شہر میں چوگان کا میچ تھا۔ ایک عزیز، جو مدعو تھے، ساتھ لے گئے!
گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ ایالیں ان کی بندھی ہوئی تھیں جیسے عورتوں کی چوٹیاں! سوار، پاؤں جن کے رکابوں میں تھے، زینوں پر اُٹھتے تھے، پھر بیٹھتے تھے، پھر اٹھتے تھے۔ سبزہ، گرد کو روکے تھا ورنہ وہی حال ہوتا جو نظامی گنجوی نے سکندر کی لڑائی کا بیان کیا ہے:
ز سمِّ ستوران دران پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
گھوڑوں کے سُموں سے میدانِ جنگ میں اتنی گرد اٹھی کہ زمین گرد بن کر آسمان کی طرف اُٹھ گئی۔ یوں زمینیں سات کے بجائے چھ رہ گئیں اور آسمان سات کے بجائے آٹھ ہو گئے!
آنکھیں چوگان دیکھ رہی تھیں۔ ذہن انار کلی میں پھر رہا تھا۔ یونیورسٹی کی طرف سے انار کلی میں داخل ہوں۔ لوہاری کی طرف چلیں۔ راستے میں دائیں طرف جانے والی ایک گلی میں وہ شخص مٹی اوڑھ کر سو رہا ہے جسے لاہور بہت پسند تھا۔ جو لاہور کا دلدادہ تھا۔ گلابی جاڑوں کی ایک دوپہر تھی جب چوگان کھیلتے ہوئے آٹھ سو بارہ سال پہلے قطب الدین ایبک گھوڑے سے گرا۔ زین کا فتراک سینے میں پیوست ہو گیا اور جان بدن سے پرواز کر گئی۔ زندگی بھی کیا چیز ہے! ترکستان میں شروع ہوئی۔ نیشا پور کے بازار میں غلام بن کر فروخت ہوا۔ موت بھی کیا شے ہے! لاہور میں آئی جب وہ پورے شمالی ہند کا بادشاہ تھا۔
چوگان اصلاً وسط ایشیا کے قبائل کا کھیل تھا۔ کھیل بھی اور اس بہانے جنگ کی تربیت بھی۔ قبل مسیح میں چوگان ایران پہنچا جہاں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ اعلیٰ طبقات نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بادشاہوں نے لشکر میں متعارف کرایا۔ یوں یہ اہلِ فارس کا قومی کھیل بن گیا۔ فردوسی سے لے کر بعد کے شعرا تک سب نے اسے اشعار میں باندھا۔ چلیے یہاں ایک وضاحت کیے دیتے ہیں۔ ارے بھئی! یہ چوگان وہی ہے جسے آج کل پولو کہا جاتا ہے۔ اصل میں وہ ہاکی نما سٹک، یا ڈنڈا، جس سے گھُڑ سوار، بال کو مارتا ہے، اُسی کو چوگان کہتے ہیں۔ ہاکی نما سے زیادہ اسے ہتھوڑا نما کہا جا سکتا ہے۔ ایران کے شاعروں نے خم کھاتی زلف کو چوگان سے تشبیہ دی‘ اور عاشق کے دل کو گیند یعنی بال سے! کبھی اپنے آپ کو بال بنا لیا۔ سعدی نے کہا:
آن کہ دل من چو گوی در خم چوگان اوست
یعنی میرا دل گیند کی طرح ہے اور اس کے چوگان کے خم کی دسترس میں ہے۔
بوستانِ سعدی میں محبت کی ایک کہانی ہے۔ ہمارے ہاں محبت کی دو تین کچی پکی Teen ager ٹائپ نظمیں لکھ کر شاعر ہوا میں اڑے پھرتے ہیں۔ کبھی رومی، سعدی، سنائی، صائب، طالب آملی اور ابو طالب کلیم کو پڑھ کر دیکھیے۔ معلوم ہو گا کہ شاعری کسے کہتے ہیں اور محبت کی نظم کیسے کہی جاتی ہے۔ سعدی اس کہانی میں لکھتے ہیں:
بگفت ار خوری زخمِ چوگانِ او
بگفتا بپایش در، افتم چو گو
پوچھا گیا اگر تمہیں محبوب کے چوگان سے زخم لگ گیا تو کیا ہو گا؟ جواب دیا میں اس کے پاؤں میں گیند کی طرح پڑ رہوں گا۔
عرفان و تصوف کے حوالے سے بھی شعرا نے چوگان کی علامت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ چوگان تقدیر کی طرح ہے جس کے سامنے ہم گیند سے بڑھ کر کچھ نہیں! رومی کہتے ہیں:
پیشِ چوگانہایِ حکمِ کُن فکان
می دویم اندر مکان و لا مکان
اس کا کن فیکون کا حکم تو چوگان ہے جس کے سامنے ہم مکان اور لا مکان کے اندر گیند کی طرح لڑھک رہے ہیں۔
