Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, October 29, 2014

ہم احتجاج کرتے ہیں


معاف کیجیے گا۔ یہ 2014ء ہے۔ بارھویں تیرھویں صدی کا عہد تاریک نہیں کہ دوسرے ملک کے اختیارات پر قبضہ کر لیا جائے۔ شرق اوسط کے ایک ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے روکا جائے۔ ہم اہل پاکستان اس زیادتی پر احتجاج کرتے ہیں اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر تاریخ کے‘ کیا کہنہ اور کیا نئے‘ اوراق بے شک چھان لیے جائیں‘ ثابت یہی ہو گا کہ یہ اعزاز کسی اور ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ہم واحد ایٹمی قوت ہیں اور یوں ایک اعتبار سے پورے عالم اسلام کے انچارج۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی دنیا ہم چلا رہے ہیں۔ عراق اور شام میں ہمارے لوگ برسر پیکار ہیں۔ افغانستان میں ہمارا عمل دخل ہے۔ طالبان کی پیدائش اور پرورش پر ہمارا دعویٰ ہے۔ خوست اور قندھار کے مسلمان، پاکستان میں ایک قدم دھرے بغیر، پاکستانی دستاویزات کی بنیاد پر حج کر آتے ہیں۔ چیچنیا سے لے کر بوسنیا تک، معاملات ہم نے سنبھالے۔ مغربی ملکوں میں قائم مدارس کو، جہاں شلوار قمیض کا ’’اسلامی لباس‘‘ پہننا لازمی ہے‘ ہم چلا اور چلوا رہے ہیں۔
جب یہ طے ہے کہ اسلامی دنیا کے مدارالمہام ہم ہیں تو سعودی عرب کے مفتی اعظم کون ہیں یہ فتویٰ دینے والے کہ چھٹی لینے کے لیے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ دینا اور لینا ناجائز اور گناہ ہے اور یہ کہ وہ ڈاکٹر جو اس طرح کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں اور جو ملازمین اس کے لیے درخواستیں دیتے ہیں دونوں گناہ گار ہیں۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہمارا پورا نظام تلپٹ کر کے رکھ دیں‘ ہمارا تو پورا سسٹم جھوٹی دستاویزات پر چل رہا ہے۔ کل کو مفتی صاحب یہ فتویٰ بھی دے دیں گے کہ مضروب اور مقتول کے بارے میں جو میڈیکل رپورٹیں پولیس والے عدالتوں میں داخل کرتے ہیں، اگر وہ جھوٹی ہیں تو وہ بھی گناہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہی مفتی صاحب نے یہ فتویٰ دیا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا بڑا گناہ ہے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کی جان لینا ارتکاب قتل ہے۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ہمارے حکمران سب سے پہلے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی خود کرتے ہیں اور اس کے بعد شاہراہوں پر گاڑیاں چلانے والوںکی اکثریت اس خلاف ورزی کا ڈنکے کی چوٹ پر ارتکاب کرتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پورے عالم اسلام کے ٹھیکیدار، عظیم پاکستانی، گناہ گار قرار دیے جائیں؟
کوئی ہے جو ان مفتی صاحب کو روکے۔ کل کو وہ یہ فتویٰ بھی دیں گے کہ ملاوٹ حرام ہے۔ جعلی ادویات بنانا گناہ ہے۔ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ پرسوں وہ یہ کہیں گے کہ فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے والی زمینوں پر قبضہ کرنے والے تاجر حرام خوری میں مبتلا ہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ پاکستانی اہل تجارت کی بھاری اکثریت مذہبی اور تبلیغی گروہوں سے وابستہ ہے۔ یہی تو وہ جاں نثار ہیں جو علماء کرام کی خدمت کرتے ہیں۔ انہیں ملبوسات پیش کرتے ہیں۔ گاڑیاں سواری کے لیے مہیا کرتے ہیں۔ وہ مہمان بن کر گھر اتریں تو بڑے بڑے ریفریجریٹر کوکا کولا اور سیون اپ سے بھر دیتے ہیں۔ یہی تو وہ تاجر ہیں جو چندے دیتے ہیں۔ حج اور عمرے کراتے ہیں۔ ختم پڑھواتے ہیں۔ قالین صفیں خرید کر بچھاتے ہیں۔ اگر ہمارے علما کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر، جھوٹی میڈیکل دستاویزات پر، ملاوٹ پر، ناجائز تجاوزات پر، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانے پر کوئی اعتراض نہیں تو دوسرے ملکوں کے مفتیان کرام کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا کیا حق ہے؟
مفتی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اسلامی معاملات میں خود کفیل ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسرے ملکوں کے مفتیان کرام کی پیروی کریں، دنیائے اسلام کو ہمارے علماء کرام کی اطاعت کرنی چاہیے۔ دنیا کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے علماء کرام کے ذہن کس قدر تخلیقی ہیں۔ ہمارے بعض علماء تو یہ بھی کرتے ہیں کہ اپنے ادارے ہی میں ایک کمرے کا نام کراچی رکھ دیتے ہیں اور دوسرے کا لاہور۔ پھر کوئی انہیں ملنے آتا ہے تو خدام عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کراچی گئے ہیں یا لاہور تشریف لے گئے ہیں۔ پھر یہ تخلیقی کارنامہ قومی اخبارات میں شائع ہو کر قبولیت عامہ حاصل کرتا ہے۔ کیا کسی دوسرے اسلامی ملک کے مذہبی رہنما ایسا کارنامہ پیش کر سکتے ہیں؟
ہم ادب و احترام کی خاطر خاموش رہتے ہیں‘ ورنہ ہم اہل پاکستان تو مسجدوں کے حوالے سے اس طریق کار کو بھی غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں جو سعودی عرب، کویت، یو اے ای، ترکی، مصر اور ملائشیا میں رائج ہے۔ اگر جھوٹے میڈیکل سرٹیفکیٹ کا استعمال ناجائز ہے اور اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی حرام ہے تو پھر یہ بھی سن لیجیے کہ مسجدوں کو ریاست کی تحویل میں دینا ہمیں بھی پسند نہیں! صحیح اسلامی طریقہ وہ ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ اگر ایک مسجد کا امام یا خطیب دنیائے دوں کو چھوڑ کر خلد آشیانی ہوتا ہے تو مسجد اس کے فرزند کی وراثت ہے۔ یہ سوال کہ فرزند اگر اہل نہیں تو کیا ہو گا، غیر اسلامی سوال ہے۔ ہر مسجد ایک خاندان کی تحویل میں ہونی چاہیے۔ باپ مرے تو بیٹا اس کا وارث ہو۔ بیٹا نہ ہو تو پوتا، ورنہ پڑپوتا۔ مفتی صاحب کو چاہیے کہ یہ نظام جو ہم پاکستان میں، جو اسلام کا قلعہ ہے، کامیابی سے چلا رہے ہیں‘ پورے عالم اسلام میں رائج کرائیں۔
کل کو خدانخواستہ اگر کوئی عالم دین یہ فتویٰ دے دے کہ دوسرے ملکوں سے سرمایہ کاری کو دعوت دینا اور خود، اپنا سرمایہ، سمندر پار رکھنا، منافقت ہے تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل کیسے رہیں گے؟ خود ہمارے ہاں ایک بار حافظ سعید صاحب عدالت میں چلے گئے کہ ہمارے حکمرانوں کا طرز رہائش اور معیار زندگی اسلام کے حوالے سے درست نہیں ہے۔ مثال میں حافظ صاحب کے وکیل نے برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش کی مثال دی جو مختصر ہے اور مثالی ہے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ مقدمے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور قبلہ حافظ صاحب بھی اس مقدمے کو منطقی انجام تک نہ لے جا سکے۔ کل کو اگر کسی نے فتویٰ دے دیا کہ محلات میں رہنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے تو ہمارے ہزاروں ایکڑوں کی شاہی رہائش گاہوں کا کیا ہو گا؟

نہیں! مفتی صاحب! نہیں! آپ ان معاملات میں نہ پڑیں۔ یوں بھی خود کش دھماکوں کے خلاف فتویٰ دے کر آپ ہمارے اہل علم اور اہل تقویٰ کے دل دکھا چکے ہیں!

Saturday, October 25, 2014

کھڑائوں اور چھتری


برصغیر کی جوشاہراہیں تاریخ کی گواہ ہیں، ان میں ایک بڑی گواہ ، ایک معتبر گواہ ، وہ شاہراہ ہے جو ٹیکسلا اور حسن ابدال کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہاں سے گزرتے وقت تاریخ کے ہجوم نے گھیر نہ لیا ہو۔ افغانستان پر جب بھی فوج کشی کی، اورنگزیب نے یہاں کیمپ کیا۔ کابل جاتے ہوئے اور واپسی پر، اکبر ضرور ٹھہرتا۔ برطانیہ نے سرحدی علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے ہیڈ کوارٹر یہیں رکھا۔ لیکن یہ تو قریب کے زمانے کی تاریخ ہے۔ ٹیکسلا نام ہی تاریخ کا ہے۔ بخارا اور سمرقند کو ’’شہر کا شہر عجائب گھر‘‘ (سٹی میوزیم) کہا جاتا ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں کے غول کے غول آتے ہیں۔ اس قلم کار نے سینکڑوں امریکی طلبہ کے قافلے وہاں اترتے دیکھے۔ اس لیے کہ سیاحت کا محکمہ اس ملک میں اور بہت سے دوسرے ملکوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاحت کا محکمہ مخصوص افراد کی مالی منفعت اور سیاست دانوں کی ’’ تالیف قلب‘‘ کے لیے کام کرتا ہے۔ اغوا برائے تاوان اور قتل کا دھڑکا اس کے علاوہ ہے۔ ورنہ ٹیکسلا کہ عجائب گھروں کا عجائب گھر ہے، سیاحوں کے قافلوں کا مستقل مستقر ہوتا! خدا مغفرت کرے افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار احمد دائود کی… کہا کرتا تھا کہ ٹیکسلا کے گلی کوچوں میں ایسے افراد زندہ چل پھر رہے ہیں جن کی صورتیں عجائب گھر میں رکھے مجسموں سے ملتی ہیں۔
سواریوں سے چھلکتی یہ شاہراہ ، جو ٹیکسلا کے دامن کو چومتی گزر رہی ہے، تاریخ کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے گروہ پر بھی گواہ ہے جو افراتفری اور روا روی کے اس پُرآشوب عہد میں ہر بدھ کو انجینئرنگ یونیورسٹی کی بغل میں ، ایک کمرے میں بیٹھ کر ادب،فلسفہ اور تاریخ کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔ یہ گروہ جس میں فوجی افسر بھی ہیں، اساتذہ بھی اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل انجینئر بھی‘ طالب علم بھی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے دانشور بھی، اس ہنگامے اور شور وغوغا سے بے نیاز، جو چاروں طرف برپا ہے‘ اس روایت کو نبھائے جارہا ہے جس نے سینکڑوں سال پہلے ٹیکسلا میں تشکیل پائی۔ شعر، ادب، مصوری، فلسفہ اور تاریخ ٹیکسلا کی گھٹی میں پڑا ہے۔ اس کا مقام ایک زمانے میں وہی تھا جو آج ہارورڈ، کیمبرج یا آکسفورڈ کا ہے۔
ایک احساس جرم تھا جس نے گزشتہ ہفتے ٹیکسلا بھیجا۔ آل پاکستان مشاعرے منعقد کرنا ٹیکسلا کے ادب دوستوں کا وتیرہ ہے۔ اس بار یہ مشاعرہ 14اگست کو ہونا تھا۔ صدارت کے لیے اس بے نوا شاعر کو حکم دیاگیا۔ اس سے دو دن پہلے ایک نجی کام سے لاہور جانا ہوا۔ اس اثنا میں دھرنوں کا موسم شروع ہوگیا اور دارالحکومت جانے والے راستے کنٹینروں سے اٹ گئے۔ 14اگست کو لاہور سے آنا ممکن ہی نہ رہا۔ اگرچہ یہ غیر حاضری عمداً نہیں تھی؛ تاہم ایک احساس جرم بار بار ذہن کے نہاں خانے میں سر اٹھاتا تھا۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے خوش فکر شاعر حفیظ اللہ بادل کو کہ حلقۂ تخلیق ادب کے مدارالمہام ہیں، فون کیا کہ اس بدھ کو اہل دانش کی بزم میں یہ طالب علم بھی حاضر ہوگا۔
تین چار گھنٹوں پر مشتمل اس نشست میں جو تخلیقات پیش کی گئیں‘ ان پر جو گفتگو ہوئی‘ بحث کا جو معیار دیکھا، تہذیب، شائستگی، برداشت اور اظہار اختلاف کے جو اسالیب سامنے آئے، انہیں دیکھ کر ، بار بار ایک آواز اندر سے اٹھتی تھی کہ ملک میں ادب اور کلچر کا مستقبل تابناک ہے۔ بسا اوقات اہل سیاست پر کم علموں بلکہ بے علموں کی اجارہ داری دیکھ کر یاس طاری ہوجاتی ہے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے‘ ٹیکنالوجی کا دور ہے‘ ادبیات کو کون پوچھے گا لیکن اس بزم میں اور اس قبیل کی دیگر مجالس میں بیٹھ کر یاس کی اس کیفیت سے رہائی ملتی ہے۔ ظفر اقبال نے کہا ہے ؎
درِ امید سے ہوکر نکلنے لگتا ہوں
تو یاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے
لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ یاس راستہ روکتی ہے اور امید انگلی پکڑ کر آگے لیے چلتی ہے۔ گیارہویں جماعت اور سائنس کے مضامین کا ایک طالب علم اس بزم میں جس اعتماد اور جس علمیت کے ساتھ گفتگو کررہا تھا، حیران کن تھا۔ اور شعر سنائے تو کاٹ دار ؎
کیوں معترض ہیں یار مرے حرف خام پر
مشق سخن یہ کی ہے، سخن تو نہیں کیا!
رہا یہ اعتراض کہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ادب کا کس کو ہوش ہوگا تو معترض حضرات بھول جاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہنسی تو آئے گی اور آنسو بھی بہیں گے۔ لوگ اپنے پیاروں سے جدا بھی ہوں گے اور وصال کی خواب گاہیں بھی سجیں گی۔ ان مواقع پر جذبات کو اظہار بھی درکار ہوگا۔ سو، جذبات کو لفظ دینے کے لیے ادب پر تکیہ کرنا ہی پڑے گا۔ صورت میں ڈھالنے کے لیے مصوری کا سہارا لینا ہی ہوگا۔ لٹریچر یوں بھی اپنا راستہ خود نکالتا ہے۔ 1979ء میں چین میں ون چائلڈ (صرف ایک بچہ) پالیسی کا آغاز ہوا۔ اس پالیسی کے بہت سے نتائج سامنے آئے ۔ منفی بھی اور مثبت بھی؛ تاہم ایک نسل جوان ہوئی تو اسے معلوم ہی نہ تھا کہ بہن کیا ہوتی ہے اور بھائی کس چڑیا کا نام ہے۔ کچھ وقت اور گزرا تو ماموں‘ خالہ اور چچا بھی ناپید ہوگئے۔ اب جو ناولوں میں ان رشتوں کا ذکر پڑھتے تھے تو یوں جیسے زمین پر رہنے والے سیاروں اور کہکشائوں کا ذکر پڑھتے ہیں۔ کیفیت معلوم‘ نہ صورت! 2007ء میں جب چین کی پیپلز Consultativeکانفرنس کا اجلاس ہوا تو تیس مندوبین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ون چائلڈ پالیسی ختم کی جائے۔ جو دلائل دیے گئے ان میں یہ بھی مذکور تھا کہ سماجی پراگندگی اس قدر پھیلنے لگی ہے کہ رشتوں کا تصور اجنبی ہوگیا ہے اور جو ادب تخلیق ہورہا ہے اور جس کی تفہیم ہوسکتی ہے، وہ کھوکھلا ہے اس لیے کہ رشتوں کا علم نہ ہو تو کردار کیسے سمجھ میں آئیں گے؟
کرپشن کا اندھیرا چاروں طرف چھا رہا ہے۔ غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی ناسور کی طرح پھیل رہی ہے۔ کتابیں پہلے کی نسبت کم تعداد میں شائع ہونے لگی ہیں‘ اس کے باوجود یہ طے ہے اور روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ادب کے دلدادگان پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہنگاموں سے دور، اپنے گوشہ ہائے تہذیب بساتے رہیں گے۔ ایک شاعر یا ایک کہانی کار کوٹھی کی آرزو پالتا ہے نہ کار کی۔ اسے بینک بیلنس کا شوق ہے نہ بزنس ایمپائر اس کا خواب ہے۔ وہ تو صرف ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے جس میں امن ہو، محبت ہو، عافیت ہو اور کرنسی نوٹوں کے بجائے قدروں سے پیار کیا جائے۔ جب تک ادیب زندہ ہے، جب تک شاعر موجود ہے، روشنی ظلمت کا مقابلہ کرتی رہے گی اور فتح یاب ہوتی رہے گی۔
غزل سناتے وقت یہ احساس مسلسل لَو دے رہا تھا کہ علم اور تہذیب کے اس موقع میں شاعری سنانا کتنا بڑا اعزاز ہے۔ جہاں علم کے طلب گار کپڑوں کے ایک جوڑے ، کھڑائوں اور چھتری کے سوا اپنے پاس کچھ رکھتے تھے‘ نہ کسی شے کی تمنا ہی کرتے تھے !! کیا عجب غزل گوتم بدھ کی سماعت کا اعزاز بھی حاصل کررہی ہو ؎
میں زندگی اور بخت پانی سے ڈھالتا ہوں
کبھی سفینے، کبھی جواہر اچھالتا ہوں
یہ پیاس سے جاں بلب ہیں منکر مرے ہنر کے
میں سنگ خارا سے آب شیریں نکالتا ہوں
میں جا پہنچتا ہوں چاہ سے شاہ کے محل میں
نکل کے زنداں سے میں حکومت سنبھالتا ہوں
زمیں سے اور آسماں سے پانی، اور ایک کشتی
میں سینکڑوں سال اس مصیبت کو ٹالتا ہوں
میں اپنی توقیر عشق میں بھولتا کہاں ہوں
میں چاند کے سامنے ستارہ اجالتا ہوں
تم اپنی اقلیم سے زر و سیم جمع کرلو
میں اپنی گدڑی سے ایک آیت نکالتا ہوں

Friday, October 24, 2014

سنتا جا‘ شرماتا جا


شریف گھرانے کی لڑکی کو ورغلا کر‘ بہلا پھسلا کر‘ ڈرا دھمکا کر‘ خالی مکان میں لے گئے۔ نشہ آور دوائیں پلائیں۔ ڈانس کرنے پر مجبور کیا‘ پھر قابلِ اعتراض حالت میں تصویریں کھینچیں‘ یہ تصویریں لڑکی کے لیے اور اس کے شریف گھرانے کے لیے سوہانِ روح بن گئیں۔ 
بلیک میلنگ کی یہ قسم مکروہ ترین ہے اور پوری دنیا میں عام ہے‘ لیکن بلیک میلنگ کی جو اقسام ہمارے ہاں رائج ہیں اور بدقسمتی سے ’’مقبول‘‘ بھی ہیں‘ وہ عجیب و غریب ہیں۔ ان پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ متشرع شکل و صورت کا کوئی آدمی جھوٹ بولے یا دھوکا دے اور اسے کہا جائے کہ بھائی! اس شکل و صورت کے ساتھ دروغ گوئی اور فریب کاری کر رہے ہو تو وہ شور مچا دے گا کہ مذہبی شکل و صورت پر اعتراض کر رہے ہو؟ اس نکتے کو وہ اس قدر اچھالے گا کہ آپ کو معذرت کرنا پڑے گی۔ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ان کی والدہ بیمار تھیں اور بے خوابی سے تنگ۔ پڑوس میں مسجد تھی۔ لائوڈ سپیکر کی توپ کے دہانے کا رُخ عین مریضہ کے کمرے کی کھڑکی کی طرف تھا۔ ان صاحب نے ایک دن مولوی صاحب کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر عرضِ مدعا کیا کہ ازراہِ کرم توپ کے دہانے کا رُخ تھوڑا سا پھیر دیں۔ دو دن بعد جمعہ تھا۔ شام کو گھر پہنچے تو بچے پریشان۔ مولوی صاحب نے خطبے کے دوران عوام کو ’’آگاہ‘‘ کیا کہ مسجد کے پڑوس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو قرآن پڑھنے سے منع کر رہے ہیں! ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے۔ دارالحکومت کی ایک معروف مارکیٹ میں مسجد کے اردگرد دکانیں ہیں۔ ایک دکاندار نے بچے کو سکول سے لینے کے لیے جانا تھا‘ لیکن دیکھا تو گاڑی کے عین پیچھے ایک اور گاڑی جُڑی کھڑی تھی۔ بہت دیر انتظار کیا۔ گاڑی والے صاحب آئے‘ انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے شور مچا دیا کہ غضب خدا کا‘ نماز پڑھنے سے منع کیا جا رہا ہے! 
مذہب کی بنیاد پر بلیک میلنگ کے یہ عام واقعات ہیں۔ ’’خاص‘‘ واقعات میں سرفہرست وہ شور و غوغا ہے جو خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے قائم ہونے پر مچایا جا رہا ہے۔ 
’’اسلامی اقدار تباہ ہو رہی ہیں‘‘۔ 
’’یہودیوں کے ایجنٹ آ گئے ہیں‘‘۔ 
’’مغرب کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ 
یعنی اگر امریکی سفیر سے درخواست کی جائے کہ وزیراعظم بنوا دو تو اسلامی اقدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ 
دھرنے کی سیاست در آئی تو بلیک میلنگ کے ہنر کو بھی نئی سمتیں ملیں۔ مڈل کلاس باہر نکلی تو خوف تو کسی اور چیز کا تھا‘ ہنگامہ یہ برپا کیا گیا کہ ناچ گانے کو عام کیا جا رہا ہے۔ طرفہ لطیفہ یہ ہوا کہ ’’ناچ گانے‘‘ کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں اُس پارٹی کے زعما بھی شامل تھے جس نے ’’لڈی ہے جمالو‘‘ کو سیاست کا عنوان بنا دیا ہے! 
مگر بلیک میلنگ کی ایک بدمست قسم کا مظاہرہ اب بھی وہ دانش ور کیے جا رہے ہیں جو سرکاری تھان پر مراعات کے کھونٹے سے بندھے ہیں اور آسودگی کی جگالی کر رہے ہیں۔ کبھی دہائی دیتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے‘ کبھی آسمان سر پہ اٹھائیں گے کہ سسٹم تباہ کرنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے‘ کبھی حب الوطنی کی خون آلود قمیض ڈنڈے پر ٹانگ کر لہرا دیتے ہیں۔ دو دن پہلے ایک عجیب منظر دیکھا۔ اینکر پرسن نے ’’آسان‘‘ سا سوال پوچھا کہ اگر وزیراعظم دشمن ملک میں جا کر اپنے صاحبزادے کے ساتھ کسی بزنس مین سے ملنے نجی دعوت پر جائیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ اس کا جواب دانش ور نے یہ دیا کہ وزیراعظم کی حب الوطنی پر شک کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ بلیک میلنگ کی وہ لطیف قسم ہے جسے ہر کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا۔ 
بلیک میلنگ کی بھونڈی قسم سسٹم کے حوالے سے رائج ہے اور حال ہی میں رائج ہوئی ہے۔ دھرنے کی حکمت عملی غلط تھی یا صحیح‘ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ حقیقت تو بچے بچے پر واشگاف ہے کہ عوام کے ذہنوں میں کرپشن کے خلاف ایک لہر اٹھی ہے جسے اب دبایا نہیں جا سکتا۔ اعدادو شمار کا گورکھ دھندا اب تک اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا کھیل رہا ہے مگر اب عام آدمی کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ فلاں شخصیت نے ملک کے اندر کتنا ٹیکس دیا ہے اور برطانیہ میں کتنا دیا ہے۔ فلاں شخصیت کے چورانوے رشتہ دار اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ عمران خان نے تسلسل کے ساتھ جو تقریریں کی ہیں‘ ان سے ٹیکس چوری اور کرپشن کی دوسری صورتوں کی تصویریں ذہنوں پر مرتسم ہو گئی ہیں۔ اس کا توڑ اور تو کوئی تھا نہیں! ’’ہوشیار‘‘ وفاداروں اور حاشیہ نشینوں نے بلیک میلنگ کا سہارا لیا۔ 
’’یہ لوگ سسٹم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ 
’’سسٹم تباہ ہوا تو لاقانونیت (انارکی) پھیل جائے گی‘‘۔ 
بلیک میلنگ کی اس قسم میں ناواقفیت بھی شامل ہے (یہاں ’’جہالت‘‘ کے بجائے ’’ناواقفیت‘‘ کا اسمِ صفت دانستہ استعمال کیا جا رہا ہے)۔ دو چیزیں واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ ایک ہے حکومتی ڈھانچہ یعنی بیوروکریسی کا اور دفتری نظام کا سٹرکچر۔ دوسری شے ہے سسٹم۔ ان دونوں کو آپس میں ملا کر عوام کو کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ پاسپورٹ کا محکمہ ڈھانچے یا سٹرکچر پر مشتمل ہے۔ اس میں افسر بھی موجود ہیں۔ اہلکار بھی حاضر ہیں۔ جدید مشینیں بھی دستیاب ہیں۔ سالانہ بجٹ بھی مہیا کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھانچہ موجود ہے اور سٹرکچر مکمل ہے۔ اب ایک عام شہری آتا ہے تو اسے اس ڈھانچے کی موجودگی میں بھی بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے متعلقہ اہلکار چھٹی پر ہے۔ کل آئو۔ دوسرے دن کہا جائے گا مشین خراب ہے۔ ہفتے بعد آئو۔ دو تین ماہ خاک چھاننے کے بعد اُسے ’’علم‘‘ ہو جائے گا کہ کام کس طرح کرانا ہے۔ یعنی سٹرکچر موجود ہے‘ سسٹم خراب ہے۔ یہی حال دیگر محکموں کا ہے۔ سی ڈی اے‘ کے ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ تھانے‘ کچہریاں‘ شناختی کارڈ کے دفاتر‘ سوئی گیس کنکشن لینے کا مسئلہ‘ عوام ہر جگہ دھکے کھا رہے ہیں۔ پھیروں پر پھیرے ڈال رہے ہیں۔ دن بھر انتظارگاہوں میں بیٹھے ہیں۔ قطاروں میں کھڑے ہو ہو کر سوکھ گئے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جا کر دیکھ لیجیے۔ مریض انتظار کر رہے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب چائے پینے گئے ہیں یا رائونڈ کر رہے ہیں یا چھٹی پر ہیں یا میٹنگ کے لیے فلاں دفتر میں جانا پڑ گیا ہے۔ ادویات موجود ہیں۔ ڈاکٹر تعینات ہے۔ اسے آلات فراہم کیے گئے ہیں؛ تاہم سسٹم خراب ہے۔ اس کی ذمہ داری ظاہر ہے حکومتِ وقت پر ہے۔ اب اگر کوئی سیاست دان یا ریفارمر اٹھ کر کہتا ہے کہ سسٹم درست کرو اور آگے سے شور مچایا جائے کہ یہ تو سسٹم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو شور برپا کرنے کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں یا تو ناواقفیت ہے۔ یہی نہیں معلوم کہ سرکاری ڈھانچے کو تباہ کرنے کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ پاسپورٹ کا دفتر یا ایل ڈی اے کا محکمہ بند کردو‘ مشینیں توڑ دو‘ عمارت گرا دو‘ افسروں اور اہلکاروں کی اسامیاں ختم کردو۔ سسٹم درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ سائل آئے تو اس کا جائز کام ضابطے‘ قاعدے قانون کے مطابق مقررہ مدت کے اندر سرانجام پا جائے۔ اسے دھکے نہ کھانے پڑیں‘ اس کی تذلیل نہ ہو‘ اُسے رلایا نہ جائے۔ وہ یہ نہ کہے کہ ہائے میں تو رُل گیا۔ آخرکار تنگ آ کر‘ اسے کسی کی مٹھی نہ گرم کرنی پڑے۔ 
شور مچانے کی دوسری وجہ بلیک میلنگ ہے۔ شور مچانے والوں کو معلوم ہے کہ حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی‘ سسٹم فی الواقع خراب ہے لیکن صدائے احتجاج کو دبانے کے لیے سسٹم کی تباہی کا واویلا مچا دو۔ اگلا ڈر کر خاموشی کے دروازے سے واپس ہو جائے گا! 
قابل اعتراض حالت میں کسی مجبور‘ بے بس لڑکی کی تصویریں اتارنے کے علاوہ بھی بلیک میلنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔ 
سنتا جا‘ شرماتا جا۔

Wednesday, October 22, 2014

یہ بھی وہی ہے


’’شرم کرو بے غیرتو! ڈوب مرو‘‘ 
میں نے چیختے ہوئے کہا۔ جی چاہتا تھا ان کے چہرے نوچ لوں۔ ان کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کردوں۔ ان کے گلے گھونٹ ڈالوں۔ انہیں دوبارہ زندگی ملے۔ دوبارہ مار دوں۔ انہیں قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بنا دوں۔ لیکن بے شرمی کی حد یہ تھی کہ آٹھوں کے آٹھوں ہنس رہے تھے۔ پیلے گندے دانت نمایاں نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے باقی سات کو مخاطب کیا اور کہا۔ ’’اوئے! یہ بھی وہی ہے‘‘۔ باقی سات نے میری طرف دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ یوں لگتا تھا آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ بدبخت بہت کچھ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ پھر سب نے مل کر قہقہہ لگایا۔ غلیظ قہقہہ‘ جو غنڈے‘ بدمعاش اور اوباش لگاتے ہیں۔ پھر سب نے بیک آواز کہا۔ ’’اوئے‘ یہ بھی وہی ہے‘‘۔ 
میرے ذہن میں فلم چلنے لگی۔ فلیش بیک۔ سِن اس وقت میرا چھوٹا تھا۔ گائوں کی گلیوں میں کھیلتا پھرتا تھا۔ دن کھیتوں کھلیانوں پہاڑیوں پر ہم جولیوں کے ساتھ گزرتا تھا اور رات کہانیاں سنتے سناتے۔ انہی دنوں گھر میں رشتے کی ایک دادی آئی ہوئی تھی۔ دادی کی رشتہ دار۔ ایک شام‘ جب جھٹپٹے کی ملگجی روشنی غائب ہو چکی تھی اور ستارے پوری چمک کو پہنچ کر اِترا رہے تھے‘ اس مہمان دادی نے کہانی سنائی۔ ایک تھا بادشاہ‘ اسے راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کی باتیں سننے میں مزہ آتا تھا۔ ایک رات جب وہ شہر کی گلیوں میں پھر رہا تھا‘ ایک دروازے کی درز سے روشنی دکھائی دی جو زیادہ ہوتی تھی پھر کم ہوتی تھی۔ اس نے جھانکا تو تین جوان لڑکیاں دیے کی روشنی میں چرخے کات رہی تھیں۔ ایک نے کہا… ’’یہ تو جا رہا ہے‘‘ دوسری نے کہا ’’اس میں وہ جو نہیں ہے‘‘۔ تیسری نے کہا… ’’ہوتا تو کیوں جاتا؟‘‘ 
بادشاہ جیسا بھی ہو‘ جہاں بھی ہو‘ جب بھی ہو‘ اُسے ہر بات میں اپنا اقتدار ڈولتا دکھائی دیتا ہے۔ جمعہ کے دن عید آ جائے تو خوف سے گھگھی بندھ جاتی ہے۔ دس آدمی ایک جگہ جمع ہوں تو گولی چلانے کا حکم دے دیتا ہے۔ پچاس سال کے لیے دولت جمع کر لے تو بے یقینی بڑھ جاتی ہے ،یہاں تک کہ چار نسلوں کے لیے جمع کرنے لگتا ہے۔ ملک میں ہزاروں ایکڑ کے محلات ہوں تب بھی بے گھر ہونے کی فکر رات کو سونے نہیں دیتی‘ پھر سمندر پار ٹھکانے بنانے لگتا ہے‘ یہ بادشاہ بھی ایسا ہی تھا۔ بالکل دوسرے سارے بادشاہوں کی طرح۔ اسے ان تینوں عورتوں کی گفتگو میں اپنے اقتدار کا خاتمہ صاف سنائی دیا۔ ’’یہ تو جا رہا ہے‘‘۔ ہو نہ ہو‘ یہ میرے بارے میں کہہ رہی ہیں! 
صبح ہوئی تو ہرکارے آن پہنچے۔ تینوں گستاخ لڑکیوں کو تلواروں کے سائے میں دربار لایا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا‘ رات کس کے بارے میں کہہ رہی تھیں کہ ’’یہ تو جا رہا ہے‘‘۔ تینوں لڑکیوں نے بادشاہ کی طرف دیکھا‘ پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایک نے کہا ’’یہ بھی وہی ہے‘‘۔ دوسری نے کہا ’’لیکن وہ تو نہیں ہیں‘‘ تیسری نے کہا ’’اُن کے بغیر بھی تو ہوتے ہیں‘‘۔ پھر تینوں نے مل کر زوردار قہقہہ لگایا۔ اتنا بے خوف اور اس قدر بلند کہ بھرے دربار پر وہ قہقہِ پتھر کی طرح گرا اور ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ اُن میں سے ایک نے کہا۔ ’’یہ جو میں نے کہا تھا کہ یہ تو جا رہا ہے‘ تو دیے کی لو بھڑک رہی تھی۔ روشنی کم ہوتی تھی، پھر زیادہ‘ مطلب یہ تھا کہ دیا بجھنے لگا ہے۔ میری دوسری سہیلی نے کہا ،اس میں تیل جو نہیں ہے۔ تیسری نے لقمہ دیا کہ تیل ہوتا تو بجھتا ہی کیوں‘‘۔ بادشاہ کو اطمینان نہ ہوا۔ پوچھا‘ اور یہ جو تم ابھی میرے سامنے کہہ رہی تھیں کہ یہ بھی وہی ہے۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ لڑکیاں پھر ہنسیں۔ ہم بے وقوف مرد کو بیل کہتی ہیں۔ تمہاری باتیں سن کر ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ تم بے وقوف ہو۔ ہم میں سے ایک نے کہا، یہ بھی وہی ہے۔ یعنی یہ بھی بیل ہی ہے۔ دوسری نے کہا ،لیکن اس کے سینگ تو نہیںہیں‘ تیسری نے یاد دلایا کہ بیل، روڈ مروڈے یعنی بغیر سینگوں کے بھی ہوتے ہیں۔ 
کہانی یاد آئی اور میں جھِلّا اُٹھا۔ بے غیرتو! تمہارے ماں باپ نے تمہیں ڈاکو بنایا۔ میرے بارے میں کیا بکواس کر رہے ہو‘ کیوں کہہ رہے ہو ’’اوئے یہ بھی وہی ہے؟‘‘ ان میں سے ایک نے‘ جو زیادہ معتبر تھا‘ مجھے مخاطب کیا… ’’تم بھی ان لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی طرح عقل کے اندھے ہو جو صرف ہمیں ڈاکو سمجھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نے ایدھی سنٹر پر ڈاکہ ڈالا۔ عبدالستار ایدھی پر ریوالور تانا‘ پانچ کلو گرام سونا اور کروڑوں کی کرنسی لوٹی لیکن یہ کام کون نہیں کر رہا؟ ہم تمہیں اس لیے ڈاکو دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے قیمتی‘ ڈیزائنر‘ اعلیٰ برانڈوں کے سوٹ نہیں پہنے ہوئے‘ ریشمی نکٹائیاں نہیں لگائی ہوئیں‘ باس اور ارمانی کی قمیضیں نہیں پہنی ہوئیں‘ ہمارے پیروں میں چرچ کے جوتے نہیں‘ ہمارے دہانوں میں ایک ایک فٹ لمبے سگار ٹھنسے ہوئے نہیں‘ ہم لیموزینوں سے اتر کر ایدھی سنٹر نہیں گئے‘ ہمارے پیچھے ہمارے نوکر بریف کیس اٹھائے نہیں چل رہے تھے۔ یہی کام جو ہم نے کیا‘ اور ملک بھر سے پھٹکار اور لعنت سمیٹ رہے ہیں‘ یہی کام خوش لباس اور عالی مقام ڈاکو کر رہے ہیں لیکن تمہارے سمیت کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ عبدالستار ایدھی ایک بوڑھا شخص ہے‘ خادمِ خلق ہے‘ فرشتہ سیرت ہے‘ ہم نے ڈاکہ ڈالا‘ بُرا کیا۔ ہم واقعی لعنت کے مستحق ہیں‘ لیکن وہ جو ملک کے لاکھوں بوڑھوں‘ کروڑوں بیوائوں اور ہزاروں یتیموں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین رہے ہیں‘ انہیں ڈاکو کیوں نہیں کہا جاتا۔ کل ہی کی بات ہے‘ بجلی تیس پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی ہے۔ یہ ڈاکہ ایکولائزیشن سرچارج کے نام سے ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ڈاکو اس بھوکی ننگی سسکتی بلکتی کراہتی مرتی قوم سے‘ بوڑھوں کے جبڑوں سے‘ عورتوں کی مٹھیوں سے‘ بچوں کے دہانوں سے اس سرچارج کے نام پر چار ارب روپے نکالیں گے اور یہ ڈاکہ ایک بار نہیں‘ ہر مہینے ڈالا جائے گا۔ سندھ کے وزیر نے ہمارے بارے میں درست کہا ہے کہ ہم پورے معاشرے کے مجرم ہیں‘ اس لیے کہ ہم نے پانچ کلو گرام سونا اور دو کروڑ روپے لوٹے ہیں۔ کیا وزارت پانی و بجلی کا ترجمان جو دن دیہاڑے ڈنکے کی چوٹ کہہ رہا ہے کہ چار ارب روپے کے ماہانہ ڈاکے کا صارفین پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا‘ پوری قوم کا مجرم نہیں؟ 
افسوس! صد افسوس! ہم تمہیں ڈاکو نظر آتے ہیں اس لیے کہ ہمارے لباس گندے ہیں۔ وہ جو دمکتے ملبوسات پہن کر‘ ہماری جیبوں سے پیسے نکال کر‘ جہازوں میں بیٹھ کر‘ بحرِ اوقیانوس کو پار کر کے‘ آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہمارے زیورات‘ ہمارا مال و دولت‘ ہمارا کھانا پینا‘ ہماری عزت و حرمت‘ یہاں تک کہ ہماری زندگیاں گروی رکھ آتے ہیں‘ وہ ڈاکو نہیں‘ صاحب ہیں!! واہ واہ! تم بھی وہی ہو!!‘‘

Monday, October 20, 2014

چارپائی پر پڑا مردہ


قمار بازی زوروں پر تھی۔ ایک طرف گائوں کا وہ شخص جس کی ذات برادری ،لطیفوں ،طعنوں اور ضرب الامثال کا باعث بنتی ہے، مثلاً یہ لطیفہ کہ چارپائی پر گائوں کا چودھری لیٹا ہوا تھا۔ نوکر اس کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ سامنے سے ایک میراثی گزرا۔ چودھری نے ٹانگیں دباتے نوکر کو حکم دیا کہ میراثی پر بھونکو۔ نوکر بھونکا تو میراثی نے کہا کہ مجھ پر کیوں بھونک رہے ہو، جو مردہ تمہارے سامنے چارپائی پر پڑا ہے، پہلے اسے تو کھالو۔قمار بازی ہورہی تھی۔ میراثی مسلسل ہار رہا تھا۔ پیسے ، غلہ ، مال مویشی، زمین سب دائو پر لگا دیے اور سب کچھ ہار گیا۔ آخر میں بیوی کو دائو پر لگادیا ۔بیوی نے سنا تو کہا ’’ بے غیرت ! ہار گئے تو یہ جیتنے والے مجھے لے جائیں گے‘‘۔ میراثی ہنسا۔ ’’میں ہارمانوں گا تو تب تمہیں لے جائیں گے! میں تو ہار مانوں گا ہی نہیں !‘‘۔
یہی کچھ ملتان کے ضمنی الیکشن کے بعد ہورہا ہے۔ پہلے تو یہ پیش گوئیاں تھیں کہ تاریخ کا اور کرۂ ارض کا سب سے عظیم باغی ہار ہی نہیں سکتا۔ باغی ہار گیا تو اب ایسی ایسی دلیلیں دی جارہی ہیں اور ایسے ایسے نادر نکتے نکالے جارہے ہیں کہ ہنسی تک نہیں آتی۔ ایک صاحب دور کی کوڑی لائے ہیں کہ اگر اپنی خالی نشست جیت لینا انقلاب ہے تو پاکستان تبدیل ہوگیا ہے،ورنہ یہ ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ مسلم لیگ نون کا ہیڈ کوارٹر جو لاہور میں ہے، شکست کے اسباب جمع کررہا ہے اور وہ بھی سپیشل برانچ کی رپورٹوں کی بنیاد پر !! ’’ اسباب‘‘ جو عمیق تحقیق کے بعد برآمد ہوئے ہیں، دیکھتے جائیے اور آفرین آفرین کے ڈونگرے برساتے جائیے۔ مثلاً یہ کہ ن لیگ ملتان کے ذمہ داران نے ہاشمی صاحب کے ساتھ منافقت کی۔ یہ کہ اس شکست میں نون لیگ کی مقامی قیادت کا عمل دخل ہے۔ یہ کہ نون لیگ کے صوبائی وزیر نے لیگ کے ووٹروں کو تیار کیا ،نہ ناراض ووٹروں کو منانے کا کام کیا۔ یہ کہ پولنگ کے دن ن لیگ کے جو ووٹرز باہر نہیں نکلے وہ ایک سابق وزیر کا قصور ہے۔ یہ کہ ایک سابق ایم این اے جو اسی حلقہ سے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں الیکشن لڑتے تھے، بظاہر ساتھ تھے لیکن منافقت سرزد کی۔ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر جو کچھ سامنے آیا، اس کی بنا پر نون لیگ کی قیادت ملتان کے ارکان اسمبلی اور صوبائی وزیر سے سخت ناراض ہے اور یہ کہ اب ملتان میں تبدیلیاں کی جائیں گی!
صدر جنرل ضیاء الحق ایک بار ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کررہے تھے تو غریبوں ،مسکینوں،یتیموں اور فاقہ کشوں کا ذکر کرتے ہوئے روہانسے ہوگئے۔ لیکن کچھ حقائق کا ذکر کرنا یا سننا ان کے عہد میں ناممکن تھا۔ حرم کعبہ میں نوے دن کا وعدہ کیا۔ منتخب حکومت کو موت کے گھاٹ اتارا‘ پھر بھی یہ طے تھا کہ ان کی حکومت جائز ہے اور اس موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔ یہی حال جاوید ہاشمی کی شکست پر تبصرے کرنے والوں کا ہے۔ یہ طے ہے کہ سٹیٹس کو پر بات نہیں ہوسکتی۔ نون لیگ کی خاندانی اجارہ داریوں پر بات نہیں ہوسکتی۔ جو دولت ملک سے باہر پڑی ہے، اس کا ذکر نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس چوری اور ٹیکس چوروں کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے لوگوں کو سٹیٹس کو سے برگشتہ کردیا ہے۔ عمران خان نے تو گلے سڑے متعفن نظام سے فائدہ اٹھایا۔ کوئی اور آتا تب بھی یہی ہوناتھا۔ لیکن اس پر یہ تبصرہ نگار بات نہیں کرتے۔ گمشدہ سوئی کو سڑک پر تلاش کررہے ہیں۔ اس لیے کہ سڑک کے کنارے کھمبا نصب ہے جس پر کمیٹی کا بلب جل رہا ہے اور سڑک پر ہلکی ہلکی روشنی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ سوئی کمرے میں گم ہوئی ہے لیکن کہتے ہیں کہ کمرے میں اندھیرا ہے!
تاریخ کی عجیب و غریب ستم ظریفی ہے کہ میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کی حمایت ثقہ صحافیوں کا وہی گروہ کررہا ہے جو دس سال جنرل ضیاء الحق کا دست راست رہا۔ بہت سے کام جنرل صاحب نے انہی ثقہ صحافیوں کے مشورے سے کیے۔ ان رازوں سے پردہ خود ان صحافیوں نے اٹھایا ہے جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ! ان حضرات کی صحافت کی پوری تاریخ کھنگال لیجیے، مجال ہے جو نظریات کی جھلک بھی ملے ! صرف اور صرف شخصیات کے تذکرے ہیں! ان واجب الاحترام بزرگوں کے نزدیک زرعی اصلاحات، نظام تعلیم، ٹیکس کا سسٹم، بے روزگاری کی شرح، طبقاتی تقسیم اور اس قبیل کے معاملات، جن کی وجہ سے آج یہ ملک صومالیہ اور عراق کی صف میں کھڑا ہے۔ کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کا سارا مبلغ علم یہ ہے اور زور قلم ان باتوں پر خرچ ہوتا ہے کہ فلاں شخص وزیر کیوں نہیں بنا، اسے کیسے بنوانا ہے۔ فلاں کے گروہ میں کون ہے اور کون تھا۔ شخصیات کی پوری پوری سوانح ہائے حیات حفظ ہیں لیکن ملک کے مسائل کیا ہیں اور معاشرہ ابتری کا شکار کیوں ہے، اس کا ادراک ہے‘ نہ دماغ!
عامر ڈوگر کو آج بھی کوئی نہیں جانتا! یہ فتح عامر ڈوگر کی نہیں ! یہ شکست جاوید ہاشمی کی بھی نہیں! جب جاوید ہاشمی ایک سے زیادہ نشستوں سے جیتے تھے ، اس وقت بھی فتح جاوید ہاشمی کی نہیں تھی! اللہ کے بندو! تم اس حقیقت پر غور کیوں نہیں کرتے کہ لوگوں کے دل سلگ رہے ہیں ، آنکھوں میں چنگاریاں بھری ہیں۔ آج اگر جھاڑو دینے والا، ریڑھی کھینچنے والا، برتن مانجھنے والا اور فوٹو کاپی کا کھوکھا چلانے والا اعدادو شمار بتاتا پھر رہا ہے کہ فلاں نے اتنا ٹیکس دیا اور فلاں کے اتنے رشتہ دار اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں تو شیش محلوں میں بیٹھے ہوئے مراعات یافتہ تبصرہ نگار اس تبدیلی کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟ جس مڈل کلاس کی یہ اپر کلاس صحافی تضحیک کرتے رہے ہیں،جنہیں تحقیر آمیز القابات سے نوازتے رہے ہیں، وہ مڈل کلاس باہر نکل آئی ہے۔ یہ اسے دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ یہ کالم نگار ایسے بیسیوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب کو جانتا ہے جو تیس سال سے الیکشن کے دن گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ اس لیے کہ چپڑے ہوئے بالوں ، تنی ہوئی مونچھوں، کھڑ کھڑاتے کلف زدہ لباسوں اور پہریداروں میں گھری لینڈ کروزروں سے انہیں نفرت ہے… شدید نفرت…لیکن تحریک انصاف کے لیے یہ لوگ تین عشروں میں پہلی بار گھروں سے نکلے اور قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ اس تبدیلی کے اسباب پر یہ لکھاری کیوں نہیں روشنی ڈالتے؟
سچی بات یہ ہے کہ لکھاریوں کے اس گروہ سے شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ یہ لوئر کلاس سے نکلے۔ درباروں سے وابستہ ہوئے۔ طویل ’’ جدوجہد‘‘ کی۔ آج یہ لوگ ارب پتی ہیں۔ سرکاری دورے ان کے لیے اور ان کے وابستگان کے لیے ہر وقت حاضر ہیں۔ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر اصحاب اقتدار کے پہلوئوں پر نشستیں سنبھالتے ہیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ نظریات پر لکھیں۔ اصلاحات کی بات کریں۔ زراعت، صنعت ،روزگار اور معیشت کی بھول بھلیوں میں پڑیں۔ اپنی معیشت کا پھول کھل اٹھا ہے۔ یہ کیا کم ہے!
پس نوشت۔ خاندانی ارب پتی جناب سید خورشید شاہ نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ عمران خان کو غریبوں سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ ناچ گانے میں دلچسپی رکھنے والے بڑے گھرانوں کے بچے ہیں ! بالکل درست فرمایا ہے سید صاحب نے ! دبئی کے محل کی اور نیو یارک کے پینٹ ہائوس کی تصویریں سوشل میڈیا پر دیکھی جارہی ہیں۔ یہ سب غریبوں کے ساتھ دلچسپی کے مظاہر ہیں۔ رہی بات ناچ گانے کی تو الحمدللہ پیپلزپارٹی کے جلسوں میں پہلے ڈاکٹر اسرار احمد خطاب فرمایا کرتے تھے‘آج کل مولانا طارق جمیل اور ڈاکٹر ذاکر نائیک موسیقی کے نقصانات پر خطبات دے رہے ہیں۔ ناچ گانے کا پیپلزپارٹی سے کیا تعلق !!

Wednesday, October 15, 2014

2035ء یا 2135ء ؟

پستہ قد، جسمانی اعتبار سے بے بضاعت، ٹھیک سے انگریزی بول پاتے ہیں نہ سمجھ ہی سکتے ہیں‘ لیکن تھائی لینڈ کے ان بونوں نے کمال کردیاہے۔ ایسا عظیم الشان ایئرپورٹ بنایا ہے اور زبردست خوش انتظامی سے اس طرح چلا رہے ہیں کہ اسے آدھی دنیا کا مرکز بنادیا ہے۔ ہر چندمنٹ کے بعد ایک جہاز اڑان بھرتا ہے اور ایک اترتا ہے۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جاپان، فلپائن، ملائشیا، انڈونیشیا، برونائی، ہانگ کانگ، چین، ویت نام، فجی اور ہوائی سمیت بحرالکاہل کے درجنوں جزیرے … ان تمام ملکوں میں جانے والے اور وہاں سے آنے والے بنکاک کو سلام کرنے پر مجبور ہیں۔ ہوائی اڈہ دکان ہوتا ہے اور ایئرلائنیں گاہک۔ گاہک وہیں جاتا ہے جہاں اسے سودا اچھاملے، جہاں دکاندار خوش اخلاقی سے معاملہ کرے اور دیانت دار بھی ہو۔ بنکاک یہ ساری ضروریات پوری کررہا ہے۔ یہی حال سنگاپور اور کوالالمپور کے ہوائی اڈوں کا ہے۔ کوالالمپور کا ایئرپورٹ تو پورا شہر ہے۔ ایک حصے سے دوسرے تک جانے کے لیے بسیں اور ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ ان ٹرینوں کو ایرو ٹرین کہا جاتا ہے۔ ہر ٹرین میں اڑھائی سو مسافر سوار ہوسکتے ہیں اور یہ ایک گھنٹے میں تین ہزار مسافروں کو اٹھاتی ہے۔ ایئرپورٹ سال میں 70ملین مسافروں کی میزبانی کرتا ہے۔ کارگو اس کے علاوہ ہے۔1993ء میں تعمیر کا آغاز ہوا اور پورے پانچ سال بعد 1998ء میں مکمل ہوا۔ اسی سال کامن ویلتھ کھیلوں کا انعقاد ملائشیا میں ہوا اور نیا ایئرپورٹ اس ہنگامے کے لیے بالکل مستعد اور تیار تھا! اس پر ہانگ کانگ اور سنگا پور کے ایئرپورٹوں کو قیاس کیجیے، جن کی تفصیلات کا ایک مختصر کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔
بنکاک، کوالالمپور، سنگا پور اور ہانگ کانگ کو فی الحال وہیں رہنے دیجیے جہاں ہیں۔ اپنے وطن واپس آتے ہیں۔ ڈی چوک میں نماز عید کیا ہوئی، کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ مفتیانِ کرام اور علماء کرام نے کتابیں کھول لی ہیں۔ چھریاں چاقو تیز کرلیے ہیں۔ فتووں کی شمشیریں نیاموں سے باہر آگئی ہیں۔ یوں تو ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھی جاتی لیکن اب مدد کے لیے سب کو پکارا جارہا ہے۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکائی گئیں اور مسجدوں ، مزاروں اور بازاروں میں انسانوں کے چیتھڑے اڑتے رہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہنے والے محافظانِ مذہب ڈی چوک کی نمازِ عید کے مسئلہ پر شمشیر بدست میدان میں اتر چکے ہیں۔
ملالہ کو نوبیل انعام ملا۔ زخم ہرے ہوگئے۔ کتاب جسے چھپے عرصہ ہوچکا، غلطیوں پر اس نے معذرت کرلی اور جو فروگزاشتیں ہوئیں‘ نئے ایڈیشن میں دور کرنے کی یقین دہانی کرادی، لیکن پھر بھی سب کچھ دُہرایا جارہا ہے۔ اگر ملالہ کو کسی پنچایت کے حکم پر قتل کردیا جاتا، ونی یا سوارہ کی بھینٹ چڑھ جاتی، گولی مار کرسندھ کی ریت یا بلوچستان کے پہاڑوں میں دفن کردی جاتی تو سب گوارا ہوتا۔ تب غازیوں کو تکلیف ہوتی‘ نہ صحافت کا لبادہ اوڑھنے والے مبلغین کے کانوں کی لویں شرم سے سرخ ہوتیں۔
گرامی قدر‘ عالی مرتبت پروفیسر ابراہیم نے ،خدا ان کا سایۂ عاطفت ہمارے اور طالبان کے سرپر مدام رکھے ، دکھ کا اظہار فرمایا ہے کہ فوجی آپریشن سے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ بالکل بجا فرماتے ہیں آں جناب! یہ جو گولہ بارود اور خودکش جیکٹیں بنانے کی خفیہ فیکٹریاں منظر عام پر آگئیں اور ان کی ’’ پروڈکشن‘‘ کا سلسلہ رک گیا، یہ جو پھانسی چوکوں کے نام سے معروف ہونے والے مقامات پر مسلمانوں کو لٹکانے کا سلسلہ بند ہوگیا اور یہ جو قبائلی علاقوں میں قائم متعدد حکومتوں کو گر ادیا گیا تو اس سے ایکشن کے ’’ اثبات‘‘ میں ’’نفی‘‘ کا مادہ پیدا ہوگیا ہے۔ کیا ہی سہانے دن تھے جب پروفیسر صاحب ہر روز، بلکہ دن میں کئی بار، ٹیلی ویژن چینلوں پر قوم کو خوش خبری کی نویدیں سناتے تھے اور جاپان سے لے کر میکسیکو تک اور معیشت سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر موضوع پر عوام کو ’’ اعتماد‘‘ میں لیتے تھے ! ملٹری ایکشن سے وہ سلسلہ بھی رک گیا۔ کاش! مذاکرات قیامت تک جاری رہتے اور ٹیلی ویژن پر آں جناب کی ہمہ وقت موجودگی کے تسلسل میں خلل نہ پڑتا!
صدر مملکت آنکھوں کے معائنے کے لیے ایوانِ صدر سے راولپنڈی عسکری ہسپتال میں تشریف لائے۔ آنکھوں کا معائنہ کرانا تھا۔ اس امر کی وضاحت نہیں ہوئی کہ تکلیف ایک آنکھ میں تھی یا دونوں آنکھوں میں، لیکن چونکہ ان کی تشریف آوری ایک نہیں ، دو ہیلی کاپٹروں میں ہوئی‘ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ خلل دونوں آنکھوں میں ہوگا! ایک ہیلی کاپٹر میں وہ خود سوار تھے‘ دوسرا پروٹوکول کے لیے تھا۔ ریس کورس روڈ، پولو کلب، بینک روڈ، کشمیر روڈ، پورا صدر‘ ہر جگہ ٹریفک مکمل طور پر بند کردی گئی۔ لوگ پہروں ٹریفک میں پھنسے، خوار و رسوا ہوتے رہے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، پورا علاقہ گو نواز گو کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تاہم صدر مملکت کی دانائی اور حکمت عملی دیکھیے کہ اس آمد کو جو ان کی اپنی (اور خالص ذاتی) آنکھوں کے علاج کے لیے تھی، سرکاری دورے میں تبدیل کردیاگیا۔ اس موقع سے ہوشیار و زیرک ممنون حسین صاحب نے پورا فائدہ اٹھایا اور لگے ہاتھوں مسلح افواج کو بھی زبردست خراجِ تحسین پیش کردیا۔ زخمیوں کی خیریت بھی دریافت کی! سبحان اللہ ! جب وہ اپنی آنکھوں کا معائنہ کرا چکے تو انہیں ادارۂ امراضِ چشم میں دستیاب طبی سہولتوں کے متعلق ’’ آگاہ‘‘ کیاگیا۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار ! بلکہ وہ تمام عوام بھی شکار! جو گھنٹوں صدر صاحب کی ذات بابرکات کے طفیل ٹریفک کی اذیت میں قید رہے!
ملک کے اندر جو سرگرمیاں جاری ہیں ،ان سے ہم نے آگاہی حاصل کرلی! اب واپس ایئرپورٹ کی طرف پلٹتے ہیں۔ لیکن آپ خوش نہ ہوں۔ ہم بنکاک ایئرپورٹ جارہے ہیں نہ کوالالمپور اور نہ ہی سنگا پور یا ہانگ کانگ کے ہوائی اڈوں کا رخ کررہے ہیں۔ ہم تو اسلام آباد بین الاقوامی ہوائی اڈے کو دیکھنے جارہے ہیں۔ اس کی تعمیر 2007ء میں شروع ہوئی۔ سات سال ہوچکے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں اس مسئلے پر الگ الگ غور کررہی ہیں۔ پرسوں ان کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ چیئرپرسن سینیٹر کلثوم پروین نے صدارت کی۔ جو کچھ کمیٹیوں کے ارکان نے کہا اور چیئرپرسن نے جو رائے دی، اس پر غور کیجیے۔ پی سی ون ہی غلط بنا۔ منصوبہ 37ارب روپے کا تھا لیکن 85ارب تک پہنچ چکا ہے۔ پانی کا بندوبست ہوا‘ نہ بجلی کا۔ وزیراعظم نے 2016ء کی ڈیڈ لائن دی تھی (کس بنیاد پر؟)۔ قائمہ کمیٹیاں کہتی ہیں کہ ایک کھرب روپے خرچ ہوچکے لیکن ابھی تک انفراسٹرکچر ہی مکمل نہیں ہوا۔ چیئرپرسن نے جو بنیادی حقیقت بتائی‘ وہ یہ ہے کہ جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ایئرپورٹ 2035ء تک آپریشنل ہوسکے گا! لگتا ہے محترمہ چیئرپرسن خوابوں کی دنیا میں رہتی ہیں۔ کیا خوش امیدی ہے! اگر سات آٹھ سال میں پانی بجلی کا بندوبست نہیں ہوا اور انفراسٹرکچر(یعنی بنیادی ضروریات) نامکمل ہیں تو 2035ء تک کیا جنات آکر مکمل کریں گے؟ لیکن ہوسکتا ہے چیئرپرسن نے 2135ء کا اندازہ لگایا ہو اور رپورٹنگ میں غلطی ہوگئی ہو!

اللہ کے بندو ! جو نکتہ محتاج توجہ ہے‘ اس کی طرف بھی دھیان دو۔ ایئرپورٹ کے اس منصوبے میں اگر لوہے کی اتنی ہی کھپت ہوتی جتنی میٹرو بسوں کے ستونوں، پلوں اور جنگلوں میں ہوتی ہے تو یہ ایئرپورٹ چھ ماہ میں مکمل ہوچکا ہوتا!!

Friday, October 10, 2014

احمدی نژاد کو بُلالو

سوئے تو مطلع صاف تھا۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو ہر شے چھپ چکی تھی۔ درخت، گاڑیاں ، مکان، سب برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ لوگ سوئے رہے اور برف کے گالے اپنا کام کرتے رہے۔
اس مضمون کی ایک انگریزی نظم‘ عرصہ ہوا‘ پڑھی تھی۔ یاد اس لیے آرہی ہے کہ اہلِ پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اتنا بڑا المیہ… کیسے ہوا، کیونکر ہوا، کچھ خبر نہیں۔ لوگ سوئے رہے اور بدعنوانی، کرپشن، نااہلی کے گالے اپنا کام کرتے رہے۔ گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ نے احساس دلایا کہ سب کچھ کالک کی پرتوں کے نیچے چھپ چکا ہے۔
کیا اہلِ وطن کو احساس ہے کہ دارالحکومت جو کبھی وجہ افتخار تھا‘ باعثِ ندامت بن چکا ہے۔ کبھی اسے انقرہ اور کینبرا کی صف میں رکھا جاتا تھا۔ یہ ابھی بارہ سال پہلے کی بات ہے جب کینیڈا سے آئے ہوئے ایک صاحب نے تعریف کی کہ چندی گڑھ بھی نیا شہر ہے لیکن صفائی میں اسلام آباد بہت آگے ہے۔ اب کے وہ صاحب پھر آئے تو پریشان اور حیران، ایک عشرے میں اسلام آباد ان سینکڑوں قصبوں کی طرح غلاظت اور بدانتظامی کا گڑھ بن چکا ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ گرد کی چادریں پائوں سے سر تک لپٹے ہوئے ۔ اونگھتے اہلکاروں اور بدعنوان افسروں کے رحم و کرم پر۔ چوروں ،ڈاکوئوں ، نقب زنوں، اٹھائی گیروں کے حصار میں۔ مافیا کی مٹھی میں ، قبضہ گروپ کا مافیا، خلق خدا کو پانی کے لیے ترسانے والا ٹینک مافیا، راستوں پر قابض بجری ، سریا، سیمنٹ مافیا، رہائشی علاقوں کو فتح کرنے والا بزنس مافیا۔ ع
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب 
اب ایک ماتم سرا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ راولپنڈی شہر کے بیس لاکھ افراد جس راول ڈیم سے پانی پیتے ہیں، وہ آلائشوں کا محلول بن چکا ہے! ہر سیکٹر کے ڈاکو الگ الگ جتھوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ جتھہ کون سا ہے؟ یہ آئی ایٹ میں ڈاکے ڈالتا ہے! یہ گروہ کون سا ہے؟ یہ ایف الیون میں گھروں میں گھس کر مکینوں کو باندھ کر لوٹتا ہے۔ یہ نوجوان کون ہیں ؟ یہ ایف ٹین سے گاڑیاں اٹھاتے ہیں۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو متعلقہ ادارے کے سربراہ اور کارندوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا !
یہ کرۂ ارض کا واحد شہر ہے جہاں پانچ سو مربع گز کا قلعۂ زمین چار کروڑ سے لے کر دس کروڑ روپے تک میں بک رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ اور ’’ سہولیات‘‘ مفت ملتی ہیں۔ ان ’’سہولیات‘‘ میں گندگی اور جان و مال کا خطرہ سرفہرست ہے۔ پانی کے لیے خود بور کرایئے۔ ڈیڑھ دو لاکھ خرچ کیجیے، نہ نکلے تو دوسرا بور ٹرائی کیجیے، حفاظت کے لیے گلی میں الگ اور مکان پر پہرہ دینے والا چوکیدار الگ رکھیے۔ سیوریج کی غلاظت والا پائپ پانی کے پائپ سے جُڑ گیا ہے تو خود ازالہ کیجیے۔ پوری گلی گیس سے بھر گئی ہے تو جتنے فون چاہیں کر لیجیے، جواب ایک ہی ہے کہ صاحب ! گھبرائیے نہیں ! گیس اوپر کو جارہی ہے! ایک وقت تھا کہ گوجرانوالہ کو ایشیا کا غلیظ ترین شہر کہا گیا تھا۔ گوجرانوالہ کے شہریوں کو چاہیے کہ اسلام آباد آئیں، ترقیاتی ادارے کے سربراہ اور چیف کمشنر دونوں کو گھومتی کرسیوں سے اٹھائیں، نہ اٹھیں تو کالروں اور نکٹائیوں سے پکڑ کر کھینچ کر اٹھائیں ، صرف میلوڈی مارکیٹ میں لے جائیں اور پوچھیں کہ کیا اس سے زیادہ غلاظت کہیں پائی جاتی ہے؟ یہ جو نو دن پہلے یکم اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 
’’ سی ڈی اے ترقیاتی ادارہ نہیں‘ اب کیپیٹل ڈسٹرکشن اتھارٹی بن چکا ہے‘‘
تو یہ ایک ایسا ریمارک ہے جس سے پورے ملک میں صف ماتم بچھ جانی چاہیے تھی، استعفیٰ نہیں ، استعفے پیش کردینے چاہئیں تھے ، وسیع پیمانے پر بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ رونما ہونی چاہیے تھی، لیکن سماعتیں سلب ہوچکی ہیں‘ آنکھوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔ عزت نفس کو عرصہ ہوا علاقے میں کسی نے نہیں دیکھا۔ قومی غیرت اس بھکاری کی غیرت سے زیادہ نہیں رہی جو چوک پر ہر گاڑی کے پاس ہاتھ پھیلاتا ہے، کوئی جھڑکتا ہے، کوئی شیشہ اوپر کردیتا ہے، کوئی نفرت کے اظہار کا کوئی اور اسلوب اپناتا ہے لیکن بھکاری کے لیے یہ سب معمول کی کارروائی ہے۔ اس نے اسی طرح زندگی گزارنی ہے۔ یہی کچھ کرنا ہے۔
کیا سپریم کورٹ کے اس ریمارک کے بعد ترقیاتی ادارے کے سربراہ اور چیف کمشنر صاحب اپنے اپنے دفتروں سے اٹھے اور آدھی آدھی رات تک شہر میں پھرتے رہے ؟ کیا کوئی پالیسی تبدیل ہوئی؟ کیا کوئی نئی حکمت عملی وضع کی گئی؟ کیا کوئی ٹارگٹ مقرر کیاگیا ؟ کیا کچھ برطرفیاں ہوئیں ؟ کیا کوئی بھونچال آیا ؟ کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں ؟ جس شہر میں وزیراعظم کے دفتر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر بڑی بڑی شاہراہوں پر ، رات دن مویشی، جی ہاں ، بھینسیں ، گائیں ، بکریاں ، بیل دندناتے پھر رہے ہوں… اور کسی ادارے ، کسی سربراہ ، کسی اہلکار، کسی کارندے کو کچھ فرق نہ پڑے وہ شہر ایک قوم کی نااہلی اور ایک حکومت کی نالائقی کی علامت نہ قرار پائے تو کوئی ہے جو ٹیکس دہندگان کو اعدادو شمار فراہم کرے کہ ایک ماہ میں ترقیاتی ادارے اور چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے سیٹ اپ کی تنخواہوں پر کتنا روپیہ صرف ہورہا ہے؟ کتنی گاڑیاں سرکار کے خرچ پر بھاگ رہی ہیں ؟ ایک ماہ کا پٹرول کا کتنا خرچ ہے؟ … اور کچھ نہیں۔صرف تین آئٹم… اول: تنخواہوں کی کل رقم ۔ دوم : گاڑیوں کی تعداد اور سوم: پٹرول کے ماہانہ اخراجات ؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ایک ماہ میں شہریوں کی کتنی گاڑیاں چوری ہوئیں، ڈاکے کتنے پڑے۔ 
گزشتہ تیس دن کے اندر پانی کے لیے شہریوں نے کتنے نئے بور کرائے ؟ شہر میں کل کتنے نجی بور کام کررہے ہیں؟ ترقیاتی ادارے میں پانی کا ایک الگ بہت بڑا شعبہ ہے، وہ کیا کررہا ہے ؟ پرائیویٹ ٹینکر جو پندرہ پندرہ سو ، دو دو ہزار روپے لے رہے ہیں، پانی کہاں سے لارہے ہیں ؟ دارالحکومت کے گلی کوچوں گھروں میں کتنے پہریدار گارڈ، چوکیدار، ٹیکس دہندگان نے اپنے خرچ پر رکھے ہوئے ہیں ؟ کوئی ہے جو یہ اعدادو شمار فراہم کرے ؟ کوئی ہے جو یہ بتائے کہ یہ جو دارالحکومت کے عین درمیان میں ’’ جی ، بارہ ‘‘ کے نام سے مبنی وزیرستان اور منی افغانستان بنایا گیا ہے، اس کی پشت پر کون سی مصلحت تھی ؟ کس کے حکم سے یہ علاقہ نو مین لینڈ قرار دیاگیا تھا؟ وہاں کون سا قانون چلتا ہے اور کس کس کی جائیداد وہاں یوں محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ؟
مودی ہمارا دشمن ہے۔ ہم کیوں مانیں کہ گجرات کو اس نے کیا بنا دیا؟ لیکن احمدی نژاد تو ہمارا اپنا مسلمان بھائی ہے۔ دنیا بھر کی یہودی اور نصرانی تنظیموں نے‘ جب وہ تہران کا میئر تھا‘ اسے دنیا کے بہترین میئرز میں شمار کیا تھا۔ اللہ کے بندو ! اسے بلالو۔ وہ ایک معمولی تنخواہ پر یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ بس میں کھڑے ہوکر سفر کرتا ہے۔ وہ تم سے زیادہ معاوضہ بھی طلب نہیں کرے گا۔ ایک سال کے لیے دارالحکومت کو اس کے حوالے کردو۔ کیا عجب ڈسٹرکشن اتھارٹی ایک بار پھر ترقیاتی اتھارٹی بن جائے !!

Monday, October 06, 2014

کائونٹر

توپھر تعجب کی بات ہی کیا ہے اگر آسمان سے پتھر برسنے لگیں!
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر ارکان پارلیمنٹ کیلئے خصوصی کائونٹر بنانے کا مطالبہ کیا ہے!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! تم باقی پاکستانیوں کے ساتھ قطار میں کیوں نہیں کھڑے ہوسکتے؟ کیا تم پیدائش کے حوالے سے برتر ہو؟ کیا پیدا کرنے والے نے تمہاری تخلیق اس طرح کی ہے کہ تم باقی اہل وطن سے دیکھنے میں ممتاز ہو؟ کیا تم جہاز کی نشستوں کیلئے دوسروں سے زیادہ کرایہ دیتے ہو؟
تو پھرکیا تم جہازوں کے اندر بھی الگ رقبہ مانگو گے؟ پھر تم ریلوے سٹیشنوں اور بسوں کے اڈوں پر اپنے کائونٹرالگ بنوائو گے؟ سپرسٹوروں پر، پٹرول پمپوں پر، ڈاکٹروں کے کلینکوں میں ہر جگہ تمہارے کائونٹر الگ ہوں گے؟ تمہارے بچوں اور پوتوں نواسوں کیلئے الگ تعلیم گاہیں بنیں گی؟ یونیورسٹیوں میں ان کیلئے الگ استاد، الگ ٹائم ٹیبل اور الگ کلاس روم ہوں گے؟
کیا دنیا کے کسی مہذب ملک میں جہاں پارلیمنٹ ہے، ارکان پارلیمنٹ کیلئے ایسے الگ کائونٹر بنے ہوئے ہیں؟ کیا ان پر بھی اسلحہ کے قوانین، ٹریفک کے قوانین اور ٹیکس کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا تم نے وہ تصویر نہیں دیکھی جس میں برطانیہ کا موجودہ وزیراعظم ٹرین میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے کھڑے ہو کر سفر کر رہا ہے۔ جونشستوں پر بیٹھے ہیں وہ بیٹھے ہیں۔ وہ کسی کی طرف دیکھ رہا ہے نہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ کیا بھارت سے لیکر ڈنمارک تک، نیوزی لینڈ سے لیکر کینیڈا تک، سنگاپور سے لیکر سوئٹزرلینڈ تک کہیں بھی کسی جگہ ارکان پارلیمنٹ کو باقی شہریوں سے برتر تصور کیا جاتا ہے؟
خدا تمہاری زندگیاں طویل کرے ،اس دنیا میں تم اپنے کائونٹر الگ بنوائو گے، تو پھر کیا اس کے بعد بھی یہ امتیاز باقی رکھو گے؟ کیا منکر نکیر تم سے خصوصی سلوک کریں گے؟ کیا باقی مسلمانوں کی نسبت تم سے سوال جواب الگ کائونٹر پر کیے جائیں گے؟ پھر کیا برزخ کا سارا عرصہ تم بڑائی کے دائرے میں گزارو گے؟ پھر حشر کے دن تمہارے حساب کتاب کیلئے الگ کائونٹر بنیں گے؟
جس وزیراعظم کیلئے تم پارلیمنٹ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہو، وہ وزیراعظم کوہستانی شہر میں تشریف لے گئے تو پورا شہر بند کرکے جیسے سربمہر کردیا گیا۔ گھڑیال سے لیکر جھیکاگلی تک، کلڈنہ سے لیکر سنی بینک تک، جنرل بس سٹینڈ سے لیکر جی پی او چوک تک گھنٹوں نہیں، پہروں ٹریفک روکی گئی، بازاروں میں دکانیں بند کرا کر گاہکوں اور تاجروں کو باور کرایا گیا کہ ان کی حیثیت غلاموں سے بڑھ کر نہیں۔ چڑیا  پر نہیں مار سکتی تھی، پتہ ہل نہیں سکتا تھا، انسان، جنہیں ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا، چل سکتے تھے، نہ بول سکتے تھے۔ تو تم اپنے وزیراعظم سے کہو کہ جہاں پچیس تیس ہزار ایکڑ کا اپنا شہر انہوں نے الگ بسایا ہے، تمہارے محلات بھی وہیں بنوادیں۔ پانچ پانچ سو ایکڑ کا ایک ایک محل۔ ہوائی اڈوں پر الگ الگ کائونٹر بنوانے کے بجائے، ہوائی اڈا ہی الگ کرلو، تمہارے بازار، تمہارا ایئرپورٹ، تمہارے ریلوے سٹیشن ہر شے الگ ہو    ؎
الگ بنائیں گے ہم کہیں کائنات اپنی
زمین سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے
عام پاکستانی کا وہاں گزر ہی نہ ہو۔ پارلیمنٹ بھی وہیں ہواور قائمہ کمیٹیوں سے لیکر استحقاق کمیٹیوں تک…زمین سے لیکر آسمان تک تمہارا استحقاق، تمہارا تفوق، تمہاری برتری، تمہارا تزک و احتشام، تمہاری حکمرانی کا رنگ… جلوہ نمائی کر رہا ہو۔ شام پڑے تو تمہارے شہر سے آسمان تک ایک نوری راستہ جھلمل جھلمل کر رہا ہو۔ ہم عام پاکستانی اپنے اپنے غم خانوں سے،رنگ و نور کا یہ سیلاب دیکھیںاور پھر تمہارے لیے یعنی اپنے حکمرانوں کے لیے زندگی کی طوالت اور اقتدار کے اضافے کی دعائیں کریں اور پھر چونکہ تم تک رسائی نہ ہو، ہم ایک دوسرے ہی کو مبارک بادیں دے کر خوش ہولیں!
سنا ہے تم اس ملک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو! تم میں سے ہر ایک پوری دنیا سے تازہ ترین شائع شدہ کتابیں منگواکر پڑھتا ہے۔ تم نے یقینا پڑھا ہوگا کہ جو لوگ خلق خدا سے اپنے آپ کو برتر گردانتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم نے امیر عباس ہویدا کا نام سنا ہوگا۔ ایران کا یہ وزیراعظم بادشاہ کے بعد طاقت ورترین شخص تھا۔ کائونٹر تو کیا، اس کی ہر شے الگ تھی اور ممتازتھی۔ اس کے کوٹ کے کالر میں جو پھول اور پتہ لگا ہوا ہوتا تھا، اس کا دوسرا سرا کوٹ کی دوسری طرف سونے کی بنی ہوئی ننھی سی بوتل میں ہوتا تھا جو پانی سے بھری رہتی تھی تاکہ پھول تازہ اور پتہ ہرا رہے۔ جب حالات کے جبر نے اسے وزیراعظم کے منصب سے ہٹا کر وزیر دربار مقرر کیا تو ملکہ فرح دیبا نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا کہ یہ تبادلہ شاہی خاندان کے لیے اس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک تھاجیسے بچے کا پیدا ہونا ! بادشاہ اس سے مشورہ کیے بغیر سانس بھی نہیں لیتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اسے ’’ قصر زنداں‘‘ میں لے جایاگیا۔ قاچار بادشاہ اس قصر کو محل کی ڈیوڑھی کے طورپر استعمال کرتے تھے لیکن 1920ء کے عشرے میں اسے زنداں بنا دیاگیا۔ خصوصی عدالت نے اسے ’’ کرۂ ارض پر کرپشن پھیلانے والا ‘‘ اور ’’ مغرب کی جرائم پیشہ کٹھ پتلی ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ پھر اسے جیل کے صحن میں دیوار کے ساتھ کھڑا کیاگیا۔ حجتہ الاسلام ہادی غفاری نے اس کی گردن میں گولی ماری۔ فرش پر وہ تڑپتا تھااور منت زاری کرتا تھا کہ ایک اور گولی مار کر ختم تو کردو۔ اس کی لاش مہینوں تہران کے قبرستان میں پڑی رہی۔ پھر وہ ایک نامعلوم شخص کی طرح دفن ہوا۔ اس کی قیام گاہ کو عوام نے یوں تاراج کیا جیسے مغلوں کے ہاتھی سزائے موت کے قیدیوں کو روندتے تھے!
تم نکولائی سیسیکو(Ceausescu)کی داستان زوال سے بھی یقینا آشنا ہوگے۔ اڑھائی عشروں تک اس کے لیے الگ کائونٹر کیا، اس کی پوری زندگی الگ کائونٹر تھی !! ملک کے طول و عرض میں اس کے ڈیڑھ دو درجن کے لگ بھگ عظیم الشان محلات تھے ۔ کوئی دریا کے کنارے، کوئی جھیل کے دامن میں ، کوئی پہاڑوں کی چوٹیوں پر ، کمرے ریشم سے اور پورس لین سے اور زروسیم کے برتنوں سے اور قسم قسم کے فانوسوں اور نظروں کو خیرہ کردینے والی قالینوں سے اٹے ہوئے تھے۔ جس زمانے میں رومانیہ کے عوام فاقوں سے مررہے تھے ، نکولائی سیسیکو کا پالتو کتا، جس کا نام کاربو تھا، بخارسٹ کے گلی کوچوں میں لیموزین میں پھرتا تھا اور آگے پیچھے گاڑیوں کا قافلہ ہوتا تھا۔ کاربو کا عہدہ رومانیہ کی فوج میں کرنل کا تھا! لندن میں تعینات رومانیہ کے سفیر کو سرکاری حکم دیا گیا تھا کہ وہ شہر کی بہترین دکانوں سے ہر ہفتے کاربو کے لیے بسکٹ خریدے اور سفارتی بیگ کے ذریعے رومانیہ بھیجے ۔
الگ کائونٹر تباہ ہوئے تو نکولائی سیسیکو اور اس کی بیگم علینا ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر بھاگے لیکن پکڑے گئے۔ نئی حکومت نے مقدمہ چلایا۔ مقدمے کے اختتام پر ایک سپاہی کو حکم دیاگیا کہ ایک ایک کرکے باہر لے جائے اور مار دے۔ انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ اکٹھے مریں گے۔ درخواست مان لی گئی۔ دونوں کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے ۔ احتجاج کیا لیکن تقدیر خندہ زن ہورہی تھی! تین اہلکاروں نے گولیاں چلاکر خاتمہ کیا جب کہ ہزاروں رضا کار مارنے کے لیے اپنی خدمات پیش کررہے تھے ۔ ذمہ دار عمال کا کہنا تھا کہ گولی سے نہ مارے جاتے تو لوگوں نے گلیوں میں بوٹیاں کردینی تھیں۔ تاریخ کتنی ستم ظریف ہے کہ اسی رومانیہ میں کچھ عرصہ بعد سزائے موت قانونی طور پر ختم کردی گئی !
اللہ کے بندو ! اللہ سے ڈرو!
اپنے آپ کو خلق خدا سے برترنہ سمجھو ! الگ کائونٹر نہ بنوائو۔ قطاروں میں دوسروں کے ساتھ کھڑے ہونا سیکھو ! کہیں ایسا نہ ہوکہ وقت کی چکی الٹی چلنا شروع ہوتو بپھری ہوئی خلقت الگ کائونٹروں کی طرف بڑھنے لگے۔

Saturday, October 04, 2014

من و سلویٰ

2005 ء میں زلزلہ آیا تو دنیا کی باقی طبی امداد کے ساتھ ساتھ ‘کیوبا سے بھی ڈاکٹر آئے۔ ان کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی۔نامساعد حالات اور دشوار گزار علاقوں میں ان ڈاکٹروں نے جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔ان کی کارکردگی پاکستان بھر میں اور بیرون ملک بھی سراہی گئی۔رابطے کا سلسلہ چلا تو کیوبا نے پاکستانی طلبہ کے لیے میڈیکل تعلیم کی پیشکش بھی کی۔چنانچہ کثیر تعداد میں ہمارے ہاں سے طلبہ ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے وہاں گئے۔ اس سال مئی میں تین سو ڈاکٹروں پر مشتمل پہلا گروہ تعلیم مکمل کر کے واپس آیا۔ ان میں سے 145طلبہ نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔
کچھ عرصہ سے کیوبا میں زیر تعلیم یہ ڈاکٹر مسلسل رابطہ کر رہے ہیں۔واپس آنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) کی طرف سے ان ڈاکٹروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔کیوبا سے ڈگری حاصل کرنے والے یہ ڈاکٹر نیشنل ایگزامی نیشن بورڈ کے ٹیسٹ سے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔متعلقہ حلقوں پر لازم ہے کہ اس ضمن میں ان ڈاکٹروں کے نمائندوں سے مذاکرات کریں۔ مثبت رویے اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور جس رعایت کی بھی قانون اجازت دیتا ہے وہ مرحمت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہزاروں کی تعداد پر مشتمل یہ ٹیکنو کریٹ سرخ فیتے اور گھٹن کے ماحول سے تنگ آ کر وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔
پاکستانی معاشرے میں ایک کالم نگار ہمیشہ اس مخمصے کا شکار رہتا ہے کہ کیا کسی طبقے یا گروہ کی طرف سے اٹھایا گیا مسئلہ میڈیا میں ہائی لائٹ کرنے کے قابل ہے؟ اس ایشو کے کئی پہلو ہیں اور یہ ایک کثیر الجہات مسئلہ ہے۔ایک پہلو یہ ہے کہ ایک پاپولر روزنامے کو معاشرے کے مختلف طبقات پڑھتے ہیں۔ہر طبقے کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ کیا یہ مناسب ہو گا کہ ایک طبقے کے مسائل سارے طبقات کے سامنے لائے جائیں؟دوسری طرف اس نکتے میں بھی وزن ہے کہ صرف ایسے مشترکہ مسائل جو قارئین کے تمام گروہوں کے لیے برابر کی اہمیت رکھتے ہوں پیش کئے جائیں۔غالباً اعتدال کا راستہ دونوں انتہائوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ کچھ گروہ اس قدر زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کے مسائل نہ حل کیے جائیں تو پورا معاشرہ متاثر ہو تا ہے۔جیسے تاجر‘ ڈاکٹر اور واپڈا کے ملازمین !تمام گروہوں کے مشترکہ مسائل شاید تعداد میں بھی بہت کم ہوں۔
ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ کالم نگار کو ہمیشہ حالات حاضرہ(کرنٹ افیرز ) پر قلم اٹھانا چاہیے۔یہاں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑتی ہے کہ حالات حاضرہ سے کیا مراد ہے؟مشہور ظریفانہ شاعر دلاور فگار مرحوم نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ع
حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے 
تاہم ہمارے ہاں ایک غلط خیال (Fallacy)یہ پایا جاتا ہے کہ حالات حاضرہ سے مراد صرف سیاست ہے۔دنیا کے تمام معروف انسائیکلو پیڈیاز اور لغات میں حالات حاضرہ سے مراد سیاسی‘معاشرتی(سوشل) اور ثقافتی(کلچرل) مسائل ہیں ؛مثال کے طور پر روزنامہ نیو یارک ٹائمز کے تازہ ترین شمارے میں کلچرل اور سوشل موضوعات پر کالم شائع ہوئے ہیں۔یہی عالم روزنامہ ہندو (بھارت) اور روزنامہ دی ایج آسٹریلیا کا بھی ہے۔ مثلاً ایک کالم اس موضوع پر ہے کہ آپ اپنے سمارٹ فون کا خیال کس طرح رکھیں گے؟ ایک معروف کالم نگا ر نے عمر رسیدہ قارئین کو آگاہ کیا ہے کہ موت کی صورت میں سوشل سکیورٹی کے حوالے سے انہیں کن کن فوائد کی توقع کرنی چاہیے۔نیو یارک ٹائمز نے تو ایک کالم ارنسٹ ہیمنگوے کی خودکشی کے بارے میں بھی چھاپا ہے جو 1961ء کا واقعہ ہے ۔
یہ غلط خیال کہ حالات حاضرہ سے مراد سیاست اور صرف سیاست ہے، قارئین کو ایک مشکل میں بھی ڈالتا ہے۔ ہم میں سے کچھ پورا کالم بعض اوقات اپنے پسندیدہ یا ناپسندیدہ سیاست دان کے بارے میں لکھ دیتے ہیں۔ اب اصطلاح کی رو سے ایسا کالم سیاسی ہوتا ہی نہیں۔یہ تو انشائیہ بن جاتا ہے۔ سقراط سے منسوب قول ہے کہ کمزور دماغوں والے شخصیات پر لکھتے ہیں،درمیانے دماغ کے لوگ مختلف تقاریب پر تنقید کرتے ہیں جب کہ عالی دماغ صرف خیالات اور نظریات پر بحث کرتے ہیں‘ یہ اور بات کہ سقراط کے عہد میں صحافت کا وجود ہی نہ تھا۔ اخبارات تھے ،نہ ہفت روزہ جریدے اور نہ الیکٹرانک میڈیا کی دنیا ۔آج کے دور میں جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ انہیں ان کے پسندیدہ یا نا پسندیدہ سیاست دانوں کی نجی زندگیوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
بہر طور‘ ایک بات طے ہے اور اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ قارئین ہر روز سیاست کے بارے میں پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ہم سب کالم نگار جانتے ہیں کہ جب ہم ان موضوعات پر لکھتے ہیں جن کا سیاست کے موضوعات سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا تو تعریف و تحسین کے انبار لگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے اور قابل فہم۔اخبار پڑھنے والا باپ بھی ہے بیٹا بھی ہے‘ پس ماندگان میں بھی شامل ہے اور بھوک پیاس جیسے عناصر کے نرغے میں بھی ہے۔اس کالم نگار نے جب بیٹی کی رخصتی یا نواسی کے پیار پر لکھا تو دنیا بھر سے پسندیدگی کے پیغامات ملے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مشہور اخبارات اپنے OP-EDصفحات پر سوشل اور کلچرل موضوعات کا متواتر احاطہ کرتے ہیں یہاں تک کہ لباس اور کھانوں کے بارے میں بھی ادارتی صفحات پر مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔
ہمارے چند سینئر کالم نگار‘ جو مسلسل سیاسی کالم لکھتے ہیں‘ سچ پوچھیے تو قارئین کے ساتھ زیادتی بھی کرجاتے ہیں۔ جو خوبصورت اسلوب نذیر ناجی ،ہارون الرشید یا عبدالقادر حسن کو قسامِ ازل نے ودیعت کیا ہے‘ کیا قارئین کا حق نہیں کہ اس حوالے سے تنوع اور بوقلمونی سے بھی حظ اٹھا سکیں؟آخر ہفتے میں ایک یا دو کالم ادبی‘سماجی یا روز مرہ کے موضوعات پر لکھنے میں کیا حرج ہے؟نذیر ناجی جب طنز اور Satireلکھتے ہیں تو مارک ٹوین کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ ہارون الرشید شعر کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور قارئین میں شعر پسند حضرات کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں!! عطاء الحق قاسمی دوسری انتہا پر ہیں انہوں نے خوبصورت ادبی کالم بہت زیادہ لکھے ہیں اور غیر سیاسی کالموں کے بابے ہیں اگرچہ کچھ عرصہ سے وہ سیاسی کالم نسبتاً زیادہ لکھنے لگے ہیں اور یہ تبدیلی ان کے میرے جیسے دلدادگان کو زیادہ پسند بھی نہیں!!
انسان من و سلویٰ جیسی آسمانی نعمتوں کے تسلسل سے اکتا گیا تھا!ہر روزسیاسی کالم کون پڑھے گا!

