Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, May 31, 2021

یہ عبرت کی جا ہے



کوچۂ سیاست سے گذرنے والے جب خود نوشت لکھتے ہیں تو ایک عام پاکستانی کے لیے بھی وہ دلچسپی کا باعث بنتی ہے اس لیے کہ سیاسی خود نوشت اصل میں ملکی تاریخ ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ محترمہ بشریٰ رحمان کی آپ بیتی “ لکھی کو کون موڑے “ خوبصورت کتابیں چھاپنے والے ادارے دوست پبلیکیشنز نے شائع کی ہے۔ دیکھیے، طویل عرصہ ایم این اے رہنے والی بشری رحمان کن واقعات کی گواہی دیتی ہیں۔

:=======( جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم کے حوالے سے ) اس کے بعد اناؤنسر نے میاں نواز شریف کا نام لیا ۔ان کے پاس لکھی ہوئی تقریر تھی۔دو تین فقرے پڑھنے کے بعد وہ مجمعے سے پوچھتے ۔ کیا آپ لوگ ریفرنڈم کے حق میں ہیں ؟ سارا مجمع چلا کر بیک آواز کہتا ہاں ہاں حق میں ہیں۔ پھر دو تین فقرے صدر صاحب کے حق میں بول کر پوچھتے کیا آپ لوگ صدر صاحب کو ووٹ دیں گے؟ پھر پوچھتے ہاتھ کھڑے کر کے بتاؤ کون کون ووٹ دے گا؟ تو سارے مجمعے کے ہاتھ بلند ہو جاتے۔ کم از کم انہوں نے صدر صاحب کو باور کرا دیا کہ ریفرنڈم میں پنجاب کے سب لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔

:=========آج صدر جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم کا دن ہے۔ ہماری ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں کہ زنانہ پولنگ سٹیشنز پر جاکر صورت حال کا جائزہ لیتے رہیں۔ چنانچہ میں بھی پولنگ سٹیشنز کی لسٹ لے کر صبح ہی نکل گئی تھی۔ ماڈل ٹاؤن، مسلم ٹاؤن ، گارڈن ٹاؤن، اقبال ٹاؤن اور وحدت کالونی میری رینج میں آتے تھے۔ اکا دکا خواتین و حضرات آکر ووٹ ڈال رہے تھے۔بارہ بجے تک تو لوگ آتے رہے۔ شام کو میں نے پھر ہر پولنگ سٹیشن کا دورہ کیا۔ایک پولنگ۔ سٹیشن پر گئی تو دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی سکول کی لڑکیاں جن کی وہاں ڈیوٹی لگی ہوئی تھی، خود ہی بیلٹ پیپر ز پر مہریں لگا کر بوکس میں ڈال رہی ہیں

:=========-گورنر جیلانی کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے سامنے چائے کا ٹرے پکڑ کر کھڑے ہوئے بیرے کے سر سے پگڑی اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دی ۔ نواز شریف اس اچانک حادثے کے لیے تیار نہ تھے۔بھلا کون ایسا سوچ بھی سکتا تھا۔ ان کا منہ گھبراہٹ اور خجالت سے بالکل سرخ ہو گیا۔ دونوں ہاتھ بے اختیار اٹھے مگر سر کی طرف بڑھنے کی بجائے گر گئے۔جائے ادب تھی۔مقام مصلحت تھا۔گورنر صاحب کی بزرگی اور مرتبے کا خیال تھا یا موقعے کی نزاکت کا احساس تھا یا بزرگوں نے انہیں جو لحاظ و مروت کی تربیت دی تھی اس کا اثر تھا انہوں نے کمال ضبط سے اپنا رد عمل روک لیا۔گورنر جیلانی ان کے محسن بھی تھے۔ تاحال باس بھی تھے۔انہوں نے یکا یک یہ حرکت کیوں کی تھی۔اس کا مطلب کیا تھا؟ یہ کوئی مذاق کا وقت نہیں تھا۔ ایک سب سے بڑے صوبے کا نوجوان وزیر اعلی ان کے روبرو تھا۔ خود وہ قہقہے لگا کر ہنستے رہے۔باقی شرکا بھی ان کا ساتھ دینے لگے -بیرا اپنی جگہ حیران و ششدر کھڑا رہا۔ سچی بات ہے دل میں یہ حرکت مجھے بہت بری لگی ۔

:======== ایک خاتون جنرل الیکشن جیت کر آئی تھی۔ اسکا پورا گروپ اگرچہ اس کی پشت پر تھا مگر کسی طرف سے اسے وزارت کا سگنل نہیں مل رہا تھا۔ایک صبح وہ معزز عورت جھاڑو پکڑ کر میاں نواز شریف کے گھر ماڈل ٹاؤن چلی گئی اور صبح ہی صبح ان کے صحن میں جھاڑو لگانے لگ گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب محترم میاں محمد شریف صاحب فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر آتے تھے۔ انہوں نے ایک معزز ، صاف ستھری عورت کو جھاڑو لگاتے دیکھا تو حیران ہوئے ۔ پوچھا بی بی تم کون ہو ؟ کیوں جھاڑو لگا رہی ہو؟ اس نے اپنا تعارف کر ایا اور رونے لگ گئی۔بولی میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں۔ خدا کے واسطے مجھے وزارت دے دیں۔میں ساری زندگی آپ کی نوکرانی بن کر رہوں گی اور آپ کے صحن میں جھاڑو لگاتی رہوں گی۔ بعد میں اسے وزارت مل گئی۔

:========= صدر ضیا الحق نے اپنی طرف سے وزرا میں شاہین عتیق الرحمان کا نام شامل کر دیا تھا۔قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شاہین عتیق الرحمان کے والد صاحب جنرل عتیق الرحمان، جنرل ضیا الحق کے اتالیق رہے تھے۔ اس لیے ترجیحی بنیادوں پر ایک فوجی نے دوسرے فوجی کی بیٹی کو وزارت کے قابل گردانا۔یہاں میرٹ اور صلاحیت کا سوال نہیں تھا۔

:========= ان دنوں جناب محمد خان جونیجو ایک غیر ملکی دورے پر روانہ ہو رہے تھے۔ صدر ضیاالحق کے ایما پر جناب نواز شریف وزیر اعلی پنجاب کو ان کے وفد میں شامل کر دیا گیا تھا۔ وہاں ہوٹل کے ایک کمرے میں ضیاالحق کے لیے عدم اعتماد کی تحریک تحریر کی گئی۔ جب یہ وفد واپس آیا تو جناب نواز شریف صاحب ائر پورٹ سے سیدھے ایوان صدر چلے گئے تھے۔

:=========انہی دنوں ہماری سیاست میں ……………سے ایک عورت دھم کر کے آئی تھی۔ میں نے “ چھم” کر کے نہیں لکھا۔ “دھم” کر کے اس لیے لکھا ہے کہ اس کا وجود بھاری بھرکم تھا ۔تن و توش کے ساتھ اس کے ہاں خورد ونوش کا بھی بہت اہتمام تھا۔ روع میں اسے کسی نے گھاس نہیں ڈالی ۔پھر اس نے بڑے لوگوں کو تاک کر گھاس ڈالنا شروع کر دی۔ ………………موصوفہ نے اپنے گھر پر وزیروں مشیروں کی ڈنر پارٹیاں کرنی شروع کر دیں اور ان کی بیگمات کو قیمتی تحائف دینے کی رسم شروع کر دی جس کے نتیجے میں اسے خواتین ونگ میں ایک عہدہ مل گیا۔غرض اس کی رسائی نواز شریف کے گھر تک ہو گئی۔پھر اس نے ایک ڈیوٹی بنا لی کہ شہر میں ہونے والی تقریبات کی روداد بیگم کلثوم نواز کو بتانے لگی۔ رفتہ رفتہ وہ ان پہ اعتماد کرنے لگیں۔

:=========== ۲۶ اپریل ۲۰۰۲ ء کی رات ہمارے گھر میں ایک شاندار سیاسی اجتماع ہؤا۔رحمان صاحب بھی اس میں موجود تھے۔ ، میاں محمد اظہر نے سٹیج پر آکر میرے سیاسی و ادبی کیریر کو سراہا۔ مجھے باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی۔ اس کے بعد چوہدری پرویز الہی نے میری خدمات کو سراہا اور کچھ خواتین و حضرات نے بھی تقریریں کیں۔ پریس نے سوالات بھی کیے ۔ اس طرح میں باقاعدہ مسلم لیگ قائداعظم میں شامل ہو گئی۔صبح کو سارے اخبارات میں یہ خبر لگ گئی۔

:==========یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چوہدری برادران وضعدار قسم کے لوگ ہیں اور دوستیوں کا پالن کرتے ہیں۔جن دنوں جناب نواز شریف پابند سلاسل تھے انہوں نے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی ہر طرح اخلاقی دلجوئی کی۔ان کو اپنا اسلام آباد والا گھر رہنے کے لیے دے دیا۔ وہ جب بھی اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آتی تھیں انہی کے گھر میں قیام کرتی تھیں اور یہیں سے ضرورت کی اشیا جیل میں فراہم کی جاتی تھیں۔کبھی کسی سیاسی آدمی نے چوہدری برادران کے منہ سے شریف فیملی کی برائی نہیں سنی اور نہ انہوں نے ان کی نفی کی ۔البتہ بیگم صاحبہ نے اس وضعداری کا یہ جواب دیا کہ آخر وقت تک اس “ ڈیل “ کی خبر چوہدری برادران کو نہ لگنے دی جس کے تحت بمع ایک سو سوٹ کیس اور ملازموں کے شریف فیملی راتوں رات جدہ چلی گئی تھی۔انہوں نے جاتے وقت اپنی دل شکستہ بکھری ہوئی پارٹی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ ایک ڈیل کے ذریعے جا رہے ہیں یا وہ اپنی رضا سے جا رہے ہیں۔
{
بشری رحمان صاحبہ نے کچھ اور بھی عبرتناک واقعات تحریر کیے ہیں۔ سب نہیں، تاہم ان میں سے کچھ کل کی نشست میں آپ کے ساتھ شئیر کریں گے ۔
…………………………………………………………………

Thursday, May 27, 2021

……مائی لارڈ جناب چیف جسٹس


رمضان کا آخری عشرہ تھا جب امین خان کی والدہ کورونا میں مبتلا ہوئیں اور وہ انہیں ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھا۔
یہ یوسف زئی جوان، دوست ہے اور برخوردار بھی۔ دریائے سندھ کے مشرق میں رہنے والے لوگوں میں سے کم ہی یہ بات جانتے ہوں گے کہ یوسف زئی بہت بڑا قبیلہ ہے۔ کابل سے لے کر اڑیسہ اور بنگال تک پھیلا ہوا۔ بر صغیر میں جگہ جگہ ان کی ریاستیں اور حکومتیں تھیں۔ بریلی، رامپور اور نواحی علاقوں میں آباد مسلمانوں کی اکثریت آج بھی یوسف زئی ہے۔ شاید قبیلے کا اثر ہے کہ امین خان اپنے دفتر میں ہر کلائنٹ کو خود اٹنڈ کرتا ہے۔ اٹنڈ نہیں کرتا، دست گیری کرتا ہے۔ سائل ضرورت مند ہوتے ہیں اور وہ کسی کو اس کا کام کیے بغیر لوٹاتا نہیں۔ جس دن میں اس کے پاس تعزیت کے لیے گیا، اس دن بھی وہ اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف تھا۔ قومی بچت (نیشنل سیونگز) کے اس مرکز میں آنے والے سائل زیادہ تر معمر مرد اور عمر رسیدہ عورتیں تھیں۔ میں دیکھتا رہا کہ کس طرح وہ، ایک نرم اور مہربان لہجے میں، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتا۔ اپنے سٹاف کو ہدایات دیتا۔ کلائنٹس کو اپنے پاس بٹھاتا۔ کاغذات ملاحظہ کر کے ان پر دستخط کرتا۔ عمر رسیدہ لوگ بات کو طول دیتے ہیں اور کچھ اُتھلے لوگ اس طوالت سے جھنجھلا اٹھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ بڑھاپا ان کے بھی تعاقب میں ہے۔ خمیدہ کمر والے ایک بوڑھے سے ایک بچے نے پوچھا تھا بابا! یہ جو آپ کی کمر، کمان بنی ہوئی ہے تو یہ کمان کہاں سے ملے گی‘ مجھے کھیلنے کے لیے چاہیے۔ بوڑھے نے اس کے گال تھپتھپا کر کہا تھا: انتظار کرو میرے بچے! وقت آنے پر یہ تمہیں مفت ملے گی۔ امین خان کسی بوڑھے کی طویل بات سے نہیں اکتاتا۔ شاید اس لیے کہ ہر نارمل انسان کو اپنے بڑھاپے کے قدموں کی چاپ ہر وقت سنائی دیتی ہے۔ بوڑھوں میں سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے، پھر قریبی رشتہ داروں کا! اس کے بعد ہر اس بوڑھے کا حق ہے جس کی ضرورت کا علم ہو جائے اور ضرورت پوری کرنے کی استطاعت موجود ہو۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان منسوب ہے کہ تمہیں اس لیے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری اس لیے مدد کی جاتی ہے کہ تم اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتے ہو۔ وہ ایک بوڑھا ہی تھا جس نے دربارِ رسالت میں بیٹے کی لا تعلقی کی شکایت کی اور آپﷺ نے اس کے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: انتَ و مالکَ لابیکَ۔ تم اور تمہارا مال، دونوں تمہارے والد کی ملکیت ہیں۔
ایک نسوانی آواز آئی: کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟ امین خان کے دفتر کا دروازہ شیشے کا ہے۔ دیکھا تو وہ ایک ضعیفہ تھی‘ دروازہ کھولے ہوئے! جھریوں سے چہرہ اٹا ہوا‘ جیسے نقشے پر بنگال کا ڈیلٹائی علاقہ! امین خان نے کہا کہ ہاں اماں آؤ۔ وہ آئی مگر کرسی پر نہ بیٹھی۔ کاغذ اس کے کانپتے ہاتھوں میں مسلسل لرز رہے تھے۔ غنیمت ہے کہ اس نے امین خان کا گریبان نہ پکڑا مگر لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے پکڑ لے گی۔
صاحب! تمہیں معلوم ہے کہ میرا گھر والا دنیا چھوڑ کر جا چکا ہے۔ تمہیں معلوم ہے ہماری دال، روٹی منافع کی اسی رقم سے چلتی تھی جو تمہارا دفتر اسے ہر ماہ دیتا تھا۔ اب اس کی موت کے بعد یہی رقم میرا سہارا ہے۔ مگر تمہارے دفتر نے اس کی موت کے بعد یہ رقم روک لی ہے حالانکہ مرنے والا کاغذوں میں لکھ گیا تھا کہ اس کی موت کے بعد اس رقم کی مالک میں ہوں گی۔
امین خان کے چہرے پر بے بسی کا سایہ پھیل گیا۔ گہرا سایہ!
اماں جی! پہلے تو یہی قانون تھا۔ قومی بچت کی سکیم میں رقم جمع کرانے والا اپنا وارث نامزد کر جاتا تھا‘ مگر اب نہیں! اب ایک فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ مرنے والے کی رقم اس کے سارے وارثوں میں تقسیم ہو گی‘ اور یہ تقسیم عدالت کرے گی۔
مگر وارثوں میں تو میرے بیٹے بھی شامل ہوں گے‘ اور بیٹے تو مجھے ملتے ہیں نہ کچھ دیتے ہیں۔ وہ تو مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں‘ اسی لیے تو میرا گھر والا یہ تھوڑی سی رقم قومی بچت میں رکھ گیا تھا۔ اس کا سارا منافع تیس ہزار روپے ماہوار ہے جس سے میرے کچن کا خرچ بھی چلے گا، دواؤں کا بھی اور بجلی اور گیس کے بلوں کا بھی! غضب خدا کا! ان تیس ہزار روپے ماہانہ میں اب میرے بیٹوں کا حصہ بھی ہو گا؟ تو میں کیا کروں گی؟ کہاں جاؤں گی؟ وہ تو اپنی بیویوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن ہیں۔
امین خان یوں لگتا تھا جیسے رو پڑے گا! اس نے بڑھیا کے کانپتے لرزتے‘ لکڑی جیسے خشک، چٹختے، ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔ اماں! میں ساری بات سمجھتا ہوں! مگر میں کچھ نہیں کر سکتا! اب نیا قانون یہی ہے۔ حکم یہی ہے کہ تیس ہزار روپے ہر ماہ تمہیں نہ ملیں‘ تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے بھی اب اس رقم کے مالک ہیں۔
مائی لارڈ! جناب چیف جسٹس! آج کتنی ہی بوڑھی عورتیں اپنے نان و نفقہ سے محروم ہو گئی ہیں۔ ان کے شوہر اپنی زندگی کی جمع پونجی قومی بچت کے مرکزوں میں اس لیے جمع کرا گئے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیویاں اپنے بیٹوں اور بہوؤں کے سامنے کشکول دھرنے پر مجبور نہ ہوں اور در در کے دھکے نہ کھائیں! مائی لارڈ! یہ سب غریب لوگ ہیں۔ امرا کی بچت تو کارخانوں، جاگیروں اور کمپنیوں میں لگتی ہے۔ قومی بچت مرکزوں میں تو بس بوڑھوں کی اتنی ہی رقمیں جمع ہوتی ہیں کہ کسی کو ماہانہ بیس ہزار‘ کسی کو پچیس ہزار اور کسی کو تیس یا چالیس ہزار روپے ملتے رہیں۔ یوں بیوہ ہونے کے بعد عورت سڑک پر نہیں آجاتی! مگر اب شوہر کے مرنے پر کیس عدالت میں جاتا ہے۔ بیٹے امریکہ میں ہوں یا یورپ میں، بیٹیاں کروڑ پتی مردوں کی بیویاں ہوں یا خود بڑی بڑی افسر، ڈاکٹر یا پروفیسر لگی ہوں، ان بیس یا تیس یا چالیس ہزار روپوں کی وراثت کی حق دار ہوں گی!
مائی لارڈ! جناب چیف جسٹس! بندہ پرور! جو مر جائے اس کی جائیداد، اس کے مکان، اس کے کھیت، وارثوں میں ضرور تقسیم کیے جائیں! مگر جناب عالی! کچن کا ماہانہ خرچ تو جائیداد ہے نہ جاگیر! اسے تو تقسیم ہونے سے بچائیے! بیوگان کی دال، سبزی، ادویات اور بلوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ اگر کوئی لکھ کر دے گیا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد یہ رقم اس کی بیوہ کو ملتی رہے تا کہ وہ زندہ رہ سکے، اور اولاد کی محتاج نہ ہو! تو عالی مرتبت چیف جسٹس صاحب!گزارش ہے کہ اس فیصلے کا از خود نوٹس لے کر لاکھوں بے کس بے سہارا عورتوں کو یہ رقم دلوائیے اور ان کے سروں پر اپنا دست شفقت رکھیے!
جوش ملیح آبادی نے ان بوڑھی عورتوں کا دلخراش نقشہ کھینچا ہے:
آہ اے بے کس ضعیفہ! غم کی تڑپائی ہوئی
اے زمانے کی جھنجھوڑی! زر کی ٹھکرائی ہوئی
یہ ترے سر کی سفیدی اور یہ گردِ ملال
میں تو کیا شرما رہا ہے خود خدائے ذوالجلال
تیرے بچے تیرے گَردُوں کے ستارے کیا ہوئے؟
اے ضعیفہ! تیری پیری کے سہارے کیا ہوئے؟
تو وعیدِ قہر ہے اربابِ عشرت کے لیے
برص کا اک داغ ہے روئے حکومت کے لیے
مجھ کو حیرت ہے کہ تجھ کو دیکھ کر زارونزار
گڑ نہیں جاتے حیا سے حاکمانِ ذی وقار!

Tuesday, May 25, 2021

ایوان سے قبرستان تک



یہ دو خبریں ہیں بالکل مختلف !
پہلی خبر یہ ہے کہ ہمارے معزز ایوانِ بالا نے ‘ جسے ہم سینیٹ کہتے ہیں‘ رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں ‘ یعنی گزشتہ سال یکم جولائی سے لے کر اس سال جنوری تک‘ ایک ارب 23 کروڑ سے زیادہ کے اخراجات کیے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اعزازی تنخواہیں( یعنی نارمل تنخواہوں کے علاوہ اعزازیے) پانچ کروڑ 37 لاکھ روپے۔ کھانے کی مد میں‘ پانچ کروڑ بائیس لاکھ روپے۔ اوور ٹائم‘ چھیانوے لاکھ روپے۔ نئی گاڑیاں‘ آٹھ کروڑ دس لاکھ روپے۔سفری ( ٹریولنگ) الاؤنس‘دو کروڑ تریسٹھ لاکھ روپے۔پٹرول‘ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے۔گریڈ بیس تا بائیس کے افسران کا مونیٹائزیشن الاؤنس‘ ایک کروڑ سے زائد۔ بیرونی ممالک کے دورے‘ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے۔فرنیچر اور اشیا‘ایک کروڑ بیاسی لاکھ روپے‘ تفریح اور تحائف‘چھ لاکھ انتالیس ہزار روپے۔بیرونی ممالک سے آنے والے وفود کے انتظامات‘ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے۔
یہاں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گریڈ بیس تا بائیس کے افسروں کے مونیٹائزیشن الاؤنس پر جو ایک کروڑ سے زیادہ کا خرچ ہوا ہے یہ کیا ہے۔ کچھ سال پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بیس‘ اکیس اور بائیس گریڈ کے افسران سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور استعمال نہیں کریں گے بلکہ ذاتی گاڑیاں استعمال کریں گے۔ اس کی تلافی کیلئے انہیں ماہانہ الاؤنس دیا جاہے گا تا کہ ذاتی گاڑیوں کے اخراجات پورے کر سکیں۔ اسے مونیٹائزیشن (Monetization)کہا جاتا ہے۔ گریڈ بیس کے ہر افسر کو65960 روپے ماہانہ‘ تنخواہ کے علاوہ ‘ملتے ہیں۔ گریڈ اکیس کے افسر کو77430 روپے تنخواہ کے علاوہ ماہانہ اور گریڈ بائیس کے افسر کو ہر ماہ تنخواہ کے علاوہ 95910روپے ملتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے افسران یہ بھاری بھرکم الاؤنس لینے کے بعد‘ سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور استعمال نہیں کرتے ہوں گے؟ یقینا کچھ ایسے افسر موجود ہیں جو خدا اور آخرت کا خیال رکھتے ہیں اور حرام حلال کی تخصیص کرتے ہیں مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو سرکاری گاڑیوں اور ڈرائیوروں کو بھی استعمال کر رہے ہیں اور الاؤنس بھی لیے جا رہے ہیں۔ میڈیا میں کئی بار شور مچا ہے کہ اس سہولت کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
اب سینیٹ ہی کو دیکھ لیجیے۔ مونیٹائزیشن الاؤنس کی مد میں رواں مالی سال کے صرف سات مہینوں میں ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم افسروں کو دی گئی ہے۔ اس کے باوجود پٹرول پر تقریباً سوا کروڑ روپے لگائے گئے اور آٹھ کروڑ دس لاکھ کی نئی گاڑیاں اس کے علاوہ خریدی گئیں۔ اگر تیس لاکھ روپے کی بھی ایک گاڑی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ستائیس نئی گاڑیاں صرف سات مہینوں کے دوران خریدی گئیں۔ آپ جب ٹماٹر دال اور گوشت کے نرخوں کے درمیان پِس رہے ہیں تو آپ کے ایوان بالا نے سات ماہ کے دوران صرف کھانے پر پانچ کروڑ بائیس لاکھ روپے خرچ کر دیے۔ واہ ! کیا کھانا ہو گا جس پر ٹیکس دہندگان کے کروڑوں اُٹھ گئے۔
یہ تو صرف ایک ادارے کا احوال ہے۔ کہاں کہاں بے رحمی اور سفاکی سے قومی خزانہ نہیں لٹایا جا رہا۔ ریلوے‘ بجلی کی کمپنیاں ‘ گیس کی کمپنیاں ‘قومی ایئر لائن‘ سٹیل مل اور کئی اور اداروں کے اپنے ہی حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین اداروں کا خون چوس رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں طبیب جونکوں سے علاج کرتے تھے‘ اب جو جونکیں چمٹی ہوئی ہیں ان سے جان چھڑانے کیلئے کوئی طِب کارگر نہیں۔
دوسری خبر اس سے زیادہ درد ناک ہے۔ راولپنڈی کے قبرستان بھر چکے ہیں۔ کیا شہر اور کیا چھاؤنی ‘ ہر جگہ ایک جیسی صورتحال ہے۔ کچھ زمینیں ان قبرستانوں کی قبضہ مافیا نے دبا ئی ہوئی ہیں۔ لوگ اپنے مرحومین کی میتیں لے کر ایک ایک قبرستان جاتے ہیں۔ کسی کو قبر کی جگہ مل جاتی ہے کسی کو نہیں۔ کچھ قبریں نالے کے کنارے بنانا پڑ جاتی ہیں اور جب بارشیں برستی ہیں تو پسماندگان کے دلوں پر آرے چلتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض لٹانے کی نوبت تو کب کی آچکی! تو کیا اب ایک ایک قبر میں دو دو میتیں دفن کرنا پڑیں گی؟
نہیں معلوم ان دونوں خبروں کے درمیان آپ کو کوئی ربط نظر آتا ہے یا نہیں مگر مجھے تو صاف نظر آرہا ہے۔ کیا یہ وارننگ نہیں؟ وہ جو کروڑوں کے حساب سے کھانوں پر ‘ پٹرول پر‘ تفریح و تحائف پر‘ نئے فرنیچر پر اور نئی گاڑیوں پر خرچ کر رہے ہیں ‘ اور وہ بھی اپنی جیب سے نہیں ‘ بلکہ عوام کی جیب سے ‘ تو انہیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کل مرنا ہے۔ اور صرف مرنانہیں‘ دفن بھی ہونا ہے اور دفن ہونے کیلئے قبر بھی جانے نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ ہوس کی کوئی انتہا نہیں۔ ہاں جب پنڈلی سے پنڈلی جڑتی ہے اور جان گلے تک آکر نکلتی نہیں ‘ اٹک جاتی ہے اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کو ڈھونڈا جاتا ہے اور سورہ یٰسین پڑھنے کے لیے کسی کو بلایا جاتا ہے‘ اس وقت ہوس کے مکروہ نتھنے میں نکیل پڑتی ہے۔ مگر اس وقت کی تو توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔

عجیب سیاہ بخت ملک ہے۔ ایک طرف لاڑکانہ‘ کراچی‘ لاہور‘ رائے ونڈ‘ گجرات‘ بنی گالہ ‘ مری ‘ لندن‘ دبئی‘ جدہ‘ نیویارک میں امرا کے وسیع و عریض محلات جو کنالوں میں نہیں ایکڑوں میں ہیں۔ دوسری طرف میتوں کی تدفین کیلئے قبرستانوں میں جگہ نہیں مل رہی۔تیس تیس ہزار روپے میں ایک ایک تدفین کی خبریں آرہی ہیں۔ تو کیا یہ تنبیہ ہے کہ ایسوں کو حکمران بناؤ گے تو سزا دفن ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جائے گی اور میت کیلئے قبر میسر ہی نہیں ہو گی۔ زندگی یوں گزرے کہ گیس اور بجلی اور نادرا اور ایکسائز اور ٹیکس اور ویزا کے دفتروں اور ہسپتالوں اور فارمیسیوں کے چکر پہ چکر لگتے رہیں اور موت آئے تو دو گز زمین بھی نہ ملے۔
ادھر آبادی کا عفریت ہے کہ سب کچھ نگلے جا رہا ہے۔ جہاں اناج پیدا ہوتا تھا وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ یا شوگر ملیں لگ رہی ہیں۔ جُوع الارض ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر تیسرا ٹھیکیدار اور ہر چوتھا پراپرٹی ڈیلر ٹائیکون بننا چاہتا ہے۔ پارک‘ باغات‘ کھیل کے میدان‘ سیر گاہیں ‘ چراگاہیں تعلیمی ادارے عبادت گاہیں‘ سب دن دہاڑے ہڑپ کیے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا میں کثیر المنزلہ عمارات بنائی جا رہی ہیں یہاں محلات پر زور ہے۔ دس دس مرلے میں سکول اور ایک ایک کنال میں کالج بن رہے ہیں۔ ملتان میں چند ہفتے پہلے کیا ہوا؟ آم کے ہزاروں درخت شہید کر دیے گئے۔ کوئی انصاف؟ کوئی پوچھ گْچھ ؟ مری‘ جو کبھی ملکہ کوہستان تھی‘ سریے اور سیمنٹ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کبھی ہِل سٹیشن تھا ‘ آج ہِل ہے نہ سٹیشن ! ایسے میں امداد آکاش کی مشہور غزل رہ رہ کر یاد آتی ہے
مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
شجر ہوا میں اُگائے گئے زمیں کم تھی
بشر مقیم تھے قبروں میں اور نئے مردے
سمندروں میں بہائے گئے زمیں کم تھی
تمام عمر کٹی اک جگہ کھڑے رہ کر
کبھی نہ ہم کہیں آئے گئے زمیں کم تھی
بزرگ آبِ بقا پی چکے تھے اور بچے
وجود ہی میں نہ لائے گئے زمیں کم تھی
خدا نے آدم و حوا کو کر دیا پیدا
پھر آدمی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, May 24, 2021

یہ باغی نہیں تھے، جُوسف تھے



عالم دین، استاد بھی تھے۔ اس روز بھی وہ حسب معمول سبق پڑھا رہے تھے۔ شاگرد زمین پر نصف دائرے کی صورت میں کتابیں کھولے بیٹھے تھے۔ استاد گرامی بہت آرام دہ حالت میں، Relaxed ہو کر تشریف فرما تھے۔ دستار اتار کر ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ شاگرد فقرہ پڑھتا تھا۔ استاد اس کے رموز و اسرار کھولتے جا رہے تھے۔ مضامین بادل کی طرح برس رہے تھے۔ ایک ایک نکتہ کئی کئی اسرار لیے تھا۔ فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، لٹریچر، صاحب علم کے حضور جیسے دست بستہ کھڑے تھے۔ شاگرد ہمہ تن گوش تھے۔ کچھ ساتھ ساتھ لکھتے جا رہے تھے۔ کچھ محویت کے ساتھ سن رہے تھے۔
اچانک مسجد کا دروازہ کھلا۔ ایک طویل قامت، وجیہ شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں خوبصورت عصا تھا۔ سفید عمامے پر طُرّہ، رُو بہ فلک تھا۔ قیمتی چغہ زیب تن تھا۔ پہلی نظر ہی میں وہ ایک بہت زیادہ پڑھا لکھا شخص لگتا تھا۔ ایک علامہ! ایک عالم! اس نے حمام سے کوزہ بھرا اور اُس ناند کے کنارے بیٹھ کر وضو کرنے لگا جس پر بیٹھ کر وضو کیا جاتا تھا۔ استاد‘ جو پڑھا رہے تھے، بھانپ گئے کہ یہ شخص ضرور عالم ہے۔ اُس زمانے میں، جس کی ہم بات کر رہے ہیں، یہ رواج تھا کہ جب کوئی عالم، کوئی استاد سبق پڑھا رہا ہوتا تھا تو کوئی بھی پاس بیٹھ کر سن سکتا تھا۔ اس طرح بعض اہل علم استاد کی غلطی بھی نکال دیتے تھے۔ اس وقت کلاس روم نہیں ہوتے تھے۔ مسجد ہی درسگاہ ہوتی تھی اور مسجد کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے تھے۔ پڑھانے والے عالم، سنبھل کر بیٹھ گئے۔ دستار سر پر رکھ لی۔ پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ اب وہ زیادہ توجہ اور احتیاط سے پڑھانے لگے۔ طویل قامت، وجیہ شخص وضو سے فارغ ہو کر مسجد کے صحن میں در آیا۔ دستار، چغہ اور اس کی بارعب شخصیت اس کے گرد ایک پُر اثر فضا لیے تھی۔ استاد گرامی اٹھے۔ اجنبی سے مؤدبانہ انداز میں مصافحہ کیا اور استفسار کیا کہ جناب کا اسم گرامی؟ اجنبی کے چہرے پر لاعلمی کا ایک عجیب تاثر ابھرا۔ کیا کہا آپ نے؟ اس نے پوچھا؟ استاد پھر گویا ہوئے حضور کا اسم گرامی؟ اب کے اجنبی نے کھردرے دیہاتی لہجے میں بتایا: میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ استاد نے کہا: آپ کا نام پوچھا ہے۔ اس نے کہا: جوسف۔ استاد کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ واپس اپنی مسند پر آئے۔ دستار سر سے اتار کر ایک طرف رکھی۔ تکیے سے ٹیک لگائی اور طلبہ سے کہا: آپ لوگ اپنا سبق جاری رکھیں‘ یہ تو جُوسف ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گاؤں کے ان پڑھ لوگ یوسف کو جوسف، خاتون کو کھاتُوں، خیر مبارک کو خیر ممارک اور سفارش کو سپارش کہتے ہیں۔ اکبری عہد کے دو مشاہیر، عرفی اور فیضی کا واقعہ مشہور ہے۔ دونوں میں باہمی معاصرانہ چشمک تھی۔ فیضی کا ایک بے مثال کارنامہ اس کی غیر منقوط تفسیر سواطع الالہام ہے۔ غیر منقوط کا مطلب ہے کہ پوری تفسیر میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ ہو۔ فیضی بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کہ عرفی آ گیا۔ پوچھا: کس فکر میں ہو؟ فیضی نے بتایا کہ اپنے والد کا نام مبارک، تفسیر میں لکھنا چاہتا ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ کیسے لکھوں۔ عرفی نے شرارت سے کہا کہ تمہاری جو اصلی زبان ہے‘ اس میں مبارک کو ممارک کہتے ہیں، وہی لکھ دو!
ترین گروپ نے نام نہاد علمِ بغاوت بلند کیا تو سب ہوشیار ہو کر بیٹھ گئے۔ دستاریں سر پر رکھ لیں۔ ٹانگیں سمیٹ لیں۔ کسی نے پیش گوئی کی کہ حکومت کی جان اسی طوطے میں ہے۔ یہ گروپ حکومت کو لے بیٹھے گا۔ کسی نے اپنی طرف سے نوشتۂ دیوار پڑھا اور منادی کر دی کہ بجٹ پاس نہیں ہو گا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ باغی گروپ کی پشت پر نادیدہ قوتیں ہیں۔ زیادہ ہنسی ان بزرجمہروں پر آتی ہے جو اس گروپ پر نظریاتی، تعمیری اور سنجیدہ ہونے کی تہمت دھر رہے تھے۔ اس گروپ کے ایک صاحب کی تقریر تو خاصی وائرل ہوئی۔ سبحان اللہ! کیا تیور تھے اور کیا عزائم تھے۔ اس خزینے سے صرف چند جواہر ریزوں کی دمک ملاحظہ ہو:
٭ آج بھی ہم خان صاحب کے ساتھ ہیں لیکن ہمارے جو تحفظات ہیں وہ تو کوئی سنتا نہیں ہے۔
٭ جن منسٹروں کو آپ نے بنایا، ایک چور نکلا میڈیسن میں۔ دوسرا چور نکلا کسی اور چیز میں، تیسرا چور نکلا آٹے میں، چوتھا چور نکلا کسی اور چیز میں تو کس کی چوائس تھی؟
٭ اگر مجھے اپنی پارٹی میں بیٹھ کر بولنے کا حق نہیں ہے اور میں چوبیس گھنٹے مالشیا بنا رہوں تو کیا میرے لیے بہتر ہے؟
٭ خان صاحب کے ارد گرد جو ٹولہ بیٹھا ہے وہ پلان کر کے میری پارٹی کو میرے لیڈر کو ایک غلط طرف لے کے جا رہے ہیں۔ ان کو پتہ نہیں کہ نیچے کیا حالات ہیں؟ خالی عمران خان کا نام پارٹی نہیں ہے۔ ہم سب پارٹی ہیں۔
٭ بزدار صاحب کے پاس کوئی کوائلٹی نہیں ہے۔ چار دن پہلے تو وہ پارٹی میں آئے ہیں۔ ان کا کیا ہے اس پارٹی کے اندر؟
ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ کتنے بلند نظریاتی عزائم تھے الگ شناخت قائم کرنیوالے اس گروپ کے! منسٹروں کی بد دیانتی! بولنے کا حق! مگر جیسے ہی حکومت کے عمائدین نے رابطہ کیا سارے آدرش یوں تحلیل ہو گئے جیسے سورج کی کرنوں میں شبنم غائب ہو جاتی ہے۔ بزدار صاحب وہیں ہیں۔ منسٹر بھی وہیں ہیں۔ خان صاحب کے گرد مبینہ ٹولہ بھی موجود ہے مگر گروپ کے تحفظات ختم ہو گئے۔
ترین گروپ ہے یا کوئی اور، کوئی فارورڈ گروپ ہے یا بیک ورڈ گروپ، اس ملک کا مفاد کسی کے لیے اہم نہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ تفتیش ختم کرانا چاہتے ہیں۔ مقدمات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ سب بلیک میلنگ کے حیلے ہیں۔ کارخانے چلتے رہیں۔ سبسڈی ملتی رہے۔ تجوریاں بھری رہیں۔ ذاتی جہاز اُڑتے رہیں۔ اولاد کا مستقبل ملکی سیاست میں روشن رہے۔ جو دعوے کرتے ہیں کہ این آر او نہیں لیں گے‘ انہوں نے این آر او کے لیے جھولی پھیلا رکھی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیں گے‘ وہ این آر او دے رہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے۔ کھال بچ جائے۔ اقتدار چلتا رہے۔ دیہاڑیاں لگتی رہیں۔ ٹھِیّے آباد رہیں۔ پی پی پی ہے یا نون لیگ یا قاف لیگ‘ تحریک انصاف ہے یا ترین گروپ‘ پی ڈی ایم ہے یا ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ! تبدیلی کا دعویٰ ہے یا نئے یا پرانے پاکستان کا وعدہ! سب اپنی خواہشوں کے اسیر ہیں۔ سب کسی نہ کسی درجے میں بلیک میل ہو رہے ہیں۔ سب کسی نہ کسی درجے میں بلیک میل کر رہے ہیں۔ ساری جدوجہد دو لفظوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ صرف دو لفظوں کے گرد! کھال اور اقتدار!
کوئی ہرجائی نہیں، کوئی وفادار نہیں
سب گرفتار ہیں ہر لحظہ دھڑکتے دل کے
آج جو پارٹی تخت پر متمکن ہے، اس کے وزرا کی بھاری تعداد انہی افراد پر مشتمل ہے جو ماضی کی حکومتوں میں وزیر تھے۔ کل جو پا رٹی اپنے سر پر تاج رکھے گی اس کے وزیر بھی یہی افراد ہوں گے۔ ایک ہی این آر او ہے جو ستر سالوں سے چلا آرہا ہے۔ یہی این آر او ہے جس کا سایہ مستقبل پر محیط ہے۔
جو علیحدہ ہونے والے گروپ کے بلند عزائم دیکھ کر سنبھل گئے تھے، انہیں چاہیے کہ تکیے سے ٹیک پھر لگا لیں۔ دستار اتار کر رکھ دیں۔ چوکنّا ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ باغی نہیں تھے، جُوسف تھے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, May 20, 2021

