ امید قوی تھی کہ طعنے اور نصیحتیں سُن سُن کر وہ خود ہی کھیت پر سے قبضہ ختم کر دے گا۔ انہی فاتحانہ خیالات میں ڈوبا ہوا ایک دن گھر بیٹھا تھا کہ ملازم نے ایک لفافہ لا کر دیا۔ یہ ایک عام سا لفافہ تھا جو کسی بھی ڈاکخانے سے مل جاتا ہے۔ ملازم سے پوچھا کون دینے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ڈاکیا تھا۔ لفافہ کھولا تو اندر سے صرف سادہ کاغذ نکلا جس کے دونوں طرف عجیب سا مواد لگا ہوا تھا۔ سونگھا تو عجیب سی بو آ رہی تھی۔ تھوڑا سا ٹچ‘ بہت تھوڑا سا‘ اس بُو میں جانا پہچانا تھا مگر بہت کم۔ بیگم اور بچوں کو یہ کاغذ دکھایا تو وہ بھی حیران سے ہو گئے۔ سچی بات یہ تھی کہ ہم سب گھر والے ڈر سے گئے تھے۔ ایک عجیب سا خوف تھا جو گھر کے در و دیوار سے جیسے چمٹ گیا تھا۔ بچے تو پھر بھی اپنی دلچسپیوں میں لگ کر خط کو بھول گئے مگر میری اور اہلیہ کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ ابھی ہم اس خط کو ہضم کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ اسی رنگ کا ایک اور لفافہ ملا۔ لرزتے ہاتھوں سے اسے کھولا تو ویسا ہی کاغذ اور اس کے دونوں طرف ویسا ہی مواد جو خشک ہو چکا تھا۔ اب دہشت کے سائے مزید دراز ہو گئے۔ یوں لگتا تھا کوئی دشمن ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اسی دن میری بہن کا فون آ گیا۔ اہلیہ نے ان سے صورتِ حال کا ذکر کیا۔ بس پھر کیا تھا‘ آن کی آن میں یہ خبر تمام اعزہ و اقارب میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ساری بستیوں اور سارے قصبوں اور سارے شہروں میں جتنے بھی رشتہ دار تھے‘ فون کر کے‘ اور بعض خود آکر‘ خیریت پوچھنے لگے اور تشویش کا اظہار کرنے لگے۔ اب پورے قبیلے میں ہر کوئی ان خطوں ہی کی بات کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی موضوع ہی نہ رہا تھا۔
ایک دن ایک دور کے عزیز اسی سلسلے میں ہمدردی کے لیے تشریف لائے۔ کہنے لگے: ان کا فرزند ایک بہت اچھی لیبارٹری میں ملازم ہے۔ کیوں نہ ان کاغذوں پر لگے مواد کو چیک کرایا جائے کہ آخر یہ کیا چیز ہے۔ بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے بھی یہی رائے دی۔ دونوں کاغذ انہیں دے دیے۔ اب ذہنی تناؤمیں اضافہ ہو گیا۔ یہ فکر بھی لاحق ہو گئی کہ لیبارٹری والے کیا بتاتے ہیں۔کئی دن اسی سسپنس میں گزرے۔ بالآخر اُن صاحب کا فون آ گیا۔ کہنے لگے کہ لیبارٹری والوں نے عجیب بے تُکی سی بات بتائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سوکھا ہوا مکھڈی حلوہ ہے۔ یہ سن کر میری اور سب گھر والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اچانک ایک خیال میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ میں نے اُن عزیز سے کہا کہ ازراہِ کرم لیبارٹری سے یہ چیک کرا دیں کہ یہ حلوہ گندم کے نشاستے سے بنا تھا یا عام سُوجی سے؟ دو دن بعد بتایا گیا کہ تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس حلوے میں نشاستہ تھا۔
اب یہ دو جمع دو چار والی بات تھی۔ نشاستے والا اصل حلوہ تو اُسی چاچی کے ہاں پکتا تھا جس کے بیٹے نے میرے کھیت پر ناروا قبضہ کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اسے کیا پڑی تھی یہ پُراسرار کام کرنے کی۔ کھیت پر قبضہ اس نے کر لیا تھا۔ میں نے واپس لینے کے لیے کوئی اقدام کیا نہ ہی ایسا سوچا۔ بالآخر میں نے اسے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ایک معتدل موسم کی شام تھی‘ گرم نہ سرد‘ جب میں گاؤں میں اس کے گھر پہنچا۔ چاچی کو آداب بجا لینے کے بعد ہم دونوں مرد الگ کمرے میں جا بیٹھے۔ میں نے دونوں کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھے اور بغیر کسی تمہید کے کہا کہ اب وہ خدا کے لیے جھوٹ نہ بولے اور بتائے کہ یہ کام اس نے کیوں کیا۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ مجھے ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ یہ اسی کی کارستانی ہے۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ بالکل لکڑی کی طرح۔ وہ کافی دیر خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا ''بھائی! آپ نے کھیت واپس لینے کی کوشش کی نہ عدالت میں گئے مگر پورے قبیلے میں آپ نے میری پوزیشن صفر کر دی۔ میں بدنام ہو گیا یہاں تک کہ گھر سے نکلنا دوبھر ہو گیا۔ زندگی جہنم بن گئی۔ بہت سوچ بچار کے بعد مجھے مشکل کا حل یہ نظر آیا کہ سب کی توجہ اپنے سے ہٹا کر کسی اور طرف لے جاؤں۔ اس کے لیے سنسنی پھیلانا ضروری تھا۔ چنانچہ آپ کو یہ پُراسرار خط بھیجے۔ تیر نشانے پر بیٹھا۔ قبیلہ مجھے بھول کر اس خطرے کے پیچھے لگ گیا۔ یوں لوگوں کی توجہ مجھ سے ہٹ گئی بلکہ کھیت پر قبضے ہی کو لوگ بھول گئے۔
میں ہنستے ہوئے اس سے رخصت ہوا۔ کسی ایشو سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ نسخہ‘ واقعی‘ تیر بہدف تھا!

