مرزا غالب کسی کے ہاں‘ کچھ روز قیام کرنے‘ تشریف لے گئے۔ غالباً کوئی نواب صاحب تھے۔ مرزا کے قیام کے دوران ہی نواب صاحب کا کہیں جانے کا پروگرام بن گیا۔ انہوں نے جاتے ہوئے مرزا سے کہا ''اللہ کے حوالے‘‘۔ مرزا کہاں چوکنے والے تھے۔ برجستہ جواب دیا ''اللہ نے آپ کے حوالے کیا تھا‘آپ پھر اللہ کے حوالے کر رہے ہیں‘‘۔
ہم نے پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ قاف سے تنگ آکر عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ ان پرانے حکمرانوں سے جان چھوٹے گی۔ مگر عمران خان ہمیں پھر انہی حکمرانوں کے حوالے کر کے یہ جا ‘ وہ جا! ایسا ہماری تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ جنرل ضیا الحق دس سال حکمرانی کر گئے تو بھٹو صاحب کی مہربانی سے! ضیا الحق سینئر ترین جرنیل نہیں تھے۔ بھٹو صاحب انہیں نیچے سے اوپر لائے۔پھر جو کچھ ہوا‘ آج تک قوم بھولی ہے نہ پیپلز پارٹی! جنرل مشرف کے اقتدار کی ذمہ داری میاں نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ میرٹ کو پسِ پست ڈال کر میاں صاحب نے انہیں سپہ سالار مقرر کیا اور پھر نہ صرف بھگتا بلکہ خوب خوب بھگتا۔ اب جو پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) ‘ جے یو آئی اور دیگر پارٹیاں تخت نشین ہوئی ہیں تو اس مراجعت کی ذمہ داری سو فیصد عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان کو حکومت ملی تو آئیڈیل ترین حالات تھے۔ طاقتور ادارے ان کے ساتھ تھے‘ الیکٹ ایبلز ساتھ تھے‘ ایم کیو ایم ساتھ تھی‘ بلو چستان والے ساتھ تھے‘ مسلم لیگ (ق) ساتھ تھی۔ اگر عمران خان عقلمندی سے‘ حوصلے سے‘ برداشت سے‘ رواداری سے اور بردباری سے کام لیتے اور ایک خودسر نوجوان بننے کے بجائے ایک متحمل مزاج بزرگ بن کر حکمت کو بروئے کار لاتے تو آج بھی حکمران ہوتے! حکمرانی کیلئے بڑا دل چاہیے۔ سکندر اعظم کے استاد ‘ ارسطو‘ نے اسے نصیحت کی تھی کہ جن علاقوں کو فتح کرو‘ انہیں ان کے سابقہ حکمرانوں ہی کے سپرد کرو۔ وہ ہمیشہ تمہارے وفادار رہیں گے۔ یہ کام بظاہر تو آسان ہے مگر حقیقت میں اس نصیحت پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک دشمن ہے جو آپ سے لڑا۔ آپ شکست کھا جاتے تو امکان تھا کہ وہ آپ کو قتل کر دیتا‘ مگر اب وہ مفتوح ہے اور آپ فاتح! آپ کا دل چاہتا ہے اسے موت کے گھاٹ اتاردیں‘ یا زندان میں پھینک دیں! مگر استادِ گرامی فرماتے ہیں کہ اسے مفتوحہ علاقے کا حکمران رہنے دیں! ارسطو کی دور اندیشی کے کیا کہنے ! احسان کا قلاوہ ہمیشہ اس کی گردن میں رہے گا۔ سر ہمیشہ بارِ احسان سے جھکا رہے گا! مغلوں نے‘ اور ان سے پہلے سلاطینِ ہند نے یہی گُر آزمایا اور کامیاب رہے۔ دانا وہ ہوتا ہے جواپنے دشمنوں کی تعداد کم کرے اور دوستوں کی تعداد زیادہ کرے۔ اس کیلئے وسعتِ قلب درکار ہے۔ سعدی نے کہا تھا :
شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا
دلِ دشمنان ہم نہ کردند تنگ
ترا کَی میسّر شود این مقام
کہ با دوستانت خلاف است و جنگ
اللہ کے برگزیدہ بندے تو دشمنوں کا دل بھی نہیں دکھاتے تھے۔تمہارا یہ حال ہے کہ دوستوں سے بھی کھٹ پٹ ہے اور لڑائی!
عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا تو ان کے نقطہ نظر سے حالات انتہائی موافق تھے۔جسے اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے‘ ساتھ تھی‘ عدلیہ وہ تھی جس نے پانامہ کیس میں فیصلہ دیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کی انہوں نے خود تعریف کی۔ اپوزیشن منتشر تھی مگر عمران خان صاحب نے ایک ایک کو اپنا مخالف کیا۔ اپوزیشن کو تسلیم ہی نہ کیا۔ چلیے شہباز شریف سے ہاتھ نہ ملاتے‘ کسی کو تو خاطر میں لاتے۔ حالت یہ تھی کہ کراچی جاتے تو وزیراعلیٰ کو خبر ہی نہ ہوتی۔یہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں کسی حزبِ اختلاف کا وجود‘ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھا۔
اب آئیے ان کے اپنے ساتھیوں کی طرف۔ ان کے ساتھ کیا برتاؤ رہا۔ فرض کیجیے علیم خان کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیتے اور جہانگیر ترین کو جنوبی پنجاب کے امور کا انچارج مقرر کر دیتے تو ان کا کیا جاتا ؟ صوبہ مضبوط ہاتھوں میں ہوتا۔ مگر خان صاحب اپنے اُن ساتھیوں سے بھی خائف تھے جن میں کچھ دم خم تھا۔انہوں نے ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ چنا جو‘ان کے سامنے تو کیا‘ کسی کے سامنے بھی بات نہیں کر سکتا تھا۔ ایک عرصہ تک یہ راز راز ہی رہا کہ بزدار کس کی دریافت تھے۔ اب یہ حقیقت عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا ! اگر اقتدار سنبھالتے وقت خان صاحب کے دوستوں کی تعداد کا اُس تعداد سے موازنہ کریں جو اقتدار کے آخری ایام میں تھی تو ایک عبرتناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ عون چوہدری‘ محسن بیگ‘ احمد جواد ، یہ تو برگشتگان میں سے وہ نام ہیں جو زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ کتنے ہی ایسے افراد ہیں جن کے نام ظاہر نہیں ہوئے۔
قاضی حسین احمد مرحوم کبھی کبھی کالم لکھتے تھے اور افغان جنگ کے رازوں سے ‘ دانستہ یا نا دانستہ‘ کچھ پردے اٹھاتے تھے۔ ایک بار انہوں نے لکھا کہ اگر ملا عمر کی ساری باتیں مان بھی لی جائیں اور وہ دوبارہ اقتدار میں آ بھی جائیں تب بھی ‘ ان کا جو مزاج ہے اور ان کی جو افتادِ طبع ہے‘ اس کے پیش نظر ان کا کسی کے ساتھ گزارہ مشکل ہو گا۔ یہ الفاظ کالم نگار کے ہیں۔ ان کے الفاظ یاد نہیں مگر مفہوم سو فیصد یہی تھا۔ قاضی صاحب مرحوم کے یہ الفاظ اس لیے اہم تھے کہ وہ سیکولر تھے نہ طالبان کے مخالف۔ یہ ان کی جچی تلی دیانت دارانہ رائے تھی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال عمران خان صاحب کے ساتھ بھی ہے۔ فرض کیجیے وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں۔یہ بھی فرض کیجیے کہ راولپنڈی میں سب کچھ ان کی منشا کے مطابق ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو وہ خود نامزد کرتے ہیں۔ عدلیہ ان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ اپوزیشن میں شریف ہیں نہ زرداری! آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کی حکومت آرام سے چلتی رہے گی؟ نہیں ! ان کا جو مزاج ہے اور ان کی جو افتادِ طبع ہے‘ وہ انہیں نہیں چلنے دے گی۔ صرف ایک صورت میں وہ خوش رہیں گے۔اور وہ صورت یہ ہو گی کہ ان کے ساتھ کوئی بھی رمق بھر اختلاف نہ کرے۔سب موم کے پتلے ہو جائیں۔ کسی نے اختلاف کیا تو خان صاحب کیلئے ناقابلِ قبول ہو گا۔ اگر اپوزیشن بالکل ضعیف‘ یتیم اور بے زبان ہو تب بھی وہ اس کے ساتھ بیٹھیں گے نہ ہاتھ ملائیں گے۔ شریف اور زرداری تو ان کے بقول چور تھے‘ سندھ کا وزیر اعلیٰ تو چور ڈاکو نہیں تھا۔ کیا کراچی کے کسی دورے میں وہ انہیں ملنے کیلئے آمادہ ہوئے؟
لکھ لیجیے کہ عمران خان صاحب کو صرف دو ماڈل راس آسکتے ہیں۔ ایک شمالی کوریا ماڈل۔ دوسرا ایم بی ایس ماڈل۔یہ ایسے ماڈل ہیں جن میں حزب اختلاف ہے نہ عدلیہ !چیف الیکشن کمشنر ہے نہ کوئی اور! یعنی
حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پیر دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نِت بلے
کُتی مرے فقیر دی‘ جیڑی چَؤں چَؤں نت کرے
پنج ست مرن گوانڈھناں‘ رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں‘ وچ مرزا یار پھرے
No comments:
Post a Comment