ہمارے دوست نصیر نے دوسری شادی کیا کی، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ پورا خاندان دشمن ہو گیا۔ اپنی اولاد اور پہلی بیوی کی مخالفت تو مول لینا ہی تھی، دور کے رشتے دار بھی بے بھاؤ کی سنانے لگے۔ یہ فقرہ تو عام ہی سنائی دیتا ''ہنستی بستی عورت کا گھر اجاڑ دیا‘‘۔ ایک دن جب میں بھی ان کے ہاں موجود تھا، یہ قصہ دوبارہ چھِڑا۔ نصیر کی سالی نے‘ جو اس وقت وہاں موجود تھی‘ مجھے طعنہ دیا: آپ کے دوست نے میری بہن کا گھر اجاڑ دیا‘ مرد ذات کبھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ یوں تو شاید طرح دے جاتا مگر مرد ذات والی بات کا جواب دینا ضروری تھا۔ نصیر کی سالی کو سامنے بٹھایا اور کہا کہ اس معاملے میں عورت ذات بھی برابر کی شریک ہے۔ کیا شادی کرنے والی عورت کو نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک دوسری عورت کو دُکھ دے گی؟ کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ دوسری بیوی بن کر جا رہی ہے؟ اگر دوسری شادی سے گھر اجڑتا ہے تو عورت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ اسی طرح وراثت کے معاملات کا سروے کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ملیں گے۔ ماں بھی نہیں چاہے گی کہ جائیداد میں بیٹیوں کو ان کا جائز حصہ دیا جائے۔ اکثر و بیشتر یہ عورت ہی ہوتی ہے جو بیٹا نہ پیدا کرنے پر بہو کی زندگی اجیرن کرتی ہے اور بیٹے کو بھی طلاق دینے پر اکساتی ہے۔
پنجاب حکومت کی جس مشیر نے اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ سر بازار توہین آمیز سلوک کیا‘ وہ ایک خاتون ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی خاتون ہیں۔ مشیر صاحبہ کو کم از کم یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ خاتون ہوتے ہوئے، وہ ایک خاتون کی، جس کا سر ڈھکا ہوا ہے، سر عام بے عزتی کر رہی ہیں۔ پھر چیخنا اور ایسے الفاظ استعمال کرنا کہ 'تمہیں کس ...... نے اے سی لگایا ہے اور تمہاری تو حرکتیں ہی نہیں اے سی والی‘ کسی بھی حساب سے شائستگی کے زمرے میں نہیں آتا۔ مشیر صاحبہ کو معلوم ہی ہو گا کہ اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی کس کے حکم سے ہوتی ہے! ہو سکتا ہے اصل غصہ اسی پر ہو! گمان غالب یہ ہے کہ کوئی مرد وزیر یا مشیر کسی خاتون افسر کے لیے ایسی مبتذل زبان استعمال نہ کرتا۔ گویا:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
حقوقِ نسواں کی محافظ خواتین تھوڑی سی توجہ دیوار کے اِس طرف بھی دیں۔ ان گئے گزرے وقتوں میں بھی ہمارے معاشرے میں عورت محترم ہے۔ مرد اس کے لیے نشست خالی کر دیتا ہے، قطار میں اس کے لیے اپنی باری کی قربانی دے دیتا ہے۔ بازار میں یا ٹریفک کے مسئلے پر اس کی سخت سست باتیں بھی برداشت کر لیتا ہے۔ مگر خود عورت کو کھلی چھٹی کس نے دی ہے کہ اسے جہاں موقع ملے دوسری عورت کے گُردے باہر نکالے اور تار پر لٹکا دے؟
یہ تو تھا مسئلے کا جائزہ تذکیر و تانیث کے پہلو سے! اب آئیے اس پہلو کی طرف جو بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اچھال رہے ہیں کہ بیوروکریسی ہے ہی ایسی۔ یہاں حاشا و کلا مقصود بیوروکریسی کا دفاع نہیں ہے۔ اس کالم نگار کے مستقل قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ افسر شاہی کے رویے کے خلاف بیسیوں مرتبہ لکھا ہے اور کھُل کر لکھا ہے‘ مگر ہر واقعہ کی اپنی تفصیلات اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اس واقعہ میں خاتون افسر کا کیا قصور ہے؟ کیا ایک ایک سٹال پر جا کر گلے سڑے پھل الگ کرنا یا کرانا ممکن ہے؟ مگر فرض کیجیے خاتون افسر قصور وار تھی، تب بھی تنبیہ کا یہ انداز مناسب نہ تھا! اسسٹنٹ کمشنرشپ، سول سروس کے اس گروپ میں، پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یعنی پہلی سیڑھی! اس پوسٹنگ کا تجربہ اس کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ آنے والے تیس پینتیس برس کے لیے یہاں وہ بہت سے سبق سیکھتا ہے یا سیکھتی ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں کچھ نتائج نکالتی ہے اور پھر انہی نتائج کی بنیاد پر اپنے رویّوں اور طرز عمل کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جن جن طبقات سے ابتدائی دور میں افسر کو واسطہ پڑتا ہے، ان کے بارے میں اس کے ذہن پر ایک تاثر مرتسم ہو جاتا ہے۔ یہ تاثر، منفی ہے یا مثبت، زندگی بھر رہتا ہے۔ اب مشیر صاحبہ نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے نوجوان افسر کے ذہن میں اہل سیاست کی جو تصویر بنی ہو گی اس تصویر کی خوبصورتی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگیوں پر اثر ڈالنے والے جتنے بھی طبقات ہیں، سیاست دان، بیوروکریٹ، ڈاکٹر، وکیل، تجّار، ان میں سب سے زیادہ بے دفاع یعنی Defenceless بیوروکریٹ ہی ہے۔ وہ ہسپتالوں پر حملے کرتا ہے نہ عدالتوں پر۔ شٹر ڈاؤن کرتا ہے نہ دھرنے دیتا ہے۔ پریس کانفرسوں کے ذریعے دل کے پھپھولے پھوڑتا ہے نہ ٹیکس دینے سے انکار کرتا ہے۔ وہ تو اپنی گدی پر اپنی اولاد کو بھی نہیں بٹھاتا۔ وہ حلقۂ انتخاب کا بہانہ کر کے دفتر سے ہفتہ ہفتہ غائب بھی نہیں ہوتا۔ کنڈکٹ رولز اور ایسٹا کوڈ میں جکڑا ہوا بیوروکریٹ آٹا گوندھے تو الزام لگتا ہے کہ ہلتا کیوں ہے، نہ گوندھے تو شکایت ہوتی ہے کہ روٹی نہیں پکی۔ وہ غریب کی ایسی جورو ہے جو سب کی بھابی ہے۔ سیاست دان بھی شاکی، صحافیوں کے لیے بھی آسان نشانہ ((soft belly۔ ایک بھائی صاحب تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ حقارت سے انہیں بابو نہ لکھیں۔ مارشل لا لگے تب بھی اسی کا سانچہ بدلنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ رہے عوام تو ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے یا بٹھا دی گئی ہے کہ ہر افسر راشی ہے، ہر افسر سفارشی ہے اور ہر افسر بے رحم ہے۔ وہ کابینہ اور اسمبلیوں کی وضع کردہ پالیسیوں کو بھی بیوروکریسی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اکثر لوگ سرکاری طریق کار سے آگاہ بھی نہیں۔ اپنی نا خواندگی اور نا واقفیت سے جو تکلیف پہنچتی ہے اسے بھی انہی کے سر ڈالتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ اب بھی معاشرے پر خیر غالب ہے۔ اہل سیاست ہیں یا اہل تجارت، ڈاکٹر ہیں یا وکیل، اساتذہ ہیں یا دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے، اکثریت سب کی بھلائی کے راستے پر گامزن ہے۔ یہی حال بیوروکریسی کا ہے۔ اکثریت دیانت دار ہے اور فرض شناس! اور تشہیر اور تحسین سے بے نیاز! تاہم اس میں کیا شک ہے کہ کالی بھیڑیں اس طبقے میں بھی ہیں۔ خوشامد، تشہیر، سفارش، کم کوشی، سہل انگاری، خیانت، بد نیتی، دوسرے طبقوں کی طرح یہاں بھی کچھ افراد میں ضرور پائی جاتی ہے۔ یہی وہ اقلیت ہے جو سیاست دانوں کو بھی غلط پٹیاں پڑھاتی ہے، عوام کی تکالیف کا بھی احساس نہیں کرتی اور اپنے محنتی اور دیانت دار ساتھیوں کی بھی ٹانگیں کھینچتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی اقلیت ہر دور میں حکمرانوں کی بغل میں پائی جاتی ہے۔ ایک اور نکتے پر بھی غور فرمائیے۔ اگر ماضی کے حکمران بیوروکریسی میں سے انتخاب ذات برادری کی بنیاد پر کرتے تھے اور ان کے جانشین لسانی حوالے کو اہمیت دے رہے ہیں تو اس میں بیوروکریسی کا کیا قصور ہے؟ بھٹو صاحب 1973ء میں بیوروکریسی کے سر سے آئینی تحفظ کا سائبان بھی اتار کر تار تار کر گئے۔ اس صورت حال میں بیوروکریسی دیوانِ حافظ سے فال بھی نکالے تو یہ شعر ہی ہاتھ آئے گا:
مرا کاریست مشکل با دلِ خویش
کہ گفتن می نیارم مشکلِ خویش
دل کے ساتھ مشکل کام آ پڑا ہے۔ ایسا کہ اپنی مشکل بیان بھی نہیں کر سکتا۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment