شام لمحہ لمحہ اتر رہی تھی جب میں بستی میں داخل ہوا۔ یہ بستی اِرد گرد کی ساری بستیوں سے مختلف تھی۔ کوئی آواز تھی نہ حرکت۔ پیڑ دم سادھے کھڑے تھے۔ مکین سب سوئے ہوئے تھے۔ کچھ مٹی اور کچھ مرمر اوڑھے تھے۔ جھٹپٹے میں مرمر کی سفیدی جگہ جگہ جھلک رہی تھی۔ پہلوئوں میں مر مر کے تکیے‘ سروں کی جانب مرمر کے کتبے‘ کچھ ایستادہ‘ کچھ نیم دراز‘ مرمر میں کھدی ہوئی آیات‘ مرمر ہی پر لکھے گئے اشعار ؎
یہ سنگِ مرمر‘ یہ شاخِ انگور‘ یہ کنیزیں
مگر کوئی کھینچتا ہے مٹی کے گھر کی جانب
پختہ پگڈنڈی پر چلتا اُس قبر کے پاس پہنچا جس میں سویا ہوا شخص ساری زندگی‘ زندگی گزارنے کے نہیں‘ زندگی کرنے کے طریقے سکھانے کی کاوش کرتا رہا۔ صبح نماز کے لیے اٹھانا ہوتا تو کبھی بھی‘ کرختگی یا درشتی تو دور کی بات ہے‘ نرم آواز سے بھی ’’اٹھو‘‘ نہ کہا‘ بس وضو سے‘ دھوئے ہوئے ٹھنڈے رخسار رخساروں سے لگا کر رگ رگ میں لطیف خنکی بھر دیتا۔ وہ لطیف خنکی آج بھی رگوں میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں جیتی جاگتی چلتی محسوس ہوتی ہے۔ کیا کیا انداز تھے تربیت کے۔
ایک بڑے افسر کا میں نے دوسرے مہمانوں سے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ کالج میں میرے شاگرد رہے‘ سب چلے گئے تو آہستگی سے بتایا‘ شاگرد بڑا آدمی بن جائے تو استاد نہیں بتاتا کہ یہ شاگرد رہا ہے۔ وہ خود بتائے کہ یہ میرے استاد ہیں۔ نہ بتائے تو اس باب میں خاموشی بہتر ہے۔ بیوی سے جھگڑا ہوتا تو اتنا کہتے‘ کمزوریوں ہی کو دیکھتے ہو‘ خوبیاں کیوں نہیں نظر آتیں؟ اگر فلاں خامی ہوتی تو کیا کر لیتے‘ نہیں ہے تو قدر کرو۔ بچوں کو ڈانٹتا تو یاد دلاتے کہ زجر و توبیخ کا زمانہ لد چکا۔ مار اور مکتب کا عہد گزر گیا۔ یہ دور اولاد سے دوستی کا دور ہے۔ بڑے دو پوتوں کو فارسی ادب کی شروعات خود کرائیں۔ تحدیثِ نعمت کہ ایک آج کارڈیالوجسٹ ہے اور دوسرا سول سروس میں‘ اور فارسی ادب کی جھلک‘ دادا کی براہ راست میراث نظر آتی ہے۔ مہمان آتے تو دسترخوان پر یہ شعر پڑھتے ؎
درین خانہ ہر کس کہ پا می نہد
قدم بر سر و چشمِ ما می نہد
(اس
گھر میں جو بھی پائوں دھرتا ہے‘ ہمارے سر اور آنکھوں پر دھرتا ہے)
اکلِ حلال کی تلقین کرتے تو بس اتنا یاد دلاتے کہ ایک سیر صاف شفاف دودھ کو گندا کرنے کے لیے غلاظت کا ایک قطرہ کافی ہے۔ کوئی مشکل وقت آن پڑتا تو سب خوابیدہ اہل خانہ کو صبحِ کاذب کے وقت جائے نماز سے ہچکیوں کی آواز آتی‘ کبھی اقبال کا وہ شعر یاد دلاتے جو اس کے مزار کی اندرونی چھت پر مرقوم ہے ؎
بیا بہ سجدہ و یاری ز خَسروان مطلب
کہ روزِ فقر نیاگانِ ما چنین کردند
(بادشاہوں سے مدد نہ مانگ۔ سجدہ کر کہ ہمارے اجداد نے مشکل وقت میں یہی کیا تھا)۔
سول سروس کا آخری درجہ طے نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دوست نے کہا‘ اپنے والد کو دعا کے لیے کہو‘ بتایا کہ کہا ہے‘ کر رہے ہیں‘ کہا‘ نہیں‘ پھر عرض گزارو۔ کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر اُس گردن بلند کا نام لکھا جو آڑے آ رہا تھا اور انہیں نواز رہا تھا جو ’’شام‘‘ کے وقت حاضر باش ہوتے۔ عرض کیا کہ یہ ہے رکاوٹ۔ پھر اسباب مہیا ہوتے گئے‘ یہاں تک کہ ایک دوپہر کو اسی گردن بلند نے ٹیلی فون پر اطلاع بھی دی اور مبارک بھی!
مٹی کی چادر تھی۔ چادر کو خزاں زدہ خشک زرد پتوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ یا کشیدہ کاری تھی! ایسی نادر اور دیدہ زیب کشیدہ کاری جو کوئی سوزن کر سکتی ہے نہ کوئی ہاتھ۔ فقط قدرت کا دستِ ہنر کر سکتا ہے! سر سے پائوں تک متانت تھی‘ نیند تھی اور خاموشی! جیب سے رومال نکالا اور سرہانے کے اُس پتھر کو صاف کیا جو اس عہد کے بڑے نظم گو‘ پنجاب یونیورسٹی کے فارسی ادب و
زبان کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر معین نظامی نے لاہور سے بھیجا تھا اور خطاطی بھی اس پر وہیں سے کرائی تھی۔ ایک طرف نام اور تاریخ۔ دوسری طرف ان کے اشعار!
جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور خوش بخت ہے۔ جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ دادرسی اس کے اپنے گھر کے ایک کونے میں پڑی ہے۔ اللہ کے بندو‘ بھٹکتے کیوں ہو؟ وسیلے کی تلاش میں اِدھر اُدھر مارے کیوں پھرتے ہو؟ وسیلہ تمہاری بغل میں ہے۔ باپ سے بڑا بزرگ کون ہے؟ ہاتھ چومنے ہیں تو اس کے چومو‘ سر رکھنا ہے تو اس کے پیروں پر رکھو۔ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ہے تو اس کے سامنے کھڑے ہو جائو۔ جوتے پہنانے ہیں تو اپنے ہاتھوں سے اُسے پہنائو۔ کنگھی کرنی ہے تو اس کی کرو۔ دوا کھلانی ہے تو اپنے ہاتھ سے اُسے کھلائو۔ چومنا ہے تو اسے چومو‘ معافی مانگنی ہے تو اس سے اپنی لغزشوں‘ کوتاہیوں اور گستاخیوں کی مانگو‘ رونا ہے تو اس کی گود میں سر رکھ کر بلک بلک کر روئو۔ نذرانہ دینا ہے تو اس کی نذر کرو۔ حج کرانا ہے تو اسے کرائو۔ دعا کروانی ہے تو اس سے کروائو ؎
ای قوم بہ حج رفتہ کجائید کجائید
معشوق ہمین جاست بیائید بیائید
دہ بار ازان راہ بدان خانہ برفتید
یک بار ازین خانہ برین بام بر آئید
اے حج پر گئے ہوئے لوگو! کہاں ہو؟ معشوق تو یہاں ہے‘ اِدھر آئو‘ اُس راستے سے اُس گھر میں دس بار گئے ہو۔ ایک بار اِس گھر سے اِس بام پر بھی نکل کر دیکھو!!
اِدھر اُدھر دیکھا۔ سب خوابیدہ تھے۔ سر سے پائوں تک دراز۔ کوئی مٹی اوڑھے تھا اور کوئی مرمر! پیلے خشک پتوں کے انبار‘ قبروں پر بھی اور راستوں پر بھی! اڑتی ہوئی خاک تھی جیسے رفتگاں کے غم میں رو رہی ہو۔ دم بخود شاخیں جھکائے درخت تھے جیسے محوِ دعا ہوں! شام اتنی آہستگی سے گہری ہو رہی تھی جیسے احتیاط کر رہی ہو کہ کسی قبر پر پائوں نہ پڑ جائے۔
ہاتھوں میں درانتیاں لیے‘ راکھے‘ پگڈنڈیوں پر اور قبروں کے درمیان کے پتلے راستوں پر پھر رہے تھے۔ جس قبر کے پس ماندگان ان کی جیب میں کچھ ڈالتے‘ اسی قبر کی وہ دیکھ بھال کر لیتے‘ ورنہ نہیں! یہی وہ حقیقت ہے جسے قبر میں جانے والا‘ قبر میں جانے سے پہلے یاد نہیں رکھتا۔ راکھا درانتی اٹھائے‘ اس کے پاس سے گزر جائے گا اور وہ اسے اتنا بھی نہیں کہہ پائے گا کہ میری قبر سے گھاس پھونس جھاڑ جھنکاڑ ہٹاتے جائو!
کتنا جمع کر لو گے؟ کتنے محلات بنا لو گے؟ کل ہی کوہستانِ مری کے دامن میں بیس کنال کے محل کا افتتاح ہوا ہے اور عمائدینِ خاص کی دعوت! ایک اور محل۔ ایک اور… ایک اور ’’بھلا تم ہر اونچی جگہ عبث نشان تعمیر کرتے ہو اور محل بناتے ہو کہ شاید تم ہمیشہ رہو گے۔ و اذا بطشتم بطشتم جبارین۔ اور جب پکڑتے ہو تو ظالمانہ پکڑتے ہو!‘‘
دنیا بھی عجب جادو کا کھیل ہے۔ عجب خانۂ طلسمات ہے۔ کھوپڑیوں میں پرندے انڈے دیتے ہیں۔ جہاں آنکھ ہے وہاں سوراخ بن جاتا ہے اور حشرات الارض کی گزرگاہ! سکوں کی کھنک سانپ کی پھنکار میں تبدیل ہو جاتی ہے!!
No comments:
Post a Comment