Friday, October 03, 2014

عزت؟ مائی فٹ!

یہ ہم میں سے نہیں ! بخدا یہ ہم میں سے نہیں! ہم ان میں سے نہیں ! ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ان کا ہم سے۔
جانے پہچانے مشہور و معروف سیاست دان کے فرزند نے یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں اپنی جگہ کسی اور کو بٹھایا۔ پوچھ گچھ ہوئی۔ یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔ پریس نے ’’ دونمبری‘‘ کی سرخی جمائی۔ایک آدھ دن میں اس واقعے کی پشت پر گہری سازش کا واویلا کیاجائے گا۔ چند دن مزید گزریں گے۔ دونمبری فراموش کردی جائے گی۔ جو معزز ہیں وہ معزز ہی رہیں گے۔
کسی کو اچھا لگے یا مرچیں لگیں، کوئی مانے یا نہ مانے ، کوئی تیوری چڑھائے یا آستینیں چڑھا کر میز پر مکہ مارے ، منہ سے جھاگ نکالے اور گلے کی رگیں سرخ کرلے، سچ جو دلوں میں ہے، زبانوں پر آئے یا نہ آئے ، یہ ہے کہ یہ کلاس کا مسئلہ ہے۔ سیاست دان ایک کلاس بن چکی ہے۔ غضب خدا کا ، یہ اپنا پیشہ بھی سیاست بتاتے ہیں۔ گویا ذریعہ معاش ہے۔ ’’ہم سیاسی لوگ ہیں‘‘ تکیہ کلام ہے۔ قانون تو وہ قالین ہے ہی جس پریہ چمکتے دمکتے پالش شدہ جوتے لے کر چلتے ہیں۔ آئین تو وہ چھڑی ہے ہی، جسے یہ ہاتھ میں رکھتے ہیں اور تشریف فرمایا دراز ہوتے وقت کسی بھی کونے میں دیوار کے ساتھ کھڑا کردیتے ہیں اور وہ چپ کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اخلاق کا لفظ بھی ان کی لغت میں نہیں ! رہی عزت ! تو معزز ہونے کا معیار ہی اور ہے!
یہ پہلا واقعہ نہیں کہ سیاست دان کا فرزند پریس کے بقول دونمبری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ ان میں شاید ہی کوئی بچا ہو جس نے یا جس کے متعلقین نے ایسا نہ کیا ہو۔ ان میں صاف ستھرے بھی ہیں۔ اہل دیانت بھی ہیں، لیکن وہ کم ہیں۔ شاذ معدوم کی طرح ہوتا ہے۔ قاعدہ کلیہ عمومی اکثریت سے بنتا ہے۔ ان کی اکثریت اخلاقی حدود و قیود سے ماورا ہے اور اگر کہنے کی اجازت ملے تو عزت نفس اس قبیلے کے نزدیک ایک مذاق، ایک ڈھونگ، ایک بے معنی مہمل لفظ سے زیادہ کچھ نہیں !
کچھ عرصے پہلے راولپنڈی میں ایک حاجی صاحب کا بھتیجا ان کی جگہ کمرۂ امتحان میں پکڑا گیا۔ ملتان کے ایک سیاست دان کے بیٹے کی ڈگری جعلی پائی گئی۔ کسی پر حج کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے، کسی پر ایسی گاڑیوں کا جن کی خریداری کا جواز ہی پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بیٹے کی شادی پر کنڈا لگاتے پایا جاتا ہے۔ کسی کے بارے میں ٹی وی چینل چنگھاڑ رہے ہیں کہ ٹیلی فون آپریٹر سے کھرب پتی بن گئے۔ کسی کے اکائونٹ میں چار کروڑ آئے اور گئے ، ٹیکس کا قومی کارڈ بنا ہی نہیں۔ وزارت اور لیڈری ہے کہ پھر بھی ساتھ چپکی ہوئی ہے۔ کسی پر اربوں کا زمین کا سکینڈل ہے، کسی کو اس کے ’’ ساتھی‘‘ پولیس کی تحویل سے چھڑا لے جاتے ہیں، کوئی تھانے پر حملہ کرکے ملزمان چھڑوانے اور پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے کے جرم میں انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ہوتا اور ’’بے گناہ‘‘ ثابت ہوجاتا ہے۔ کسی کا بیٹا عورت پر تیزاب چھڑکنے کے واقعے سے منسوب ہے۔ کسی پر کسی عورت کے اغوا اور قتل کا مقدمہ بنا ہوا ہے۔ کسی کے بارے میں کوئی عورت پریس کانفرنسیں کرتی پھرتی ہے کہ میں اس کی بیوی ہوں۔ کسی کی یہ شہرت مسلمہ ہوچکی ہے کہ سرکاری افسروں کی بیویوں کو شوہروں سے چھڑوا کر اپنے عقد میں لانا مشغلہ ہے۔ کوئی کروڑوں کا بجلی کا بل دینے کے بجائے اہلکاروں کو قتل کی دھمکی دیتا ہے۔ اور… اس سب کچھ کے باوجود یہ لوگ معزز ہیں! اس سب کچھ کے باوجود یہ طبقہ حکمران ہے ، اس سب کچھ کے باوجود یہ کلاس معتبر اور متکبر ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ گروہ آئین اور جمہوریت کا راگ الاپتا ہے۔ کوئی عوام کو ٹیکس نہ دینے کا کہے تو مروڑ اٹھتا ہے کہ ریاست کا نظام کیسے چلے گا، جب اپنے ساتھ کے ’’ معززین‘‘ ٹیکس نہ دیں تو کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ان کی ’’ مستقل مزاجی‘‘ کا عالم یہ ہے کہ ساری دنیا کو سمندر پار جائیدادوں کا علم ہے لیکن ان کے حواری ’’ثبوت‘‘ کی بات کرتے ہیں!
ہاں ! یہ کلاس کا مسئلہ ہے ! ہم ڈنکے کی چوٹ کہیں گے کہ مڈل کلاس میں یہ ’’ عزت داریاں‘‘ نہیں پائی جاتیں ! خدا کی قسم ! مڈل کلاس کے کسی شخص سے پوچھیں کہ میاں ! کل جیل میں تو تم گھر کا روزمرہ کا خرچ چلانے کے لیے ہاتھ کی گھڑی بیچ رہے تھے ، آج تین محل مع تین بی ایم ڈبلیو کے اور چالیس کارٹن ملبوسات کے کہاں سے آگئے، تو خودکشی کرلے گا یا ساری زندگی منہ چھپاتا پھرے گا! کتنے بیورو کریٹوں کے بچے کمرہ ہائے امتحان میں دوسروں کو بٹھاتے پکڑے گئے؟ کتنے جرنیلوں پر اغوا اور قتل کے مقدمے بنے ؟ کتنے ڈاکٹر بچوں کی شادیوں پر کنڈے لگاتے دیکھے گئے ؟ کتنے انجینئر تھانوں پر حملے کرتے پائے گئے؟ کتنے پروفیسروں کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے آئے اور چپکے سے واپس چلے گئے ؟ کتنے شاعروں اور کتنے ادیبوں نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے ذریعے دنیا میں شہرت پائی۔ مڈل کلاس کی کتنی اعلیٰ، تعلیم یافتہ خواتین نے نیویارک میں ’’آسیب زدہ‘‘ پینٹ ہائوس خریدے اور ان میں قدم رنجہ کرنے کی مہلت ہی نہ پائی؟
ان کی عزت داریوں کا عالم تو اس شخص کی طرح ہے جسے شرم دلانے کے لیے کسی نے کہا تھا کہ تمہاری پشت پر کیکر اگ آیا ہے تو اس نے کمال بے حیائی سے جواب دیا تھا کہ اچھا ہے، سائے میں بیٹھیں گے۔ بڑے سے بڑے جرم پر یہ طبقہ ایک ہی بات کہتا ہے اور کندھے اچکا کر کہتا ہے کہ… ’’ پھر سیاست میں تو ایسا ہوتا ہی ہے…‘‘ جیسے ان کے لیے ہر جرم کے جواز میں ازل سے سرٹیفکیٹ جاری ہوا ہے جو اتنا لمبا ہے کہ ابد تک چلا گیا ہے! جدہ کے قونصل خانے میں آج بھی بیس ریال کی وہ رسید شاید محفوظ ہو جو چمڑے کی جورابوں کی خرید کی ہے۔ طواف کرتے وقت نرم و نازک پیروں کو تکلیف ہوتی تھی۔ میقات کا مقام پرواز کے دوران آئے تو ان کی بلاسے ، احرام پہنچ کر ہی باندھیں گے کہ خود نہ خریدنا پڑ جائے ! کیا اس بھوکی ننگی بلکتی سسکتی تڑپتی قوم کو کبھی بتایا جائے گا کہ ان سڑسٹھ برسوں میں کتنے سیاست دانوں نے کتنے عمرے اور کتنے حج قومی خزانے سے کیے ؟ ان اخراجات کے ہندسے کیا ہیں ؟ اور کروڑ پتی اور اربوں میں کھیلنے والے یہ معززین گزشتہ نصف صدی میں اندرون ملک اور بیرون ملک علاج معالجے پر لنگوٹی میں ملبوس اس قوم کی کتنی دولت اڑا چکے ہیں؟
عزت؟ مائی فٹ ! شرم و حیا ! ہا ہا ہا ! یہ تھانوں سے چھڑا لیے جائیں یا کمرہ ہائے امتحان میں پکڑے جائیں ، جیلوں کا منہ دیکھیں یا فوجداریوں میں ملوث ہوں ، ہمیشہ انگلیوں سے فتح کا نشان بنائیں گے۔ سابق ٹیکس کمشنر یوسف بٹ صاحب نے مدتوں پہلے واقع سنایا تھا۔ لاہور کے ایک معروف سائنسدان سکالر جن کی لکھی گئی (نام حذف کیاجارہا ہے) نصابی کتابیں مدتوں کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں، ایک صاحب سے (ان کا نام بھی حذف کیاجارہا ہے) ملاقات کررہے تھے۔ یہ صاحب پروفیسر صاحب کا مکان کرائے پر لینا چاہتے تھے ۔ بات طے ہوگئی۔ اچانک کرایہ دار نے بتایا کہ میرا تعلق اداکاری کے شعبے سے ہے، پروفیسر صاحب نے رائٹنگ ٹیبل کی طرف سے گھومتی ہوئی کرسی کا رخ دوسری طرف کیا اور ایک ثانیہ توقف کیے بغیر معذرت کرلی۔ آج کی مڈل کلاس سیاست دانوں کے طبقے کو اتنی ہی عزت دار گردانتی ہے!!

