مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کا وژن حد درجہ محدود ہے۔ اس حقیقت میں اگر اب بھی کسی کو شک ہے تو اس کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے!
گزشتہ دو دنوں کے اخبارات اس جماعت کے لیے شرمندگی سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک سرخی تو کچھ زیادہ ہی عبرت ناک تھی۔
ZARDARI MAKES SHARIFS EAT HUMBLE PIE.
انگریزوں نے بھی کیا کیا محاورے باندھے ہیں!
یہ بات امام غزالیؒ سے منسوب ہے کہ انسان کی آنکھ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی اور یہ اس میں بہت بڑا نقص ہے لیکن اس آنکھ کا کیا ہوسکتا ہے جو دیوار کے اِس طرف بھی کچھ نہیں دیکھ سکتی!
خوش گمانی کہتی ہے کہ اگر میاں برادران اپنی جماعت کے متوازن ارکان سے مشورہ کرتے، یا ان کا کہا مانتے تو نوکر شاہی کے ایک گھسے پٹے آزمودہ مہرے کو پنجاب کی حکومت کے لیے کبھی نہ پیش کرتے لیکن جب انہوں نے اپنے ایک خاندانی وفادار کو تختِ صدارت پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت کس سے مشورہ کیا تھا اور کس کا کہا مانا تھا؟
ذاتی اور خاندانی وفاداری! ان حضرات کا ہمیشہ سے معیار یہی رہا ہے اور منطق کہتی ہے کہ آئندہ بھی یہی رہے گا۔ ان کے پرورش کنندہ جنرل ضیاء الحق کا معیار بھی یہی تھا۔ مجاہد ہوا باز ایم ایم عالم نے جب اسے کہا کہ وہ غلط لوگوں کو آگے لارہا ہے تو جرنیل کا جواب واضح تھا: آخر وفاداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے! مولانا ظفر احمد انصاری نے ایک بار نصیحت کرنے کی کوشش کی کہ سرحد سے تعلق رکھنے والے اپنے اس رفیقِ کار سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتے جس کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ کا ایک ملک بھی سمگلنگ کا ذکر کرنے لگ گیا ہے۔ جرنیل کا جواب پھر واضح تھا۔ ’’آخر ذاتی وفاداری بھی کوئی شے ہوتی ہے۔‘‘
متوازن فکر رکھنے والا کوئی شخص نوکر شاہی کے ایک ایسے رکن کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی چیف منسٹری کے لیے آخر کیوں کر تجویز کرسکتا ہے جس کی غیرجانبداری کے کوسوں تک آثار نہ ہوں؟ ضیاء الحق کے مشہورِ زمانہ ریفرنڈم کو کامیاب کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا پھر میاں صاحب کے دورِ حکومت میں اسے بیرونِ ملک تعینات کیا گیا جو ایک غیر معمولی بندہ پروری تھی۔ پسندیدہ برادری سے اس کا تعلق ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب بھی وہ نون لیگ سے وابستہ ہے۔ اس کی ساری تربیت اور پیشہ ورانہ پس منظر نوکری کے حوالے سے ہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان سمجھاتے سمجھاتے دنیا سے رخصت ہوگئے کہ اللہ کے بندو! لگان جمع کرنے والے اہلکاروں کو پالیسی سازی کا کام نہ سونپو۔ ڈپٹی کمشنر کے سر پر سونے کا تاج بھی ہو تو اصلاً وہ لگان جمع کرنے والا سرکاری ملازم ہے اور بس۔ اس سے ایک رمق زیادہ نہ ایک رمق کم۔ جب اس قبیل کے لوگوں کو پالیسی سازی کا کام سونپا جائے تو نتیجہ مہلک نکلتا ہے۔ الطاف گوہر جیسے لوگ ’’عشرۂ ترقی‘‘ مناتے ہیں اور ملک دو لخت ہوجاتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب خود لکھتے ہیں کہ میں اس طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا تھا۔ شہاب نامہ ادبی شاہکار تو ہوسکتا ہے، پورا سچ کبھی نہیں کہلا سکتا۔
خدا جمیل الدین عالی کی عمر دراز کرے۔ ان کے سینے میں بہت کچھ محفوظ ہے۔ کاش! وہ اب یہ امانت قوم کو سونپ ہی دیں۔ دو سال پہلے کی بات ہے یہ کالم نگار کراچی میں ان کے درِ دولت پر حاضر تھا۔ مشہور ادیب اور ’’مکالمہ‘‘ کے مدیر جناب مبین مرزا بھی موجود تھے۔ عالی صاحب نے شہاب صاحب کا ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح ایوب خان کو مٹھی میں رکھنے کی ترکیبیں کرتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس قوم کی کشتی کیسے کیسے ناخدا کھینچتے رہے ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی
شاعری ایک ایسا فن ہے جو کسی سے سیکھا نہیں جاسکتا۔ اگر یادداشت فریب نہیں دے رہی تو یہ بات ڈاکٹر حمید اللہ نے ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ میں بیان کی ہے۔ (وہ تو خطابت کو بھی اسی زمرے میں شمار کرتے ہیں!) شعر کو موزوں پڑھنے کا ملکہ اکتسابی نہیں ہوتا، وہبی ہوتا ہے۔ آج تک تاریخ میں کسی ایسے مکتب کا ذکر نہیں جہاں شاعری سکھائی جاتی ہو۔ اس سے ذہن میں ایک دلچسپ سوال اُبھرتا ہے۔ کیا وژن کو بڑھایا جاسکتا ہے؟ نہیں! بدقسمتی سے یہ بھی جتنا عطا ہوتا ہے اتنا ہی رہتا ہے۔ محمد تغلق اگر دس بار بھی بادشاہ بنتا تو اس نے پڑھا لکھا بے وقوف ہی کہلانا تھا۔ ہمایوں اور زندہ رہتا‘ تب بھی متلّون مزاج ہی رہتا۔ میاں صاحب تیسری بار مسند آرائے اقتدار ہوئے تب بھی اسلوبِ حکومت وہی رہے گا۔ ؎
پرند میرے وزیر، جگنو سفیر ہوں گے
میں اپنا اسلوبِ حکمرانی بدل رہا ہوں
نہیں! میاں صاحب ایسا کبھی نہیں کہیں گے۔ وہ ایک مخصوص برادری (یا کمیونٹی کہہ لیں) سے باہر نہیں نکلیں گے۔ ان کی پالیسی سازی کا انحصار نوکرشاہی کے انہی ارکان پر ہوگا جو ان کے گرد حصار باندھے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ چوبِ خشکِ صحرا سے بھی زیادہ بیکار ہوچکے ہوں۔ وژن ہوتا تو آج کراچی، اندرونِ سندھ اور بلوچستان کی زمین میں ان کی جماعت کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوتیں اور شاخیں ہر طرف سایہ فگن ہوتیں۔ (یہ جو مہاجر پرندے نون لیگ کی جھیل کے کناروں پر آبیٹھے ہیں، موسم بدلتے ہی واپس اُڑ جائیں گے)۔ وژن ہوتا تو ہزارہ کے دھرنے کے دوران وہ کوئٹہ منتقل ہوجاتے لیکن کراچی، اندرونِ سندھ اور بلوچستان کس شمار اورکس قطار میں ہیں‘ یہاں تو خود پنجاب ان کے معشوقانہ تغافل کا شکار ہے۔ ایسے حضرات بھی‘ جو ان سے وابستہ ہیں‘ برملا کہہ رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی شہر کو پنجاب سمجھا ہوا ہے ؎
مری داستانِ غم کی کوئی قید و حد نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک
وہ ذہنی طور پر جہانگیر کے پسندیدہ شہر سے کبھی باہر ہی نہیں نکلے۔ یہ کالم نگار ذاتی اور خاندانی حوالے سے پیپلزپارٹی سے دور کا تعلق بھی نہیں رکھتا لیکن وہ جو کہتے ہیں، چاروں صوبوں کی زنجیر … تو پیپلزپارٹی نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ آصف علی زرداری کی صدارت ایک حادثہ ہے لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ علاقے، برادری اور شہر سے ماورا ہو کر کام کرتے رہے۔ محرکات جو بھی تھے، انہوں نے افرادی قوت اطراف واکناف سے اخذ کی۔
کاش! مسلم لیگ کے زعماء کبھی اس بات پر غور کریں کہ فوج کے کمانڈرانچیف سے لے کر صوبے کے نگران وزیرِاعلیٰ تک میاں صاحبان جس کو بھی منتخب کرتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں، وہ ایک مخصوص برادری ہی کا کارکن ہوتا ہے۔ ایک ہی برادری کا، اور ایک ہی شہر کے مکینوں کا ان کے گرد جمگھٹا ہے۔ مصاحب بھی وہی ہیں، مشیر بھی وہی اور کارندے بھی وہی۔ جس سیاست کو وہ پورے ملک کے لیے بروئے کار لاسکتے تھے، اسے انہوں نے ایک تنگنائے سے باہر ہی نہ نکلنے دیا۔ جس کاغذ سے وہ سمندر بنا سکتے تھے، اس سے انہوں نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی اور اسی میں مگن ہیں۔ سبحان اللہ، سچ کہا ہے اللہ کی کتاب نے۔ ’’ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی‘ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کردی اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ یوں کہ کچھ نہیں دیکھتے!‘‘
Friday, March 29, 2013
Thursday, March 28, 2013
ایک اور تھپڑ
’’یہ وہ امان ہے جو خدا کے بندے امیرالمومنین عمرؓ نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال ، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ اس طرح کہ ان کے گرجائوں کو مسکن بنایا جائے گا نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ انہیں یا ان کے احاطوں کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر کیا جائے گا نہ ان میں سے کسی کے ساتھ بدسلوکی روا رکھی جائے گی …اگر کوئی رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو چلا جائے اور اگر کوئی اپنے اہل وعیال میں واپس ہونا چاہے تو ہوجائے۔ ان سے کوئی چیز نہیں لی جائے گی یہاں تک کہ ان کی کھیتیاں کٹ جائیں۔ اور جوکچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسولؐ خدا کا، خلفا کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ مقررہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔
یہ اس معاہدے کے کچھ حصے ہیں جو امیرالمومنین عمرفاروقؓ نے مسلمانوں کی طرف سے بیت المقدس کے باشندوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ وہی عمرفاروق ؓ ہیں جن کے بارے میں ایک مضمون جو ’’حضرت عمرفاروقؓ۔ عظیم منتظم ‘‘ کے عنوان سے جماعت دہم کی اردو کی کتاب میں شامل تھا، پنجاب حکومت نے نصاب سے خارج کردیا ہے۔ ہمارے سیاست دان نفاق کے بادشاہ ہیں۔ بظاہر وزیراعلیٰ پنجاب نے خارج شدہ مضامین کو دوبارہ شامل کتاب کرنے کا حکم دے دیا ہے لیکن قومی سطح کے اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق اگست اور ستمبر 2012ء میں وزیراعلیٰ نے خود ہی نصاب کی ان تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا۔ ایک اخبار نے لکھا ہے کہ۔ ’’ایک غیرجانب دار انکوائری حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں مضمون، دوسرے اسلامی مضامین اور علامہ اقبالؒ کی نظمیں نصاب سے نکالنے کا ذمہ دار شہباز شریف ہی کو ٹھہرائے گی۔‘‘ دورنگی کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ ایک طرف ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں مسلم لیگ نون کے رہنما سخت ترین بیانات دیتے رہے۔ ’’الیکشن التوا میں ڈالنے کے لیے‘‘ مارچ کا ناٹک‘‘ رچایا جارہا ہے۔ یہ جمہوریت کی لٹیا ڈبونے آئے ہیں۔ طاہرالقادری کی گفتگو ان کی ذہنی گراوٹ کا ثبوت ہے۔ طاہرالقادری کی فطرت میں جھوٹ ہے۔ باہر سے آنے والے مداری نئے سرکس اور ڈرامے لگا رہے ہیں‘‘۔ دوسری طرف اسی پنجاب حکومت نے انہی طاہرالقادری کی سیکورٹی پر بیس لاکھ روپے ماہانہ خرچ کیے۔ نہیں معلوم کہ اس وقت بھی طاہرالقادری کو پنجاب حکومت سکیورٹی فراہم کررہی ہے یا نہیں تاہم ڈیڑھ ماہ پہلے کی اطلاع کے مطابق ایک سب انسپکٹر، چار ہیڈکانسٹیبل، بائیس کانسٹیبل ، بارہ ایلیٹ فورس کمانڈو ،دو ڈرائیور اور دو گاڑیاں پنجاب حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو فراہم کی ہوئی تھیں۔ ایک گاڑی کا ماہانہ خرچ ایک لاکھ روپے تھا اور تیس سے ساٹھ ہزار روپے ماہوار تک پولیس اہلکاروں پر فی کس صرف کیا جارہا تھا۔ یہ سب کچھ نون لیگ کی حکومت سرکاری خزانے سے ادا کررہی تھی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سابق صدرتھے نہ سابق وزیراعظم ، وہ مکمل طورپر ایک پرائیویٹ شہری تھے۔ اگر اس ملک میں قانون کی حکومت ہوتی تو پنجاب گورنمنٹ سے کوئی پوچھتا کہ ’’ذہنی گراوٹ والے مداری‘‘ کو چوبیس گھنٹے کی سکیورٹی کس قانون کی روسے فراہم کی جارہی ہے اور کیوں ؟
بات حضرت عمرفاروق ؓ سے چلی اور سیاست دانوں کی منافقت تک چلی گئی۔ بیت المقدس کے باشندوں کے لیے یہ معاہدہ نعمت خداوندی سے کم نہ تھا۔ ایک فاتح انہیں عزت اور حفاظت دے رہا تھا اور اپنے مذہب پر قائم رہنے کی مکمل آزادی! انہیں ہرقل کا سلوک یاد تھا جس نے انہیں سرکاری مذہب قبول کرنے کا حکم دیا پھر انکار کرنے والوں کے ناک اور کان کاٹ دیے گئے اور گھر مسمار کردیے گئے، فلسطین کے دوسرے شہروں نے بھی مسلمانوں کے خلیفہ سے اسی قسم کے معاہدوں کی خواہش ظاہر کی۔ رملہ اور لدکے رہنے والوں کو بھی جان، مال ، گرجا اور صیلب کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ جب نماز کا وقت آیا اور شہر کے بڑے پادری نے عرض کی آپ کلیسا ہی میں نماز پڑھ لیجیے یہ بھی خدا کا گھر ہے تو حضرت عمرؓ نے معذرت فرمائی کہ اگر آج میں نے یہاں نماز ادا کی تو مسلمان اس عمل کی تقلید کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ عیسائیوں کو گرجائوں سے نکال دیں گے اور یہ عہد کی خلاف ورزی ہوگی۔ پھر جب کلیسا ئے فلسطین کے دروازے پر عیسائیوں نے حضرت عمر کے نماز پڑھنے کے لیے جگہ بنائی تو اپ نے پھر معذرت کی ۔ کچھ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے کلیسا کی دہلیز پر نماز پڑھی اور اس کے بعد عیسائیوں کو یہ تحریر دے دی کہ مسلمان گرجائوں کی دہلیز پر نماز نہیں پڑھیں گے۔
یہ ہے غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک اور یہ ہے اقلیتوں کے ساتھ رواداری کی وہ بنیاد جو اسلام نے اپنے عہد اولین
میں رکھی۔ اس آئینے میں جب ہم اپنی شکل دیکھتے ہیں تو ایک بدصورت کریہہ المنظر چہرہ سامنے آتا ہے۔ پاکستان بنا تو یہ ملک ایک گلدستہ تھا جس میں ہر رنگ اور ہر خوشبو کا پھول تھا۔ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ اور بوہری بازار کا علاقہ عیسائیوں اور پارسیوں سے بھرا ہوا تھا۔ راولپنڈی میں لال کرتی اور چھائونی میں بھی ایسا ہی تھا۔ سب ہماری ’’رواداری‘‘ اور حسن سلوک‘‘ سے متاثر ہوکر ملک چھوڑ گئے ۔ سندھ سے ہرماہ درجنوں غیرمسلم خاندان جارہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں اغوا شدہ غیرمسلموں کی لاشیں دیکھی جارہی ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یورپ کے ریٹائرڈ سفیر کراچی میں آباد ہونا چاہتے تھے۔ پاکستانی وزیراعظم جب اجمیر شریف جانے لگا تو وہاں کے سجادہ نشین نے اس کا استقبال کرنے سے انکار کردیا اور جو وجوہات بیان کیں وہ سب درست نہیں تھیں لیکن ایک وجہ اس نے یہ بتائی کہ غیرمسلموں کو پاکستان سے نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا!
تازہ ترین تھپڑ ہمارے رخساروں پر اس پاکستانی نے مارا ہے جو آکسفورڈ شہر کا لارڈ میئر منتخب ہوا ہے۔ ’’شاید پاکستان میں ایسا ممکن نہ ہوتا جہاں عہدے دولت اور طاقت ور سیاسی و سماجی مافیا کے ذریعے ملتے ہیں ۔ مجھے منتخب کرکے ساتھی کونسلروں نے بتادیا کہ مغربی جمہوریت کیوں پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ یہاں اہلیت و صلاحیت کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر مذہب اور ہرطبقے کے لوگوں کا بلا تخصیص احترام کیا جاتا ہے۔‘‘ نیاز عباسی نے یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان برطانیہ سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اس لیے کہ یہاں دنیا بھر کے لوگ جمع ہیں اور ہرکوئی اپنے مذہب اور اپنے سیاسی خیالات کے ساتھ خوشی سے رہ رہا ہے مسلمان ملکوں میں جو انتہا پسندی اور تشدد پایا جاتا ہے وہ یہاں نہیں ہے۔ پاکستان یہاں سے سبق سیکھ کر اپنے ملک میں گڈ گورننس رائج کرسکتا ہے اور لٹیروں اور غارت گروں کی غلامی ختم کرسکتا ہے۔‘‘
جس مغربی جمہوریت پر ہمارے کچھ دانش ور رات دن تبرابھیج رہے ہیں اس کا کمال دیکھیے کہ آکسفورڈ شہر میں صرف دس فیصد ایشیائی ہیں۔ 2002ء میں جب نیاز عباسی پہلے مسلمان کونسلر منتخب ہوئے تو 48میں سے صرف چار کونسلر پاکستانی نژاد تھے۔ 2012ء میں ان کا انتخاب ڈپٹی لارڈ میئر کے طورپر ہوگیا۔
ہم جب جمہوریت پر نفرین بھیجتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ ہم اس کا کون سا متبادل پیش کررہے ہیں۔ اگر ہم اُمویوں‘ عباسیوں اور خلافت عثمانیہ کا ماڈل پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر آمریت کیا ہے ؟ خلفاء راشدین میں سے کسی نے اپنی اولاد کو اپنا جانشین مقرر نہ فرمایا۔ ہماری ’’عظمت‘‘ کی چھوٹی سی مثال لے لیجیے، لاہور کے ایک واعظ (خدا ان کی مغفرت فرمائے ) ساری زندگی خلافت کا نعرہ لگاتے رہے اور آخر میں اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحبزادے کو اپنا جانشین مقرر فرما گئے۔
پڑوس کے ملک میں دو صدر مسلمان ہو گزرے ہیں، وزیرِ خارجہ مسلمان ہے اور خفیہ ادارے کا سربراہ بھی مسلمان ہے۔ ہم برملا کہتے ہیں کہ یہ سب نمائشی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے تو نمائش کے طورپر بھی ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی۔ ہال عدلیہ میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قانون دان چوٹی پر پہنچے اور ان کا کردار قابل رشک تھا۔ کارنیلیس سے لے کر دراب پٹیل اور بھگوان داس تک سب نیک نام تھے۔ ایسی کوئی تحقیق بھی نہیں کی گئی جو یہ بتاتی کہ اگر کچھ مثالیں عدلیہ میں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ بیوروکریسی اور سیاست میں ہم اس قبیل کی کوئی مثال نہ قائم کرسکے؟
Tuesday, March 26, 2013
کیا تھور کی نمائندگی گلاب کرے گا؟
یہ ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ہے۔ سندھ کے ایک وزیر نے اپنے گارڈ سے صوبے کے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی پٹائی کروائی۔ پھٹے ہوئے چہرے ،زخمی آنکھ اور تار تار لباس کے ساتھ سیکرٹری نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر صاحب پچھلی تاریخوں میں بھرتی کے ڈیڑھ سو احکام پر دستخط کرانا چاہتے تھے۔ انکار پر تشدد کیا گیا۔ وزیر صاحب نے خود اقرار کیا کہ سیکرٹری کا تو تبادلہ ہوگیا تھا اور ’’میرے پرائیویٹ سیکرٹری (پی ایس) کو سیکرٹری کا عارضی چارج دیا گیا تھا۔‘‘ یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’’پرائیویٹ سیکرٹری‘‘ ذاتی معاون ہوتا ہے !
دو دن بعد وزارت داخلہ اسلام آباد میں ایک سابق رکن قومی اسمبلی نے ایک افسر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ افسر کا بیان ہے کہ سیاست دان نے پچھلی تاریخوں میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کے لیے دبائو ڈالا ، انکار پر دفتر آکر میز ،کرسی ،ٹی وی اور فون توڑ دیا۔ مارپیٹ اور گالی گلوچ اس کے علاوہ تھی۔ سابق ایم این اے کا موقف تھا کہ ’’وزیراعظم سے منظوری کے بعد پانچ اسلحہ لائسنس وزارت داخلہ نے جاری کرنے تھے۔ ایک ماہ گزرنے پر بھی منظوری نہیں دی جارہی تھی‘‘۔
گزشتہ پانچ برس میں تین سیاسی جماعتیں بدلنے والے ایک سیاستدان کی اے لیول کی سند جعلی نکلی۔ تصدیقی سند اور مساوی سرٹیفکیٹ بھی جھوٹے ثابت ہوئے۔ یہ بھی خبر آئی کہ ان صاحب نے ایف اے کیے بغیر بی اے کرلیا ، یہ سیاست دان وفاقی وزیرتعلیم بھی رہے، پارٹی بدلنے کی تازہ ترین تقریب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ان کے تعلیم یافتہ ہونے، کرپشن سے بچنے اور پختہ کردار کا مالک ہونے کی تعریف کی !
ایک سرکاری ادارے ’’ایرا‘‘ کے سربراہ ،جو سیاست دان ہیں، الیکشن مہم میں ادارے کے ملازمین اور گاڑیاں استعمال کررہے ہیں ۔ سرکاری گاڑی کی نمبر پلیٹ اس مقصد کے لیے تبدیل کردی گئی ہے۔
ایک سیاست دان نے پرانی کاروں کی درآمد کرنے کے قانون میں اپنی مضی سے تبدیلی کراکر طاقت ورگروہوں کو اربوں کھربوں کا فائدہ پہنچایا۔ عام صارف کو بے پناہ نقصان ہوا۔ ایک اور سیاست دان نے اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے اربوں کا پلازہ کروڑوں میں حاصل کیا۔ اس کے لیے قواعدوضوابط میں ترمیم کرائی گئی اور ادارے کے سربراہ نے بے قاعدگیوں کی خود تصدیق کی۔
ایک اور سیاستدان نے ،جو وزیراعظم تھا، جاتے جاتے چونسٹھ پولیس گارڈ تاحیات اپنے نام کرالیے۔ بلٹ پروف لینڈ کروزر اور نئی ڈبل کیبنوں کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ اس سیاست دان کی ذاتی کوٹھی کی تزئین وآرائش سرکاری خرچ پر مکمل کی گئی ہے، جو سیاستدان اس سے پہلے وزیراعظم تھا، اس نے اپنے خاندان کے 26افراد کو دبئی بھیج دیا ہے جو تا اطلاع ثانی وہیں قیام کریں گے۔
سیاست دانوں کے کردار کی یہ چند جھلکیاں ہیں۔ اس میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں کہ ان کی اکثریت ۔ بہت بڑی اکثریت ۔ بددیانت ، دروغ گو اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ ان کا دامن مالی، اخلاقی ، ہرکرپشن سے ’’مالا مال ‘‘ہے۔
ہم میں سے کچھ اس کا الزام ووٹ دینے والے عوام پر دھرتے ہیں کہ وہ بددیانت امیدواروں کو کامیاب ہی کیوں کراتے ہیں؟ لیکن یہ تجزیہ سادہ لوحی کی دلیل ہے یا سطحیت کی علامت ہے۔
یہ عام سی حقیقت سب جانتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں بیری کا رس چوسیں تو شہد میں بیر کی تاثیر آتی ہے ،سرسوں کے پھولوں کا رس چوسیں تو سرسوں کی تاثیر والا شہد بنتا ہے، اٹک اور چکوال کے علاقوں میں پھلا ہی کا شہد معروف ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھلاہیوں پر بیٹھتی ہیں۔ جس معاشرے سے بددیانت ،دروغ گو، جعل ساز اور بدعنوانی میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے سیاستدانوں کو عوامی نمائندگی کے لیے چُنا جائے گا وہ معاشرہ خود کیسا ہوگا؟ آپ اس معاشرے کے ایک ایک طبقے کا، ایک ایک گروہ کا، ایک ایک پیشے کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے، سچی بات یہ ہے کہ سب اسی قبیل کے ہیں۔ ہمارے نمائندے ہماری سوفی صد درست نمائندگی کررہے ہیں۔ ہم جیسے ہیں، وہ ویسے ہی ہیں۔ جس زمین میں چاروں طرف تھور کے پودے اُگے ہوئے ہوں، وہاں تھور ہی پودوں کی نمائندگی کرے گا۔ گملے میں درخت نہیں لگایا جاسکتا۔ بھیڑوں کے بچے بھیڑبنیں گے اور بکری کا میمنا ، جتنا بھی پیار ا کیوں نہ ہو، کبھی گھوڑا یاشیرنہیں بن سکتا۔
آج ہمارے تاجر ملاوٹ، ٹیکس چوری، ناجائز منافع خوری اور تجاوزات کے بادشاہ ہیں ۔ان کی اکثریت ، بظاہر مذہبی ہونے کے باوجود ، اکلِ حلال سے محروم ہے۔ ہمارے اساتذہ کا سارا زور تعلیمی تجارت پر ہے۔ میں ایک ایسے دانشور پروفیسر کو جانتا ہوں جو سالہا سال کلاس میں نہیں گیا، اس کی گواہی اس کے کئی رفقاء کار دیتے ہیں۔متشرع صورت والا یہ فاضل استاد تقریر کرنے پر آتا ہے تو فصاحت کے دریا بہاتا ہے اور مائک سے اسے ہٹانا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہمارے طالب علم اساتذہ کی توہین کو جواں مردی سمجھتے ہیں۔ وہ دیدہ دلیری سے بسوں اور ویگنوں میں کرایہ دینے سے انکار کرتے ہیں اور پھر گروہوں کی صورت میں شاہراہیں بلاک کرکے عوام کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ ہمارے زمیندار کسانوں ،مزارعوں اور ہاریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں، عورتوں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ ان کے بیٹے مست ہاتھیوں کی طرح ’’رعیّت‘‘ کی عزت گاہوں میں دندناتے پھرتے ہیں، ہمارے جاگیردار نوابوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں لیکن ٹیکس ادا کرتے وقت سفلہ پن کی آخری حدیں عبور کرجاتے ہیں۔ ہمارے بیوروکریٹ ، تعیناتیوں اور ترقیوں کی خاطر دیانت اور راست گوئی کو اپنی واسکٹ کے ساتھ کمرے کے کونے میں لٹکا دیتے ہیں، ان کی اکثریت ، نیم خواندہ وزیروں کے سامنے رکوع میں رہتی ہے۔ ان کی ساری زندگی کا مقصد یہ رہ جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تین چارسال کی اردل مزید میسر آجائے، ہمارے وکیل اس قدر قانون پسند ہیں کہ موکلوں اور ججوں پر جتھوں کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ کبھی تھپڑمارتے ہیں اور کبھی دشنام طرازی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کو تفریح گاہ بنائے ہوئے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو ذبح خانوں کے طورپر استعمال کررہے
ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ فزیشن مریض کو آپریشن کے لیے ریفر کرتا ہے تو سرجن سے ’’حصہ‘‘ لیتا ہے اور سرجن دوافروشوں کے ساتھ ’’معاہدے‘‘ کرتا ہے۔ اس طبقے میں جو دیانت دار ہیں وہ ملک سے بھاگ گئے ہیں اور گنتی کے چند جو باقی ہیں بھاگنا چاہتے ہیں۔ ہمارے انجینئر جتنے پانی میں ہیں، اس کی گواہی ہماری شاہراہیں ، ہمارے پُل اور ہماری سرکاری عمارتیں چیخ چیخ کر دے رہی ہیں۔ آپ ہراس ادارے پر غور کرلیں جس میں اصل کرتا دھرتا انجینئر ہیں۔ واپڈا، ریلوے، سی ڈی اے، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، دیگر شہروں کے ترقیاتی ادارے، ٹیلی فون کا محکمہ ،پی ڈبلیو ڈی، ایم ای ایس ، نیشنل ہائی وے ، ان میں کون سا ادارہ نیک نام ہے ؟ ہمارے صحافی! سبحان اللہ! ان میں سے اکثر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ، دامے، درمے ، سخنے ، وابستہ ہیں اور اپنی پسندیدہ جماعت کے سوا، ہرپارٹی پر تنقید کرنے کو دیانت کا نام دیتے ہیں، ہمارے دانش ور، لوگوں کو روحانیت اور رجال الغیب کی افیون پلا کر کوشش اور محنت سے بیگانہ کرنے میں رات دن لگے ہوئے ہیں اور جب ادب سے عرض کیا جائے کہ اللہ اور رسولؐ نے ان رجال الغیب کا ذکر کہاں کیا ہے تو دلائل عذاب کے دینے لگتے ہیں ! ہمارا عام آدمی، عام شہری، ہروہ بدعنوانی کررہا ہے جو کرسکتا ہے۔ مکان بناتے وقت سریا اور ریت سڑک پر رکھ کر راستہ بند کردیتا ہے۔ اپنے دروازے کے سامنے چارگز جگہ بھی صاف نہیں کرتا، بچوں کو جھوٹ سکھاتا ہے، موٹرسائیکل کو گاڑی کے عین پیچھے کھڑا کرتا ہے، ٹریفک کے قانون کو پائوں تلے روندتا ہے ،بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ بحث کرے تو گالی دیتا ہے!
ہاں ! ہمارے سیاست دان بددیانت ، دروغ گو اور کرپٹ ہیں، وہ ہماری نمائندگی سوفی صددرست کررہے ہیں کیونکہ ہم سب ہی ایسے ہیں۔
Monday, March 25, 2013
یہ ہے آزاد قوموں کا رویّہ
بحری جہاز پر اٹلی کا پرچم لہرارہا تھا۔ یہ جہاز سنگاپور سے چلا تھا۔ مصراس کی منزلِ مقصود تھا۔فروری 2012ء کے وسط میں یہ جہاز بھارت کے جنوبی سمندر میں پہنچا۔ یہاں سے اس نے مزید مغرب کی طرف جانا تھا۔ کراچی اور پھر ایران کے جنوب سے ہوکر یمن کے ساحلوں کو چھوکر ، شمال کی طرف مڑ جانا تھا اور بحیرۂ احمرسے ہوتے ہوئے مصر کے ساحل پر لنگرانداز ہونا تھا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
بھارت کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو انتہائی جنوب سے ذرا اوپر ، مغربی ساحل پر ایک لمبی عمودی پٹی ہے۔ اس لمبی پٹی کے شمال اور شمال مشرق میں کرناٹک کی ریاست ہے۔ مشرق اور جنوب مشرق سے یہ تامل نادو کے حصار میں ہے۔ مغرب کی طرف سمندر کی بے کناروسعتیں ہیں۔ یہ بھارت کی ریاست کیرالہ ہے۔ کیرالہ کو کئی پہلوئوں سے بھارت میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہاں خواندگی کا تناسب 94فیصد ہے جو بھارت میں بلند ترین ہے۔ اوسط عمر، 74برس، بھی طویل ترین ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اس ریاست کو بھارت کی سب سے کم کرپٹ ریاست قرار دیا ہے۔ کیرالہ میں ماہی گیری خاص اہمیت کی حامل ہے۔ 590کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے ماہی گیر فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ ریاست کے گیارہ لاکھ افراد کا ذریعہ معاش مچھلیوں سے وابستہ ہے۔
پندرہ فروری 2012ء کو کیرالہ کے ساحلی گائوں نین ڈارکہ سے دو ماہی گیر اپنی مشینی کشتی میں مچھلیاں پکڑنے روانہ ہوئے۔ ایک کا نام جیلسٹائن اور دوسرے کا اجیش پنکو تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں، یہ کُھلے سمندر میں تھے۔ جب یہ سمندر کے اُس حصّے میں پہنچے جو کیرالہ کے شہر امبالہ پوجا کے سامنے تھا، تو سنگا پور سے مصر جانے والے اطالوی جہاز نے انہیں دیکھا ۔ جہاز والوں کا بیان ہے کہ وہ ان دونوں ماہی گیروں کو بحری قزاق سمجھے۔ یہ بیان صحیح ہے یا محض بہانہ ہے، بہرطور، اطالوی جہاز سے دو گولیاں سنسناتی ہوئی آئیں اور جیلسٹائن اور اجیش پنکو کے جسموں میں پیوست ہوگئیں۔ دونوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ بحری جہاز کا نام انریکا لیکزی (ENRICA LEXIE) تھا۔
