Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, January 07, 2021

اک ذرا سیاست سے ہَٹ کر



مولانا، مریم بی بی، زرداری صاحب اور عمران خان کو کچھ دیر کیلیے شطرنج پر جھکا چھوڑ دیتے ہیں۔ سردست پولیس سے بھی نہیں پوچھتے کہ نہتے اور بے قصور اسامہ ستی کو سترہ گولیاں مار کر اپنی عاقبت کو کیوں سنوارا! کچھ شاعری اور محبت کا ذکر کر لیتے ہیں کہ زندہ رہنے کیلئے یہ آکسیجن بھی ضروری ہے۔
ہمارے دوست ڈاکٹر معین نظامی، وقفے وقفے سے، سوشل میڈیا پر، ادب کے مرجان اور لولو، ہمارے سامنے رکھتے رہتے ہیں! رشک آتا ہے ان کے حسنِ انتخاب پر! فارسی ادب ایک بے کنار سمندر ہے اور معین نظامی اس کے غوّاص! اب ایسے ثقہ عالِم ملتے ہی کہاں ہیں۔ والد گرامی کی رحلت کے بعد جب بھی فارسی ادب یا لغت میں کوئی دشوار گھاٹی سامنے آتی ہے تو نظامی صاحب ہی دستگیری کرتے ہیں یا ڈاکٹر عارف نوشاہی! گھر میں علم کا دریا موجزن تھا! کاش پیاس بجھا لیتے۔ اب تو کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ 
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا
چند دن پہلے معین نظامی نے امیر خسرو کی ایک غزل لگائی! غزل کیا ہے! پرستان ہے یا پھولوں، پرندوں سے مہکتا باغ! متقّدمین نے صناعی کے کیا کیا جوہر دکھائے! اور قدرتِ کلام سے کیسی کیسی جادوگری کی، یہ اسی کا نمونہ ہے! ''سفید و سیاہ و سرخ‘‘ ردیف ہے! مطلع دیکھیے: 
ای دستت از نگار، سفید و سیاہ و سرخ
وی چشمت از خمار، سفید و سیاہ و سرخ
تمھارے ہاتھ مہندی کے گُل بوٹوں سے سفید، سیاہ اور سرخ ہیں، تمھاری آنکھیں خمار سے سفید، سیاہ اور سرخ ہیں۔ پھر کہتے ہیں: 
از برگ و از سپاری و از رنگِ چونہ شد
دندانِ آن نگار، سفید و سیاہ و سرخ
پان کے پتّے، سپاری اور چونے کے رنگ سے اس ماہ رُو کے دانت سفید، سیاہ اور سرخ ہو گئے۔ باقی اشعار کا ترجمہ (معین نظامی کا کیا ہوا) ملاحظہ فرمائیے: تم چلے گئے اور تمھارے فراق میں رو رو کر میری آنکھیں بہار کے بادلوں کی طرح سفید، سیاہ اور سرخ ہو گئیں/ اگر میری جیب میں لاکھوں سفید، سیاہ اور سرخ سکّے ہوں تو مَیں اس خوبصورت چہرے پر نثار کر دوں/ خسرو نے امتحان کی غرض سے اس غزل کی ردیف میں سفید، سیاہ اور سرخ کی قطار لگا دی ہے۔ 
غور فرمائیے کہ امیر خسرو کا انتقال 1325ء میں ہوا اور ان کی شاعری میں پان کا ذکر ہے۔ اصل میں ترک اور افغان برصغیر میں وارد ہوئے تو یہاں کی دو چیزوں نے فوراً انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ آم اور پان! ظاہر ہے شاعری میں بھی ان کا ذکر در آیا۔ مغل عہد میں تو یہ ذکر درجۂ کمال پر پہنچ گیا۔ دربار میں پان پیش کرنے کا رواج تھا۔ شاہجہان کو شک تھا یا خبر کہ ایک وجیہ ایرانی سے شہزادی کا معاملہ ہے۔ بھرے دربار میں اپنے ہاتھ سے اُس بدقسمت کو پان پیش کیا۔ انکار کی کسے مجال تھی۔ زہر نے قصہ تمام کر دیا۔ انبہ (آم) کی تعریف میں باقاعدہ قصائد لکھے گئے۔ فیضی نے معمّہ کے اسلوب میں آم کی مدح کہی۔ غالب کا وہ فارسی شعر تو مشہور ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ برسات تو بنی ہی اس لیے ہے کہ مے نوش کی جائے، آم کھائے جائیں اور برف کا شربت پیا جائے! کیا ہی اچھا ہو اگر فارسی اساتذہ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات سے ان موضوعات پر تحقیق کرائیں۔ ''فارسی نظم و نثر میں پان کا ذکر‘‘ ایک دلکش مقالے کا عنوان ہو سکتا ہے! اسی طرح آم کا معاملہ ہے۔ کیا عجب ان خطوط پر کام ہوا بھی ہو۔