Thursday, October 02, 2014

خودکشی کا ایک اور طریقہ


اس ملک کی قومی آمدنی کا جو حصہ سائنس کی ریسرچ اور ترقی پر خرچ کیاجارہا ہے‘ اس کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر دس لاکھ افراد میں سائنسی مطبوعات کے حوالے سے یہ ملک دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے ہر دس ہزار ملازمین میں ایک سو چالیس سائنس دان ہیں یا انجینئر۔ یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں یہ تعداد 85 اور جاپان میں 83ہے۔ ہفتہ روزہ ’نیوزویک‘ نے اس ملک کے ایک شہر کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دس با اثر ترین شہروں میں شمار کیا ہے۔ اس کی سات یونیورسٹیاں صرف ریسرچ کے لیے مخصوص ہیں۔ پانچ یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ کی پچاس یونیورسٹیوں میں شمار ہورہی ہیں۔ اس ملک کے نصف درجن سائنس دان کیمسٹری میں نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اقتصادیات اور دیگر شعبوں میں انعام اس کے علاوہ ہیں۔ صرف ملٹری کے حوالے سے دس ہائی ٹیک کمپنیاں رات دن کام کررہی ہیں۔ آئی ٹی، ٹیلی کمیونی کیشن، میڈیسن اور دوسرے شعبوں میں مصروف ہائی ٹیک کمپنیاں اس کے علاوہ ہیں۔ 2012ء میں یہ ملک دنیا بھر میں دوسرا تعلیم یافتہ ترین ملک قرار دیاگیا ۔ تعلیم کے شعبے میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہورہی ہے اس کا 78فیصد اس ملک کی حکومت مہیا کررہی ہے۔ 45فیصد لوگ کالج یا یونیورسٹی سے ڈگری یافتہ ہیں۔
 یہ ملک عالم اسلام کا دشمن ہے۔ اس کی برتری کا بڑا سبب تعلیمی میدان میں اس کی محنت اور سنجیدگی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم مسلمان کہاں کھڑے ہیں‘ اس کی مثال حالیہ دنوں میں کلاسوں کا وہ بائیکاٹ ہے جو ہماری ایک یونیورسٹی میں کیا اور کرایا گیا۔ ایک نمائش میں اس ملک کی ثقافت کا سٹال لگا دیا گیا۔ اس سے جذبات کا مجروح ہونا فطری امر تھا۔ اس پر احتجاج بھی کرنا چاہیے تھا جو کیا گیا۔ لیکن ایسے مواقع پر ہمارا طرزِ عمل عجیب و غریب ہوتا ہے… ’’طلبہ نے احتجاجی ریلی نکالی اور کلاسوں کا بائیکاٹ کر کے ریلی میں بھرپور شرکت کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے لگائے‘‘۔ 
جو عناصر اس ملک کے دوست ہیں اور جن کی کوشش سے یہ سٹال لگایا گیا تھا‘ سٹال کی نمائش ان کی کامیابی تھی لیکن ان کی مسرت کا کیا عالم ہوگا جب انہوں نے یونیورسٹی میں کلاسوں کی بائیکاٹ کی خبر سنی ہوگی! غالباً؛ بلکہ یقینا ان کی اصل کامیابی یہ بائیکاٹ تھا۔ فرض کیجیے‘ سو طلبہ نے تین کلاسوں کا بائیکاٹ کیا (اصل تعداد کہیں زیادہ ہوگی) اور ہر کلاس ایک گھنٹے کی تھی تو کمزور سے کمزور حساب دان بھی تین سو گھنٹوں کا نقصان ثابت کرے گا۔ 
جو ملک تعلیمی میدان میں دنیا بھر کے مسلمان ملکوں سے آگے ہے اور کوسوں آگے ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کلاسوں کے بائیکاٹ کیے جا رہے ہیں۔ اگر ہزار سال بھی ایسے بائیکاٹ کیے جاتے رہیں تو دشمن ملک ’’کرش‘‘ نہیں ہوگا! خدا کے بندو! جس ملک میں ہائی ٹیک کمپنیوں کے بازار کے بازار لگے ہیں‘ اس کا مقابلہ تم تعلیم دشمنی سے کر رہے ہو! ماتم ہے تمہاری دانش پر!! 
کلاسوں کا بائیکاٹ… تعلیمی ضیاع… اس قدر عام ہے کہ جب بھی کوئی ایشو ہو‘ سیاسی‘ مذہبی یا سماجی‘ پہلی افتاد کلاس روم پر پڑتی ہے۔ ایک گروہ راستے میں کھڑا ہو جاتا ہے اور طلبہ کو کلاس روموں میں جانے سے بزور منع کرتا ہے۔ ہفتوں پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یوں کہ اب اس پر تعجب ہوتا ہے نہ کوئی افسوس ہی کرتا ہے۔ 
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے نمائندے یونیورسٹیوں میں آئے دن کسی نہ کسی ایشو کو بنیاد بنا کر طلبہ کو کلاسوں کے بائیکاٹ پر مجبور کرتے ہیں ان جماعتوں کے اپنے تعلیمی اداروں میں ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ تجارتی بنیاد پر جو ’’تعلیمی‘‘ ادارے بنائے گئے ہیں‘ ان میں طلبہ کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہی نہیں۔ اس سے علم کو نقصان ہو یا نہ ہو‘ تجارت کو نقصان ہوتا ہے اور وہ ناقابلِ برداشت ہے! اس وقت صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں کی جو یونیورسٹیاں طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنی ہوئی ہیں‘ ان کی تعلیمی شہرت یتیم اداروں کی سی ہے۔ بے شمار والدین بچوں کو ان اداروں میں داخل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ انتظامیہ اور اساتذہ‘ سب سیاسی تنظیموں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ ڈسپلن ہے نہ قواعد کی پابندی! جہاں کلاسوں کا بائیکاٹ کرانا، ریلیاں نکالنا، جلسے کرنا، پارٹی بنیادوں پر تنظیمیں چلانا اور طلبہ کو دھونس دھاندلی کے ذریعے ایک خاص روش اپنانے پر مجبور کرنا روزمرہ کا معمول ہو، وہاں سنجیدہ علمی اور تحقیقی ماحول کی توقع صرف وہ والدین کرسکتے ہیں جو یا تو ان پڑھ ہیں یا ایک خاص بیمار مائنڈ سیٹ کے مالک ہیں اور وہی مائنڈ سیٹ اپنی اولاد میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت ملک میں چند ادارے ایسے ہیں جن کی اچھی شہرت ملک سے باہر بھی پھیل رہی ہے۔ یہ سب نجی شعبے میں ہیں اور کامیابی سے اپنے اہداف حاصل کررہے ہیں۔ ان کے فارغ التحصیل طلبہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ فرض کیجیے آج ان میں بھی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی جاتی ہے اور وہی طاقتیں یہاں بھی طلبہ اور انتظامیہ کو یرغمال بنا لیتی ہیں جو چند دوسرے اداروں میں مصروف کار ہیں، تو ان اداروں کا حشر کیا ہوگا؟ کیا ان کی شہرت ویسی ہی رہے گی جو اب ہے ؟ اور کیا یہاں سے فارغ ہوکر باہر نکلنے والوں کو وہی پذیرائی ملے گی جو اب مل رہی ہے؟
کلاسوں کا بائیکاٹ کرکے ہم کن کے مقاصد پورے کررہے ہیں؟ اپنے یا دشمنوں کے؟ انفرادی خودکشی تو رسی کے پھندے سے یا ریوالور کی گولی سے یا خواب آور دوائی سے کی جاتی ہے‘ اجتماعی خودکشی کے لیے کلاسوں کا بائیکاٹ انشاء اللہ موثر عمل ثابت ہوگا!

Wednesday, October 01, 2014

روٹی اور سیب

26ستمبر۔ نیو یارک میں آمد۔ نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو سے ملاقات۔ نیشنل کینسرانسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہیرلڈ ایلیٹ وارمس سے ملاقات۔
27ستمبر۔ گرائونڈ زیرو اور نائن الیون کی یادگار پر آمد۔ جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن سے خطاب۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کے سربراہان حکومت سے دو طرفہ ملاقاتیں۔ نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ سے ملاقات، سنٹرل پارک میں سالانہ گلوبل سٹیزن فیسٹیول سے خطاب۔ نمایاں بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ نیویارک سائوتھ کیرولینا اور میری لینڈ کی ریاستوں کے گورنروں سے الگ الگ ملاقاتیں۔
28ستمبر۔ مین ہٹن کے وسط میں واقع میڈلین سکوائر میں منعقدہ بھارتی امریکیوں کے اجتماع سے خطاب۔ امریکہ اورکینیڈا میں سکھ برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ دس ممتاز بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ امریکی یہودی برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ بھارتی سفیر کی طرف سے دیے گئے ڈنر میں شرکت جس میں تمام ممتاز بھارت نژاد امریکی موجود تھے۔
29ستمبر۔ گیارہ بڑی ا مریکی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ ناشتہ ۔ چھ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ الگ الگ (ون ٹو ون) ملاقاتیں۔ ان کمپنیوں میں بوئنگ، پیپسی کو، جنرل الیکٹرک ، گوگل اور گولڈمین Sachs شامل تھیں۔ سابق صدر کلنٹن اور ہلیری کلنٹن سے ملاقات۔ مشہور و معروف تھنک ٹینک ’’ کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ سے خطاب۔ روانگی برائے واشنگٹن۔ واشنگٹن آمد بعد دوپہر ، وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ ’’پرائیویٹ‘‘ عشائیہ۔
30ستمبر۔ لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ کی یادگاروں اور گاندھی کے مجسمے پر حاضری۔ وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ سرکاری اعلیٰ سطحی ملاقات، وزارت خارجہ میں امریکی نائب صدر جوبائیڈن اور وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ظہرانہ ۔ کیپٹیل ہل میں سپیکر جان بوئنر کی طرف سے دیے گئے استقبالیہ میں کانگرس کے لیڈروں سے ملاقات۔ ’’ یو ایس انڈین بزنس کونسل ‘‘ سے حکمت عملی اور پالیسی پر مبنی خطاب! روانگی برائے بھارت۔ 
نیویارک کے میڈلین سکوائر میں بیس ہزار بھارتی جمع تھے ۔ امریکی کانگرس کے تیس نمائندے بھی موجود تھے ۔ آہستہ آہستہ سٹیج پر چاروں طرف پھرتے مودی نے ان اقدامات کا ذکر کیا جو بھارتی امریکیوں کے لیے انعام سے کم نہیں تھے۔ بھارت کا قانون بھارتی تارکین وطن کو دہری شہریت کا حق نہیں دیتا۔ بھارتی ٹیکنو کریٹس کو لبھانے کے لیے مودی نے ویزے کی پابندیاں نرم کرنے کا اعلان کیا ۔ ماضی کے پیچیدہ قوانین ختم کردیے ۔ اس کا کہنا تھا کہ بھارت کی 65فیصد آبادی 35سال سے کم عمر کی ہے۔ اکثریت آئی ٹی کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ بیرون ملک بسنے والے بھارتی واپس آئیں اور ملک میں کام کریں۔ سرخ فیتہ ختم کر دیا جائے گا۔ مودی کے ذہن میں چین کی ترقی کا خاکہ تھا جو چینی تارکین وطن کی مرہون منت ہے۔
گیارہ بڑی امریکی کمپنیوں کے سربراہوں سے مودی کی ملاقات اس کے منصوبہ ’’ ہر شے انڈیا میں بنائو ‘‘(Make in India)کے گرد گھوم رہی تھی۔ وہ صنعتی سیکٹر میں شرح ترقی دس فیصد تک لے جاکر اسے قومی آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ بنانے کے منصوبہ پر کام کررہا ہے۔ اس طرح ہر سال ایک کروڑ نوجوان ملازمتیں حاصل کرسکیں گے۔ سرمایہ کاری کی مجموعی شرح 31فیصد سے چالیس فیصد تک اوپر جائے گی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مودی نے چین اور جاپان سے 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی؛ تاہم امریکہ سے اتنی بڑی سرمایہ کاری حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن مودی کوشش ضرور کرے گا۔ اس کوشش کا آغاز اس نے امریکی دورے سے کردیا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق غیرملکی سرمایہ کاری کو مشکل بنانے میں بھارت کا نمبر189ملکوں میں 134واں ہے۔ مودی یہ نمبر 50تک نیچے لانا چاہتا ہے! گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مودی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مذاکرات کرنے کا طویل تجربہ رکھتا ہے۔ اس زمانے میں اس نے ’’ متحرک گجرات‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اب ’’ ہر شے انڈیا میں بنائو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی ماہرین غور سے جائزہ لے رہے ہیں کہ مودی کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات ہر معاشی پلیٹ فارم پر تسلیم کی جارہی ہے کہ اگر غیر ملکی سرمایہ کاری کی رفتار کم بھی رہی تو بھارت نژاد تارکین وطن کثیرتعداد میں واپس وطن کا رخ کرلیں گے۔ اس وقت جو شہرت حیدر آباد ، چنائی اور بنگلور حاصل کرچکے ہیں، عجب نہیں کہ نصف درجن مزید بھارتی شہر تارکین وطن کے لیے اپنے بازو کشادہ کرلیں۔
اگر مندرجہ بالا اطلاعات اور معلومات سے ہم پاکستانی دل شکستہ ہورہے ہیں تو اس دل شکستگی کا قطعاً کوئی جواز نہیں ! بھارت جو چاہے ، ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ گوگل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسروں سے ملاقاتیں ، یہ میڈلین سکوائر پر بیس ہزار بھارت نژاد امریکیوں سے خطاب، یہ اوباما سے دو دن میں دو دو ملاقاتیں، یہ امریکی نائب صدر اور امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ظہرانے ، یہ امریکی کانگرس کے نمائندوں کے ساتھ ناشتے اور استقبالیے۔ یہ قوانین کو نرم کرنے کی رشوتیں، یہ ویزا آسان کرنے کے جال… یہ سارے اقدامات ہم پاکستانیوں کو خوف زدہ نہیں کرسکتے۔ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب بھارت کے وزیراعظم کا باپ بھی نہیں دے سکتا۔ ان کے بڑے بڑے تھنک ٹینک اور دانشور بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہ جائیں گے۔ مثلاً اس مودی سے پوچھیے کہ بھائی جان! یہ بتائیے کہ کیا آپ اپنے خاص باورچی کو امریکہ لے جاسکے تھے ؟ کیا آپ دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے وقت پرچی کو ہاتھ میں اور ہاتھ کو گود میں رکھا کرتے ہیں ؟ کیا بھارت کی وفاقی وزارت بجلی و پانی آپ کا بھائی چلا رہا ہے ؟ کیا آپ کا بھانجا ، سمدھی، بھتیجا اور صاحبزادی کاروبار حکومت میں شریک ہیں ؟ کیا آپ کی دختر نیک اختر نے امریکہ یا لندن کا سفر کرتے ہوئے اپنی خادمہ کو اکانومی کلاس سے فرسٹ کلاس میں باآواز بلند بلوایا تھا؟ کیا بھارتی بنیے کے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب ہاں میں ہے؟ اگر نہیں تو پھر مودی جو چاہے کرتا پھرے، کامیابی نہیں حاصل کرسکتا ! مودی کیا چیز ہے۔ ہمارے مولوی صاحب تو پوپ سے بھی جیت گئے تھے ۔ پوپ نے جب اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اٹلی سے سارے مسلمانوں کو نکال دے گا تو مسلمانوں نے مدافعت کا اظہار کیا۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی رہنما اور پوپ مناظرہ کریں گے۔ شرائط میں یہ طے ہوا کہ مناظرہ اشاروں سے ہوگا اور بات نہیں کی جائے گی۔ مناظرہ شروع ہوا۔ ہال لوگوں سے ،کیا عیسائی اور کیا مسلمان، کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پوپ نے تین انگلیاں آسمان کی طرف کیں۔ مسلمانوں کے مولانا صاحب نے جواب میں ایک انگلی آسمان کی طرف کی۔ پھر پوپ نے ایک انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی۔ مولانا نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ پھر پوپ نے شراب اور ڈبل روٹی نکالی۔ مولانا نے اپنے ڈبے سے سیب نکال کر دکھایا۔ یہ دیکھ کر پوپ نے اٹھ کر اپنی شکست کا اعلان کردیا اور کہا کہ مسلمان اٹلی ہی میں رہیں گے۔ انہیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے سردار پوپ کے گرد جمع ہوگئے اور پوچھا کہ آخر کس طرح شکست ہوئی۔ پوپ نے بتایا کہ جب اس نے تین انگلیاں آسمان کی طرف کیں تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ تثلیث کا عیسائی عقیدہ برحق ہے ۔ مولانا نے ایک انگلی اٹھائی اور توحید کا نظریہ پیش کیا۔ پھر اس نے انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی جس کا مطلب تھا کہ خدا ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہے۔ مولانا نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہاں بھی خدا ہمارے ساتھ موجود ہے۔ پھر اس نے روٹی اور شراب نکالی جس کا مطلب تھا کہ خدا نے ہمارے تمام گناہ معاف کردیے۔ مولانا نے سیب نکالا جس کا مطلب تھا کہ عیسائی عقیدہ تو یہ ہے کہ آدم نے ممنوعہ سیب کھاکر گناہ کا ارتکاب کیا اور یہ گناہ اب عیسائیوں کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ مولانا جیت گئے۔
مسلمان بھی مولانا سے پوچھنے لگ گئے کہ فتح کس طرح نصیب ہوئی۔ مولانا نے جواب دیا کہ پوپ نے تین انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائیں۔ اس کا مطلب تھا کہ مسلمان تین دن کے اندر اندر اٹلی کی حدود سے نکل جائیں ۔ مولانا نے جواب میں ایک انگلی سے واضح کیا کہ ایک مسلمان بھی اٹلی چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ پھر پوپ نے انگلی اپنے سر کے گرد گھما کر دھمکی دی کہ پورا ملک مسلمانوں سے خالی کرالیا جائے گا۔ مولانا نے زمین کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہم سب یہیں رہیں گے۔ کہیں نہیں جارہے۔ پھر پوپ نے اپنا کھانا نکال کر دکھایا۔ مولانا نے جواب میں سیب نکالا کہ میں یہ کھائوں گا۔
مودی ہمارے وزیراعظم سے کیسے جیت سکتا ہے!

 

powered by worldwanders.com