’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور دینی مدارس امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
ایک مذہبی رہنما کے اس تازہ ترین بیان پر غور کیجئے۔ کیا دونوں فقروں میں کوئی باہمی تعلق ہے؟
پہلا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کس نے سودا بازی کی ہے؟ یا سودا بازی کی پیشکش کی ہے؟ نام بھی تو معلوم ہو؟ نعوذ بااللہ کیا ختم نبوت اور ناموس رسالت پر سودے بازی ہو سکتی ہے؟ کیا کسی میں اس کی جرأت ہے؟
میڈیا کے اس بدترین دور میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ پھر اپنے مطالبے کو‘ اپنی کمیونٹی کے مطالبے کو‘ اپنے گروہ کے مطالبے کو زور دار بنانے کے لیے ختم نبوت اور ناموس رسالت سے بڑھ کر اور کون سا کندھا بہتر ہوگا جس پر مفادات کی بندوق رکھ کر چلا دی جائے۔ کل کو کیا عجب آپ یہ بھی سنیں:۔
’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جاسکتی اور ڈاکٹر امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
یا ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور تاجر امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
۔ مولانا صاحب نے ساتھ ہی یہ خبر دی کہ ’’مدارس نے ملک میں محبت کو فروغ دیا ہے۔ مدارس کا پیغام بھی پیغام محبت ہے۔‘‘
یہ ایک روح پرور خبر تھی۔ دل کو اطمینان نصیب ہوا۔ میں نے دیوبندی لبادہ اوڑھا اور ایک بریلوی مدرسہ میں جا دھمکا۔ ایک سینئر طالب علم ملا۔ اس سے پوچھا‘
کتنے عرصہ سے یہاں زیر تعلیم ہو؟
ساتواں سال۔
کیا ان سات برسوں میں کسی دیوبندی مدرسہ میں جانے کا اتفاق ہوا؟
نہیں۔
کیا یہاں تمہارے اساتذہ میں کوئی دیو بندی مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے؟
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
آپ کے مدرسہ سے ملحقہ مسجد میں جلسے ہوتے ہیں۔ کیا کبھی کوئی دیوبندی مولانا بھی وعظ کے لیے بلائے گئے؟
نہیں‘ مگر آپ کون ہیں اور یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟
میں ایک دیوبندی ہوں اور آپ سے محبت کرنے آیا ہوں۔
طالب علم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
تم ایک دیوبندی ہو؟ تم تو گستاخ رسول ہو‘ تمہارا ہم سے‘ ہمارے مدارس سے‘ ہماری مساجد سے اور محبت سے تعلق ہی کیا ہے۔ ہم تو تم لوگوں کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے۔ یہاں تک کہ حرمین شریفین میں بھی ہم احتیاط کرتے ہیں۔ تم اولیاء اللہ کو نہیں مانتے۔ تم کرامات کے منکر ہو۔ بہتر ہے یہاں سے نکل جائو۔
اب میں بریلوی بنا اور اہل حدیث مکتب فکر کے مدرسہ میں جا پہنچا۔ محبت کو ماپنے کے لیے بیرومیٹر تلاش کر ہی رہا تھا کہ مدرسہ کے بڑے مولوی صاحب نے بلایا۔
آپ کو یہاں پہلے نہیں دیکھا؟ کون ہیں‘ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟
حضور‘ میں ایک بریلوی ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مدارس ملک میں محبت کو فروغ دے رہے ہیں اور ان کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ میں یہاں محبت بانٹنے اور محبت وصول کرنے آیا ہوں۔
مولانا کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ایسے بل جنہیں محبت کی بڑی سے بڑی استری بھی ہموار نہ کرسکے۔
تم مشرک‘ بدعتی‘ یہاں کیسے آن دھمکے؟ ہم تو کسی بریلوی کے گھر رشتہ تک نہیں کرتے‘ تم لوگ مزاروں پر جاتے ہو‘ عرس مناتے ہو‘ پیروں فقیروں کو مانتے ہو‘ گیارہویں پکاتے‘ کھاتے اور کھلاتے ہو۔ اذان سے پہلے درود شریف پڑھتے ہو اور پھر تم حنفی بھی ہو۔ تم رفع یدین کرتے ہو نہ امام کی اقتدا میں سورۃ فاتحہ پڑھتے ہو۔
