''جو مسلمان درخت لگائے یا فَصل بوئے‘پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شمار ہو گا۔ (صحیح بخاری)
''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد)
جو کوئی درخت لگائے‘پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے‘وہ اس کیلئے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔(مسند احمد )
عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے‘ نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: جو بیری کا درخت کاٹے گا‘ اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔(سنن ابو داؤد)جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: کسی بچے کو قتل نہ کرنا‘ کسی عورت کو قتل نہ کرنا‘ کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا‘ چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا‘ درختوں کو نہ کاٹنا۔(بیہقی)
یہ وہ ارشادات ہیں جو کم و بیش ہر مسلمان نے سنے ہیں اور بارہا سنے ہیں۔ اور یہ بات تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ کفار سے جہاد کے دوران بھی فصلوں‘ کھیتوں اور درختوں کو تباہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ 25 مئی کو جو کچھ اسلام آباد میں ہوا وہ کفار کے ساتھ جہاد تھا نہ کوئی جنگ تھی! اس دن جو کچھ درختوں کے ساتھ کیا گیا‘ کم از کم اس کالم نگار کے ناقص علم کی رُو سے تاریخ میں شاید ہی ہوا ہو۔ خاص طور پر جب یہ ملکی آبادی کے ایک حصے کا محض سیاسی احتجاج تھا۔درختوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں نذرِ آتش کیا گیا۔یہ نہ سوچا گیا کہ ان درختوں پر جن پرندوں کا بسیرا ہے‘ ان کے بچے بھی ہیں۔ ان کے انڈے بھی ہیں۔ ان کے گھر بھی ہیں! درخت جاندار ہیں اور پرندے ذی روح! ان جانداروں کا‘ ان پرندوں کا‘ ان پرندوں کے معصوم بچوں کا اپنے پروردگار سے براہ راست رابطہ بھی ہے! اگر آگ لگانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کسی داروگیر کا شکار نہیں ہوں گے تو یہ ان کی بھول ہے!یہ درخت اور یہ پرندے رات دن‘ صبح شام‘ اپنے خالق کی تسبیح کرتے ہیں۔
ہر گیاہی کہ از زمین روید
وحدہ لا شریک لہ گوید
زمین سے پیدا ہونے والاگھاس کا ہر تنکا وحدہ لا شریک کا ورد کرتا ہے۔ ان درختوں کے پتے چھاؤں بُنتے ہیں اور اس چھاؤں کو جھلستی زمین پر پھیلا دیتے ہیں۔ یہ درخت پھل عطا کرتے ہیں۔ یہ بارش برسانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ! ان کی لکڑی ہمارے لیے زندگی بخش ہے۔ کیا آپ نے کسی درخت کو کم ظرف دیکھا ہے! کیا کبھی کسی درخت نے کہا کہ فلاں میرا ثمر کھائے اور فلاں نہ کھائے؟ کیا کسی درخت نے کبھی یہ کہا کہ فلاں میری چھاؤں سے دور رہے! درختوں اور پرندوں کی سچائی کی وجہ سے انسانوں کے سر سے عذاب ٹلتا ہے! یہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال کے بزرگ درخت تھے جنہیں جیتے جی آگ کے شعلوں کی نذر کیا گیا۔ اگر اُس وقت آسمان سے پتھر نہیں برسے تو یہ کوئی نہ گمان رکھے کہ کبھی نہیں برسیں گے! نہیں نہیں! اس کا حساب ہو گا! اس نمرودی کارروائی کا جواب دینا ہو گا۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں!کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا! فرشتے اس قتلِ عام کو کبھی نہیں بھول نہیں سکتے۔ وہ حکم کے منتظر ہیں!پرندوں کی فریاد کہکشاؤں سے پرے گئی ہے۔ ان کے بچوں کی چہکار کو مارنے والے اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے! کیا آگ لگانے والوں کے بچے نہیں ہیں ؟ کیا ان قاتلوں کے گھر نہیں ہیں ؟ دستِ قدرت کے سامنے ان ظالموں کے گھر‘ پرندوں کے گھونسلوں سے زیادہ کمزور ثابت ہوں گے! چہکنے والے ایک ایک بچے کابدلہ لیا جائے گا !
