Sunday, November 30, 2014
Thursday, November 27, 2014
ڈرامہ
|
اِندر سبھا اردو کا پہلا مکمل ڈرامہ ہے۔ روایت ہے کہ آغا حسن امانت سے یہ ڈرامہ نواب واجد علی شاہ نے لکھوایا تھا۔ تاہم اردو ڈرامے کو اوجِ کمال تک لے جانے کا کریڈٹ آغا حشر کاشمیری کو جاتا ہے۔ حشر کاشمیری بنارس میں پیدا ہوئے۔ ڈرامہ نگاری کا شوق بمبئی لے گیا جہاں پارسی کمپنیاں سٹیج کی دنیا آباد کئے تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ حشر کاشمیری ڈرامے کی دنیا پر چھا گئے۔ ہر طرف ان کا شہرہ تھا۔ کلکتہ لاہور جہاں بھی گئے، ظفریابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اپنی تھیٹر کمپنیاں بھی بنائیں۔ رستم و سہراب، اسیرِ حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا اور سفید خون آغا حشر کاشمیری کے مشہور ڈرامے ہیں۔ وہ اردو کے شیکسپیئر کہلائے۔ بے شمار تحقیقی مقالے ان کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ ذاتی زندگی میں حشر کاشمیری دلچسپ تھے اور مجموعۂ اضداد بھی۔ گالیاں بہت دیتے تھے۔ فریدہ خانم کی بہن مختار بیگم سے شادی کی۔ مختار بیگم کو انہوں نے جس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا، وہ بہت مشہور ہوا۔ ’’میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھتا رہا۔ تمہارے ملنے سے شعر بن گیا ہوں‘‘ مشہور فلم سٹار رانی کی پرورش مختار بیگم نے کی تھی۔ یہ ایک دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے جس کی تفصیل پھر کبھی! شیکسپیئر سے لے کر اندر سبھا تک، نواب واجد علی شاہ سے لے کر آغا حشر کاشمیری تک اور بمبئی کی پارسی ڈرامہ کمپنیوں سے لے کر لاہور کے الحمرا ہال تک__ ڈرامے نے خوب ترقی کی۔ طربیہ (کامیڈی) تھا یا المیہ (ٹریجڈی) ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کروڑوں ناظرین محظوظ ہوئے، روئے، قہقہے لگائے، سٹیج نے دنیا کے غم غلط کرنے میں خلق خدا کی دستگیری کی یہاں تک کہ 2014ء کے نومبر کا 23واں دن آیا اور ڈرامے کی تاریخ نے وہ موڑ لیا کہ مارے حیرت کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ شیکسپیئر نے قبر میں کروٹوں پر کروٹیں لیں۔ واجد علی شاہ کو مصفّٰی بیگم اور مٹیا برج سب کچھ بھول گیا۔ آغا حشر پکار اُٹھے ؎ آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے بادلو! ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے 23نومبر 2014ء کو ڈرامے کے فن او رتاریخ کے ساتھ کیا ہوا؟ لیکن ٹھہریئے ! پہلے ایک اور داستان! یہ 8جون 2014ء کی رات تھی۔ کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر دس دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ وہ جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے اور ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کی وردیوں میں ملبوس! حملہ اس لحاظ سے ناکام ہوا کہ وہ اپنا ٹارگٹ حاصل نہ کر سکے اور سارے کے سارے مارے گئے لیکن دہشت کی اس لہر نے ہیبت کی چادر پورے ملک پر تان دی۔ 36افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ان میں پی آئی اے کے ملازم بھی تھے، سکیورٹی فورس کے بھی، رینجرز کے بھی، سندھ پولیس کے بھی۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ حملہ آور ازبک تھے۔ طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ دس جون سے وہ پاکستانی ریاست کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کریں گے۔ دس جون کو افواجِ پاکستان نے قبائلی علاقے میں واقع تیراہ وادی پر حملہ کر کے شدت پسندوں کی نوکمین گاہیں تباہ کر دیں۔ یہ علاقے ایک عرصہ سے غیر ملکیوں کی آماجگاہ تھے جنہیں مقامی جنگجوئوں نے اپنی پناہ میں لے رکھا تھا۔ 15؍ جون کو جب مسلح افواج نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تو اس سے پہلے اتمامِ حجت کی تمام چوٹیوں پر سفید پرچم لہرایا جا چکا تھا۔ پاکستانی ریاست نے سالہا سال صبر کیا، مذاکرات کیے اور ہر وہ ممکن تدبیر آزمائی جس سے کشت و خون کا دروازہ بند ہو۔ اس عرصہ میں ملک یرغمال بنا رہا۔ خودکش حملے روزمرہ کا معمول تھے۔ دھماکوں کے عالمی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مسجدیں، مزار، اسکول، بازار، کچھ بھی محفوظ نہ تھا۔ ہزاروں فوجی جوان شہید ہوئے۔ یہ کہانیاں بھی سامنے آتیں کہ سول آبادی کو ہر روز کہیں نہ کہیں بھونا گیااور عورتوں کے پرخچے اڑائے گئے۔ معصوم بچوں کو چنگیز خان کے زمانے میں نیزوں پر پرویا جاتا تھا، یہ داستان بھی سنی گئی کہ اب بموں کے سلگتے فولادی ٹکڑے ان کے جسموں سے گزارے جا رہے تھے۔ مزدور، عام شہری، زندگی کی گزرگاہ پر چلنے والے معصوم مسافر __جن کا کسی جنگ سے تعلق تھا نہ کسی پالیسی سے نہ کسی ایکشن سے، موت کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ بھی سنا گیا کہ قبروں سے لاشیں نکال کر درختوں پر لٹکا دی جاتی تھیں، تعلیمی ادارے خاکستر میں بدل دیئے جاتے تھے، ہر گلی پھانسی گھاٹ تھی۔ ہر کوچہ مقتل تھا۔ ہر دروازہ موت کی جانب کھل رہا تھا۔ آسمان نظر آنا بند ہو گیا تھا۔ خون کی چادر نے اوزون کی تہہ کو ڈھانپ دیاتھا۔ آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تو کوئی دن ایسا نہ تھا کہ اسلحہ ساز فیکٹریاں نہ پکڑی گئی ہوں۔ تہہ خانوں کے تہہ خانے خود کش جیکٹوں سے بھرے نکلے۔ میران شاہ میں وہ چوک بھی تھا جسے پھانسی چوک کہا جاتا تھا۔ پہلے حجاموں کو مار مار کر بھگا دیا گیا۔ اب ہزاروں ’’مجاہدین‘‘ لمبے بال اور داڑھیاں صاف کرانے کے لیے منہ مانگے دام دے رہے تھے۔ ملکی اور غیر ملکی شدت پسندوں کے سینکڑوں ٹھکانے ختم کیے گئے۔ لاکھوں ایکڑ پاکستانی زمین جنگجوئوں سے واگزار کرائی گئی۔ آپریشن ضربِ عضب پاکستانی ریاست کی شدت پسندوں سے جنگ ہے۔ یہ ریاست کو تسلیم کرتے ہیں نہ ریاست کے آئین کو۔ ریاست کی مسلح افواج کو وہ کھلم کھلا دشمن نمبر ایک کہتے ہیں۔ یہ آپریشن ریاست کی رِٹ کا آپریشن ہے جیسا کہ ہر جنگ میں ہوتا ہے، اس میں بھی آبادی متاثر ہوئی۔ لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکلنا پڑا۔ متاثرین کو بنوں اور نواحی علاقوں میں رکھنے کے ہر ممکن انتظامات کیے گئے۔ تمام ممکنہ وسائل وقف کیے گئے۔ وزیر اعظم سے لیکر عمران خان تک اور سینئر ترین عسکری کمانڈروں سے لیکر پنجاب کے وزیر اعلیٰ تک ہر اہم شخصیت متاثرین کی خدمت میں بنفس نفیس حاضر ہوئی۔ انتظامات کے جائزے لیے گئے۔ کوتاہیوں کی نشاندہی اور تلافی کی گئی۔ تمام تکلیفوں کے باوجود متاثرین کو احساس ہے کہ یہ آپریشن انکے اور ان کے بچوں کے مستقبل کے لیے کیا گیا ہے۔ انکے گھروں پر چھائی ہوئی دہشت گردی کا صفایا کر کے انہیں دوبارہ سبز ہلالی پرچم تلے لایا جا رہا ہے! یہ ہے وہ آپریشن ضربِ عضب جسے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے مدارالمہام نے 23؍ نومبر کے دن لاہور کے جلسے میں ڈرامہ قراردیا۔ 24؍ نومبر کے تمام اخبارات میں جلی ترین سرخی ایک ہی تھی __ ’’آپریشن کا ڈرامہ ختم کر کے آئی ڈی پیز کو فوراً واپس گھروں کو بھیجا جائے۔‘‘ دوسری جنگ عظیم کے لیے مغربی پنجاب میں بھرتی شروع ہوئی۔ بوڑھے کسان نے کہ کھدر کے کرتے اور کھدر کے تہمد میں ملبوس تھا، پوچھا میرے بیٹے کو لام کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔ یہ لام وہ کس کے ساتھ لڑے گا۔ اسے بتایا گیا کہ جرمنی میں ایک شخص ہٹلر نامی ہے جس نے سارے یورپ میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ کسان رو پڑا ’’ہٹلر بہت سخت آدمی ہے۔ بیٹا بھی میرا سخت ہے۔ ان کا آمنا سامنا ہوا تو کیا ہو گا‘‘ اب پاکستانی ریاست اور مسلح افواج کے لیے یہ آسان مقام نہیں! ایک طرف شدت پسند ہیں اور دوسری طرف اس مذہبی سیاسی جماعت کے دبنگ رہنما۔ ہر طرف ڈاہڈے لوگ ہیں۔ اب تو یہ بھی اعلان ہو گیا ہے کہ مزدور کے بیٹے کو امیر بنایا گیا ہے۔ ادھر علامہ اقبال کو دیکھیے کہ ہرنازک موقع پر بول اٹھتے ہیں؎ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی تعجب نہیں اگر کسے اگلے جلسۂ عام میں کلامِ اقبال کو یا اقبال کے خواب کو بھی ڈرامہ قرار دے دیا جائے اور اس نکتۂ خطابت پر واہ واہ کے ڈونگرے بھی برسائے جائیں۔ بہرطور اب اس سیاپے کا حل ایک ہی ہے، الحمرا لاہور کے ڈرامہ ہال میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہو، ریاست کے زعما اور افواج کی کمان شریک ہوں۔ ڈرامے کے فن پر تحقیق کرنے والے سکالر اور اسٹیج پر ڈرامہ دکھانے والے فنکار بھی موجود ہوں۔ صدارت اس عہد ساز اجلاس کی حضرت صاحب ہی فرمائیں۔ اس میں یہ فیصلہ صادر کیا جائے کہ دنیا بھر میں ڈرامے کے موضوع پر جس قدر تصانیف ہیں، ان میں اس آپریشن کا ڈرامے کے طور پر اندراج کیا جائے۔ بس ایک ذرا سا کام اس عظیم الشان تاریخ شکن فیصلے سے پہلے کرنا ہو گا۔ آپریشن ضربِ عضب میں عساکرِ پاکستان کے جو سورما شہید ہوئے ہیں، اُن کے گھروں میں جانا ہو گا۔ ان کی مائیں قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہیں اور آنسو مقدس صفحات کو چوم رہے ہیں۔ ان کی بیوائیں صبر کی چٹانیں بنیں، دعائوں میں مصروف ہیں کہ شہیدوں کے بیٹوں کو بھی شہادت ہی کے راستے پر گامزن کریں۔ ان کے بوڑھے سفید ریش باپ لاٹھیاں ٹیکتے مسجدوں کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے پھول سے چہروں والے بچے، تمتماتے رخساروں کے ساتھ، ارضِ وطن پر قربان ہونے والے باپ پر فخر کر رہے ہیں۔ بس ذرا اِن شہداء کے پس ماندگان سے اس امر کی اجازت لینا ہو گی کہ جس معرکے میں ان کے پیارے شہید ہوئے ہیں، کیا آگ اور خون کے اس معرکے کو ڈرامہ قرار دے دیا جائے؟ بہ جرم عشق تو ام می کشند و غوغائی ست تو نیز بر لبِ بام آ کہ خوش تماشائی ست |