میں روہانسا ہو کر نکل آیا۔ یہ محبت کا پیغام جو مدارس دے رہے تھے‘ نہ جانے کہاں دستیاب تھا۔ ایک امید باقی تھی۔ میں نے شیعہ عبا پہنی اور سنیوں کے مدرسہ جا پہنچا۔ دور ہی سے پہچان لیا گیا۔
اوئے‘ یہ صحابہ کو نہ ماننے والا اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے والا یہاں کیسے گھس آیا۔
نماز کا وقت تھا‘ امام صاحب کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ سب بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ میں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔
میں نماز پڑھا دیتا ہوں۔ ہم بھی تو وہی نماز پڑھتے ہیں۔ اتنی ہی رکعتیں۔
نہیں‘ تم شیعہ ہو‘ ہم سنی ہیں۔ تمہارے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی۔
پھر میں نے سنیوں کا بھیس بدلا اور اثنا عشریوں کے مدرسہ میں جا پہنچا۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ میرے پیچھے نماز پڑھنے کو کوئی تیار تھا نہ میرے گھر رشتہ کرنے کو۔
تم محرم میں ماتم کرتے ہو نہ تعزیہ نکالتے ہو‘ تمہارا ہم سے کیا تعلق۔
بات وہ کرنی چاہیے جسے سن کر لوگ ہنسنانہ شروع کردیں۔ خلق خدا سیانی ہو چکی ہے۔ کسی سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ امت میں تفرقے کا باعث کون سا طبقہ ہے؟ جواب سن کر چودہ طبق روشن ہو جائینگے۔ آپ کی اس بات کو کون تسلیم کریگا کہ لاہور میں برفباری ہوئی ہے اور گرمیوں میں لوگوں نے مری اور کاغان کے بجائے جیکب آباد جانا شروع کردیا ہے۔
ہاں‘ مدارس محبت کے مراکز تھے۔ اس وقت تک جب یہ کمرشل نہیں ہوئے تھے۔ جب مدارس کے مہتمم اور مالکان اپنی روٹی کمانے کے لیے کام کرتے تھے۔ تجارت کرتے تھے‘ ہل چلاتے تھے‘ یہاں تک کہ محنت مزدوری سے بھی عار نہ تھا۔ تب رواداری تھی‘ دلوں میں خدا کا خوف تھا‘ کہاں وہ زمانہ کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے غیر مسلم خاکروب کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھایا‘ اس کے منہ میں آلو ڈالا۔ اس نے آدھا کھایا تو دوسرا آدھا اپنے منہ میں ڈال لیا اور کہاں یہ زمانہ کہ دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو مسلمان ماننے کے لیے اہل مدرسہ تیار نہیں۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر مسلکی اختلافات سے لبالب بھری ہوئی‘ آگ لگا دینے والی تقریریں سن لیجئے۔ وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا ؎
تو غزل خوانی پہ آ جائے تو ہے خواجوئے وقت
زلف عنبر بار سے کژدم بکھیر اژدر نکال
خوا جو کرمانی کمال کے غزل گو تھے کژدم بچھو کو کہتے ہیں اور اژدر اژدھا کو۔ وہ زمانہ لد چکا جب محبوب کی زلف سے کژدم اور اژدر نکلتے تھے۔ اب تو پھنکارتے سانپ اور بچھو ہمارے واعظین کے دہانوں سے نکل رہے ہیں۔
خدا وہ دن دکھائے کہ ہمارے محترم علماء کرام ایک دوسرے کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنا شروع کریں اور ٹکڑوں میں بٹی امت کو حقیقی معنوں میں محبت کا پیغام دیں۔
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
1 comment:
Admiring the persistence you put into your site and detailed information you offer.
It's good to come across a blog every once in a while that isn't the same
unwanted rehashed material. Excellent read!
I've bookmarked your site and I'm adding your RSS feeds to my Google account.
Post a Comment