اسرائیل بمقابلہ مسلم ممالک کا انتشار



خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں نہ خواب فروخت کرنے پر!
تاہم اس بات کا، بظاہر، کوئی امکان نہیں کہ آنے والے پچاس یا سو سالوں میں مسلم ممالک اسرائیل کا کچھ بگاڑ سکیں۔ یہ پچاس یا سو سال کا  اس لیے لکھا ہے کہ اسے ثابت کرنا آسان ہے۔ انیسویں صدی کے سفرنامے پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ 1847ء میں یوسف کمبل پوش کا سفرنامہ یورپ شائع ہوا۔ 1870ء میں سر سید احمد خان برطانیہ گئے اور وہاں کا احوال لکھا۔ پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جتنا فرق تعلیم، معاشرت، اقتصادیات، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اس وقت کے یورپ اور ہم مسلمانوں میں تھا، آج، سو ڈیڑھ سو سال کے بعد، یہ فرق زیادہ تو ہوا ہے‘ کم نہیں ہوا‘ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کئی مسلم ممالک کی نسبت، کچھ حیثیتوں میں، زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اس پر قیاس کیجیے کہ باقی ممالک کتنے پیچھے ہیں جبکہ اسرائیل معاشی اعتبار سے اور ٹیکنالوجی میں کم از کم عرب ممالک سے کوسوں آگے ہے۔ اگر گزشتہ سو‘ ڈیڑھ سو برسوں میں ہم جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں تو آئندہ پچاس یا سو سالوں میں کون سے پر نکل آئیں گے؟ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ 'جیڑھے اِتھے بھیڑے، او لاہور وی بھیڑے! یعنی جو لوگ اپنی نیچر میں برے ہیں، وہ لاہور جیسے خوبصورت شہر میں جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے۔
مگر اصل رونا معاشی پس ماندگی اور ٹیکنالوجی میں تفاوت کا نہیں۔ اصل مسئلہ کچھ سوالات کا ہے کہ ہمارے پاس ان کے کیا جوابات ہیں؟
پہلا سوال یہ ہے کہ سینی گال، موریطانیہ اور مراکش سے لے کر ملائیشیا اور برونائی تک، تمام آزاد مسلم ممالک مسئلۂ فلسطین کے لیے مل بیٹھنے پر آمادہ ہیں؟
دوسرا‘ کیا ایسی خارجہ پالیسی کی تشکیل پر وہ اتفاق کر لیں گے جس کا مرکزی نکتہ اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کی آزادی ہو؟
تیسرا‘ اس خارجہ پالیسی کے تحت، جب بھی ضرورت پڑی، کیا وہ اسرائیل نواز ملکوں سے تعلقات توڑ سکیں گے؟
چوتھا‘ کیا اسرائیل کے حملوں کو روکنے اور جوابی کارروائی کے لیے پچپن ممالک متحدہ فوج، بالخصوص مشترکہ فضائیہ کی تشکیل کریں گے؟
پانچواں‘ کیا اس فوج کے اور دیگر متحدہ منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک مشترکہ مسلم فنڈ قائم کریں گے؟
ان سوالات کے جواب معلوم کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ فلسفے کے کسی لمبے چوڑے علم کی! مشترکہ فوج بشمول فضائیہ کا، مشترکہ فنڈ اور یکساں فارن پالیسی کا، دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ وجوہ اس کی بہت سی ہیں‘ مگر عالم اسلام کے انتشار بمقابلہ اسرائیل‘ کی چار بڑی وجوہ ہیں۔ اول‘ مسلمان ملکوں میں فیصلے عوامی نمائندے نہیں کرتے۔ پارلیمان کہیں نہیں۔ جہاں ہے وہاں ایک شو پیس سے زیادہ نہیں۔ ترکی، ملائیشیا یا پاکستان بظاہر جمہوری ممالک ہیں مگر اپنے ملک کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ نواز شریف کا دور ہو یا عمران خان صاحب کا، پارلیمنٹ کی حیثیت اس عمر رسیدہ پہلی بیوی کی سی ہے جس کے بعد نوجوان بیویاں شوہر پر قبضہ کر لیتی ہیں، آرڈیننسوں کی بھرمار ہے۔ بزدار صاحب کی مثال ڈھکی چھپی نہیں۔ بچے بچے کو معلوم ہے کہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ جہاں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو گھاس نہ ڈالی جائے وہاں فردِ واحد یا اس کی کچن کابینہ، اسرائیل جیسے مہیب مسئلے پر خاک فیصلے کرے گی؟ اس کے مقابلے میں مغربی ممالک، جن کی اکثریت اسرائیل کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتی ہے، اپنی اپنی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کا، منجملہ دیگر فوائد کے، ایک بڑا فائدہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ پالیسیاں اوبامہ کی یا جو بائیڈن کی نہیں، نہ ہی تھریسا مے یا بورس جانسن کی ہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی ہیں۔ سعودی عرب کو لیجیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ پالیسیاں شہزادہ ایم بی ایس کی نافذ ہو رہی ہیں۔ پھر مسلمان ملکوں میں وسط ایشیا کی ریاستیں تو، مسلم اتحاد، اگر بن بھی جائے تو، بالکل ہی بارہ پتھر باہر ہیں۔ یہ ریاستیں عملاً اب بھی آہنی پردے کے پیچھے ہیں اور روس کی مٹھی سے باہر ہیں نہ باہر نکلنا چاہتی ہیں۔
دوم‘ مسلمان ملک، بد قسمتی سے دو واضح گروہوں میں منقسم ہیں۔ مسلکی اختلاف سیاست میں در آیا۔ (ویسے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیاسی اختلاف تھا جو مسلکی دروازے میں داخل ہو گیا) ۔ یہ امت کی بد قسمتی ہے کہ اس وقت عرب ممالک کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ عرب عجم مخاصمت کی جڑیں گہری ہیں مگر ماضی قریب میں ایک انقلاب کی برآمد کے نعروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس سے عربوں کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہو گیا۔ غالباً خوف کے سبب۔ ہم چونکہ تجزیہ کر رہے ہیں، اپنی رائے نہیں دے رہے اس لیے یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ عجم کی غلطی ہے یا عربوں کی۔ ہم صرف واقعات اور اعلان شدہ پالیسیوں کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کر رہے ہیں۔ جب عدم اعتماد اور ایک دوسرے سے خوف اس حد تک پہنچ جائے تو اتحاد، وہ بھی عساکر کی بنیاد پر!! ناممکن ہے۔ تاہم آج کل کچھ حوصلہ افزا خبریں آرہی ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے سالِ رواں‘ اٹھائیس اپریل کو عریبیہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہو ئے کہا کہ وہ ایران سے اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ اس سے پہلے یہ رپورٹیں بھی موصول ہوئیں کہ عراق میں دونوں ملکوں کے ٹاپ کے افسروں نے آپس میں بات چیت کی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید کی نہ تائید بلکہ یہ کہا کہ ایران بات چیت کو ہمیشہ خوش آمدید کہتا ہے۔ بہرطور یہ آغاز ہے۔ اس کی بنیاد پر کسی بڑے بریک تھرو کی امید نہیں کرنی چاہیے‘ لیکن اگر یمن کا ایشو حل ہو جائے تو یہ ایران عرب دوستی کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔ بد قسمتی سے عالم اسلام میں کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آرہی جو اس ایشو کو اپنی دانائی سے حل کرا سکے۔
سوم‘ فرض کیجیے اتحاد ہو بھی جائے اور بلی، بچوں کے بجائے انڈے دے بھی دے تو مسلم ملک لڑیں کے کس چیز سے؟ نعروں سے؟ فتووں سے؟ اپنی املاک نذر آتش کر کے؟ تقریروں سے؟ سونے کی بنی ہوئی لیموزینوں سے؟ گولڈ پلیٹڈ برقی سیڑھیوں سے؟ اقبال نے کہا تھا:
ہوائیں اُن کی، فضائیں اُن کی، سمندر اُن کے، جہاز اُن کے
گِرہ بھنور کی کُھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
مغربی ملکوں کی برآمدات دیکھ لیجیے۔ جہاز‘ آب دوزیں، ٹینک، کمپیوٹر، پورے پورے کارخانے، لائف سیونگ ادویات، گاڑیاں، کمپریسر، موبائل فون‘ ریل کے انجن جبکہ مسلم ملکوں کی برآمدات زیادہ تر زرعی اجناس، پھل اور سبزیوں پر مشتمل ہیں۔ رہی کچھ ملکوں کی تیل کی دولت! تو وہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کن کی کمپنیوں نے تیل ڈھونڈا، متعلقہ ٹیکنالوجی فراہم کی اور چلائی۔ اسرائیل خود بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی یافتہ ہے۔ پھر اس کے پشتی بان تو وہ ہیں جو کرۂ ارض کی بادشاہی کے دعوے دار ہیں‘ اور یہ بادشاہی جمہوریت، سائنسی ترقی، ایجادات، نظام عدل اور انسانی حقوق کے احترام سے حاصل ہوئی ہے۔
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم مسلمان کتنے پانی میں ہیں۔ کتنے ہی فلسطینی گزشتہ چند دن میں شہید کر دیئے گئے۔ پچپن مسلمان ملک اسرائیل کا بال بیکا نہیں کر سکے۔ جن مسلم ملکوں کے پاس دولت ہے ان کے سلاطین و امرا ایک ایک ہزار خدام کے ساتھ سفر پر نکلتے ہیں۔ جو ملک غریب ہیں وہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اسرائیل کے لیے میدان کھلا ہے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Wednesday, May 19, 2021

اے اہلِ فلسطین !!



کوئی فلسطینیوں کو سمجھائے کہ ہم ابھی مصروف ہیں۔
کون کہتا ہے کہ ہم اُن مصیبتوں سے غافل ہیں جو ہمارے فلسطینی بھائیوں پر ٹوٹ رہی ہیں۔ ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہم ان دردناک لمحات میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری جانیں ان پر نثار۔ مگر عملی طور پر ہم کچھ نہیں کر سکتے اس لیے کہ ہم مصروف ہیں۔
فلسطینی بھائیو ! روتی سسکتی بہنو ! چیختے چلاتے فلسطینی بچو! یقین جانو ہم ابھی بہت مصروف ہیں۔ ہم نے ابھی کچھ ضروری امور سرانجام دینے ہیں۔ ابھی ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ ہم میں شیعہ کون ہیں اور سُنی کون ہیں ؟ ابھی ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا سنیوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور کیا شیعہ کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے ؟ ابھی ہم نے یہ طے کرنا ہے کہ نماز میں ہاتھ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے اور ہاتھ باندھنے والے اور نہ باندھنے والے اور۔ آمین اونچی کہنے والے اور آمین اونچی نہ کہنے والے اچھے مسلمان ہیں یا بُرے اور مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟ ابھی ہمارا واعظ فخر سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہے۔ ہم ان زیادہ اہم مسائل سے فارغ ہو لیں تو فلسطینیو ! اے مظلوم فلسطینیو! تمہارے لیے کچھ سوچیں گے ! ضرور سوچیں گے !
ابھی تو ہم نے یمن میں اور افغانستان میں اور عراق میں اور شام میں بہت سے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ختم کرنا ہے۔ ابھی ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اچھے طالبان کون ہیں اور بُرے طالبان کون ہیں ؟ ابھی تو ہم نے فرانس کی گستاخیوں کا بدلہ اپنی پولیس اور اپنے عوام اور اپنی املاک سے لینا ہے۔ ابھی تو ہم نے دھرنا دینے والوں پر گولیاں چلانی ہیں۔ ابھی تو ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ کس کو باہر جانے دینا ہے اور کس کو نہیں اور کس کا نام ای سی ایل پر ڈالنا ہے اور کس کو این آر او دینا ہے اور کس کو نہیں چھوڑنا اور کس کو چھوڑنا ہے ؟ابھی تو ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ استنبول کے قونصل خانے میں اور کس کس کے ٹکڑے کر کے اُسے ریزہ ریزہ کرنا ہے ؟ ابھی تو ہم انقلاب کو مسلمان ملکوں میں ایکسپورٹ کرنے میں رات دن مصروف ہیں ! ابھی تو ہم نے فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے اور اس کیلئے پورے پورے فرقوں ہی کو موت کے گھا ٹ اتارنا ہے !
معصوم اور مظلوم فلسطینیو! ابھی ہم ذرا کچھ محلات تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ ابھی ہم نے رباط اور قاہرہ میں‘ جدہ اور دبئی میں ‘ لاہور اور کراچی میں ‘ استنبول اور دوحہ میں سیون سٹار ہوٹل اور محلات اور کسینو اور تماشاگاہیں کھڑی کرنی ہیں ! ابھی ہم نے رائے ونڈ میں ‘ گجرات میں ‘ ملتان میں‘ لاڑکانہ میں ‘ بنی گالہ میں اور لندن میں عشرت کدے بنانے ہیں۔ ابھی تو ہم نے تبوک میں نیا شہر بسانا ہے۔ ابھی تو ہم نے پیرس کے نواح میں صرف ستاون ایکڑ کا محل خریدا ہے۔ ابھی تو ہمیں ساحلِ فرانس پر چہل قدمی کے دوران ایک خوبصورت یاچ ہی نظر آئی جو ایک روسی بزنس مین کی تھی اور جو ہم نے صرف پچاس کروڑ ڈالر میں خرید لی۔ اس میں صرف دو سو ہی تو خواب گاہیں ہیں۔ ابھی تو ہمارے پاس دنیا کی گراں ترین صرف اٹھارہ ہی تو کاریں ہیں جن کی مالیت تئیس کروڑ ڈالر ہی تو بنتی ہے۔ابھی تو ہم نے نیویارک کی نیلامی میں پانچ سو سالہ قدیم پینٹنگ صرف 45 کروڑ ڈالر ہی میں خریدی ہے۔ ابھی تو ہم صرف آٹھ سو خدام لے کر سفر پر نکلتے ہیں۔ ان میں سے بھی ڈیڑھ سو باورچی نکال دیے جائیں تو خدام کی تعداد صرف ساڑھے چھ سو ہی تو رہ جاتی ہے۔ابھی تو دورے پر ہم پانچ سو چھ ٹن سامان ساتھ لے کر جاتے ہیں جسے کار گو کمپنی کے صرف پانچ سو ستر ملازم لادتے اور اتارتے ہیں۔ ابھی تو ہمارے سامان کیلئے سات جہاز اور رفقائے سفر کیلئے صرف چھتیس جہاز ساتھ جاتے ہیں۔ ابھی تو ہمارے بوئنگ سیون فور سیون میں صرف خواب گاہیں‘ لاؤنج‘ کانفرنس روم‘ کمرہ طعام‘ ڈرائنگ روم اور ملازموں کے ہی کمرے ہیں۔ ابھی تو ہم ایک سو لیموزین کاریں اور دو گولڈ پلیٹڈ برقی سیڑھیاں ساتھ لاتے ہیں۔ ابھی تو ہم ٹوکیو میں اعلیٰ ترین ہوٹل کے بارہ سو کمرے‘اور فرانس میں صرف چار سو لگژری کاریں کرائے پر لیتے ہیں۔ ابھی تو ہم روس میں اپنے ساتھ صرف ایک ہزار کلو گرام کھانا لے کر جاتے ہیں۔ واشنگٹن میں صرف دو سو بائیس کمرے بُک کراتے ہیں۔ ابھی تو ہم مالدیپ میں صرف تین پورے پورے جزیرے ریزرو کرا لیتے ہیں۔سادہ دل ‘ سادہ لوح فلسطینیو! ابھی تو ہم ان کاموں میں مصروف ہیں۔ ہماری مدد کیلئے تمہیں انتظار کرنا ہو گا۔
ابھی تو اسرائیل کے ساتھ کیے گئے‘ یو اے ای اور بحرین کے معاہدوں کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی۔ابھی2020ء میں صرف مراکش اور اسرائیل ہی کا تو معاہدہ ہوا ہے۔ ابھی ترکی‘ اسرائیل کا چھٹا ہی توتجارتی پارٹنر ہے۔ ابھی ہفتے میں تل ابیب اور استنبول کے درمیان ہفتہ وار پروازوں کی تعداد صرف سترہ ہی تو ہے۔ ابھی ترکی صرف تمباکو‘ سیمنٹ‘ پلاسٹر‘ سرامک اور شیشے کی مصنوعات ہی تو اسرائیل کو برآمد کرتا ہے۔ابھی شرقِ اوسط کے مسلمان ملکوں کے صرف خفیہ تعلقات ہی تو ہیں اسرائیل کے ساتھ۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ فلسطینیو! ابھی انتظار کرو ! ہم تمہارے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے‘ ضرور کریں گے۔ بس ذرا امریکہ سے اجازت لینا ہو گی۔ ذرا روس‘ چین اور جاپان سے مشورہ کرنا ہو گا۔ ابھی تو عالم ِاسلام کی مشترکہ فوج ترتیب دینی ہے۔ اس مشترکہ لشکر کا سپہ سالار تو موجود ہے بس ذرا لشکر بنانا ہے۔ پیڈل ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں بس سائیکل فٹ کروانی ہے۔
فلسطینی بھائیو ! یہ بھی تو سوچو ابھی ہم ہیں ہی کتنے ؟ صرف پچپن مسلمان ممالک ! اس قلیل تعداد میں ہم اتنے بڑے اسرائیل کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے اور امریکہ ہمارا مائی باپ۔ ہمارا آقا‘ ہمارا مالک ہمارا سب کچھ ہے۔ اور خدا کے بندو ! پیارے فلسطینیو! یہ بھی تو دیکھو دنیا میں اس وقت یہودیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے کم نہیں۔ اور ہم مسلمان صرف دو ارب کے لگ بھگ ہیں۔ مانا کہ یہودی دنیا کی کل آبادی کے ایک فی صد سے کم ہیںمگر ہم مسلمان بھی تو دنیا کی آبادی کا صرف پچیس فی صد ہیں۔ تم خود انصاف کرو۔ آخر ہم دو ارب مسلمان ‘ ان ڈیڑھ کروڑ کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم بہادر تو بہت ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمیں ذرا ڈر لگتا ہے۔ یہاں پاکستان میں ہمارا ایک بادشاہ تھا۔ وہ جب خوف زدہ ہوتا تھا تو کہتا تھا '' میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ‘‘۔ ہم بھی ڈرتے تو نہیں‘ بس ذرا خوف زدہ ہیں۔ اللہ کے راستے میں جان دے دی تو ہمارے محلات‘ ہمارے کارخانوں‘ ہمارے جہازوں‘ ہماری لیموزینوں ‘ ہماری سونے کی بنی ہوئی برقی سیڑھیوں ‘ ہماری زرِ خالص سے بنی ہوئی ٹونٹیوں‘ کنجیوں‘ کنڈوں کا کیا بنے گا؟
بس ذرا اور انتظار کرو۔ ہاں بہت جلدی میں ہو تو خود لڑو ‘ شہادت پاؤ۔ ہم ان شاء اللہ ایسا درد ناک ملی نغمہ ‘ زبر دست کمپوزیشن کے ساتھ ‘ تمہاری یاد میں پیش کریں گے کہ سن کر دنیا جھوم اٹھے گی !!

بشکریہ روز نامہ دنیا

Monday, May 17, 2021

ایک اہم قومی ایشو … چند تجاویز



والدین شکوہ کرتے ہیں کہ آج کل کے بچوں کو کچھ سمجھانا ایک مشکل کام ہے مگر سچ پوچھیے تو مشکل ترین کام آج کل کی حکومتوں کو سمجھنا سمجھانا ہے۔ اس اپنی حکومت ہی کو دیکھیے۔ ابتدا میں تو اس کی پالیسیاں درست تھیں اور اقدامات حوصلہ افزا! بزدار صاحب کو وزیر اعلیٰ تعینات کر کے دلوں کو مسخر کر لیا گیا۔ افرادی قوت کے بہترین استعمال Right person for the right job کی یہ ایسی مثال تھی کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی تحسین کی گئی۔ کابینہ میں جب ایک ڈاکٹر صاحب کو بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے چنا گیا تو اس انتخاب کو بھی ملک کے اندر اور باہر بہت سراہا گیا۔ وجہ ظاہر تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے گزشتہ حکومتوں میں بھی یہی ذمہ داری نبھائی تھی‘ مگر کام اس قدر اطمینان سے کرتے ہیں اور تفصیل سے کہ کسی حکومت میں بھی اصلاحات کی پٹاری سے برآمد کچھ نہیں ہوتا کہ حکومت بدل جاتی ہے۔ اس حکومت میں یہی کام انہوں نے پھر الف سے شروع کیا۔ تین برس ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ بہت ہی تاریخی قسم کی اصلاحات لے کر آئیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ پانچ سال اس کام کے لیے کم پڑیں۔ امید واثق ہے کہ حسبِ معمول‘ اگلی حکومت میں‘ جس کی بھی ہوئی‘ یہی کام ایک بار پھر الف ہی سے شروع کریں گے۔ انہی کے لیے تو شاعر نے کہا تھا؎
شبِ وصال بہت کم ہے‘ آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
باقی پالیسیاں بھی ابتدا میں تسلی بخش تھیں۔ جب جناب عمر ایوب‘ جناب سومرو‘ جناب خسرو بختیار‘ جناب شیخ رشید‘ جناب فروغ نسیم‘ جناب اعظم سواتی‘ محترمہ زبیدہ جلال اور محترمہ فہمیدہ مرزا کو مختلف قلمدان سونپے گئے تو تبدیلی کا وعدہ پورا ہوتا نظر آیا اور عوام نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آخر کوئی ایسی لیڈرشپ بھی آ ہی گئی جس نے آزمودہ گھِسے پٹے چہروں سے نجات دلائی اور تازہ خون حکومت کی رگوں میں دوڑایا۔ ابتدائی ایام کے بعد بھی پالیسیاں قابلِ ستائش رہیں۔ مختصر کابینہ‘ کروڑوں ملازمتوں اور لاکھوں گھروں کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ وفا کیے گئے۔ شکرانے میں لوگوں نے نوافل ادا کیے۔
مگر اب نہ جانے کیا ہوا ہے۔ شاید حکومت کو حاسدوں کی نظر لگ گئی ہے۔ وہ جو پالیسیوں میں توازن تھا‘ رفتہ رفتہ غائب ہونے لگا ہے۔ ترجیحات عجیب سی ہو نے لگی ہیں۔ جو امور توجہ طلب ہیں‘ پسِ پشت ڈالے جا رہے ہیں۔ غیر ضروری کاموں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ شہباز شریف کے معاملے ہی کو لے لیجیے‘ جس ترجیح اور فل ٹائم توجہ کا یہ مسئلہ مستحق تھا‘ اس سے محروم ہے۔ بجا کہ سعودی عرب سے آتے ہی جناب وزیر اعظم نے اس مسئلے کے حوالے سے فوراً اجلاس طلب کیا مگر تاخیر تو ہو چکی تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ غیر ملکی دورے کو فی الفور مختصر کر کے‘ وزیر اعظم واپس پہنچتے یا بیرون ملک ہی اس موضوع پر میٹنگ بلاتے۔ میزبان ملک میں بیٹھ کر اس موضوع پر پریس کانفرنس کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ وہاں کی حکومت اور عوام کو بھی معلوم ہو جاتا کہ پاکستانی لیڈرشپ کسی صورت بھی اہم امور کو معرضِ التوا میں نہیں ڈالتی۔
خدا کا شکر ہے کہ گیارہ مئی کو ٹیلی ویژن پر عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے شہباز شریف کے مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کیا۔ آپ نے واضح طور پر ایک بار پھر بتایا کہ ''شریف خاندان کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ اور یہ کہ ''میں این آر او نہیں دوں گا‘‘ اور یہ کہ ''شہباز شریف ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم کی اس فکر اور دل سوزی کی اور جہدِ مسلسل کی قدر کرنی چاہیے۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس اہم قومی مسئلے پر توجہ مرکوز کریں مگر کیا یہ کافی ہے؟ نہیں! ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اس مسئلے کو Institutionalise نہیں کریں گے یعنی اس کے لیے ادارے نہیں بنائیں گے‘ تب تک یہ مسئلہ پوری طرح اجاگر ہو گا نہ حل ہو سکے گا۔ سب سے پہلے وفاق کی سطح پر ہمیں ایک ہمہ وقتی وزارت اس کام کے لیے بنانا ہو گی‘ اس کا نام ''وزارت برائے امورِ شریفاں‘‘ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ وزارت صوبوں میں بھی ہو گی۔ کم از کم کے پی میں اور پنجاب و بلوچستان میں تو یہ کام فوری طور پر کیا جا سکتا ہے۔ رہی سندھ کی حکومت تو اسے قائل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ وفاقی اور صوبائی وزارتیں اپنی پوری توجہ اس امر پر مرکوز رکھیں گی کہ شہباز شریف کو باہر جانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات نے 'حکومت پاکستان‘ کے لوگو میں تبدیلی سے متعلق تجویز دے کر نئی بحث کا آغاز کیا ہے اور کہا ہے کہ لوگو میں چائے اور پٹ سن کی تصویر ہٹا کر سائنس‘ ٹیکنالوجی اور تعلیم کے آئیکون رکھے جائیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ لوگو میں دو باتیں ضرور لکھی جانی چاہئیں۔ ایک ''نہیں چھوڑیں گے‘‘ اور دوسری ''این آر او نہیں دیں گے‘‘۔ اس سے ہماری ترجیحات قومی سطح پر زیادہ اصرار اور تاکید کے ساتھ متشکل ہو سکیں گی۔ اگر سو روپے کے نوٹ پر بھی لکھ دیا جائے کہ ''شریف فیملی کا تعاقب کرتے رہیں گے‘‘ تو یہ عزم ہر شہری تک پہنچ سکے گا۔ یوں عوام اور حکومت ایک پیج پر ہو جائیں گے۔ ملک کے اطراف و اکناف میں ہر شاہراہ پر بڑے بڑے بینر لگانے ہوں گے جن پر یہ جملے درج ہوں گے:
نہیں چھوڑیں گے!
شہباز شریف کو باہر نہیں جانے دیں گے!
این آر او نہیں دیں گے!
ان بینرز کا فائدہ یہ ہو گا کہ وزیر اعظم کو اپنی ہر تقریر اور ہر بیان میں یہ باتیں دہرانا نہیں پڑیں گی کیونکہ دہرا دہرا کر وہ بھی نڈھال ہو چکے اور عوام کے بھی کان پک چکے!
ان داخلی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیں خارجی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو ایک ہائی لیول وفد تشکیل دینا چاہیے جو دوسرے ملکوں میں جا کر وضاحت کرے کہ ہم شہباز شریف کو بیرون ملک کیوں نہیں جانے دے رہے۔ وفد کی قیادت خود وزیر اعظم کریں یا صدرِ مملکت! یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شہباز شریف ایک بہت ہوشیار سیاست دان ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ کسی غیر معروف ملک کے ذریعے باہر جانے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ برازیل‘ چلی‘ زیمبیا اور سینی گال کی سرحدیں ہمارے ملک سے نہیں ملتیں پھر بھی ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام ملکوں کو اس حوالے سے خبردار کرنا ہو گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سفارت خانے اس حوالے سے اپنے فرائض درست طور پر نہیں سرانجام دے رہے۔ ہر سفیر اپنے میزبان ملک کی حکومت سے یہ عہد نامہ حاصل کرے کہ وہ شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کی مخالفت کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دے گا۔ جو ملک اس ضمن میں تعاون نہ کرے ہمیں اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے ہوں گے۔ عزت کے ساتھ جینے کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا!
کم از کم ایک بار یہ ایشو ہمیں اقوام متحدہ کی سطح پر بھی اٹھانا ہو گا۔ اقوام متحدہ میں ہمارا مستقل مندوب شاید سو رہا ہے۔ لازم ہے کہ یو این او کا سیکرٹری جنرل ہمارے وزیر اعظم کو دعوتِ خطاب دے تا کہ وزیر اعظم دنیا بھر کو بتا سکیں کہ پاکستان شہباز شریف کو باہر کیوں نہیں جانے دے رہا۔ اس سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, May 13, 2021

