Tuesday, April 30, 2024
بحرِ مُردار کا جزیرہ
Wednesday, April 24, 2024
حکومتوں اور پولیس کے درمیان غیر اعلانیہ معاہدہ
یا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعلیٰ یہ حکم دیتیں کہ ان کے پروٹوکول قافلے
( Motorcade)
Thursday, April 18, 2024
کیا جناب چیف جسٹس ملک کی اس بدنامی کا نوٹس لیں گے؟؟
وفاقی دارالحکومت کے وسطی بازار میں ایک دکان ہے جہاں خالص چمڑے کی مصنوعات دستیاب ہیں۔ یہ لوگ اِس گئے گزرے زمانے میں بھی زینیں بناتے ہیں۔ بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے کبھی کبھی وہاں جانا ہوتا ہے اور ان لوگوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے شہروں میں زین ساز‘ شمشیر ساز‘ ظروف ساز اور کئی طرح کے اہلِ حرفہ ہوتے تھے۔
مرے بلخ‘ میرے ہرات شاد رہیں سدامرے کوزہ گر‘ مرے زین ساز سدا رہیں بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے زمانوں میں جو بھی دارالحکومت ہوتا تھا اس میں 32 ذاتیں‘ یعنی 32 پیشے ہوتے تھے تاکہ بادشاہ‘ اس کے عمائدین اور اس کی فوج کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔ جولاہے‘ درزی‘ کفش ساز‘ رنگ ساز‘ کوزہ گر‘ قالین باف‘ مٹھائیاں بنانے والے‘ اسپ فروش‘ نعل لگانے والے‘ سبزی اگانے والے‘ جلدساز اور کئی دیگر کاریگر ہوتے تھے۔ ہر پیشے کا اپنا الگ محلہ ہوتا تھا۔ شاہ اور شاہی محل کے مکینوں کی خدمت ان پیشوں کا اولین مقصد تھا۔ جیسے ترکی میں آج جو کرسٹل (بلور) عام بکتا ہے‘ کسی زمانے میں اس کرسٹل کے کارخانے صرف عثمانی سلاطین کے لیے کام کرتے تھے۔کل بھی میں اس چرم ساز کے پاس بیٹھا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ ہمارے خاندان کی زینیں‘ جو پشت در پشت چلی آرہی تھیں‘ کس حال میں ہیں اور یہ کہ ہندوستانی زینوں اور انگریزی زینوں میں کیا فرق تھا۔ ایک سفید فام آدمی دکان میں داخل ہوا۔ جس طرح چرم ساز نے اس کی آؤ بھگت کی اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس کا پرانا گاہک ہے۔ وہ ایک خاص قسم کے چمڑے کے جوتے بنوانا چاہتا تھا جو اس کی پنڈلیوں کے نصف تک ہوں۔ ان سفید فاموں کے بھی کیا کیا شوق ہیں! ہم پاکستانی اور بھارتی زندگی بھر کی جو پونجی اولاد کے لیے چھوڑ جاتے ہیں‘ یہ سفید فام اس پونجی کو اپنی زندگی میں بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ چرم ساز نے اس سے میرا تعارف کرایا اور یہ بات خاص طور پر بتائی کہ اس کے پاس سو سال سے بھی زیادہ پرانی اس کی خاندانی زینیں ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سفید فام آدمی کی آنکھوں میں مسرت اور تجسس کی چمک آئی۔ اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ اسے پرانی زینوں میں بہت دلچسپی تھی۔ اس نے چترال کے بازار سے ایک بہت پرانی اور نادر زین خریدی تھی۔ اس نے چرم ساز سے کوئی بات کی مگر اس قدر آہستہ کہ میں سن نہ سکا۔ چرم ساز میری طرف متوجہ ہوا۔ کہنے لگا ''وِلیم آپ کے گھر جا کر زینیں دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ بصد شوق مگر ایک بات اسے بتا دو کہ یہ زینیں بیچی نہیں جا سکتیں۔ یہ پیشگی احتیاط میں نے اس لیے کی کہ پہلے ایک ناخوشگوار تجربہ ہو چکا ہے۔ ایک صاحب نے اصرار کے ساتھ (ایک دوست کی سفارش تھی) میری لائبریری دیکھی جس میں آبائی مجموعے کا بھی ایک حصہ پڑا ہے۔ شاہجہان کے زمانے کا ایک قلمی نسخہ دیکھا تو اس پر لٹو ہو گئے اور خریدنے پر اصرار کرنے لگے۔ پوچھا اس میں آپ کی دلچسپی کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے کہ یورپ کی کسی لائبریری کو بیچ دوں گا کہ وہاں ایسے نوادرات کے منہ مانگے دام ملتے ہیں۔ بہت مشکل سے جان چھڑائی۔ولیم کو میں گھر لے آیا۔ زینوں کو اس نے دلچسپی کے ساتھ دیکھا۔ کئی سوال پوچھے۔ معلوم ہوا چرم اور چرم کی مصنوعات کے حوالے سے اس کی معلومات بہت تھیں۔ کیا پتا یہی اس کا کاروبار ہو۔ یہ لوگ ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں نہ پوچھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے چائے پی۔ باتوں باتوں میں اس نے ایک عجیب بات کہی۔ کہنے لگا :یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ تم لوگ خود بھی دنیا کو بتاؤ کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے؟؟ اس اچانک سوال پر ایک لمحے کے لیے میں گڑبڑایا مگر فوراً سنبھل گیا۔ میں نے کہا: پاکستان دہشت گردی کا گڑھ نہیں‘ دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس پر ولیم ہنسا۔ کہنے لگا: ایک ہی بات ہے۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ ملک محفوظ نہیں!! اور تم ساری دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہو کہ پاکستان ایک خطرناک جگہ ہے! غیر محفوظ ہے! یہاں مت آؤ! یہاں سرمایہ کاری نہ کرو! یہاں سیاحت کے لیے نہ آؤ۔ میں نے پوچھا کہ یہ بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ ولیم پھر ہنسا۔ کہنے لگا کہ میں عینی شاہد ہوں۔ تمہیں معلوم ہے اسلام آباد میں صرف دو فائیو سٹار ہوٹل ہیں۔ ایک تو شہر کے شمال میں ہے۔ مگر دوسرا ہوٹل شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ شہر کی تمام مصروف اور بڑی شاہراہیں اس دوسرے ہوٹل کے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ایک طرف ڈپلومیٹک انکلیو ہے۔ دوسری طرف مری اور بارہ کہو جانے والی بڑی شاہراہ ہے‘ تیسری طرف شہر کا سب سے بڑا بازار ہے۔ چوتھی طرف شاہراہِ دستور ہے جس پر سپریم کورٹ واقع ہے‘ قومی اسمبلی ہے اور صدر اور وزیراعظم کے دفاتر اور قیام گاہیں ہیں! اس شاہراہِ دستور کو جانے والا راستہ اسی ہوٹل کے سامنے سے گزرتا ہے۔ تم لوگوں نے اس ہوٹل میں کرکٹ ٹیموں کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ اور ان ٹیموں کی حفاظت کے نام پر یہ تمام بڑی بڑی شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں! میں اور میری بیوی بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہوٹل سے نکل کر کہیں جانا اور واپس ہوٹل میں آنا ایک عذاب سے کم نہیں! آج صبح ناشتے پر ہم غیرملکی ہنس رہے تھے کہ پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ پہلے شاہراہِ عام (Thoroughfare) پر کرکٹ ٹیم کو ٹھہرایا۔ پھر شاہراہِ عام بند کر دی! ہے نہ حماقت کی انتہا!!ولیم چائے پی کر ہماری قومی بے وقوفی پر ہنس کر چلا گیا۔ مگر میں اُس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ یہ حماقت ہے یا سازش؟؟ جس نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کو شہر کے وسط میں ٹھہراؤ اور پھر ان کی حفاظت کے نام پر تمام بڑی شاہراہوں کو بند کردو‘ اس نے وزیراعظم سے بھی دشمنی کی ہے‘ حکومت سے بھی اور عوام سے بھی!! لوگ تو عذاب میں ہیں ہی‘ دنیا بھر کو یہ پیغام بھی جا رہا ہے کہ پاکستان خطرناک ملک ہے۔ پاکستان غیرمحفوظ ہے۔ یہاں کرکٹ ٹیموں کی حفاظت کے لیے بھی شہر کو بند کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟کوئی ہے جو اس حماقت کا نوٹس لے؟ کوئی ہے جو اس سازش کا سد باب کرے؟ کیا وزیراعظم کو معلوم ہے کہ ان کے دفتر سے ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر غدر مچا ہوا ہے؟ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر راستے بند کرنے والوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں! شہر کے اس سب سے بڑے ہوٹل میں ٹھہرنے والے تمام غیرملکی پریشان بھی ہیں اور پاکستانیوں کی عقل پر ماتم کناں بھی!! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو گھُن کی طرح کھانے والے حکومت کے اندر ہی موجود ہیں۔ اندر سے حکومت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ سازش صرف حکومت کے خلاف نہیں‘ ملک کے بھی خلاف ہے! یہ بدنامی ریاست کی بدنامی ہے! ارے کم عقلو! بجائے اس کے کہ کرکٹ ٹیموں کو ایسی جگہ ٹھہراؤ جہاں ہر کسی کی نظر ہی نہ پڑے‘ انہیں شہر کے وسط میں‘ شاہراہِ عام کے کنارے ٹھہرا دیا ہے اور پھر تمام راستے بند کرکے اعلان عام کر رہے ہو کہ ٹیمیں یہاں ٹھہری ہوئی ہیں!! تم تو اُس گاؤدی کی طرح ہو جو بینک سے رقم نکلوا کر بیگ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے‘ سینے سے لگائے‘ کبھی دائیں طرف دیکھتا ہے کبھی بائیں طرف! بچہ بھی جان سکتا ہے کہ اس کے پاس رقم ہے! اور بیگ چھینا جا سکتا ہے!!کیا عالی قدر چیف جسٹس ریاست کو بدنام کرنے کی اس سازش کا نوٹس لیں گے؟؟
Tuesday, April 16, 2024
وزیراعظم کے اصل مخالف
Monday, April 15, 2024
نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں!
بنانا ری پبلک؟؟
Tuesday, April 09, 2024
پُر اسرار خطوط کون بھیج رہا تھا؟
Monday, April 08, 2024
سو سال بعد بھی یہی حال ہو گا
Placebo
Thursday, April 04, 2024
پاکستان اور افغانستان …جان اور جانان
''جب تک افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس‘ پناہ گاہیں اور سہولت کاری نہیں چھوڑے گا تب تک سلسلہ چلتا رہے گا۔ افغان حکومت کے روز بروز بدلتے رویے سے ہمارے پاس ان کے لیے آپشن محدود ہو رہے ہیں۔ جس طرح ساری دنیا میں بارڈر ہیں‘ پاک افغان بارڈر کو بھی ویسا ہونا چاہیے۔ لوگ ویزا لے کر پاکستان آئیں اور کاروبار کریں۔ فری کھاتے میں جو لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں اس میں دہشت گرد آتے ہیں۔ بارڈر کی جو بین الاقوامی حیثیت ہوتی ہے‘ اس وقت اس کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ ہم نے افغانستان کا سامان بھارت بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ ہم نے افغانستان کے لیے جنگیں لڑیں۔ قربانیاں دیں۔ افغانستان سے دہشت گردی اور سمگل شدہ چیزیں آتی ہیں‘‘۔یہ بیان ہمارے محترم وزیر دفاع کا ہے اور کل یا پرسوں کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ وزیر دفاع نے کہا ہے‘ اس میں سے کون سی بات ہے جو نئی ہے اور پہلے سے معلوم نہیں تھی؟ کیا اس میں دو آرا ہو سکتی ہیں کہ افغان بارڈر پر انہی بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے جو ساری دنیا میں نافذ ہیں؟ کیا بچے بچے کو نہیں معلوم کہ یہ جو افغان بارڈر پر کھلا کھاتہ چل رہا ہے‘ یہ دہشت گردوں کے لیے بہترین سہولت کاری ہے؟ بارڈر آپ کا ہے! آپ اس پر ویزے کی پابندی نافذ کیجئے۔ آپ کو روکا کس نے ہے؟ مگر المیہ یہ ہے اختیارات ہمارے وزیروں اور حکومتوں کے پاس تھے کب؟؟ فراق گورکھپوری کی یاد آ گئی؛دلِ آزاد کا خیال آیا ؍ اپنے ہر اختیار کو دیکھامیر تقی میر کو بھی ہماری حکومتوں سے کافی ہمدردی ہے۔ حکومتوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کیچاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیایہ درست ہے کہ افغانوں کے لیے ہم نے جنگیں لڑیں اور قربانیاں دیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا افغانوں نے ہماری منت کی تھی؟ سارے فیصلے پاکستان کے اپنے تھے۔ کیا کبھی ہم نے عام افغان کے مؤقف پر بھی غور کیا ہے؟ افغان کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کرتے رہے‘ امریکی ڈالروں کے لیے کرتے رہے۔ ان کا دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ ہم ان کے اندرونی معاملات میں دخل دیتے ہیں۔ یہ بات بھی عام کہی جاتی ہے کہ پاکستان افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھتا ہے۔ ہم ان الزامات کو تسلیم کریں یا نہ کریں‘ افغانوں کے مؤقف کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔افغانستان کے مسئلے کی جڑ ضیاء الحق کے عہد میں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ افغان ایشو پر بات ہو اور اس مردِ مومن مردِ حق کا 'ذکرِ خیر‘ نہ ہو! اب تو اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ امریکی جنگ تھی! اگر امریکی جنگ نہیں تھی تو کیا اربوں ڈالر امریکہ نے اسلام کی اشاعت کے لیے دیے تھے؟ ضیا کی باقیات آج بھی کہے جا رہی ہیں کہ افغانستان کے بعد سوویت یونین نے پاکستان میں آ جانا تھا۔ جیسے پاکستان کوئی ترنوالہ ہو!! جیسے پاکستان کے بعد اس نے بھارت برما اور تھائی لینڈ میں بھی جانا تھا۔ چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ روس کا مقابلہ افغانستان ہی میں کرنا تھا ورنہ اس کی اگلی منزل پاکستان ہوتی۔ مگر یہ کہاں کا اصول اور کون سی حب الوطنی تھی کہ ہم اپنے ویزا سسٹم کا گلا گھونٹ دیں۔ سرحدوں کو مٹا دیں! دنیا بھر کے جنگجو پاکستان میں لا بسائیں اور افغان مہاجرین کو پورے ملک میں پھیلا کر انہیں پاکستان کا باپ دادا بنا دیں؟ یہ ضیاء الحق اور اس کے ہمنواؤں کا وہ ظلم ہے جس کی قیمت پاکستان آج بھی ادا کر رہا ہے اور بھاری قیمت ادا کر رہا ہے! آپ اندازہ لگائیے کہ یہ غیر ملکی نادرا میں بھی جا گھسے تھے اور وزیر دفاع نے یہ انکشاف تو حال ہی میں کیا ہے کہ ایسے دو غیر ملکی ہماری فوج میں بھی پائے گئے تھے! امریکی جنگ میں شریک ہو کر ضیاء الحق کو یہ فائدہ بھی ہوا کہ اس کی ناروا آمریت کو مغرب کی اشیرباد حاصل ہو گئی۔دیگر افغانوں کی طرح طالبان لیڈروں نے بھی پاکستان میں بہت وقت گزارا۔ ان کی شوریٰ کا تو نام ہی کوئٹہ شوریٰ تھا۔ طالبان رہنماؤں نے اپنے خاندانوں کو پاکستان میں رکھا۔ ملا اختر منصور کی کراچی میں پانچ جائدادیں تھیں۔ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے پر خوشی بھی بہت منائی۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ بیان دیا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر طالبان کے لیے بہت کام کیا مگر طالبان کی حکومت‘ ماضی کی افغان حکومتوں کی طرح‘ پاکستان کے ساتھ سرد مہری ہی برت رہی ہے۔ طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کر رہے۔ پاکستان نے کروڑوں روپے خرچ کر کے سرحد پر جو باڑ لگائی تھی‘ اسے جگہ جگہ نوچ کر اکھاڑ پھینکا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔پاکستان کے وزیر دفاع نے جو کچھ کہا ہے‘ درست کہا ہے۔ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کا بیان پوری حکومت کی طرف سے ہے۔ اب وہ صرف ایک کام کریں کہ اپنے بیان کو عملی جامہ بھی پہنا دیں۔ وہ حکومت اور مقتدرہ کے درمیان اس سلسلے میں پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور افغان بارڈر کو مستحکم کرنے میں حکومت اور مقتدرہ کو ایک ہی صفحے پر لا سکتے ہیں۔ افغانوں کو اگر یہ شکوہ ہے کہ پاکستان ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو افغانوں کو تو خود بارڈر پر ویزا اور پاسپورٹ کے سسٹم کو مضبوط کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ مل کر سرحدی قوانین کو نافذ کرنا چاہیے۔پاکستان کے اور بھی پڑوسی ہیں۔ چین‘ بھارت اور ایران ہے۔ جنوب میں سمندر ہے۔ چین کے ساتھ تو پاکستان کی بے مثال دوستی ہے۔ کیا ان ملکوں سے آنے والے ویزے کے بغیر آتے ہیں؟ کیا ایران کا بارڈر افغان بارڈر کی طرح شاہراہِ عام بنا ہوا ہے؟ یہ کون سا انصاف ہے کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے مگر اس کے باشندے پاکستان میں اس طرح آتے جاتے رہیں جیسے افغانستان‘ پاکستان کا حصہ ہے؟ پھر‘ افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کی بات ہو تو احتجاج کیوں ہوتا ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ افغان ایک غیرتمند قوم ہے اور عزتِ نفس کے لحاظ سے بہت حساس ہے۔ طالبان حکومت اگر افغانستان کی نمائندہ اور جائز حکومت ہے تو خود طالبان حکومت کو چاہیے تھا کہ پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کو واپس بلاتے اور کہتے کہ ملک آزاد ہو گیا ہے‘ آؤ! ہم سب مل کر ملک کی ترقی کیلئے مل کر کام کریں!افغانستان کے ساتھ ہمارا مذہبی‘ ثقافتی اور ادبی رشتہ صدیوں سے ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنا ہو گا اور سرحدوں پر بین الاقوامی قوانین کا نفاذ کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی پاکستان پر لازم ہے کہ افغانستان کے جائز شکوؤں کو دور کرے۔ افغان مریضوں اور سٹو ڈنٹس کو ویزا آسانی سے حاصل ہونے کی سہولت مہیا ہونی چاہیے۔ افغان مہاجرین نے پاکستان میں جو کچھ کمایا ہے اسے ساتھ لے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کرنی چاہیے۔ افغان حکومت بھی‘ امید ہے‘ پاکستان کی گزارشات پر دھیان دے گی۔ فارسی افغانوں کی اپنی زبان ہے۔ وہ صائب کے اس شعر کو اچھی طرح سمجھتے ہیں:گر چہ جان ما بہ ظاہر ہست از جانان جداموج را نتوان شمرد از بحر بی پایان جداپاکستان اور افغانستان کا تعلق وہی ہے جو جان اور جانان کا ہے!! وما علینا الا البلاغ
Tuesday, April 02, 2024
بابے …(2)
Monday, April 01, 2024
سیاست سے ذرا ہٹ کر
کالم تو ایک اور موضوع پر لکھنا تھا۔ وزیر خارجہ کا دل اپنی وزارت میں لگ نہیں رہا۔ کابینہ کی کمیٹی جو نجکاری کے لیے بنائی گئی ہے‘ اس کی صدارت وزیر خارجہ کو دے دی گئی ہے۔ ایک اور طرفہ تماشا یہ ہوا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل
(Council of Common Interests)
یعنی
CCI
میں سے وزیر خزانہ کو باہر نکال دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ کو شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ کونسل صوبوں کے درمیان متنازع مسائل حل کرنے کے لیے ہے۔ یہ مسائل‘ زیادہ تر‘ مالیات سے متعلق ہوتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ جسے بھی کونسل کا رُکن بنائیں۔ ارے بھئی! صوابدید کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مچھلیوں کو دریا سے نکال کر درختوں پر آباد کر دیا جائے۔ صوابدیدی اختیارات کے لیے شرط ہے کہ عاقلانہ اور مدبرانہ طور پر
Judiciously