یہ آج کی بات نہیں‘ سینکڑوں سال سے یہی ہو رہا ہے!
تغلقوں‘ خلجیوں‘ لودھیوں اور مغلوں کے عہد میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ آج کے پاکستان میں‘ آج کے جمہوری‘ یا‘ نام نہاد جمہوری دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مغل بادشاہ جب سفر کرتے تھے تو ہراول دستے کے پہریدار‘ راستے میں آنے والے راہگیروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے تھے۔ اکثر راہگیر اُن کے ڈنڈوں اور تلواروں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اُتر جاتے تھے۔ مگر شاہی جلوس کی رفتار کا اتنا پریشر ہوتا تھا کہ ان کیڑوں مکوڑوں کی موت پر رکتا کوئی نہیں تھا۔ آج بھی جب کوئی حکمران راستے میں ہوتا ہے تو ان کی پروٹوکول کی گاڑیوں کے نیچے آ کر مرجانے والے کیڑوں مکوڑوں کے لیے کوئی نہیں رکتا!
تیرے امیر مال مست‘ تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی
پنجاب کی وزیر اعلیٰ دن رات محنت کر رہی ہیں۔ کیا عجب مریم سپیڈ‘ شہباز سپیڈ اور محسن سپیڈ‘ دونوں سے بازی لے جائے۔ بہت خوش آئند بات ہے۔مگر ک
یا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعلیٰ یہ حکم دیتیں کہ ان کے پروٹوکول قافلے
( Motorcade)
کے جس ڈرائیور نے‘ میڈیا اطلاعات کی رُو سے‘ تئیس سالہ ابو بکر کو ہلاک کیا‘ اسے گرفتار کیا جائے۔ کاش وہ ہلاک ہونے والے نوجوان کی ماں اور باپ کے گھر جا کر افسوس کا اظہار کرتیں! شاہی سواریوں کی لپیٹ میں آنے والا کبھی پہلے بچا نہ آئندہ بچے گا! یہ پروٹوکول قافلے حکمرانوں کے خوف کی وجہ سے رکتے بھی نہیں کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ رُک کر زخمی کو ہسپتال پہنچانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا!
میڈیا نے بتایا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر سے کرتارپور گئیں۔ تو پھر ایلیٹ فورس کی پروٹو کول گاڑیاں شاہراہوں پر کیا کر رہی تھیں؟ یہ بھی زندگی گزارنے کا ایک سٹائل ہے‘ ایک انداز ہے‘ ایک ادا ہے‘ ایک شیوہ ہے کہ حکمران فضا میں سفر کرے اور پروٹوکول کے کارواں‘ فضا کے نیچے‘ زمین پر چلیں!!
اطلاعات کے مطابق موت کے گھاٹ اُترنے والا نوجوان ابو بکر ماں باپ کا واحد سہارا تھا۔ بیٹے کی دردناک موت کی خبر سُن کر بوڑھے باپ کی حالت خراب ہو گئی۔اسے طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جانا پڑا۔ایسے تمام واقعات کے بعد ایک خاص ڈرل دہرائی جاتی ہے۔ سب سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ حکمرانِ وقت نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس کے بعد پولیس کا بیان آتا ہے جو عام طور پر عینی گواہوں کے بیانات سے مختلف ہوتا ہے۔ آخری خبر یہ ہوتی ہے کہ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ بس! اس کے بعد اک لمبی چُپ! رہا مجرم تو وہ کبھی نہیں پکڑا جاتا! پکڑا جائے تو سزا نہیں دی جاتی۔ سزا دے بھی دی جائے تو وہ مذاق کی طرح ہوتی ہے!
یوں تو ہمار ی کارکردگی تمام شعبوں میں ناقابلِ رشک ہے مگر جو قتل عام شاہراہوں پر ہورہا ہے اس کے حساب سے ہم اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ ہماری حکومتوں سے آج تک ٹریفک کا نظام درست نہ ہو سکا۔ یوں لگتا ہے ایک خانہ جنگی ہے جو سڑکوں پر جاری ہے۔ اس خانہ جنگی میں ہر مذہب‘ ہر مسلک‘ ہر نسل اور ہر عمر کا پاکستانی حصہ لے سکتا ہے۔ صلائے عام ہے۔ کوئی سا ہتھیار لے کر سڑک پر آجائیے۔ موٹر سائیکل‘ کار‘ ویگن‘ بس‘ ٹرک‘ جو ہتھیار ہاتھ آتا ہے‘ بس لے کر نکل پڑیے۔ کسی کو نیچے دے دیجیے۔ کسی کو ٹکر ماریے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر ہزار ہا انسانوں کو قتل کر چکے ہیں۔ ان کے ڈرائیور جانوروں سے بد تر ہیں۔ ناخواندہ اور مادر پدر آزاد۔ راتوں کو ان خطرناک گاڑیوں کے آگے یا پیچھے بتیاں ہی نہیں ہوتیں! آپ دوسرے شہروں کی تو بات ہی نہ کریں۔ وفاقی دارالحکومت کی کسی بھی بڑی شاہراہ کے کنارے شام ڈھلنے کے بعد کھڑے ہو جائیے۔ ہر پانچ منٹ کے بعد آپ کو ایک گاڑی یا ایک موٹر سائیکل لائٹ کے بغیر ملے گا۔امریکہ میں ایک عزیز نے بتایا کہ اگر آپ سگنل پر رکے ہیں اور آپ کی گاڑی کے اگلے پہیوں کا رُخ بھی دائیں یا بائیں طرف مڑا ہوا ہے تو ٹریفک والے پکڑ لیں گے۔دو بنیادی اصول ہیں۔ چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر آنے والا ہر حال میں رکے گا۔ اور اوور ٹیک بائیں طرف سے نہیں کیا جائے گا۔ یہ دونوں بنیادی اصول یہاں پامال ہوتے ہیں۔ آپ بڑی شاہراہ پر جا رہے ہیں مگر آپ کو ہر دم کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی چھوٹی سڑک سے کوئی سواری بڑی شاہراہ پر‘ ادھر اُدھر دیکھے بغیر‘ چڑھ آئے گی اور آپ کے سامنے آجائے گی! جو قوم ایٹمی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ٹریفک سسٹم اس کا جنگل کی یاد دلاتا ہے‘ اس قوم کی حالت پر‘ اور عقل پر‘ ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!