Sunday, November 23, 2014
ریاست ؟ کون سی ریاست ؟
عورت جوان تھی۔ اس کے شوہر کو ملازم نے مار ڈالا۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ گواہ پیش ہوئے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزم کو قتل کرتے خود دیکھا ہے۔ فیصلہ یہ صادر ہوا کہ گواہوں کو دو دو سال قید بامشقت اور نقد جرمانے کی سزا ہو۔ ملزم کو بری کردیا جائے۔ مستغیثہ کا جو بے چاری بیوہ ہوگئی ہے، نکاح ملزم سے کردیا جائے۔ جرمانے سے حاصل شدہ رقم سے نکاح کے اخراجات پورے کیے جائیں۔ رہے بچے، تو ملزم کو کیا پڑی ہے کہ انہیں رکھے اوران کی کفالت کرے چنانچہ بچوں کو یتیم خانے بھیج دیا جائے۔مقدمے کی یہ روداد مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی ایک کہانی میں لکھی ہے لیکن وقت وہ آن پڑا ہے کہ جو کچھ حکایات و لطائف میں ہوتا تھا آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور جو نہیں ہورہا، اسے ہونا چاہئے! انبالہ، پٹیالہ، یا اسی قبیل کی کسی ریاست کے بارے میں مشہور ہے کہ والی ریاست سے پوچھا گیا قاضی القضاۃ چھٹی پر چلے گئے ہیں ان کی جگہ کسی کو لگایا جائے۔ پوچھا، کوئی چھٹی کاٹ کر واپس بھی تو آیا ہوگا؟ عرض کیا، جی سرکار! چیف میڈیکل آفیسر آئے ہیں۔ حکم ہوا انہیں قاضی لگا دیا جائے۔ قاضی صاحب واپس آئے تو چیف انجینئر کی جگہ خالی تھی۔ چنانچہ انہیں وہاں ’’ایڈجسٹ‘‘ کردیا گیا ہے۔مرزا فرحت اللہ بیگ نے،جو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کہانی میں لکھا ہے کہ یہ تابناک فیصلہ قانون کے ایک طالب علم نے کمرہ امتحان میں سوالوں کے جواب لکھتے ہوئے صادر کیا تھا! مگر اب یہ طرز عدالت ہماری حقیقی دنیا پر نافذ کرنا پڑے گا۔ انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لئے اربوں کھربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ پھر بھی حالت یہ ہے کہ حکومت کی ناک کے عین نیچے سب کچھ ہورہا ہے۔ ایک ایسا گروہ ’’منکشف‘‘ ہوا ہے جس میں دو بھائی اور ماشاء اللہ والد محترم اور والدہ ماجدہ بنفس نفیس ملوث ہیں۔ پچھتر افراد سے ویزے کے نام پر کروڑوں روپے ہتھیائے گئے۔ اب یہ مقدمہ عدالت میں آئے تو اس کا فیصلہ اس طرح ہونا چاہئے کہ والد محترم اور والدہ ماجدہ کو تو حج پر بھیج دیا جائے جیسے اکبر نے بیرم خان سے جان چھڑانے کے لئے اسے بھیجا تھا۔ دونوں بھائیوں کو سرکار میں اعلیٰ عہدے دیے جائیں کہ جو کام چھپ کر کررہے تھے، ڈنکے کی چوٹ کریں سب سے زیادہ دردناک اور دلگداز معاملہ ان پچھتر بدنصیب افراد کا ہے جن سے رقم ہتھیائی گئی۔ ان سب کو زنداں میں بھیج دیا جائے۔ فانی نے کہا تھا فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتاہے کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا اس لئے کہ یہ پچھتر ’’ملزم‘‘ وحشی ہوں نہ ہوں، معاملہ یقیناً وہ ہے جسے سن کر ’’منہ سے ارتجالا‘‘ یا وحشت کا کلمہ نکلتا ہے۔ کس برتے پر انہوں نے یہ رقم ادا کی تھی؟ کیا یہ سیاہ بخت اس خیال میں تھے کہ ایک ریاست موجود ہے جس کے وہ شہری ہیں اور وہ ریاست ان کے مال کی، ان کے حقوق کی حفاظت کرے گی اور اس مال کو غصب اور ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو نشانہ عبرت بنا دے گی؟یہی لاعلمی تو ان کا سب سے بڑا قصور ہے، انہیں قید سے بھی سخت تر سزا دینی چاہئے۔ انہیں ابھی تک یہی نہیں معلوم کہ ریاست نام کی کسی شے کا یہاں وجود ہی نہیں!!ریاست؟ کون سی ریاست؟ اللہ کے بندو! ریاست ہوتی تو کیا سپریم کورٹ علی الاعلان یہ دہائی دیتی کہ .....’’سرکاری افسر اور پرائیویٹ لوگ مل کر ریاستی املاک لوٹ رہے ہیں‘‘ جی ہاں! ریاستی املاک! بالکل اسی طرح جیسے برصغیر کی تقسیم ہوئی تو مالک ہجرت کر گئے اور پیچھے ان کی املاک لوٹ لی گئیں! اب ریاست کی املاک لوٹی جارہی ہیں تو کوئی ہے جو سراغ لگائے ریاست کہاں ہجرت کر گئی ہے؟ریاست کا وجود ہوتا تو دارالحکومت وہ دارالحکومت نہ بنتا جہاں مرہٹے شاہی قلعے کی دیواروں کے عین نیچے چوتھ وصول کررہے ہیں۔ ریڈ زون کیا ہے؟ شاہی قلعہ ہی تو ہے! اس کے مشرق میں دس منٹ کی ڈرائیو پر غیر ملکیوں کی مسلح بستیاں آباد ہیں اس کے مغرب میں دس منٹ کی ڈرائیو پر ہر سیکٹر کے مرہٹے الگ الگ چوتھ وصول کررہے ہیں۔ مرہٹوں کا یہ گروہ کون ہے؟ یہ ایف ٹین کو لوٹتا ہے۔ یہ گروہ کیا کرتا ہے؟ یہ ایف الیون کا مالک ہے۔ یہ آئی ایٹ سے گاڑیاں اور افراد اٹھاتا ہے۔ چند گز پر مشتمل قطعہ زمین پانچ چھ یا آٹھ دس کروڑ میں خریدے۔ پھر پانی کے لئے زمین کھو دے۔ پھر گلی کی صفائی کا بندوبست کیجئے پھر حفاظت کے لئے گارڈ رکھے۔ یہ سب کچھ آپ خود کیجئے ٹیکس اس کے علاوہ دیجئے۔ اس پر بھی کوئی گمان رکھتا ہے کہ ریاست کا وجود ہے تو اسے پکڑ کر زنداں میں ڈالنے کے علاوہ کیا چارہ کار ہے؟ریاست ہوتی تو 2007ء میں آغاز ہونے والا دارالحکومتی ائرپورٹ سات سال بعد بھی پانی اور انفراسٹرکچر سے محروم نہ ہوتا اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی چیئر پرسن یہ نہ کہتی کہ 2035 ء تک ہی مکمل ہوگا! ریاست ہوتی تو وہ شاہراہ جس کا ایک حصہ دارالحکومت کے اندر ہے جس کے ایک طرف زیر تعمیر ائرپورٹ ہے اور جس کے دوسری طرف حساس ترین اور نازک ترین تنصیبات ہیں، منی وزیرستان نہ کہلاتی! ریاست کے ہجرت کرنے کا تازہ ترین ثبوت دیکھیے اور زار و قطار گریہ کرنے اور ہنس ہنس کر دہرا ہونے کے لئے تیار ہو جائے اور اس کا بھی فیصلہ کیجئے کہ کیا ہمیں فضا میں پرواز کرنے والے کرگسوں کی ضرورت ہے؟ یا ڈھانچے کو نوچ نوچ کر کھانے کے لئے ہم ان گدھوں میں خود کفیل ہیں جو پر نہیں مگر دو دو ٹانگیں رکھتے ہیں۔ یہ نومبر 2013ء کی بات ہے۔ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ لو کاسٹ ہائوسنگ سکیم بنائی جائے چنانچہ ’’اپنا گھر لمیٹڈ‘‘ کے نام سے ایک نئی کمپنی وجود میں لائی گئی۔ وزیر خزانہ، وزیر ہائوسنگ اور صوبائی نمائندوں پر مشتمل سٹیرنگ کمیٹی نے طے کیا کہ پانچ لاکھ مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ اس بات کو بھی رہنے دیجئے کہ کئی اور سرکاری ادارے اس کام کے لئے پہلے ہی موجود تھے، صرف یہ ذہن میں رکھیے کہ وزارت خزانہ نے قوم نو ید دی کہ حکومت عام آدمی کو لو کاسٹ گھر مہیا کرنے میں سنجیدہ ہے اور ایک ہفتے میں سفارشات مکمل ہو جائیں گی۔2014ء کا نومبر، دسمبر میں ڈھلنے والا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک سال میں کتنے مکان تعمیر ہو چکے ہوں گے؟ ایک لاکھ؟ پچاس ہزار 5 یا صرف دس ہزار؟ نہیں ایک بھی نہیں! اس لئے کہ نومبر 2013ء کے بعد اس کیس میں ریاست غائب ہوگئی ایک سال یعنی بارہ ماہ اور 366 دن گزر گئے؟ ’’اپنا گھر لمیٹڈ‘‘ کے بورڈ کا ایک اجلاس تک نہ ہوا اور اب مزید کرگسوں کو خوان یغمامہیا کرنے کے لئے کنسلٹنٹ ہائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے جو بزنس پلان ’’واضح‘‘ کریں گے اور ہاں ایک سال بعد وزیر صاحب نے اس سکیم پر ’’عملی کام‘‘ جلد شروع کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے، آخر اس ملک کے بھوکے بلکتے سسکتے عوام سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ منیر نیازی نے کہا تھا۔ ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے ایک صوت گنگ جیسے گنبدوں کے سامنے حیرت اس قدر حیرت کہ صوت گنگ ہو جاتی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو ہم پر اپنی دانش مسلط کرنا چاہتے ہیں ایک طرف ریاست عنقا ہے۔ دوسری طرف افلاطونوں اور جالینوسوں کا ایک غول ہے جو در پے ہے۔ دو دن پیشتر پیپلز پارٹی کا ایک نابغہ اٹھتا ہے اور قوم کو اتنی دھمکیاں دیتا ہے کہ ایک سانس میں اب تک کسی نے اتنا بڑا ریکارڈ قائم نہیں کیا ہوگا۔ دھمکیاں اور خوفناک دھمکیاں! ’’جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو وفاق نہیں رہے گا۔ ٹیکنوکریٹ حکومت آئی تو نظام نہیں چل سکے گا اٹھارہویں ترمیم ختم ہوئی تو ملک نہیں چل سکے گا‘‘۔ جو اٹھتا ہے ملک ٹوٹنے اور وفاق ٹوٹنے کی بدخبری دینے لگتا ہے کیا یہ ملک، یہ وفاق، تمہاری کمر ہے جو ٹوٹ جائے گی؟یہ ملک قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور انشاء اللہ قائم رہے گا۔ پھر دانش کی ایک اور لہر اٹھتی ہے ’’ملک میں نئے انتظامی یونٹوں کی ضرورت نہیں‘‘ تو پھر چار یونٹوں کی بھی کیا ضرورت ہے، پھر سے ون یونٹ بنا دیجیے اور جن ملکوں میں بیس میں تیس تیس انتظامی یونٹ ہیں انہیں ہذیان کا سرٹیفکیٹ بھجوا دیجئے۔ پھر ایک عبقری مسلم لیگ نون کا اٹھتا ہے اور علم سیاسیات میں انقلاب برپا کردیتا ہے۔ ’’فلاں اور فلاں ماضی میں ہماری جماعت میں نہیں تھے۔ چھوڑ کر ن لیگ میں آئے تو انہیں لوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا! ہاں اگر اب کہیں جائیں تو انہیں لوٹا کہا جائے گا! ایک طرف بے کس عوام، دوسری طرف دانش کے یہ پہاڑ۔ اے خاصہ خاصان رسل! وقت دعا ہے!! |
Thursday, November 20, 2014
بند دروازہ اور اس پر پڑا قفل
SMS: #IHC(space) message & send to 8001 haq@izharulhaq.net قدرت اللہ شہاب ہماری ادبی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ بہت کچھ اس حوالے سے لکھا گیا اور بہت کچھ سامنے آنے کا منتظر ہے۔ کچھ اہم حصے اس داستان کے جناب جمیل الدین عالی کے سینے میں محفوظ ہیں۔ خدا انہیں وقت اور صحت دئیے رکھے کہ وہ یہ کام کر ڈالیں۔شہاب صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ادیبوں کو ایک تنظیم میں پرونا تھا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کے زیر سایہ بنی۔ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی وہی تھے۔ آدم جی ادبی ایوارڈ جیسے انعامات قائم کئے جو ایک عرصہ تک وقیع رہے اور باعزت بھی! اس سارے قصے میں قدرت اللہ شہاب کا ایک ممتاز کارنامہ ادبی پیش منظر پرجعفر طاہر کی آمد تھی، اگر یہ کہا جائے کہ جعفر طاہر شہاب صاحب ہی کی دریافت تھے تو شاید غلط نہ ہو ۔جعفر طاہر فوج کے شعبہ تعلیم میں ایک عام سی سطح پر کام کررہے تھے مگر کمال کے شاعر تھے! کلام پر حیرت انگیز قدرت تھی۔ لغت سامنے دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔ عالم اسلام کی تاریخ پر گہری نظر تھی۔ ’’ہفت کشور‘‘ کے نام سے معرکے کی کتاب لکھی جس کی نظیر کم از کم اردو ادب میں نہیں ہے۔ اس میں سات مسلمان ملکوں (پاکستان، سعودی عرب، مصر، الجزائر، ترکی، عراق، ایران) کا منظوم احوال ہے۔ احوال کیا ہے ایک طلسم ہے جو اول سے آخر تک چھایا ہوا ہے۔ کتاب پر، پڑھنے والے پراوران ملکوں پر ،تاریخ بھی ہے، کلچر بھی ہے، عالمی سیاست بھی اور مستقبل کے خواب بھی۔ ہئیت کے لحاظ سے جعفر طاہر نے اس ایک کتاب میں جتنے خوشگوار تجربے کئے ہیں پورے عہد میں نہیں ہوئے۔ کینٹو بھی ہیں، گیت بھی، نظمیں بھی، غزلیں بھی، منظوم ڈرامے بھی، بحور کے عجائبات بھی ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک نظم کی ایک سطر دیکھئے۔ گل و گلزار کے اورنگ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلہ گنگ کی بہتی ہوئی لے انتساب قدرت اللہ شہاب کے نام کیا اور ساتھ کیا خوبصورت اورمعنی خیز مصرع لکھا آں مہرباں کہ آبرئوے ہفت کشور است! لیکن یہ سب آج کی تحریر کا اصل موضوع نہیں۔ ماتم اور ہے، جعفر طاہر شاعر تو باکمال تھے تاہم روزمرہ زندگی کے معاملات میں شہرت قابل رشک نہ تھی۔ وعدے کے پکے نہ تھے، قلابے زمین و آسمان کے ملاتے تھے اور برآمد کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، روایت ہے کہ ایک بار جب وہ مری میں تعینات تھے ،کچھ ادیب شاعر کسی سلسلے میں وہاں جمع ہوئے جعفر طاہر نے کھانے کی دعوت دی۔ ایک دن مقرر کیا ،سب کو اپنے گھر تشریف آوری کے لئے کہا اور ماحضر کی تفصیل اس وقت بتادی کہ اشتیاق پیدا ہو اور حاضری بھرپور ہو۔ مہمانوں کو بتایا کہ وہ ہرن کو سالم روسٹ کروا رہے ہیں۔ اس کے اندر بکری کا بچہ ہوگا۔ اس کے اندر مرغ ہوگا اس کے اندر بیضہ ہائے مرغ بریاں کئے ہوئے ہوں گے۔ پلائو اور خشک میوہ جات بھی ہرن کے اندر سے نکلیں گے۔ ادیبوں، شاعروں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ دعوت سے پہلے دو یا تین جتنے بھی دن تھے ، کھانے کی تفصیلات کے تذکرے ہوتے رہے۔ شوق کو مہمیز لگتی رہی۔ اشتہا بڑھتی رہی، گھر کا ایڈریس پوچھا جاتا رہا۔ طے ہوتا رہا کہ کس نے کس کے ہمراہ پہنچنا ہے اور کس نے کس وقت کس کا انتظار کرنا ہے۔ آخر مقررہ دن مقررہ وقت پر معزز مہمانوں کا یہ قافلہ چلا اور میزبان کے عشرت کدے پر پہنچا۔ افسوس! دروازہ مقفل تھا، میزبان کا کچھ پتہ نہ تھا۔ کیا منظر تھا! تصور کیجئے۔ دلوں میں سالم روسٹ ہرن، بکری کے بچے، مرغ بریاں انڈوں، پلائو اور خشک میوہ جات کے خواب لئے، قابل رحم، معصوم مہمان خواہش اور حسرت کے ساتھ گلی میں کھڑے ہیں اور سامنے کیا ہے، ایک بند دروازہ اور اس پر پڑا ہوا قفل! بالکل یہی حال آج کل ہم ا ہل پاکستان کا ہے۔ خوابوں کی وسیع و عریض دنیا ہے جس میں پرستان ہیں اور دلکش پھولوں اور رنگین پرندوں سے چھلکتے باغ، تاحد نظر مخمل کا فرش، رواں پانی کی نہریں، اڑتے بادلوں اور سنہری دھوپ سے بھرے موسم، کیسی کیسی دلکش آوازیں ہیں جو سماعتوں سے ٹکرارہی ہیں۔ ہم عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم ستائیسویں کو وجود میں آئے تھے۔ بال بھی کوئی نہیں بیکا کرسکتا۔ ہم اسلام کا قلعہ ہیں ، ہم عالم اسلام کے رہنما ہیں۔ کارواں سارے ہماری رہنمائی کے اور سفینے تمام ہماری ناخدائی کے محتاج ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ہم سنگ میل ہیں۔ ہم ہی نشان منزل ہیں، چیچنیا ہو یا فلسطین سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں کہ کب ہم بزن کا نعرہ لگاتے ہیں اور دنیا ہماری پیروی کرتی ہے۔ وائٹ ہائوس پر پرچم ہم نے لہرانا ہے اور بس وہ وقت اب قریب ہے! ہمارے خوابوں کی وسیع و عریض سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا لیکن افسوس! آنکھ کھلتی ہے تو سامنے بند دروازہ ہے اور اس پر پڑا قفل! تھر کے صحرا میں بلکتے بچے ہیں اور تعداد میں بڑھتی قبریں، سرحدوں کی طرف ہجرتیں کرتے اقلیتوں کے ارکان، مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں سے نشر ہونے والے احکام کہ مار ڈالو، زندہ جلا دو لاشوں کو گھسیٹو۔ ہر لحظہ بڑھتی آبادی اور ہر آن گھٹتی شرح خواندگی! وائٹ ہائوس پر جھنڈا لہرانے کے خواب دیکھنے والی قوم سات عشروں میں وزیرستان، سوات اور فاٹا کے علاقوں کو ایک یونیورسٹی، ایک کارخانہ نہ دے پائی! اسلام کا قلعہ ہونے کا مدعی یہ ملک سڑسٹھ سالوں میں ایسا نظام تعلیم نہ وضع کرسکا کہ یونیورسٹیوں کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ قرآن کی آیات کا مفہوم اخذ کرسکیں! اکثریت کو پانچ وقت پڑھی جانے والی نماز کا مطلب تک نہیں معلوم! دنیائے اسلام کی فکری اور عسکری رہنمائی کا دعویٰ کرنے والی یہ قوم، ہزاروں مدارس میں پڑے ہوئے لاکھوں بچوں کو جو لعل و جواہر سے کم نہیں، آج تک چندے اور چٹائی سے اوپر نہیں اٹھا سکی۔ جس ملک میں عدلیہ کی بحالی کے لئے عصر رواں کی عظیم ترین تحریک چلی اسی ملک میں بیٹیوں، بہنوں، مائوں اور بیویوں کی زندگیاں پنچائیت اور جرگے کے فرمان پر اٹکی اور لٹکی ہوئی ہیں۔ سات سمندر پار حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی اپنی بیٹیاں گلیوں میں آئے دن برہنہ پھرائی جارہی ہیں۔ وحدت ملت کے نعرے رات دن لگانے والے خود نصف درجن قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں یوں کہ سب باہم برسرپیکار ہیں۔ دکانوں کی پیشانیوں پر آیات اور درود پاک آویزاں اور اندر ملاوٹ اور جعل سازی کی شاہکار اجناس۔ دوا سے لے کر غذا تک سامان ہلاکت بکھرا پڑا ہے۔ اندر ٹیکس بچانے کے لئے دہرے دہرے رجسٹر اور باہر شاہراہ سے لے کر فٹ پاتھ تک ناروا تجاوزات اور صدقے اور خیرات! فتح اللہ گولن نے فتویٰ دیا ہے کہ ’’فزکس ریاضی اور کیمسٹری کے علوم حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔‘‘ گولن نے یہ فتویٰ آج دیا ہے ایک فتویٰ نوے برس قبل برصغیر میں بھی دیا گیا تھا۔ سید سلیمان ندوی نے 1925ء میں کہا تھا ..... ’’علما ء پر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہوگیا ہے۔‘‘ فزکس کیمسٹری اور ریاضی کے علوم تو دور کی بات ہے، ابھی تک یہاں ’’غیر اسلامی‘‘ زبانوں کی حلت و حرمت ہی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ وحدت ملت! کون سی وحدت؟ قوم خود دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک گروہ فزکس ریاضی اور سائنس انگریزی زبان میں پڑھ رہا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہی پڑھائی عبادت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دوسرا گروہ پہلے گروہ ہی کا منکر ہے اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے خائف۔ خواب اور دعوے اور نعرے .... اور سامنے بند دروازہ اوراس پر پڑا قفل!! | ||
Print Version Back |
Monday, November 17, 2014
مدعی سست
سچی بات یہ ہے کہ
پطرس کے بعد اردو مزاح نگاری میں جو مقام شفیق الرحمن کا ہے وہ شاید ہی کسی اور کو
نصیب ہو! شفیق الرحمن صاحب کی ایک تو افتاد طبع ایسی تھی کہ وہ تقاریب سے پرہیز کرتے
تھے۔ جن دنوں اکادمی ادبیات کے سربراہ تھے‘
بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں کیلئے جو فنکشن منعقد ہوتے تھے، ان میں کچھ گفتگو
کرتے تھے ورنہ نہیں! دوسرے اس زمانے میں ٹیلی ویژن کی دنیا سرکاری پردۂ سیمیں تک محدود
تھی۔ ابھی یہ رواج نہیں پڑا تھا کہ ٹیلی ویژن والے ادیبوں کو دعوت دیں، وہ اپنے شاہکار
پڑھ کر سنائیں‘ انہیں نشر کیا جائے اور لوگ دیکھیں بھی اور سنیں بھی۔ شفیق الرحمن صاحب
نے اپنی تحریروں کو ثقیل حد تک مفرس (Persianised) کیا‘ نہ آورد اور تصنع کو نزدیک آنے دیا۔
نہ ہی ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے، رخساروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر کانوں کی طرف کھینچنا
پڑتا ہے کہ ہنسی کا تاثر قائم ہو۔ مارچ 2000ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو یہ قلم کار
لاہور میں سٹاف کالج ’’کر‘‘ رہا تھا۔ پورے گروپ میں الحمدللہ کوئی رفیق کار ایسا نہیں
تھا کہ اس کی ہم نشینی میں غم بٹ سکتا۔ ’’نیلی جھیل‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور تنہائی
میں بیٹھ کر انہیں یاد کیا۔
شفیق الرحمن ایک
کہانی میں ایک ترقی پسند دانشور کا ذکر کرتے ہیں جو طبقاتی کشمکش کو نظام عالم کا مرکزی
نکتہ قرار دیتا ہے۔ وہ پسے ہوئے طبقوں کا رونا روتا ہے اور کارخانہ داروں کو غاصب سمجھتا
ہے۔ بندئہ مزدور کے تلخ اوقات خلق خدا کو دکھانے کیلئے مزدور کا انٹرویو لیتا ہے، تاہم
انٹرویو ریورس گیئر میں چل پڑتا ہے۔ مزدور سے سوال کرتا ہے کہ جب تم ایک لحیم شحیم
فربہ شخص کو جہازی سائز کی کار میں بیٹھا دیکھتے ہو تو تمہارا خون کھول اٹھتا ہوگا۔
ایسے میں تم کیا محسوس کرتے ہو؟ مزدور جواب دیتا ہے کہ خون کھولنے کی اس میں کوئی بات
نہیں۔ کار اس کی اپنی ہے اور اس کی قیمت ادا کی ہے۔ پھر وہ مزدور سے اس کے صبح و شام
تک کی قابل رحم مشقت کی تفصیل پوچھتا ہے۔ لیکن مزدور جو روٹین بتاتا ہے وہ دردناک ہرگز
نہیں۔ صبح اٹھ کر وہ ڈنٹر پیلتا ہے، ورزش کرتا ہے اور کھاتا پیتا ہے! شام کو سیر کرتا
ہے ۔ دن کو تھوڑی بہت مزدوری بھی کرلیتا ہے!!
یہ سارا تذکرہ بلا
سبب نہیں! پنجاب کے ’’کارخانہ دار‘‘ وزیراعلیٰ کے ’’استحصالی‘‘ رویہ کے مقابلے میں
تین چھوٹے صوبوں کے ’’مزدور‘‘ وزرائے اعلیٰ کی کہانی بالکل یہی ہے۔ سب سے بڑے صوبے
کے وزیراعلیٰ کا جو عمل دخل وفاقی معاملات میں خاص کر امور خارجہ میں، توازن کی حد
پار کر رہا ہے، اس پر اکثر کالم نگاروں! تجزیہ کاروں اور اداریہ نویسوں نے اپنے خیالات
کا اظہار کیا ہے۔ ایک معروف تجزیہ کار پروفیسر صاحب نے تو ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام
میں باقاعدہ دہائی دی کہ ملک کے اس وقت تین وزرائے خارجہ ہیں جن میں سرفہرست خادم اعلیٰ
ہیں۔ وزیراعظم بیرونی دوروں پر جائیں یا دوسرے ممالک کے حکمران ہمارے ہاں آئیں، پیش
منظر پر چھوٹے میاں صاحب چھائے رہتے ہیں۔ تاہم یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ باقی تین صوبوں
کے وزرائے اعلیٰ کا اس ضمن میں اپنا رویہ کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مدعی سست گواہ
چست؟ رشتہ دار وزیراعلیٰ کے ’’سرمایہ دارانہ‘‘ شب و روز دیکھ کر ان ’’مزدوروں‘‘ کو
غصہ آتا ہے نہ دھیان احتجاج کی طرف جاتا ہے۔ وہ تو مزے سے ڈنٹر پیل رہے ہیں، بیٹھکیں
نکال رہے ہیں، پارکوں اور باغوں میں سیر کر رہے ہیں۔ اچھے کھانے کھا رہے ہیں۔ پنجاب
کا وزیراعلیٰ جو کچھ حاصل کر رہا ہے، اس کی اپنی محنت ہے!!
افغان صدر کے حالیہ
دورے پر بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ نے جو کچھ کہا ہے‘ اس پر بھی اگر چھوٹے صوبوں کے حکمران
ردعمل نہیں دکھاتے تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر یہ تینوں وزرائے
اعلیٰ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو جس صوبے کا وزیراعلیٰ متحرک ہے‘ اسے نمایاں ہونے سے
کیوں اور کیسے روکا جائے؟
شہباز شریف نے اسلام
آباد میں افغان صدر سے ملاقات کی۔’’دوطرفہ‘‘ دوستانہ تعلقات اور قریبی باہمی تعاون
کے پہلوئوں پر تبادلۂ خیال ہوا۔ وزیراعلیٰ نے ’’دوطرفہ‘‘ تجارت کی بات کی۔ انہوں نے
کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط قریبی تعلقات ضروری ہیں۔ دونوں ممالک
کو سکیورٹی کے مسائل حل کرنا ہونگے۔ خبر کا آخری حصہ دلچسپ ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ
’’پنجاب اور کابل‘‘ کے درمیان تجارت ، سروسز، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں تعاون
بڑھانے کی گنجائش موجود ہے اور اس مقصد کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں گے۔ افغان صدر
نے وزیراعلیٰ پنجاب کو کابل کے دورے کی دعوت دی جو قبول کرلی گئی۔
گویا افغانستان کی
طرح پنجاب بھی الگ ملک ہے اور وزیراعلیٰ کابل سے معاملات اس طرح طے کر رہے ہیں جیسے
دو ملک طے کرتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور اگر ہے اور قابل اعتراض نہیں ہے تو خیبر
پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کہاں ہیں؟ ان دونوں صوبوں کی تو طویل سرحدیں
بھی افغانستان کے ساتھ مشترک ہیں۔ یہ دونوں صوبے افغانستان اور ایران کے ساتھ کئی شعبوں
میں اشتراک کرسکتے ہیں۔ کیا انہوں نے کوئی پیش قدمی کی؟ کوئی
initiative لیا؟
وفاقی حکومت سے شکوہ تب کیا جائے جب ان وزرائے اعلیٰ کو کسی پیش رفت سے روکا گیا ہو۔
یہ حضرات اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی دوسرے صوبے کے مقابلے میں اچھا سلوک نہیں
کیا جا رہا تو انہوں نے احتجاج کب کیا ہے؟
رہے وزیراعلیٰ سندھ،
تو ان کی ترجیح صوبہ چلانا نہیں، وزارت اعلیٰ بچانا ہے۔ سندھ سے باہر، وفاق کی طرف
یا سرحد پار وہ تب دیکھیں جب خواب استراحت سے بیدار ہوں۔ کیا خبر ان سے اگر پوچھا جائے
کہ سندھ کی سرحد بھارت کی کن ریاستوں سے ملتی ہے تو وہ آسام یا جھاڑکھنڈ کا نام لیں۔
یوں بھی سندھ کا صوبہ چلانے والوں میں ان کا نام اہمیت کے اعتبار سے نویں یا دسویں
نمبر پر آتا ہے۔
Saturday, November 15, 2014
پیرِمغاں
وزیر باتدبیر نے درست کہا کہ اللہ نے نوازشریف کو عزت دی ہے۔
یہ عزت پاکستان کی بدولت ہے۔ جو بھی پاکستان کا حکمران ہوگا وہ اس حوالے سے ہمارے لیے قابل عزت ہوگا کہ ہمارے ملک کا حکمران ہے۔ بھارت کئی گنا بڑا ملک ہے مگر ہم اس کے حکمران کی اتنی تکریم نہیں کرتے ۔اپنے ملک کی عزت اور محبت ہمارے دلوں میں ہے۔ اسی رشتے سے اس کا وزیراعظم ہمارے لیے معزز ہے۔
یہ عزت جنرل پرویز مشرف کو بھی ملی۔ پھر قسامِ ازل نے یہ عزت آصف زرداری کو بخشی۔ بطور آصف زرداری ان کی جو بھی شہرت تھی، وہ الگ قصہ ہے۔ لیکن جب تک وہ پاکستان کے صدر تھے، ملک کے حوالے سے اہل وطن کی تکریم کے سزا وار تھے۔
یہ اور بات کہ عزت اللہ ، اس کے رسول ؐ اور مسلمانوں کے لیے ہے۔ عزت دینے والا بھی خدائے قدوس ہے اور نہ دینے والی یا دے کر واپس لے لینے والی ذات بھی وہی ہے۔
تو کیا عزت اقتدار سے عبارت ہے؟ یا عزت وہ ہے جو دلوں میں ہو اورفرشتے کسی کے لیے ، جس کے بارے میں حکم ہو، فضا میں عام کردیں؟
اگر کوئی حکمران یہ سمجھے کہ چونکہ وہ معزز ہے اس لیے حکمران ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ ہر آمر یہی سمجھتا ہے کہ وہ مامور من اللہ ہے اور معزز ہے۔ سفید فام اقوام غالب ہوئیں تو دعویٰ کیا کہ وحشیوں اور بدتہذیبوں کو مہذب کرنے کے لیے انہیں ’’مقرر‘‘ کیاگیا ہے اور یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ فرعون نے معزز ہونے کے ساتھ خدائی کا دعویٰ بھی کردیا۔ ابو الفضل اور فیضی کی تصانیف پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اتنا علم اور پھر اتنی پستی کہ بادشاہ کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے نعوذ باللہ دنیا اسی نے بنائی تھی! کیلنڈر تک بند کرکے طاق پر رکھ دیے گئے۔ مہینوں ، برسوں کا حساب تخت نشینی کے حوالے سے ہونے لگا کہ فلاں واقعہ اکبر کے بادشاہ بن جانے کے اتنے سال بعد ہوا اور فلاں کی موت ’’ جلوس‘‘ (یعنی تخت نشینی) کے اتنے ماہ بعد ہوئی۔ اس سے زیادہ ’’عزت‘‘ کیا ہو کہ جہاں پناہ کے حضور سجدہ ریزی بھی ہو او رتقویم بھی دست بستہ کھڑی ہو!!
لیکن کیا واقعی یہ عزت تھی؟ کیا ہم یہ کہیں کہ اللہ نے آمروں اور خدائی کے دعویداروں کو عزت دی؟ آخر معیار کیا ہوگا؟ ہمارے حکمرانوں کے مقابلے میں ، کرۂ ارض کے طاقت ور ترین ملک نے بھارتی حکمران کی زیادہ آئو بھگت کی۔ تو پھر کیا مودی کو زیادہ عزت بخشی گئی ہے ؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ حافظ شیراز نے کہا تھا ؎
مشکلِ خویش برِ پیر مغان بردم دوش
کو بتائیدِنظر، حلِ معما می کرد
کل میں اپنی مشکل پیرمغاں کے پاس لے گیا۔ اس لیے کہ وہ تائید نظر کے ساتھ مسئلہ حل کردیتا تھا۔
دیدمش خرم و خندان، قدحِ بادہ بدست
واندران آئنہ، صد گونہ تماشا می کرد
میں نے اسے ہاتھ میں شراب کا پیالہ پکڑے خوش اور ہنستا ہوا پایا۔ پیالہ کیا تھا، آئینہ تھا اور وہ اس میں سینکڑوں چیزیں دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔
گفتم این جام جہان بین بتو کی داد حکیم؟
گفت آن روز کہ این گنبد مینا می کرد
پوچھا،یہ جام، جس میں تو دنیا بھر کو دیکھ رہا ہے، تجھے کب عطا ہوا؟ کہنے لگا، یہ تو اسی روز مل گیا تھا جس روز یہ گنبد مینا(آسمان) بن رہا تھا!
حافظ شیراز نے تو اپنے پیرمغاں کا تذکرہ کیا۔ چھ دن پہلے پوری قوم نے اپنے پیرمغاں کا دن منایا۔ تقریریں ہوئیں، تقاریب کا انعقاد ہوا۔ پرنٹ میڈیا میں مضامین چھپے، ٹیلی ویژن چینلوں پر نظمیں اور غزلیں گائی گئیں؛ تاہم جو مجموعی رویہ ہمارے پیرمغاں کے ضمن میں ہے اس کا ذکر ضمیر جعفری (کہ ان کے بعد مزاحیہ شاعری نے ہم سے منہ موڑ لیا) سے بہتر کسی نے نہیں کیا ؎
بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں، وہ قوال کرتے ہیں
فیصل آباد میں 9نومبر کے دن تعلیم یافتہ اصحاب کے ایک بڑے اجتماع میں پوچھا۔ جاوید نامہ (اصل یا ترجمہ) کس کس نے پڑھا ہے؟ جواب نے،جو سچا تھا، اداس کردیا۔ یاس میں ڈوبی ہوئی اداسی !! تفصیل پھر کبھی !
پیرمغاں سے پوچھا عزت کا حدود اربعہ کیا ہے؟ جیسے خلافت ہی کی بات لے لیجیے، خلافت انہیں بھی ملی تھی جنہوں نے جاگیریں ہڑپ کرلیں اور اس عمر بن عبدالعزیز کو بھی ملی تھی جس نے جاگیریں واپس کردی تھیں۔ تو کیا دونوں معزز تھے ؟ پیرمغاں نے ہاتھ سے پکڑا اور اپنے پیر، پیر رومی کے پاس لے گیا۔ رومی نے ایک لمحے کے لیے توجہ دی۔ صرف ایک لمحے کے لیے… لیکن کیا لمحہ تھا! اس لمحے میں زمانے ہمارے قدموں میں بیٹھ گئے۔ جہانوں نے اپنے آپ کو سمیٹا اور سرنگوں ہوگئے۔ کیا ادائے استغنیٰ تھی جس کے ساتھ پیر رومی گویاہوا۔ بدنصیبی کہ گویا ہوتے وقت اس کی نظر ہم پر نہیں تھی۔ وہ تو خلا میں دیکھ رہا تھا، ان منظروں کو جو اسے دکھائی دے رہے تھے اور جنہیں دیکھنے سے ہم قاصر تھے۔ بخت نے یاوری کی ہوتی تو ایک ایسی نگاہ ہم پر بھی پڑجاتی جیسی شمس تبریز نے رومی پر ڈالی تھی ! ؎
یک زمانہ صحبتِ با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بی ریا
لیکن توقف کیجیے۔ ایک لحظہ توقف۔ اردگرد دیکھیے ! جو ’’ روحانیت‘‘ آج اہل وطن کے درپے ہے۔ اس اعتبار سے تو اقبال پیر مغاں ہے نہ رومی مرشد ! دکانداری نہ کتاب فروشی ! مجمع بازی نہ روحانیت اور فقیری کے نام پر استحصال۔ کسی کے ماضی کو برہنہ کرنا نہ کسی کے مستقبل میں جھانکنا !!
کیا ادائے استغنیٰ تھی جس کے ساتھ پیر رومی گویا ہوا ؎
بال بازان را سوئی سلطان برد
بال زاغان را بگورستان برد
پھر ایک دھند چھاگئی۔ چھٹی تو پیر رومی غائب تھا۔ ہاں ایک خوشبو تھی جو چاروں طرف رقص کررہی تھی۔
عقاب ہو یا کوا، بال وپر تو وہی ہوتے ہیں۔ دونوں کے پاس ایک سے بال وپر! یہ اور بات کہ وہی بال وپر کوے کوقبرستان لے آتے ہیں! وہی خلافت جو ایک کو نیک نامی کی قبا قیامت تک پہنا دیتی ہے، وہی دوسرے کو ذم اور نفرت کے انبار تلے دفن کردیتی ہے۔ حکمرانی تو وہی ہے جو محمد علی جناح کے پاس تھی لیکن محمد علی جناح نے بیت المال کی ایک ایک پائی کو قوم کی امانت سمجھا۔ بستر مرگ سے بھی پسند کے باورچی کو واپس بھجوا دیا۔ جورابیں مہنگی لگیں تو لوٹا دیں۔ کابینہ کی میٹنگ میں چائے رکھنے کی اجازت نہ دی۔ وہی حکمرانی نوازشریف اور آصف علی زرداری کو ملی، جنہوں نے اندرون ملک اور دساور میں جائیدادیں، پائونڈ اور ڈالر جمع کرنے کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے !
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
اشکال یہاں یہ ہے کہ فن خوشامد میں یکتائی حاصل کرنے والے شہرت کو بھی عزت سمجھ لیتے ہیں!!
Wednesday, November 12, 2014
مٹی
سفید فام یورپی شمالی امریکہ پہنچے تو ریڈ انڈین آبادی کے پاس انہوں نے ایک عجیب ہتھیاردیکھا۔ یہ اس شے سے ملتا جلتا تھا جسے ہمارے ہاں کلہاڑی کہتے ہیں‘ لیکن لکڑی کا ڈنڈا چھوٹا ہوتا تھا تاکہ اسے دشمن پر دور سے پھینکابھی جاسکے۔ لوہے کے استعمال سے ریڈ انڈین ناآشنا تھے۔ پتھر کو تیز دھار کرکے ڈنڈے کے سرے پر پھنسایا جاتا تھا۔ پتھر کے اوپر خشک چمڑا چڑھا دیا جاتا تھا۔ اس سے گوشت بھی کاٹا جاتا تھا اور دشمن کا گلا بھی۔ ایک خاص سٹائل سے دشمن پر پھینکا بھی جاسکتا تھا۔ اسے ٹوماہاک کہا جاتا تھا۔
یورپ سے آبادی کا طوفان امریکہ اور کینیڈا کے ساحلوں پر اترا تو لوہا بھی آگیا۔ آنے والوں نے ریڈ انڈین لوگوں کو پتھر کے بجائے لوہے کے تیز دھار بلیڈ والے ٹوما ہاک بنانے سکھائے۔ شروع شروع میں ریڈ انڈین قبیلوں کے سرداروں کو یہ تحفے میں دیا جاتا تھا تاکہ ’’ سفارتی‘‘ تعلقات خوشگوار رہیں۔ پھر لوہے کے مہلک ٹوما ہاک عام ہوگئے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں امریکیوں نے برطانوی آقائوں کے خلاف جنگ آزادی کا پرچم بلند کیا تو برطانیہ نے اپنے فوجیوں کو دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ ٹوما ہاک بھی فراہم کیے۔
بھارت کا کوئی مسلمان پاکستان کے وجود پر حملہ کرے تو یہ کالم نگار اسے ٹوما ہاک کہتا ہے‘ اس لیے کہ جس طرح ٹوما ہاک کی جدید شکل یورپی آباد کاروں کی مرہون منت ہے اور ریڈ انڈین کے اپنے فرسودہ ہتھیار سے قطعاً مختلف ہے، اسی طرح بھارتی مسلمان کا پاکستان پر نظریاتی حملہ ہندو آقائوں کی روایت ہے جسے کچھ (تمام نہیں) بھارتی مسلمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ کچھ بھارتی مسلمان یہ ٹوما ہاک جس پر لوہے کا بلیڈ ہندوئوں نے نصب کیا ہے‘ پاکستان پر اس لیے پھینکتے ہیں کہ بھارتی حکمران خوش ہوجائیں، بعض احساس کمتری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تاکہ انہیں وفادار شہری سمجھا جائے‘ کچھ اس لیے بھی ایسے حملے اچھل اچھل کر کرتے ہیں کہ ان کے اذہان ابھی تک گاندھی اور نہرو کے ’’ متحدہ ہندوستان‘‘ کے فلسفہ میں اٹکے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین ٹوما ہاک ایک بھارتی پروفیسر نے پھینکا ہے۔ دلچسپ پہلو اس حملے کا یہ ہے کہ یہ صاحب پاکستان میں آئے ہوئے تھے اور پاکستان کے مہمان تھے۔ پہلے تو یہ کہا کہ ’’ لوٹوں گا تو یہاں (یعنی پاکستان میں) ہونے والی پزیرائی اور محبت کا تذکرہ کروں گا۔ مجھے ہر قدم پر محبت ملی، مجھے تو نہیں لگتا کہ میں دشمن ملک میں ہوں۔‘‘ اس کے بعد قیام پاکستان کے بارے میں کہا …’’ یہ غلط فیصلہ تھا جس کا خمیازہ بھارتی مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ میرے نزدیک یہ بڑا سانحہ تھا۔ ہم تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں بدل گئے۔ البتہ وہاں کا مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتا۔‘‘
اب یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تقسیم کے فیصلے سے اختلاف کرنا کفر نہیں۔ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق ہے بشرطیکہ رائے کے اظہار میں شائستگی بھی نظر آرہی ہو۔ اگر کوئی پاکستانی پاکستان میں بیٹھ کر اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان غلط بنا تو ہم اسے برداشت کریں گے۔ اپنی بات دلائل سے نرم لہجے میں کریں گے۔ اگر کوئی بھارتی بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کی مخالفت کرتا ہے تو کرتا رہے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم تو کپڑے سمیٹ لیتے ہیں تاکہ گندے پانی کے چھینٹوں سے محفوظ رہیں‘ لیکن جس طرح کسی پاکستانی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ بھارت جاکر پاکستان کے خلاف زہر اگلے ، اسی طرح کسی بھارتی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان آئے، مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو، پزیرائی کی تعریف کرے اور ساتھ ہی ایک تیز دھار ٹوماہاک پاکستان پر اور پاکستانیوں پر پھینک دے ۔ اللہ کے بندے! اگر تم میں شائستگی ہوتی اور رکھ رکھائو ہوتا اورذہن صحت مند ہوتا اور تربیت میں نجابت کا عمل دخل ہوتا، تو تم جس سانس میں میزبان کی تعریف کررہے تھے، کم از کم اسی سانس میں لمبے ناخنوں والا پنجہ میزبان کے چہرے پر نہ مارتے!