Monday, April 08, 2024

سو سال بعد بھی یہی حال ہو گا

''ایک صاحب انتیس رمضان کو فلاں بزرگ کے پاس گئے۔ اُن کے گھر سے ایک بہت خوبصورت نوجوان‘ بڑی سج دھج کے ساتھ‘ خوش خوش! باہر نکل کر جا رہا تھا۔ یہ صاحب اندر گئے اور بزرگ سے پوچھا: حضرت! یہ اتنا خوبصورت نوجوان جو بہت خوش دکھائی دے رہا تھا‘ کون تھا؟ بزرگ نے فرمایا: یہ انسان نہیں تھا۔ یہ عید کا چاند تھا! اور پوچھنے آیا تھا کہ حضرت! انتیس کو نکلوں یا تیس کو؟؟‘‘
اس نام نہاد واقعے پر مشتمل وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ ایک شخص یہ کہانی سنا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگ سن کر اَش اَش کر رہے ہیں۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور ایسے لوگ اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں! ان میں اَن پڑھ بھی ہیں۔ نیم تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں! ایسے بھی ہیں جو ہر سال فلاں صاحب کا درشن کرتے ہیں‘ اس یقین کے ساتھ کہ اندھوں کو بینائی مل جاتی ہے۔ ہم چند عمر رسیدہ‘ پرانے دوست‘ ایک دن کلب میں بیٹھے ہوئے‘ بیماریوں اور ڈاکٹروں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ہم میں سے ایک‘ جو ہم میں سے کسی سے بھی کم پڑھا لکھا نہیں تھا‘ گویا ہوا کہ اس کا پوتا بیمار ہوا تو وہ اسے فلاں مزار پر لے گیا اور وہ تندرست ہو گیا۔ آپ میں سے بہت سے حضرات اسے 