بات دوسری سمت چل پڑی! معین نظامی کی اس پیشکش سے مجھے بھی انگیخت ہوئی۔ نظامی گنجوی (وفات 1209) یاد آگئے۔ گنجہ آج کے آذربائیجان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ مشہور شاعرہ مہستی گنجوی (وفات 1159) کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ مہستی گنجوی، یوں سمجھیے، اپنے زمانے کی کشور ناہید تھی۔ دلیر، بولڈ اور روایت شکن! کمال کی رباعی گو تھی! اس کے بارے میں ایک پورا کالم لکھا جانا چاہیے۔ بہرطور ، نظامی کی غزل پڑھیے۔ مُجھ کم علم کے بے رنگ ترجمہ پر قناعت کرنا ہو گی۔ 
لب و دہان و دو چشم تو ای بتِ گُلفام
یکی نبات و دوم پستہ و سوم بادام
اے پھول جیسے محبوب! یہ جو تمہارے لب، منہ اور دو آنکھیں ہیں تو ان میں سے ایک مصری کی ڈلی ہے، دوسرا پستہ ہے اور تیسر ی بادام!
نبات و پستہ و بادام پیشِ آن سہ شدند 
یکی اسیر و دوُم بندہ و سِوُم گمنام 
مصری، پستہ اور بادام کی تمہارے لبوں، منہ اور آنکھوں کے سامنے آخر کیا حیثیت ہے؟ ایک قیدی ہے‘ دوسرا غلام اور تیسرا گمنام!
اسیر و بندہ و گمنام در زمانِ تو، اند
یکی قباد و دوم قیصر و سوم بہرام
قیدی، غلام اور گمنام تیرے عہد میں کون ہیں؟ ایک قباد، دوسرا قیصر‘ تیسرا بہرام! (قباد‘ بہرام ساسانی بادشاہ تھے)
قباد و قیصر و بہرام می فرستندت 
یکی رسول و دوم نامہ و سوم پیغام
قباد، قیصر اور بہرام تمہاری خدمت میں کیا بھیجتے ہیں؟ ایک ایلچی، دوسرا خط اور تیسرا پیغام!
رسول و نامہ و پیغام از تو می طلبند 
یکی ہرات و دوم مشہد و سوم بسطام
یہ ایلچی، یہ خط اور یہ پیغام تمہار ے حضور کن چیزوں کی درخواست کرتے ہیں؟ ایک ہرات کا طلبگار ہے دوسرا مشہد کا اور تیسرا بسطام کا! (تینوں اُس دور کے عالیشان شہر تھے)
ہرات و مشہدو بسطام در زمانِ تو یافت 
یکی رواج و دوم زینت و سوم اسلام!
ہرات، مشہد اور بسطام کو تمہارے زمانے میں کیا ملا؟ ایک کو رونق، دوسرے کو زیب و زینت اور تیسرے کو اسلامی شناخت!
رواج و زینت و اسلام دِہ نظامی را
بحقّ سیّدِ کونین و سورۂ انعام
رونق، زیب و زینت اور اسلامی شناخت! نظامی کو یہ تینوں، جہانوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم اور سورۂ انعام کے وسیلے سے عطا فرما دیجیے!
نظامی شاعر نہ تھا! وہ تو ایک ساحر تھا! اِس کی شاعری عجائبات سے بھری پڑی ہے۔ یہ جو ہمارے ہاں محاورہ ہے کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا تو یہ نظامی ہی کے ایک شعر کا بالکل لفظی ترجمہ ہے 
کلاغی تَگِ کَبک را گوش کرد
تَگِ خویشتن را فراموش کرد
اوپر کشور ناہید کا ذکر ہوا۔ غزل سے ان کی بے رُخی جاری ہے۔ ''لبِ گویا‘‘ کی غزلوں کو کون بھول سکتا ہے! ان کی نظموں کے نئے مجموعے ''دریا کی تشنگی‘‘ سے ایک نظم پڑھیے۔ عنوان ہے ''کرفیو میں کشمیر‘‘ 
میرے بچے! میرے پاس/ تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں ہے/ دیکھو خوبصورت چاندنی پھیلی ہوئی ہے/ اسے پی لو تمہیں نیند آجائے گی/ میری بات سن کر تم ہنس پڑے/ کاش میرے اندر اتنی جان ہوتی/ کہ اپنی بوٹی توڑ کر تمہیں کھِلا سکتی/ باہر کا سناٹا یا پھر گولیوں کی آواز/ بس اب تو دن کو دھوپ اور رات کو چاندنی ہماری خوراک ہے/ اب تو ہمارے گھر میں/ مکھیاں بھی نہیں/ ہمیں غلام بنانے والوں کو وہم ہے/ کہ وہ ہماری آزادی چھین سکیں گے/ ان کی بندوقوں کے نصیب میں ہمارے جوانوں کا خون نہیں ہے/ ساری دنیا جان لے/ یہ حبّہ خاتون کی زمین ہے۔

بشکریہ روزنامہ  دنیا

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com