Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, September 21, 2019

میں کیا بھلا ہوں یہ دنیا اگر کمینی ہے



دارالحکومت کی جس آبادی میں میں رہ رہا ہوں وہاں بھاری اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی ہے۔ بہت کم تعداد نیم تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہو گی۔ یہاں ایک بہت بڑا چوک ہے۔ ہو سکتا ہے جڑواں شہروں کا یہ سب سے بڑا چوک ہو۔ آبادی کی انتظامیہ نے چوک کے اردگرد بے حد چوڑی شاہراہ پر ٹریفک کی رہنمائی کے لئے سفید لکیریں کھینچی ہوئی ہیں۔ جس طرف مڑنا منع ہے‘ وہاں بھی بورڈ پر ہدایت لکھی ہوئی ہے۔ تیر کے نشان لگے ہیں۔ 

اس کے باوجود ‘ آئے دن ‘ چوک کے اردگرد موٹر سائیکل اور گاڑیاں غلط سمت جاتی نظر آتی ہیں وہ بھی خوب تیز رفتاری کے ساتھ! اس کالم نگار نے ایک دوبار گاڑیاں روک کر چلانے والوں سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے آپ غلط سمت جا رہے ہیں۔ ایک تو سنی ان سنی کر کے چلا گیا۔ دوسرا چُپ ہو گیا۔ ہو سکتا ہے شرمندہ ہو رہا ہو۔ پوچھا‘ آپ غلط سمت چل کر‘ کتنا پٹرول بچا لیں گے؟ گاڑی تو آپ کی پچیس لاکھ سے کم کی نہیں!‘‘ 

مگر اس رضا کارانہ سرگرمی میں خطرات بھی بہت ہیں۔ ایک نوجوان لڑکے نے کہا ’’انکل ! آپ کو تو کچھ نہیں کہا نا!‘‘ وہ تو غنیمت ہے کہ باشندوں کی اکثریت پڑھی لکھی ہے ورنہ کوئی سر پھرا یہ بھی پوچھ سکتا ہے‘‘اوئے صوفی ! تو ماما لگدا ایں؟‘‘ 

اِس سے اُن آبادیوں پر قیاس کیجیے جو گنجان ہیں۔ شہر کے روایتی حصوں میں ہیں اور جہاں اکثریت ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے! 

ہم نے اپنی زبوں حالی کا الزام کچھ آصف زرداری پر اور کچھ نواز شریف پر ڈالا‘ جو باقی بچ رہا وہ امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ پر لگا دیا۔ خود بری الذمہ ہو گئے۔ کیا یہ بھی آصف زرداری اور نواز شریف کا قصور ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے ٹریفک کے قانون کو توڑتے ہیں؟یا اس کی تہہ میں امریکی سازش ہے؟ 

تاجر‘ گاہکوں سے ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ مگر آگے گورنمنٹ کے خزانے میں نہیں جمع کرا رہے۔ کیا یہ بھی پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی وجہ سے ہے؟ کسی دکاندار سے پوچھ کر دیکھیے کہ ٹیکس کی رقم آگے بھیج رہا ہے یا نہیں؟ پہلے تو وہ آپ کو ایسی نظروں سے دیکھے گا جیسے آپ کے ماتھے کے عین درمیان میں سینگ اُگ آیا ہے اور آپ کی آنکھوں کی جگہ ارغوانی رنگ کے گڑھے پڑ گئے ہیں۔ پھر وہ آئیں بائیں شائیں کرے گا کچی بات کرے گا۔ ٹالنے کی کوشش کرے گا۔ آپ اپنے سوال پر پچھتاتے ہوئے باہر نکل جائیں گے۔ جس قوم کے تاجر اتنے بددیانت ہیں کہ ملاوٹ کرنے کے بعد‘ فٹ پاتھ پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد‘ ناقص مال فروخت کرنے کے بعد۔ وہ ٹیکس بھی حکومت کو نہیں دے رہے جو گاہکوں سے وصول کر چکے ہیں۔ اس قوم کا مستقبل کیسے روشن ہو سکتا ہے؟ 

میرے گھر میں بیٹھا ایک نیک صورت‘ نمازی بڑھئی‘ جو کتابوں کی شیلف بنا رہا تھا‘ میرے سامنے‘ فون پر کسی کو کہہ رہا تھا’’میں بس راستے میں ہوں‘ موٹر سائیکل نہیں سٹارٹ ہو رہا‘ پوچھا اتنا جھوٹ کیوں بول رہے ہو؟ صاف کیوں نہیں بتاتے کہ کہیں کام کر رہا ہوں۔ نہیں آ سکتا‘‘ نیک صورت سادہ دل بڑھئی میرا منہ تکنے لگا۔ اس کا قصور نہ تھا۔ اس کا باپ ایسا کرتا ہو گا! اس کے نزدیک یہ جھوٹ جھوٹ نہ تھا۔ 

زرداری اور شریفوں کے جرائم بہت ہوں گے۔ لیکن ایک شہری کی حیثیت سے میرے جرائم کیا کم ہیں؟ میں اگر ٹریفک کا قانون توڑتا ہوں یا جھوٹ بولتا ہوں تو یہ طے ہے کہ میں جرائم پیشہ ہوں۔ اس سے بڑا جرم کرنے کی مجھ میں استطاعت ہی نہیں! مگر جراثیم جرم کرنے کے مجھ میں پورے پورے موجود ہیں کل اگر میرا بس چلا اور زرداریوں اور شریفوں جتنا اختیار مل گیا تو میں بڑے جرائم بھی ضرور کروں گا۔ دوسرے لفظوں میں میں اتنا ہی مجرم ہوں جتنے وہ ہیں۔ میں اپنے دائرہ اختیار میں‘ اپنے دائرہ استطاعت میں جرم کر رہا ہوں۔ وہ اپنے دائرہ استطاعت میں کر رہے ہیں۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں! مگر میں نے انہیں Punchingبیگ بنایا ہوا ہے۔ ان پر یوں تنقید کرتا ہوں جیسے خود جرائم سے پاک ہوں! 

میں اگر اتنا انتظار بھی نہیں کر سکتا کہ کائونٹر والا اس گاہک سے فارغ ہولے جو مجھ سے پہلے کھڑا ہے۔ وہ اسے ڈیل کر رہا ہے اور میں درمیان میں‘ اسے پیسے پکڑانے کی کوشش کرتا ہوں تو کیا اس میں امریکی سازش ہے؟ کیا صدر ٹرمپ نے رات کو ٹیلی فون کر کے مجھے اس بدتمیزی پر اکسایا؟ یا اس بدتہذیبی میں اسرائیل ملوث ہے؟ 

کیا میں اپنے بچوں کو اچھا شہری بنانے کے لئے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں؟ کیا میں نے انہیں سختی کے ساتھ متنبہ کیاہے کہ وہ کسی حالت میں قانون نہ توڑیں‘ قطار کی خلاف ورزی نہ کریں دوسروں کی حق تلفی نہ کریں؟ کیا میں اپنے دروازے کے سامنے والا گلی کا حصہ صاف رکھتا ہوں؟ کیا میں بس یا کار یا ٹرین سے باہر کوڑا کرکٹ نہیں پھینکتا؟ کیا میں طے شدہ وقت پر پہنچتا ہوں؟ کیا میں مقررہ وقت پر مال سپلائی کر رہا ہوں؟ ادائیگیاں وقت پر کر رہا ہوں؟ یا دوسرے تنگ آ کر آئے دن یاد دہانیاں کراتے ہیں؟ اگر یہ سارے جرائم میں کر رہا ہوں تو میں تسلیم کیوں نہیں کرتا کہ میں مجرم ہوں؟ ساقی فاروقی نے کہا تھا ؎ 

میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی 
درِ کمینگی پر چوبدار میں بھی تھا 

