انجینئر قاسم الطاف کی گاڑی کو پہلا حادثہ دو ماہ پہلے ایئرپورٹ چوک پر پیش آیا۔
چوک پر لال بتی جلی ہوئی تھی۔ دوسری گاڑیوں کے درمیان اس نے گاڑی کو بریک لگائی اور اشارہ کُھلنے کا انتظار کرنے لگ گیا۔ ہجوم بے پناہ تھا۔ کاروں، بسوں، ٹرکوں، ویگنوں اور سوزوکیوں کی قطاروں کی قطاریں رُکی ہوئی تھیں۔ اچانک زور سے ٹھاہ کی آواز آئی اور اس کی گاڑی کو زور سے جیسے دھکا لگا۔ بائیں سمت کے پچھلے دروازے سے موٹرسائیکل آکر لگی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکل سوار کمال پھرتی سے، گاڑیوں کے درمیان، ایک خودکار میزائل کی طرح راستہ بناتا، لال بتی کے قریب جا کر رُکا۔ پھر ایک لمحے کے اندر اندر اس نے لال بتی کو کراس کیا اور زوں کرتا ہوا نظروں سے غائب ہو گیا۔
قاسم الطاف نے کمپیوٹر انجینئرنگ کی تعلیم کینیڈا کے صوبے البرٹا کے سب سے بڑے شہر کالگری سے حاصل کی۔ پندرہ سال وہاں کام کیا۔ جس بین الاقوامی کمپنی میں وہ کام کر رہا تھا اُس نے سرتوڑ کوشش کی کہ قاسم الطاف استعفیٰ نہ دے۔ کمپنی نے یہ تک کوشش کی کہ وہ اُسے اپنی یو اے ای یا سنگاپور شاخ میں تعینات کر سکتی ہے تا کہ وہ اپنے ملک کے قریب ہو جائے مگر قاسم الطاف پر ایک ہی دُھن سوار تھی کہ پاکستان جا کر وہ ایسا کام کرنا چاہتا ہے جس کے ماہرین انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ بیوی سے مہینوں اس وجہ سے تعلقات سرد رہے۔ مگر وہ نقل مکانی کر کے رہا اور اپنے ملک کے دارالحکومت میں آ بسا۔
انجینئر قاسم الطاف کی گاڑی کو دوسرا حادثہ پہلے حادثے کے ٹھیک گیارہ دن بعد پیش آیا۔ وہ اپنے بچے کو سکول سے لینے جا رہا تھا۔ رش کی وجہ سے ٹریفک کی رفتار آہستہ تھی۔ گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ ایک موٹر سائیکل نے بائیں طرف سے اُس کی گاڑی کو اوورٹیک کیا۔ اور پھر بجلی کی سرعت کے ساتھ، پورا اوور ٹیک کیے بغیر، فوراً دائیں طرف مُڑا اور اگلے بمپر کی بائیں سائڈ کے ساتھ زور سے ٹکرایا۔ موٹر سائیکل بمپر میں پیوست ہو گیا۔ قاسم الطاف گاڑی سے اُترا۔ اُس نے اپنی گاڑی کو دیکھے بغیر موٹر سائیکل سوار سے غیر اختیاری طور پر پوچھا ۔ ’’بھائی تم نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہؤا، گرتے تو کیا ہوتا؟‘‘، موٹر سائیکل والا اس سوال کے لیے قطعاً تیار نہ تھا۔ اُس نے ایک لمحہ صرف کر کے یہ ’’غیر ضروری‘‘ اور ’’احمقانہ‘‘ سوال ہضم کیا اور کہا، ’’آپ ہیلمٹ کو چھوڑیں گاڑی کی بات کریں۔ قصور آپ کا بھی ہے۔‘‘ اُس نے پوچھا، میرا کیا قصور ہے؟ اس کا جواب موٹر سائیکل سوار نے تنک کر یہ دیا کہ پھر میرا کیا قصور ہے؟ اتنی دیر میں لوگ باگ جمع ہو گئے جیسا کہ یہاں ہر جائے حادثہ پر معمول ہے۔ لمبی بحث کے بعد موٹر سائیکل سوار نے غلطی تسلیم کی۔ اِدھر قاسم الطاف کو جلدی تھی۔ بچہ سکول میں انتظار کر رہا تھا۔ موٹر سائیکل سوار نے شناختی کارڈ دیا اور وعدہ کیا کہ جو خرچ مرمت پہ آئے گا، وہ ادا کرے گا۔ پچیس دن سے شناختی کارڈ قاسم الطاف کے سائڈ ٹیبل کی اوپر والی دراز میں پڑا، اپنے مالک کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔
انجینئر قاسم الطاف کی گاڑی کو تیسری مرتبہ بھی ایک موٹر سائیکل سوار ہی نے ٹکر ماری۔ وہ ایوب پارک کے سامنے اُس بیرئیر سے گزر رہا تھا جہاں حساس ادارے نے شاہراہ کو چار پانچ چھوٹے چھوٹے راستوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ گاڑیاں رینگ رہی تھیں گاڑی کو دھکا لگا۔ پیچھے سے موٹر سائیکل نے ٹکر ماری تھی۔ اس سوار نے بھی ہیلمٹ نہیں پہنا تھا۔ کہنے لگا، میری غلطی ہے مگر آپ بھی تو گاڑی آہستہ چلا رہے تھے! بحث ہو رہی تھی کہ رینجرز کی گاڑی آ گئی۔ رینجر کے اہلکار نے جس انداز سے انجینئر قاسم الطاف کو مخاطب کیا اُس سے قاسم کے ہوش اُڑ گئے۔ اہلکار نے آخری دھمکی دی، ’’مجھے کسی ایکسیڈنٹ کا نہیں پتہ، گاڑی یہاں سے آگے پیچھے کرو ورنہ گاڑی بند کردوں گا۔‘‘
اُس دن ا نجینئر قاسم الطاف کی آنکھیں اپنی بیگم کے سامنے نہ اُٹھ سکیں۔ ابھی اگلا بمپر مرمت نہیں ہو سکا تھا۔ بیس لاکھ کی گاڑی آگے پیچھے دونوں طرف زخموں سے چُور چُور تھی۔
انجینئر قاسم الطاف اور اُس کی شکست خوردہ بیوی کے درمیان اُس دن کیا کیا باتیں ہوئیں؟ قاسم الطاف نے اُس دن کیا فیصلہ کیا؟ ان سب باتوں کو چھوڑیے۔ اور صرف اِسی نکتے پر اپنی سوچ مرتکز کیجئے کہ ریاست کہاں ہے؟
پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں اس وقت موٹر سائیکل سوار ایک عذاب بن چکے ہیں۔ ان کی تعداد ٹڈی دل کی طرح شمار سے باہر ہے۔ ہیلمٹ کے پہلو کو تو چھوڑیے‘ پیدل چلنے والے اور گاڑیوں والے اِن گتکا بازوں کی لاقانونیت کی وجہ سے جس اذیت سے گزر رہے ہیں، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو سڑک پر پیدل چلا ہو یا جس نے گاڑی ڈرائیو کی ہو۔ ایک ثانیے کے لیے بھی یہ رکتے ہیں نہ رفتار ہی کم کرتے ہیں۔ پوری سڑک ان کے لیے شیر مادر کی طرح حلال ہے۔ ایک گاڑی کو دائیں طرف سے اوور ٹیک کریں گے۔ اس سے اگلی گاڑی کو بائیں طر ف سے اوور ٹیک کریں گے، اُس سے بھی اگلی گاڑی کو دائیں طرف سے اور دائیں بائیں، تنگ جگہوں سے راستہ بناتے، دائیں بائیں زِگ زِیگ چلتے، قانون کی دُم مروڑتے، پولیس کی پُشت پر اَن دیکھی لات رسید کرتے۔ دھرتی کے سینے پر مونگ دلتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں، کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ اسی فی صد کی پیچھے والی لائٹ غائب ہے۔ اچھی خاصی تعداد ہیڈ لائٹ سے بھی بے نیاز ہے! شرفا اِن سے عاجز ہیں۔ گاڑی چلانے والی خواتین انہیں غنڈہ قرار دیتی ہیں۔
یوں تو ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ریاست کا وجود عنقا ہے۔ جس صوبے میں وزیراعلیٰ کے علاوہ کسی وزیر کا نام ہی کسی کو نہ معلوم ہو، جہاں غیر ملکیوں کے لیے دروازے کھلے ہوں، جہاں پولیس کا کام صرف اور صرف شاہی خاندان کی حفاظت ہو، جہاں پولیس چھوٹو کو گرفتار کرنے کے لیے فوج کی محتاج ہو اور جہاں حکمران اعلیٰ صرف یہ کر سکتا ہو کہ ہر جائے حادثہ پر اور ہر جائے واردات پر پہنچ کر چیک دیتے ہوئے تصویر کھنچوائے اور مستقبل کا صیغہ وافر استعمال کرتے ہوئے ایک اور وعدہ کر ڈالے اور منفی عناصر کو ایک اور دھمکی دے ڈالے، وہاں ٹریفک کے بگڑے ہوئے آوے کو کون درست کر سکتا ہے!
اس کا ایک ہی علاج ہے کہ جہاں بھی موٹر سائیکل سوار کی وجہ سے حادثہ ہو، اس قانون شکن سے نرمی نہ برتی جائے۔ سب سے پہلے اُس کے موٹر سائیکل کی چابی نکال کر قبضے میں لے لیجیے کیوں کہ یہ قبیلہ دُم دبا کر بھاگنے میں ماہر ہے۔ اس کے بعد اُسے اطلاع دیجیے کہ ہیلمٹ کے بغیر وہ پہلے ہی قانون شکنی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ کوشش کیجیے کہ اُس کا اصل شناختی کارڈ اور موٹر سائیکل کے اصل کاغذات آپ کے قبضے میں آجائیں۔ آخری ضروری بات اس ضمن میں یہ ہے کہ کسی صورت اُسے معاف نہ کیا جائے اور گاڑی کی مرمت پر لگی ہوئی ایک ایک پائی اُس سے وصول کی جائے۔ اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہو گا کہ موٹر سائیکل مافیا کا یہ رکن کچھ عرصہ کے لیے تو محتاط ہو جائے گا!
بنیادی نا اہلی پولیس کی ہے۔ پولیس نے ٹریفک کی تعلیم ہی اِن لوگوں کو نہیں دی۔ کبھی آپ نے اخبار میں یا ٹیلی ویژن پر ٹریفک پولیس کی طرف سے کوئی اعلان، کوئی اپیل، کوئی سبق پڑھا ہے؟ کم از کم دو جرم نا قابلِ معافی ہونے چاہئیں۔ بائیں طرف سے اوورٹیک کرنا اور چھوٹی سڑک سے بڑی پر چڑھتے ہوئے نہ رُکنا۔ پولیس کے ذہن کے دورافتادہ گوشے میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ وہ نہیں، تو یہ دو باتیں ہی ذہنوں میں بٹھا دے۔
جناب شہباز شریف سے گزارش ہے کہ کبھی پروٹوکول کے بغیر لاہور یا راولپنڈی میں خود گاڑی چلا کر دیکھیں کہ کیا صورتِ حال ہے؟ اُن کے بڑے بھائی جناب وزیراعظم نے آصف علی زرداری کو پہلو میں بٹھا کر رائے ونڈ میں خود گاڑی چلائی تھی۔ کیا چھوٹے بھائی صاحب عوام کے لیے ایک بار خود نہیں ڈرائیو کر سکتے۔
ورنہ چھوٹو گینگ کی طرح موٹر سائیکل گینگ راہِ راست پر لانے کے لیے بھی فوج کو آواز دینا پڑے گی!۔
No comments:
Post a Comment