Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, November 12, 2014

مٹی


سفید فام یورپی شمالی امریکہ پہنچے تو ریڈ انڈین آبادی کے پاس انہوں نے ایک عجیب ہتھیاردیکھا۔ یہ اس شے سے ملتا جلتا تھا جسے ہمارے ہاں کلہاڑی کہتے ہیں‘ لیکن لکڑی کا ڈنڈا چھوٹا ہوتا تھا تاکہ اسے دشمن پر دور سے پھینکابھی جاسکے۔ لوہے کے استعمال سے ریڈ انڈین ناآشنا تھے۔ پتھر کو تیز دھار کرکے ڈنڈے کے سرے پر پھنسایا جاتا تھا۔ پتھر کے اوپر خشک چمڑا چڑھا دیا جاتا تھا۔ اس سے گوشت بھی کاٹا جاتا تھا اور دشمن کا گلا بھی۔ ایک خاص سٹائل سے دشمن پر پھینکا بھی جاسکتا تھا۔ اسے ٹوماہاک کہا جاتا تھا۔
یورپ سے آبادی کا طوفان امریکہ اور کینیڈا کے ساحلوں پر اترا تو لوہا بھی آگیا۔ آنے والوں نے ریڈ انڈین لوگوں کو پتھر کے بجائے لوہے کے تیز دھار بلیڈ والے ٹوما ہاک بنانے سکھائے۔ شروع شروع میں ریڈ انڈین قبیلوں کے سرداروں کو یہ تحفے میں دیا جاتا تھا تاکہ ’’ سفارتی‘‘ تعلقات خوشگوار رہیں۔ پھر لوہے کے مہلک ٹوما ہاک عام ہوگئے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں امریکیوں نے برطانوی آقائوں کے خلاف جنگ آزادی کا پرچم بلند کیا تو برطانیہ نے اپنے فوجیوں کو دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ ٹوما ہاک بھی فراہم کیے۔
بھارت کا کوئی مسلمان پاکستان کے وجود پر حملہ کرے تو یہ کالم نگار اسے ٹوما ہاک کہتا ہے‘ اس لیے کہ جس طرح ٹوما ہاک کی جدید شکل یورپی آباد کاروں کی مرہون منت ہے اور ریڈ انڈین کے اپنے فرسودہ ہتھیار سے قطعاً مختلف ہے، اسی طرح بھارتی مسلمان کا پاکستان پر نظریاتی حملہ ہندو آقائوں کی روایت ہے جسے کچھ (تمام نہیں) بھارتی مسلمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ کچھ بھارتی مسلمان یہ ٹوما ہاک جس پر لوہے کا بلیڈ ہندوئوں نے نصب کیا ہے‘ پاکستان پر اس لیے پھینکتے ہیں کہ بھارتی حکمران خوش ہوجائیں، بعض احساس کمتری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تاکہ انہیں وفادار شہری سمجھا جائے‘ کچھ اس لیے بھی ایسے حملے اچھل اچھل کر کرتے ہیں کہ ان کے اذہان ابھی تک گاندھی اور نہرو کے ’’ متحدہ ہندوستان‘‘ کے فلسفہ میں اٹکے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین ٹوما ہاک ایک بھارتی پروفیسر نے پھینکا ہے۔ دلچسپ پہلو اس حملے کا یہ ہے کہ یہ صاحب پاکستان میں آئے ہوئے تھے اور پاکستان کے مہمان تھے۔ پہلے تو یہ کہا کہ ’’ لوٹوں گا تو یہاں (یعنی پاکستان میں) ہونے والی پزیرائی اور محبت کا تذکرہ کروں گا۔ مجھے ہر قدم پر محبت ملی، مجھے تو نہیں لگتا کہ میں دشمن ملک میں ہوں۔‘‘ اس کے بعد قیام پاکستان کے بارے میں کہا …’’ یہ غلط فیصلہ تھا جس کا خمیازہ بھارتی مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ میرے نزدیک یہ بڑا سانحہ تھا۔ ہم تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں بدل گئے۔ البتہ وہاں کا مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتا۔‘‘
