شریف گھرانے کی لڑکی کو ورغلا کر‘ بہلا پھسلا کر‘ ڈرا دھمکا کر‘ خالی مکان میں لے گئے۔ نشہ آور دوائیں پلائیں۔ ڈانس کرنے پر مجبور کیا‘ پھر قابلِ اعتراض حالت میں تصویریں کھینچیں‘ یہ تصویریں لڑکی کے لیے اور اس کے شریف گھرانے کے لیے سوہانِ روح بن گئیں۔
بلیک میلنگ کی یہ قسم مکروہ ترین ہے اور پوری دنیا میں عام ہے‘ لیکن بلیک میلنگ کی جو اقسام ہمارے ہاں رائج ہیں اور بدقسمتی سے ’’مقبول‘‘ بھی ہیں‘ وہ عجیب و غریب ہیں۔ ان پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ متشرع شکل و صورت کا کوئی آدمی جھوٹ بولے یا دھوکا دے اور اسے کہا جائے کہ بھائی! اس شکل و صورت کے ساتھ دروغ گوئی اور فریب کاری کر رہے ہو تو وہ شور مچا دے گا کہ مذہبی شکل و صورت پر اعتراض کر رہے ہو؟ اس نکتے کو وہ اس قدر اچھالے گا کہ آپ کو معذرت کرنا پڑے گی۔ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ان کی والدہ بیمار تھیں اور بے خوابی سے تنگ۔ پڑوس میں مسجد تھی۔ لائوڈ سپیکر کی توپ کے دہانے کا رُخ عین مریضہ کے کمرے کی کھڑکی کی طرف تھا۔ ان صاحب نے ایک دن مولوی صاحب کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر عرضِ مدعا کیا کہ ازراہِ کرم توپ کے دہانے کا رُخ تھوڑا سا پھیر دیں۔ دو دن بعد جمعہ تھا۔ شام کو گھر پہنچے تو بچے پریشان۔ مولوی صاحب نے خطبے کے دوران عوام کو ’’آگاہ‘‘ کیا کہ مسجد کے پڑوس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو قرآن پڑھنے سے منع کر رہے ہیں! ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے۔ دارالحکومت کی ایک معروف مارکیٹ میں مسجد کے اردگرد دکانیں ہیں۔ ایک دکاندار نے بچے کو سکول سے لینے کے لیے جانا تھا‘ لیکن دیکھا تو گاڑی کے عین پیچھے ایک اور گاڑی جُڑی کھڑی تھی۔ بہت دیر انتظار کیا۔ گاڑی والے صاحب آئے‘ انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے شور مچا دیا کہ غضب خدا کا‘ نماز پڑھنے سے منع کیا جا رہا ہے!
مذہب کی بنیاد پر بلیک میلنگ کے یہ عام واقعات ہیں۔ ’’خاص‘‘ واقعات میں سرفہرست وہ شور و غوغا ہے جو خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے قائم ہونے پر مچایا جا رہا ہے۔
’’اسلامی اقدار تباہ ہو رہی ہیں‘‘۔
’’یہودیوں کے ایجنٹ آ گئے ہیں‘‘۔
’’مغرب کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
یعنی اگر امریکی سفیر سے درخواست کی جائے کہ وزیراعظم بنوا دو تو اسلامی اقدار کو کوئی خطرہ نہیں۔
دھرنے کی سیاست در آئی تو بلیک میلنگ کے ہنر کو بھی نئی سمتیں ملیں۔ مڈل کلاس باہر نکلی تو خوف تو کسی اور چیز کا تھا‘ ہنگامہ یہ برپا کیا گیا کہ ناچ گانے کو عام کیا جا رہا ہے۔ طرفہ لطیفہ یہ ہوا کہ ’’ناچ گانے‘‘ کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں اُس پارٹی کے زعما بھی شامل تھے جس نے ’’لڈی ہے جمالو‘‘ کو سیاست کا عنوان بنا دیا ہے!
