ملک کی اِس وقت جو صورتِ حال ہے، اس کا بہترین حل وہی ہے جو قومی اسمبلی کے ایک معزز رکن نے تجویز کیا اور جسے متعلقہ وفاقی وزیر نے فوراً قابلِ غور قرار دیا!
خوش فہمی ایک ارزاں جنس ہے۔ خود رَو جھاڑی کی طرح۔ ایسے فاضل حضرات کی کمی نہیں جو پاناما لیکس کو سنہری موقع قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھا کر فلاں ادارہ صفائی کرے گا اور فلاں ادارہ صفائی کے اس عمل کے دوران فلاں ادارے کی پشت پر کھڑا ہو گا۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ اتحادِ ثلاثہ اس قسم کی کسی خوش فہمی پر عمل کا غلاف نہیں چڑھنے دے گا!
یہ اتحادِ ثلاثہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ یوں تو کہنے کو اے این پی بھی حکومتی پارٹی کے ساتھ ہے مگر دماغ کے جو خلیے زرداری صاحب اور مولانا صاحب نے پائے ہیں، ان کا اے این پی والے سوچ بھی نہیں سکتے!
اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں اگر ایک طرف نوجوان بلاول وزیراعظم سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہا ہے، ’’مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا ہے اور دوسری طرف نام نہاد اپوزیشن کے نام نہاد رہنما خورشید شاہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ میاں صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ استعفیٰ کا مطالبہ تو کسی نے کیا ہی نہیں! اس عرصہ میں یہ بھی سنا گیا کہ زرداری صاحب نے اعتزاز احسن کو حکم دیا کہ مولانا صاحب سے رابطہ قائم کیا جائے مگر اعتزاز احسن کو اس میں تامل ہے۔ کہاں بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن اور کہاں زرداری صاحب کی کمانڈ، منصوبہ بندی اور دوراندیشی!
حکومتی پارٹی کی سب سے بڑی کامیابی لمحۂ موجود میں یہ ہے کہ عمران خان خورشید شاہ کی قیادت میں کھڑے ہیں اور ’’پیچھے اس امام کے‘‘ کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں کی لووں تک اٹھائے ہیں! جس پیپلز پارٹی کی صفوں میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے ہلچل مچی ہوئی ہے، جس پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو اور رحمن ملک کے اسمائے گرامی پاناما لیکس کی پہلی قسط ہی میں سامنے آگئے تھے وہ پیپلز پارٹی وزیراعظم کا احتساب کرنے اٹھی ہے اور عمران خان اس پارٹی کے پیچھے چل رہے ہیں!
زرداری صاحب دوستوں سے وفا نبھانے کے لیے مشہور ہیں! ڈاکٹر عاصم جیسے اصحاب کے ساتھ ان کی دوستی ہی تو ہے جو وہ نبھا رہے ہیں! روایت ہے کہ پنجاب حکومت کے سرکاری بینک میں جب فراڈ کا غلغلہ بلند ہؤا تھا تو ایک وفاقی سیکرٹری کی لاہور میں گرفتاری کا امکان تھا۔ یہ گرفتاری ’’بوجوہ‘‘ عمل میں نہ لائی جا سکی! ایک اجلاس میں جب یہ سیکرٹری صاحب زرداری صاحب کے سامنے آئے تو زرداری صاحب نے برملا کہا ’’ہم اپنے دوستوں کو مصیبت کے وقت چھوڑتے نہیں!‘‘
یہ روایت درست ہے یا غلط، مگر وزیراعظم سے زرداری صاحب کی مفاہمت ایک حقیقت ہے۔ اس مفاہمت کو دوستی کہیے یا سیاسی ضرورت! مگر زرداری صاحب نبھاتے ہیں اور خوب نبھاتے ہیں! وفاداری نبھانے کے اس عمل میں ملکی قوانین یا ملکی مفادات، تہس نہس تو ہو سکتے ہیں؛ وعدے، قدریں، آداب، اخلاق سب کچھ بُل ڈوز تو ہو سکتا ہے مگر وفاداری ہر حال میں استوار رہتی ہے۔ زرداری صاحب کے نزدیک یہی اصلِ ایمان ہے۔ چند ہفتوں یا چند مہینوں میں پیپلز پارٹی وزیراعظم کو ’’بیل آوٹ‘‘ کرا لے گی! بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن اپنی لچھے دار تقریریں کرتے رہیں گے!
خورشید شاہ صاحب کا اصل کردار وہی ہے جو انہوں نے عمران خان کے دھرنے کے دوران، حکومتی پارٹی کی پشت پناہی کر کے ادا کیا تھا۔ یہی کردار مستقبل قریب میں سامنے آئے گا ! عمران خان کے ہاتھ میں پشیمانی کے سوا کچھ نہیں آئے گا! یہ کوئی پیش گوئی یا پامسٹری کی پیش کش نہیں! یہ تو اندھے کو بھی نظر آرہا ہے اور بہرہ بھی سن رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی حکومت کے اور وزیراعظم کے احتساب میں سنجیدہ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ خزاں کی مسموم ہوا پھول اگاتی ہے، پھر یہ بھی سچ ہے کہ صحراؤ میں ناگ پھنی نہیں، لالہ و گل اُگتے ہیں! پھر یہ بھی سچ ہے کہ شیشم کے چھتنار گملوں میں لگتے ہیں! پھر یہ بھی سچ ہے کہ ڈاکو منصف بنتے ہیں اور پھر یہ بھی سچ ہے کہ چور نمازیں پڑھاتے ہیں! جو کچھ صوبہ سندھ میں ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے، اسے دیکھنے سننے اور جاننے کے بعد اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی وزیراعظم کے معاملے کو منطقی انجام تک لے جائے گی تو اُسے دماغی امراض کے شفا خانے میں لے جانا چاہیے!
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے، دوسری طرف دکانیں کھلی ہیں اور کاروبار عروج پر ہے۔ ایسی ہی ایک کاروباری سرگرمی کے دوران عوامی نمائندوں نے اپنے بارے میں خود ہی سفارش کی ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں یعنی مزید بڑھائی جائیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ان ارکان کو بڑھائی گئی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ بجلی پانی کے الاؤنس میں اضافہ، ٹریولنگ الاؤنس میں اضافہ، پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے لیے سپیشل کارڈ اور بے شمار ایئر ٹکٹ بھی دیے جائیں! یعنی ڈنکے کی چوٹ اعلان ہو رہا ہے کہ علاج سرکاری ہسپتالوں میں نہیں، پرائیویٹ شفا خانوں میں کرائیں گے! ایک دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں کی تنخواہ عوامی نمائندوں کی تنخواہوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے! جہاں یہ کاروبار ہو رہا تھا اور بولیاں لگ رہی تھیں، وہاں کوئی یہ بھی پوچھتا کہ وفاقی سیکرٹری اور جرنیل یہ تنخواہ تیس پینتیس سال کی مشقت کے بعد وصل کرتے ہیں۔ صبح سے رات تک کام بھی کرتے ہیں۔ آپ کس مشقت کے عوض یہ سب کچھ لینا چاہتے ہیں؟ ترقیاتی فنڈ وصول کرنے اور ’’خرچ‘‘ کرنے کے عوض؟ سفارشیں کرنے کے عوض؟ اساتذہ اور استانیوں اور کلرکوں اور نائب قاصدوں کی تعیناتیاں کرانے کے عوض؟ یا استحقاق کے پردے میں ہر قسم کی قانون شکنی کے عوض؟
ایک اور منظر دیکھیے! کیا میدان ہے، کیا تماشا گاہ ہے اور کیا کردار ہیں!! ’’دینی‘‘ جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہو رہا ہے۔ مولانا سراج الحق فرماتے ہیں: ’’احتساب کے اس نعرے کو شور شرابے کی نذر نہیں کرنے دیں گے بلکہ اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘ اور مولانا سراج الحق کے دائیں طرف، کندھے سے کندھا ملائے پروفیسر ساجد میر تشریف فرما ہیں جو احتساب احتساب کے اس کھیل میں حکومت کے ساتھ ہیں! واہ رے پاکستانی عوام! کیا کیا تماشے ہیں جو تمہیں دکھائے جا رہے ہیں! اُن سادہ لوح لوگوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے جو مجمع بن کر ایندھن کا کام کرتے ہیں اور اِن رہنماؤں کی کانفرنسوں پر کامیابی کا رنگ و روغن کرتے ہیں! ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی
کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں! مراکش کے ایک شہر کا نام بھی مراکش ہے۔ مراکش یاد آرہا ہے۔ شام کو شہر کے باہر ایک وسیع میدان میں ہر روز میلے کا سماں ہوتا ہے۔ روایتی لباس پہنے سقّے مشکیزے اٹھائے پانی پلا رہے ہوتے ہیں۔ کہیں جڑی بوٹیوں والے علاج کر رہے ہیں، کہیں فال نکالنے والے بیٹھے ہیں! پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر یہی سماں ہے! اس صورتِ حال سے باہر نکلنے کے لیے وہی حل بہترین ہے جو قومی اسمبلی میں ایک معزز رکن نے تجویز کیا اور جسے وفاقی وزیر نے فوراً پذیرائی بخشی کہ ملک سے گدھے برآمد کیے جائیں!
دعا یہ کیجیے کہ بھاؤ تاؤ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ گدھے برآمد کر دیے جائیں! جب تک گدھے ملک میں موجود ہیں، صورتِ حال تبدیل نہیں ہو سکتی، مگر آہ! ؎
ترا خر خواہم و گشتم پشیماں
کہ آن بیچارہ را بد نام کردم
تجھے گدھا تو میں کہہ بیٹھا مگر فوراً ہی پچھتایا کہ گدھے بیچارے کو مفت میں بد نام کر رہا ہوں!
No comments:
Post a Comment