''ایک صاحب انتیس رمضان کو فلاں بزرگ کے پاس گئے۔ اُن کے گھر سے ایک بہت خوبصورت نوجوان‘ بڑی سج دھج کے ساتھ‘ خوش خوش! باہر نکل کر جا رہا تھا۔ یہ صاحب اندر گئے اور بزرگ سے پوچھا: حضرت! یہ اتنا خوبصورت نوجوان جو بہت خوش دکھائی دے رہا تھا‘ کون تھا؟ بزرگ نے فرمایا: یہ انسان نہیں تھا۔ یہ عید کا چاند تھا! اور پوچھنے آیا تھا کہ حضرت! انتیس کو نکلوں یا تیس کو؟؟‘‘
اس نام نہاد واقعے پر مشتمل وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ ایک شخص یہ کہانی سنا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگ سن کر اَش اَش کر رہے ہیں۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور ایسے لوگ اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں! ان میں اَن پڑھ بھی ہیں۔ نیم تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں! ایسے بھی ہیں جو ہر سال فلاں صاحب کا درشن کرتے ہیں‘ اس یقین کے ساتھ کہ اندھوں کو بینائی مل جاتی ہے۔ ہم چند عمر رسیدہ‘ پرانے دوست‘ ایک دن کلب میں بیٹھے ہوئے‘ بیماریوں اور ڈاکٹروں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ہم میں سے ایک‘ جو ہم میں سے کسی سے بھی کم پڑھا لکھا نہیں تھا‘ گویا ہوا کہ اس کا پوتا بیمار ہوا تو وہ اسے فلاں مزار پر لے گیا اور وہ تندرست ہو گیا۔ آپ میں سے بہت سے حضرات اسے
Placebo
کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے مگر آپ ان ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کا کیا کریں گے جو چاند والی داستان کو سچ سمجھتے ہیں! اور ایسی لاتعداد داستانوں پر ایمان رکھتے ہیں!
میں کوئی محقق ہوں نہ سائنسدان نہ فلسفی نہ عالم فاضل! مگر ایک اوسط درجے کا‘ کچھ کچھ پڑھا لکھا آدمی ضرور ہوں! اس صورتحال پر جتنا غور کیا ہے‘ ایک ہی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ وہ یہ کہ ہمیں گھر سے‘ نہ سکول کالج یا یونیورسٹی سے‘ نہ مدرسہ سے‘ یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ہم دعویٰ کرنے والے سے ثبوت مانگیں! ہمیں یہ بھی نہیں سکھایا جاتا کہ ہماری معلومات غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کرتا ہے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کر کے‘ ثبوت مان لیں! ماننا تو دور کی بات ہے‘ ہم ثبوت دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے کہ جو بات ذہن میں بٹھا لی ہے‘ اس سے پھسل نہ جائیں!! یہ رویہ ہماری پوری زندگی کو قبضے میں لیے ہوئے ہے۔ گھر سے لے کر باہر تک۔ عقیدے سے لے کر علاج تک‘ معاشرت سے لے کر سیاست تک‘ ہر شعبے میں‘ ہر میدان میں‘ ہم دعویٰ کرنے والے سے ثبوت نہیں مانگتے۔ یہ ہمارے ڈی این اے ہی میں نہیں ہے۔ ہمیں صرف آمنّا و صدقنا کہنا سکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے‘ اس تشخیص کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ہمارے دعوے یا ہمارے یقین کے رد میں کوئی ثبوت پیش کرے تو ہم اس ثبوت کو دیکھتے ہیں نہ مانتے ہیں!
اس رویے کا سب سے بڑا شکار مذہب ہے! یہ اس لیے کہ ہم مذہب واعظ سے سیکھتے ہیں۔ استاد سے نہیں! استاد سوال پوچھنے پر اُکساتا ہے جبکہ واعظ سے کچھ پوچھنا ممکن ہی نہیں! وہ تو وعظ کر کے یہ جا وہ جا!! اسی لیے اگر واعظ کہتا ہے کہ حوریں اسّی اسّی فٹ لمبی ہوں گی تو اول تو اس دعوے کے حق میں ثبوت مانگنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔ سب آنکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں! اور اگر ایک لاکھ میں ایک شخص ثبوت مانگنا بھی چاہے تو واعظ تک اس کی رسائی ہی نہیں۔ اگر وہ وعظ کے دوران اُٹھ کر پوچھتا ہے تو اس کی زندگی کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے!! یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے مذہبی خیالات‘ یہاں تک کہ عقائد بھی‘ قرآن پاک یا صحیح احادیث پر نہیں‘ سنی سنائی باتوں‘ داستانوں اور قصوں پر مشتمل ہیں۔
اس صورتحال کا سب سے مہلک شاخسانہ شخصیت پرستی ہے۔ ہم جس شخصیت کو بھی پسند کرتے ہیں‘ اس کی کسی بات کو چیلنج کرنا تو دور کی بات ہے‘ اس پر شک تک نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے دفاع میں کٹنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی کی بیماری جب مذہبی دائرے میں داخل ہوتی ہے تو اس کا نام ''اکابر پرستی‘‘ ہو جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے مگر حقیقت ہے کہ اکابر کی عبارتوں اور دعاوی کے دفاع میں زندگیاں گزر جاتی ہیں اور نسلیں خرچ ہو جاتی ہیں!