اب یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تقسیم کے فیصلے سے اختلاف کرنا کفر نہیں۔ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق ہے بشرطیکہ رائے کے اظہار میں شائستگی بھی نظر آرہی ہو۔ اگر کوئی پاکستانی پاکستان میں بیٹھ کر اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان غلط بنا تو ہم اسے برداشت کریں گے۔ اپنی بات دلائل سے نرم لہجے میں کریں گے۔ اگر کوئی بھارتی بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کی مخالفت کرتا ہے تو کرتا رہے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم تو کپڑے سمیٹ لیتے ہیں تاکہ گندے پانی کے چھینٹوں سے محفوظ رہیں‘ لیکن جس طرح کسی پاکستانی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ بھارت جاکر پاکستان کے خلاف زہر اگلے ، اسی طرح کسی بھارتی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان آئے، مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو، پزیرائی کی تعریف کرے اور ساتھ ہی ایک تیز دھار ٹوماہاک پاکستان پر اور پاکستانیوں پر پھینک دے ۔ اللہ کے بندے! اگر تم میں شائستگی ہوتی اور رکھ رکھائو ہوتا اورذہن صحت مند ہوتا اور تربیت میں نجابت کا عمل دخل ہوتا، تو تم جس سانس میں میزبان کی تعریف کررہے تھے، کم از کم اسی سانس میں لمبے ناخنوں والا پنجہ میزبان کے چہرے پر نہ مارتے!
یہ بھارتی پروفیسر، جو بقول اس کے لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کو ’’ سنوارتا سجاتا‘‘ رہا اور تحقیق کرنے والوں کی بزعم خود سرپرستی کرتا رہا، کراچی کے ایک نام نہاد ثقافتی ادارے کی دعوت پر پاکستان آیا۔ نام اس کا اس لیے نہیں لکھا جارہا کہ اس کی انا کو گنے کا رس مفت میں نہ مل جائے۔ پاکستان کو برا بھلا کہنے والے ان اُجرتی پروفیسروں کا آئیڈیل بھی پاکستان ہی ہے۔ نام چھپ جائے تو سینہ تان کر دکھاتے پھرتے ہیں کہ پاکستان میں نام چمکا ہے ! ع
بدنام جو ہوں گے تو بھلا نام نہ ہوگا؟
ہمارے ساحلی شہر میں واقع یہ ادارہ اکثر و بیشتر، یا غالباً سالانہ ، اردو کانفرنسیں منعقد کرتا ہے۔ پاکستانیوں کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کا خوشگوار فریضہ تو اس ادارے نے اپنے سر لے ہی رکھا ہے کہ کون ادیب ہے اور کون نہیں ، لیکن لگتا ہے کہ بھارتیوں کو بلانے کا فیصلہ یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ کس کے پاس زیادہ تیز دھار والا ٹوماہاک ہے اور کون یہاں آکر اسے پاکستان پر پھینکے گا!! یہ اور بات کہ الحمد للہ پاکستان کو ان ’’ محبان و طن‘‘ کی اذیت بخش حرکتوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ہاں ! اس حاطب اللیل گروہ کو ظفر اقبال کی زبان میں یہ مشورہ ضرور دیاجانا چاہیے ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اڑا اور بہت
اب کچھ بات ان ’’ دلائل ‘‘ اور ’’ براہین‘‘ پر ہوجائے جو فاضل پروفیسر نے قیام پاکستان کے خلاف اچھالے ہیں۔ سرفہرست یہ ’’ دلیل ‘‘ ہے کہ ’’ ہم تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں بدل گئے۔‘‘ اب اردو کے پروفیسر کا جنرل نالج اتنا بھی ضعیف نہیں ہونا چاہیے ! کیا تقسیم سے پیشتر مسلمان برصغیر میں اکثر یت میں تھے؟ اور کیا پاکستان بننے کی وجہ سے اقلیت میں بدلے ؟ اسے کہتے ہیں دلیل کی ’’ روشن سچائی ‘‘! کسی ایسے ہی علمی نابغہ نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ سعدی نے بانگ درا میں لکھا ہے کہ ع عمر ساری تو کٹی عشق بُتاں میں غالب!!
