Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, November 10, 2014

حکومت ایک سو دس فیصد ذمہ دار ہے

  امجد فاروق نہ صرف مسلمان تھا بلکہ قرآن پاک کا حافظ تھا۔ نیک اور پرہیزگار۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ نعوذبااللہ اس نے کلام پاک کے نسخے کو نذرِ آتش کیا ہے۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پھر مسجدوں سے اعلانات ہوئے کہ لوگ گھروں سے باہر نکلیں اور اسے سنگسار کریں۔ ہجوم اکٹھا ہوا۔ تھانے پر حملہ کیا گیا۔ اینٹیں مار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پھر اس کے جسم پر مٹی کا تیل انڈیلا گیا۔ پھر اسے آگ لگائی گئی۔
لیکن ’’سزا‘‘ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس کے سوختہ جسدِ خاکی کو موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا گیا اور گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ اس سینے کو گھسیٹا گیا جس میں تیس پارے رکھے تھے   ؎
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا
حافظ امجد فاروق کا تعلق کسی اقلیت سے نہیں تھا۔
22 دسمبر 2012ء کو دادو (سندھ) میں ایک شخص کو قرآنی اوراق جلانے کے الزام میں ہجوم نے تھانے سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور زندہ جلایا۔ آگ لگانے سے پہلے اسے پیٹا گیا۔ ہجوم میں سے بہت سے لوگوں نے وڈیو بھی بنائی۔ یہ شخص کسی اقلیت سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ مسلمان تھا۔ مسافر تھا اور رات مسجد میں سویا تھا۔
اگست 2009ء میں مریدکے۔ شیخوپورہ روڈ پر فیکٹری کے مالک نجیب اللہ نے دیوار سے پرانا کیلنڈر اتار کر اپنے میز پر رکھا۔ کیلنڈر پر قرآنی آیات لکھی تھیں‘ مزدوروں کے ساتھ مالی معاملات پر اختلاف پہلے سے چل رہا تھا۔ ایک مزدور بھاگتا ہوا آیا اور اعلان کیا کہ فیکٹری کے مالک نے قرآنی اوراق کی توہین کی ہے۔ ہجوم نے فیکٹری کو نذر آتش کیا اور نجیب اللہ کو اس کے دو ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نجیب اللہ مسلمان تھا۔
سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں مغیث اور منیب کو ہجوم نے مار مار کر‘ نوچ نوچ کر‘ بے دردی سے ہلاک کردیا۔ مغیث اور منیب دونوں مسلمان تھے۔ مغیث قرآن پاک کا حافظ تھا۔
جو کچھ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کے ساتھ ہوا‘ وہی کچھ بہت سے مسلمانوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اقلیتوں کے معاملے میں پاکستان کا حالیہ ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے اور قطعاً نہیں ہے۔ ہندو خاندان اندرونِ سندھ سے ہجرت کر کر کے سرحد پار جا رہے ہیں۔ غیر مسلم لڑکیوں کو مسلمان کر کے ان سے شادیاں رچا لی جاتی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں سکھ برادری غیر محفوظ ہے لیکن اللہ کے بندو! انصاف سے کام لو‘ جو کچھ کوٹ رادھا کشن میں ہوا‘ وہ مسلمان اور غیر مسلم کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اقلیت اور اکثریت کا معاملہ نہیں ہے۔ اس ظلم کی چکی میں مسلمان بھی پِس رہے ہیں اور مسلسل پِس رہے ہیں۔ غلط پہلو کو اچھالا جا رہا ہے۔ صرف اس لیے کہ حکومت کی نااہلی کو چھپایا جائے۔ حکومت کی نااہلی؟ جی ہاں حکومت کی نااہلی! سو فیصد نہیں! ایک سو دس فیصد! تفصیل اس کی یوں ہے۔
اوّل۔ اس قبیل کے جتنے واقعات پیش آئے‘ ان کا آغاز مسجد سے لائوڈ سپیکر کے ذریعے اعلان سے ہوتا ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ مسجدوں سے اعلانات کیے جاتے ہیں کہ لوگو! باہر نکلو۔ اعلان کرنے والے کے پاس‘ خواہ وہ مسجد کا مولوی صاحب ہو‘ موذن ہو یا محلے کا کوئی شخص‘ کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ ہو بھی تو اسے لوگوں کو بلانے اکسانے اور اکٹھا کرنے کا کوئی اختیار ہے نہ حق۔ مریدکے شیخوپورہ روڈ پر فیکٹری کے مالک نجیب اللہ کے قتل ہونے سے پہلے جب علاقے کی شاہراہیں گھنٹوں بلاک رہیں تو بہت سے لوگوں نے بتایا کہ اردگرد کی مساجد سے اعلانات کیے گئے تھے۔ یہی کچھ دادو میں ہوا۔ یہی کچھ گوجرانوالہ میں حافظ امجد فاروق کے ساتھ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت نے آج تک لائوڈ سپیکر سے اعلان کرنے والے کسی شخص کو عبرت ناک سزا تو چھوڑ دیجیے‘ معمولی سی سزا بھی دی؟ کیا یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ اذان اور نماز کے علاوہ لائوڈ سپیکر کا استعمال نہیں ہوگا یا یہ کہ عوام کو بلانے اور اکسانے کی یہ سزا ہوگی؟ کیا کوئی بتائے گا کہ ایسا آج تک کیوں نہ ہوا؟
دوم۔ بارہا ایسا ہوا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے سیاسی جلوسوں پر فائرنگ کی گئی‘ لاٹھی چارج ہوئے۔ حالیہ دھرنے کے دوران جب ہجوم وزیراعظم ہائوس کی طرف بڑھنے لگا تو گولیاں چلائی گئیں۔ کئی مظاہرین مارے گئے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہجوم تھانے سے کسی کو گھسیٹ کر باہر لاتا ہے‘ اس پر مٹی کا تیل چھڑکتا ہے‘ دیا سلائی دکھاتا ہے تو پولیس ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیوں نہیں کرتی؟ ہوائی فائرنگ کیوں نہیں کرتی؟ ایک انسانی جان بچانے کے لیے ہجوم کے پیروں اور ٹانگوں پر گولیاں کیوں نہیں چلائی جاتیں؟ یہ ایک معمہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا؟ سیاسی جلسوں‘ جلوسوں پر فائرنگ!! ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کو بھون کر رکھ دیا گیا۔ لیکن شمع اور شہزاد کو جب مارا جا رہا تھا‘ جلایا جا رہا تھا‘ اس وقت پولیس نے کوئی ایکشن نہ لیا؟ کیوں؟ اس کا سبب کون بتائے گا؟
حسبِ معمول‘ وزیراعلیٰ مظلوم خاندان کے گھر پہنچے۔ یہ محض ’’اتفاق‘‘ تھا کہ فوٹوگرافر ساتھ تھا؛ چنانچہ جیسا کہ ہر بار ہوتا ہے‘ وزیراعلیٰ کی اس موقع پر تصویر لی گئی جو ’’اتفاق‘‘ سے میڈیا کے اطراف و اکناف میں جلوہ نما ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے‘ جیسا کہ وہ ہر بار دعویٰ کرتے ہیں‘ یہاں بھی دعویٰ کیا کہ انصاف فراہم کیا جائے گا‘ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مظلوم خاندان کو انصاف نہیں مل جاتا۔ ظالموں کو حساب دینا ہوگا۔ کوئی وزیراعلیٰ سے پوچھے کہ ماضی میں اس قسم کے واقعات ہوئے تو کس کس کو کتنی کتنی سزا ملی؟ لائوڈ سپیکر کے قاتلانہ کردار کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ کون سی قانون سازی ہوئی؟ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے فوراً بعد وہ چین چلے گئے۔ یقینا وہ وہاں بھی چین سے نہیں بیٹھے ہوں گے اور سارے دورے کے دوران‘ تمام پروٹوکول لیتے ہوئے‘ بے چین ہی رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے واپسی پر وہ ایک بار پھر اعلان کریں کہ انصاف ہوگا اور ضرور ہوگا۔ ایک صاحب کو دفتر جانے کی جلدی تھی۔ بار بار بیوی سے ناشتہ لانے کے لیے کہہ رہے تھے۔ تنگ آ کر بیوی نے کہا کہ میں ایک گھنٹے سے کہہ رہی ہوں کہ پانچ منٹ میں لاتی ہوں لیکن تم بات کو سمجھتے ہی نہیں!
حکومت ایک طویل عرصہ سے وعدہ کر رہی ہے کہ انصاف فراہم کیا جائے گا لیکن ہجوم سمجھتا ہی نہیں۔ اسے جب بھی موقع ملتا ہے‘ کسی حافظ امجد فاروق کو‘ کسی نجیب اللہ کو‘ کسی منیب کو‘ کسی حافظ مغیث کو‘ کسی شمع اور شہزاد کو نوچ کھاتا ہے!

ازمنۂ وسطیٰ میں عیسائی راہب ’’گنہگاروں‘‘ کو زندہ جلانے کی سزا عام دیتے تھے۔ اب وہ لوگ جدید عہد میں پہنچ گئے ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کا تصور تک عنقا ہو گیا۔ ہم گرتے پڑتے‘ افتاں و خیزاں‘ پائوں گھسیٹتے‘ ازمنۂ وسطیٰ تک اب پہنچے ہیں! زندہ جلانے کا رواج عام ہے اور مقبول ہے۔ پولیس ایسے مواقع پر خاموشی نیم رضا کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ آیئے‘ دعا کریں کہ چند سو سال بعد‘ پائوں گھسیٹتے‘ گرتے پڑتے‘ ازمنۂ وسطیٰ سے نکل کر جدید عہد میں پہنچ جائیں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com