کیا آپ کو معلوم ہے چمگادڑ آرام کیسے کرتی ہے؟
یہ آرام کرنے کے لیے سر کے بل لٹکتی ہے۔
پنجے بناوٹ میں ایسے ہوتے ہیں کہ درختوں کی شاخوں میں پھنس جاتے ہیں۔ یوں یہ پاؤں اوپر اور سر نیچے کر کے گھنٹوں، بلکہ پہروں، محوِ استراحت رہ سکتی ہے!
اُلّو رات کو جاگتا ہے۔ ہمارں ہاں اُلّو نحوست کی علامت ہے اور مغرب میں دانائی کی! یہ دن کو سوئے نہ سوئے رات کو بیدار ضرور رہتا ہے۔ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور صبح کو چست اور ایکٹو رہنے سے معذور ہیں انہیں ''نائٹ آؤل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اقبال نے اُلّو کو رات کا شہباز کہا ہے ؎
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز
حیرت ہے کہ کچھ لوگ چمگادڑ سے یہ امید باندھے تھے کہ یہ آرام کرتے وقت الٹا لٹکنا چھوڑ دے گی۔ درخت سے نیچے اترے گی اور بیڈ روم میں جا کر مسہری پر، اسی طرح سوئے گی جیسے آدم زاد سوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کر سکی تو کم از کم درخت کی ٹہنی پر سیدھا بیٹھ کر آرام کرے گی۔
اُلّو سے وہ یہ توقع کر رہے تھے کہ رات کو جاگنا ترک کر دے گا۔ سحر خیزی اپنائے گا اور شرفا کی طرح رات شروع ہوتے ہی سو جائے گا۔ یوں محاورہ تبدیل ہو کر اس طرح ہو جائے گا۔
Early To Bed And Early To Rise Makes An Owl Healthy, Wealthy And Wise!
مگر چمگادڑ اور اُلّو‘ دونوں نے ان کی امیدیں پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ دونوں کی مجبوری تھی۔ اُن کے جسموں اور ذہنوں کی ساخت ہی ایسی ہے! چمگادڑ قدرت نے بنائی ہی ایسی ہے کہ الٹا لٹکے بغیر اسے نیند نہیں آتی۔ اُلّو کا باڈی کلاک اسے دن کو جاگنے نہیں دیتا اور رات کو سونے نہیں دیتا۔ اب آپ خود انصاف کیجیے چمگادڑ اور اُلّو کی جو مذمت ہو رہی ہے کیا اس مذمت کا کوئی جواز بنتا ہے؟
مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ یہ کیسے مومن ہیں جو نواز شریف جیسے سیاست دان سے بار بار ڈسے جا رہے ہیں اور اب بال کھول کر، پٹکے کمر سے باندھ کر، نوحہ خوانی کر رہے ہیں! پہلے خود ایک بیانیہ تخلیق کیا۔ پھر اسے نواز شریف سے وابستہ کیا۔ میاں صاحب کو عزیمت کا تاج پہنایا۔ میاں صاحب کے اپنے مفادات تھے، اپنا ایجنڈا تھا۔ وہ ماضی کی طرح عیش و آرام کی زندگی گزارنے ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور کیے گئے سمجھوتے کی پارلیمنٹ میں لاج رکھی ہے، تو وہ حضرات جنہوں نے بیانیہ خود تخلیق کیا تھا اور عزیمت کا تاج خود ہی خیالی سر پر پہنایا تھا‘ بیٹھے رو رہے تھے! کوئی مذمت کر رہا ہے! کوئی تاویل! وہ لطیفہ انہیں بالکل یاد نہیں آ رہا جس میں ایک بچہ پانی میں ڈوب رہا ہوتا ہے۔ ایک شخص پانی میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ بچہ اس سے چمٹ جاتا ہے۔ دونوں باہر نکل آتے ہیں۔ جب لوگ بچے کو بچانے پر اس کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں تو وہ غصّے سے پوچھتا ہے کہ مجھے دھکاّ کس نے دیا تھا؟
یہ سیاست دان! اور عزیمت؟ یہ سیاست دان اور بیانیہ؟؟ گویا توقع تھی کہ پوپ اسلامی وفد کی قیادت کرے گا اور جاپانیوں کی خوراک مچھلی کے بجائے اونٹ کا گوشت ہوگی! بات اُس وقت شروع ہوئی جب میاں صاحب نے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ نزع کے وقت تو توبہ بھی قبول نہیں ہوتی! ووٹ کی عزت تخت سے اتر کر یاد آئی! مہینوں پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے، مہینوں کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا تھا۔ فیصلے، مطلق العنان بادشاہ کی طرح کرتے تھے۔ صاحبزادی اقتدار میں شریک تھیں! کون سے ووٹ لیے تھے ان کی بیٹی نے؟ وزیر تھیں نہ پارلیمنٹ کی رکن! بھتیجا ایم این اے تھا مگر عملاً پنجاب کا حکمران! اُس وقت ووٹ کو عزت کیوں نہ دی؟