Placebo 

کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے مگر آپ ان ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کا کیا کریں گے جو چاند والی داستان کو سچ سمجھتے ہیں! اور ایسی لاتعداد داستانوں پر ایمان رکھتے ہیں!
میں کوئی محقق ہوں نہ سائنسدان نہ فلسفی نہ عالم فاضل! مگر ایک اوسط درجے کا‘ کچھ کچھ پڑھا لکھا آدمی ضرور ہوں! اس صورتحال پر جتنا غور کیا ہے‘ ایک ہی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ وہ یہ کہ ہمیں گھر سے‘ نہ سکول کالج یا یونیورسٹی سے‘ نہ مدرسہ سے‘ یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ہم دعویٰ کرنے والے سے ثبوت مانگیں! ہمیں یہ بھی نہیں سکھایا جاتا کہ ہماری معلومات غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کرتا ہے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کر کے‘ ثبوت مان لیں! ماننا تو دور کی بات ہے‘ ہم ثبوت دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے کہ جو بات ذہن میں بٹھا لی ہے‘ اس سے پھسل نہ جائیں!! یہ رویہ ہماری پوری زندگی کو قبضے میں لیے ہوئے ہے۔ گھر سے لے کر باہر تک۔ عقیدے سے لے کر علاج تک‘ معاشرت سے لے کر سیاست تک‘ ہر شعبے میں‘ ہر میدان میں‘ ہم دعویٰ کرنے والے سے ثبوت نہیں مانگتے۔ یہ ہمارے ڈی این اے ہی میں نہیں ہے۔ ہمیں صرف آمنّا و صدقنا کہنا سکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے‘ اس تشخیص کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ہمارے دعوے یا ہمارے یقین کے رد میں کوئی ثبوت پیش کرے تو ہم اس ثبوت کو دیکھتے ہیں نہ مانتے ہیں!
اس رویے کا سب سے بڑا شکار مذہب ہے! یہ اس لیے کہ ہم مذہب واعظ سے سیکھتے ہیں۔ استاد سے نہیں! استاد سوال پوچھنے پر اُکساتا ہے جبکہ واعظ سے کچھ پوچھنا ممکن ہی نہیں! وہ تو وعظ کر کے یہ جا وہ جا!! اسی لیے اگر واعظ کہتا ہے کہ حوریں اسّی اسّی فٹ لمبی ہوں گی تو اول تو اس دعوے کے حق میں ثبوت مانگنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔ سب آنکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں! اور اگر ایک لاکھ میں ایک شخص ثبوت مانگنا بھی چاہے تو واعظ تک اس کی رسائی ہی نہیں۔ اگر وہ وعظ کے دوران اُٹھ کر پوچھتا ہے تو اس کی زندگی کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے!! یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے مذہبی خیالات‘ یہاں تک کہ عقائد بھی‘ قرآن پاک یا صحیح احادیث پر نہیں‘ سنی سنائی باتوں‘ داستانوں اور قصوں پر مشتمل ہیں۔
اس صورتحال کا سب سے مہلک شاخسانہ شخصیت پرستی ہے۔ ہم جس شخصیت کو بھی پسند کرتے ہیں‘ اس کی کسی بات کو چیلنج کرنا تو دور کی بات ہے‘ اس پر شک تک نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے دفاع میں کٹنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی کی بیماری جب مذہبی دائرے میں داخل ہوتی ہے تو اس کا نام ''اکابر پرستی‘‘ ہو جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے مگر حقیقت ہے کہ اکابر کی عبارتوں اور دعاوی کے دفاع میں زندگیاں گزر جاتی ہیں اور نسلیں خرچ ہو جاتی ہیں! 
ثبوت ایک ایسی چڑیا ہے جس کا سیاست کے شعبے میں بھی گزر نہیں! چند دن پہلے ہی الزام لگا کہ ایک وزیراعلیٰ کے لیے نیا ہیلی کاپٹر خریدا جا رہا ہے! اس کے جواب میں متعلقہ وزیر نے دعویٰ کیا کہ یہ ہیلی کاپٹر مریضوں کے لیے خریدا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندھے مقلد اس دعویٰ کو سچ مان لیں تو کوئی تعجب نہیں۔ مگر اس دعویٰ کا ثبوت کیا ہے؟ کیا اس خریداری کا مطالبہ محکمہ صحت نے یا کسی ہسپتال نے یا ڈاکٹروں کی کسی باڈی نے یا مریضوں نے کیا ہے؟ کیا یہ خریداری محکمہ صحت کے بجٹ سے کی جا رہی ہے؟ کیا سڑکوں پر چلنے والی ایمبولینسوں کی تعداد صوبے میں تسلی بخش ہے کہ اب صرف ہیلی کاپٹر کی کمی ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ جو ہیلی کاپٹر مریضوں کے لیے ہوتا ہے اسے ایئر ایمبولنس کہتے ہیں! اس میں میڈیکل آلات نصب ہوتے ہیں۔ ابتدائی طبی امداد اور ٹیسٹوں کے لیے سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔ اس میں ای سی جی‘ پیس میکر‘ آکسیجن اور دیگر متعلقہ سروسز ہوتی ہیں۔ وزیر سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر ہیلی کاپٹر حاکم کے لیے نہیں‘ بلکہ بقول ان کے‘ مریضوں کے لیے منگوایا جا رہا ہے تو کیا یہ ایئر ایمبولنس ہے؟
بدقسمتی سے ہمارے تارکینِ وطن بھی‘ جن کی بھاری اکثریت ترقی یافتہ ملکوں میں مقیم ہے‘ شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان ملکوں میں بات بات پر ثبوت مانگا جاتا ہے۔ ایک گیارہ سالہ بچے کو‘ جو آسٹریلیا میں رہتا ہے‘ میں نے ایک بات بتائی۔ اس نے سن کر پوچھا ''اس کاEvidence کیا ہے؟‘‘ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تارک وطن کو ایک سیاسی لیڈر کی کرپشن کے بارے میں ثبوت دیا تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ ناممکن ہے۔ اسے تو پیسے کی ضرورت ہی نہیں!! یہ حیرت انگیز بلکہ دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے تارکین وطن ''ہیرو ورشپ‘‘ میں ہم لوگوں کی نسبت جو پاکستان میں رہتے ہیں‘ بہت آگے ہیں!
اندھا اعتقاد اور ثبوت نہ مانگنا ایک ناسور ہے جس نے ہمارے معاشرے کو ذہنی طور پر اپاہج کر رکھا ہے۔ یہاں بابوں‘ تعویذ فروشوں‘ جن نکالنے والوں اور میٹھے سے شوگر کی بیماری کا علاج کرنے والوں کا راج ہے۔ آپ کو ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی ایسا کلینک نہیں ملے گا جس پر بورڈ لگا ہو کہ ''یہاں تمام دائمی امراض کا تیر بہدف علاج کیا جاتا ہے‘‘۔ آپ کو وہاں مسیحی یا یہودی شہد کے اشتہار بھی نہیں نظر آئیں گے۔ خوابوں کا کاروبار بھی وہاں عنقا ہے۔ کروڑوں اربوں روپوں کی پیری مریدی کی انڈسٹری بھی صرف ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہے۔ ایسی انڈسٹری کہ جس پر ٹیکس بھی نہیں لگتا! سو سال پہلے بھی یہی حال تھا۔ جبھی تو اقبال نے کہا تھا:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو دہاتی ہو‘ مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن 
نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
یقین کیجیے کہ سو سال بعد بھی یہی حال ہو گا!!

