دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے لیے یہ ایک نیا پیغام تھا! اچھوتا!
جس نے بھی سنا تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا! جسے معلوم ہوا اش اش کر اٹھا۔ تعریف کی۔ ہماری ذہانت اور فطانت کو تسلیم کیا۔
ہمارے دوست چین کو معلوم ہوا تو وہ حیران رہ گیا۔ تائیوان کے حوالے سے ایسی ترکیب اس کے ذہن میں کبھی نہ آ سکی! ہمارے ذہنِ رسا پر اس نے رشک کیا۔ داد و تحسین کے سفارتی پیغام بھیجے!
فلسطینیوں نے سنا تو دنگ رہ گئے! وہ بھی ایسا کرتے تو اب تک اسرائیل پارہ پارہ ہو چکا ہوتا۔ یہودی بستیاں نابود ہو چکی ہوتیں! یروشلم پر مسلمانوں کا علم لہرا رہا ہوتا! دنیا بھر میں بکھرے ہوئے فلسطینیوں کا سیروں خون بڑھ جاتا!
فلپائن کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک ستارہ تھا! صبح کا ستارہ! روشنی کا پیغام! مورو ایک مدت سے جدوجہد کر رہے تھے مگر کبھی نہ سوچا کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ نسخۂ کیمیا بھی موجود ہے!
یہ تو مسلمانوں کی تحریکیں تھیں! غیر مسلموں نے بھی اس جدید، اچھوتی، تدبیر کو آزمانے کا سوچا۔ سکاٹ لینڈ والے اکثر و بیشتر، برطانیہ سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ علیحدہ سکاٹ لینڈ کی تحریک چلانے والے سیاست دانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہ نسخہ آزمائیں گے! کبھی کبھی ٹیکساس والوں کو بھی دورہ پڑتا ہے کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے الگ ہوں! ہماری اس ترکیب کا سن کر ان کی بھی بیٹھے بیٹھے لاٹری نکل آئی۔ آزاد ٹیکساس کے علم برداروں نے اس میں بہت دلچسپی لی۔ ایک کمیٹی بنائی جو پاکستان آ کر اس کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرے گی! پھر اس کی روشنی میں نئے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی!
کشمیر کے لیے ہمارے اس اقدام نے بھارت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ مودی سرکار نے اجلاس پر اجلاس بلائے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذہین ترین دماغ بھی اس کا توڑ نہ سوچ سکے! گھنٹوں بیٹھ کر بحث مباحثہ کرتے رہے مگر مایوسی کے علاوہ بد بختوں کے پلّے کچھ نہ آیا۔
پاکستان کے اس اقدام سے بھارت کی معیشت تباہ و برباد ہو گئی! قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ چاول، آٹا، دالیں، دودھ، گھی کا کال پڑ گیا۔ افراطِ زر کی شرح چالیس فی صد کو چھونے لگی۔ کچھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے گھاٹ اتر گئے، جو باقی بچے وہ ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔
یہ تو اقتصادی صورتِ حال تھی! بھارتی عساکر پر بھی مصیبت آن پڑی۔ سارے ہتھیار جام ہو گئے۔ توپوں میں کیڑے پڑ گئے۔ ہوائی جہازوں کے پُرزے راتوں رات زنگ آلود ہو گئے۔ رن وے گڑھوں سے بھر گئے۔ پائلٹوں کے معدے خراب ہو گئے۔ ایٹمی صلاحیت جواب دے گئی۔ میزائل لاٹھیوں میں بدل گئے۔ لاٹھیاں ٹوٹ گئیں! بحری جہازوں کے پیندوں میں شگاف پڑ گئے۔ آبدوزیں پانی میں چھپی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں۔ اور تو اور، بھارتی جرنیلوں کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ ڈاکٹروں کو وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ سپاہی ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ گویا ہاتھیوں نے اپنے ہی لشکر کو روند ڈالا!
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کے اس اقدام نے معجزوں کے دروازے وا کر دیے۔ وادی کے مسلمان صبح بیدار ہوئے تو ہر طرف بھارتی فوجیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ منہ ان لاشوں کے کھلے تھے۔ آنکھیں باہر کو نکلی ہوئیں۔ جبراً مسدود کیا ہوا انٹرنیٹ کام کر رہا تھا۔ ای میلیں چل رہی تھیں۔
صورتِ حال نے مودی سرکار کو بے بس کر دیا۔ واشنگٹن میں متعین بھارتی سفیر کو حکم دیا گیا کہ فوراً وائٹ ہائوس سے رابطہ قائم کرے اور صدر ٹرمپ سے درخواست کرے کہ وہ پاکستان کو اس اقدام سے روکیں‘ اور اگر پاکستان نہ رُکے تو صدر ٹرمپ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کریں۔ جو فیصلہ وہ کریں گے بھارت کو قبول ہو گا!