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ یہ ظالم‘ یہ قاتل کون تھے؟ کیا یہ تحریک انصاف والے تھے ؟ کیا یہ شر پسند تھے جو تحریک انصاف کے حامیوں میں گھسے ہوئے تھے؟ کیا یہ وہ لوگ تھے جو تحریک انصاف کو بدنام کرنا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس ملک میں ایک عدد حکومت ہے اور ایک عدد پارلیمنٹ ہے! ظلم تو ہوا مگر اس سے بڑھ کر یہ ظلم ہوا کہ حکومت نے درختوں کے قتلِ عام کا کوئی خاص ذکر کیا نہ تشویش ہی کا اظہار کیا۔ پارلیمنٹ میں کسی کا دل لرزا نہ کسی کے دل میں خدا کا خوف پیدا ہوا۔کوئی قراردادِ مذمت تک پیش نہ کی گئی۔ یہ حکومت کا کام تھا کہ درختوں کو آگ لگانے والوں کو پکڑتی! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایک ظالم بھی نہ پکڑا جائے! جو حکومت درختوں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ انسانوں کی حفاظت کیسے کرے گی ؟ یہ کیسی حکومت ہے کہ جب عدالت نے جی نائن کا میدان جلسے اور احتجاج کے لیے مقرر کر دیا تو لوگوں کو ڈی چوک میں آنے سے روک ہی نہ سکی! عمران خان کے آنے سے بہت پہلے‘ لوگ‘ کسی قیادت کے بغیر‘ ڈی چوک تک کیسے پہنچ گئے ؟ حکومت کہاں تھی؟ حکومت نے کیوں نہ روکا؟ درختوں کو آگ لگانے والوں کو پکڑنا کس کا فرض تھا؟ اگر حکومت کا نہیں تھا تو حکومت مطلع فرمائے کہ کس کا فرض تھا؟ ایک طرف حکومت کا یہ موقف ہے کہ لوگ باہر نہیں نکلے اور بہت کم تھے! اگر کم تھے تو پھر بھی حکومت کچھ نہ کر سکی ؟ عدالت نے ایک جگہ کا تعین کر دیا تھا۔ حکومت کے پاس‘ لوگوں کو ڈی چوک تک آنے سے روکنے کا پورا پورا جواز موجود تھا ! درختوں کوجلانے کی ایف آئی آر کس کے خلاف کٹنی چاہیے؟
عمران خان نے 28 مئی کی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ درختوں کو جلانے والے (ن) لیگ کے لوگ تھے اور پولیس! خان صاحب سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا آپ نے اس ضمن میں کوئی انکوائری کی یا کرائی ہے ؟ کیسے معلوم ہوا کہ یہ مجرم (ن) لیگ سے اور پولیس سے تعلق رکھتے تھے ؟ کیا کسی کو آپ کی جماعت نے آگ لگاتے ہوئے پکڑا جو (ن) لیگ کا نکلا ؟ کیا آپ نے آگ لگانے والوں کی شناخت کی یا کرائی ؟ آپ کس طرح یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آگ لگانے والے تحریک انصاف سے تعلق نہیں رکھتے تھے ؟ بغیر ثبوت کے یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
مگر لطف کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے اس الزام کو حکومت چیلنج نہیں کر سکتی ! اگر چیلنج کرے گی تو جواب میں یہ پوچھا جائے گا کہ‘‘ پھر آگ لگانے والے کون تھے‘‘ ؟؟ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ آگ لگانے والے (ن) لیگ کے تھے نہ پولیس کے اور اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آگ لگانے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے تو پھر بھی حکومت ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتی ! جب پہلے درخت کو آگ لگی تو پولیس فوراً جائے واردات پر کیوں نہ پہنچی اور باقی درختوں کی حفاظت کیوں نہ کی گئی؟
محترمہ شیری رحمان موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر ہیں۔ ہو سکتا ہے اس سانحہ پر ان کا کوئی بیان آیا ہو مگر اس کالم نگار کی نظر سے نہیں گزرا! یہ مسئلہ ان کی وزارت سے تعلق رکھتا ہے۔ لازم ہے کہ وہ پوری تفتیش کریں یا کرائیں۔ مجرموں کو پکڑنا آج کل کے زمانے میں مشکل ہے نہ ناممکن ! اگر آج ان مجرموں کو پکڑا نہ گیا اور سزائیں نہ دی گئیں تو آئندہ کسی احتجاج کے دوران معصوم درختوں کے ساتھ یہ ظلمِ عظیم زیادہ بھیانک پیمانے پر ہو سکتا ہے !!
No comments:
Post a Comment