اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی اپنے اُن سینیٹروں کے خلاف ایکشن لیں گی جو سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دینے کے بجائے منظر ہی سے غائب ہو گئے تو آپ احمق ہیں!
پارٹیوں کی یہ تقسیم مصنوعی ہے اور بے معنی! پارٹی تو ایک ہی ہے جو اصل پارٹی ہے! وہی جس کی بنیاد دو سو پینسٹھ سال پہلے پلاسی کے میدان میں رکھ دی گئی تھی۔ تاریخ کا یہ صفحہ الٹ کر ایک بار پھر پڑھیے۔ پڑھنے کے بعد غور کیجیے۔ پاکستانی سیاست کی حرکیات سمجھنے کے لیے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت بھی نہیں۔ پلاسی کے میدان میں کچھ ایک طرف تھے، کچھ دوسری طرف چلے گئے تھے۔ وہ جو دوسری طرف چلے گئے تھے وہی اصل پارٹی ہیں۔ وہی پارٹی چلی آرہی ہے۔ فرق بس اتنا سا ہے کہ اس پارٹی نے آج کے زمانے میں باہمی سہولت کے لیے، اپنے آپ کو مصنوعی طور پر، مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے تاکہ مفادات کی بندر بانٹ میں آسانی ہو! پلاسی کے بیالیس سال بعد ایک اور میدان سجا۔ یہ سرنگا پٹم تھا۔ اصل پارٹی نے اپنے خدوخال یہاں کچھ اور واضح کر دیے۔ اپنی بنیاد مضبوط تر کر لی۔ کچھ وقت اور گزرا۔ پھر 1857 کے میدانوں میں یہ پارٹی پوری قوت اور پورے قد کے ساتھ ابھری۔ تب سے لے کر آج تک یہی پارٹی حکمران ہے۔ احمق عوام کو مزید احمق بنانے کے لیے یہ اصل پارٹی اپنے آپ کو کبھی مختلف پارٹیوں میں تقسیم کر لیتی ہے اور کبھی حزب مخالف اور حزب اقتدار میں! جو لوگ پاکستانی سیاست کی اصلیت سے واقف ہیں انہیں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے پاس ہونے میں رمق بھر شک بھی نہ تھا۔ ہمارے دوست خالد مسعود خان کا ایک مضمون اِسی اخبار، روزنامہ دنیا میں دس جون 2021 کو چھپا تھا جس میں انہوں نے قدرے تفصیل سے اس اصل پارٹی کی جڑوں کو واضح کیا ہے۔ (اب تو خیر اس موضوع پر کتابیں اور تحقیقی مضامین بھی خاصی تعداد میں سامنے آ چکے ہیں) اس اصل پارٹی کے معزز ارکان نے ملتان کے پُل شوالہ پر پلٹن نمبر69 کے مجاہدین کے قتل عام میں حصہ لیا۔ جلال پور پیروالا، خانیوال موضع جلی ضلع ساہیوال، دریائے چناب کے کنارے واقع شیر شاہ، مردان، ہزارہ، مانسہرہ، سرگودھا، اور واہ، ان مقامات میں سے محض چند کے نام ہیں جہاں اس اصل پارٹی کے معزز ارکان نے وفاداری کا ثبوت دیا اور آنے والے وقتوں میں اپنی اپنی ذُرّیت کے لیے اقتدار کی گارنٹی حاصل کر لی۔
فرض کیجیے ایک گلی میں آپ کے چار گھر ہیں۔ چاروں مناسب فرنیچر سے آراستہ ہیں۔ چاروں میں ملازم ہر وقت دست بستہ کھڑے رہتے ہیں! آپ کچھ دن ایک گھر میں قیام کرتے ہیں، کچھ عرصہ دوسرے میں! دوسرے سے اکتا جاتے ہیں تو تیسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ کو کوئی روک سکتا ہے کہ فلاں گھر میں نہ رہو اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایک ہی گھر میں ڈیرہ رکھو؟ جب چاروں گھر آپ کی ملکیت میں ہیں تو شرم کیسی! اور روک ٹوک کہاں کی! بالکل اسی طرح یہ تینوں چاروں پانچوں پارٹیاں سیاست دانوں کے گھر ہیں۔ جب جی چاہے ایک پارٹی سے دوسری میں چلے جائیں۔ جب سب اپنی ہیں تو شرم کیسی اور حیا کون سی؟ کس کی مجال ہے کہ روکے یا شرم دلانے کی کوشش کرے! مناسب موقع ہو تو ضیا صاحب کی شوریٰ میں شامل ہو جائیں! پھر حالات بدلیں تو میاں صاحب کو مائی باپ کہیں۔ جنرل مشرف آئیں تو ان کا نام جب بھی لیں احترام کے ساتھ لیں۔ وردی میں دس بار منتخب کرانے کا اعلان کریں۔ سینیٹر بننا ہے تو نون سے قاف میں آ جائیں۔ ایک بار پھر سینیٹر بننا ہو تو نون میں واپس آ جائیں۔ منع تو کوئی کیا کرے گا، ہاتھوں ہاتھ لیے جائیں گے۔ بقول شہزاد نیّر:
آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں جائیں!