عزیمت کا راستہ وہ نہیں چُنتے جن کا طرزِ زندگی میاں صاحب جیسا ہوتا ہے! جس کی اتنی بھی Concentration نہ ہو کہ اپنے بارے میں آیا ہوا عدالتی فیصلہ ہی خود پڑھ لے، جس کی زندگی کا ڈھب یہ ہو کہ دوپہر مری میں تو، شام لاہور میں! وطنِ اصلی لندن اور وطنِ اقتدار پاکستان! جس کی سوچ کا محور ناشتے‘ ظہرانے اور عشائیے کی تفصیلات ہوں، جو کئی پاکستانیوں کو مار دینے والے دھماکے کے کچھ دیر بعد کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ ٹریڈ سے شکوہ کر رہا ہو کہ ظہرانہ ''کمزور‘‘ تھا، وہ عزیمت کا راستہ اختیار کرے گا؟ واہ! جناب! واہ! ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اور یہ بھی انصاف نہیں کہ صرف میاں صاحب یا میاں صاحبان سے سہل پسندی کا شکوہ کیا جائے اور مفاد پرستی کا طعنہ دیا جائے! کون ہے سیاست دانوں میں جس نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا؟ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او کر کے اپنے اقتدار کا راستہ صاف کیا‘ یہ الگ بات کہ فائدہ کسی اور کو پہنچا! کراچی سے لے کر رائے ونڈ تک‘ گجرات سے لے کر پشاور تک! ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر کوئٹہ تک‘ سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں! مولانا فضل الرحمن آج ''عزیمت‘‘ کے راستے پر ہیں تو سبب سب جانتے ہیں! اپنی ذات کی اتنی فکر ہے کہ جس اسمبلی میں لختِ جگر بیٹھا ہے، اُسی کو لپیٹنا چاہتے ہیں! ضیاالحق کی شوریٰ سے لے کر آج کے ایوان تک... سارے چہرے وہی ہیں! تو پھر صرف میاں صاحبان ہی سے کیا شکوہ! ہمیں اہل سیاست کی ایک پوری نسل ایسی ملی ہے جو اقتدار کے علاوہ کوئی نصب العین نہیں رکھتی!
کسی کو کیا پڑی ہے کہ نظریات کے لیے، بیانیے کے لیے، قوم ملک کے لیے، اپنا آرام تج دے۔ زندانوں کی صعوبتیں سہے! اپنی خاندانی سپریمیسی کے لیے لڑائی لڑنے میں جو مزا ہے، وہ سول سپریمیسی کی جنگ میں کہاں ہے!
توسیع کے حق میں نواز شریف نے پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا حکم دیا تو اس میں حیرت ہی کیا ہے؟ میاںصاحب کو ایک آرام دہ زندگی چاہیے! وزیراعظم ہاؤس میں نہیں تو جدہ کے کسی محل میں یا لندن کے کسی محل میں!
عزیمت کا راستہ وہ چنتے ہیں جن کے Stakes ہائی نہیں ہوتے! جنہوں نے محلات‘ کارخانے‘ جائیدادیں‘ بینک بیلنس نہیں بچانے ہوتے! جو اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے حکمرانی کے خواب محفوظ نہیں رکھنا چاہتے۔ عزیمت کا راستہ نیلسن منڈیلا یا مرسی جیسے دیوانے چنتے ہیں! یہ فرزانوں کا کام نہیں! زرداری صاحب بھی دیوانے نہیں فرزانے تھے۔ صدر بنے تو فیصلہ کر لیا کہ کسی A کو نہیں چھیڑنا۔ آرام سے پانچ سال قصرِ صدارت کے مزے لوٹے! میاں صاحب بھی فرزانے ہیں! اگر باقر خانیاں بنوانے کے لیے بھی الگ باورچی ضروری ہو تو کیا ضرورت ہے قید و بند میں پڑنے کی اور اسمبلی میں ووٹ نہ دینے کے لیے ڈٹ جانے کی! کل کے ایک اخبار میں اُن کے ایک حمایتی اخبار نویس نے بھی شہادت دے دی ہے کہ خود چل کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے قطر والوں کے جہاز میں سوار ہوتے وقت ان کی حالت کسی طور بھی نزعی نظر نہیں آ رہی تھی!! نعیم صدیقی نے کہا تھا ؎
یہ لا اِلٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
عزیمت دکھانے والوں کی ساخت ہی اور ہوتی ہے! عشروں کی ''محنت‘‘ سے کھڑی کی گئیں دولت کی ایمپائرز ووٹ کو عزت دینے کے لیے کوئی نہیں منہدم کرتا۔ جنہوں نے صعوبت کی راہ اختیار کرنی ہو وہ دولت کے انبار جمع ہی نہیں کرتے‘ وقت آئے تو دامن جھاڑ کر دار و رسن کی جانب چل پڑتے ہیں
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ و تیرِ نیم کش جس کا نہیں کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
No comments:
Post a Comment