ثبوت ایک ایسی چڑیا ہے جس کا سیاست کے شعبے میں بھی گزر نہیں! چند دن پہلے ہی الزام لگا کہ ایک وزیراعلیٰ کے لیے نیا ہیلی کاپٹر خریدا جا رہا ہے! اس کے جواب میں متعلقہ وزیر نے دعویٰ کیا کہ یہ ہیلی کاپٹر مریضوں کے لیے خریدا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندھے مقلد اس دعویٰ کو سچ مان لیں تو کوئی تعجب نہیں۔ مگر اس دعویٰ کا ثبوت کیا ہے؟ کیا اس خریداری کا مطالبہ محکمہ صحت نے یا کسی ہسپتال نے یا ڈاکٹروں کی کسی باڈی نے یا مریضوں نے کیا ہے؟ کیا یہ خریداری محکمہ صحت کے بجٹ سے کی جا رہی ہے؟ کیا سڑکوں پر چلنے والی ایمبولینسوں کی تعداد صوبے میں تسلی بخش ہے کہ اب صرف ہیلی کاپٹر کی کمی ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ جو ہیلی کاپٹر مریضوں کے لیے ہوتا ہے اسے ایئر ایمبولنس کہتے ہیں! اس میں میڈیکل آلات نصب ہوتے ہیں۔ ابتدائی طبی امداد اور ٹیسٹوں کے لیے سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔ اس میں ای سی جی‘ پیس میکر‘ آکسیجن اور دیگر متعلقہ سروسز ہوتی ہیں۔ وزیر سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر ہیلی کاپٹر حاکم کے لیے نہیں‘ بلکہ بقول ان کے‘ مریضوں کے لیے منگوایا جا رہا ہے تو کیا یہ ایئر ایمبولنس ہے؟
بدقسمتی سے ہمارے تارکینِ وطن بھی‘ جن کی بھاری اکثریت ترقی یافتہ ملکوں میں مقیم ہے‘ شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان ملکوں میں بات بات پر ثبوت مانگا جاتا ہے۔ ایک گیارہ سالہ بچے کو‘ جو آسٹریلیا میں رہتا ہے‘ میں نے ایک بات بتائی۔ اس نے سن کر پوچھا ''اس کاEvidence کیا ہے؟‘‘ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تارک وطن کو ایک سیاسی لیڈر کی کرپشن کے بارے میں ثبوت دیا تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ ناممکن ہے۔ اسے تو پیسے کی ضرورت ہی نہیں!! یہ حیرت انگیز بلکہ دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے تارکین وطن ''ہیرو ورشپ‘‘ میں ہم لوگوں کی نسبت جو پاکستان میں رہتے ہیں‘ بہت آگے ہیں!
اندھا اعتقاد اور ثبوت نہ مانگنا ایک ناسور ہے جس نے ہمارے معاشرے کو ذہنی طور پر اپاہج کر رکھا ہے۔ یہاں بابوں‘ تعویذ فروشوں‘ جن نکالنے والوں اور میٹھے سے شوگر کی بیماری کا علاج کرنے والوں کا راج ہے۔ آپ کو ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی ایسا کلینک نہیں ملے گا جس پر بورڈ لگا ہو کہ ''یہاں تمام دائمی امراض کا تیر بہدف علاج کیا جاتا ہے‘‘۔ آپ کو وہاں مسیحی یا یہودی شہد کے اشتہار بھی نہیں نظر آئیں گے۔ خوابوں کا کاروبار بھی وہاں عنقا ہے۔ کروڑوں اربوں روپوں کی پیری مریدی کی انڈسٹری بھی صرف ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہے۔ ایسی انڈسٹری کہ جس پر ٹیکس بھی نہیں لگتا! سو سال پہلے بھی یہی حال تھا۔ جبھی تو اقبال نے کہا تھا:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو دہاتی ہو‘ مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
یقین کیجیے کہ سو سال بعد بھی یہی حال ہو گا!!
No comments:
Post a Comment