دوست عزیز رؤف کلاسرا نے اسلام آباد کی بربادی پر نوحہ خوانی کی ہے۔ یہ فقیر بھی کئی بار سینہ کوبی کرچکا ہے۔ لارڈ کلائیو اور وائسرائے کرزن کی ذہنیت رکھنے والے بیورو کریٹ اسلام آباد کی تقدیر کے مالک و مختار ہوں گے تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں!
وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اس اُوپر سے کالی اور اندر سے گوری نوکر شاہی کا نیا شکار ہے۔ اسے یہ فٹ بال کی طرح ٹھوکریں مارر ہے ہیں۔ کم درجے کے اہلکاروں کے لیے تو یہ پورٹل ہو سکتا ہے مؤثر ہو‘ مگر جن کے ہاتھوں میں اصل اقتدار ہے‘ وہ اس پورٹل کے ساتھ یوں کھیل رہے ہیں جیسے حکومت نہ ہو بازیچہ ہو! اس حقیقت میں کیا شک ہے کہ نوکر شاہی‘ وزیراعظم عمران خان کی اصلاحات کو ناکام کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے!
یہ تجربہ سنا سنایا نہیں‘ ذاتی ہے۔ جو حشر پورٹل کا ہوا‘ اس پر ہنسی آتی ہے اور رحم بھی! یہ کالم نگار وفاقی دارالحکومت کے جس حصے میں رہتا ہے‘ وہاں کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خلق ِخدا عاجز آ چکی ہے! چونکہ تعلق میڈیا سے ہے اس لیے کچھ شرفا‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ آئے اور سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کیا جائے۔ چونکہ مسئلہ چیف کمشنر کے دائرہ کار میں پڑ رہا تھا اس لیے طے ہوا کہ چیف کمشنر سے وقت لے کر ان سے ملاقات کی جائے اور بتایا جائے کہ یہ آپ کا فرض ہے جو ادا نہیں ہو رہا۔ چیف کمشنر سے بات کرنے کا قرعۂ فال کالم نگار کے نام نکلا۔
یہ چار ستمبر 2019ء تھا جب اس کالم نگار نے چیف کمشنر اسلام آباد کو فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر مشتاق نے بتایا کہ وہ سیٹ پر نہیں ہیں۔ آئیں گے تو بات کرائیں گے۔ فون نمبر‘ نام نوٹ کرایا۔ پھر معلوم ہوا کہ صاحب‘ سی ڈی اے کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہاں فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر رفاقت نے بتایا کہ مصروف ہیں۔ فارغ ہوں گے تو بات کرائیں گے۔ وہاں بھی نام اور فون نمبر نوٹ کرایا۔ یہ بھی وضاحت کی کہ سائل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ذمہ دار شہری ہے اور ٹیکس ادا کرتا ہے اور چیف کمشنر سے کسی مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہے۔ اگلے دن پانچ ستمبر کو پھر دونوں جگہ فون کیا اور عرضداشت دہرائی۔ بات نہ ہو سکی۔ چھ ستمبر کو پھر یہ سارا عمل دہرایا گیا‘ سات اور آٹھ ستمبر کو سنیچر اور اتوار تھا۔ نو ستمبر پیر کے دن پھر سائل نے کوشش کی۔ یہ عمل جاری رہا تاوقتیکہ معاونین (پرائیویٹ سیکرٹریز) نے عاجز آ کر صاف کہا کہ جناب! ہمارا کام تو صاحب کو بتانا ہے۔ وہ بات کریں یا نہ کریں ان کی صوابدید ہے!
انیس دن انتظار کرنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ چیف کمشنر سے بات کرنا ممکن نہیں! ایک قانون پسند شہری کا بنیادی حق ہے کہ اسے پبلک سرونٹ تک رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے! چنانچہ 23ستمبر کو سٹیزن پورٹل پر شکایت رجسٹر کرائی۔ شکایت کا نمبر تھا 15230919-4768571
متن یہ تھا :
''ایک شہری اور ایک ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے چیف کمشنر صاحب سے بات کرنا چاہی تاکہ کچھ معاملات پر احتجاج کیا جا سکے۔ چار ستمبر کو فون کیا۔ پانچ چھ اور نو ستمبر کو بھی فون کیا پرائیویٹ سیکرٹریوں مسٹر مشتاق اور مسٹر رفاقت کو پیغام لکھوائے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکی۔ شکایت یہ ہے کہ وہ قابلِ رسائی (Accessible) نہیں ہیں!!‘‘
اس شکایت کی کیٹیگر ی ''انسانی حقوق‘‘ اور ''حقوق سے انکار‘‘ تھی! شکایت کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی تاریخ وار تفصیل قارئین کی بصارت پر ناروا بوجھ ہوگا اور کالم کی صنف کے ساتھ زیادتی! مختصراً یہ کہ پہلا کھلواڑ شکایت کے ساتھ یہ ہوا کہ جس چیف کمشنر کے خلاف شکایت تھی‘ یہ اُسی کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کو بھیج دی گئی‘ یعنی ع
یکی برسرِ شاخ ‘بُن می برید
کہ جس شاخ پر بیٹھا تھا‘ اُسی کو کاٹ رہا تھا۔ کیا پاکستان کی نوکر شاہی میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے افسرِ بالا سے بازپرس کرے کہ آپ ایک شہری کے لیے قابل رسائی کیوں نہیں؟
ڈپٹی کمشنر کیا کر سکتا تھا؟ اُس نے خط و کتابت شروع کر دی۔ سائل سے پوچھا گیا کہ تفصیل بتائیے‘ سائل نے پھر عرض گزاری کہ صاحب بہادر! تفصیل اس سے زیادہ نہیں کہ ساری ممکن کوششوں کے باوجود چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکتی! کہا گیا کہ ''اپنے پوائنٹ کی تشریح کیجیے‘‘ جواب میں عرض کیا گیا کہ تفصیل بتائی جا چکی ہے اور یہ کہ چیف کمشنر کے خلاف شکایت اُس کے ماتحت کو بھیجنا پورٹل کے ساتھ مذاق ہے! اس کا جواب یہ دیا گیا کہ تفصیلات مہیا کیجیے!
