گویا باقی تمام مسائل تو حل ہو چکے تھے‘ پٹرول‘ سی این جی‘ مہنگائی‘ ٹرانسپورٹ‘ امن و امان بشمول اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری… بس مدارس کا مسئلہ رہتا تھا چنانچہ حکومت نے اُسے ’’ٹھیک‘‘ کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔
حکومتوں کو یہ گمان نہ جانے کیوں رہتا ہے کہ ہر حل جو وہ تجویز کریں گی یا بروئے کار لائیں گی‘ حرفِ آخر ہوگا۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے اگست 2001ء میں ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس‘‘ جاری کیا اور ایک بورڈ کی تشکیل کی۔ پروگرام اپنے طور پر حکومت نے یہ بنایا کہ ہر مدرسہ کو چار اساتذہ فراہم کیے جائیں گے جو ’’جدید مضامین‘‘ پڑھائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آ چکی تھی۔ آٹھ ہزار مدارس میں سے صرف 505 نے اس پروگرام کو اپنایا۔ چنانچہ پورا منصوبہ داخلِ دفتر کردیا گیا۔
اب شنید ہے کہ وزارتِ مذہبی امور دہشت گردی کے خلاف ایک باقاعدہ مضمون متعارف کرا رہی ہے۔ ایک ٹیکسٹ بک (نصابی کتاب) ہوگی جس کا عنوان ’’امن کی کتاب‘‘ ہوگا!
اس موقع پر کئی محاورے ا ور کئی لطیفے یاد آ رہے ہیں۔ اندھوں کو ہاتھی مل گیا تھا۔ جس اندھے کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگ پر تھا وہ کہتا تھا کہ ہاتھی ستون کی طرح ہوتا ہے اور جس کا ہاتھ کان پر تھا‘ وہ ہاتھی کو پنکھے کے مشابہ قرار دے رہا تھا۔ خواجہ سرائوں کے ہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو انہوں نے اسے چوم چوم کر مار ڈالا تھا۔ حکومت کو ادراک ہی نہیں کہ مدارس کا مسئلہ کیا ہے‘ اس کے کتنے پہلو ہیں‘ کتنی پرتیں ہیں‘ معاشرے کو اس سے کیا فائدے پہنچ رہے ہیں اور نقصانات کیا کیا ہیں۔ نصاب کا معاملہ یہ ہے کہ ’’امن کی کتاب‘‘ تجویز کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ مدارس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ کیا آٹھ سالہ کورس کے مندرجات آپ نے غور سے دیکھے ہیں اور کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ کتاب وہ نتائج لا سکے گی جو آپ چاہتے ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ مدارس کے نصاب کا تجزیہ کرنے والے صاحب اس وقت حکومت کا حصہ ہیں مگر حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ ان سے کیا کام لینا ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے‘ جو کچھ ماہ پیشتر تک وفاقی سیکرٹری قانون تھے اور اب مشیر بمنزلہٖ وزیر ہیں بہت سال پہلے ایک کتاب ’’کسی اور زمانے کا خواب‘‘، (انگریزی میں ’’دی وے آئوٹ‘‘) لکھی جس میں مدرسہ کے نصاب کا درجہ بہ درجہ اور سال بہ سال تجزیہ کیا اور بتایا کہ تازہ ترین کتاب جو پڑھائی جا رہی ہے‘ تین سو سال پہلے کی ہے! بیرسٹر صاحب کے اپنے Ambitions ہوں گے
اور وہ ان کا حق ہے مگر وزارتِ مذہبی امور چلاتے اور دو تین برس لگا کر مدارس اور اہلِ مدارس کے معاملات طے کرتے اور کراتے تو قوم پر احسان ہوتا۔ اس لیے کہ وہ مدرسہ کے پڑھے ہیں۔ پھر سول سروس میں آ گئے۔ پھر برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پریکٹس کرنے لگ گئے۔ یوں ہر میدان دیکھا بھالا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے ایک معاصر میں ایک عجیب و غریب مضمون چھپا جس میں اہلِ مدرسہ کی ذہنی وسعت ثابت کرنے کے لیے یہ بتایا گیا کہ عیسائیوں کی لکھی ہوئی معجم (قاموس) اور ڈکشنری سے استفادہ کیا جاتا ہے!! اسی طرح فخر سے بتایا گیا کہ متنبی اور سبع معلقات پڑھائے جاتے ہیں! گویا عربی ادب اس کے بعد ٹھہر گیا! اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ جدید اور ہم عصر عربی ادب کا داخلہ مکمل طور پر ہمارے مدارس میں کیوں بند ہے؟ مدارس سے فراغت پانے والوں میں کتنے فی صد ہم عصر عربی میڈیا اور ہم عصر مصنفین سے رابطہ رکھتے ہیں اور رکھ سکتے ہیں۔ یہ مضمون پڑھ کر اس کالم نگار نے ظفر اللہ صاحب سے رابطہ کیا کہ وہ اس حوالے سے اہلِ وطن کو حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔ ان سے اس زمانے سے یاد اللہ ہے جب وہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں کالم نگار کے چھوٹے بھائی کے ساتھ پڑھا رہے تھے۔ مگر انہوں نے بتایا کہ وہ بطور مشیر و وزیر میٹنگ در میٹنگ در میٹنگ کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں!
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ فرقہ واریت کے موجودہ منظرنامے میں مدارس کے نصاب پر الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ Paradox یہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مدارس میں نصاب کم و بیش وہی ہے اس لیے کہ دونوں (فرقے یا مکاتبِ فکر؟) حنفی ہونے کے مدعی ہیں؛ تاہم دونوں کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہیں کہ مخاصمت کی سطح تک پہنچے ہوئے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر اور ایک دوسرے کے اکابر پر جو فتوے دیے ہوئے ہیں وہ اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں!
دوسرا پہلو جو نازک ہے اور حکومت کے بس میں نہیں‘ مدرسوں کی فنڈنگ کا ہے۔ حکومت اب یہ سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کن کن مدارس کو بیرونِ ملک سے امداد ملتی ہے لیکن یہاں ایک اور پہلو بھی نکلتا ہے اور اس کا تعلق اندرونِ ملک سے ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کی ایک کثیر تعداد مدارس کو امداد دیتی ہے جو نقد بھی ہے اور دوسری صورتوں میں بھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تاجروں اور صنعت کاروں کی بہت بڑی تعداد ٹیکس نہیں دیتی۔ ٹیکس کے معاملات کے ماہر اور روزنامہ دنیا کے کالم نگار ڈاکٹر اکرام الحق نے حال ہی میں دلچسپ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’یہی ٹیکس چور جو قومی مجرم ہیں مدرسوں کو کھل کر چندہ فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے اس ’’ناجائز دولت‘‘ کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا حالانکہ حرام مال پر مذہب کے احکامات انتہائی سخت ہیں‘‘۔ آگے چل کر ڈاکٹر اکرام الحق اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت بیان کرتے ہیں… ’’ستمبر 2013ء میں فنانس منسٹر نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ تاجروں کے تمام مطالبے (ٹیکس ادا نہ کرنے کے) تسلیم کر لیے گئے ہیں چنانچہ توقع کے مطابق 2013ء اور 2014ء میں دولت مند تاجروں کی اکثریت نے ریٹیل سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹر کرانے سے انکار کردیا۔ اسی سال مدرسوں کو ملنے والے عطیات کا حجم غیر معمولی طور پر زیادہ رہا۔ اس میں شک نہیں کہ مدرسہ کلچر اور ٹیکس چوری کا رجحان باہم مربوط ہیں‘‘۔ (روزنامہ دنیا‘ 16جنوری 2015ء)
مدارس کے مالی معاملات کا ایک پہلو مدارس کے اساتذہ کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ تلخ سچائی یہ ہے کہ ان اساتذہ کی بھاری اکثریت مظلوم ہے۔ ان کی تنخواہیں انتہائی قلیل ہیں۔ انہیں رہائش کی سہولیات‘ جہاں وہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ باعزت طور پر رہ سکیں‘ بہت ہی کم مہیا کی جاتی ہیں‘ علاج معالجہ‘ پنشن‘ جی پی فنڈ‘ مکان کی تعمیر کے لیے‘ موٹر سائیکل یا کار خریدنے کے لیے ایڈوانس۔ کچھ بھی نہیں! ان میں سے بہت سے اساتذہ جید عالم اور اعلیٰ درجے کے سکالر ہیں۔ مدارس کا نظام اور نصاب اپنی جگہ مگر اس میں تو شک نہ کیا جائے اور نہ کرنا چاہیے کہ جوہرِ قابل کی کمی نہیں۔ ان اساتذہ کو اگر صحیح ماحول‘ ٹریننگ اور Orientation فراہم کیا جائے تو یہ عرب ممالک اور پاکستان کے درمیان ایک پُل کا کام کر سکتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ حکومت اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا مدارس کے مالکان حکومت کو یا حکومت کی کسی باڈی یا ادارے کو بتانا پسند کریں گے کہ مدرسہ کے لیے وصول کیے جانے والے فنڈ کا کتنا حصہ مدرسہ کے اساتذہ پر صرف ہوتا ہے؟ کتنا طلبہ پر خرچ ہوتا ہے اور کتنا مالکان کے پاس رہ جاتا ہے؟ اس قسم کے معاملات جب بھی اٹھائے جائیں گے‘ جو بے شک مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے حق ہی میں کیوں نہ ہوں‘ مالکان اور مہتمم حضرات ہمیشہ یہی کہیں گے کہ حکومت مدارس کو ختم کرنا چاہتی ہے اور سیکولر پالیسیاں لانا چاہتی ہے۔ اس رویے کو نرم ترین الفاظ میں بھی بلیک میلنگ ہی کا نام دیا جا سکتا ہے! انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مدارس‘ اپنے اساتذہ کو پنشن دینے کا سلسلہ شروع کریں اور جو اساتذہ سروس کے دوران اس دنیا سے رخصت ہو جائیں ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے مدارس (یعنی متعلقہ مدرسہ) کو قانونی طور پر پابند کیا جائے۔
اسی طرح کچھ حقوق مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کے بھی ہیں۔ آخر وہ چٹائیوں کے بجائے میز کرسی پر کیوں نہ بیٹھیں؟ ان کے کلاس روم (؟) اور رہائشی کمروں میں ہیٹر اور ایئرکنڈیشنر کیوں نہ ہوں؟ ان کی خوراک کا ایک کم سے کم معیار کیوں نہ مقرر ہو؟ انہیں تفریحی اور مطالعاتی دورے (ٹرپ) کیوں نہ کرائے جائیں۔ مختلف مدارس کے طلبہ کے درمیان کھیلوں‘ مباحثوں اور مضمون نگاری کے مقابلے کیوں نہ ہوں؟ کرکٹ اور دوسری کھیلوں کی قومی ٹیموں میں مدارس کے طلبہ کیوں نہ آئیں؟ نصاب کی تبدیلی اور فنڈنگ کے حساب کتاب کا معاملہ تو اور ہے۔ یہ پہلو تو وہ ہیں جو اساتذہ اور طلبہ کے حق میں جاتے ہیں اور مجموعی طور پر مدارس کو ان کی تائید کرنی چاہیے!
مسئلہ مائنڈسیٹ کا ہے اور ہماری حکومتوں کی استعدادِ کار کے بس میں اس مائینڈسیٹ کی تبدیلی ممکن ہی نہیں! امریکہ کے ایک مدرسہ میں طلبہ کو کلاس روموں میں میز کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ ایک حضرت صاحب دورے پر تشریف لائے۔ میز کرسی دیکھی تو برا سا منہ بنایا اور فرمایا‘ فرش پر بیٹھنے میں برکت ہوتی ہے جو میز کرسی پر نہیں ہوتی!! گویا اگر حضرت صاحب وزیر بن جائیں یا اسمبلی میں تشریف فرما ہوں اور کرسی پر بیٹھیں تو برکت ہی برکت ہے! مدارس کے طلبہ حصولِ برکت کے لیے فرش ہی پر بیٹھیں!! اور ہاں! آئے دن امریکی حکومت کا مہمان بن کر امریکہ جانا ہو تو جہاز میں بھی تو کرسی ہی پر بیٹھنا ہوتا ہے؛ تاہم یہاں بھی برکت کی مقدار وافر ہے!!
No comments:
Post a Comment