جماعت اسلامی سے سیاسی کیریئر شروع کیجیے۔ پھر قاف لیگ میں شامل ہو جائیے۔ ایک وقت آتا ہے کہ جنرل صاحب جلسۂ عام میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو اپنا بھائی کہتے ہیں اور ذاتی ریوالور تحفے میں دیتے ہیں۔ پھر ایک صبح آپ چوہدریوں کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ مجھے میری والدہ محترمہ نے کہا ہے کہ مرتے مر جانا، مگر چوہدریوں کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ اسی شام کو چوہدری ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ آپ نون لیگ میں شامل ہو رہے ہیں! ایک سیاست دان فرماتے کہ میں پندرہ بار وزیر بنا۔ جب آپ بار بار حکومتی پارٹی میں شامل ہوں گے تو تبھی اتنی زیادہ بار وزیر بنیں گے! یہ کہنا تو اب لا حاصل ہو چکا ہے کہ موجودہ کابینہ کے چہرے پہلے کس کس کابینہ میں دیکھے جا چکے! اس میں اب حیرت کا عنصر ہی ختم ہو چکا ہے۔ پارٹی بدلنا روٹین کا معاملہ ہے۔ کیا کبھی کسی پارٹی نے کسی پارٹیاں بدلنے والے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے؟ زاہد حامد صاحب جنرل مشرف کی کابینہ کے رکن رہے۔ جنرل صاحب کے سر سے ہما اٹھا تو چند مہینے کیا، ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ میاں صاحب نے انہیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ انسان اتنے لباس نہیں بدلتا جتنا یہ حضرات پارٹیاں بدلتے ہیں‘ مگر اب اس محاورے کی تاریخ بھی Expire ہو چکی! لباس تو کچھ دیر بدن پر رہتا ہے۔
اِس وقت سینیٹ میں نام نہاد اپوزیشن کو صرف تین یا چار کی برتری حاصل ہے۔ اس صورت حال میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ یاد رکھیے! اگر اپوزیشن کی تعداد تین چوتھائی بھی ہوتی اور فیصلہ کرنے والے پاس کرانے کا فیصلہ کر لیتے تب بھی بل پاس ہو جاتا اور ضرور ہو جاتا۔ یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں! اصل میں یہاں دو ہی پارٹیاں ہیں! ایک اہل ثروت کی! انہیں اہل غرض بھی کہا جا سکتا ہے۔ پلاسی سے لے کر آج تک اس پارٹی کی قوت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ عددی بھی اور معنوی بھی! دوسری پارٹی عوام کی ہے۔ نعرے لگانے اور دریاں بچھانے والے عوام کی۔ لیڈروں کی خاطر ایک دوسرے سے جھگڑنے والے عوام کی! اپنے احباب اور اعزّہ سے لیڈروں کی خاطر تعلقات ختم کرنے والے عوام کی! وہ لیڈر جن کے گھروں کے نزدیک بھی یہ عوام نہیں جا سکتے! جن کی گاڑیوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتے! جن کے معیار زندگی کا یہ عوام تصور تک نہیں کر سکتے! مونس الٰہی، بلاول، مریم اور مولانا سعد بچے نہیں بڑے ہیں! لیکن اگر بچے ہوتے تب بھی ان کی اطاعت کی جاتی! اس لیے کہ اطاعت کرنے والے طاقت کے ساتھ منسلک رہنا چاہتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، یہ کلاس کا مسئلہ ہے۔ یہ طبقاتی وفاداری کا مسئلہ ہے۔ ان حضرات کے باہمی اختلافات سطحی اور محض دکھاوے کے ہیں! یقین نہ آئے تو سرداری سسٹم کے خلاف بل پیش کر کے دیکھ لیجیے یا زرعی اصلاحات کا ایک مؤثر اور بامعنی بل! یا ارکانِ پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافے کا بل! سب یوں اکٹھے ہو جائیں گے جیسے اسماعیل میرٹھی نے اکٹھا ہونے کا ذکر کیا تھا
یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ
کچھ بھی نہ چھوڑے پاک اور گندہ
اچھی ہے پر اُس کی عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بلا لے!!
بشکریہ روزنامہ دنیا