26ستمبر۔ نیو یارک میں آمد۔ نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو سے ملاقات۔ نیشنل کینسرانسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہیرلڈ ایلیٹ وارمس سے ملاقات۔
27ستمبر۔ گرائونڈ زیرو اور نائن الیون کی یادگار پر آمد۔ جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن سے خطاب۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کے سربراہان حکومت سے دو طرفہ ملاقاتیں۔ نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ سے ملاقات، سنٹرل پارک میں سالانہ گلوبل سٹیزن فیسٹیول سے خطاب۔ نمایاں بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ نیویارک سائوتھ کیرولینا اور میری لینڈ کی ریاستوں کے گورنروں سے الگ الگ ملاقاتیں۔
28ستمبر۔ مین ہٹن کے وسط میں واقع میڈلین سکوائر میں منعقدہ بھارتی امریکیوں کے اجتماع سے خطاب۔ امریکہ اورکینیڈا میں سکھ برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ دس ممتاز بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ امریکی یہودی برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ بھارتی سفیر کی طرف سے دیے گئے ڈنر میں شرکت جس میں تمام ممتاز بھارت نژاد امریکی موجود تھے۔
29ستمبر۔ گیارہ بڑی ا مریکی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ ناشتہ ۔ چھ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ الگ الگ (ون ٹو ون) ملاقاتیں۔ ان کمپنیوں میں بوئنگ، پیپسی کو، جنرل الیکٹرک ، گوگل اور گولڈمین Sachs شامل تھیں۔ سابق صدر کلنٹن اور ہلیری کلنٹن سے ملاقات۔ مشہور و معروف تھنک ٹینک ’’ کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ سے خطاب۔ روانگی برائے واشنگٹن۔ واشنگٹن آمد بعد دوپہر ، وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ ’’پرائیویٹ‘‘ عشائیہ۔
30ستمبر۔ لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ کی یادگاروں اور گاندھی کے مجسمے پر حاضری۔ وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ سرکاری اعلیٰ سطحی ملاقات، وزارت خارجہ میں امریکی نائب صدر جوبائیڈن اور وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ظہرانہ ۔ کیپٹیل ہل میں سپیکر جان بوئنر کی طرف سے دیے گئے استقبالیہ میں کانگرس کے لیڈروں سے ملاقات۔ ’’ یو ایس انڈین بزنس کونسل ‘‘ سے حکمت عملی اور پالیسی پر مبنی خطاب! روانگی برائے بھارت۔
نیویارک کے میڈلین سکوائر میں بیس ہزار بھارتی جمع تھے ۔ امریکی کانگرس کے تیس نمائندے بھی موجود تھے ۔ آہستہ آہستہ سٹیج پر چاروں طرف پھرتے مودی نے ان اقدامات کا ذکر کیا جو بھارتی امریکیوں کے لیے انعام سے کم نہیں تھے۔ بھارت کا قانون بھارتی تارکین وطن کو دہری شہریت کا حق نہیں دیتا۔ بھارتی ٹیکنو کریٹس کو لبھانے کے لیے مودی نے ویزے کی پابندیاں نرم کرنے کا اعلان کیا ۔ ماضی کے پیچیدہ قوانین ختم کردیے ۔ اس کا کہنا تھا کہ بھارت کی 65فیصد آبادی 35سال سے کم عمر کی ہے۔ اکثریت آئی ٹی کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ بیرون ملک بسنے والے بھارتی واپس آئیں اور ملک میں کام کریں۔ سرخ فیتہ ختم کر دیا جائے گا۔ مودی کے ذہن میں چین کی ترقی کا خاکہ تھا جو چینی تارکین وطن کی مرہون منت ہے۔
گیارہ بڑی امریکی کمپنیوں کے سربراہوں سے مودی کی ملاقات اس کے منصوبہ ’’ ہر شے انڈیا میں بنائو ‘‘(Make in India)کے گرد گھوم رہی تھی۔ وہ صنعتی سیکٹر میں شرح ترقی دس فیصد تک لے جاکر اسے قومی آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ بنانے کے منصوبہ پر کام کررہا ہے۔ اس طرح ہر سال ایک کروڑ نوجوان ملازمتیں حاصل کرسکیں گے۔ سرمایہ کاری کی مجموعی شرح 31فیصد سے چالیس فیصد تک اوپر جائے گی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مودی نے چین اور جاپان سے 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی؛ تاہم امریکہ سے اتنی بڑی سرمایہ کاری حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن مودی کوشش ضرور کرے گا۔ اس کوشش کا آغاز اس نے امریکی دورے سے کردیا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق غیرملکی سرمایہ کاری کو مشکل بنانے میں بھارت کا نمبر189ملکوں میں 134واں ہے۔ مودی یہ نمبر 50تک نیچے لانا چاہتا ہے! گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مودی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مذاکرات کرنے کا طویل تجربہ رکھتا ہے۔ اس زمانے میں اس نے ’’ متحرک گجرات‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اب ’’ ہر شے انڈیا میں بنائو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی ماہرین غور سے جائزہ لے رہے ہیں کہ مودی کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات ہر معاشی پلیٹ فارم پر تسلیم کی جارہی ہے کہ اگر غیر ملکی سرمایہ کاری کی رفتار کم بھی رہی تو بھارت نژاد تارکین وطن کثیرتعداد میں واپس وطن کا رخ کرلیں گے۔ اس وقت جو شہرت حیدر آباد ، چنائی اور بنگلور حاصل کرچکے ہیں، عجب نہیں کہ نصف درجن مزید بھارتی شہر تارکین وطن کے لیے اپنے بازو کشادہ کرلیں۔
اگر مندرجہ بالا اطلاعات اور معلومات سے ہم پاکستانی دل شکستہ ہورہے ہیں تو اس دل شکستگی کا قطعاً کوئی جواز نہیں ! بھارت جو چاہے ، ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ گوگل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسروں سے ملاقاتیں ، یہ میڈلین سکوائر پر بیس ہزار بھارت نژاد امریکیوں سے خطاب، یہ اوباما سے دو دن میں دو دو ملاقاتیں، یہ امریکی نائب صدر اور امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ظہرانے ، یہ امریکی کانگرس کے نمائندوں کے ساتھ ناشتے اور استقبالیے۔ یہ قوانین کو نرم کرنے کی رشوتیں، یہ ویزا آسان کرنے کے جال… یہ سارے اقدامات ہم پاکستانیوں کو خوف زدہ نہیں کرسکتے۔ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب بھارت کے وزیراعظم کا باپ بھی نہیں دے سکتا۔ ان کے بڑے بڑے تھنک ٹینک اور دانشور بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہ جائیں گے۔ مثلاً اس مودی سے پوچھیے کہ بھائی جان! یہ بتائیے کہ کیا آپ اپنے خاص باورچی کو امریکہ لے جاسکے تھے ؟ کیا آپ دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے وقت پرچی کو ہاتھ میں اور ہاتھ کو گود میں رکھا کرتے ہیں ؟ کیا بھارت کی وفاقی وزارت بجلی و پانی آپ کا بھائی چلا رہا ہے ؟ کیا آپ کا بھانجا ، سمدھی، بھتیجا اور صاحبزادی کاروبار حکومت میں شریک ہیں ؟ کیا آپ کی دختر نیک اختر نے امریکہ یا لندن کا سفر کرتے ہوئے اپنی خادمہ کو اکانومی کلاس سے فرسٹ کلاس میں باآواز بلند بلوایا تھا؟ کیا بھارتی بنیے کے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب ہاں میں ہے؟ اگر نہیں تو پھر مودی جو چاہے کرتا پھرے، کامیابی نہیں حاصل کرسکتا ! مودی کیا چیز ہے۔ ہمارے مولوی صاحب تو پوپ سے بھی جیت گئے تھے ۔ پوپ نے جب اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اٹلی سے سارے مسلمانوں کو نکال دے گا تو مسلمانوں نے مدافعت کا اظہار کیا۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی رہنما اور پوپ مناظرہ کریں گے۔ شرائط میں یہ طے ہوا کہ مناظرہ اشاروں سے ہوگا اور بات نہیں کی جائے گی۔ مناظرہ شروع ہوا۔ ہال لوگوں سے ،کیا عیسائی اور کیا مسلمان، کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پوپ نے تین انگلیاں آسمان کی طرف کیں۔ مسلمانوں کے مولانا صاحب نے جواب میں ایک انگلی آسمان کی طرف کی۔ پھر پوپ نے ایک انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی۔ مولانا نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ پھر پوپ نے شراب اور ڈبل روٹی نکالی۔ مولانا نے اپنے ڈبے سے سیب نکال کر دکھایا۔ یہ دیکھ کر پوپ نے اٹھ کر اپنی شکست کا اعلان کردیا اور کہا کہ مسلمان اٹلی ہی میں رہیں گے۔ انہیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے سردار پوپ کے گرد جمع ہوگئے اور پوچھا کہ آخر کس طرح شکست ہوئی۔ پوپ نے بتایا کہ جب اس نے تین انگلیاں آسمان کی طرف کیں تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ تثلیث کا عیسائی عقیدہ برحق ہے ۔ مولانا نے ایک انگلی اٹھائی اور توحید کا نظریہ پیش کیا۔ پھر اس نے انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی جس کا مطلب تھا کہ خدا ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہے۔ مولانا نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہاں بھی خدا ہمارے ساتھ موجود ہے۔ پھر اس نے روٹی اور شراب نکالی جس کا مطلب تھا کہ خدا نے ہمارے تمام گناہ معاف کردیے۔ مولانا نے سیب نکالا جس کا مطلب تھا کہ عیسائی عقیدہ تو یہ ہے کہ آدم نے ممنوعہ سیب کھاکر گناہ کا ارتکاب کیا اور یہ گناہ اب عیسائیوں کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ مولانا جیت گئے۔
مسلمان بھی مولانا سے پوچھنے لگ گئے کہ فتح کس طرح نصیب ہوئی۔ مولانا نے جواب دیا کہ پوپ نے تین انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائیں۔ اس کا مطلب تھا کہ مسلمان تین دن کے اندر اندر اٹلی کی حدود سے نکل جائیں ۔ مولانا نے جواب میں ایک انگلی سے واضح کیا کہ ایک مسلمان بھی اٹلی چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ پھر پوپ نے انگلی اپنے سر کے گرد گھما کر دھمکی دی کہ پورا ملک مسلمانوں سے خالی کرالیا جائے گا۔ مولانا نے زمین کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہم سب یہیں رہیں گے۔ کہیں نہیں جارہے۔ پھر پوپ نے اپنا کھانا نکال کر دکھایا۔ مولانا نے جواب میں سیب نکالا کہ میں یہ کھائوں گا۔
مودی ہمارے وزیراعظم سے کیسے جیت سکتا ہے!
27ستمبر۔ گرائونڈ زیرو اور نائن الیون کی یادگار پر آمد۔ جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن سے خطاب۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کے سربراہان حکومت سے دو طرفہ ملاقاتیں۔ نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ سے ملاقات، سنٹرل پارک میں سالانہ گلوبل سٹیزن فیسٹیول سے خطاب۔ نمایاں بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ نیویارک سائوتھ کیرولینا اور میری لینڈ کی ریاستوں کے گورنروں سے الگ الگ ملاقاتیں۔
28ستمبر۔ مین ہٹن کے وسط میں واقع میڈلین سکوائر میں منعقدہ بھارتی امریکیوں کے اجتماع سے خطاب۔ امریکہ اورکینیڈا میں سکھ برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ دس ممتاز بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ امریکی یہودی برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ بھارتی سفیر کی طرف سے دیے گئے ڈنر میں شرکت جس میں تمام ممتاز بھارت نژاد امریکی موجود تھے۔
29ستمبر۔ گیارہ بڑی ا مریکی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ ناشتہ ۔ چھ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ الگ الگ (ون ٹو ون) ملاقاتیں۔ ان کمپنیوں میں بوئنگ، پیپسی کو، جنرل الیکٹرک ، گوگل اور گولڈمین Sachs شامل تھیں۔ سابق صدر کلنٹن اور ہلیری کلنٹن سے ملاقات۔ مشہور و معروف تھنک ٹینک ’’ کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ سے خطاب۔ روانگی برائے واشنگٹن۔ واشنگٹن آمد بعد دوپہر ، وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ ’’پرائیویٹ‘‘ عشائیہ۔
30ستمبر۔ لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ کی یادگاروں اور گاندھی کے مجسمے پر حاضری۔ وائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ساتھ سرکاری اعلیٰ سطحی ملاقات، وزارت خارجہ میں امریکی نائب صدر جوبائیڈن اور وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ظہرانہ ۔ کیپٹیل ہل میں سپیکر جان بوئنر کی طرف سے دیے گئے استقبالیہ میں کانگرس کے لیڈروں سے ملاقات۔ ’’ یو ایس انڈین بزنس کونسل ‘‘ سے حکمت عملی اور پالیسی پر مبنی خطاب! روانگی برائے بھارت۔
نیویارک کے میڈلین سکوائر میں بیس ہزار بھارتی جمع تھے ۔ امریکی کانگرس کے تیس نمائندے بھی موجود تھے ۔ آہستہ آہستہ سٹیج پر چاروں طرف پھرتے مودی نے ان اقدامات کا ذکر کیا جو بھارتی امریکیوں کے لیے انعام سے کم نہیں تھے۔ بھارت کا قانون بھارتی تارکین وطن کو دہری شہریت کا حق نہیں دیتا۔ بھارتی ٹیکنو کریٹس کو لبھانے کے لیے مودی نے ویزے کی پابندیاں نرم کرنے کا اعلان کیا ۔ ماضی کے پیچیدہ قوانین ختم کردیے ۔ اس کا کہنا تھا کہ بھارت کی 65فیصد آبادی 35سال سے کم عمر کی ہے۔ اکثریت آئی ٹی کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ بیرون ملک بسنے والے بھارتی واپس آئیں اور ملک میں کام کریں۔ سرخ فیتہ ختم کر دیا جائے گا۔ مودی کے ذہن میں چین کی ترقی کا خاکہ تھا جو چینی تارکین وطن کی مرہون منت ہے۔
گیارہ بڑی امریکی کمپنیوں کے سربراہوں سے مودی کی ملاقات اس کے منصوبہ ’’ ہر شے انڈیا میں بنائو ‘‘(Make in India)کے گرد گھوم رہی تھی۔ وہ صنعتی سیکٹر میں شرح ترقی دس فیصد تک لے جاکر اسے قومی آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ بنانے کے منصوبہ پر کام کررہا ہے۔ اس طرح ہر سال ایک کروڑ نوجوان ملازمتیں حاصل کرسکیں گے۔ سرمایہ کاری کی مجموعی شرح 31فیصد سے چالیس فیصد تک اوپر جائے گی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مودی نے چین اور جاپان سے 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی؛ تاہم امریکہ سے اتنی بڑی سرمایہ کاری حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن مودی کوشش ضرور کرے گا۔ اس کوشش کا آغاز اس نے امریکی دورے سے کردیا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق غیرملکی سرمایہ کاری کو مشکل بنانے میں بھارت کا نمبر189ملکوں میں 134واں ہے۔ مودی یہ نمبر 50تک نیچے لانا چاہتا ہے! گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مودی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مذاکرات کرنے کا طویل تجربہ رکھتا ہے۔ اس زمانے میں اس نے ’’ متحرک گجرات‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اب ’’ ہر شے انڈیا میں بنائو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی ماہرین غور سے جائزہ لے رہے ہیں کہ مودی کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات ہر معاشی پلیٹ فارم پر تسلیم کی جارہی ہے کہ اگر غیر ملکی سرمایہ کاری کی رفتار کم بھی رہی تو بھارت نژاد تارکین وطن کثیرتعداد میں واپس وطن کا رخ کرلیں گے۔ اس وقت جو شہرت حیدر آباد ، چنائی اور بنگلور حاصل کرچکے ہیں، عجب نہیں کہ نصف درجن مزید بھارتی شہر تارکین وطن کے لیے اپنے بازو کشادہ کرلیں۔
اگر مندرجہ بالا اطلاعات اور معلومات سے ہم پاکستانی دل شکستہ ہورہے ہیں تو اس دل شکستگی کا قطعاً کوئی جواز نہیں ! بھارت جو چاہے ، ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ گوگل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسروں سے ملاقاتیں ، یہ میڈلین سکوائر پر بیس ہزار بھارت نژاد امریکیوں سے خطاب، یہ اوباما سے دو دن میں دو دو ملاقاتیں، یہ امریکی نائب صدر اور امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ظہرانے ، یہ امریکی کانگرس کے نمائندوں کے ساتھ ناشتے اور استقبالیے۔ یہ قوانین کو نرم کرنے کی رشوتیں، یہ ویزا آسان کرنے کے جال… یہ سارے اقدامات ہم پاکستانیوں کو خوف زدہ نہیں کرسکتے۔ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب بھارت کے وزیراعظم کا باپ بھی نہیں دے سکتا۔ ان کے بڑے بڑے تھنک ٹینک اور دانشور بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہ جائیں گے۔ مثلاً اس مودی سے پوچھیے کہ بھائی جان! یہ بتائیے کہ کیا آپ اپنے خاص باورچی کو امریکہ لے جاسکے تھے ؟ کیا آپ دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے وقت پرچی کو ہاتھ میں اور ہاتھ کو گود میں رکھا کرتے ہیں ؟ کیا بھارت کی وفاقی وزارت بجلی و پانی آپ کا بھائی چلا رہا ہے ؟ کیا آپ کا بھانجا ، سمدھی، بھتیجا اور صاحبزادی کاروبار حکومت میں شریک ہیں ؟ کیا آپ کی دختر نیک اختر نے امریکہ یا لندن کا سفر کرتے ہوئے اپنی خادمہ کو اکانومی کلاس سے فرسٹ کلاس میں باآواز بلند بلوایا تھا؟ کیا بھارتی بنیے کے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب ہاں میں ہے؟ اگر نہیں تو پھر مودی جو چاہے کرتا پھرے، کامیابی نہیں حاصل کرسکتا ! مودی کیا چیز ہے۔ ہمارے مولوی صاحب تو پوپ سے بھی جیت گئے تھے ۔ پوپ نے جب اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اٹلی سے سارے مسلمانوں کو نکال دے گا تو مسلمانوں نے مدافعت کا اظہار کیا۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی رہنما اور پوپ مناظرہ کریں گے۔ شرائط میں یہ طے ہوا کہ مناظرہ اشاروں سے ہوگا اور بات نہیں کی جائے گی۔ مناظرہ شروع ہوا۔ ہال لوگوں سے ،کیا عیسائی اور کیا مسلمان، کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پوپ نے تین انگلیاں آسمان کی طرف کیں۔ مسلمانوں کے مولانا صاحب نے جواب میں ایک انگلی آسمان کی طرف کی۔ پھر پوپ نے ایک انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی۔ مولانا نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ پھر پوپ نے شراب اور ڈبل روٹی نکالی۔ مولانا نے اپنے ڈبے سے سیب نکال کر دکھایا۔ یہ دیکھ کر پوپ نے اٹھ کر اپنی شکست کا اعلان کردیا اور کہا کہ مسلمان اٹلی ہی میں رہیں گے۔ انہیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے سردار پوپ کے گرد جمع ہوگئے اور پوچھا کہ آخر کس طرح شکست ہوئی۔ پوپ نے بتایا کہ جب اس نے تین انگلیاں آسمان کی طرف کیں تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ تثلیث کا عیسائی عقیدہ برحق ہے ۔ مولانا نے ایک انگلی اٹھائی اور توحید کا نظریہ پیش کیا۔ پھر اس نے انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی جس کا مطلب تھا کہ خدا ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہے۔ مولانا نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہاں بھی خدا ہمارے ساتھ موجود ہے۔ پھر اس نے روٹی اور شراب نکالی جس کا مطلب تھا کہ خدا نے ہمارے تمام گناہ معاف کردیے۔ مولانا نے سیب نکالا جس کا مطلب تھا کہ عیسائی عقیدہ تو یہ ہے کہ آدم نے ممنوعہ سیب کھاکر گناہ کا ارتکاب کیا اور یہ گناہ اب عیسائیوں کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ مولانا جیت گئے۔
مسلمان بھی مولانا سے پوچھنے لگ گئے کہ فتح کس طرح نصیب ہوئی۔ مولانا نے جواب دیا کہ پوپ نے تین انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائیں۔ اس کا مطلب تھا کہ مسلمان تین دن کے اندر اندر اٹلی کی حدود سے نکل جائیں ۔ مولانا نے جواب میں ایک انگلی سے واضح کیا کہ ایک مسلمان بھی اٹلی چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ پھر پوپ نے انگلی اپنے سر کے گرد گھما کر دھمکی دی کہ پورا ملک مسلمانوں سے خالی کرالیا جائے گا۔ مولانا نے زمین کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہم سب یہیں رہیں گے۔ کہیں نہیں جارہے۔ پھر پوپ نے اپنا کھانا نکال کر دکھایا۔ مولانا نے جواب میں سیب نکالا کہ میں یہ کھائوں گا۔
مودی ہمارے وزیراعظم سے کیسے جیت سکتا ہے!
No comments:
Post a Comment