Thursday, April 04, 2024

پاکستان اور افغانستان …جان اور جانان


''جب تک افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس‘ پناہ گاہیں اور سہولت کاری نہیں چھوڑے گا تب تک سلسلہ چلتا رہے گا۔ افغان حکومت کے روز بروز بدلتے رویے سے ہمارے پاس ان کے لیے آپشن محدود ہو رہے ہیں۔ جس طرح ساری دنیا میں بارڈر ہیں‘ پاک افغان بارڈر کو بھی ویسا ہونا چاہیے۔ لوگ ویزا لے کر پاکستان آئیں اور کاروبار کریں۔ فری کھاتے میں جو لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں اس میں دہشت گرد آتے ہیں۔ بارڈر کی جو بین الاقوامی حیثیت ہوتی ہے‘ اس وقت اس کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ ہم نے افغانستان کا سامان بھارت بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ ہم نے افغانستان کے لیے جنگیں لڑیں۔ قربانیاں دیں۔ افغانستان سے دہشت گردی اور سمگل شدہ چیزیں آتی ہیں‘‘۔
یہ بیان ہمارے محترم وزیر دفاع کا ہے اور کل یا پرسوں کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ وزیر دفاع نے کہا ہے‘ اس میں سے کون سی بات ہے جو نئی ہے اور پہلے سے معلوم نہیں تھی؟ کیا اس میں دو آرا ہو سکتی ہیں کہ افغان بارڈر پر انہی بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے جو ساری دنیا میں نافذ ہیں؟ کیا بچے بچے کو نہیں معلوم کہ یہ جو افغان بارڈر پر کھلا کھاتہ چل رہا ہے‘ یہ دہشت گردوں کے لیے بہترین سہولت کاری ہے؟ بارڈر آپ کا ہے! آپ اس پر ویزے کی پابندی نافذ کیجئے۔ آپ کو روکا کس نے ہے؟ مگر المیہ یہ ہے اختیارات ہمارے وزیروں اور حکومتوں کے پاس تھے کب؟؟ فراق گورکھپوری کی یاد آ گئی؛
دلِ آزاد کا خیال آیا ؍ اپنے ہر اختیار کو دیکھا
میر تقی میر کو بھی ہماری حکومتوں سے کافی ہمدردی ہے۔ حکومتوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یہ درست ہے کہ افغانوں کے لیے ہم نے جنگیں لڑیں اور قربانیاں دیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا افغانوں نے ہماری منت کی تھی؟ سارے فیصلے پاکستان کے اپنے تھے۔ کیا کبھی ہم نے عام افغان کے مؤقف پر بھی غور کیا ہے؟ افغان کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کرتے رہے‘ امریکی ڈالروں کے لیے کرتے رہے۔ ان کا دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ ہم ان کے اندرونی معاملات میں دخل دیتے ہیں۔ یہ بات بھی عام کہی جاتی ہے کہ پاکستان افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھتا ہے۔ ہم ان الزامات کو تسلیم کریں یا نہ کریں‘ افغانوں کے مؤقف کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
افغانستان کے مسئلے کی جڑ ضیاء الحق کے عہد میں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ افغان ایشو پر بات ہو اور اس مردِ مومن مردِ حق کا 'ذکرِ خیر‘ نہ ہو! اب تو اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ امریکی جنگ تھی! اگر امریکی جنگ نہیں تھی تو کیا اربوں ڈالر امریکہ نے اسلام کی اشاعت کے لیے دیے تھے؟ ضیا کی باقیات آج بھی کہے جا رہی ہیں کہ افغانستان کے بعد سوویت یونین نے پاکستان میں آ جانا تھا۔ جیسے پاکستان کوئی ترنوالہ ہو!! جیسے پاکستان کے بعد اس نے بھارت برما اور تھائی لینڈ میں بھی جانا تھا۔ چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ روس کا مقابلہ افغانستان ہی میں کرنا تھا ورنہ اس کی اگلی منزل پاکستان ہوتی۔ مگر یہ کہاں کا اصول اور کون سی حب الوطنی تھی کہ ہم اپنے ویزا سسٹم کا گلا گھونٹ دیں۔ سرحدوں کو مٹا دیں! دنیا بھر کے جنگجو پاکستان میں لا بسائیں اور افغان مہاجرین کو پورے ملک میں پھیلا کر انہیں پاکستان کا باپ دادا بنا دیں؟ یہ ضیاء الحق اور اس کے ہمنواؤں کا وہ ظلم ہے جس کی قیمت پاکستان آج بھی ادا کر رہا ہے اور بھاری قیمت ادا کر رہا ہے! آپ اندازہ لگائیے کہ یہ غیر ملکی نادرا میں بھی جا گھسے تھے اور وزیر دفاع نے یہ انکشاف تو حال ہی میں کیا ہے کہ ایسے دو غیر ملکی ہماری فوج میں بھی پائے گئے تھے! امریکی جنگ میں شریک ہو کر ضیاء الحق کو یہ فائدہ بھی ہوا کہ اس کی ناروا آمریت کو مغرب کی اشیرباد حاصل ہو گئی۔
دیگر افغانوں کی طرح طالبان لیڈروں نے بھی پاکستان میں بہت وقت گزارا۔ ان کی شوریٰ کا تو نام ہی کوئٹہ شوریٰ تھا۔ طالبان رہنماؤں نے اپنے خاندانوں کو پاکستان میں رکھا۔ ملا اختر منصور کی کراچی میں پانچ جائدادیں تھیں۔ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے پر خوشی بھی بہت منائی۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ بیان دیا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر طالبان کے لیے بہت کام کیا مگر طالبان کی حکومت‘ ماضی کی افغان حکومتوں کی طرح‘ پاکستان کے ساتھ سرد مہری ہی برت رہی ہے۔ طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کر رہے۔ پاکستان نے کروڑوں روپے خرچ کر کے سرحد پر جو باڑ لگائی تھی‘ اسے جگہ جگہ نوچ کر اکھاڑ پھینکا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے جو کچھ کہا ہے‘ درست کہا ہے۔ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کا بیان پوری حکومت کی طرف سے ہے۔ اب وہ صرف ایک کام کریں کہ اپنے بیان کو عملی جامہ بھی پہنا دیں۔ وہ حکومت اور مقتدرہ کے درمیان اس سلسلے میں پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور افغان بارڈر کو مستحکم کرنے میں حکومت اور مقتدرہ کو ایک ہی صفحے پر لا سکتے ہیں۔ افغانوں کو اگر یہ شکوہ ہے کہ پاکستان ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو افغانوں کو تو خود بارڈر پر ویزا اور پاسپورٹ کے سسٹم کو مضبوط کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ مل کر سرحدی قوانین کو نافذ کرنا چاہیے۔
پاکستان کے اور بھی پڑوسی ہیں۔ چین‘ بھارت اور ایران ہے۔ جنوب میں سمندر ہے۔ چین کے ساتھ تو پاکستان کی بے مثال دوستی ہے۔ کیا ان ملکوں سے آنے والے ویزے کے بغیر آتے ہیں؟ کیا ایران کا بارڈر افغان بارڈر کی طرح شاہراہِ عام بنا ہوا ہے؟ یہ کون سا انصاف ہے کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے مگر اس کے باشندے پاکستان میں اس طرح آتے جاتے رہیں جیسے افغانستان‘ پاکستان کا حصہ ہے؟ پھر‘ افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کی بات ہو تو احتجاج کیوں ہوتا ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ افغان ایک غیرتمند قوم ہے اور عزتِ نفس کے لحاظ سے بہت حساس ہے۔ طالبان حکومت اگر افغانستان کی نمائندہ اور جائز حکومت ہے تو خود طالبان حکومت کو چاہیے تھا کہ پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کو واپس بلاتے اور کہتے کہ ملک آزاد ہو گیا ہے‘ آؤ! ہم سب مل کر ملک کی ترقی کیلئے مل کر کام کریں!
افغانستان کے ساتھ ہمارا مذہبی‘ ثقافتی اور ادبی رشتہ صدیوں سے ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنا ہو گا اور سرحدوں پر بین الاقوامی قوانین کا نفاذ کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی پاکستان پر لازم ہے کہ افغانستان کے جائز شکوؤں کو دور کرے۔ افغان مریضوں اور سٹو ڈنٹس کو ویزا آسانی سے حاصل ہونے کی سہولت مہیا ہونی چاہیے۔ افغان مہاجرین نے پاکستان میں جو کچھ کمایا ہے اسے ساتھ لے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کرنی چاہیے۔ افغان حکومت بھی‘ امید ہے‘ پاکستان کی گزارشات پر دھیان دے گی۔ فارسی افغانوں کی اپنی زبان ہے۔ وہ صائب کے اس شعر کو اچھی طرح سمجھتے ہیں:
گر چہ جان ما بہ ظاہر ہست از جانان جدا
موج را نتوان شمرد از بحر بی پایان جدا
پاکستان اور افغانستان کا تعلق وہی ہے جو جان اور جانان کا ہے!! وما علینا الا البلاغ

Tuesday, April 02, 2024

بابے …(2)


اس عنوان کی پہلی قسط چھ فروری2016ء کو اسی صفحے پر ظاہر ہوئی تھی۔ ایک بار پھر اس بات کا اعلان لازم ہے کہ میں بابوں کو مانتا ہوں۔یہ جو ڈِس انفارمیشن ہے کہ میں فلاں خاندان سے ہوں اورفلاں مسلک کی وجہ سے بابوں کو نہیں مانتا ‘ یہ ڈِس زیادہ ہے اور انفار میشن کم ! میرے باپ دادا بابوں کے بہت بڑے معتقد تھے۔ وہ رومی‘ سعدی‘عطار‘ نظامی‘ امیر خسرو اور جامی کے معتقد تھے۔ ان سے بڑے بابے کون ہوں گے! وہ میر‘ غالب اور بیدل کے ارادت مند تھے۔ میں بھی ‘ اپنے آبا ؤ اجداد کی تقلید میں‘ اپنے زمانے کے بابوں کا شیدائی ہوں! فرق صرف یہ ہے کہ بابے ‘ جنہیں میں مانتا ہوں‘سبز چولے پہنتے ہیں نہ مالائیں! وہ بالکل عام لوگوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ وہ زبردست دماغی قوتوں کے مالک ہیں اور قلم جب ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس میں کیسے مافوق الفطرت طاقت بھر جاتی ہے۔ اصل بابا ہوتا ہی وہی ہے جو اپنے بابا ہونے کا اعلان خود نہ کرے۔ لاہور ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس شہر میں سب سے بڑا بابا ظفر اقبال ہے۔ اب وہ ماشاء اللہ نوّے سے اوپر ہے مگر شعر گوئی کی رفتار میں کمی آئی نہ کوالٹی میں! چند ہفتے پہلے تک روزانہ کے حساب سے کالم بھی لکھ رہا تھا۔ اس کے پاس ایسا اسم ہے اور ایسا طلسم ہے کہ غزل کو جس طرف چاہے موڑ دے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت اُردو غزل میں اس کا کوئی ثانی ہے نہ حریف! اختلاف کرنے والوں کا حق ہے کہ اختلاف کریں۔ ظفر اقبال نے تو خود ہی معاملہ وقت پر چھوڑ دیا ہے۔
ظفرؔ یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں
ظفر اقبال نے اُردو شاعری میں گونگے لفظوں کو زبان دی۔ایسے ایسے مضامین غزل میں باندھے جو نظم میں باندھنے سے بھی شعرا ہچکچاتے تھے۔ یہ بابا اپنے مریدوں سے بے حد پیار کرتا ہے۔ اس وقت آبِ رواں کا جو ایڈیشن بازار میں دستیاب ہے‘ اس کا فلیپ اس حقیر مرید کا لکھا ہوا ہے جو بابے نے حکم دے کر لکھوایا۔ سرتابی کی مجال نہ تھی۔ بابا واحد بڑا شاعر ہے جو جونیئر اور نئے شعرا کو پڑھتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔'' اب تک ‘‘ اس کی کلیات کا نام ہے جس کی چھ جلدیں چھپ چکی ہیں۔ اُردو ادب کے شائقین کو آج بآسانی دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پرو ظفر اقبال اور اینٹی ظفر اقبال یعنی ظفر اقبال کے حامی اور ظفر اقبال کے مخالف۔ یہ جرأت صرف ظفر اقبال ہی میں ہے کہ اپنی شاعری پر خود تنقید کرتا ہے اور اپنے سے آگے بڑھ جانے والے کا شوق اور بے تابی سے منتظر بھی ہے۔ کس میں ہمت ہے کہ ایسا شعر کہہ سکے 
مجھے غَسّال ہی نہلائیں گے اب 
بہت میلا کچیلا ہو گیا ہوں
ظفر اقبال کی خدمت میں حاضری کا نذرانہ پیش کر کے میں لاہور کے ایک اور بڑے بابے کے آستانے پر حاضر ہوتا ہوں۔ یہ بابا عطا الحق قاسمی ہے۔ اس کی بقچیوں میں ہر وضع کے ساغر موجود ہیں۔ رُلا بھی سکتا ہے۔ ہنسا بھی سکتا ہے۔ دو ایسی حقیقتیں ہیں جن سے شاید ہی کوئی انکار کرے۔ اُردو اخبارات میں ادبی صفحے کا آغاز اسی نے کیا۔ اس کے بعد پھر لائنیں لگ گئیں۔ لگنی ہی تھیں کہ اس سے اخبارات کے عام قار ئین تک بھی ادب پہنچ سکا اور وہ بھاری بھرکم ادبی جریدوں سے بچ کر بھی ادب سے روشناس ہونے لگ گئے۔ اس بابے کا دوسرا کمال یہ ہے کہ کالم کو اس نے ادب کی صنف میں شامل کرایا۔ اس سے پہلے ادب اور کالم کے درمیان خلیج حائل تھی۔ اس نے ادب پارے لکھے جو کالم تھے اور کالم لکھے جو ادب پارے تھے۔ تعزیت نامے لکھ کر ایک اور باب وا کیا۔ سفرنامے لکھے۔ ٹی وی کے ایسے ڈرامے لکھے جو یادگار ہیں۔ معاصر کے عنوان سے ایک وقیع ادبی جریدے کی بنیاد رکھی۔ یہ اور بات کہ اب بابے کی صحت ادبی پرچے کے تھینک لیس کام کی متحمل نہیں ہو سکتی !
پھر میں لاہور ہی میں بابے مستنصر حسین تارڑ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔ اس بابے کی کرامتوں کے کیا ہی کہنے ! اتنے سفر نامے لکھے اور اتنے ناول کہ عجب نہیں خود اسے بھی سب کے نام نہ یاد آئیں۔ بابے کا دروازہ سب زائرین کے لیے کہاں کھلتا ہے بس ہم جیسے قسمت کے دھنی اس سے مل لیتے ہیں۔بابے کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے عشق ہے۔ اس عشق کو اس نے اپنے سفرناموں کے ذریعے متعدی مرض کی طرح پھیلایا اور ان علاقوں کو مشہور کیا۔ جب تک صحت اجازت دیتی رہی‘ بابا ہر سال شمالی علاقوں کے سفر کے سختیاں برداشت کرتا رہا۔
دل تو چاہتا ہے کہ مجیب الرحمان شامی صاحب کو بھی لاہور کے بابوں میں شامل کروں مگر وہ‘ ماشاء اللہ ‘ اتنے متحرک اور ایکٹو ہیں کہ بابے کی اصطلاح کا اطلاق ان پر منطقی لحاظ سے ہو نہیں سکتا۔ وہ ایک روزنامہ نکالتے ہیں۔ ٹی وی پر ہفتے میں پانچ دن پروگرام کرتے ہیں۔ یہ کام ایک جوان شخص ہی کر سکتا ہے۔ چشم بد دور!!
اب میں اسلام آباد کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں افتخار عارف ہے۔ ایک بڑا بابا!! اس کا آستانہ ہر بڑے چھوٹے کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔ صحت کی خرابی کے باوجود کسی کی عرضی نا منظور نہیں کرتا اور آنے جانے کی ‘ اور سفر کی کلفت برداشت کرتا ہے۔ غزل کا بڑا شاعر تو وہ ہے مگر نعت کواس نے جو جو رنگ دیے ہیں‘ اسی کا حصہ ہے۔ 
یہ سر اٹھا ئے جو میں جا رہا ہوں جانبِ خُلد
مرے لیے مرے آقا نے بات کی ہوئی ہے
اور
درود پہلے بھی پڑھتا ہوں اور بعد میں بھی
اسی لیے تو اَثر بھی دعا میں رہتا ہے
ایک ڈھارس مجھ جیسے ساکنانِ اسلام آباد کے دل کو رہتی ہے کہ بابا افتخار عارف شہر میں موجود ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے۔ بابا افتخار عارف اس شہر کا مینار ہے۔اختلاف کرنے والوں سے بھی پیار کرتا ہے!!
افتخار عارف کے گھر کے قریب ہی ایک اور بابا رہتا ہے۔ بڑا ہی باکمال ! بابا انور مسعود! بابا ابھی بی اے میں پڑھ رہا تھا کہ پنجابی کی نظم ''پنچایت‘‘ لکھی اور پیش منظر پر چھا گیا! وہ دن اور آج کا دن! وہ پنجابی شاعری کو مزاح سے ‘ نئی امیجری سے‘ اچھوتے موضوعات سے اور انوکھی بُنت سے مسلسل مالا مال کر رہا ہے۔ پہلے شاعری سنانے میں گھن گرج زیادہ تھی۔ اب مسکراہٹ زیادہ ہے۔ بے شمار نظمیں ضرب المثل کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ ان نظموں کے عنوانات بھی زبان زد خاص و عام ہیں! یہ اور بات کہ اس نے سنجیدہ اشعاربھی کمال کے کہے 
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
کیا بابا کے مقابلے میں بابی کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ؟ مجھے نہیں معلوم! تو کیا میں کشور ناہید کو بابی کہوں ؟ ویسے میں اسے آپا کہتا ہوں! جب تک آپا کی صحت ٹھیک رہی‘ اس کا گھر دعوتوں کا مرکز رہا۔ اب طبیعت مضمحل زیادہ رہتی ہے۔ وہ بھی دن تھے جب آپا ماہ نو کی ایڈیٹر تھیں۔ خوب ڈانٹ ڈپٹ کر کے ہم سے کام کراتی تھیں۔ ترجمے کرائے۔ نظمیں کہلوائیں۔ ایسے ایسے نمبر ماہ نو کے نکالے کہ تاریخِ ادب کا حصہ ہیں۔ اب صرف ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں۔ یہ بھی اپنائیت اور پیار کی شکل ہے۔ اور آخری بات یہ کہ میں خود بھی اب چھوٹا موٹا بابا ہوں۔ اس کی تفصیل پھر کبھی!!

