Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, September 29, 2019

کے بعد پہلی مرتبہ 1973



‎کیا کسی کو یاد ہے نیو یارک ٹائمز نے اس وقت اپنے اداریئے میں کیا لکھا تھا؟

 1973
‎ء میں شاہ فیصل نے مغرب کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف تیل کی برآمدبند کر دی تھی! مغرب کو ایک سرداور بے سہارا سرما صاف سامنے نظر آرہا تھا۔ 2008ء میں سابق انٹیلی جنس سربراہ اور واشنگٹن میں سابق سفیر ترکی الفیصل نے ایک انٹرویو دیا۔یہ انٹرویو معروف جریدے’’شرق الاوسط‘‘میں چھپا۔ 1973ء میں جب تیل پر پابندی لگائی گئی تو ترکی الفیصل شاہی دربار میں مشیر تھے۔

‎ شاہ فیصل اُس وقت جدہ میں تھے۔ سی آئی اے کے ایک نمائندے نے ترکی الفیصل کو ایک کاغذ دیا۔ اس پر دستخط کسی کے نہیں تھے۔ بتایا گیا یہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی طرف سے ہے۔ اس پر لکھا تھا کہ اگر شاہ نے پابندی نہ ہٹائی تو امریکہ اپنے مفاد میں سب کچھ کرے گا۔ مطلب واضح تھا۔ طاقت کا استعمال! ترکی الفیصل کہتے ہیں۔

‎’’میں بادشاہ کے پاس گیا اور پیغام دیا۔ بادشاہ نے پیغام وصول کیا اور صرف اتنا کہا ’’خیر‘ انشاء اللہ‘‘۔ ترکی بتاتے ہیں کہ بادشاہ ‘ اس دھمکی کے باوجود‘ پرسکون‘ ہشاش بشاش اور اچھے موڈ میں رہے۔ امریکی دھمکی کا انہوں نے کوئی اثر نہ لیا۔ 

‎کیا کسی کو یاد ہے نیو یارک ٹائمز نے اس وقت اپنے اداریے میں کیا لکھا تھا؟ 

‎یہ کالم نگار اس وقت پچیس برس کا تھا۔ اداریے کے الفاظ کل کی طرح یاد ہیں۔ دنیا کے اس طاقت ور ترین اخبار نے لکھا تھا کہ ساتویں صدی میں جب عرب جزیرہ نمائے عرب سے گھوڑوں اور اونٹوں پر نکلے اور دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا‘ اس کے بعد آج تک عربوں نے مغرب کو اتنا بڑا دھچکا نہیں دیا جتنا تیل کی اس پابندی سے دیا! اگر یہ کہا جائے کہ وزیر اعظم پاکستان نے کل اقوام متحدہ میں جو تقریر کی، وہ تیل کی اس پابندی کے بعد مغرب کے لئے سب سے زیادہ حیران کن واقعہ ہے تو کیا یہ مبالغہ آرائی ہو گی؟؟ 

‎جن کے دلوں میں بغض ہے اور مفادات کا موتیا آنکھوں پر اترا ہوا ہے‘ وہ اس تقریر پر بھی اعتراض کریں گے۔ ایک ایسے ہی سیہ دماغ کو خوش خبری دی گئی کہ اس کی محبوب پالتو بلی دریا میں پانی کے اوپر چل رہی ہے تو حیران اور خوش ہونے کے بجائے وہ زار و قطار رونے لگا کہ چل ہی رہی ہے نا! تیر تو نہیں سکتی! پیپلز پارٹی کے خالص ’’جمہوری‘‘ اور ’’منتخب‘‘ چیئرمین بلاول زرداری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں مایوسی ہوئی ہے کیوں کہ عمران خان نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر صحیح طریقے سے نہیں اٹھایا۔ سوشل میڈیا پر کچھ شپرّہ چشم کہہ رہے ہیں کہ تقریروں سے کیا ہوتا ہے؟ تو پھر کیا وہ تقریر نہ کرتے؟ اور کہتے کہ میں تقریر نہیںکروں گا کیونکہ تقریروں سے کیا ہوتا ہے! 

‎آپ پوچھیں گے کہ شپرّہ چشم کیا اور کون ہوتا ہے! شپرہ چمگادڑ کو کہتے ہیں۔ سعدی نے کہا تھا ؎ 

‎گرنہ بیند بروز شپرہ چشم 
‎چشمۂ آفتاب راچہ گناہ 

‎اگر چمگادڑ دن کے وقت کچھ دیکھنے سے قاصر ہے تو سورج کا اس میں کیا قصور؟ 

‎اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پہلی بار توہین رسالت کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے۔ 

‎’’ہمارے نبیؐ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ دنیا کے سوا ارب سے زائد مسلمان رسول ﷺکی توہین نہیں برداشت کر سکتے۔ جب کوئی توہین کرتا ہے تو ہمیں دلی دکھ ہوتا ہے اور دل کو پہنچنے والا دُکھ جسم کو پہنچنے والے دکھ سے زیادہ ہوتا ہے۔ جس طرح ہولو کاسٹ کے معاملے پر یہودیوں کو تکلیف ہوتی ہے!‘‘کیا کبھی اتنے بڑے عالمی فورم پر اس سے پہلے اسلام کا ان الفاظ میں دفاع کیا گیا ہے؟ ’’نائن الیون سے پہلے زیادہ خودکش حملے تامل ٹائیگر نے کیے جو ہندو تھے۔ لیکن کسی نے ہندوئوں کو انتہا پسند نہیں کہا! جاپانی پائلٹوں نے دوسری جنگ عظیم میں خودکش حملے کئے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں! میں انتہا پسند اور روشن خیال اسلام کی اصطلاحات س

