Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 03, 2020

اونٹ کے ساتھ کوہان تو ہو گی


اُس بچے کی کہانی ہم سب نے بارہا سنی ہے جس کی دعوے دار دو عورتیں تھیں۔ دونوں ماں ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ منصف نے فیصلہ کیا کہ بچے کو کاٹ کر دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، تاکہ دونوں کو ایک ایک حصہ مل جائے۔ ایک نے فیصلہ مان لیا۔ دوسری نے کہا کہ خدا کے لیے ایسا نہ کرو‘ سارے کا سارا بچہ دوسری عورت ہی کو دے دو! یہی اصل ماں تھی!
حزبِ اختلاف کی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ چین میں موجود طلبہ کو واپس لایا جائے۔ یہ حُبِّ علی نہیں، بغضِ معاویہ ہے! اگر حزبِ اختلاف ان طلبہ سے سچی ہمدردی رکھتی تو یہ مطالبہ کبھی نہ کرتی۔ حکومت کا فیصلہ، کہ یہ طلبہ چین ہی میں رہیں گے اور اس مرحلے پر واپس نہیں آئیں گے، ایک صائب فیصلہ ہے!
جس ملک میں پولیو ٹیموں کے عملے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا جائے، اُس ملک کی مجموعی فضا کا اندازہ کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! ہم کسی بھی ایمرجنسی کے لیے کبھی تیار نہیں پائے گئے۔ سیلاب کو لے لیجیے۔ ہر سال آتے ہیں اور ہر سال ہمارا وہی حال ہوتا ہے جو پہلے سال تھا۔ کوئی پیش بندی کبھی نہیں ہوئی۔ ہاں حکمران فوٹو سیشن کا اہتمام کراتے رہے۔ پانی کا مسئلہ دیکھ لیجیے! کتنے ڈیم بنے؟ حدِّ نگاہ تک اس مسئلے کا حل نہیں دکھائی دے رہا!
خدا نہ کرے، وائرس یہاں پہنچ گیا تو سب سے پہلے چہرے پر چڑھانے والے ماسک مہنگے ہوں گے پھر مارکیٹ سے غائب کر دیئے جائیں گے اور بلیک میں بکیں گے! کوئی انجکشن یا دوائی ہوئی تو وہ مافیا کے نرغے میں آ جائے گی! ڈاکٹر مریضوں کے جسم سے اپنا اپنا حصّہ الگ کاٹیں گے۔ رمضان کا مہینہ ہر سال ہمیں بے نقاب کرتا ہے! پھل کئی گنا زیادہ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ صارفین کو سوشل میڈیا کے ذریعے بائی کاٹ کرنا پڑتا ہے۔ سموسوں سے لے کر جلیبی تک ہر شے کے نرخ بڑھ جاتے ہیں! پھر عید آتی ہے تو ہماری ''عظمت‘‘ دو چند ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ مہذب دنیا میں ایسے مواقع پر اشیا ارزاں کی جاتی ہیں۔ ان گنہگار آنکھوں نے کفار کے ملکوں میں، کرسمس کو تو چھوڑیئے‘ ڈیپارٹمنٹل سٹوروں میں رمضان کی آمد پر مسلمانوں کے لیے سیل کے بورڈ دیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں تاجر ہر عید کو اپنی زندگی کی آخری عید سمجھ کر لُوٹ سیل نہیں، صرف لُوٹ لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچوں کے لباس اور جوتے تک سفاکی سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت کیے جاتے ہیں! بسوں اور ویگنوں کے کرائے سہ چند ہو جاتے ہیں۔ عشروں سے سعودی عرب میں کولڈ ڈرنک اور چائے ایک ریال سے اوپر نہیں گئی۔ آپ کا کیا خیال ہے حج جیسا اجتماع ہمارے ہاں ہوتا تو کیا قیمتیں اسی طرح رُکی رہتیں؟
حزبِ اختلاف کس برتے پر وائرس زدہ اور دوسرے طلبہ کو واپس منگوانا چاہتی ہے! جس ملک میں ڈاکٹر بغیر ضرورت کے صحت مند لوگوں میں سٹنٹ ڈال رہے ہوں، وہ بھی جعلی! جس ملک میں لیبارٹریاں ڈاکٹروں کے ساتھ معاملات طے کرتی ہوں۔ آپریشن تجویز کرنے والا ڈاکٹر، سرجن سے حصہ چاہتا ہو، اس ملک میں وائرس زدگان سے جو سلوک ہو گا، بچہ بھی جان سکتا ہے! ابھی تو اُن تین مریضوں کے قتل کو چند ہی ہفتے ہوئے ہیں جنہیں امراضِ قلب کے خصوصی ہسپتال میں حملہ آوروں نے دن دیہاڑے نشانہ بنایا تھا۔ آکسیجن کی نلکیاں نوچی گئیں۔ وینٹی لیٹر ہٹائے گئے۔ بستر تک الٹ دیئے گئے۔ قاتل اس جنگل میں ابھی تک ''لا پتہ‘‘ہیں! 