یہ بھارتی پروفیسر، جو بقول اس کے لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کو ’’ سنوارتا سجاتا‘‘ رہا اور تحقیق کرنے والوں کی بزعم خود سرپرستی کرتا رہا، کراچی کے ایک نام نہاد ثقافتی ادارے کی دعوت پر پاکستان آیا۔ نام اس کا اس لیے نہیں لکھا جارہا کہ اس کی انا کو گنے کا رس مفت میں نہ مل جائے۔ پاکستان کو برا بھلا کہنے والے ان اُجرتی پروفیسروں کا آئیڈیل بھی پاکستان ہی ہے۔ نام چھپ جائے تو سینہ تان کر دکھاتے پھرتے ہیں کہ پاکستان میں نام چمکا ہے ! ع
بدنام جو ہوں گے تو بھلا نام نہ ہوگا؟
ہمارے ساحلی شہر میں واقع یہ ادارہ اکثر و بیشتر، یا غالباً سالانہ ، اردو کانفرنسیں منعقد کرتا ہے۔ پاکستانیوں کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کا خوشگوار فریضہ تو اس ادارے نے اپنے سر لے ہی رکھا ہے کہ کون ادیب ہے اور کون نہیں ، لیکن لگتا ہے کہ بھارتیوں کو بلانے کا فیصلہ یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ کس کے پاس زیادہ تیز دھار والا ٹوماہاک ہے اور کون یہاں آکر اسے پاکستان پر پھینکے گا!! یہ اور بات کہ الحمد للہ پاکستان کو ان ’’ محبان و طن‘‘ کی اذیت بخش حرکتوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ہاں ! اس حاطب اللیل گروہ کو ظفر اقبال کی زبان میں یہ مشورہ ضرور دیاجانا چاہیے ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اڑا اور بہت
اب کچھ بات ان ’’ دلائل ‘‘ اور ’’ براہین‘‘ پر ہوجائے جو فاضل پروفیسر نے قیام پاکستان کے خلاف اچھالے ہیں۔ سرفہرست یہ ’’ دلیل ‘‘ ہے کہ ’’ ہم تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں بدل گئے۔‘‘ اب اردو کے پروفیسر کا جنرل نالج اتنا بھی ضعیف نہیں ہونا چاہیے ! کیا تقسیم سے پیشتر مسلمان برصغیر میں اکثر یت میں تھے؟ اور کیا پاکستان بننے کی وجہ سے اقلیت میں بدلے ؟ اسے کہتے ہیں دلیل کی ’’ روشن سچائی ‘‘! کسی ایسے ہی علمی نابغہ نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ سعدی نے بانگ درا میں لکھا ہے کہ ع عمر ساری تو کٹی عشق بُتاں میں غالب!!
ایک طرف کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، دوسری طرف یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہاں کا مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتا! فراق نے اسی لیے کہا تھا ؎
کس کا یقین کیجیے‘ کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
اس میں شک نہیں کہ بھارتی حکومت اور ہندو ذہنیت مسلمانوں کے درپے آزار رہتی ہے۔ ہندو ذہنیت نہ صرف یہ کہ پاکستان کو بلکہ بھارت کے اندر بھی کسی غیر ہندو کو قبول کرنے سے قاصر ہے‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی مسلمان درمیانے درجے کی دکانداری سے باہر نکلنا پسند بھی نہیں کرتے۔ ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں دہلی کے مسلمانوں کے انٹرویو لیے جارہے تھے۔ خود ایک مسلمان رونا روہا تھا کہ لڑکا اچھا بھلا پڑھ رہا ہوتا ہے کہ پڑھائی چھوڑ کر دکان پر جا بیٹھتا ہے۔ آسٹریلیا اور امریکہ میں تبلیغی گروہوں سے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں۔ اکثریت ان دکانداروں کی ہے جو بچوں کو دکانداری ہی کی ترغیب دیتے ہیں۔ پروفیسر نسیم زیدی نے‘ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اقتصادیات کے شعبے کی سربراہ رہیں، مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کے بارے ریسرچ کی ہے۔ طویل اعدادو شمار اور حقائق کے بعد نسیم لکھتی ہیں ۔
"The low level of participation of muslim students in the C.S (Civil Service) examination, rather than their probability of being selected is the major cause for low representation of muslims in these services".
یعنی اصل مسئلہ یہ ہے کہ امتحان دینے والے مسلمانوں کی تعداد ہی کم ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر نسیم لکھتی ہیں کہ مسلمان طالبات پڑھائی میں لڑکوں سے کہیں آگے ہیں لیکن مقابلے کے امتحان میں شریک ہونے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہی نہیں کی جاتی !!
پاکستان نہ بنتا تو ہندوئوں کی عظیم اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کی عددی حیثیت اور اس کے نتیجہ میں سیاسی اور معاشی ابتری وہی ہونی تھی جو آج بھارتی مسلمانوں کے نصیب میں ہے۔ بھارتی ریاست اترکھنڈ کے مسلمان گورنر عزیز قریشی نے ایک ہفتہ قبل ہی کہا ہے کہ گائے کا ذبیحہ کرنے والا شخص بھارتی ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسے شخص کے چہرے پر کالک مل کر اسے ملک سے باہر پھینک دینا چاہیے اور یہ کہ ’’ ہم گائے کو ماتا کے مانند قرار دے چکے ہیں۔‘‘ ہائے ! مجبوریاں ! انسان کو منصب کے لیے او رروٹی کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہندو مائنڈ سیٹ مسلمانوں کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ ہی نہیں۔ یہ تو کل کا واقعہ ہے کہ شیو سینا نے حکومتی اتحاد سے اس لیے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے کہ مہاراشٹر کے سکولوں میں اردو متعارف کرائی جارہی تھی !! بھارت کے احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ اپنے سے کئی گنا چھوٹے پاکستان کو اپنے اعصاب پر ہر وقت سوار رکھتا ہے۔ پاکستان نہ ہوتا تو ہمارا حال عزیز قریشی سے بہتر نہ ہوتا۔ ہم جو کچھ ہیں پاکستان کی بدولت ہیں ؎
یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے
یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے
Monday, November 10, 2014
حکومت ایک سو دس فیصد ذمہ دار ہے
امجد فاروق نہ صرف
مسلمان تھا بلکہ قرآن پاک کا حافظ تھا۔ نیک اور پرہیزگار۔ مخالفین نے الزام لگایا
کہ نعوذبااللہ اس نے کلام پاک کے نسخے کو نذرِ آتش کیا ہے۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔
پھر مسجدوں سے اعلانات ہوئے کہ لوگ گھروں سے باہر نکلیں اور اسے سنگسار کریں۔ ہجوم
اکٹھا ہوا۔ تھانے پر حملہ کیا گیا۔ اینٹیں مار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پھر
اس کے جسم پر مٹی کا تیل انڈیلا گیا۔ پھر اسے آگ لگائی گئی۔
لیکن ’’سزا‘‘ ابھی
ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس کے سوختہ جسدِ خاکی کو موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا گیا اور گلیوں
میں گھسیٹا گیا۔ اس سینے کو گھسیٹا گیا جس میں تیس پارے رکھے تھے ؎
گلیوں میں میری نعش
کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے
سرِ رہگزار تھا
حافظ امجد فاروق
کا تعلق کسی اقلیت سے نہیں تھا۔
22 دسمبر 2012ء کو دادو (سندھ) میں ایک شخص
کو قرآنی اوراق جلانے کے الزام میں ہجوم نے تھانے سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور زندہ
جلایا۔ آگ لگانے سے پہلے اسے پیٹا گیا۔ ہجوم میں سے بہت سے لوگوں نے وڈیو بھی بنائی۔
یہ شخص کسی اقلیت سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ مسلمان تھا۔ مسافر تھا اور رات مسجد میں
سویا تھا۔
اگست 2009ء میں مریدکے۔
شیخوپورہ روڈ پر فیکٹری کے مالک نجیب اللہ نے دیوار سے پرانا کیلنڈر اتار کر اپنے میز
پر رکھا۔ کیلنڈر پر قرآنی آیات لکھی تھیں‘ مزدوروں کے ساتھ مالی معاملات پر اختلاف
پہلے سے چل رہا تھا۔ ایک مزدور بھاگتا ہوا آیا اور اعلان کیا کہ فیکٹری کے مالک نے
قرآنی اوراق کی توہین کی ہے۔ ہجوم نے فیکٹری کو نذر آتش کیا اور نجیب اللہ کو اس
کے دو ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نجیب اللہ مسلمان تھا۔
سیالکوٹ میں دو نوجوان
بھائیوں مغیث اور منیب کو ہجوم نے مار مار کر‘ نوچ نوچ کر‘ بے دردی سے ہلاک کردیا۔
مغیث اور منیب دونوں مسلمان تھے۔ مغیث قرآن پاک کا حافظ تھا۔
جو کچھ کوٹ رادھا
کشن میں مسیحی جوڑے کے ساتھ ہوا‘ وہی کچھ بہت سے مسلمانوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اقلیتوں
کے معاملے میں پاکستان کا حالیہ ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے اور قطعاً نہیں ہے۔ ہندو
خاندان اندرونِ سندھ سے ہجرت کر کر کے سرحد پار جا رہے ہیں۔ غیر مسلم لڑکیوں کو مسلمان
کر کے ان سے شادیاں رچا لی جاتی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں سکھ برادری غیر محفوظ ہے لیکن
اللہ کے بندو! انصاف سے کام لو‘ جو کچھ کوٹ رادھا کشن میں ہوا‘ وہ مسلمان اور غیر مسلم
کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اقلیت اور اکثریت کا معاملہ نہیں ہے۔ اس ظلم کی چکی میں مسلمان
بھی پِس رہے ہیں اور مسلسل پِس رہے ہیں۔ غلط پہلو کو اچھالا جا رہا ہے۔ صرف اس لیے
کہ حکومت کی نااہلی کو چھپایا جائے۔ حکومت کی نااہلی؟ جی ہاں حکومت کی نااہلی! سو فیصد
نہیں! ایک سو دس فیصد! تفصیل اس کی یوں ہے۔
اوّل۔ اس قبیل کے
جتنے واقعات پیش آئے‘ ان کا آغاز مسجد سے لائوڈ سپیکر کے ذریعے اعلان سے ہوتا ہے۔
ایک یا ایک سے زیادہ مسجدوں سے اعلانات کیے جاتے ہیں کہ لوگو! باہر نکلو۔ اعلان کرنے
والے کے پاس‘ خواہ وہ مسجد کا مولوی صاحب ہو‘ موذن ہو یا محلے کا کوئی شخص‘ کوئی ثبوت
نہیں ہوتا۔ ہو بھی تو اسے لوگوں کو بلانے اکسانے اور اکٹھا کرنے کا کوئی اختیار ہے
نہ حق۔ مریدکے شیخوپورہ روڈ پر فیکٹری کے مالک نجیب اللہ کے قتل ہونے سے پہلے جب علاقے
کی شاہراہیں گھنٹوں بلاک رہیں تو بہت سے لوگوں نے بتایا کہ اردگرد کی مساجد سے اعلانات
کیے گئے تھے۔ یہی کچھ دادو میں ہوا۔ یہی کچھ گوجرانوالہ میں حافظ امجد فاروق کے ساتھ
ہوا۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت نے آج تک لائوڈ سپیکر سے اعلان
کرنے والے کسی شخص کو عبرت ناک سزا تو چھوڑ دیجیے‘ معمولی سی سزا بھی دی؟ کیا یہ قانون
نہیں بنایا جا سکتا کہ اذان اور نماز کے علاوہ لائوڈ سپیکر کا استعمال نہیں ہوگا یا
یہ کہ عوام کو بلانے اور اکسانے کی یہ سزا ہوگی؟ کیا کوئی بتائے گا کہ ایسا آج تک
کیوں نہ ہوا؟
دوم۔ بارہا ایسا
ہوا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے سیاسی جلوسوں پر فائرنگ کی گئی‘ لاٹھی چارج ہوئے۔
حالیہ دھرنے کے دوران جب ہجوم وزیراعظم ہائوس کی طرف بڑھنے لگا تو گولیاں چلائی گئیں۔
کئی مظاہرین مارے گئے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہجوم تھانے سے کسی کو گھسیٹ کر باہر لاتا ہے‘
اس پر مٹی کا تیل چھڑکتا ہے‘ دیا سلائی دکھاتا ہے تو پولیس ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے
لاٹھی چارج کیوں نہیں کرتی؟ ہوائی فائرنگ کیوں نہیں کرتی؟ ایک انسانی جان بچانے کے
لیے ہجوم کے پیروں اور ٹانگوں پر گولیاں کیوں نہیں چلائی جاتیں؟ یہ ایک معمہ ہے جو
سمجھ میں نہیں آتا؟ سیاسی جلسوں‘ جلوسوں پر فائرنگ!! ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کو
بھون کر رکھ دیا گیا۔ لیکن شمع اور شہزاد کو جب مارا جا رہا تھا‘ جلایا جا رہا تھا‘
اس وقت پولیس نے کوئی ایکشن نہ لیا؟ کیوں؟ اس کا سبب کون بتائے گا؟
حسبِ معمول‘ وزیراعلیٰ
مظلوم خاندان کے گھر پہنچے۔ یہ محض ’’اتفاق‘‘ تھا کہ فوٹوگرافر ساتھ تھا؛ چنانچہ جیسا
کہ ہر بار ہوتا ہے‘ وزیراعلیٰ کی اس موقع پر تصویر لی گئی جو ’’اتفاق‘‘ سے میڈیا کے
اطراف و اکناف میں جلوہ نما ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے‘ جیسا کہ وہ ہر بار دعویٰ کرتے ہیں‘
یہاں بھی دعویٰ کیا کہ انصاف فراہم کیا جائے گا‘ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ اس وقت
تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مظلوم خاندان کو انصاف نہیں مل جاتا۔ ظالموں کو حساب
دینا ہوگا۔ کوئی وزیراعلیٰ سے پوچھے کہ ماضی میں اس قسم کے واقعات ہوئے تو کس کس کو
کتنی کتنی سزا ملی؟ لائوڈ سپیکر کے قاتلانہ کردار کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟
کون سی قانون سازی ہوئی؟ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے فوراً
بعد وہ چین چلے گئے۔ یقینا وہ وہاں بھی چین سے نہیں بیٹھے ہوں گے اور سارے دورے کے
دوران‘ تمام پروٹوکول لیتے ہوئے‘ بے چین ہی رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے واپسی پر وہ ایک
بار پھر اعلان کریں کہ انصاف ہوگا اور ضرور ہوگا۔ ایک صاحب کو دفتر جانے کی جلدی تھی۔
بار بار بیوی سے ناشتہ لانے کے لیے کہہ رہے تھے۔ تنگ آ کر بیوی نے کہا کہ میں ایک
گھنٹے سے کہہ رہی ہوں کہ پانچ منٹ میں لاتی ہوں لیکن تم بات کو سمجھتے ہی نہیں!