مگر بلیک میلنگ کی ایک بدمست قسم کا مظاہرہ اب بھی وہ دانش ور کیے جا رہے ہیں جو سرکاری تھان پر مراعات کے کھونٹے سے بندھے ہیں اور آسودگی کی جگالی کر رہے ہیں۔ کبھی دہائی دیتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے‘ کبھی آسمان سر پہ اٹھائیں گے کہ سسٹم تباہ کرنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے‘ کبھی حب الوطنی کی خون آلود قمیض ڈنڈے پر ٹانگ کر لہرا دیتے ہیں۔ دو دن پہلے ایک عجیب منظر دیکھا۔ اینکر پرسن نے ’’آسان‘‘ سا سوال پوچھا کہ اگر وزیراعظم دشمن ملک میں جا کر اپنے صاحبزادے کے ساتھ کسی بزنس مین سے ملنے نجی دعوت پر جائیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ اس کا جواب دانش ور نے یہ دیا کہ وزیراعظم کی حب الوطنی پر شک کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ بلیک میلنگ کی وہ لطیف قسم ہے جسے ہر کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا۔
بلیک میلنگ کی بھونڈی قسم سسٹم کے حوالے سے رائج ہے اور حال ہی میں رائج ہوئی ہے۔ دھرنے کی حکمت عملی غلط تھی یا صحیح‘ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ حقیقت تو بچے بچے پر واشگاف ہے کہ عوام کے ذہنوں میں کرپشن کے خلاف ایک لہر اٹھی ہے جسے اب دبایا نہیں جا سکتا۔ اعدادو شمار کا گورکھ دھندا اب تک اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا کھیل رہا ہے مگر اب عام آدمی کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ فلاں شخصیت نے ملک کے اندر کتنا ٹیکس دیا ہے اور برطانیہ میں کتنا دیا ہے۔ فلاں شخصیت کے چورانوے رشتہ دار اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ عمران خان نے تسلسل کے ساتھ جو تقریریں کی ہیں‘ ان سے ٹیکس چوری اور کرپشن کی دوسری صورتوں کی تصویریں ذہنوں پر مرتسم ہو گئی ہیں۔ اس کا توڑ اور تو کوئی تھا نہیں! ’’ہوشیار‘‘ وفاداروں اور حاشیہ نشینوں نے بلیک میلنگ کا سہارا لیا۔
’’یہ لوگ سسٹم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’سسٹم تباہ ہوا تو لاقانونیت (انارکی) پھیل جائے گی‘‘۔
بلیک میلنگ کی اس قسم میں ناواقفیت بھی شامل ہے (یہاں ’’جہالت‘‘ کے بجائے ’’ناواقفیت‘‘ کا اسمِ صفت دانستہ استعمال کیا جا رہا ہے)۔ دو چیزیں واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ ایک ہے حکومتی ڈھانچہ یعنی بیوروکریسی کا اور دفتری نظام کا سٹرکچر۔ دوسری شے ہے سسٹم۔ ان دونوں کو آپس میں ملا کر عوام کو کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ پاسپورٹ کا محکمہ ڈھانچے یا سٹرکچر پر مشتمل ہے۔ اس میں افسر بھی موجود ہیں۔ اہلکار بھی حاضر ہیں۔ جدید مشینیں بھی دستیاب ہیں۔ سالانہ بجٹ بھی مہیا کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھانچہ موجود ہے اور سٹرکچر مکمل ہے۔ اب ایک عام شہری آتا ہے تو اسے اس ڈھانچے کی موجودگی میں بھی بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے متعلقہ اہلکار چھٹی پر ہے۔ کل آئو۔ دوسرے دن کہا جائے گا مشین خراب ہے۔ ہفتے بعد آئو۔ دو تین ماہ خاک چھاننے کے بعد اُسے ’’علم‘‘ ہو جائے گا کہ کام کس طرح کرانا ہے۔ یعنی سٹرکچر موجود ہے‘ سسٹم خراب ہے۔ یہی حال دیگر محکموں کا ہے۔ سی ڈی اے‘ کے ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ تھانے‘ کچہریاں‘ شناختی کارڈ کے دفاتر‘ سوئی گیس کنکشن لینے کا مسئلہ‘ عوام ہر جگہ دھکے کھا رہے ہیں۔ پھیروں پر پھیرے ڈال رہے ہیں۔ دن بھر انتظارگاہوں میں بیٹھے ہیں۔ قطاروں میں کھڑے ہو ہو کر سوکھ گئے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جا کر دیکھ لیجیے۔ مریض انتظار کر رہے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب چائے پینے گئے ہیں یا رائونڈ کر رہے ہیں یا چھٹی پر ہیں یا میٹنگ کے لیے فلاں دفتر میں جانا پڑ گیا ہے۔ ادویات موجود ہیں۔ ڈاکٹر تعینات ہے۔ اسے آلات فراہم کیے گئے ہیں؛ تاہم سسٹم خراب ہے۔ اس کی ذمہ داری ظاہر ہے حکومتِ وقت پر ہے۔ اب اگر کوئی سیاست دان یا ریفارمر اٹھ کر کہتا ہے کہ سسٹم درست کرو اور آگے سے شور مچایا جائے کہ یہ تو سسٹم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو شور برپا کرنے کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں یا تو ناواقفیت ہے۔ یہی نہیں معلوم کہ سرکاری ڈھانچے کو تباہ کرنے کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ پاسپورٹ کا دفتر یا ایل ڈی اے کا محکمہ بند کردو‘ مشینیں توڑ دو‘ عمارت گرا دو‘ افسروں اور اہلکاروں کی اسامیاں ختم کردو۔ سسٹم درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ سائل آئے تو اس کا جائز کام ضابطے‘ قاعدے قانون کے مطابق مقررہ مدت کے اندر سرانجام پا جائے۔ اسے دھکے نہ کھانے پڑیں‘ اس کی تذلیل نہ ہو‘ اُسے رلایا نہ جائے۔ وہ یہ نہ کہے کہ ہائے میں تو رُل گیا۔ آخرکار تنگ آ کر‘ اسے کسی کی مٹھی نہ گرم کرنی پڑے۔
شور مچانے کی دوسری وجہ بلیک میلنگ ہے۔ شور مچانے والوں کو معلوم ہے کہ حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی‘ سسٹم فی الواقع خراب ہے لیکن صدائے احتجاج کو دبانے کے لیے سسٹم کی تباہی کا واویلا مچا دو۔ اگلا ڈر کر خاموشی کے دروازے سے واپس ہو جائے گا!
قابل اعتراض حالت میں کسی مجبور‘ بے بس لڑکی کی تصویریں اتارنے کے علاوہ بھی بلیک میلنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔
سنتا جا‘ شرماتا جا۔
No comments:
Post a Comment