Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, January 21, 2015

اس سے پہلے کہ…


سرما ہمیشہ ہی رگوں میں خون منجمد کرنے والا ہوتا مگر یہ سرما بہت ہی سخت تھا۔ تیمور کے فوجیوں کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے چھ چھ فٹ برف کھودنا پڑی!
آخر کار تیمور نے چین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب مِنگ خاندان کے پہلے شہنشاہ ہونگ وو نے تیمور کو باجگزار قرار دیا۔ شہنشاہ نے فاتحِ عالم تیمور کو سفیر کے ہاتھ مکتوب بھیجا جس میں اُسے ماتحت کہہ کر مخاطب کیا۔ تیمور نے سفیر کی گردن اڑا دی اور اس کے پندرہ سو محافظوں کو بھی قتل کرا دیا۔ پھر اس نے چین پر فوج کشی کا فیصلہ کیا مگر وہ جو نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا   ؎
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت نانی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ابھی سیحوں کا دریا عبور ہی کیا تھا کہ بیماری نے آن دبوچا۔ 1405ء کی فروری کا ایک برف آلود دن تھا جب سمرقند کو اس وقت کی معلوم دنیا کا دارالحکومت بنانے کی آرزو سینے میں لیے تیمور جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔
لیکن سلطنتیں صرف فتوحات سے استحکام نہیں پکڑتیں۔ انہیں انتظام و انصرام درکار ہوتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں ہر مرزاہر بیگ اور ہر خان بادشاہی کا دعویدار بن رہا تھا۔ چند عشرے گزرے تو حالت دگرگوں ہو گئی۔ طوائف الملوکی اور ایسی کہ خدا کی پناہ۔ سازشیںشب خونحملےلڑائیاںشکستیں! قید خانوں کی تعداد محلات سے بڑھ گئی۔ تیمور کی سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی ع
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
سمرقند پر سلطان احمد مرزا کا راج تھا۔ بدخشاں اور ہندوکش پر اس کا بھائی محمود حکمران بن گیا۔ تیسرے بھائی الغ بیگ نے کابل اور غزنی پر قبضہ جمایا۔ چوتھا بھائی عمر شیخجو بابر کا باپ تھافرغانہ کا بادشاہ تھا۔ ہرات پر ان بھائیوں کا چچازاد سلطان حسین فرماں روائی کر رہا تھا۔
یہ ہے آج کے پاکستان کی صورتِ حال! پاکستانجس کے عروس البلاد کراچی میں غیرملکی آ کر بسا کرتے تھےجس کی پی آئی اے میں مغرب کے حکمران شوق سے سفر کیا کرتے تھےجس کا حکمران ا یوب خان امریکہ کے صدر کا گال یوں تھپتھپاتا تھا جیسے باپ بیٹے کا گال تھپتھپاتا ہےوہ پاکستان آج اس خرابے سے بھی زیادہ تباہ حال ہے جس پر تیمور کے کوتاہ اندیش اور احمق وارث حکمرانی کے لیے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔
مشرق میں پنجاب ہے جہاں وزیراعظم کے بھائی اور ان کے فرزند کی فرماں روائی ہے۔ یہ عملی طور پر ایک ریاست ہے جو وفاق کے ماتحت تو کیا ہوگیوفاق کے سارے معاملات میں دخیل ہے۔ صوبے کے حکمران وزیر خارجہ کی جگہ دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں۔ کبھی قطرکبھی ترکیکبھی چین۔ یہاں تک کہ افغانستان کا صدر آتا ہے تو کابل اور ’’پنجاب‘‘ کے درمیان تعاون بڑھانے کی بات ہوتی ہے اور افغان صدر پاکستان بھر سے صرف وزیراعلیٰ پنجاب کو کابل کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جس پر کسی دوسرے صوبے کا حکمران چُوں کرتا ہے نہ اُف۔
سندھ پر آصف علی زرداری کا قبضہ ہے اور ایسا قبضہ ہے کہ وزیراعظم کا نامزد کردہ آئی جی تک قبول نہیں کیا جاتا۔ کراچی شہر کو دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔ پورا شہر قاتلوںاٹھائی گیروںاغواکاروں اور بھتہ خوروں کے چنگل میں ہے۔ صدر زرداری جن ذاتی وفاداروں کو وفاق میں اعلیٰ مناصب دے گئے تھے اور جن میں سے کچھ اَسّی اَسّی سال کے ہیںنون لیگ کی حکومت میں بدستور فائز ہیں۔ سمرقندفرغانہبدخشاں اور خوارزم کے درمیان رسہ کشیجوڑتوڑآنکھ مچولیبھاگ دوڑ اور وفاداریاں بدلنے کا یہ عالم ہے کہ جسے شاہراہوں پر گھسیٹنے کا اعلان ہو رہا تھااس کی گاڑی ڈرائیو کی جا رہی تھی اور اس کے لیے 74 ڈشوں پر مشتمل ضیافت اپنی نگرانی میں سجائی جا رہی تھی!
بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ وفاق سے اس کا تعلق روحانی ہو تو ہو عملی طور پر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان برملاڈنکے کی چوٹ کہہ رہے ہیں:
’’کوئٹہ میں مقامی افراد نہیںغیر ملکی آباد ہیں۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آج کوئٹہ غیر ملکیوں کا شہر لگتا ہے اور ہم یہ مسئلہ بار بار وفاق کے ساتھ اٹھا چکے ہیں…‘‘