مجھے میرے دوستوں سے نہیں، غیروں سے بچاؤ


ایک غریب، بے نوا شاعر سے بادشاہ کسی بات پر ناراض ہو گیا۔ یہ بادشاہ بھی بالکل اللہ لوک تھے۔ مُوڈی! پل میں تولہ پل میں ماشہ! ذرا سی بات بری لگی تو مینار سے گرانے کا حکم دے دیا یا ہاتھی کے پاؤں تلے لٹا دیا۔ کبھی کسی کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی۔ کبھی کسی کو پوست کا عرق پلوا پلوا کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خوش ہوئے تو منہ موتیوں سے بھر دیا۔ کسی کو سونے میں تلوا دیا۔ کسی کو گاؤں کے گاؤں جاگیر میں عطا کر دیے۔ کسی کو شوگر مل لگوا دی۔ کسی کو دو پلاٹ الاٹ کر دیے کہ ایک کو بیچ کر دوسرے پر مکان تعمیر کر لو۔ کسی کو مشیر لگا دیا تو کسی کو سفیر! کسی کو چیف سیکرٹری سے ہٹایا تو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگا دیا، کسی کو وزارت سے ہٹایا تو پارٹی کا بڑا عہدہ دے دیا۔ ہمارے تو گورنر بھی مغل بادشاہوں سے کم نہیں۔ سول ایسوسی ایشن کا سربراہ چننے کے لیے ڈھنڈورا پیٹا گیا یعنی اشتہار دیے گئے۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کا انٹرویو ہوا۔ اس کے بعد گورنر صاحب کے سیکرٹری کو تعینات کر دیا گیا جو درخواست دہندگان میں تھے نہ انٹرویو دینے والوں میں۔ پہلے تو کہانیاں سنی تھیں کہ فلاں ریاست کے بگڑے ہوئے نواب یا راجہ نے جج کی کرسی پر ڈاکٹر کو بٹھا دیا اور جج چھٹی سے واپس آیا تو چیف انجینئر کی اسامی خالی تھی، وہاں لگا دیا۔ مگر اب تو جو سنتے تھے وہ دیکھ بھی لیا۔ ہمارے ایک بادشاہ سلامت ایک ڈاکٹر صاحب کو نوازنا چاہتے تھے۔ انہیں پٹرولیم کا وزیر لگا دیا۔ دوسرے بادشاہ نے ذاتی دوست کو برما میں ایلچی بنا دیا۔ تیسرے بادشاہ سلامت نے، ان کرمفرماؤں کو جو فنڈ اکٹھا کرنے میں تعاون کرتے رہے تھے، مناصب عطا کر دیے۔
قلم بے راہرو ہے۔ بھٹک جاتا ہے۔ بات اُس شاعر کی ہو رہی تھی جس سے بادشاہ ناخوش ہوا اور اسے قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔ وزیر باتدبیر نے عرض کیا کہ یہ تو کوئی سزا نہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ ہر بادشاہ کے وزیر ہوتے ہیں۔ بادشاہ کا بخت اچھا ہو تو نظام الدین طوسی یا راجہ ٹوڈر مل جیسے وزیر ملتے ہیں۔ اور اگر بخت سیاہ ہو تو وزیر ... اچھا چھوڑیے، آپ سمجھ تو گئے ہوں گے جو یہ کالم نگار کہنا چاہتا ہے۔ وزیر نے سمجھایا کہ جہاں پناہ! قیدِ تنہائی تو شاعر کے لیے انعام سے کم نہیں۔ خلوت ہی تو شعرا کو مطلوب ہوتی ہے۔ سکون سے فکرِ سخن کرے گا۔ بادشاہ نے پوچھا: پھر کیا کرنا چاہیے ۔ وزیر نے بتایا کہ سزا دینا ہے تو اسے صحبتِ ناجنس میں جھونکیے‘ دماغ ٹھکانے آجائے گا۔ چنانچہ ایک جاہل، اجڈ، بدتمیز اور بے سروپا شخص کو اس کی کوٹھری میں بھیج دیا گیا۔ شاعر نے اس سے پوچھا تم کون ہو۔ اس نے جوابی سوال کیا کہ تم کون ہو۔ شاعر نے کہا: میں شاعر ہوں۔ اجڈ جاہل بولا: میں ماعر ہوں۔ اس کے بعد جو مکالمہ ہوا وہ یوں تھا:
شاعر: ماعر کیا ہوتا ہے؟
ماعر: تم بتاؤ شاعر کیا ہوتا ہے؟
شاعر: شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کہے۔
ماعر: ماعر وہ ہوتا ہے جو مِعر کہے۔
شاعر: مِعر کیا ہوتا ہے؟
ماعر: پہلے تم بتاؤ شعر کیا ہوتا ہے؟
شاعر: شعر اس طرح کا ہوتا ہے۔ باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور
ماعر: مِعر اس طرح کا ہوتا ہے۔ ماغ میں مِرتے ہیں کیا مُش مُش مِکور۔
اس معرکہ آرا تاریخی مکالمے پر شاعر نے اپنا سر پیٹ لیا۔ بادشاہ سے غلطی کی معافی مانگی، کانوں کو ہاتھ لگایا اور صحبت ناجنس سے جان چھڑائی۔
اِس پُر آشوب عہد میں کسی کو صحبت ناجنس کی سزا دینا ہو تو جیل میں ڈالنے کی ضرورت ہے نہ کسی احمق کو اس کے پاس بھیجنے کی! اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اُس زمانے میں سوشل میڈیا کی جیل تھی نہیں ورنہ شاعر کو اس میں ڈالتا تو نتیجہ تیر بہدف نکلتا۔ آپ ای میل کھولتے ہیں۔ ایک صاحب نے چالیس پچاس افراد کی طرف ای میل کمان میں رکھ کر پھینکی ہے۔ آپ بھی اُن چالیس لوگوں میں شامل ہیں جو اس بلائے بے درماں کا شکار ہوئے ہیں۔ چلیے! یہاں تک تو خیر تھی۔ آپ ای میل ڈیلیٹ کر دیں گے‘ مگر اب یہ چالیس حضرات، میل بھیجنے والے ان صاحب کو جوابی میل بھیجیں گے اور ہر میل آپ کے پاس بھی آئے گی۔ موضوع میں بھی آپ دلچسپی نہیں رکھتے مگر یہ لامتناہی سلسلہ اب آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ کب تک ڈیلیٹ کریں گے؟ کہاں تک کریں گے؟ ہر بار غصہ آئے گا۔ آپ کی پُرسکون زندگی کے تالاب میں کئی دن تک پتھر پھینکے جاتے رہیں گے۔ اس کالم نگار نے ایسی ای میلز کو اپنے آئی پیڈ پر بلاک کرنے کی کوشش کی مگر بات بنی نہیں! قہر درویش بر جان درویش! میر صاحب نے کہا تھا:
زار روتا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے
مگر یہ تو معمولی درد سر ہے۔ چیخیں نکلوانے والی درد کی ٹیسیں دیکھنی ہوں تو فیس بک پر یا میسنجر پر آکر تماشہ دیکھیے۔ جب کوئی اَیڈ (Add) کرنے کے لیے کہتا ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ادب سے یا شاعری سے اس کا کیا تعلق ہے۔ مگر یہ تو ہاتھی کے دانت ہیں۔ ڈھنگ کی ایک پوسٹ دیکھنے کے لیے آپ کو کئی فضول اور مہمل پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سوشل میڈیا ایک سمندر ہے جس میں جواہر تو ہیں لیکن شارک، مگر مچھ، کیکڑے، آکٹوپس اور جیلی فش کی ایسی اقسام بھی ہیں جو ڈنک مارتی ہیں اور جسم کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں۔ کچھ صاحبان آئے دن اپنی نئی تصویر لگاتے ہیں۔ ارے بھئی! آپ کی تلوار مارکہ مونچھیں اور پہلوان ٹائپ کا پوز ہم کیوں دیکھیں۔ کچھ صاحبان عقل یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ دس ہزار سے کون سا بزنس شروع کریں۔ ایک دانشمند نے تو حد کر دی۔ اپنے والد یا چچا کی ایسی دردناک تصویر لگائی کہ ہسپتال میں بے سدھ، جاں بلب پڑے ہیں۔ کئی قسم کی ٹیوبیں ناک اور منہ میں لگی ہیں۔ کیا سنگدلی ہے کہ رو کر، گڑگڑا کر ان کی صحت کے لیے دعائیں کرنے کے بجائے، فوٹو کھینچ رہے ہیں اور پھر فیس بک پر لگا رہے ہیں! احرام میں ملبوس ہو کر تشہیر کرنے کی بیماری تو جیسے عام ہی ہو گئی ہے حالانکہ احرام پوشی، عبادت کا حصہ ہے اور عبادت کی تشہیر کسی صورت مستحسن نہیں۔ رہے خارج از وزن اشعار لگانے والے تو وہ ایک الگ درد سر ہیں۔ کوستے جائیے اور اَن فالو کرتے جائیے مگر کوفت جو ہوتی ہے اس کا کیا کیجیے گا؟
وٹس ایپ اور میسنجر کی کیٹیگری ملتی جُلتی ہے۔ کوئی وڈیو کلپ یا تصویر آپ کو پسند ہے، کسی کا قول زریں آپ کو اچھا لگتا ہے تو ضرور محظوظ ہوں۔ مگرضروری نہیں کہ دوسروں کو بھی یہ پسند آئے۔ سوشل میڈیا اصل میں تو، ہم ذوق اور قریبی دوستوں کے لیے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کیا شیئر کرنا ہے اور کیا نہیں! مثلاً قریبی دوستوں کو معلوم ہے کہ میں مغربی پنجاب کے لوک گیتوں کا شیدا ہوں۔ سو وہ بھیجتے رہتے ہیں۔ پوٹھوہاری بیت کا بھی، جو کسی زمانے میں ریڈیو پر گائے جاتے تھے، اپنا مزا ہے۔
سجاد حیدر یلدرم کا مضمون مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ ہمارے ادب میں کلاسیک کا درجہ پا چکا ہے‘ مگر یہاں تو دوست غنیمت ہیں۔ ہاں! حمیرا ارشد کا گایا ہوا گیت زیادہ برمحل لگ رہا ہے:
نہ کوئی جان نہ پہچان، ایویں دھکے دا مہمان...