ہمارے طلبہ کا چین میں جس طرح خیال رکھا جا رہا ہے، اس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے! خدا را! سیاست کیجیے مگر انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں! حکومت کا قافیہ تنگ کرنا ہے تو کوئی اور ایشو ڈھونڈیے!
اور یہ جو مہنگائی کا ذکر ، اپنے خاص اسلوب میں شیخ صاحب نے کیا ہے، اس پر تعجب کیسا؟ آخر کبھی کبھار وہ بھی تو سچ بول سکتے ہیں! یوں بھی عربی محاورے کی رُو سے یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کہنے والا کون ہے؟ یہ دیکھنا چاہئے کہ کہا کیا جا رہا ہے! مہنگائی سے انکار کرنا اب حکومتی عمائدین کے بس میں بھی نہیں رہا۔ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے! اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں! اوّل: یہ ایک برہنہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف جہاں بھی ڈیرے ڈالتا ہے، مہنگائی آسمان تک جاتی ہے۔ آج تک کسی ملک کی معیشت اس ادارے کے ہاتھوں نہیں سنوری! سٹیٹ بینک کے گورنر‘ جو آئی ایم ایف سے آئے ہیں، اس سے پہلے مصر میں تھے۔ مصر میں افراطِ زر کی شرح 20 فیصد سے اوپر جا چکی ہے! آئی ایم ایف اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ غالباً دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا جس کے ارد گرد کچھ اشعار مشہور ہوئے؎
کہا ہم چین جائیں گے، کہا تم چین جائو گے
کہا جاپان کا ڈر ہے‘ کہا جاپان تو ہو گا
کہا کابل چلے جائیں‘ کہا کابل چلے جائو
کہا افغان کا ڈر ہے‘ کہا افغان تو ہو گا
کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں‘ کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہو گا
آئی ایم ایف آئے گا تو مہنگائی تو ہو گی
دوسرا عامل وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم میں ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔ ابتدا ہی سے ٹیم اختلافات کا شکار رہی ہے! وزیر خزانہ اسد عمر کے ساتھ حکومت نہ نبھا سکی۔ پھر سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ ہارون شریف مستعفی ہو گئے۔ اس کے ساتھ وفاقی سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگہ بھی پیش منظر سے ہٹ گئے یا ہٹا دیئے گئے۔ ان تبدیلیوں کی تہہ میں آئی ایم ایف کی پالیسیاں تھیں‘ جن سے یہ حضرات غیر مطمئن تھے۔ اب ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی طویل رخصت پر چلے گئے ہیں۔ اس کا سبب ''مبینہ طور پر‘‘ مشیرِ خزانہ سے اختلافات ہیں! وزیر خزانہ کا پس منظر آئی ایم ایف سے جڑا ہوا ہے جب کہ شبّر زیدی کھلے دل و دماغ کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ دوسری طرف یہ بھی نوٹ کیجیے کہ انہی دنوں سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر بھی نئے لائے گئے ہیں۔ ان کا بیک گرائونڈ بھی آئی ایم ایف کا ہے‘ جہاں یہ مختلف مناصب پر فائز رہے!
شبر زیدی واپس آتے ہیں یا نہیں! یہ ایک بڑا سوال ہے! اگر وہ نہیں آتے تو اس کا مطلب ہے کہ ایف بی آر کا سربراہ پا بہ زنجیر ہے اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے نہیں کر سکتا! یہ وزیر اعظم کے لیے لمحۂ فکریہ ہو گا۔ غیر ملکی اداروں کا اژدھا ہمارے جسم کے گرد اپنے آپ کو دن بدن زیادہ کستا جا رہا ہے!
شبر زیدی کے رخصت ہو جانے سے یاد آیا کہ یہ منظر اس سے پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ پنجاب کے پولیس نظام کو بدلنے کے لیے ناصر درانی کو لا رہے ہیں۔ ناصر درانی چند دنوں کے اندر اندر عہدہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد کسی نے اصلاحات کا ذکر سنا نہ ناصر درانی کی رخصتی کی وجہ ہی کسی نے بتائی! اب یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ سب سے بڑے صوبے میں بیوروکریسی کی تعیناتیوں پر ایک اتحادی جماعت کا غلبہ ہے! پولیس کے کئی سربراہ تبدیل کیے جا چکے۔ ایسے میں سندھ حکومت سے یہ امید رکھنا کہ وہاں آئی جی سیاست دانوں کی ریشہ دوانی سے آزاد ہو کر کام کرے گا، سادہ دلی ہے یا زیادتی! پولیس جس طرح پہلے حکمرانوں کی کنیز بن کر گزارہ کر رہی تھی، آج بھی اسی صورت حال میں ہے! اگر اس حوالے سے تبدیلی کی تمنّا ہے تو یہ کام پنجاب سے شروع ہونا چاہئے۔ ورنہ یہی ہو گا جو اب ہو رہا ہے۔ سندھ حکومت کی سب سے بڑی دلیل ہی یہی ہے کہ اگر پنجاب میں پولیس کا سربراہ کئی بار بدلا جا چکا ہے تو سندھ میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com