اس بیان پرجو کسی اور ملک میں دیا جاتا تو وفاق منہ چھپاتا پھرتااتنا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا جو سمندر میں کنکر پھینکنے سے ہوتا ہے!
خیبرپختونخوا کی حکومت صبح بنی گالہ کی طرف دیکھتی ہے تو شام رحیم یار خان کی طرف! اس صوبے کے وزیراعلیٰ اس قدر صوفی منش اور اللہ لوک ہیں کہ صوبہ ان کا افغانستان کے ساتھ جڑا ہوا ہےاور جغرافیے کے علاوہ ثقافتیلسانی اور نسلی روابط رکھتا ہے مگر کابل اُن کے سر کے اوپر سے تعلقات پنجاب سے بڑھا کر دورے کی دعوت پنجاب کے حاکم کو دے رہا ہے اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو اس سے کوئی تعرض نہیں!
رہا وفاق تو اس پر اصل حکمرانی وزیراعظم کے ایک عزیز کی ہے۔ کرۂ ارض پر شاید ہی ایسی مضحکہ خیز صورت کہیں اور ہو جو اس وقت پاکستان کے دارالحکومت میں دکھائی دے رہی ہے! مکڑی کا جالا وفاقی سیٹ اپ سے زیادہ مضبوط ہوگا! وفاقی حکومت کے سربراہ اور اس کے وزیروں اور مشیروں کی کیفیتپٹرول کے بحران میںبالکل وہی ہے جو شاہی محل کے زنان خانے میں سانپ نکلنے پر بیگمات کی ہوئی تھی! اجلاس پر اجلاسبیان پر بیاناور ابھی تک ذمہ داری کا تعین نہیں ہوا۔ پٹرولیم کے وزیر ایک سانس میں تسلیم کرتے ہیں کہ ذمہ دار ہوںدوسری سانس میں کہتے ہیں ’’اگر میں ذمہ دار ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا…‘‘ کوئی اوگرا کا نام لیتا ہے اور کوئی نیشنل شپنگ کارپوریشن کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ نفسانفسی کا یہ عالم ہے کہ وزیر خزانہ حکومت کی نہیںصرف وزارتِ خزانہ کی صفائی پیش کر رہے ہیںوزیر پٹرولیم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’جناب وزیراعظم! آپ کے علم میں ہے کہ بحران کا ذمہ دار کون ہے…‘‘ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزارت میں تمام عہدوں پر تعیناتی ’’اوپر‘‘ سے ہوئی ہے اور ٹیم ان کی مرضی کی نہیں اور وزارت چھوڑنے کو بھی دل نہیں کر رہا! ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے مواقع پر وزیر پریس کانفرنس کر کے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اس سے پہلے خواجہ آصف نے کابینہ کی میٹنگ میں اپنے وزارتی امور میں پنجاب حکومت کی مداخلت پر احتجاجاً استعفیٰ پیش کیا تھا۔ یہ مداخلتیںیہ وزارتوں میں ’’اوپر‘‘ سے تعیناتیاںیہ پنجاب حکومت کا عمل دخلاسی وجہ سے ہے کہ وزراء کو عزت سے زیادہ وزارتیں
عزیز ہیں۔ اگر ایک وزیر بھی ’’کام جاری رکھنے‘‘ کی میٹھی گولی کھانے سے انکار کر کے مداخلت پر احتجاجاً مستعفی ہو جاتا تو اس کے بعد مداخلت کار مداخلت کرتے وقت سو بار سوچتے!
عملی طور پر پاکستان کے شہری حکومت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کا وجود اس کے اقدامات سے ثابت ہوتا ہے۔ شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا اور امن و سلامتی بہم پہنچانا۔ اگر یہ دونوں چیزیں عنقا ہیں تو حکومت وجود نہیں رکھتی! حکومت نظم و نسقسسٹمضابطے اور قانون سے عبارت ہے۔ اس حقیقت کو شاید ہی کوئی جھٹلا سکے کہ چند افراد کا گروہ حکومت کے نام پر من مانی کارروائیوں میں مصروف ہے اور اسے عوام سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ عملاً ایک خاندان کا اور اس کے حواریوں کا راج ہے۔ سب ایک دوسرے کو بچا رہے ہیں۔
حکومت کے نہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ افغان آرمیافغان پولیس اور افغان انٹیلی جنس کے باقاعدہ ملازمپاکستان کے اندرافغان مہاجر بستیوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اہل و عیال سمیت آرام سے اپنے ’’فرائض‘‘ ادا کر رہے ہیں! یہ لوگ باقاعدگی سے افغانستان آتے جاتے ہیں۔ کہاں ہے حکومت؟ ریاست کدھر ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنے لیے پانیبجلی اور پٹرول کا بندوبست کرنے کے علاوہ نجی پولیس اور نجی انٹیلی جنس کا انتظام بھی کریں!
تیل درآمد کرنے والے ادارے ہوں یا تیل تقسیم کرنے والے یا بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاںسب پر اعزہ و اقربا اور دوست احباب مسلط کیے گئے ہیں۔ ان کے ہاتھ لمبے ہیں اور گلے عوام کے ہاتھوں سے دور!

اس سے پہلے کہ پانی اور آکسیجن کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑےاللہ کے بندو! اٹھو! چھتوں پر چڑھوآسمان کی طرف منہ کرو اور اذانیں دو!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com