ایک چُبھتا ہوا سوال یہ ہے کہ جن ترقی یافتہ ملکوں میں ہم ہجرت کر کے آباد ہو رہے ہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے مذہبی رہنما اور ہماری راہبائیں تک وہاں جا کر بس گئی ہیں۔ وہاں پہلے حکومتیں راہ راست پر آئیں؟ یا پہلے عوام قانون پسند ہوئے؟ یہ عذرِ لنگ بھی سننے میں آتا ہے کہ وہاں قانون کا نفاذ سخت ہے اس لئے لوگ اصولوں پر چلتے ہیں۔ مگر جب کوئی انگریز کوئی امریکی کوئی جاپانی ‘ کوئی آسٹریلین یا کوئی جرمن آپ کے ساتھ کیا گیا وعدہ سوفیصد پورا کرتاہے تو اس میں قانون کا ڈر کہاں ہے؟ اگر وہ طے شدہ وقت سے ٹھیک چند سکینڈ پہلے آپ کے دروازے کی گھنٹی بجاتا ہے تو اس میں وہاں کی پولیس کا‘ وہاں کی حکومت کا کیا رول ہے؟ 

ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہم غریب ہیں۔ اقتصادی کمزوری نے ہمیں قانون شکن بنا دیا ہے مگر معروضی حالات اس دلیل کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ آسودہ حال بھی اتنے ہی جرائم پیشہ ہیں جتنے مفلوک الحال! ہر کوئی حسب توفیق اصول شکنی کر رہا ہے۔ میں اپنے اُس کروڑ پتی دوست کو کیسے بھول سکتا ہوں جس نے پورے خلوص سے مشورہ دیا تھا کہ گاڑی بیچنے کا اشتہار دینے سے پہلے فلاں قابل اعتبار مکینک سے میٹر پیچھے کروا لینا۔ چلیے تاجر تو بُرا ہے کہ شے فروخت کرتے وقت نقص نہیں بتایا‘ مگر کیا میں گاڑی یا مکان بیچتے وقت نقائص بتاتا ہوں ؟ کیا مکان کی لیپا پوتی اس لئے نہیں کرائی جاتی کہ اس کی کمزوریاں چھپ جائیں؟ ’’جہاں ہے‘ جیسا ہے‘‘ کا اصول صرف کتابوں میں کیوں ہے؟ 

مجھ سے آصف زرداری یا نواز شریف کے جرائم کا حساب نہیں لیا جائے گا نہ عمران خان کی دوست نوازیوں کا! مجھ سے امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جائے گا اور اگر میں اس زعم میں ہوں کہ مقررہ وقت کی خلاف ورزی کوئی جرم نہیں‘ یا گاڑی بیچتے وقت دروغ گوئی سے کام لیا تو یہ دنیا کا دستور ہے، تو مجھ سے بڑا احمق بلکہ ڈنگر کوئی نہیں! ایک مثقال نیکی اور ایک مثقال برائی بھی سامنے لائی جائے گی اور جب سامنے لائی جائے گی تو وضاحت بھی پوچھی جائے گی! ترازو وہاں ایسے ایسے ہوں گے کہ ہوش اڑ جائیں گے۔ اُس ڈکیت کا واقعہ تو سب نے سنا ہے جسے موت کی سزا ہوئی تھی اور اس نے ماں کا کان کاٹ کھایا تھا۔ اس کا موقف تھا کہ جس دن پڑوس سے انڈا چرایا تھا ‘ اگر ماں اسی دن ٹوکتی تو آج پھانسی پر نہ چڑھتا۔ بیٹا چالیس سال کی عمر میں بھی جرم کرتا ہے تو وہاں کا ترازو یہ ماپ تول کرے گا کہ اس میں باپ کا کتنا قصور ہے اور ماں کس حد تک ذمہ دار ہے! آہوں اور آنسوئوں کا بھی وزن کیا جائے گا! قہقہے بھی تولے جائیں گے! 

زرداری‘ شریف‘ عمران خان‘ ٹرمپ اور اسرائیل کا محاسبہ کرنے سے فرصت ملے تو کچھ حساب اپنا بھی کر لوں! کہیں ایسا تو نہیں کہ برائی کا منبع میں خود ہوں؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com