قصہ مختصر، چوگان نے ایران کے بادشاہوں کو نہال کیا اور شاعروں کے کلام میں رچ بس گیا۔ ( ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی چاہیں تو فارسی ادب کے طلبہ سے ایک تحقیقی مقالہ فارسی ادب میں چوگان کے موضوع پر لکھوا سکتے ہیں) پھر یہ کھیل ایران سے نکلا۔ مغرب میں قسطنطنیہ پہنچا۔ مشرق میں ہنزہ، لداخ اور تبت، وہاں سے جاپان اور جنوب میں ہندوستان وارد ہوا۔ ترک سلاطین اسے ہندوستان ساتھ لائے۔ قطب الدین ایبک کا احوال آپ نے اوپر پڑھا۔ خلجی، تغلق، لودھی سب اس کے شائق تھے‘ مگر اکبر نے اسے سرکاری سرگرمیوں کا لازمی حصہ بنا دیا۔ شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ، وزرا، عمائدین اور بیوروکریٹس کی یہ کھیل کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔ اکبر نے اس کے قوانین ترتیب دیے۔ ڈنڈوں کے دستوں پر چاندی اور سونے کے دستے لگائے گئے۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ چوگان رات کو کھیلنے کے لیے اکبر نے چمکدار گیند ایجاد کی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پالاش نامی درخت کی لکڑی رات کو روشن کی جاتی تھی تا کہ چوگان کا میچ کھیلا جا سکے۔ یہ درخت بہار اور جھاڑ کھنڈ سے نکلا اور بنگال آسام سے ہوتا ہوا کمبوڈیا، ویت نام اور ملائیشیا تک پہنچ گیا۔ اسے جنگل کا شعلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پھول بھڑکتے ہوئے شعلے کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈھاک اور تیسو بھی اس کے نام ہیں۔ کیا اکبر نے پالاش درخت ہی کی لکڑی سے چمکدار بال ایجاد کیا تھا یا محض پالاش کی لکڑی رات کو روشنی کے لیے جلائی جاتی تھی؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ اسے اردو اور پنجابی میں کیا کہتے ہیں۔ بہر طور مغلوں کے عہد میں چوگان ثقافت کا ایک اہم حصہ تھا۔ اکبر کا ایک قریبی درباری میر شریف قزوینی چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ اکبر نے اس کا مقبرہ بہت اہتمام سے تعمیر کرایا۔ مغل عہد کی منی ایچرز یعنی مصوری میں چوگان کے میچ عام دکھائی دیتے ہیں۔ مغل دربار کے مشہور مصور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائی بھی دکھائی گئے، گھوڑے بھی اور کھلاڑی بھی!
مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی چوگان پر بھی زوال آگیا۔ اس لیے کہ گھوڑوں کے بجائے پالکیاں آ گئیں اور چوگان پالکیوں پر کھیلنا ممکن نہ تھا۔ اب مغل مرغ بازی اور کبوتربازی میں مگن ہو گئے۔ اب علاقوں کے بجائے باورچی فتح ہونے لگے اور مقابلے شطرنج اور مشاعروں کے ہونے لگے۔ پھر انگریز آ گئے۔ اب چوگان نے انگڑائی لی۔ اس نے ہیٹ کوٹ پہنا اور چوگان سے پولو بن گیا۔ چوگان کا یہ ولایتی دور بھی خاصا دلچسپ ہے۔ ہندوستان کی سب سے مشرقی ریاست منی پور میں، جو برما کی سرحد پر ہے، انگریز وں نے چائے کے باغات لگائے۔ وہاں انہوں نے مقامی لوگوں کو پولو کھیلتے دیکھا تو اسے اپنا لیا۔ کلکتہ میں 1862ء میں پولو کلب بنا جو دنیا کا قدیم ترین پولو کلب ہے۔ سات سال بعد پولو کا کھیل برطانیہ پہنچا اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔
پاکستان کے شمالی علاقے پولو کا گڑھ ہیں۔ دن کے کسی بھی وقت خپلو جائیں یا شگر یا کسی اور شہر میں، پولو کھیلا جا رہا ہو گا۔ چترال میں شیندور کا سالانہ میلہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اسے دنیا کا بلند ترین پولو کلب کہہ لیجیے۔ گلگت بلتستان اور چترال کی ٹیموں کے درمیان یہ مشہور عالم میچ ہر سال جولائی میں کھیلا جاتا ہے۔ یہ سرگرمی سکردو کے راجہ علی شیر خان نے 1935ء میں شروع کرائی تھی۔ شیندور کی مرکزی سرگرمی تو پولو میچ ہی ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ لوک موسیقی اور رقص کا بھی بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے۔ اگر آپ نے یہ میلہ ابھی تک نہیں دیکھا تو پاکستان کی ایک انتہائی خوبصورت جھلک سے آپ ابھی تک محروم ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment