Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 17, 2020

ہنگامہ ہے کیوں برپا


بات کا آغاز دادا خان نوری سے کرتے ہیں۔
1992ء میں جب سوویت یونین کا انہدام ہوا اور ترکستان کی ریاستیں آزاد ہوئیں تو جو پاکستانی پہلے پہل وہاں پہنچے ان میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا۔ معروف صحافی مختار حسن مرحوم نے دادا خان نوری سے ملنے کے لیے کہا۔ تاشقند پہنچ کر مشہور ہوٹل چار سو قیام کیا۔ شہر کی سیر کی اور فارغ ہوا تو دادا خان نوری کو تلاش کیا۔ وہ اس وقت ازبکستان یونین آف جرنلسٹس کے اہم عہدیدار تھے اور بطور ادیب جانی پہچانی شخصیت تھے۔ اس کے بعد وہ کئی بار پاکستان آئے۔ اکثر و بیشتر قیام، غریب خانے ہی پر ہوتا۔ ان دنوں میں جناب اسداللہ محقق کے حضور، انفرادی طور پر، ازبک زبان سیکھ رہا تھا۔ استاد اسداللہ محقق، نمل (نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز) میں تاجکی پڑھا رہے تھے۔ ہفت زبان تھے۔ ازبک مادری زبان تھی۔ روسی، پشتو، فارسی، اردو اور عربی پر عبور تھا۔ دو سال ان سے ازبک پڑھتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد وہ افغانستان واپس چلے گئے۔ سننے میں آیا کہ وہ رشید دوستم کے ایڈوائزر رہے۔ واللہ اعلم۔ ان کی واپسی کے بعد ان سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہو سکا!
ایک بار، دادا خان نوری جب غریب خانے پر قیام فرما تھے تو چند دوستوں کو ان سے ملاقات کے لیے دعوت دی۔ دادا خان نوری، تاشقند یونیورسٹی کے شعبۂ ہندی کے طالب علم رہے تھے۔ اردو بول لیتے تھے مگر اس دن مناسب یہی سمجھا کہ کوئی ترجمان ہو؛ چنانچہ استاد اسداللہ محقق کی خدمت میں درخواست کی کہ ترجمانی کے فرائض سر انجام دیں۔ انہوں نے ترجمانی کی۔ سوال و جواب کی ایک طویل نشست رہی۔ اس کے بعد کئی وفود کے ساتھ بھی استاد محقق بطور ترجمان کام کرتے رہے۔ یہ وفود ترکی سے بھی تھے‘ قازقستان سے بھی اور ازبکستان سے بھی!
غور کیجیے! دادا خان نوری تاشقند سے تھے۔ استاد محقق مزارِ شریف سے تعلق رکھتے تھے۔ وفود کبھی وسطی ایشیا سے آتے تو کبھی ترکی سے! مگر زبان سب کی ایک تھی۔ لہجے کا تھوڑا بہت فرق تھا۔ اس لیے کہ اصلاً سب ترک تھے! بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ شمالی افغانستان کو ''ترکستان  صغیر‘‘ بھی کہتے ہیں!
یہ رام کہانی سنانے کا پس منظر وہ شور و غوغا اور ہائو ہُو ہے جو وزیر اعظم کے بیان پر برپا ہوا ہے۔ انہوں نے ہندوستان پر ترکوں کے چھ سو سالہ اقتدار کی بات کی۔ پھر ایک بحث چل نکلی۔ سوشل میڈیا ایک شترِ بے مہار ہے جو کسی بھی سمت روانہ ہو سکتا ہے۔ یوں بھی، سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہر نیم خواندہ شخص دانش و تحقیق کے موتی بکھیرنے پر تُلا ہے۔ ''علم‘‘ کے ایسے ایسے ''نادر‘‘ نمونے دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ ہاتھ بے اختیار کانوں کو اُٹھ جاتے ہیں۔ خارج از وزن شاعری پر داد و تحسین کے وہ ڈونگرے برستے ہیں کہ ابکائی آنے لگتی ہے! غالبؔ، میرؔ، اقبالؔ، فرازؔ اور فیضؔ کے نام سے مضحکہ خیز شاعری پوسٹ کی جا رہی ہے اور پڑھنے والے نابغے اسے انہی کی شاعری سمجھ کر داد دے رہے ہیں۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ اتنے LIKES ملے ہیں۔ کچھ مرد اور خواتین باقاعدہ التماس کرتی ہیں کہ ان کی پوسٹ کو لائک کیا جائے۔ الغرض؎
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی/ اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
اس کالم نگار کو وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات ہیں، شکوے بھی اور شکایتیں بھی! وفاق اور پنجاب میں بیوروکریسی کا سانڈ ان کے کنٹرول سے مکمل باہر ہے۔ بزدار صاحب کے انتخاب کا مسئلہ معمہ ہے جو شاید تادیر لا ینحل رہے! شاہراہوں کی تعمیر اور دیگر فلاحی منصوبوں کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ شاہراہوں کی تعمیر کے لیے شریف برادران بدنامی کی حد تک مشہور ہو چکے ہیں اس لیے اس شعبے سے مکمل احتراز کرنا چاہیے! اگر فی الواقع ایسا ہے تو قابلِ تحسین ہرگز نہیں! کچھ جاہ طلب افراد کو انہوں نے وزارتیں اور ایڈوائزری عطا کی۔ اس پر بھی یہ کالم نگار مسلسل معترض رہا ہے۔ اب بھی ہے! مگر ان سب اعتراضات اور شکووں کے باوجود، کالم نگار یہ بھی سمجھتا ہے کہ عمران خان کی ہر بات جس طرح درست نہیں ہو سکتی، اسی طرح ہر بات غلط بھی نہیں ہو سکتی! یہ جو ناقدین کا رویہ ہے کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے، قطعاً غیر منطقی اور متعصبانہ ہے۔ عمران خان، غیر سنجیدگی سے از راہِ تفنن بھی کچھ کہہ دیں تو تنقید کا طویل سلسلہ چل پڑتا ہے۔ جیسے ٹیکے اور حوروں والی بات تھی۔
ترکوں کی حکومت کے حوالے سے جو کچھ خان صاحب نے کہا، اسے بھی یار لوگ لے اڑے۔ کچھ عبقری تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کا اقتدار ہندوستان پر کبھی نہیں رہا! گویا ترک صرف سلطنتِ عثمانیہ کا نام ہے!
تاریخی سچائی یہ ہے کہ ترک اصلاً وسط ایشیا سے اٹھے۔ سلجوق تھے یا اناطولیہ کے ترک یا عثمانی ترک، اصل سب کی وسط ایشیا سے ہے۔ حافظ شیرازی جب ''ترکِ شیرازی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ ترک شیراز میں بھی تھے۔ سنکیانگ کے ایغور بھی ترک ہیں۔ قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان، ترکمانستان سب ترکوں کے دیار ہیں۔ ان ریاستوں کو کہتے ہی Turkic ہیں۔ سب سے بڑا المیہ ترکی زبان کے ساتھ ہوا۔ اس وقت ترکی کئی قسم کے رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ یعنی استانبول کا ترک، مزار شریف کے ترک سے، تاشقند اور آستانہ کے ترک سے بات تو کر سکتا ہے، اس کا لکھا پڑھ نہیں سکتا۔ بالشوک انقلاب کے بعد، 1920ء کی دہائی کے آغاز میں، کمیونسٹوں نے ترکستان کو مختلف ریاستوں میں بانٹ دیا اور رسم الخط، جبراً، لاطینی کر دیا تاکہ وہ عالمِ اسلام سے کٹ جائیں۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ کمال اتاترک نے اس کے بعد، ترکی میں رسم الخط لاطینی کر دیا۔ ماسکو کے حکمرانوں نے جب دیکھا کہ وسط ایشیائی ترکوں اور ترکی کا رسم الخط ایک ہو گیا ہے تو انہوں نے دوسرا جبری اقدام اٹھایا اور وسط ایشیائی ریاستوں کا رسم الخط، لاطینی سے روسی (CYRILLIC) کر دیا۔ یوں آج ترکی چار مختلف حروف تہجی میں لکھی اور پڑھی جا رہی ہے۔ ترکی میں لاطینی، وسط ایشیا میں روسی، افغانستان میں فارسی رسم الخط ہے اور سنکیانگ کے معتوب ترکوں کا رسم الخط ان سب سے مختلف ہے۔
جہالت کا ایک شاخسانہ یہ بھی دیکھیے کہ کچھ عرصہ پہلے جب صدر اردوان نے لاطینی کے بجائے اصل ترکی حروف تہجی (یعنی فارسی، عربی رسم الخط) کے احیا کی بات کی تو یورپ اور امریکہ میں شور مچ گیا کہ آٹومن رسم الخط کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے! حالانکہ آٹومن (عثمانی) رسم الخط کا وجود ہی نہیں!
ہندوستان میں پہلا مسلمان سلطان قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر 1208ء میں بیٹھا۔ وہ ترک ہی تو تھا! اس کا تعلق ترکستان سے تھا۔ التتمش اور بلبن بھی ترک تھے۔ پھر خلجی آئے۔ خلجی اگرچہ (موجودہ) افغانستان میں مقیم تھے مگر اصلاً ترک ہی تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ دہلی کے ترک، خلجیوں کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ اس لیے کہ یہ افغانستان رہ کر، اصل ترکی رسم و رواج سے نا آشنا ہو چکے تھے۔ غیاث الدین تغلق کا باپ ترک اور ماں ہندوستانی تھی۔ لودھی، پہلے غیر ترک تھے جو دہلی کے تخت پر بیٹھے۔ معروف پختون خاندان دو ہی گزرے ہیں جنہوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ لودھی اور سُوری!
رہے مغل تو، وسط ایشیا دراصل ایک کٹھالی (Melting Pot) ہے جس میں تمام دھاتیں پگھل کر اپنی اصلیت کھو چکیں۔ مغل اپنے آپ کو ہمیشہ تیموری کہتے رہے۔ تیمور مغل تھا یا منگول یا ترک، روایات مختلف ہیں۔ بہر طور یہ طے ہے کہ ہمایوں تک مغلوں کی زبان ترکی ہی تھی۔ گلبدن بیگم کی تصنیف 'ہمایوں نامہ‘ ترکی ہی میں لکھی گئی۔ آج بھی ازبکستان جائیں تو وہاں بابر کی شہرت، فاتح سے زیادہ شاعر کی ہے۔ 1992ء میں تاشقند کا پہلا سفر کیا تو وہاں ایک صاحب نے بابر کے دیوان کا اردو ترجمہ عنایت کیا۔ یہ قلمی نسخہ تھا۔ افسوس کہ کھو گیا! فارسی کا غلبہ مغل خاندان پر ہمایوں کے ایران جانے اور واپس آنے کے بعد شروع ہوا۔
اتنا بھی غلط نہیں کہا عمران خان نے۔ ایک فرسودہ، پامال شدہ شعر یاد آ رہا ہے، یوں بھی یہ قضیہ، فرسودہ شعر ہی کا مستحق ہے؎
ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے

بشکریہ روزنامہ دنیا

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com