کتنے ہی لوگ شاہراہوں پر مر چکے‘ کتنے ہی لکھنے والے اس صورتحال پر رو چکے‘ شور مچا چکے‘ دہائی دے چکے‘ الیکٹرانک میڈیا شاہراہوں پر برپا قتلِ عام کی خبریں دے دے کر تھک چکا مگر زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد‘ ہمارے حکمرانوں اور ہماری پولیس کے کان پر جوں نہیں رینگتی! حکمرانوں کو ٹریفک کی لاقانونیت سے کبھی پالا نہیں پڑا۔ انہیں کہیں جانا ہو تو فضا میں اُڑتے پرندوں اور زمین پر رینگتے حشرات الارض کو بھی روک دیا جاتا ہے‘ انسان تو کسی شمار قطار میں نہیں! رہی پولیس‘ تو یہ فقیر اپنی یہ تھیوری پہلے بھی پیش کر چکا ہے کہ حکمرانوں اور پولیس کے درمیان ایک غیر تحریری‘ غیر اعلانیہ‘ معاہدہ کامیابی سے چل رہا ہے۔معاہدہ یہ ہے کہ پولیس حکمرانوں کی باندی بن کر رہے گی۔ ان کے کہنے پر پکڑے گی‘ ان کے کہنے پر چھوڑے گی۔ ان کے اشارۂ ابرو پر ہر غلط کام کرے گی۔ یہی کچھ ہو رہا ہے اور ہر حکمران‘ ہر پارٹی کے دور میں ہورہا ہے۔ اس کے بدلے میں پولیس کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ عیدی اکٹھی کرے‘ تھانوں میں ملزموں کو ہلاک کر دے‘ ماورائے عدالت قتل کر دے‘ لوگوں کے گھروں میں گھس جائے‘ چوروں کی سر پرستی کرے‘ سڑکوں پر راہگیروں کو مار دے‘ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ایک دن کے‘ صرف ایک دن کے اخبارات میں‘ صرف پنڈی اسلام آباد میں ہونے والی ڈکیتیوں اور چوریوں کی خبریں گن لیجیے اور پھر ان شہروں میں متعین پولیس کے افسروں اور جوانوں کی تعداد پر غور کیجیے۔ انہیں ملنے والی تنخواہوں‘ گاڑیوں اور دیگر بیسیوں مراعات کا حساب لگائیے۔آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے!
حکومت کا بنیادی فرض کیا ہے؟ عوام کی جان‘ عزت اور مال کی حفاظت!! کیا ہماری حکومتیں یہ بنیادی فرض ادا کر رہی ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! میرے سمیت ہر شخص نالہ کُناں ہے کہ سیاسی حکومتوں کو کُلی اختیارات نہیں دیے جا رہے۔ کئی پالیسیاں مقتدرہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہے! مگر سوال یہ ہے کہ جو کچھ حکومتوں کے اختیار میں ہے‘ کیا وہ کر رہی ہیں؟ ہم ٹریفک کی بد حالی کا رونا رو رہے ہیں۔ کیا یہ بھی سیاسی حکومتیں نہیں کر سکتیں؟ اس کے لیے تو امریکہ سے پوچھنا ضروری ہے نہ چین اور سعودی حکومت کو اعتماد میں لینا ہے نہ مقتدرہ کی اشیرباد لازم ہے۔ اللہ کے بندو! تم تو یہ بھی نہیں کر سکتے! کیا کسی وزیر اعظم نے یا کسی صوبے کے حاکم نے ٹریفک پولیس کے سربراہ کو بلا کر وارننگ دی ہے کہ اس ہفتے ٹریفک کے اتنے حادثے ہوئے ہیں‘ مجھے اگلے ہفتے کی رپورٹ چاہیے! مگر عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت ترجیحات میں شامل ہی نہیں! ترجیحات کیا ہیں؟ تام جھام! تزک و احتشام! شان و شوکت! پاؤں دھرنے کے لیے سرخ قالین! جاہ و جلال! پروٹوکول کے لمبے چوڑے تیز رفتار قافلے! موٹر کیڈز ! جنہیں دیکھ کر عوام سہم جائیں! رعب میں آجائیں! یہی ہوتا رہا ہے۔ یہی ہو رہا ہے! یہی ہوتا رہے گا!
No comments:
Post a Comment