کیا آپ نے کسی ایسی یونیورسٹی کا نام سنا ہے جس میں فزکس کا استاد جغرافیہ پڑھا رہا ہو، جغرافیے کا استاد انگریزی ادب پر لیکچر دیتا ہو، سنسکرت کا ماہر عربی زبان پڑھاتا ہو اور اقتصادیات کا پروفیسر مصوری کا درس دیتا ہو!
دنیا میں شاید کہیں بھی ایسا تعلیمی ادارہ نہ ہو! ماضی میں نہ حال میں! مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں! اس لیے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا!
مگر ایسا ہمارے ہاں ہو رہا ہے! وزیر اعظم کی کابینہ کو اگر ادارہ مان لیا جائے، جو کہ حقیقت میں ادارہ ہی ہے! تو اس ادارے میں بالکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جو کام پوری دنیا میں نہیں ہوتا وہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ یہاں ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک زمانے میں یہ کالم نگار، بسلسلہ مزدوری مرکزی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا! ایک وفد جاپان بھیجنا تھا۔ دو نام موقع اور کام کی مناسبت سے جاپانی سفارت خانے کو بھیجے گئے۔ پراسیس کافی لمبا تھا۔ سفارت خانے نے یہ نام اپنی حکومت کو ارسال کیے۔ وہاں کئی مراحل سے گزر کر یہ نام فائنل ہوئے۔ جب روانگی میں کچھ ہی دن باقی تھے تو ہمارے وزیر (وزیر ثقافت) نے نادر شاہی حکم دیا کہ ایک نام تبدیل کر کے ایک اور صاحب کا نام بھیجا جائے۔ وزیر صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسا نہ کریں مگر وہ شاید کسی سے پکّا وعدہ کر چکے تھے۔ بہر طور تبدیل شدہ نام سفارت خانے کو بھیجا گیا۔ وہاں سے ایک سینئر سفارت کار بنفس نفیس ہانپتا کانپتا آیا کہ اب اس مرحلے پر ایسا کرنا نا ممکن ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے زچ ہو کر کہا کہ: ''جاپان میں ایسا نہیں ہوتا...!‘‘ اس کالم نگار نے سفارت کار کو چائے کا گرم کپ پیش کرتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا کہ ''پاکستان میں ایسا ہوتا ہے !‘‘
آپ وزیر اعظم کی کابینہ کے روزمرہ کے بیانات پر غور فرمائیے۔ عجیب و غریب صورتِ احوال دکھائی دے گی! وزرا دنیا کے ہر موضوع پر میڈیا میں بات کر رہے ہیں‘ سوائے اُس کے جس کا تعلق ان کے قلم دان سے ہے۔ ہوا بازی کے وزیر صاحب اطلاع دے رہے ہیں کہ کرونا وائرس سے بچائو کے لیے حفاظتی انتظامات کر لئے گئے ہیں اور یہ کہ پنجاب میں آٹے کا کوئی بحران نہیں! گویا، صحت اور خوراک کے محکمے بھی ہوا بازی میں شامل سمجھیے! اگر آٹے کا بحران نہیں ہے تو وزیر اعظم نے خصوصی کمیٹی کیوں تشکیل دی ہے جو بحران کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین کرے گی؟ اور کیا ہوا بازی کے وزیر کو محکمہ صحت نے کوئی خصوصی بریفنگ دی ہے جس کی بنیاد پر وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس سے بچائو کے لیے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں؟
معاون خصوصی برائے احتساب فرماتے ہیں کہ آئین ایک دستاویز ہے کوئی صحیفہ نہیں! تو کیا اب آئین بھی احتساب کے دائرۂ کار میں آ گیا ہے؟ ماضی کے ایک آمر کا قول یاد آ رہا ہے کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کا ایک ٹکڑا! مانا کہ آئین صحیفہ نہیں! مگر یہ ایک ایسی دستاویز ضرور ہے جس نے ملک کی لسانی، نسلی اور جغرافیائی اکائیوں کو ایک وحدت میں پرو رکھا ہے! یہ کہہ کر کہ یہ صحیفہ نہیں، آخر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آئین کی اہمیت کو گھٹانے سے احتساب کے عمل کو کیا فائدہ ہو گا؟ کاغذ کے جس ٹکڑے کے حوالے سے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے، وہ بھی تو کوئی صحیفہ نہیں!
ایک اور رکن نے وزیر اعظم کی مسکراہٹ کو قاتلانہ قرار دیا ہے! اس مسکراہٹ کو دیکھ کر پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں! ان کی شخصیت میں ایسا جادو ہے جو کسی اور کے پاس نہیں! اور یہ کہ لوگ ان کے چلنے کی وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں! اس بیان پر کیا تبصرہ ہو سکتا ہے! ہاں یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ کیا کابینہ میں خوشامد کی کوئی الگ وزارت موجود ہے یا یہ ذمہ داری سب ارکان مل جل کر باہمی تعاون سے نبھا رہے ہیں؟
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر کا فیصلہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ نون لیگ کی قیادت ہے! گویا یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ مہنگائی ایک حقیقت ہے!
رہی اپوزیشن تو وہاں بھی، لیڈر اپنے آپ کو ہر موضوع پر بات کرنے کا اہل سمجھتا ہے! شیڈو کابینہ کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں! چانڈیو صاحب کچھ اور فرماتے ہیں، نفیسہ شاہ کچھ اور، اور خواجہ آصف کچھ اور! ''شیڈو کیبنٹ‘‘ کا ترجمہ ''حزبِ مخالف کی کابینہ‘‘ کہا جا سکتا ہے! مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف اپنے ارکان کو مختلف محکمے تفویض کرتی ہے۔ کسی کو خوراک، کسی کو سائنس و ٹیکنالوجی، کسی کو خارجہ امور، وغیرہ! آج اگر حزبِ اختلاف میں شیڈو کابینہ کا وجود ہوتا تو حزبِ اختلاف کا صرف ایک نمائندہ... آٹے کے بحران پر پوری ریسرچ کر کے قوم کے سامنے حقائق لاتا۔ مگر جیسی حکومتی کابینہ ہے، ویسی ہی حزبِ اختلاف ہے! پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان کوئی فنی اور ٹیکنیکل کوآرڈی نیشن موجود نہیں! خارجہ امور ہوں یا اقتصادی صورتحال، خوراک کی قلت ہو یا سمگلنگ کا ایشو، کسی موضوع پر حزبِ اختلاف کوئی تعمیری بات کرنے سے قاصر ہے کیونکہ تیاری مفقود ہے! محنت کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں! قرضوں اور برآمدات درآمدات کے اعداد و شمار جو بتائے جاتے ہیں، سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں! ہونا یہ چاہئے کہ ٹیلی ویژن پر وزیر خزانہ کا، حزبِ اختلاف کی شیڈو کابینہ کے وزیر خزانہ سے مناظرہ ہو۔ اسی طرح حزبِ اختلاف پر لازم ہے کہ ہر شعبے میں قوم کو اپنا مؤقف اعداد و شمار کے ساتھ بتائے تا کہ رہنمائی ہو سکے! افسوس! ہمارے سیاست دان، کیا حکومتی اور کیا حزبِ مخالف، کسی موضوع پر ٹھوس، سنجیدہ گفتگو کرنے کے اہل نہیں! ان کی پشت پر تحقیقی ٹیمیں ہی نہیں جو انہیں مواد مہیا کریں اور رہنمائی کریں! یوں قوم لا علمی کے تھپیڑے کھا رہی ہے! کنفیوژن کا دور دورہ ہے! ایسے قابلِ اعتبار تھنک ٹینک بھی ناپید ہیں جو قوم کو صحیح صورت احوال سے آگاہ کریں۔ جو نام نہاد تھنک ٹینک پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں ان کی فنڈنگ غیر ملکی ادارے کر رہے ہیں۔ ان کی نیت کیا ہے؟ یہ جاننا مشکل نہیں!
قسمیں کھانے کا رواج الگ زور پکڑ رہا ہے۔ بات بات پر قسم کھانے سے منع فرمایا گیا مگر یہاں ہر چھوٹے بڑے معاملے پر قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ وہ بھی دوسروں کے حوالے سے! شیخ رشید کہتے ہیں کہ وہ عمران خان کی دیانت داری کی قسم کھا سکتے ہیں۔ فواد حسن فواد اپنی عزیز ترین شے کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ نواز شریف کرپشن سے پاک، ایک دیانت دار شخص ہے! اس قسم کے فیصلے کرنے کے لیے خالقِ کائنات نے حشر کا دن متعین کر رکھا ہے مگر ہم دنیا ہی میں فیصلے صادر کر رہے ہیں اور وہ بھی دوسروں کی طرف سے! کوئی ہے جو ان صاحبان کو بتائے کہ آپ اپنی فکر کیجیے! وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعظم نواز شریف کتنے دیانت دار ہیں، یہ فیصلہ دنیا میں دنیاوی عدالتیں اور آخرت میں خدائی عدالت کرے گی! دنیا کی عدالتیں اُن شہادتوں پر تکیہ کرتی ہیں جو ان کے سامنے پیش کی جائیں! یہ شہادتیں جھوٹی بھی ہو سکتی ہیں، نامکمل بھی! مگر آخرت میں خدائی عدالت کو چکمہ نہیں دیا جا سکے گا! وہاں اپنے اعضا گواہی دے رہے ہوں گے۔ پوری زندگی کی وڈیوز دکھائی جا رہی ہوں گی! دعا یہ کرنی چاہئے کہ روزِ حشر جب زندگی کی وڈیو چل رہی ہو تو سکرین اتنی بڑی نہ ہو کہ سب دیکھ رہے ہوں! یہی کیا کم مصیبت ہوگی کہ انسان خود اپنے اعمال... سارے کے سارے، تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ دیکھ رہا ہو گا! خدا کی پناہ اگر یہ سب کچھ، سب لوگ دیکھیں! اس لیے پروردگار کی عیوب چھپانے والی صفت کا ہر وقت ورد کرتے رہنا چاہئے وہ ستارالعیوب ہے یعنی عیوب پر پردہ ڈالنے والا! ورنہ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ ''اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ‘‘ (جس دن اعمال نامے نشر کیے جائیں گے) تو اگر نشر کرنے کا مفہوم وہی ہے جو ہم میڈیا کے حوالے سے سمجھتے ہیں تو جو کچھ پیش آ سکتا ہے، اس کا محض تصّور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے!
No comments:
Post a Comment