یہ فٹ بال کئی دن ٹھوکریں کھاتا رہا! پھر کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر بات کرنا چاہتے ہیں! عرض کیا گیا کہ ناقابلِ رسائی چیف کمشنر صاحب ہیں! ڈپٹی کمشنر نہیں! پھر کہا گیا کہ چیف کمشنر صاحب کے دفتر حاضر ہوں! اس کے جواب میں شکایت کنندہ نے پھر ساری صورت حال بتائی کہ''معاملے کو اس لیے لٹکایا جا رہا ہے کہ چیف کمشنر کو ذمہ داری سے بچایا جا سکے! ایشو یہ ہے کہ چیف کمشنر ناقابل رسائی ہیں اور وہ شہری کی کسی کال کو درخور ِاعتنا نہیں گردانتے۔ ڈپٹی کمشنر سے بات کا کوئی فائدہ نہیں! جیسا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے‘ معاملہ چیف کمشنر سے سینئر اتھارٹی کی سطح کا ہے۔ چیف کمشنر پابند ہے کہ اپنی نارسائی کی وجہ بیان کرے‘‘۔چیف کمشنر سے بات کیا ہونی تھی شکایت مسلسل فٹ بال بنی رہی! یہاں تک کہ چھ دسمبر کو ''جزوی داد رسی کر دی گئی‘‘ کہہ کر نمٹا دی گئی۔
یہ ہے حشر وزیراعظم کے پورٹل کا جو اعلیٰ نوکر شاہی کر رہی ہے! اصولی طور پر چیف کمشنر کے باس کو چیف کمشنر سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا ایک یا دو ماہ کے بعد بھی آپ سائل سے بات نہیں کر سکتے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اُس ٹیلی فون کا کیا فائدہ جس کا بل حکومت ادا کر رہی ہے؟
بستی کے شرفا کو جب بتایا گیا کہ چیف کمشنر صاحب سے ملنا تو درکنار‘ بات کرنا بھی ناممکن ہے تو ان کا ایک ہی کمنٹ تھا کہ جب اعلیٰ ترین درجے سے ریٹائر ہونے والا بیورو کریٹ‘ جس کا میڈیا سے بھی تعلق ہے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں کر سکتا تو ہما و شما کا کیا حال ہو گا ؛ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
چیف کمشنر صاحب کا عوام کے ساتھ رویہ دیکھ کر انگریز ڈپٹی کمشنروں کے واقعات یاد آ گئے۔ عید کے موقع پر علاقے کے جاگیردار‘ زمیندار‘ معززین‘ حاضر ہوتے تھے اور کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو کر صاحب بہادر کا انتظار کرتے تھے کہ درشن ہو تو عید مبارک عرض کی جائے! طویل انتظار کے بعد اندر سے ملازم آتا تھا اور خوش خبری دیتا تھا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے یہ سن کر‘ انتظار کرنے والے‘ جنہوں نے طّرے باندھے ہوتے تھے اور اچکنیں زیب تن کر رکھی ہوتی تھیں‘ ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے کہ مبارک ہو! صاحب بہادر نے عید مبارک قبول کر لی ہے!
زمانہ بدل گیا۔ مہذب ملکوں میں ایک عام شہری وزیروں اور وزراء اعظم سے بھی بات کرسکتا ہے‘ یہاں شہر کا افسر اعلیٰ رسائی سے کوسوں دور ہے! فیڈ بیک کا کوئی وسیلہ نہیں! نوکر شاہی اپنی دنیا میں مست ہے! کنویں سے باہر کیا ہو رہا ہے؟ کچھ خبر نہیں! ایسے میں رؤف کلاسرا ایک بار نہیں‘ سو بار نوحہ خوانی کرے کہ اسلام آباد برباد ہو رہا ہے‘ کچھ اثر نہیں ہوگا!
نواز شریف ہو یا عمران خان‘ نوکر شاہی کا مخصوص گروپ اُن کی اصلاحات کو سبوتاژ کرتا رہے گا! اصل رکاوٹ وزرا نہیں‘ نوکر شاہی ہے! جن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے یہ نوکر شاہی دنیا کے بہترین معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور نوابوں جیسے ٹھاٹھ باٹھ سے رہ رہی ہے‘ انہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی!
سوری! جناب وزیراعظم! آپ کی خوش نیتی‘ آپ کا عزمِ ِصمیم‘ اس نوکر شاہی کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتا نہ کچھ کر سکے گا!
No comments:
Post a Comment