مشکل میں کام آنے والے حافظ شیرازی نے کہا تھا
غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم
بشہر خود روَم و شہریارِ خود باشم
کہ جب بے وطنی اور مسافرت کا غم برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو (سوچتا ہوں ) اپنے شہر چلا چلا جاؤں اور اپنا مالک خود بنوں،مگر مسافرت کی کئی قسمیں ہیں۔ اپنے ملک میں ، اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے بھی کبھی کبھی بے چارگی کا احساس ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کوئی جائے پناہ نہیں۔
اچانک جسٹس وجیہ الدین کی طرف خیال چلا گیا۔ چند ہفتے ہوئے انہوں نے ایک بیان دیا۔ اس بیان پر ایک معروف ٹی وی چینل نے اپنے تجزیہ کاروں سے رائے مانگی۔ان صاحبانِ علم و دانش نے جو تبصرے کیے اور جس طرح کی باتیں جسٹس صاحب کے بارے میں کیں ، وہ سب یاد آنے لگیں۔ ان کا ذکر یہاں مطلوب نہیں کہ اپنا ڈپریشن پھیلانا کوئی اچھا کاروبار نہیں۔ غم غلط کرنے کے لیے ناصر کاظمی کا دیوان اٹھا لیا کہ خیالات کی رَو اپنا رُخ بدل لے۔ ناصر کاظمی( اور مجید امجد ) غم غلط کرنے میں دستگیری کرتے ہیں۔ کبھی غم میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔سیاسی صورتِ حال جس دل گرفتگی کی طرف لے جارہی ہے اور سچ بولنے والوں کے ساتھ یہ معاشرہ جو خیالات رکھتا ہے انہیں بھولنے کے لیے آپ بھی اس میگساری میں شریک ہوں۔
اے ہم سخن! وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں تازگی
بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں!
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
بازار بند، راستے سنسان، بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
گلیوں میں اب تو شام سے پھرتے ہیں پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع، سو وہ بھی بجھی بجھی
اے روشنیٔ دیدہ و دل اب نظر بھی آ
دنیا ترے فراق میں اندھیر ہو گئی
٭......٭......٭
کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گْل
ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہاں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
اب تو خوش ہو جائیں اربابِ ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے
حسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو
عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے
اے سکوتِ شامِ غم! یہ کیا ہوا
کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے
آؤ ناصرؔ ہم بھی اپنے گھر چلیں
بند اس گھر کے دریچے ہو گئے
٭......٭......٭
پیارے دیس کی پیاری مٹی
سونے پر ہے بھاری مٹی
کیسے کیسے بُوٹے نکلے
لال ہوئی جب ساری مٹی
دُکھ کے آنسو سکھ کی یادیں
کھاری پانی کھاری مٹی
تیرے وعدے میرے دعوے
ہو گئے باری باری مٹی
گلیوں میں اُڑتی پھرتی ہے
تیرے ساتھ ہماری مٹی
٭......٭......٭
چند گھرانوں نے مل جل کر
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے
باہر کی مٹی کے بدلے
گھر کا سونا بیچ دیا ہے
سب کا بوجھ اٹھانے والے
تو اس دنیا میں تنہا ہے
مَیلی چادر اوڑھنے والے
تیرے پاؤں تلے سونا ہے
گہری نیند سے جاگو ناصرؔ
وہ دیکھو سورج نکلا ہے
٭......٭......٭
رو نوَوردِ بیابانِ غم! صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلاتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علَم صبر کر صبر کر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں، کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابرِ کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے‘ جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھِل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریرِ قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصرؔ زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
٭......٭......٭
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشی آواز نما کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
بیدار رہو! بیدار رہو! بیدار رہو!
اے ہمسفرو! آوازِ درا کچھ کہتی ہے
ناصرؔ آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے