’’2002
ء کے قتل عام پر ایک نظر ڈالیے۔ اس سال 27فروری کو گجرات میں گودھرا ریلوے سٹیشن پر ایک ٹرین کو آگ لگ گئی اس میں ہندو زائرین سوار تھے۔ فی الفور اور ذرہ بھر ثبوت کے بغیر مودی نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کی سیکرٹ سروس اس کی ذمہ دار ہے۔ پھر اس نے جلی ہوئی لاشوں کو احمد آباد شہر میں پھرایا اور اپنی ہی حکومتی پارٹی سے تین دن کی ہڑتال کرا دی۔ نتیجہ خونریزی کی صورت میں نکلا۔ سرکاری اندازوں کے مطابق ایک ہزار جانیں قتل ہوئیں۔ آزاد ذرائع یہ تعداد دو ہزار بتاتے ہیں۔بھاری اکثریت ان میں مسلمانوں کی تھی۔ ہجوم عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو گھسیٹ کر گھروں سے نکالتا اور ان کی آبرو ریزی کرتا۔2007ء میں تفتیشی میگزین ’’تہلکہ‘‘ نے رنگ لیڈرز کے بیان ریکارڈ کئے۔ ان میں سے ایک نے جس کا نام بابو بج رنگی تھا بتایا کہ کیسے اس نے ایک حاملہ عورت کا پیٹ چیر کرکھولا۔…کچھ سال بعد مودی نے کہا کہ اس قتل عام پر اسے اتنا ہی دکھ ہوا جتنا اس شخص کو ہوتا ہے جس کی گاڑی کے نیچے کتے کا بچہ آ جائے”۔
یہ بیان کسی پاکستانی کا ہے نہ کسی بھارتی مسلمان کا نہ کسی کشمیری کا۔ یہ سب کچھ برطانوی اخبار’’دی گارڈین‘‘ نے اپنی سات اپریل 2014ء کی اشاعت میں لکھا۔ یہی مودی اب گجرات والا کھیل کشمیر میں کھیل رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کی کہانی دہرانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ وادی میں پولیس سے ہتھیار واپس لے لیے گئے ہیں۔ تھانوں میں تلواریں خنجر اور چاقو جمع کر کے ہندو بلوائیوں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ مسلمان گھروں میں مقید ہیں۔ ہر کشمیری مسلمان کے سر پر ایک فوجی کھڑا ہے۔
ایسے میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کا مینجنگ ڈائریکٹر اسلام آباد میں اگلے مہینے منعقد ہونے والے ’’ادبی میلے‘‘ کے ضمن میں کہتا ہے کہ بھارتی مصنفہ دیپا اگروال کو دعوت دی گئی ہے مگر ’’انڈیا اور پاکستان کے درمیان ٹینشن
(tenstion)
کی وجہ سے نہیں آ پائے گی‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ’’ٹینشن‘‘ نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بربریت کا راج ہے! دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے میں جب پوری پاکستانی قوم بھارت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ ایئر سپیس بند کی جا رہی ہے۔ تجارت ختم ہو رہی ہے۔ سفارتی تعلقات صفر ہیں تو بھارت کے ادیبوں کو کس برتے پر بلایا جا رہا ہے؟ کیا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کو یاد نہیں کہ کشور ناہید اور سلیمہ ہاشمی جیسی روشن خیال شخصیات کو بھارت میں بلا کر کانفرنسوں میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
اصل کہانی کیا ہے؟ اصل کہانی یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے ادبی میلوں ٹھیلوں کا یہ جو سلسلہ شروع کیا تو اس میں خاص مزاج اور مخصوص نکتہ نظر رکھنے والے نام نہاد دانشوروں کو پروموٹ کیا۔ یہ وہ دانشور ہیں جن کی زبانوں پر قائد اعظم اور تحریک پاکستان کا نام بھول کر بھی نہیں آتا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی ویب سائٹ کھول کر دیکھیے۔ اس سال مارچ میں کراچی میں ادبی میلہ کرایا گیاویب سائٹ کے پیش منظر پر انور مقصود‘ امر جلیل اور آئی اے رحمن کی تصویریں نمایاں ترین ہیں ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
اس سے آپ نکتہ نظر اور تعصب کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک مخصوص جھکائو رکھنے والے دانشوروں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ افتخار عارف، کشور ناہید اور کبھی کبھی مستنصر حسین تارڑ کو برائے ’’وزنِ بیت‘‘ بلا لیا جاتا ہے مگر ان ادبی میلوں کے پیش منظر پر ممتاز حیثیت انہی کو دی جاتی ہے جو نظریاتی حوالے سے ’’راس‘‘ آتے ہیں۔
اس ویب سائٹ پر ایک تصویر ایک امریکی مصنفہ
Deborah Baker
کی بھی نظر آئے گی جسے مارچ کے ادبی میلے میں بلایا گیا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی وہ کتاب ہے جو اس نے معروف نو مسلمہ مریم جمیلہ کی سوانح کے طور پر لکھی۔ اس میں سوانح کم اور تنقیص زیادہ ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد مریم جمیلہ کا ایک بھر پور منفی تاثر ابھرتا ہے۔ مگر کیا دیبورہ بیکر واقعی امریکی ہے؟ نہیں! وہ بھارتی بھی ہے۔ اس نے بھارتی ادیب امی تاو گھوس سے شادی کی ہوئی ہے۔ زیادہ تر کلکتہ اور گوا میں رہتی ہے۔ اس بھارتی مصنف یعنی اس کے میاں نے ایک کتاب’’دی امام اینڈ انڈین‘‘ بھی لکھی ہے جس میں ہندو انتہا پسندی کا نہیں، مسلمان انتہا پسندی کا ذکر ہے!
ان نام نہاد ادبی میلوں کے حوالوں سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کا ایک غیر اعلان شدہ اتحاد ایک معروف انگریزی روزنامہ سے ہے جو اپنی پیشانی پر قائد اعظم کا نام لکھتا ہے مگر ہر اس پہلو کو نشانہ بناتا ہے جس کا قائد اعظم کے پاکستان سے مثبت تعلق ہو۔ اس کے ہفتہ وار ایڈیشن پر جو کتابوں اور ادیبوں کے متعلق ہوتا ہے‘ نصف درجن ادیبوں پر مشتمل ایک مخصوص لابی چھائی ہوئی ہے۔ جن میں بھارتی نژاد بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کا تعلق اس مخصوص لابی سے نہیں‘ اگر آپ نظریاتی طور پر پاکستان سے محبت کرتے ہیں‘ تقسیم ہند کو درست سمجھتے ہیں اور اگر آپ قائد اعظم کے نام لیوا ہیں تو یہ ادبی میلے اور اس اخبار کے ادبی صفحات آپ کے شعر و ادب کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ آپ تو خیر پاکستانی ہونے کے حوالے سے کسی شمار قطار ہی میں نہیں آئیں گے۔ یہ ادبی میلے تو بھارت ہی کی مصنفہ ارون دھتی رائے کو کبھی نہیں بلائیں گے اس لئے کہ وہ پاکستانی فوج کی تعریف کرتی ہے اور مسلمانوں کے قتل عام پر شدید تنقید کرتی ہے۔
اس کا تازہ ترین بیان دیکھیے۔
ii ’’کشمیر‘ منی پور‘ ناگا لینڈ‘ میزو رام‘ تلنگانہ‘ پنجاب ‘ گوا اور حیدر آبادمیں بھی بھارتی حکومت نے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ان ریاستوں میں فوجی جنگ جاری ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج تعینات کر رکھی ہے۔ پاکستان اپنے لوگوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کرتا جیسا کہ نام نہاد جمہوریہ بھارت کر رہا ہے بھارت نے آزادی ملتے ہی اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں علاقوں میں فوج کو استعمال کیا‘‘
جس انگریزی روزنامہ کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کا پاکستان کی مسلح افواج سے ’’محبت‘‘ کا خاص رشتہ ہے کوئی موقع اس کے ہاں ضائع نہیں کیا جاتا۔ جس میں ہماری افواج کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو اس کے ایک سٹاف ممبر نے نواز شریف کے حوالے سے فوج کو ہدف تنقید بنانے میں اور خصوصی طور پر ان کا ایک خاص انٹرویو لینے میں خوب خوب شہرت پائی۔
بھارت اس وقت مسلمانوں کے لئے مرگھٹ بن چکا ہے۔ جو کچھ آسام میں ہو رہا ہے اس کا ذکر بھارتی اخبارات تو پھر بھی کر دیتے ہیں‘ ہمارے ان مخصوص خیالات رکھنے والے اخبارات میں نہیں ہوتا۔ بھارتی مسلمانوں کو زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں۔ گھر جلائے جا رہے ہیں بکرے کے گوشت کی دو بوٹیاں ریفریجریٹرسے نکلیں تو پورا گھر‘ پورا خاندان جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان گائے بیچنے جا رہا ہو تو اسے مار دیا جاتا ہے۔ سنگدلی اور سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ گجرات میں دو لاکھ مسلمان بے گھروں میں سے کچھ کے لئے جب کیمپ بنانے پڑے تو مودی نے انہیں ’’بچے پیدا کرنے والی فیکٹریاں‘‘ قرار دیا۔ اس مائنڈ سیٹ کا مالک آج بھارت کا وزیر اعظم ہے اور بھارتیوں کی اکثریت اس کی انتہا پسندی کی آواز پر لبیک کہہ چکی ہے۔ ایسے میں قوم ان نام نہاد دانشوروں کو خوب پہچانتی ہے جو کشمیر کا ذکر کرتے بھی ہیں تو ساتھ اگر مگر لگاتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سرحد پار سے ہلتی ہوئی ڈور پر کون کون ناچتا ہے اور ایم آئی سکس کی تال پر رقص کرنے والے کون ہیں؟
پاکستانی بھارت کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اگر کسی یونیورسٹی پریس کو بھارت کے ساتھ لنک عزیز ہے تو سامان باندھے‘ سرحد پار کر لے اور اپنے ساتھ اُس لابی کو بھی لے جائے جو ابھی تک تقسیم ہند پر ماتم کر رہی ہے اور افواج پاکستان سے جس کی دشمنی ڈھکی چھپی نہیں!