ان دوماہی گیروں کی موت سے بھارت اور اٹلی میں سفارتی جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ ایک سال اور ایک ماہ جاری رہی جس میں آخری فتح 21مارچ 2013کے دن بھارت کی ہوئی۔ اس جنگ نے ثابت کردیا کہ بھارت عزتِ نفس کے میدان میں دنیا کے کسی بھی طاقت ور ملک سے پیچھے نہیں اور اپنے غریب ترین شہریوں کی زندگی کی حفاظت بھی کرنا جانتا ہے۔ بھارت کی یہ غیرمعمولی فتح ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر بھارتی کوسٹل گارڈز اطالوی جہاز پر قبضہ کرچکے تھے۔ کوچی شہر کے ساحل پر اسے لنگرانداز کردیا گیا اور تفتیش شروع ہوگئی۔ جہاز والوں کا موقف کہ دونوں مقتول بحری قزاق تھے غلط ثابت ہوا۔ جہاز کے کسی حصے پر گولی کا کوئی نشان نہ تھا۔ یوں بھی بین الاقوامی طریقِ کار یہ تھا کہ اگر قزاقوں سے سامنا ہوتو جہاز کو چاہیے کہ بچ کر نکل جانے کی کوشش کرے اور گولی چلانا پڑے تو کسی کو جان سے نہ مارا جائے۔ گولی چلانے والے دونوں اطالوی فوجی تھے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے اپنے اطالوی ہم منصب سے فون پر مطالبہ کیا کہ دونوں قاتل اور جہاز کا کپتان اپنے آپ کو کیرالہ پولیس کے حوالے کردیں لیکن اطالوی حکومت نے یہ مطالبہ رد کردیا۔ 19فروری 2012ء کو کیرالہ پولیس نے دونوں ملزم فوجیوں کو گرفتار کرلیا اور کپتان سے تفتیش کی۔ دونوں فوجیوں کو چودہ دن کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ اطالوی حکومت نے اصرار کیا کہ چونکہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں تھا اس لیے بھارتی قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔ اطالوی نائب
وزیرخارجہ بنفس نفیس بھارت پہنچ گیا لیکن بات چیت ناکام رہی۔ اسی اثنا میں اطالوی حکومت نے اپنی طرف سے تفتیش شروع کردی اور بھارت کو بتایا کہ ملزموں کو اطالوی قانون کے تحت سزادی جائے گی جو اکیس سال قید سے کم نہیں ہوگی لیکن بھارت نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ 7مارچ 2012ء کو اطالوی وزیراعظم نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے فون پر اظہار افسوس کیا لیکن بھارت کے رویے میں کوئی نرمی نہ آئی۔
اب اطالوی حکومت نے ایک اور نسخہ آزمایا۔ اس نے مقتولین کے ورثا کو ایک کروڑ روپے فی مقتول خون بہا پیش کیا جو قبول کرلیا گیا۔ مشینی کشتی کے مالک نے بھی سترہ لاکھ روپے معاوضہ لے لیا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ان انتظامات کی منظوری دے دی لیکن 30اپریل کو بھارتی سپریم کورٹ نے اطالوی حکومت اور مقتولین کے ورثا کے درمیان ’’راضی نامہ‘‘ کو غیر قانونی اور ’’حیران کن‘‘ قرار دیا اور رولنگ دی کہ بھارتی قانون کے قدرتی راستے کو روکا جارہا ہے؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے جہاز کو باقی ماندہ عملے کے ہمراہ بھارتی حدود سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ تین کروڑ روپے کا ضمانتی مچلکہ پیش کرنے کے بعد جہاز کو جانے دیا گیا۔
18مئی کو نین ڈارکہ کی ساحلی پولیس نے 196صفحات پر مشتمل چارج شیٹ پیش کردی جس میں دونوں اطالوی فوجیوں کو ملزم قرار دیا گیا۔ اس کے جواب میں اٹلی نے احتجاجاً اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ اطالوی وزیراعظم نے من موہن سنگھ کو فون بھی کیا لیکن بھارتی حکومت چارج شیٹ واپس لینے پر راضی نہ ہوئی۔ دو جون کو ایک سو پانچ دن کی قید کے بعد دونوں ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا گیا؛ تاہم ان کے پاسپورٹ انہیں واپس نہ کیے گئے۔ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں کیرالہ ہائی کورٹ نے پاسپورٹ واپس دینے کا حکم دیا تاکہ ملزم کرسمس منانے کے لیے اٹلی جاسکیں بشرطیکہ بھارت کی مرکزی حکومت کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ جنوری 2013ء میں ملزم حسب وعدہ واپس بھارت پہنچ گئے۔ 18جنوری 2013ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے رولنگ دی کہ یہ مقدمہ کیرالہ کی ریاست کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے اور صرف مرکز اس معاملے پر بااختیار ہے۔ 24اور 25فروری کو اٹلی میں انتخابات ہورہے تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اطالوی سفیر کی یقین دہانی پر ملزموں کو وطن جانے کی اجازت دی اور حکم دیا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد وہ بھارت واپس آئیں۔ گیارہ مارچ 2013ء کو اٹلی کی حکومت نے یوٹرن لیا اور ملزموں کو واپس کرنے سے انکار کردیا ۔ بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ کیرالہ کے منتخب ارکان اسمبلی نے زبردست احتجاج کیا۔ من موہن سنگھ نے قوم کو یقین دلایا کہ ملزمان کی واپسی کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ بھارتی حکومت نے اطالوی سفیر کو بھارت نہ چھوڑنے کا حکم دے دیا کیونکہ قیدیوں کی واپسی کی ضمانت سفیر صاحب ہی نے دی تھی۔ اس کے بعد ایک زبردست سفارتی جنگ چھڑی۔ یورپی یونین نے اٹلی کا ساتھ دیا اور سفیر کی ’’سفارتی حُرمت‘‘ پر خوب زور دیا گیا۔ اٹلی نے بین الاقوامی ثالثی کی تجویز پیش کی جو بھارت نے رد کردی سفیرنے سفارتی استثنا کا دعویٰ کیا جو سپریم کورٹ نہ مانی۔ سپریم کورٹ نے حکم دے دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر سفیر کو بھارت سے باہر جانے کی بالکل اجازت نہیں۔ بالآخر 21مارچ کو اطالوی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ملزمان کو بھارت واپس بھیجنے کا اعلان کردیا۔