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, May 06, 2021

نہیں! محترمہ! نہیں


ہمارے دوست نصیر نے دوسری شادی کیا کی، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ پورا خاندان دشمن ہو گیا۔ اپنی اولاد اور پہلی بیوی کی مخالفت تو مول لینا ہی تھی، دور کے رشتے دار بھی بے بھاؤ کی سنانے لگے۔ یہ فقرہ تو عام ہی سنائی دیتا ''ہنستی بستی عورت کا گھر اجاڑ دیا‘‘۔ ایک دن جب میں بھی ان کے ہاں موجود تھا، یہ قصہ دوبارہ چھِڑا۔ نصیر کی سالی نے‘ جو اس وقت وہاں موجود تھی‘ مجھے طعنہ دیا: آپ کے دوست نے میری بہن کا گھر اجاڑ دیا‘ مرد ذات کبھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ یوں تو شاید طرح دے جاتا مگر مرد ذات والی بات کا جواب دینا ضروری تھا۔ نصیر کی سالی کو سامنے بٹھایا اور کہا کہ اس معاملے میں عورت ذات بھی برابر کی شریک ہے۔ کیا شادی کرنے والی عورت کو نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک دوسری عورت کو دُکھ دے گی؟ کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ دوسری بیوی بن کر جا رہی ہے؟ اگر دوسری شادی سے گھر اجڑتا ہے تو عورت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ اسی طرح وراثت کے معاملات کا سروے کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ملیں گے۔ ماں بھی نہیں چاہے گی کہ جائیداد میں بیٹیوں کو ان کا جائز حصہ دیا جائے۔ اکثر و بیشتر یہ عورت ہی ہوتی ہے جو بیٹا نہ پیدا کرنے پر بہو کی زندگی اجیرن کرتی ہے اور بیٹے کو بھی طلاق دینے پر اکساتی ہے۔
پنجاب حکومت کی جس مشیر نے اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ سر بازار توہین آمیز سلوک کیا‘ وہ ایک خاتون ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی خاتون ہیں۔ مشیر صاحبہ کو کم از کم یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ خاتون ہوتے ہوئے، وہ ایک خاتون کی، جس کا سر ڈھکا ہوا ہے، سر عام بے عزتی کر رہی ہیں۔ پھر چیخنا اور ایسے الفاظ استعمال کرنا کہ 'تمہیں کس ...... نے اے سی لگایا ہے اور تمہاری تو حرکتیں ہی نہیں اے سی والی‘ کسی بھی حساب سے شائستگی کے زمرے میں نہیں آتا۔ مشیر صاحبہ کو معلوم ہی ہو گا کہ اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی کس کے حکم سے ہوتی ہے! ہو سکتا ہے اصل غصہ اسی پر ہو! گمان غالب یہ ہے کہ کوئی مرد وزیر یا مشیر کسی خاتون افسر کے لیے ایسی مبتذل زبان استعمال نہ کرتا۔ گویا:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
حقوقِ نسواں کی محافظ خواتین تھوڑی سی توجہ دیوار کے اِس طرف بھی دیں۔ ان گئے گزرے وقتوں میں بھی ہمارے معاشرے میں عورت محترم ہے۔ مرد اس کے لیے نشست خالی کر دیتا ہے، قطار میں اس کے لیے اپنی باری کی قربانی دے دیتا ہے۔ بازار میں یا ٹریفک کے مسئلے پر اس کی سخت سست باتیں بھی برداشت کر لیتا ہے۔ مگر خود عورت کو کھلی چھٹی کس نے دی ہے کہ اسے جہاں موقع ملے دوسری عورت کے گُردے باہر نکالے اور تار پر لٹکا دے؟
یہ تو تھا مسئلے کا جائزہ تذکیر و تانیث کے پہلو سے! اب آئیے اس پہلو کی طرف جو بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اچھال رہے ہیں کہ بیوروکریسی ہے ہی ایسی۔ یہاں حاشا و کلا مقصود بیوروکریسی کا دفاع نہیں ہے۔ اس کالم نگار کے مستقل قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ افسر شاہی کے رویے کے خلاف بیسیوں مرتبہ لکھا ہے اور کھُل کر لکھا ہے‘ مگر ہر واقعہ کی اپنی تفصیلات اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اس واقعہ میں خاتون افسر کا کیا قصور ہے؟ کیا ایک ایک سٹال پر جا کر گلے سڑے پھل الگ کرنا یا کرانا ممکن ہے؟ مگر فرض کیجیے خاتون افسر قصور وار تھی، تب بھی تنبیہ کا یہ انداز مناسب نہ تھا! اسسٹنٹ کمشنرشپ، سول سروس کے اس گروپ میں، پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یعنی پہلی سیڑھی! اس پوسٹنگ کا تجربہ اس کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ آنے والے تیس پینتیس برس کے لیے یہاں وہ بہت سے سبق سیکھتا ہے یا سیکھتی ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں کچھ نتائج نکالتی ہے اور پھر انہی نتائج کی بنیاد پر اپنے رویّوں اور طرز عمل کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جن جن طبقات سے ابتدائی دور میں افسر کو واسطہ پڑتا ہے، ان کے بارے میں اس کے ذہن پر ایک تاثر مرتسم ہو جاتا ہے۔ یہ تاثر، منفی ہے یا مثبت، زندگی بھر رہتا ہے۔ اب مشیر صاحبہ نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے نوجوان افسر کے ذہن میں اہل سیاست کی جو تصویر بنی ہو گی اس تصویر کی خوبصورتی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگیوں پر اثر ڈالنے والے جتنے بھی طبقات ہیں، سیاست دان، بیوروکریٹ، ڈاکٹر، وکیل، تجّار، ان میں سب سے زیادہ بے دفاع یعنی Defenceless بیوروکریٹ ہی ہے۔ وہ ہسپتالوں پر حملے کرتا ہے نہ عدالتوں پر۔ شٹر ڈاؤن کرتا ہے نہ دھرنے دیتا ہے۔ پریس کانفرسوں کے ذریعے دل کے پھپھولے پھوڑتا ہے نہ ٹیکس دینے سے انکار کرتا ہے۔ وہ تو اپنی گدی پر اپنی اولاد کو بھی نہیں بٹھاتا۔ وہ حلقۂ انتخاب کا بہانہ کر کے دفتر سے ہفتہ ہفتہ غائب بھی نہیں ہوتا۔ کنڈکٹ رولز اور ایسٹا کوڈ میں جکڑا ہوا بیوروکریٹ آٹا گوندھے تو الزام لگتا ہے کہ ہلتا کیوں ہے، نہ گوندھے تو شکایت ہوتی ہے کہ روٹی نہیں پکی۔ وہ غریب کی ایسی جورو ہے جو سب کی بھابی ہے۔ سیاست دان بھی شاکی، صحافیوں کے لیے بھی آسان نشانہ ((soft belly۔ ایک بھائی صاحب تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ حقارت سے انہیں بابو نہ لکھیں۔ مارشل لا لگے تب بھی اسی کا سانچہ بدلنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ رہے عوام تو ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے یا بٹھا دی گئی ہے کہ ہر افسر راشی ہے، ہر افسر سفارشی ہے اور ہر افسر بے رحم ہے۔ وہ کابینہ اور اسمبلیوں کی وضع کردہ پالیسیوں کو بھی بیوروکریسی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اکثر لوگ سرکاری طریق کار سے آگاہ بھی نہیں۔ اپنی نا خواندگی اور نا واقفیت سے جو تکلیف پہنچتی ہے اسے بھی انہی کے سر ڈالتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ اب بھی معاشرے پر خیر غالب ہے۔ اہل سیاست ہیں یا اہل تجارت، ڈاکٹر ہیں یا وکیل، اساتذہ ہیں یا دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے، اکثریت سب کی بھلائی کے راستے پر گامزن ہے۔ یہی حال بیوروکریسی کا ہے۔ اکثریت دیانت دار ہے اور فرض شناس! اور تشہیر اور تحسین سے بے نیاز! تاہم اس میں کیا شک ہے کہ کالی بھیڑیں اس طبقے میں بھی ہیں۔ خوشامد، تشہیر، سفارش، کم کوشی، سہل انگاری، خیانت، بد نیتی، دوسرے طبقوں کی طرح یہاں بھی کچھ افراد میں ضرور پائی جاتی ہے۔ یہی وہ اقلیت ہے جو سیاست دانوں کو بھی غلط پٹیاں پڑھاتی ہے، عوام کی تکالیف کا بھی احساس نہیں کرتی اور اپنے محنتی اور دیانت دار ساتھیوں کی بھی ٹانگیں کھینچتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی اقلیت ہر دور میں حکمرانوں کی بغل میں پائی جاتی ہے۔ ایک اور نکتے پر بھی غور فرمائیے۔ اگر ماضی کے حکمران بیوروکریسی میں سے انتخاب ذات برادری کی بنیاد پر کرتے تھے اور ان کے جانشین لسانی حوالے کو اہمیت دے رہے ہیں تو اس میں بیوروکریسی کا کیا قصور ہے؟ بھٹو صاحب 1973ء میں بیوروکریسی کے سر سے آئینی تحفظ کا سائبان بھی اتار کر تار تار کر گئے۔ اس صورت حال میں بیوروکریسی دیوانِ حافظ سے فال بھی نکالے تو یہ شعر ہی ہاتھ آئے گا:
مرا کاریست مشکل با دلِ خویش
کہ گفتن می نیارم مشکلِ خویش
دل کے ساتھ مشکل کام آ پڑا ہے۔ ایسا کہ اپنی مشکل بیان بھی نہیں کر سکتا۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, May 04, 2021

دنیا کی امامت ہمارے کاندھوں پر ہے



پہلے بھارت کی بات کرتے ہیں۔
تکبر کے آسمان سے نیچے اُترنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پورے بھارت کو ہندو بنا کر چھوڑنا ہے۔ جو نہیں بنے گا اسے رہنے کا حق نہیں۔ کینسر کا علاج گئو موتر سے کرنا ہے۔ گائے پر ہاتھ پھیرنے سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ گائے ذبح کرنا تو دور کی بات ہے بکرے کا گوشت بھی جس گھر میں پایا گیا اسے جلا کر راکھ کر دیا۔گجرات میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔ آسام میں ہزاروں کو شہریت ہی سے بے دخل کر دیا۔ تکبر مآب جناب ادتیا ناتھ یو پی کے چیف منسٹر بنے تو قیامت برپا کر کے رکھ دی۔صدیوں سے جو نام شہروں کے چلے آرہے تھے‘ مسلم دشمنی میں انہیں تبدیل کرنا شروع ہو گئے۔ مدرسوں کو حکم دیا کہ ترنگا لہرائیں اور ثقافتی آمیزش کی طرف قدم بڑھائیں۔ امیت شاہ اپنے آپ کو بھارت کا نہیں‘ پوری دنیا کا وزیر داخلہ سمجھنے لگے۔دہلی میں فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا۔ مودی ڈھاکہ گئے تو بڑ ہانکی کہ بنگلہ دیش بنانے میں ان کا بھی کردار تھا۔ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں۔ ہر کوئی دعویدار بن جاتا ہے۔ پہلے کانگرس نے اور پھر بی جے پی نے ایک ایک بھارتی کے دل میں پاکستان دشمنی کا زہر اُتارا۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ دیارِ غیر میں بھارتی نوجوان پہنچا تو اتفاق سے اسے پاکستانی تارکینِ وطن سے واسطہ پڑا۔ انہوں نے اسے رہائش دی۔ ملازمت ڈھونڈنے میں مدد کی۔ وہ ساری رہنمائی کی جس کی ایک نووارد کو ضرورت ہوتی ہے۔ کئی ماہ گزر گئے۔ ایک دن بھارتی نوجوان نے اپنا سینہ کھول دیا کہ میں جب آرہا تھا تو ماں باپ نے نصیحت کی تھی کہ کسی پاکستانی سے میل جول نہ رکھنا۔ اعتماد نہ کرنا۔مگر یہاں تو صورتحال ہی اور ہے۔
اب ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ پوری دنیا ہماری نگاہوں میں حقیر ہے۔ لال قلعے سے لے کر وائٹ ہاؤس تک ہر جگہ ہم نے اپنا پرچم لہرانا ہے۔ اندلس کی حکمرانی ہمارے ذہن سے نکل نہیں رہی۔ کرۂ ارض ہماری ہی تو جاگیر ہے۔ کوئی ہمارے مشاغل ذرا آکر دیکھے۔ ایک یوٹیوبر مولانا فخر سے کہتے ہیں کہ میں تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہوں۔ ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑنے پر‘ ہاتھ اُٹھانے اور نہ اُٹھانے پر‘ فلاں لفظ بلند آواز میں کہنے اور دل میں کہنے پر‘ پاؤں کھول کر رکھنے اور نہ رکھنے پر‘ ہاتھ سینے پر باندھنے اور ناف پر باندھنے پر‘ آج بھی مناظرے‘ مجادلے اور مقاطعے ہو رہے ہیں۔ چودہ سال میں جو جھگڑے طے نہیں ہوئے ‘ وہ آج طے کرنے کیلئے مزید جھگڑے کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ کافر کو مسلمان کرنا مشکل ہے مگر مسلمانوں کو کافر قرار دینا آسان ہے ‘سو یہی سہی! بازاروں میں کھوے سے کھوا چھِل رہا ہے۔ ہوش ہے نہ پروا !
دونوں ملک ‘ ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔ میزائلوں کی دوڑ ہے کہ ختم نہیں ہو رہی۔ مقابلہ اس میں ہے کہ کس کا جوان ٹانگ اپنے سر سے کتنی اونچی لے جا کر ایڑی زمین پر کتنے زور سے مارتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک کے پاس ویکسین نہیں تو دوسرے کے پاس آکسیجن نہیں۔ ایک وینٹی لیٹرز کو ترس رہا ہے تو دوسرے کے شمشان گھاٹوں پر لکڑیاں تک نہیں مل رہیں۔
ایٹم بم بنانے میں پیش پیش یہ دونوں ملک اپنے عوام کو تعلیم سے‘ شعور سے‘ عقل سے‘ کامن سینس سے‘ توازن سے اور قوتِ برداشت سے آشنا نہیں کر سکے۔ ایک کے ہاں کنبھ میلہ چل رہا ہے۔ لاکھوں یاتری گنگا میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں اور کورونا کا تحفہ اپنے اپنے شہر لے جا رہے ہیں۔ دوسرے کے ہاں ابھی یہی نہیں طے ہو رہا کہ کورونا اصل میں کوئی شے ہے یا محض ایک سازش ہے۔ جن کے پیغمبر نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہدایت کی تھی کہ وبا پھوٹے تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جاؤ اور باہر سے وہاں جانے کی کوشش نہ کرو‘ وہ لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ چھوت سے کچھ نہیں ہوتا! ہاتھ ملانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ معانقہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا !
انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے جب یہ سوچتا ہے کہ وہ قوم جو دنیا بھر کی پابندیوں ‘ رکاوٹوں اور ناقابلِ بیان مشکلات کے باوجود ایٹم بم بنا ڈالتی ہے‘ ویکسین نہیں بنا سکی ! جو ملک وزیروں اور افسروں کی موٹی تنخواہیں ‘ دورے‘ اور عوامی نمائندوں کی مراعات پوری کرنے کیلئے دنیا بھر کے مالی اداروں سے قرض پر قرض لے سکتا ہے وہ ویکسین خریدنے کیلئے کیوں نہ قرض لے سکا؟ خیراتی ویکسین کیلئے کیوں جھولی پھیلا ئے ہوئے ہے؟ عقل اس کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ جو قوم فخر سے دعویٰ کرتی ہے کہ صدقات اور عطیات دینے میں ٹاپ پر ہے‘خیراتی طعام گاہیں کھولنے میں جس کا جواب نہیں‘ فلاحی کاموں میں جو دل کھول کر خرچ کرتی ہے اس کا مالدار طبقہ ایک ایسی تنظیم کیوں نہیں بنا سکا جو ویکسین خرید کر حکومت کو دے یا اپنے طور پر عوام کو لگانے کا بند و بست کر دے۔یہ چنیوٹی‘ یہ سیالکوٹی‘ یہ لاکھانی‘ یہ میمن‘ یہ شیخ‘ یہ برانڈرتھ روڈ کے سیٹھ‘ یہ جوڑیا بازار کے کروڑوں اربوں میں کھیلنے والے بیوپاری‘ یہ افغان بارڈر کے پار سینکڑوں کے حساب سے ٹرک بھیجنے اور منگوانے والے بڑے بڑے خان‘ یہ کارخانوں کے مالک‘ یہ جاگیردار‘ یہ سب مل کر ویکسین درآمد نہیں کر سکے ؟ تُف ہے ایسے مال پر جو مشکل میں دوسروں کے کام نہ آئے۔
رہی حکومت تو اس کا کیا ہی کہنا ! اس کی ترجیحات واضح ہیں۔ اس کی سوئی ایک ہی خاندان پر اٹکی ہوئی ہے اور یہ اس حکومت کا کمال ہے کہ ایک ہی خاندان کی مسلسل‘ شب و روز‘ کردار کُشی اس قدر کی کہ اس خاندان کے کٹر ناقد بھی اب اس کیلئے دل میں ہمدردی لانے پر مجبور ہو گئے۔ لوگ مر رہے ہیں اور وزیر اعظم عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جسے وزیر اعلیٰ لگایا ہے وہ بہتر انتخاب ہے!
ویکسین بنانی بھی نہیں ! خریدنی بھی نہیں ! کورونا فنڈ قائم کیا گیا تھا‘ اس کا بھی کچھ نہیں بتانا! جس شرح سے ویکسین لگائی جا رہی ہے‘ اس حساب سے پچیس کروڑ کی آبادی کو لگانے کے لیے عمر ِنوح درکار ہے! ادھر ملک کے حکمران کی نیندیں اس فکر میں حرام ہو رہی ہیں کہ فلاں کو وزیر کیوں بنایا اور فلاں کو وزیر کیوں نہیں بنایا ؟ پچپن مسلمان ممالک میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ ویکسین بنا سکے۔ دوسروں کو مہیا کرنا تو دور کی بات ہے ‘ اپنے عوام کی ضروریات ہی پوری کر لے۔ کفار کی کارکردگی ملاحظہ فرمائیے۔ تین مارچ 2021ء تک کے اعدادو شمار کی رُو سے چین‘ ویکسین کی ایک سو اکتالیس اعشاریہ چھ ملین خوراکیں تیار کر چکا ہے۔ امریکہ ایک سو تین ملین‘جرمنی اور بلجیم مل کر ستر اعشاریہ پانچ ملین‘بھارت بیالیس ملین ‘برطانیہ بارہ ملین‘نیدر لینڈ اور بلجیم مل کر ساڑھے دس ملین‘روس ساڑھے دس ملین ‘سوئٹزر لینڈ ساڑھے پانچ ملین‘جنوبی کوریا ڈیڑھ ملین ‘برازیل دو لاکھ اور جنوبی افریقہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار خوارکیں تیار کر چکا ہے۔
مگر گھبرانے کی بات نہیں۔ ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا۔ یہ اور بات کہ ہم ابھی حروفِ تہجی سیکھنے کے مرحلے میں ہیں کہ بقول غالب ؔ ؎
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل سے سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, May 03, 2021

پٹاخہ ہر حال میں بجے گا



ارے بھئی! ہمیں ان معاملات میں کیوں گھسیٹتے ہو۔ہمارا آخر حکومت سے یا سیاست سے کیا تعلق ہے ! ہمیں اس سے کیا غرض کہ ایف آئی اے کا سابق سربراہ کیا کہتا ہے اور کیوں کہتا ہے۔ سچ کہتا ہے یا بے پر کی اُڑاتا ہے۔ ہمیں اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ مشیر اور وزیر کیا موقف رکھتے ہیں۔ ہم تو گاؤں کے سیدھے سادے لوگ ہیں۔ اپنے کھیتوں اور مویشیوں ہی سے فراغت نہیں۔ گندم کی کٹائی ہو رہی ہے۔ ایک پل کی فرصت نہیں۔ اوپر سے بھوری گائے بیمار ہے۔ دو دن سے اس نے اپنے لاڈلے بچھڑے کی طرف بھی نہیں دیکھا۔ بھوسے کا پچھلا سٹاک ختم ہو رہا ہے۔ دیکھیے آگے کیا صورت حال بنتی ہے اور گندم کا کیا نرخ لگتا ہے۔ گرانی اتنی ہے کہ بھینس رکھنا ہاتھی رکھنے کے برابر ہو گیا ہے۔ چارے کی قیمت آسمان تک جا پہنچی ہے۔ اب تو ہمارا اصلی نسلی کتا' کلائیو ‘ بھی ریوڑ کے پیچھے چلتا ہے تو منہ جھکا کر‘ سیکنڈ ہینڈ انداز میں ‘ بُجھا بُجھا سا ! جیسے مہنگائی کے متعلق ہی سوچ رہا ہو! وہ بھی زمانے تھے جب اس کڑکتی دھوپ میں محبوب یاد آتا تھا اور فضا میں ماہیا گونج اٹھتا تھا ۔
حُقے دیاں نڑیاں نیں
پھُلا وے گلاب دیا
دھُپاں ڈاڈیاں چڑھیاں نیں
مگر اب افراتفری کا دور ہے۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ کون سا محبوب اور کہاں کی محبت ؟محبوب کو دھوپ لگتی ہے تو عاشق کی بلا سے ! اس گرمی میں جو سکون میٹھی ٹھنڈی لسی کے ایک گلاس یا ادھ رڑکے کے ایک پیالے سے ملتا ہے وہ وصالِ یار میں کہاں! ستو بھی ایسے میں بہت بڑی نعمت لگتے ہیں۔ سعدی نے تو قحط کا رونا رویا تھا ؎
چنان قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق
مگر یہاں تو قحط پڑا ہی نہیں اور یاروں نے عشق فراموش کر دیا۔ مہنگائی قحط کی بھی ماں ہے۔ شے سامنے پڑی ہے مگر خریدنے کی استطاعت نہیں۔ فراق گورکھپوری نے ہمارے لیے ہی کہا تھا ؎
اپنی خریداری بازارِ جہاں میں ہے سو‘ اتنی ہے
جیسے دکاں سے مفلس کوئی چیز اُٹھائے ‘ پھر رکھ دے
ہمیں سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹو! تم شہر والے تو بہت کچھ جانتے ہو‘ فرائڈ کی نفسیات‘ کانٹ اور روسو کا فلسفہ‘ ایڈم سمتھ کی معاشیات مگر ہم گاؤں کے لوگ ان چکروں میں نہیں پڑتے۔ ہمیں تو بس یہ معلوم ہے کہ پٹاخہ ایک نہ ایک دن ضرور بجتا ہے۔ ایف آئی اے والا ہو یا کوئی اور‘ حاکم ہو یا محکوم‘ اقتدار میں ہو یا اختلاف میں ‘ جتنا بھی زور آور ہو‘ جتنا بھی گردن بلند ہو ‘ پٹاخہ ضرور بجتا ہے۔ اور ایسا کہ آواز دور تک سنائی دیتی ہے۔
ہم تو گاؤں کے بھولے بھالے سادہ لوح لوگ ہیں۔ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ جُوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جُوں اور مرغ دوست تھے۔ کلغی والا سفید براق رنگ کا مرغ! اذان دیتا تو سماں باندھ دیتا۔دوستی میں پکا تھا۔ یاروں پر جان نثار کرنے والا۔ جُوں کے ساتھ مل کر سفر کا پلان بنایا۔ دونوں نے اپنے اپنے گھر سے سات سات روٹیاں پکوائیں اور زادِ راہ کے طور پر پوٹلی میں باندھ کر ساتھ لے لیں۔ پروگرام یہ تھا کہ دن بھر سفر کریں گے اور شام کو جہاں پڑاؤ کریں گے وہاں آدھی آدھی روٹی کھا کر باقی روٹیاں آنے والے دنوں کے لیے رکھیں گے۔مگر شام ابھی دور تھی۔ مشکل سے سہ پہر ہوئی تھی۔ جُوں کہنے لگی یار مرغ ! مجھے تو بھوک لگی ہے۔ مرغ نے کہا کہ اپنے حصے کی روٹیوں میں سے کچھ کھا لو۔ جوں نے اپنی ایک روٹی کھا لی۔ مگر معلوم نہیں جوں کو معدے کی کوئی بیماری تھی یا کچھ اور‘ تھوڑی دیر میں پھر بھوک لگ گئی۔ دوسرے دن دوپہر تک جوں اپنی سات روٹیاں کھا چکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد پھر بھوک لگی۔ مرغ دوستی اور مروت کا مارا ہوا۔ اس نے اپنے حصے میں سے ایک روٹی پیش کر دی۔ شام تک جوں مرغ کی ساتوں روٹیاں کھا بیٹھی تھی۔
دھاندلی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پھر جب ڈھٹائی بھی دھاندلی کے ساتھ مل جائے تو بالکل ہی کوئی حد نہیں ہوتی۔ جوں کو جلد ہی پھر بھوک لگ گئی۔ مرغ وضعدار ‘ آنکھ میں شرم رکھنے والا ! اپنی ٹانگ پیش کر دی۔ پھر دوسری! پھر باقی ماندہ مرغ بھی جوں کے معدے میں پہنچ گیا۔ دوسرے دن جوں کو راستے میں بھیڑ نظر آئی۔ اسے اپنے پاس بلایا اور وارننگ دی کہ تیار ہو جاؤ ‘ میں تمہیں تناول کرنے لگی ہوں۔ بھیڑ ہنسی اور کہا کہ اپنا اور میرا سائز دیکھو ‘ تمہارا دماغ یقیناً چل گیا ہے۔ جوں نے اس پر گانا گایا۔ ''سات اپنی کھائیں‘ سات مرغ کی کھائیں‘ بانگیا (اذان دینے والا) مرغ کھایا۔ اب تمہیں کھاؤں گی۔ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ جوں بھیڑ کو کھا گئی۔اسی طرح ‘ باری باری ‘ بکری کو‘ گائے کو‘ بھینس کو‘ گھوڑے کو اور پھر اونٹ کو کھا گئی۔ہر بار گانا بھی گایا۔ اتنا کچھ کھانے کے بعد پیاس تو لگنی تھی۔ دریا کے پاس پہنچی اور اسے مخاطب کر کے گویا ہوئی '' بہت جی لیے تم ! مگر اور نہیں! آج میں تمہیں‘ سارے کے سارے کو‘ نوش کرنے لگی ہو ں تم خشک ہو جاؤ گے ‘‘۔ دریا ہنسا اورکہا کہ میرا پانی تو گھوڑے‘ بیل‘ اونٹ اور مگر مچھ نہیں ختم کر سکے ! تمہاری کیا حیثیت ہے! جوں نے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر نغمہ گایا:سات اپنی کھائیں‘ سات مرغ کی کھائیں‘بانگیا مرغ کھایا‘ ممیاتی بھیڑ کھائی‘کُرکُری بکری کھائی‘ڈکراتی بھینس کھائی‘ خوش ذائقہ گائے کھائی‘ ہنہناتا گھوڑا کھایا‘ بلبلاتا اونٹ کھایا‘ اب تمہیں پینے لگی ہوں۔ جُوں غٹ غٹ کر کے دریا کو پی گئی۔جہاں کچھ دیر پہلے پانی تھا وہاں اب کیچڑ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اتنا پانی پینے کے بعد اب چلنا دوبھر تھا۔ پیٹ مٹکا بن چکا تھا۔ پاس ہی شیشم کا درخت تھا۔ جوں رینگتی ‘ ہانپتی‘ درخت کے نیچے پہنچی اور تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس کا پروگرام کچھ گھنٹے سونے کا تھا مگر تقدیر کا ارادہ مختلف تھا۔ اوپر سے شیشم کا پتہ ٹوٹا اور سیدھا جوں کے پیٹ پر گرا۔ زور کا پٹاخا بجا۔ جنگل لرز اٹھا۔ جوں کا پیٹ پھٹ چکا تھا۔
بھئی! ہم تو دیہاتی لوگ ہیں۔ زیادہ باتیں اور فلسفے اور مثالیں نہیں جانتے۔ ہمارے لوک ادب نے اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہی سمجھایا اور سکھایا ہے کہ جو مرضی کر لو۔ طاقت پر جتنا اِترا سکتے ہو اِتراؤ۔ جتنا ہڑپ کر سکتے ہو ‘ کرو۔ جتنا اور جتنوں سے انتقام لے سکتے ہو ‘ لو۔ زور‘ زر‘دھونس ‘ دھاندلی‘ وعدہ خلافی‘ظلم‘ سب کچھ آزما لو‘ آخر میں پٹاخہ ضرور بجے گا۔ اس پٹاخے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس پٹاخے سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا۔گردن بلندی کے زمانے میں سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے۔گھوڑے اور اونٹ جیسے عظیم الجثہ جانور نقطے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ٹھاٹھیں مارتا دریا پانی کا بلبلہ لگتا ہے۔ مگر جب پٹاخہ بجنے پر آتا ہے تو شیشم کا ایک حقیر سا پتہ ‘ وزن میں ہلکا‘ حجم میں بے مایہ‘ پیٹ پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ہے کوئی جو عبرت پکڑے؟ ہے کوئی جو ہم گاؤں کے نیم خواندہ کسانوں اور کھردرے ہاتھو ں والے چرواہوں سے سبق سیکھے ! زندگی کا سبق !
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے!
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے !

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com