Monday, April 01, 2024

سیاست سے ذرا ہٹ کر


کالم تو ایک اور موضوع پر لکھنا تھا۔ وزیر خارجہ کا دل اپنی وزارت میں لگ نہیں رہا۔ کابینہ کی کمیٹی جو نجکاری کے لیے بنائی گئی ہے‘ اس کی صدارت وزیر خارجہ کو دے دی گئی ہے۔ ایک اور طرفہ تماشا یہ ہوا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل 

(Council of Common Interests)

یعنی 

CCI 

میں سے وزیر خزانہ کو باہر نکال دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ کو شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ کونسل صوبوں کے درمیان متنازع مسائل حل کرنے کے لیے ہے۔ یہ مسائل‘ زیادہ تر‘ مالیات سے متعلق ہوتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ جسے بھی کونسل کا رُکن بنائیں۔ ارے بھئی! صوابدید کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مچھلیوں کو دریا سے نکال کر درختوں پر آباد کر دیا جائے۔ صوابدیدی اختیارات کے لیے شرط ہے کہ عاقلانہ اور مدبرانہ طور پر 

Judiciously 

استعمال کیے جائیں گے۔ ارادہ تھا کہ کالم میں جناب وزیراعظم کی خدمت میں تفصیل سے یہ تجویز پیش کروں کہ جہاں پناہ! وزیر خزانہ کی اسامی کو ختم کر دیا جائے اور وزیر خزانہ کا قلمدان بھی وزیر خارجہ کے سپرد کر دیا جائے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ حق بحقدار رسید!! 
مگر راستے میں دوراہا آ گیا اور میں مُڑ گیا۔ ایک وڈیو کلپ دیکھا۔ ہمارے دوست شعیب بن عزیز پلنگ پر دراز ہیں اور اُن کی نواسی اور نواسا اُن پر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ اس سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ یہ واقعہ میری کتاب ''عاشق مست جلالی‘‘ میں درج ہے مگر چونکہ اس کا تعلق براہِ راست اس وڈیو کلپ سے ہے اس لیے یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ نواب آف کوٹ فتح خان سے منسوب ہے۔ کوٹ فتح خان کے نواب کی ریاست فتح جنگ کے مغرب اور جنوب میں واقع تھی۔ اس میں چوراسی گاؤں شامل تھے۔ ایک مفلس کسان نواب کا بچپن کا بے تکلف دوست تھا۔ کسان کی صحت اچھی تھی جبکہ نواب صاحب کی ڈانواں ڈول رہتی تھی۔ ایک دن نواب نے اپنے کسان دوست سے کہا کہ میں بہترین خوراک کھاتا ہوں۔ دسترخوان پر پچاس اقسام کی نعمتیں ہوتی ہیں۔ تمہیں کھٹی لسّی بھی مشکل سے ملتی ہے۔ سوکھی روٹی اور دال تمہاری غذا ہے۔ پھر بھی حیرت ہے کہ تم ہٹے کٹے ہو اور میں رنجور! کسان یہ سُن کر ہنسا! کہنے لگا: سردارا! (اس علاقے میں بے تکلفی سے اسی طرح مخاطب ہوا جاتا ہے) تم کیا بہترین غذا کھاتے ہو؟ مٹی اور راکھ! میں جب کھیتوں میں کام کر کے واپس گھر آتا ہوں تو میرے پوتے اور نواسے میرے اوپر کودتے ہیں۔ چھلانگیں لگاتے ہیں۔ کوئی سر پر سوار ہوتا ہے‘ کوئی کندھوں پر چڑھائی کرتا ہے۔ پھر وہ مجھے کھینچ کھانچ کر ہٹی پر لے جاتے ہیں جہاں میں انہیں بتاشے‘ ریوڑیاں‘ مکھانے اور نُگدی خرید کر دیتا ہوں۔ انہیں کھاتا اور لطف اندوزہوتا دیکھ کر مجھ میں سیروں خون بڑھتا ہے۔ یہی میری اچھی صحت کا راز ہے۔
مستقل قارئین جانتے ہیں کہ اس کالم نگار نے نواسوں‘ نواسیوں‘ پوتوں‘ پوتیوں‘ نانیوں‘ دادیوں‘ دادوں‘ نانوں پر تواتر سے لکھا ہے۔ انٹرنیٹ کا دور ہے۔ یہ موضوعات دنیا بھر میں پسند کیے گئے۔ خاص طور پر تارکینِ وطن کو ان تحریروں میں و طن کی اور گزرے ایام کی خوشبو آئی اور وہ خوش بھی ہوئے اور مضطرب بھی! ایک صاحب نے ایک کالم پڑھ کر امریکہ سے لکھا کہ جب سے کالم پڑھا ہے‘ ماں یاد آرہی ہے اور روئے جا رہا ہوں! کچھ بوڑھوں نے لکھا کہ ان کالموں میں دنیا بھر کے نانا اور دادا کی نمائندگی کی جا رہی ہے۔ دیہی زندگی پر لکھے گئے کالم بھی بہت پسند کیے گئے۔ ایک زمانہ تھا جو دیکھتے دیکھتے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ جن لوگوں نے اس زمانے کو دیکھا تھا‘ اس کا ذکر پڑھتے ہیں تو تسکین حاصل کرتے ہیں۔