حکومت ایک طویل عرصہ
سے وعدہ کر رہی ہے کہ انصاف فراہم کیا جائے گا لیکن ہجوم سمجھتا ہی نہیں۔ اسے جب بھی
موقع ملتا ہے‘ کسی حافظ امجد فاروق کو‘ کسی نجیب اللہ کو‘ کسی منیب کو‘ کسی حافظ مغیث
کو‘ کسی شمع اور شہزاد کو نوچ کھاتا ہے!
ازمنۂ وسطیٰ میں
عیسائی راہب ’’گنہگاروں‘‘ کو زندہ جلانے کی سزا عام دیتے تھے۔ اب وہ لوگ جدید عہد میں
پہنچ گئے ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کا تصور تک عنقا ہو گیا۔ ہم گرتے پڑتے‘ افتاں
و خیزاں‘ پائوں گھسیٹتے‘ ازمنۂ وسطیٰ تک اب پہنچے ہیں! زندہ جلانے کا رواج عام ہے
اور مقبول ہے۔ پولیس ایسے مواقع پر خاموشی نیم رضا کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ آیئے‘ دعا
کریں کہ چند سو سال بعد‘ پائوں گھسیٹتے‘ گرتے پڑتے‘ ازمنۂ وسطیٰ سے نکل کر جدید عہد
میں پہنچ جائیں!
Saturday, November 08, 2014
چارہ اور دودھ
نہیں ! یہ کھیل لمبے عرصے کے لیے نہیں چل سکتا۔ کھیل کے اصول پامال ہورہے ہیں۔
ایک طرف تابوت آرہے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوت۔ تابوتوں سے بچے لپٹ لپٹ کر سسکیاں بھررہے ہیں۔ مائوں کو غش آرہے ہیں۔ سفید ریش مردوں کے صبر کے پیمانے چھلک رہے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوتوں کو غم زدہ سپاہی سلامی دے رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو اپنے ہاتھوں لحد میں اتار کر اوپر مٹی کی چادر تان رہے ہیں۔ پھر نئے تابوتوں کو بھرنے کے لیے مزید جاں بکف نوجوان مغربی سرحدوں کا رخ کررہے ہیں۔
دوسری طرف بیانات ہیں۔سیاسی بیان۔ کھوکھلے بیان۔اندر سے خالی بیان۔اخبارات کا پیٹ بھرنے والے بیان، الیکٹرانک میڈیا پر مکڑی کا جالا تاننے والے بیانات۔ مسکراتے بیان۔ ’’ دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔ قوم جاگ رہی ہے۔ کوئی کارروائی مورال کو کمزور نہیں کر سکتی۔ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔‘‘
جس دن اس قبیل کا بیان وزیر اطلاعات نے جاری کیا، اسی دن میڈیا نے خون میں ڈوبی خبریں سنائیں۔ جاں بحق ہونے والے 59ہوچکے تھے۔ سپردخاک کرتے وقت آہوں اور سسکیوں کے طوفان امڈے ہوئے تھے۔ لاشیں تاخیر سے دی گئیں تو مردہ خانے کے باہر پسماندگان نے احتجاج کیا۔ ورثا دھاڑیں مار مار کر روئے۔ ایک ہی خاندان کے نصف درجن جنازے اٹھے تو قیامت صغریٰ بپا ہوگئی۔ ایک بدنصیب جو نصیب آباد میں دفن ہوا ایسا بھی تھا جس کے ہاں بیٹے کی پیدائش دھماکے سے ایک گھنٹہ قبل ہوئی۔ سمندری میں ایک ہی خاندان کی 9لاشیں پہنچیں۔ رینجرز کے جوان بھی شہید ہوئے۔
دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے عوام کو وزیراطلاعات لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے کہ حکمرانوں کی حفاظت پر کتنے اہلکار مامور ہیں ؟ کتنے محلات پنجاب کے حکمران اعلیٰ کے لیے سرکاری رہائش گاہوں کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ شہر سے لے کر رائے ونڈ تک۔ ایلیٹ فورس کے کتنے نوجوان شاہی خاندان کی خدمت کے لیے مختص ہیں۔ ان سرکاری ملازموں پر ہر ماہ ٹیکس دہندگان کا کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے؟
حکومت اس سارے مسئلے میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے کے دوسرے دن میڈیا نے پوری قوم کو آگاہ کیا کہ حساس اداروں نے جن دو مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے ان میں سے ایک افغانی ہے۔ تفتیش کاروں کو بتایا گیا کہ انہوں نے ایک مدرسے میں پناہ لے رکھی تھی۔ جو شخص حملہ آور کی معاونت کے لیے قریب ہی موجود تھا اس نے بھی دھماکے کے فوراً بعد مدرسے میں پناہ لی۔
اس سارے المیے میں دو فیکٹر اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ ایک افغانی۔ دوسرا مدرسہ۔ بدقسمتی سے ان دونوں عوامل کے حوالے سے حکومت کے پاس سرے سے کسی پالیسی کا وجود ہی نہیں ! کیا حکومت کے پاس مندرجہ ذیل سوالات کے جواب ہیں ؟
1۔اس وقت ملک میں کتنے غیر ملکی مقیم ہیں؟ ان میں سے افغانوں کی تعداد کتنی ہے؟
2۔ یہ افغان جو واہگہ بارڈر کے پاس دھماکے کے بعد گرفتار ہوا، کیا اڑ کر وہاں پہنچایا اس نے سر پر کوئی طلسمی یا سلیمانی ٹوپی اوڑھی ہوئی تھی کہ کسی محکمے کی اس پر نظر نہ پڑسکی۔
3۔ افغان سرحد سے واہگہ بارڈر تک کتنے محکمے ، کتنی ایجنسیاں ، کتنے سرکاری افسر اور اہلکار غیر ملکیوں کی جانچ پڑتال کے لیے وقف ہیں۔ پاکستانی شہریوں کی گاڑیوں کو بلاسبب، جگہ جگہ روکنے کے سوایہ اہلکار دیگر کیا فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
4۔ لاہور شہر اور اس کے نواح میں اس وقت کتنے غیر ملکی آباد ہیں ؟
5۔ یہ غیر ملکی یہاں کس طرح پہنچے اور کس حیثیت سے رہ رہے ہیں؟
6۔ کیا حکومت بتائے گی کہ وزیراعظم کے دفتر سے دس منٹ کی مسافت پر، مری کے راستے کی آبادیوں میں کتنے غیر ملکی آباد ہیں؟ کیا حکومت کے پاس ان کے مشاغل اور ذرائع آمدنی کے بارے میں معلومات موجود ہیں ؟
7۔ چند ہفتے پیشتر میڈیا میں یہ خبریں نمایاں طور سے چھپیں کہ ترنول سے لے کر فتح جنگ تک کے علاقے کو ’’ منی وزیرستان ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ المیے کی دردناک اور ہولناک انتہا یہ ہے کہ زیر تعمیر(زمانوں سے زیر تعمیر) نئے ایئرپورٹ کے علاوہ حساس ترین مقامات اس علاقے میں ہیں۔ کیا حکومت عوام کوبتانا پسند کرے گی کہ اگر پہلے نہیں ، تو اب، ان خبروں کی اشاعت کے بعد، کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ یہاں کتنے ’’ غیرملکی‘‘ آباد ہیں اور اس پورے علاقے میں زمین اور رہائش گاہوں کی خریداری کے سلسلے میں سرکاری پالیسی کیا ہے؟
8۔ اس سے پہلے بھی دہشت گردی کی خبروں کے ضمن میں مدارس کا ذکر آیا۔ یہ درست ہے کہ مدارس کی اکثریت دہشت گردوں کو پناہ نہیں دیتی لیکن کچھ مدارس بہرطور یہ کام کرتے ہیں۔ کیا حکومت کے پاس ایسے مدارس کے بارے میں معلومات ہیں ؟
9۔ آئندہ کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ کیا حکومت نے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ مستقبل میں کوئی دہشت گرد کسی مدرسہ میں پناہ نہ لے سکے ؟ اگر کیے ہیں تو عوام کو ان کی تفصیل سے آگاہ کیاجائے۔
اس المیے کا دوسرا بڑا شکار، عوام کے علاوہ ، عساکِر پاکستان ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ گائے مشترکہ ہے۔ ایک فریق چارے کا بندوبست کررہا ہے۔ دوسرا صرف دودھ سے بالٹیاں بھر رہا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ صرف ضرب عضب سے نہیں جیتی جاسکتی۔ اگر ملک غیر ملکیوں سے بھرا پڑا ہے ، اگر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں جگہ جگہ واقع ہیں اور کوئی ان کے اندر بھی داخل نہیں ہوسکتا تو پھر یہ کھیل زیادہ عرصہ کے لیے نہیں جاری رہ سکتا۔ اس لیے کہ کھیل کے اصول پامال ہورہے ہیں۔ عسا کرپاکستان، ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتے۔ جو کام پولیس اور متعلقہ محکموں کا ہے، وہ کام مسلح افواج نہیں سرانجام دے سکتیں۔ لیکن بے حسی کہیے یا نااہلی کہ فوجی جوان شہید ہورہے ہیں، عوام کے پرخچے اڑ رہے ہیں اور حکومت کے پاس غیر ملکیوں کے حوالے سے کوئی پالیسی ہے نہ ان اداروں کی اسے فکر ہے جو دہشت گردوں کو پناہ فراہم کررہے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مکان کی چھت پر بندوقچی کھڑے کردیے جائیں لیکن دروازے سارے کھلے ہوں!
واہگہ کے دھماکے کو اونٹ کی پیٹھ پر لدے ہوئے بوجھ کا آخری تنکا سمجھنا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ عساکر پاکستان حکومت سے صاف صاف پوچھیں کہ ملک کے طول و عرض میں غیر ملکی کیوں دندناتے پھر رہے ہیں اور پناہ گاہیں کہاں کہاں ہیں اور کتنی ہیں ؟
Friday, November 07, 2014
Monday, November 03, 2014
چونے والی کٹوری
چودھری جہاں داد
نے ملک دین محمد سے بدلہ لینا تھا۔ جاگیریں ساتھ ساتھ تھیں۔ دشمنیاں بھی جاگیروں کی
طرح نسل در نسل منتقل ہو رہی تھیں۔ چودھری جہاں داد نے اپنے ایک کارندے کو، جس کا خاندان
کئی پشتوں سے اس کے کھیتوں سے غلہ اور حویلی کے تاریک کمروں سے گناہ سنبھال رہا تھا‘
حکم دیا کہ ملک دین محمد کے بھتیجے کو قتل کردے۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ پولیس
اور ضلعی انتظامیہ چودھری کی جیب میں تھی۔ کارندے نے قتل کردیا۔ تھانوں، کچہریوں کا
سلسلہ چلا، دو اڑھائی سال جیل میں گزارنے کے بعد کارندہ باہر آ گیا۔ ملک دین محمد
نے قتل کا بدلہ کارندے سے نہیں، چودھری سے لینا تھا اور یہ کام اس کے اپنے کارندے نے
کرناتھا۔ پولیس کارندوں کو پکڑتی تھی۔ چودھریوں یا ملک خاندان کو کوئی نہیں پوچھتا
تھا۔ یہ قصہ ہم مکمل کرتے ہیں لیکن درمیان میں شاہ عالم یاد آ رہا ہے۔
اس ’’ہمہ مقتدر‘‘
مغل بادشاہ شاہ عالم کے اقتدار کا یہ عالم تھاکہ مرہٹے شاہی قلعے کے اردگرد دندناتے
پھرتے تھے اور جگا ٹیکس، جسے وہ چوتھ کہتے تھے‘ کھلم کھلا وصول کر رہے تھے۔ تب یہ محاورہ
بنا کہ ’’سلطنت شاہ عالم۔ ازدلی تا پالم‘‘۔ پالم دلی کا نواحی علاقہ تھا جہاںاب ہوائی
اڈہ ہے۔ ہمارے حکمران ہر لحاظ سے، عقل اور نقل ہر دو حوالوں سے، مغلوں کے جانشین ہیں۔
دارالحکومت میں ایک معروف سرکاری عمارت کا، جس کے دالانوں سے سلطنت چلائی جا رہی ہے‘
مشاہدہ کیجیے، مغل طرز تعمیر صاف نظر آئے گا۔ جمہوریت بھی مغل بادشاہت کے لبادے میں
لپٹی ہوئی ہے۔ جو لفظ منہ سے نکل گیا، قانون بن گیا۔ سلطنت شاہ عالم بھی ریڈ زون کے
اندر ہے یا لاہور کے نواحی محلات میں۔ باقی ملک میں سلطنت ہے نہ حکومت، قانون ہے نہ
کوتوالی۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہدایات دے رہے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں کی کمی کا فائدہ
عام آدمی کو پہنچایا جائے۔ کہیں عام آدمی کو فائدہ دینے کیلئے تجاویز مانگی جا رہی
ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اندرون ملک کا تو سوچیے بھی مت، عین وفاقی اور صوبائی
دارالحکومتوں میں حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آ رہی۔ پٹرول پمپ بند کر دیے گئے
ہیں۔ نئی قیمتوں کا وجود ہی کوئی نہیں۔ صوبائی حکمران حسب معمول لندن میں ہیں اور صوبے
کو وہیں سے چلایا جا رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ ہو تو نفاذ فوراً ہوتا ہے، کمی ہو تو
پٹرول پمپ بند ہو جاتے ہیں۔ روٹی کی قیمت بھی وہی ہے اور رکشے کا کرایہ بھی۔ حکمران
روٹی کھاتے ہیں نہ رکشے میں سوار ہوتے ہیں۔ اگر کیک میسر آتا رہے تو روٹی کون کھائے
گا۔
تاہم ایک حوالے سے
موجودہ حکمران مغلوں سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ شاہ عالم کی سلطنت کم از کم پرانی دہلی کے
گلی کوچوں میں تو موجود تھی۔ ہماری حکومت دارالحکومت کے پرانے گلی کوچوں سے بھی رخصت
ہو چکی ہے۔ دارالحکومت کے امیر ترین سیکٹروں میں سے ایک میں یکے بعد دیگرے دو وارداتیں
ایک ہی وقت میں ہوئیں۔ لطیفہ یہ ہوا کہ ایک متاثرہ صاحب خانہ کے بقول، واردات کے بعد
پولیس کا افسر اس کے گھرآیا تو وہیں ٹیلی فون پر افسر کو اطلاع ملی کہ ایک اور ڈکیتی
ہو گئی ہے۔
رہا صوبائی دارالحکومت
تو وہاں صورتحال دہلی اور پالم دونوں کو مات کر رہی ہے۔ ٹرانسپورٹروں نے کرائے کم کرنے
سے انکار کرتے ہوئے دلیل دلچسپ دی ہے کہ حکومت خود ٹرانسپورٹروں سے سرکاری فیس کی مد
میں جگا ٹیکس لے رہی ہے اور اس میں ایڈمنسٹریشن پوری طرح ملوث ہے۔ ادھرشاہ عالم قبر
میں کروٹوں پرکروٹیں لے رہا ہے۔ دوسری طرف مرہٹے جہنم میں جلوسوں پر جلوس نکال رہے
ہیں اور داروغوں کے قابو میں نہیں آ رہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ وفاقی دارالحکومت
میں عین ایوان اقتدار کی دیواروں کے نیچے ہو رہا ہے‘ اس کے پیش نظر تاریخ کی کتابوں
سے مرہٹہ تاخت و تاراج کا ذکر خارج کر دیا جائے۔
چودھری جہاں داد
اور ملک دین محمد کی لڑائی کی طرف واپس چلتے ہیں۔ یہ جاگیرداری کا مرکزی فیچر تھا کہ
پالتو کارندے رکھے جائیں۔ سزا ملے تو انہیں ملے‘ جو قتل کرواتے تھے اور ڈاکے ڈلواتے
تھے۔ وہ یوں محفوظ رہتے تھے جیسے بتیس دانوں کے درمیان زبان۔
آپ کا کیا خیال
ہے جب حکومت جاگیردارں سے صنعت کاروں کو اور دیہاتی علاقوں سے شہروں کو منتقل ہوئی
توکارندے پالنے کا کلچر ختم ہو گیا؟ نہیں! بالکل نہیں! یہ کلچر صنعت کاروں اور شہری
جائیدادوں کے کروڑ پتی مالکان نے اپنا لیا۔ لیکن یہاں ایک اور المیہ رونما ہوا۔ خود
پولیس نے چودھری جہاں داد اور ملک دین محمد کا کردار سنبھال لیا اور کارندوں کی پرورش
اور نگہداشت شروع کردی۔
حکومت شہری کھرب
پتیوں کو منتقل ہوئی تو انہوں نے ہاریوں اور مزارعوں کے بجائے پولیس کے افسروں کو کارندوں
کے طور پر پالنا شروع کردیا۔ یہ ہر محکمے میں،
ہرمنصب پر، ہر آئینی اور انتظامی کرسی پر جو ریٹائرڈ پولیس افسر نظر آ رہے ہیں، یہ
بغیر سبب کے نہیں! ان میں سے اکثریت ان اہلکاروں کی ہے جو نوکری کے دوران ’’کارندوں‘‘
کے طور پر کام کرتے رہے۔ تنخواہ اور مراعات ریاست سے لے رہے تھے۔ وفاداریاں شاہی خاندانوں
سے تھیں۔ تین سال ہوئے ایک معتبر شخص نے بتایا کہ اس کا دوست جو پولیس افسر تھا، ریٹائر
ہوا اور فوراً ہی نوکری مل گئی۔ تفصیل اس نے یعنی ریٹائرڈ اور مصروفیت یافتہ افسر نے
یہ سنائی کہ کیریئر کے آغاز ہی میں ایک اہم شخصیت نے ’’دوستی‘‘ کی پیشکش کی جو قبول
کرلی گئی! سارا کیریئر اس دوستی کے سائے میں گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ایک اور
اعلیٰ منصب مل گیا۔
اب یہ طے ہے کہ پبلک
سروس کمیشن ہو یا پیمرا یا نیپرا کی قبیل کے ادارے، یا ایڈوائزری مناصب، یہ سب کچھ
ان کیلئے ہے جنہوں نے وفاداریاں نبھائیں۔
لیکن دلچسپ ترین
صورتحال اس سزا نے پیدا کی ہے جو گلوبٹ کو ملی ہے۔ چودھری جہاں دادا اور مک دین محمد
جیسے جاگیردار اپنے کارندوں کی دیکھ بھال تو کرتے تھے۔ قتل کراتے تھے یا ڈاکہ ڈلواتے
تھے‘ جیل سے کارندوں کو واپس بحفاظت منگوا لیتے تھے۔ پولیس نے تو حد کردی۔ وہ پولیس
افسر بھی غائب ہے جس نے گلوبٹ سے معانقہ کیا تھا۔ اور وہ ساری پولیس فورس بھی جو گلو
کی کارکردگی کو بہ نظرِ تحسین دیکھ رہی تھی‘ نظر نہیں آ رہی۔ گلوبٹ قیدتنہائی بھگت
رہا ہے۔ جو انصاف ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ کہا جائے تو پر جلنے کا امکان ہے۔ کسی
نے نہیں پوچھا کہ شیرپنجاب کا خطاب کس نے دیا تھااور درجنوں گاڑیوں کی شکست و ریخت
کس کی اور کن کی سرپرستی میں سرانجام دی گئی تھی۔
گلوبٹ جیل میں ہے۔
اس کی پرورش اور نگہداشت کرنے والے زندہ و سلامت ہیں اورآزاد ہیں۔ گلوبٹ کو وہ بھول
چکے ہوں گے۔ نیا گلوبٹ اس وقت تک تلاش کرلیا ہوگا۔مجید امجد کی شہرئہ آفاق نظم ’’پنواڑی‘‘
یاد آ رہی ہے۔ پنواڑی کی ارتھی اٹھتی ہے تو:
صبح کو اس کا کمسن
بالا بیٹھا پان لگائے
چونے والی کٹوری
ٹھن ٹھن ٹھن ٹھن بجتی جائے
ایک پتنگا دیپک پر
جل جائے، دوسرا آئے
Sunday, November 02, 2014
Subscribe to:
Posts (Atom)