ایک طرف کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، دوسری طرف یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہاں کا مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتا! فراق نے اسی لیے کہا تھا ؎
کس کا یقین کیجیے‘ کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
اس میں شک نہیں کہ بھارتی حکومت اور ہندو ذہنیت مسلمانوں کے درپے آزار رہتی ہے۔ ہندو ذہنیت نہ صرف یہ کہ پاکستان کو بلکہ بھارت کے اندر بھی کسی غیر ہندو کو قبول کرنے سے قاصر ہے‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی مسلمان درمیانے درجے کی دکانداری سے باہر نکلنا پسند بھی نہیں کرتے۔ ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں دہلی کے مسلمانوں کے انٹرویو لیے جارہے تھے۔ خود ایک مسلمان رونا روہا تھا کہ لڑکا اچھا بھلا پڑھ رہا ہوتا ہے کہ پڑھائی چھوڑ کر دکان پر جا بیٹھتا ہے۔ آسٹریلیا اور امریکہ میں تبلیغی گروہوں سے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں۔ اکثریت ان دکانداروں کی ہے جو بچوں کو دکانداری ہی کی ترغیب دیتے ہیں۔ پروفیسر نسیم زیدی نے‘ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اقتصادیات کے شعبے کی سربراہ رہیں، مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کے بارے ریسرچ کی ہے۔ طویل اعدادو شمار اور حقائق کے بعد نسیم لکھتی ہیں ۔
"The low level of participation of muslim students in the C.S (Civil Service) examination, rather than their probability of being selected is the major cause for low representation of muslims in these services".
یعنی اصل مسئلہ یہ ہے کہ امتحان دینے والے مسلمانوں کی تعداد ہی کم ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر نسیم لکھتی ہیں کہ مسلمان طالبات پڑھائی میں لڑکوں سے کہیں آگے ہیں لیکن مقابلے کے امتحان میں شریک ہونے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہی نہیں کی جاتی !!
پاکستان نہ بنتا تو ہندوئوں کی عظیم اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کی عددی حیثیت اور اس کے نتیجہ میں سیاسی اور معاشی ابتری وہی ہونی تھی جو آج بھارتی مسلمانوں کے نصیب میں ہے۔ بھارتی ریاست اترکھنڈ کے مسلمان گورنر عزیز قریشی نے ایک ہفتہ قبل ہی کہا ہے کہ گائے کا ذبیحہ کرنے والا شخص بھارتی ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسے شخص کے چہرے پر کالک مل کر اسے ملک سے باہر پھینک دینا چاہیے اور یہ کہ ’’ ہم گائے کو ماتا کے مانند قرار دے چکے ہیں۔‘‘ ہائے ! مجبوریاں ! انسان کو منصب کے لیے او رروٹی کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہندو مائنڈ سیٹ مسلمانوں کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ ہی نہیں۔ یہ تو کل کا واقعہ ہے کہ شیو سینا نے حکومتی اتحاد سے اس لیے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے کہ مہاراشٹر کے سکولوں میں اردو متعارف کرائی جارہی تھی !! بھارت کے احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ اپنے سے کئی گنا چھوٹے پاکستان کو اپنے اعصاب پر ہر وقت سوار رکھتا ہے۔ پاکستان نہ ہوتا تو ہمارا حال عزیز قریشی سے بہتر نہ ہوتا۔ ہم جو کچھ ہیں پاکستان کی بدولت ہیں ؎
یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے
یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com