سیاسی اور حالاتِ حاضرہ کے کالموں سے قاری بعض اوقات اُکتا جاتے ہیں!! کیوں؟ اس لیے کہ سب کالم کم و بیش ایک ہی‘ یا زیادہ سے زیادہ دو موضوعات پر ہوتے ہیں۔ جیسے آج کل چھ ججوں کا موضوع ہے۔ اب کالم نگاروں کی مجبوری ہے کہ اس تازہ ترین‘ سلگتے موضوع کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مگر پڑھنے والا اس ایک موضوع پر کتنی تحریریں پڑھے گا؟ (یہی حال وی لاگرز کا بھی ہے۔ سب کے ٹاپک یکساں ہوتے ہیں)۔ جب قاری کسی ایسے موضوع پر تحریر دیکھتا ہے جو گھسے پٹے سیاسی موضوع پر نہ ہو تو وہ اس کی طرف لپکتا ہے‘ اسے پڑھتا ہے اور فرحت پاتا ہے! اس کالم نگار نے پِزے اور برگر پر لکھا۔ شو ہارن کو موضوع بنایا۔ لاٹھی پر لکھا۔ لسی پر لکھا۔ اس موضوع پر لکھا کہ چائے پیالیوں سے ہٹ کر مگ میں منتقل ہو گئی۔ دوسرے ملکوں کی خوراک پر لکھا۔ پرانے ہَل اور نئے تھریشر پر لکھا۔ عید اور دیگر تہواروں کے اُس کلچر پر لکھا جو اب غائب ہو گیا ہے۔ اُن سردیوں کا نوحہ لکھاجو اب کبھی نہیں پلٹیں گی!! چرخے پر‘ گھر کی کپاس سے کھڈی پر بُنے ہوئے کھیس پر‘ ادوائن والی بان کی چارپائیوں پر‘ دیواروں پر لگے اُپلوں پر‘ کوئلوں سے دہکتی انگیٹھیوں پر‘ اونٹوں کے کجاووں پر‘ غرض بے شمار ایسے موضوعات پر لکھا جن پر شاید ہی کوئی لکھنے والا توجہ دیتا تھا۔ پھر ان غیر سیاسی تحریوں کو‘ جو سراسر ثقافتی موضوعات پر تھیں‘ کتابوں کی صورت میں یکجا کیا۔ ان کتابوں کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ ہر شخص کو ان میں اپنی گم ہوتی ثقافت دکھائی دے رہی تھی اور اپنا گُم شدہ ماضی نظر آ رہا تھا۔ کچھ تحریروں کو نصابی کتابوںمیں بھی شامل کیا گیا۔
پنجاب کے کچھ علاقوں میں پوتے کو اپنا خون اور نواسے کو '' پرایا‘‘ خون گردانا جاتا ہے۔ ایک قصہ نما کہاوت بھی ہے کہ ایک شخص اپنے نواسے کو کندھے پر بٹھائے جا رہا تھا۔ پوتا ساتھ پیدل آ رہا تھا۔ راستے میں کتا آ گیا جو ذرا بپھرا ہوا تھا۔ کندھے پر بیٹھے نواسے نے کتے سے کہا کہ آئو! میرے بابا کو کاٹ لو۔ پیدل چلتے پوتے نے پتھر اٹھا لیا اور کتے کو کہا خبردار! میرے بابا کے نزدیک نہ آنا! اس کلچر اور اس مائنڈسیٹ کی پشت پر وہی جاہلی تصور ہے کہ بیٹی بیٹے سے کم تر ہے۔ جائداد کا حصہ بھی بیٹی کو نہیں دیا جاتا کہ زمین ''غیروں‘‘ کو چلی جائے گی! اسی طرزِ فکر سے وہ مضحکہ خیز اور ظالمانہ رسم نکلی کہ بیٹی کی شادی (نعوذ باللہ) قرآن پاک سے کر دی اور وہ ساری زندگی ماں باپ کے گھر بیٹھی رہی۔ کلام پاک میں بیٹیوں کو ناپسند کرنے والوں یا کمتر سمجھنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ ''جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس برُی خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یامٹی میں دبا دے‘‘۔ یہ مائنڈ سیٹ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اور اس کے لیے جاہل یا ان پڑھ ہونا لازم نہیں۔ اس میں تمام طبقات کی نمائندگی موجود ہے۔ کیا جُبے اور عمامے‘ اور کیا سوٹ اور نکٹائیاں‘ بیٹیوں‘ بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہوئے قولنج کا درد اٹھتا ہے اور موت پڑتی ہے۔ جس طرح بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نئیں اسی طرح پوتے اور نواسے اور پوتی اور نواسی میں کوئی فرق نہیں۔ سب جگر کے ٹکڑے ہیں۔ ہمارے پیغمبر کی تو مقدس نسل ہی بیٹی اور نواسوں سے چلی! یہ نواسے ہی کا غم ہے جو آج بھی رُلا رہا ہے۔
لہو روتا ہوں‘ تڑپتا ہوں‘ جو یہ سوچتا ہوں
کس قدر ہے مجھے محبوب نواسا میرا!!

 

powered by worldwanders.com