یہ تو زمین کا حال تھا! آسمانوں پر جو کچھ ہوا، نہ پوچھیے! افلاک پر کھلبلی مچ گئی! فرشتے حیران کہ اس اقدام نے تقدیر کو مخمصے میں ڈال دیا! کاتبِ تقدیر نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا جو وقت متعین کیا تھا، وہ ابھی ذرا دُور تھا۔ مگر پاکستان کے اس اقدام نے ما بعدالطبیعاتی قوتوں کو آمادہ کیا کہ وقت کا تعین از سرِ نو کریں۔ اس کے ساتھ ہی فرشتوں نے وادی کے مسلمانوں پر رحمتوں کی بارش کی! ڈل جھیل کے پانیوں میں آسمانی لہروں کے ارتعاش نے بہشت کا سا سماں پیدا کر دیا۔ ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ بادل سنہری تھے اور فضائیں عطر بیز! باغ پھلوں سے بھر گئے۔ مسلمانوں کے ماتھے چاندنی منعکس کرنے والے آئنوں میں بدل گئے! بوڑھوں نے الحمدللہ کہا۔ بچوں نے نعرے لگائے، مسلمان خواتین نے پکوان پکا کر مستحقین میں بانٹے۔ مردوں نے شکرانے کی نماز ادا کی!
آخر وہ کیا اقدام تھا جو پاکستان نے کیا اور ہر چہار طرف، دنیا اور ماورائے دنیا میں، یہ تبدیلیاں رونما ہونے لگیں! اے اہلِ وطن! اے اہلِ پاکستان! اے محبانِ اسلام! اے شائقینِ آزادی! اقدام یہ تھا کہ پانچ فروری کو پاکستان بھر میں تعطیل منائی گئی! تعطیلِ عام!!
کشمیر کی آزادی کے لیے یہ تعطیل سنگِ میل سے کم نہ تھی! اس دن ملک بھر میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں بند تھیں۔ بینکوں نے کاروبار نہیں کیا۔ دفتر، کیا صوبائی، کیا مرکزی، کیا مقامی، سب بند تھے۔ نجی شعبے نے بھی کام نہ کیا۔ وہ جو دفتر جانے کے بہانے صبح اٹھ کر نماز پڑھتے تھے، چھٹی کی وجہ سے دیر سے اُٹھے۔ ناشتے صبح سات کے بجائے دس بجے ہوئے۔ چونکہ عام تعطیل تھی اس لیے ناشتے میں نہاریاں اڑائی گئیں۔ پراٹھے، پائے، لسّی، مغز نے معدوں میں روشنیاں پھیلا دیں۔ اس کے بعد خواتین نے ٹی وی سکرینوں پر وہ ڈرامے دیکھے جن میں ساس بہو کے درمیان مناقشے اور افرادِ خانہ کے درمیان نا گفتہ بہ معاشقے عام ہیں! مردوں نے پڑوسی ملک کی مقبول عام فلموں سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی۔ پورے ملک میں ہر قسم کی صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمی بند ہونے کی وجہ سے صرف چند ارب ڈالر کا خسارہ ہوا‘ مگر یہ جو بھارت کو اس تعطیل کی وجہ سے کھربوں کا نقصان پہنچااس کے مقابلے میں چند ارب ڈالر کے قومی خسارے کی قربانی کیا اہمیت رکھتی ہے۔ تعطیل ایک ضروری اقدام تھا! وہ ہم نے کی! رہے غیر ضروری اقدامات تو ان کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ ان غیر ضروری اقدامات میں سر فہرست وہ جنگ ہے جو ہمارے سفارت خانوں کو لڑنی چاہیے۔ کشمیر پر کتنے مضامین ہمارے سفارت خاتون کی کوشش سے یورپ، امریکہ، کینیڈا، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر حصوں میں شائع ہوئے؟ لندن، نیو یارک، واشنگٹن، ٹورنٹو، قاہرہ، سڈنی اور ٹوکیو میں ہم نے اس موضوع پر کتنے سیمینار کرائے؟ ہم نے بھارت کی چیرہ دستیاں کہاں کہاں ہائی لائٹ کیں؟ اس ضمن میں ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس لیے کہ ضروری نہیں!
ایک اور غیر ضروری اقدام یہ ہے کہ ہم ایک یومِ کشمیر پر مرتکز ہونے کے بجائے سارا سال کشمیر کا ذکر کریں! ہمارے تعلیمی اداروں میں کشمیر کے موضوع پر سال بھر مباحثے اور مشاعرے منعقد ہوتے رہیں! ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتِ احوال پر مسلسل لکھا اور بولا جائے۔ اس موضوع پر ٹیلی ویژن ڈرامے لکھے اور نشر کیے جائیں! کشمیر کے حوالے سے میلے منعقد ہوں۔ مینا بازار برپا کیے جائیں۔
مگر یہ سب کچھ تو غیر ضروری ہے!
سال میں ایک دن کی تعطیل کافی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سال میں ایک بار اقبال ڈے مناتے ہیں۔ بقول ضمیر جعفری؎
بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبالؔ کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوّال کرتے ہیں
No comments:
Post a Comment