‎ے متفق نہیں! اسلام ایک ہی ہے جو ہمارے نبیؐ نے دیا‘‘ 

‎اس سے پہلے بھی ایک وزیر اعظم پاکستان تھے جن کی زبان پر کلبھوشن کا نام ملک کے اندر آیا نہ باہر!آپ انٹرنیٹ پر جائیے اور یہ لکھ کر گوگل کیجیے۔
 gift of Nawaz Shareef to mother of modi
‎ آپ کو ویڈیو میں مودی کی ماں نظر آئے گی۔اس کے ہاتھ میں ایک سبز ڈبہ آپ دیکھیں گے اس پر حکومت پاکستان کا نشان واضح نظر آ رہا ہے۔ پھر ویڈیو کلپ آپ کو صاف دکھائے گا۔
with the compliments prime 
minister of pakistan

‎ کوئی اس ذات شریف سے پوچھے کہ خدا کے بندے! اگر گجرات کے قصاب کو تحفہ دینا تھا تو اپنی ذاتی حیثیت میں دیتے؟ بطور وزیر اعظم پاکستان کس اتھارٹی پر دیا؟ 

‎نواز شریف کے بھائی نے چند دن پہلے اسمبلی کے فلور پر مودی کو قصاب کہا ہے۔ قصاب تو وہ تب سے ہے جب اس نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ سینکڑوں مسلمان عورتوں کی آبرو ریزی کرائی تھی۔ ہزاروں بچے مارے گئے۔ مسلمانوں کی بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں! پھر جب مودی سے کسی صحافی نے تبصرہ کرنے کے لئے کہا تو اس نے کہا ’’میرے جذبات وہی ہیں جو کار چلاتے وقت ‘ کتا نیچے آ کر مر جائے تو ہوتے ہیں‘‘ اس وحشی درندے کی ماں کو تحفہ حکومت کی طرف سے بھیجا گیا۔ مودی کے ساتھ نواز شریف کی تصویریں دیکھ کر‘ اپنے دل پر ہاتھ رکھیے اور خدا کو حاضر ناظر جان کر بتائیے کیا میاں صاحب کے چہرے پر ‘ دل سے بے ساختہ نکلی ہوئی خوشی رقص نہیں کر رہی؟ 

‎مگر وقت وقت کی بات ہے۔ تلک الایاّم نُداولھا بین الناس! خدا لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا ہے۔ آج اسی ملک کا وزیر اعظم‘ سب سے بڑے عالمی فورم پر مودی کو ننگا کرکے رکھ دیتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں عمران خان نے مودی کے بارے میں جنرل اسمبلی میں جو کچھ کہا اس سے پاکستان میں کس کو دلی تکلیف پہنچی ہے۔

‎ ’’نریندر مودی انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کا تاحیات رکن ہے، جو نازی ہٹلر اور مسولینی سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ آر ایس ایس مسلمانوں کی بھارت میں نسل کشی پر یقین رکھتی ہے اور مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف نفرت پر مبنی بیانیہ کی حامل ہے۔ اسی بیانیہ نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا۔ جب مودی گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو آر ایس ایس کو وہاں تین دن دو ہزار مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دی۔ اس سانحہ کے باعث اس کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دی گئی‘‘ 

‎وزیر اعظم عمران خان نے ہولو کاسٹ کا ذکر کر کے مغرب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ یہ ایک لیڈر کی تقریر تھی! لیڈر وہ ہوتا ہے جو مسائل پر اپنی رائے رکھتا ہوٖ اور پھر اس رائے کو کسی احساس کمتری کے بغیر بیان کر سکے۔ یہ تقریر خطابت کی ایک عمدہ مثال تھی۔ لہجے میں یقین‘ ٹھہرائو‘مناسب الفاظ کا چنائو‘ بولتے ہوئے وقفے ‘ چہرے کے تاثرات، پر اعتماد نظریں! سب کچھ موجود تھا! 

کبھی اہل پاکستان کو ایسے مواقع پر ندامت کا سامنا کرنا پڑتا تھا - آج انہیں فخر ہے

Saturday, September 28, 2019

شیخ ابو سعید‘ بو علی سینا اور کشمیر


مشہور و معروف صوفی شاعر شیخ ابو سعید ابوالخیربوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ایک بار دونوں کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات عجیب تھی۔ تین دن اور تین راتیں علیحدگی میں مصروف گفتگو رہے۔ عقیدت مندوں اور مریدوں میں سے کوئی اندر نہ جا سکتا تھا۔ سوائے اس کے جسے وہ اجازت دیتے۔ صرف نماز باجماعت کے لئے باہر نکلتے۔ تین دن بعد ملاقات ختم ہوئی۔ بو علی سینا سے ان کے شاگردوں نے ملاقات کے متعلق پوچھا تو بو علی سینا نے بتایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں شیخ ابو سعید اسے دیکھ سکتے ہیں۔ ابو سعید ابوالخیر سے ان کے مردوں نے ملاقات کا حال جاننا چاہا تو شیخ نے فرمایا جو کچھ ہم دیکھ سکتے ہیںوہ اسے جانتے ہیںi! شیخ ابو سعید کی یہ رباعی زبان زدِ خاص و عام ہے ؎ 


باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ 

گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ

 این درگِہ ما درگِہ نو میدی نیست 

صد بار اگر توبہ شکستی باز آ 


واپس آ جا ۔ واپس آ جا! تو جو کوئی بھی ہےلوٹ آ! کافر ہے یا آتش پرست یا بتوں کا پجاری۔ ہماری بارگاہناامیدی کی بارگاہ نہیں! سو بار بھی توبہ توڑی ہے تو کوئی بات نہیں! پھر آ جا


شیخ ابو سعید ابوالخیر کا ذکر اس لئے نہیں چھیڑا کہ آج ان کی برسی ہے! اصل میں آج کل جو کچھ حزب اختلاف کشمیر کے ضمن میں وزیر اعظم کے خلاف ہاہا کار مچا رہی ہے، اس پر حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر کی ایک اور رباعی بہت زیادہ یاد آ رہی ہے ؎ 


گفتی کہ فلاں زیا دِما خاموش است 

از بادہعشقِ دیگران مدہوش است 

شرمت بادا! ہنوز خاکِ درِ تو

 از گرمیٔ خونِ دِل من در جوش است 


تونے گلہ کیا کہ فلاں ہمیں بھول کر دوسروں کے حق میں کھو گیا۔ تجھے شرم آنی چاہیے! تیرے دروازے کی مٹیمیرے خونِ دل کی گرمی سے ابھی تک کھول رہی ہے


عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر جس طرح کشمیر کا ایشو اٹھایا ہے اس کی مثال پاکستان میں نہیں مل سکتی! مگر اپوزیشن کمال ’’باشرمی‘‘ سے شور مچائے جا رہی ہے کہ عمران حکومت کچھ نہیں کر پارہی! مولانا صاحب جو بھارت جا کر کہہ آئے تھے کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے اور جن کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ بھارت سے حضرت مولانا فوائد حاصل کرتے رہےاقوام متحدہ کو کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص (عمران خان) ہمارا نمائندہ نہیں! ستم ظریفی یہ ہے کہ مولانا صاحب خود پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہی نہ ہو سکے۔ جس الیکشن کو وہ جعلی قرار دے رہے ہیںخود ان کے خلف الرشید اسی الیکشن کے نتیجہ میں پارلیمنٹ کے ممبر بنے


 وزیر اعظم عمران خان کی خدمات کشمیر کے ضمن میں شاید اس وقت قابل تحسین ہوتیں جب وہ مودی کی ماتا کو سرکاری مُہر کے ساتھ تحفے میں ساڑھی بھیجتے! نواسی کی شادی پر مودی آتا اور تنہائی میں جندال سے ملتے


طویل عہد ہائے اقتدار میں میاں نواز شریف نے کتنی بار بھارت کو للکارا؟ ان کے آخری دورِ حکومت میں مودی نے برملا اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا پانی بند کر دیں گے! پاکستانی وزیر اعظم نے اس کا جواب کیا دینا تھاہلکا سا ارتعاش بھی کسی نے نہ دیکھا! کلبھوشن کا کبھی نام ہی نہ لیا! بچہ بچہ جانتا ہے کہ میاں صاحب بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ سعودی عرب میں مقیم ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ان کی صنعتوں میں وہاں بھارتی ورکروں کو ترجیح دی جاتی ہے


بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر کامیابی کے باوجود اہل پاکستان اور حکومت پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ان چند کالم نگاروں اور اینکر حضرات کو چھوڑ کرجنہوں نے ہر حال میںہر وقتہر ایشو پر عمران خان کی مخالفت کرنی ہے اور جن کا یہ تقریباً نفسیاتی مسئلہ ہو چکا ہےباقی لکھاریوں کو اس جنگ میں سرگرمی سے حصہ لینا ہو گا۔ 


بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا کردار بہت اہم ہے۔ بالخصوص اہل یورپ کو بھارتی حکومت کا اصل چہرہ دکھانا ہو گا۔ عراق پر امریکی حملہ ہوا تو یہ یورپ کے شہر تھے جہاں احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ ان لوگوں کے تصور میں بھی نہیں کہ آر ایس ایس کا نظریہ شدید نفرت پر مبنی ہے اور وہ ہندو کے علاوہ بھارت کی دھرتی پر کسی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں! جو کچھ آسامی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہےوہ مہذب دنیا میں ناقابل تصور ہے۔مودی اور امیت شاہ کا پلان یہ ہے کہ اسرائیل کی پیروی کرتے ہوئے پورے بھارت میں مسلمانوں کو کیمپوں میں مقید کر دیا جائے۔ آسام کے بعد سب جانتے ہیں کہ یہ کھیل یوپیآندھرا پردیشتلنگانہجھاڑ کھنڈ اور بہار میں کھیلا جائے گا۔ پنجاب اور کیرالہ شاید وقتی طور پر بچ جائیں مگر بی جے پی کا ٹارگٹکسی اشتباہ کے بغیر۔ پورے بھارت کے مسلمان ہیں۔ 


کاش ہمارے سفارت خانوں کا مزاج بدل جائے ! ان میں نیشنلزم کی وہی سپرٹ پیدا ہو جائے جو بھارتی سفارت خانوں میں ہے۔ سب نہیںمگر ہمارے اکثر سفارت کار صرف اس دھن میں رہتے ہیں کہ ان کی تعیناتی کسی ترقی یافتہ یا مغربی ملک میں ہو جائے جہاں مستقبل میں وہ اور ان کی اولاد مستقل مقیم ہو جائیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعدبیرون ملک مقیم ہو جانے والے دونوں ملکوں کی فارن سروس کے افسروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو پاکستانی افسروں کی تعداد یقینا زیادہ نکلے گی! فارن سروس کو چھوڑ بھی دیجیے تو باقی سروس گروپوں کے ارکان کی بیرون ملک تعیناتیاں ہمیشہ یہاں مشکوک انداز میں کی جاتی ہیں۔ کسی حکومت نے آج تک یہ کام صرف اور صرف میرٹ پر نہیں کیا۔ اطلاعاتکامرس اور دوسرے شعبوں کے لئے نوجوان بیورو کریٹ ہمیشہ سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر چنے گئے۔ کام تجارت کا ہو یا تارکین وطن کی بہبود کایا زراعت کاسول سروس کا ایک مخصوص گروہ اس پر چھپایا ہوا ہے۔ ان حالات میں ہمارے سفارت خانے کشمیر کے لئے کچھ زیادہ کرنے کی اہلیت ہی سے عاری ہیں


دو کام بہر طور حکومت کو کرنے چاہئیں ! ثقہ ریٹائرڈ سفارت کاروں کو آمادہ کر کے بیرون ملک وفود کی شکل میں بھیجا جائے۔ ہمارے پاس ظفر ہلالیجاوید حفیظکامران نیاز قاضی رضوان الحق جیسے تجربہ کار اور قابل سفارت کار موجود ہیں۔ ان سے اس موقع پر فائدہ نہ اٹھانا، افرادی قوت کی ضیاع کے مترادف ہو گا


اپوزیشن کی ساری ہٹ دھرمی کے باوجود حکومت کو ایک بارایک آل پارٹیز کانفرنس کشمیر کے ضمن میں ضرور بلانی چاہیے۔ اس کی دو وجوہ ہیں! اول، دنیا کو بالخصوص بھارت کو یہ پیغام مل جائے کہ پاکستان کی حکومت اور حزب اختلاف اس معاملے میں ایک صفحے پر ہیں۔ دومقوم کو بھی معلوم ہو جائے کہ اپوزیشن میں کون کشمیر کے لئے سنجیدہ ہے اور کون دوسرے ایشوز کو ترجیح دے رہا ہے! اپوزیشن اگر حکومت کی بلائی ہوئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرے تو خود ایسی کانفرنس کا انعقاد کرے اور حکومت کو اس میں شرکت کی دعوت دے!! 

Thursday, September 26, 2019

جنت ہماری پکی ہے



’ہم لوگ دینی معاملات میں تو بہت حساس ہیں مگر ریاست کے قانون پر عمل کرنے کے معاملے میں حساس نہیں! کتنی ہی مجبور ہو پر روزہ نہیں توڑتے البتہ افطاری کے وقت ٹریفک کے اشارے توڑتے چلے جاتے ہیں ہمارا یہ دہرا معیار کیوں ہے؟ مولانا نے اس کا جواب دیا کہ دینی معاملات میں ہمارے سر پر جہنم کا ایک ڈنڈا ہے اگر ہم نماز روزے میں کوتاہی کریں گے تو آخرت میں ناکام ہوں گے مگر دنیاوی قانون پر کوئی اس وقت تک عمل نہیں کرتا جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ اس کی بھی سزا ملے گی‘‘

 یہ مکالمہ ایک معروف نوجوان کالم نگار اور ایک مشہور عالم دین کے درمیان حال ہی میں ہوا اور اسی مکالمے پر ماتم کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ 

غور کیجیے‘ عالم دین نے کس صفائی کے ساتھ دین اور دنیا کو الگ کر دیا ہے روزہ توڑیں گے تو جہنم کا ڈنڈا سر پر ہو گا اور آخرت میں ناکامی ہو گی مگر ٹریفک کا اشارہ توڑیں گے تو اس کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں! بس یہی وہ نکتہ ہے جس پر ماتم کرنا ہے! اشارہ توڑیں گے تو خلق خدا کو اذیت پہنچے گی! کیا اس کا آخرت میں حساب نہیں ہو گا؟ اشارہ توڑنے سے جو حادثہ ہو گا‘ جس کے نتیجے میں کوئی مرے گا کوئی زخئمی ہو گا‘ دو گھر اجڑ جائیں گے اس کا آخرت میں حساب نہیں ہو گا؟؟ گاڑی کے پیچھے گاڑی پارک کریں گے۔ اگلی گاڑی والے نے ہسپتال پہنچنا ہے کسی کی جان بچانی ہے۔ ایئر پورٹ پہنچنا ہے۔ کسی جنازے میں شرکت کرنی ہے۔ مگر اس کی گاڑی کے پیچھے ایک گاڑی کھڑی ہے۔ وہ بے بس ہے کچھ نہیں کر سکتا۔ آدھ گھنٹے بعد یا بیس منٹ بعد یا ایک گھنٹے بعد پچھلی گاڑی والا آتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا عادل وقادر خدا کا نظام عدل اتنا غیر متوازن ہے کہ روزہ توڑنے والے کو جہنم میں پھینکے گا اور اس شخص کو جس کی بقول ہمارے غلطی محض ’’ دنیاوی ‘‘ ہے جس کی غلطی کی وجہ سے ہسپتال میں منتظر مریض دم توڑ دیتا ہے امیدوار انٹرویو کے لئے نہیں پہنچ پاتا‘ مسافر ایئر پورٹ دیر سے پہنچتا ہے۔ کیا خدا کا نظام عدل اسے آخرت میں سزا نہیں دے گا؟ 

مسئلے کی جڑ کیا ہے؟ مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ عبادات اور معاملات کو الگ کر لیا گیا ہے ! بدقسمتی سے ہمارے علماء کی بھاری اکثریت نے معاملات کو اپنے وعظ و تبلیغ سے نکال  دیا ہے یہ آقائے نامدار ؐ کے ارشادات کی خلاف ورزی ہے اور شدید خلاف ورزی ہے۔ یہ کہنا کہ ’’اگر ہم نمازروزے میں کوتاہی کریں گے تو آخرت میں ناکام ہوں گے‘‘ یا یہ کہنا ہے کہ ’’دینی معاملات میں ہمارے سر پر جہنم کا ڈنڈا ہے۔ بالکل درست ہے! مگر جب آپؐ نے فرمایا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘ یا جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘ تو یہ تو دینی معاملہ نہیں ہے۔ پھر اس پر اتنی سخت وعید کیوں سنائی گئی؟ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والے حاجی صاحب نماز روزے کے تو سختی سے پابند ہیں‘ تو پھر کیا جہنم سے بچ جائیں گے؟ 

فرمایا جس نے عہد شکنی کی ‘ اس کا ایمان ہی نہیں! ذرا غور کیجیے ! حضرت فرماتے ہیں جہنم کا ڈنڈا صرف نماز روزے کے حوالے سے چلے گاٖ یہاں عہد شکن بدبخت کو ایمان یہ سے فارغ کر دیا گیا ہے! 

پھر فرمایا۔ منافق کی تین علامات ہیں وعدہ کرے گا تو توڑے گا‘ بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا۔ امانت سپرد کی جائے گی تو خیانت کا مرتکب ہوگا! المیوں کا المیہ یہ ہے کہ نماز روزے کے پابند اور نماز روزے کے تارک۔ دونوں قسم کے لوگ یہ کام کر رہے ہیں جھوٹ بول رہے ہیں۔عہد شکنی کر رہے ہیں اور امانتوں میں خیانت کر رہے ہیں تو پھر کیا نماز روزے والے اس لئے جہنم سے بچ جائیں گے کہ وہ عہد شکنی دروغ گوئی اور خیانت کے باوجود نماز روزہ کے پابند ہیں؟؟ 

دو دن پہلے اس کالم نگار کے گھر سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک نوجوان غلط سمت سے گاڑی چلاتا آ رہا تھا ایک شخص اس کی گاڑی کے نیچے آگیا۔ تادم تحریر وہ بے ہوش ہے!اب ہمارے مولانا حضرات اسے دین کے معاملے سے خارج کر کے ریاست کے کھاتے میں ڈالتے ہیں کہ اس نے دین کا حکم نہیں توڑا۔ تو پھر اگر وہ نماز روزے کا پابند ہے تو ایک انسان کو موت کے کنارے پہنچانے پر آخرت میں کوئی سزا نہیں ہو گی؟؟ 

معاملات کو دین سے خارج کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج اس ملک میں جتنے اسلامی مدارس ہیں، اتنے کسی ملک میں نہیں! فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ حجاب کرنے والی خواتین کی تعداد روز افزوں ہے!تبلیغی جماعت کا یہ ملک مرکز ہے! علماء کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہر مسجد میں صبح شام درس قرآن اور درس حدیث دیا جاتا ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلک رہی ہیں۔ رمضان میں گرمی کی حدت اور بھوک کی شدت روزے سے نہیں روکتی۔ مگر پوری دنیا میں ہم پر اعتبار کوئی نہیں کرتا! ہم خود ایک دوسرے پر یقین کرنے کو تیار نہیں! دفتروں، کارخانوں میں وقت پر پہنچنا دین سے نکال کر ریاست کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اس لئے وقت پر کوئی نہیں پہنچتا۔ کیا یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا اس سے آمدنی میں حرام کا عنصر نہیں شامل ہو رہا؟ اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیار غیر میں مختلف ملکوں کے ’’درآمدی نمونے‘‘ دیکھے اس خدا کی قسم جس نے پیدا کیا پاکستان کا درآمدی نمونہ اس پتھر کے ٹکڑے پر مشتمل تھا جو کپاس کے سیمپل سے نکلا تھا نیم تیار سالن کی  پوری کھیپ سعودی تاجر نے سمندر میں پھینک دی اور اگلا آرڈر بھارت کو دیا۔ 

آپ اپنی مثال لے لیجیے ‘ کیا میوہ فروش سے آنکھیں بند کر کے پھل خرید سکتے ہیں؟ کیا پٹرول ڈالنے والا آپ کو پوری رقم واپس دیتا ہے؟ کیا آپ کا درزی‘ آپ کی فائل ڈیل کرنے والا افسر‘ آپ کو مال سپلائی کرنے والا تاجر۔ آپ کی لڑکی کے لئے آنے والے براتی۔ آپ کو دعوت قبول کرنے والے مہمان۔ آپ کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرتے ہیں؟ وقت پر پہنچتے ہیں؟ 

کبھی نہیں! کوئی نہیں! اس لئے کہ بچپن سے وہ یہی سنتے آئے ہیں کہ نماز روزے کی پابندی کرو گے اور حج کرو گے تو جہنم سے بچو گے۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ دوسرے کا دل دکھائو گے‘ وعدہ توڑو گے، وقت کی پابندی نہیں کرو گے‘ ٹریک کا اشارہ توڑو گے، گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینکو گے‘ تب بھی آخرت میں ناکام ہو گے اور جہنم کا ایندھن بنو گے! 

ہم عجیب منافق لوگ ہیں۔ ایک طرف رٹ لگا رکھی ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام محض مذہب نہیں‘ دین بھی ہے ! زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ دوسری طرف نماز ،روزے، حج، زکوٰۃ کو الگ کر لیا کہ ان کی ادائیگی نہیں کریں گے تو جہنم رسید ہوں گے۔ رہے وہ امور جن سے خلق خدا کو اذیت پہنچتی ہے۔ لوگ مرتے ہیں۔ اپاہج ہو جاتے ہیں۔ وہ ریاست کے کھاتے میں ڈال دیے! وہ پوپ کا ہے یہ قیصر کا ہے!!واہ! کیا بات ہے ہماری! 

خدا ہمارے شر سے ہمیں بھی محفوظ رکھے اور اہل دنیا کو بھی!! کیوں کہ جنت ہماری پکی ہے۔ نماز پڑھ کر روزہ رکھ کر حج کر کے‘ ہم جو چاہیں کریں۔ خواہ لوگوں کو مار ڈالیں!

Tuesday, September 24, 2019

وزیراعظم سے انیس سوالات


‎1
۔کیا وزیر اعلیٰ بزدار وزیر اعظم کا ذاتی انتخاب ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ وہ بزدار کو ذاتی طور پر کتنے عرصہ سے جانتے ہیں؟

‎ 2

۔ اگر ذاتی انتخاب نہیں تو قوم کیا یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ یہ نام کس نے تجویز کیا اور 
کس فورم پر یہ تجویز منظور کی گئی؟ 

3

‎۔ وزیر اعظم کو یاد ہو گا کہ ستمبر 2018ء کے پہلے ہفتے میں انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ ناصر درانی پنجاب پولیس کو اسی طرح سدھاریں گے جس طرح کامیابی کے ساتھ کے پی میں پولیس کو تبدیل کیا تھا۔ اسی ہفتے ٹوئٹر پر بھی وزیر اعظم نے یہی اعلان کیا۔ سترہ ستمبر کو ناصر درانی نے چارج لیا۔ بائیس دن بعد مستعفی ہو گئے۔ چونکہ وزیر اعظم نے ان کی تعیناتی پر قوم کو اعتماد میں لیا تھا تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ ان کے چلے جانے پر بھی قوم کو اعتماد میں لیتے؟ 

‎4
۔ ناصر درانی کے بعد وزیر اعظم نے پنجاب پولیس کی کایا کلپ کی ذمہ داری کس شخصیت پر ڈالی ہے؟ 

5

‎۔ کیا وزیر 
‎اعظم کو معلوم ہے کہ پنجاب پولیس بدتر سے بدترین ہو رہی ہے؟

 6

‎۔ ’’وزیر اعلیٰ پنجاب(شہباز شریف) ایک ریفارمر ہیں! کرپشن کے خلاف شہباز شریف نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ شہباز شریف نے تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ‘ انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں مثالی منصوبوں کا آغاز کر کے ایک قابل ذکر معیار مقرر کر دیا ہے! وزیر اعلیٰ پنجاب (شہباز شریف) کے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ اربوں ڈالر کے منصوبے شفافیت کے ساتھ مکمل کئے۔ شہباز شریف کی زبردست پرفارمنس کی وجہ ہی سے مسلم لیگ 2013ء کا الیکشن جیت پائی۔ سینکڑوں ہزاروں اساتذہ میرٹ پر رکھے گئے۔ شہباز شریف کی کارکردگی دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے لئے رول ماڈل ہے‘‘(روزنامہ نیشن سترہ فروری 2018ء ‘ رونامہ دی نیوز اٹھارہ فروری 2018ئ) 

کیا وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ایک اہم رکن ڈاکٹر عشرت حسین کی اس رائے سے متفق ہیں؟ اگر وہ متفق ہیں تو کیا اعتراف کریں گے؟ اگر وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ یہ رائے غلط اور مبنی بر خوشامد ہے تو ایسے شخص کو انہوں نے ایک انتہائی اہم ذمہ داری کیوں تفویض کر رکھی ہے؟

‎ 7

۔ کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بھی سول سروسز ریفارم کمیشن کے سربراہ تھے؟ کیا وزیر اعظم نے اُس کمشن کی کارکردگی اور رپورٹ ملاحظہ فرما لی ہے؟ 

8

‎۔ اگر ڈاکٹر عشرت حسین نے پرویز مشرف کے عہد میں قائم سول سروسز کمیشن کے سربراہ کے طور پر قابل عمل رپورٹ تیار کر لی تھی تو اس رپورٹ کی موجودگی میں نئے کیمشن کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر ڈاکٹر عشرت حسین کی کارکردگی اس وقت مایوس کن تھی‘ تو موجودہ حکومت دوبارہ اُسی سوراخ سے کیوں ڈسی جا رہی ہے؟

‎ 9

۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ جس بیورو کریسی کے حصار میں وہ محصور ہیں وہ سول سروس کے ایک مخصوص گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ مخصوص گروہ بھی ایک خاص علاقے اور خاص لسانی حوالے سے ممتاز ہے؟ 

10

‎۔ کیا وزیر اعظم آگاہ ہیں کہ اس وقت وفاقی سیکرٹریٹ میں سول سروس کے اہم گروہوں(پولیس سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈاکائونٹس سروس‘ انٹرنل ریونیو سروس‘ کسٹمز سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ سروس‘ انفارمیشن سروس‘ ریلوے سروس‘ پوسٹل سروس) کی نمائندگی‘ بالخصوص سیکرٹری سطح پر‘ نہ ہونے کے برابر ہے؟ اور یہ اس حوالے سے بیورو کریسی کا بدترین دور ہے؟

 11

‎۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ سول سروس ریفارمز کمیشن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور چیئرمین ایف بی آر جیسے اہم اداروں کے سربراہ موجود نہیں؟ اورکمیشن کے ارکان‘ زیادہ تر‘ ایک ہی سروس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا جناب وزیر اعظم سول سروس کی کمپوزیشن اور شعبہ جاتی اقسام سے آگاہ ہیں؟

 12

‎۔ کیا وزیر اعظم کے علم میں ہے کہ گزشتہ حکومت نے جو اہم منصوبے شروع کئے تھے اور نصف مکمل ہو گئے تھے‘ ان میں ایک اہم ترین منصوبہ دارالحکومت کی ایکسپریس وے کی توسیع و تعمیر کا تھا؟ یہ منصوبہ آدھے میں موجودہ حکومت نے منسوخ کر دیا ہے۔ کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ یہ دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ ہے اور لاکھوں افراد روزانہ کس تکلیف و اذیت میں مبتلا ہیں؟ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت کے خلاف نفرت کا بڑھتا ہوا ذریعہ ہے؟

 13

‎۔ کیا وزیر اعظم آگاہ ہیں کہ اس اہم ترین شاہراہ پر جو جہلم اور چکوال سے لے کر گوجر خان تک اور دیگر سینکڑوں بستیوں کا دارالحکومت سے واحد لنک ہے‘ لاکھوں ٹرکوں کی آماجگاہ ہے؟ چیف کمشنر اسلام آباد اس بحران سے مکمل بے نیاز ہے اور کسی شہری کا چیف کمشنر سے بات کرنا ناممکن ہے؟

 14

‎۔ کیا وزیر اعظم کے علم میں ہے کہ دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ تک جانے کے لئے میٹرو کا منصوبہ ان کی حکومت نے نامکمل چھوڑ دیا ہے اور اربوں روپے کا کام جو ہو چکا تھا‘ ضائع ہو گیا ہے؟

 15

‎۔ کیا جناب وزیر اعظم قوم کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ مشیر اطلاعات وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور افتخار درانی سربراہ میڈیا ٹیم کی موجودگی میں جناب یوسف بیگ مرزا کے فرائض کیا ہیں؟کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ان صاحب کے خلاف نیب میں 2397ملین روپوں کے تصرفِ بے جا 
(Misappropriation) 
‎کا کیس چل رہا ہے۔ اس ضمن میں نیب نے وزارت اطلاعات کو دو خطوط(8اپریل اور 12اپریل 2019ء ) بھی لکھے ہیں۔ کیا وزیر اعظم قوم کو اس تعیناتی کا جواز بتانا پسند کریں گے اور یہ بھی کہ یہ صاحب کتنا مشاہرہ اور کون کون سی مراعات استعمال کر رہے ہیں؟ 

16

‎۔ کیا وزیر اعظم نے یہ خبر میڈیا میں پڑھی کہ ان کے ایک وزیر ایک ٹھیکیدار کے گھر رہتے ہیں۔ ان کے جملہ اخراجات ٹھیکیدار برداشت کرتا ہے۔ اس ٹھیکیدار کے خلاف ایف آئی اے نے سترہ کروڑ روپے کے کنٹریکٹ میں فراڈ کا مقدمہ چلا رکھا ہے۔ اس کے باوجود اس ٹھیکیدار کی کمپنی کو پشاور میٹرو میں بارہ ارب روپے کا ٹھیکہ دے دیا گیا؟ کیا وزیر اعظم قوم کو اس ضمن میں اعتماد میں لیں گے؟

‎ 17
۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ وہ دوست نوازی(کرونی ازم) کے حوالے سے وہی کچھ رہے ہیں جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں؟

‎ 18

۔ سعودی حکومت نے کشمیر کے حوالے سے جس سردمہری کا برتائو کیا ہے‘ اس کے بعد کیا یہ مناسب تھا کہ وزیر اعظم سعودی ولی عہد کے طیارے کی پیشکش قبول کرتے؟ کیا وزیر اعظم شکریہ ادا کر کے یہ پیشکش نامنظور نہیں کر سکتے تھے؟ کیا پاکستانی قوم کے لئے یہ حقیقت باعث فخر ہے کہ ان کا حکمران‘ کسی دوسرے سربراہ کے ذاتی احسان تلے دبا ہوا ہو؟
‎ 
19

۔ کیا وزیر اعظم قوم کو اعتماد میں لیں گے کہ جنوبی پنجاب کے الگ صوبے کا وعدہ کب پورا کر رہے ہیں؟ 

‎یہ سب قومی اہمیت کے وہ سوال ہیں جو پارلیمنٹ میں پوچھے جانے چاہئیں تھے۔ مگر چونکہ پارلیمنٹ ایک کینچوے سے مشابہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہے۔ کچھ ارکان موجودہ حکومت کو اور کچھ گزشتہ حکومتوں کو بچانے میں مصروف ہیں‘ اس لئے وزیر اعظم کی خدمت میں گزارش ہے کہ ان سوالوں کا جواب براہ راست قوم کو دے کر اپنی پوزیشن واضح فرما دیں۔

Sunday, September 22, 2019

لال قلعہ سے پاک سیکریٹیریٹ تک


اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ع 

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا 

اکبر کو چند بیبیاں بے پردہ نظر آئی تھیں۔ اب تو حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ خواتین کو عبایا میں ملبوس و ملفوف کرنے کا کام حکومتوں نے سنبھال لیا ہے اور حکومتوں کا کام آئی ایم ایف کو منتقل ہو گیاہے۔ 

ولیم ڈالرمپل  کی مشہور کتاب’’دی لاسٹ کنگ‘‘ پڑھیے کیسے کیسے عبرت آموز واقعات ہیں۔ دہلی میں سرمٹکاف ‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ بن کر بیٹھا تھا۔ یہ لوگ صبح سات بجے دفتروں میں پہنچ جاتے تھے۔ گیارہ بجے تک کام کا ایک حصہ ختم کر کے شمالی ہند کی جاں شکن گرمی میں وقفہ لینے واپس بیرکوں میں جاتے تھے تو اس وقت لال قلعہ میں شاہی خاندان کے ’’حکمران‘‘ نیند سے بیدار ہو رہے ہوتے تھے۔ 

پونے دو سو سال ہو چکے۔ سسٹم اب بھی وہی ہے۔ کردار بدل گئے ہیں۔ لال قلعہ میں مقیم شاہی خاندان کی جگہ پاکستانی کابینہ کے ارکان ہیں۔ سر مٹکاف کی جانشینی کا کام آئی ایم ایف کر رہا ہے! 

اخبار میں ایک تصویر چھپی ہے! دیکھ کر‘ غیرت قومی سے زمین میں گڑ جانے کو دل کرتا ہے۔ آئی ایم ایف وفد کا سربراہ بیٹھا ہے۔ کوئی ڈائریکٹر کی سطح کا اہلکار! بیان صفائی اس کے حضور ہماری وفاقی حکومت کا وزیر دے رہاہے! جوں جوں خبر پڑھتا ہوں‘ غیرت قومی سے زمین میں اور نیچے گڑتا جاتا ہوں۔وفاقی وزیر نے آئی ایم ایف وفد کو پاور سسٹم کی بہتری کے لئے اقدامات اور لائن لاسز میں کمی کے بارے میں بتایا۔ آئی ایم ایف نے اقدامات کو سراہا۔ وفاقی وزیر نے عرض کیا کہ کُنڈے کے ذریعے بجلی چوری والے علاقوں میں اے بی سی کیبل لگائی جا رہی ہے!‘‘ 

یہ ہے ہماری آزادی! یہ ہے ہمارا وقار! وفاقی وزیر قوم کو جواب دہ ہے نہ کابینہ کو! وزیر اعظم کو نہ سربراہ ریاست کو! وہ جواب دہ ہے تو آئی ایم ایف وفد کے سربراہ کو! یہ سربراہ ڈائریکٹر کی سطح سے اوپر کا نہیں! 

اب اس ذلت آمیز منظر کو ایک اور زاویے سے دیکھیے! پونے دو سو سال پہلے ہمارا اصل حکمران بہادر شاہ ظفر نہیں تھا۔ دہلی کے ایک گوشے میں بیٹھا سرتھامس مٹکاف تھا۔ عملی طور پر ایڈمنسٹریشن 1803ء ہی سے انگریزوں کے ہاتھ میں آ چکی تھی۔ صبح سات بجے یہ لوگ‘ جیسا کہ اوپر بتایا گیا، اپنے دفاتر میں پہنچ جاتے۔ لال قلعہ والے دوپہر کو اٹھتے۔ آج آئی ایم ایف کے دنیا بھر کے دفاتر دیکھ لیجیے۔ ایک ایک اہلکار ایک ایک افسر‘ ایک ایک کلرک‘ صبح ٹھیک وقت پر دفتر پہنچتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آج کے بہادر شاہ ظفر دیکھ لیجیے! کتنے وزیر صبح نو بجے پہنچتے ہیں؟ کتنے وفاقی سیکرٹری ؟ کتنے اہلکار؟ جن دنوں وفاقی وزارت ہائوسنگ حضرت مولانا کے ایک پارٹی رکن کے پاس تھی‘ اس کالم نگار کا ایک کام پڑ گیا۔ معلوم ہوا وزیر صاحب ہفتے میں صرف ایک دن (بدھ کو) دفتر آتے ہیں۔ 

خدا کی سنت نہیں بدلتی۔ نہ محنت کسی کی رائگاں جاتی ہے! حکومت ضیاء الحق کی ہو یا زرداری صاحب کی! نواز شریف کی ہو یا عمران خان کی! ہم کام چور اسی طرح رہیں گے۔ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بنک! یا امریکی حکومت! کام کے اوقات ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں! دفتروں میں ملاقاتیوں کے ساتھ چائے پینے اور سموسے کھانے کا رواج نہیں! جب ہمارے دفتری کلچر کا سنتے ہیں تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں! کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہو سکتا ہے؟ کیا اندھیرا اور اجالا ایک سا ہو سکتا ہے؟ 

آپ پاکستانیوں کے کام کرنے کا سٹائل دیکھیے! عشرت العباد چودہ سال سندھ کے گورنر رہے۔ گورنری کے منصب سے اترے تو سیدھے دبئی پہنچے۔ 2016ء سے وہیں مقیم ہیں۔بچوں کی شادیاں کیں تو تقاریب وہیں منعقد کیں۔ پرویز مشرف ایک عشرے تک اس ملک کی گردن پرمسلط رہے۔ تخت سے اترے تو سب سے پہلے پاکستان کو چھوڑا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان حضرات کو پاکستان سے یا کراچی سے کتنی دلچسپی ہو سکتی ہے۔ جن کا جینا مرنا شادیاں‘ علاج‘ معالجے‘ رہائش گاہیں‘ محلات‘ عیاشیاں‘ سب پاکستان سے باہر ہیں‘ ان کی خدمت میں کراچی کے موجودہ میئر‘ کراچی سے سفرکر کے دبئی حاضر ہوتے ہیں اور سابق گورنر کو پیغام پہنچاتے ہیں کہ ’’کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کی ضرورت ہے‘‘!پھر یہ میئر بہادر پرویز مشرف کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور صورت حال سے ’’آگاہ‘‘ کرتے ہیں! 

میئر صاحب لگے ہاتھوں عشرت العباد اور پرویز مشرف سے یہ بھی پوچھ لیتے کہ دبئی جیسے گراں شہر میں ان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ محلات کیسے خریدے ؟ اپارٹمنٹ کیسے آئے؟ پاکستان کیوں نہیں آتے؟ پرویز مشرف کے بھاگنے کی ایک وجہ عدالتی مقدمے بھی ہیں‘ مگر عشرت العباد کو اپنے ملک میں رہنے سے کیوں گریز ہے؟ چودہ برس گورنری کرنے کے بعد کون سا مدفون خزانہ ہاتھ آ گیا کہ دبئی میں شاہانہ زندگی افورڈ کی جا رہی ہے؟ 

سوشل میڈیا پر دھوم مچی ہے کہ ہمارے سابق سپہ سالاران کرام دساور مقیم ہیں۔ فلاں سعودی عرب میں ملازمت کر رہا ہے۔ فلاں امریکہ میں رہتا ہے فلاں آسٹریلیا میں بودوباش رکھے ہے! اگر ایسا نہیں تو یہ حضرات وضاحت کیوں نہیں کرتے؟ 

ٹیکس محاذ پر کیا ہو رہا ہے؟ معاملات حوصلہ شکن اور رُوح فرسا ہیں۔ ایف بی آر کے ساتھ تاجروں کے مذاکرات ناکام ہو چکے۔ شناختی کارڈ کی پابندی اور دیگر قوانین ہماری تاجر برادری کو پسند نہیں! اب وہ ’’اسلام آباد مارچ‘‘ کا اعلان کر رہے ہیں۔ 

سچ یہ ہے کہ پاکستان کی تاجر برادری سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہو سکتا! وطن کی محبت میں یہ لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ وطن کی محبت میں کسی قسم کی پابندی کے تحت زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔ یہ مکمل مادر پدر آزاد تاجرانہ معاشرہ چاہتے ہیں۔ دکانیں یہ حضرات دن کے ایک بجے کھولتے ہیں۔رات کا زیادہ حصہ برقی روشنی پر گزارتے ہیں۔ 

کچھ لوگ کہتے ہیں اس ملک پر فوج کی حکومت ہے ۔ کچھ بیورو کریسی کو یہ اعزاز دیتے ہیں۔ کچھ سیاست دانوں کو اصل حکمران سمجھتے ہیں۔ مگر یہ سب لوگ بھول جاتے ہیں کہ فوج ہو یا بیورو کریسی یا اہل سیاست‘ سب کسی نہ کسی قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ واحد طبقہ اس ملک میں‘ جو ہر قسم کے قوانین ‘ رولز‘ ضوابط‘ سے آزاد ہے اور مکمل آزاد ہے‘ تاجر ہیں! 

یہ رسید دینے کے پابند نہیں۔ ٹیکس ادا کرنے کے پابند نہیں۔ کریڈٹ کارڈ پر اشیا فروخت کرنے کے پابند نہیں! اوقات کار بدلنے کے پابند نہیں! شناختی کارڈ کی شرط انہیں نامنظور ہے! معیشت کو دستاویزی بنانا ان کے مزاج پر گراں گزرتا ہے۔ ٹیکس کے نام پر جو پیسہ گاہکوں سے وصول کر چکے ہیں‘ وہ حکومت کو دینا پسند نہیں کرتے۔ فٹ پاتھ اور شاہراہوں پر ان کا قبضہ ہے۔ جعلی دوائوں‘ جعلی خوراک‘ جعلی انجن آئل‘ ہر جعلی شے کی فیکٹریاں یہ تاجر چلا رہے ہیں! ان سے بڑا محب وطن کوئی نہیں! عمرے کرتے ہیں۔ دیگیں بانٹتے ہیں۔ مُلّا ان کے قبضے میں ہے۔ چندہ دیتے ہیں۔ جنت ان کی پکی ہے۔ اس لئے کہ یہی مادر پدر آزاد زندگی ان کی جنت ہے! ؎ 

ان ظالموں پہ قہر الٰہی کی شکل میں 
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
 

powered by worldwanders.com