غلط تھے ہمارے اندازے! غلط تھے ہم!
انسان کی فطرت میں جلد بازی ہے اور یہی جلد بازی تو ہے جو اس کی رائے کو متوازن نہیں رہنے دیتی۔ ہم سے بھی یہی ہوا! ہم نے اس حکومت کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی کی۔ کاش! ہم انتظار کر لیتے! آج ندامت نہ اٹھانا پڑتی! ہم اپنی غلطی، بہر طور، تسلیم کرتے ہیں! انسان خطا کا پتلا ہے! ہم بھی انسان ہیں! اللہ معاف کرے کیا کیا اول فول باتیں کیں ہم نے اس حکومت کے بارے میں۔ کبھی کہا کہ پولیس کو نہیں سدھار رہی! کبھی کہا کہ ناصر درانی کو ہٹا دیا گیا۔ کبھی تھانہ کلچر کو لے کر ساری حکومت ہی کو مطعون کر دیا‘ حالانکہ بات ساری اتنی تھی کہ وزیر اعظم موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی موقع ملا‘ انہوں نے ضرب لگا دی! ایسی ضرب کہ معترضین گھائل ہو رہے ہیں۔
یہ بے مثال داستان تب شروع ہوئی جب دارالحکومت کی پولیس کے نئے سربراہ نے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ اب آپ قانونی موشگافیوں میں نہ پڑیے کہ وفاقی پولیس کا سربراہ تو وفاقی سیکرٹری داخلہ کو جوابدہ ہوتا ہے اور اس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کو۔ یہ بھی نہ پوچھیے کہ یہ ملاقات پولیس کے سربراہ کی اپنی خواہش پر ہوئی یا وزیر اعظم کے حکم پر؟ اگر اپنی خواہش پر ہوئی تو کیا سیکرٹری داخلہ اور وزیر داخلہ کے علم میں یہ ملاقات تھی؟ اور اگر وزیر اعظم نے طلب کیا تھا تو اصولی طور پر، کم از کم، وزیر داخلہ کو اس ملاقات میں موجود ہونا چاہیے تھا؛ مگر کالم نگار تو آپ کو پہلے ہی مشورہ دے چکا ہے کہ ان اصول و ضوابط میں نہ پڑیے۔ وصول ہو گا نہ کچھ حاصل حصول!
راویانِ خوش وضع اور واقفانِ اسرار نے خبر دی ہے کہ جب یہ ملاقات ہوئی اور ایک طرف وفاقی پولیس کے سربراہ تشریف فرما ہوئے اور دوسری طرف سربراہِ حکومت، مسندِ اختیار پر متمکن ہوئے تو وزیر اعظم سربراہ کے علم میں یہ بات لائے کہ بنی گالہ کے، جہاں ان کی ذاتی قیام گاہ ہے، تھانے کے حالات دگرگوں ہیں۔ اہلکار اس تھانے کے اتنے خود سر اور بے خوف واقع ہوئے ہیں کہ زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، منشیات کے مکروہ کاروبار میں معاونت کرتے ہیں اور تعمیراتی سامان ڈھونے والوں سے بھتہ گیری کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ شکایت بھی کی کہ اسی تھانے والوں نے ایک ٹرک ڈرائیور سے بھی بھتہ لیا ہے۔ پولیس کی ہائی کمانڈ نے اس ٹرک ڈرائیور کو ڈھونڈ نکالا اور اسے کہا کہ بھتہ لینے والے کو پہچانو‘ مگر ٹرک ڈرائیور پولیس سے زیادہ عقل مند نکلا۔ اس نے شناخت کرنے کے معاملے میں آئیں بائیں شائیں کی۔ پولیس کو اپنا حال نظر آ رہا تھا اور ٹرک ڈرائیور کو اپنا مستقبل! وزیر اعظم کل کون ہو گا اور آئی جی کون ہو گا؟ کسی کو نہیں معلوم! مگر بھتہ لینے والے اہلکار کل بھی ہوں گے اور پرسوں بھی! روایت ہے (نہ جانے کتنی سچائی ہے اس میں) کہ صدر ایوب خان کے دور اقتدار میں پٹواری نے ان کی والدہ محترمہ سے آنے والا نذرانہ دو گنا کر دیا تھا کہ اب آپ کے صاحبزادے بادشاہ ہو گئے ہیں! ایک واقعہ اس کالم نگار کے علم میں بھی ہے۔ سرکار کے تعمیراتی (ورکس) محکمے میں ایک اہلکار نے نذرانہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ دینے والا ٹھیکے دار غصے میں آ گیا۔ اس نے اہلکار کو تھپڑ رسید کیا کہ نہ لے کر ہماری عادت خراب مت کرو۔ تمہارے بعد آنے والے اہلکار کو بھی تو دینا ہو گا۔ بات دوسری طرف نکل گئی اور خاصی دور نکل گئی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ، نتیجے کے طور پر، بنی گالہ کے تھانے سے درجن بھر کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل، سب انسپکٹر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر وغیرہ وغیرہ کو ہٹا دیا گیا۔ اب آپ میری نصیحت کے پرخچے اڑاتے ہوئے پھر مسئلے کو کریدیں گے‘ جیسے خرگوش مٹی کی دیوار کو کریدتا ہے‘ اور پوچھیں گے کہ ہٹانے سے کیا مطلب ہے؟ کیا انہیں معطل کیا گیا؟ کیا انہیں چارج شیٹ کیا گیا؟ کیا انہیں بر طرف کیا گیا؟ آخر سزا کیا ملی؟ تو عرض ہے کہ اس واقعے کا سورس زبانِ فرنگ میں ہے جہاں Remove کا لفظ برتا گیا ہے۔ گمان غالب بلکہ یقین یہی ہے کہ ان ہتھ چُھٹ اہلکاروں کو کسی دوسرے تھانے میں بھیج دیا ہو گا‘ جو وزیر اعظم کی آبادی سے خاصی دور ہو گا۔ ہتھ چُھٹ کا لفظ کالم نگار کی لغت میں اضافہ ہے اور اس کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بے تکلف دوست امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کی بیٹیاں تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں دن کو گھر سے باہر رہتی تھیں۔ بیٹیوں کے بچے نانی کے چارج میں ہوتے تھے۔ نانی جان بچوں کو بد تمیزی یا نا فرمانی پر ایک آدھ ہاتھ ٹِکا جاتی تھیں۔ یوں ہمارے دوست نے اپنی بیگم صاحبہ کا نام ہتھ چُھٹ نانی رکھ دیا۔
بات کو، بار بار، اِدھر اُدھر اس لیے لے جا رہا ہوں کہ آپ کو بے تُکے سوال پوچھنے کا وقت ہی نہ ملے‘ مگر آپ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ اب آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے شکایت کس حیثیت میں کی تھی؟ بنی گالہ کے مکین کی حیثیت سے؟ یا وزیر اعظم کی حیثیت سے؟ اگر مکین کی حیثیت سے کی تو کیا پولیس کے سربراہ دیگر مکینوں کو بھی ان کے گھروں میں جا کر شرف ملاقات بخشیں گے؟ شکایات سنیں گے؟ اور اسی طرح کا فوری ایکشن لیں گے؟ اور اگر یہ شکایت جناب وزیر اعظم نے مملکت پاکستان کے حکومتی سربراہ کی حیثیت سے کی ہے تو پھر صرف اُس ایک تھانے کی تطہیر کیوں ہوئی ہے؟ باقی تھانوں کی کیوں نہیں ہوئی؟ کیا باقی تھانوں میں تعینات اہلکار ان جرائم سے پاک ہیں؟ اس لیے کہ وزیر اعظم کو تو سارے تھانوں کے بارے میں تشویش ہو گی اور یقینا ہو گی! تو پھر دوسرے تھانوں کا کیا بنے گا؟ آپ کی توجہ ان تخریبی سوالوں سے ہٹانے کے لیے یہ بھی بتائے دیتے ہیں کہ یہ تھانہ اُن چار چیدہ اور چنیدہ تھانوں میں سے ایک ہے‘ جو اکتوبر 2019ء میں ماڈل (مثالی) تھانے قرار دیے گئے تھے۔ وفاقی دارالحکومت کے چار پولیس سٹیشنوں (بنی گالہ، کوہسار، بارہ کہو اور آئی نائن) میں عام روایتی تھانیداروں کے بجائے اے ایس پی تعینات کیے گئے تھے۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ اے ایس پی، مقابلے (سی ایس ایس) کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ وژن رکھتے ہیں۔ ان سے دیانت و امانت کی امید ہوتی ہے۔ یہ نہ بھی ہو تو اچھی گورننس کی توقع تو ضرور ہی ہوتی ہے۔ اب تماشا دیکھیے کہ ایک مثالی تھانے میں، اے ایس پی کی ناک کے عین نیچے، اگر یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ پھوڑا، پھوڑا نہیں رہا، سرطان بن چکا ہے۔
اور خدا کے لیے اب یہ نہ پوچھ بیٹھئے گا کہ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا مگر مثالی تھانوں کی تعداد چار سے آگے نہیں بڑھی! آئیے ہم اپنی جلد بازی کی مذمت کریں کہ حکومت سے نا امید ہو چلے تھے اور شور مچا رہے تھے کہ پولیس اصلاحات کدھر گئیں؟ اڑھائی سال بعد ایک تھانے کو ٹھیک کر تو دیا گیا ہے! اور کیا چاہتے ہیں آپ؟ آپ وہی ہیں نا جس نے کسی کو خط دیا تھا کہ پوسٹ کر دے۔ چھ ماہ بعد آپ نے پوچھا تو اس نے خط آپ کے منہ پر مارا کہ اتنی جلدی ہے تو خود پوسٹ کر دو!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment