وہ سامنے دیکھئے! پہاڑ کی چوٹی سے تحریک انصاف کی حکومت لڑھکتے ہوئے نیچے آ رہی ہے۔
دوبارہ دیکھیے! غور سے دیکھیے! سورہ مُلک میں حکم دیا گیا کہ تخلیقِ کائنات کو بار بار دیکھو! فَارْ جعِِ الْبَصَر۔ دوبارہ تلقین کی ثُمَّ الرْجِعِ البَصر! پھر نظر کر! نظر ہر بار ناکام اور تھک کر لَوٹ آئے گی۔
پہاڑ کی چوٹی کو دوبارہ دیکھیے! وزیر اعظم کے عہدوپیمان، ولولے، امنگیں، دعوے، چوٹی سے لڑھک کر نیچے آ رہے ہیں۔
1258ء میں تاتاریوں نے بغداد کو تاراج کیا تو سعدی اڑتالیس برس کے تھے۔ مرثیہ لکھا۔ ایسا کہ آج تک قرطاس و قلم ہچکیاں لے رہے ہیں! ؎
آسمان را حق بود گر خون بگرید برزمین
بر زوالِ ملکِ مستعصم امیر المومنین
مگر یہ زوال آخری عباسی خلیفہ مستعصم با اللہ کانہیں! وزیر اعظم عمران خان کا ہے! آسمان زمین پر خون کے آنسو روئے تو حق بجانب ہے۔ خلقِ خدا کی آخری امید ان کی آنکھوں کے سامنے، دم توڑ رہی ہے۔ ماتم کرو! خدا کے بندو! ماتم کرو! ستر سال کی ملکی تاریخ میں اس سے بڑا المیہ صرف ایک گزرا ہے جب یہ اقلیم دولخت ہوئی۔ اس کے بعد اس سے بڑا المیہ کوئی نہیں۔ ایک طرف وہ لوگ دیکھ رہے ہیں جو وزیر اعظم سے امیدیں وابستہ کیے تھے۔ دوسری طرف خود وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں مگر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر! درمیان میں امیدیں، دعوے، ولولے، امنگیں مسلسل نیچے آ رہے ہیں۔ پتھروں سے سر ٹکراتے! ؎
سر پہ کتنے ہی لڑھکتے ہوئے سنگ آہ! گرے
ہم جو چوٹی پہ تھے کس کھائی میں ناگاہ گرے
حکومتی پارٹی کا امیر مسلح محافظوں کے ساتھ کلب پہنچتا ہے۔ مسلح محافظوں کو پولیس روکتی ہے۔ آگے سے جواب ملتا ہے ’’میں تمہیں لٹا کر جوتے ماروں گا‘‘۔ پولیس بے بسی سے دیکھتی رہ جاتی ہے اور روکے جانے والے اندر چلے جاتے ہیں۔
امرا اور عمائدین کے سامنے یہی بے بس پولیس عام آدمی پر تشدد کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ یہاں تک کہ صوبے میں یکے بعد دیگرے، پے در پے، پولیس کی تحویل میں ملزموں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ صلاح الدین کے بعد عامر مسیح، عامر مسیح کے بعد کوئی اور۔ پھر کوئی اور……
پنجاب پولیس کا ترجمان کہتا ہے
’’یہی وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب پولیس کا کلچر تبدیل کریں گے…‘‘
افسوس! صد افسوس! اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ یہی وزیر اعلیٰ!! سبحان اللہ!! ایوب خان نے ایک ڈمی مشرق پاکستان میں تلاش کی تھی۔ عبدالمنعم خان نام تھا۔ گورنر بنایا۔بہت بڑا المیہ! بہت بڑا مذاق! وزیر اعلیٰ پنجاب عمران خان کا عبدالمنعم ہے! ڈمی وزیر اعلیٰ! بہت بڑا المیہ! بہت بڑا مذاق!
وزیر اعظم کی غیر سنجیدگی کا اندازہ لگائیے! ایک تو آج تک ناصر درانی کے معاملے میں منقار زیر پر ہیں۔ سرجھکائے کھڑے ہیں۔ حضور! عالی مرتبت! جناب وزیر اعظم! کچھ تو بولیے! پوری قوم کے سامنے تقریر کرتے ہوئے مژدہ سنایا تھا کہ ناصر درانی پنجاب پولیس کو بدلیں گے جس طرح کے پی میں بدلا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ بندہ پرور! جہاں پناہ! فرمائیے کہ کس ناگزیر ہستی کی وجہ سے ناصر درانی پیش منظر سے یوں ہٹے جیسے آئے ہی نہ تھے؟؟
وزیر اعظم کی غیر سنجیدگی کی بات ہو رہی تھی۔ تین ماہ پہلے آئی جی پولیس کو پولیس کے اندر موجود برائیوں کے خاتمے، جعلی مقابلوں میں ملوث اہلکاروں کو فارغ کرنے اور تنظیمِ نو کا حکم دیا۔
اول تو یہ کام وزیر اعظم کا نہ تھا۔ کوئی ڈھنگ کا وزیر اعلیٰ لگاتے تو صوبے کے معاملات وزیر اعظم کے محتاج نہ ہوتے۔ پھر…آئی جی نے جو جواب دیا وہ بیورو کریسی کے سرخ فیتے کی بدترین مثال تھی۔ پولیس کے سربراہ نے وزیر اعظم کو جوابی خط لکھ دیا کہ قانون سازی کے لیے صوبائی حکومت کو تجاویز بھجوائی ہیں۔ سمریاں بھجوائی گئی ہیں،پائلٹ پروجیکٹ شروع کر دیئے۔ کل کے روزنامہ 92نے خبر دی ہے کہ وزیر اعظم نے تمام اقدامات کو رد کرتے ہوئے اُسی وزیر اعلیٰ اور اُسی آئی جی کو ہدایات دی ہیں کہ…
’’پولیس کو غیر سیاسی کرنے، تفتیش کے دوران عدم تشدد اور فورس کا عوام میں امیج بہتر کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں…‘‘
اسے کہتے ہیں ’’پانی وچ مدھانی!‘‘ یعنی پانی بلو رہے ہیں اور امید باندھے بیٹھے ہیں کہ مکھن نکلے گا۔
بھلا پولیس کا احتساب خود پولیس کیسے کر سکتی ہے؟ جو باڑ کھیت کو کھا رہی ہے، وہ کھیت کو کیسے بچائے گی۔ یہ مژدے کہ جرم کرنے والے پولیس مینوں پر مقدمے چلائے جائیں گے، انہیں تھانے نہیں دیئے جائیں گے، یہ مژدے تو تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے بھی سنائے جاتے تھے۔
یہ تو تھی پولیس کے شعبے میں حکومت کی مکمل ناکامی، وعدوں پر قد آدم گھاس اگ چکی ہے۔ دوسری طرف اداروں کو دیکھیں، مکمل انارکی ہے، طوائف الملوکی! سنا ہے، خدا کرے غلط ہو کہ، وزارت خزانہ میں وہی صاحب مداخلت کر رہے ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کو سول سروس ریفارم کی گولی دینے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو شیشے میں اتارا ہے۔
خدا خدا کر کے وفاقی دارالحکومت میں منتخب مئیر آیا تھا۔ اب چیف کمشنر صاحب جو سی ڈی اے کے بھی مدارالمہام ہیں، میئر کو چلنے نہیں دے رہے ہیں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میئر کے ماتحت ہے۔ چیف کمشنر صاحب اس میں مداخلت کر رہے ہیں جو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015ء کی خلاف ورزی ہے۔
اور جو کام چیف کمشنر کے کرنے کا ہے، وہ ابتر سے ابتر ہو رہا ہے۔ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ ’’ایکسپریس ہائی وے‘‘ پر ٹرک ڈرائیوروں کا مکمل کنٹرول ہے۔ لاکھوں شہری ہر روز پہروں ٹریفک میں گھرے، اذیت سے دوچار ہو رہے ہیں؟ کیا کبھی چیف کمشنر نے خود آ کر اس غدر کو دیکھا ہے؟ حال یہ ہے کہ چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکتی۔ اس کالم نگار نے، عام شہری کی حیثیت سے چار بار چیف کمشنر سے بات کرنے کی کوشش کی۔ ٹیلی فون وصول کرنے والے معاونین کے نام اور اوقات محفوظ ہیں۔ مگر لارڈ کلائیو کے یہ جانشین کسی شہری سے بات تک کرنے کے روا داد نہیں۔ نوکر شاہی آج بھی عوام کی خادم نہیں، عوام کی حکمرانی کے زعم میں مبتلا ہے ؎
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
سعدیؒ نے اپنے زمانے میں عباسی سلطنت کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا۔ ہم آج اپنی آنکھوں سے، ایک ایسی تحریک کو دم توڑتے دیکھ رہے ہیں جس نے بائیس برس خلقِ خدا کا خون گرمایا۔ دعوے کیے، کبھی ریاست مدینہ کے خواب دکھائے، کبھی سکینڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں کی مثالیں دیں۔ مگر راج پولیس کے افسر اور چیف کمشنر کر رہے ہیں! ع
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
اسمبلی ممبران کی وہی قانون شکنیاں، وہی پولیس کے تشدد، تھانوں سے نکلتی وہی لاشیں، بیورو کریسی کا وہی تکبر اور عوام سے وہی فاصلہ، وہی کوچ گرد بندہ، وہی بلند بام خواجہ۔
سَروں کی فصل تیار ہے! کوئی اور ہی آئے گا جو کاٹے گا
No comments:
Post a Comment