آپ دیکھیے کہ اس سارے قصے میں بھارتی حکومت اور بھارتی ایجنسیوں نے قانون کے قدرتی راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پورے یورپ کے دبائو کے باوجود بھارت اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا۔ یہ ہوتا ہے خوددار اور آزاد قوموں کا رویّہ۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کا رویّہ دیکھیے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے پاکستانی شہریوں کو قتل کیا اور اسے بچانے میں پاکستانی خود ہی پیش پیش تھے۔ اسے پاسپورٹ کے بغیر ہی بحفاظت واپس بھیج دیا گیا۔ ایمل کانسی کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کی اپنے ہی ملک میں عزت یہ ہے کہ کراچی اور اسلام آباد میں کئی بار غیرملکی سفارت کاروں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ کراچی میں ٹریفک کے معمولی جھگڑے پر غیرملکی، پاکستانی شہری کو اپنے سفارت خانے میں لے گئے اور حبس بے جا میں رکھا۔ ہماری قومی ’’غیرت ‘‘ کا یہ حال ہے کہ چیچن اور اُزبک ہمارے قوانین کو پیروں تلے روند کر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیںاور ہم انہیں مہمان قرار دیتے ہیں۔ عرب اور دوسرے اسلامی ملکوں میں ایسی ’’مہمان نوازی‘‘ کا تصورتک نہیں۔ ڈرون ہمارے شہریوں کو سالہا سال سے قتل کررہے ہیں۔ ہم پھر بھی باغیرت ہیں!
جس ملک کا وزیراعظم جاتے جاتے بھی چونسٹھ پولیس افسر اور اہلکار اپنی ذات کے لیے تاحیات محافظ بناکر لے جائے اور ملک کا سربراہ اپنے ذاتی دوستوں کو ہر حال میں وفاقی وزیر بناکر رکھے ، اس ملک میں اصل حکومت ریمنڈ ڈیوسوں کی ہوتی ہے۔ دنیا میں عزت ان ملکوں کی ہے جن کے حکمرانوں کا طرز رہائش اور طرزِ حکومت من موہن سنگھ اور عبدالکلام کی طرح ہو۔ قومی رویّے، ذاتی رویّوں سے پھوٹتے ہیں!
بھارت کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو انتہائی جنوب سے ذرا اوپر ، مغربی ساحل پر ایک لمبی عمودی پٹی ہے۔ اس لمبی پٹی کے شمال اور شمال مشرق میں کرناٹک کی ریاست ہے۔ مشرق اور جنوب مشرق سے یہ تامل نادو کے حصار میں ہے۔ مغرب کی طرف سمندر کی بے کناروسعتیں ہیں۔ یہ بھارت کی ریاست کیرالہ ہے۔ کیرالہ کو کئی پہلوئوں سے بھارت میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہاں خواندگی کا تناسب 94فیصد ہے جو بھارت میں بلند ترین ہے۔ اوسط عمر، 74برس، بھی طویل ترین ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اس ریاست کو بھارت کی سب سے کم کرپٹ ریاست قرار دیا ہے۔ کیرالہ میں ماہی گیری خاص اہمیت کی حامل ہے۔ 590کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے ماہی گیر فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ ریاست کے گیارہ لاکھ افراد کا ذریعہ معاش مچھلیوں سے وابستہ ہے۔
پندرہ فروری 2012ء کو کیرالہ کے ساحلی گائوں نین ڈارکہ سے دو ماہی گیر اپنی مشینی کشتی میں مچھلیاں پکڑنے روانہ ہوئے۔ ایک کا نام جیلسٹائن اور دوسرے کا اجیش پنکو تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں، یہ کُھلے سمندر میں تھے۔ جب یہ سمندر کے اُس حصّے میں پہنچے جو کیرالہ کے شہر امبالہ پوجا کے سامنے تھا، تو سنگا پور سے مصر جانے والے اطالوی جہاز نے انہیں دیکھا ۔ جہاز والوں کا بیان ہے کہ وہ ان دونوں ماہی گیروں کو بحری قزاق سمجھے۔ یہ بیان صحیح ہے یا محض بہانہ ہے، بہرطور، اطالوی جہاز سے دو گولیاں سنسناتی ہوئی آئیں اور جیلسٹائن اور اجیش پنکو کے جسموں میں پیوست ہوگئیں۔ دونوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ بحری جہاز کا نام انریکا لیکزی (ENRICA LEXIE) تھا۔
ان دوماہی گیروں کی موت سے بھارت اور اٹلی میں سفارتی جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ ایک سال اور ایک ماہ جاری رہی جس میں آخری فتح 21مارچ 2013کے دن بھارت کی ہوئی۔ اس جنگ نے ثابت کردیا کہ بھارت عزتِ نفس کے میدان میں دنیا کے کسی بھی طاقت ور ملک سے پیچھے نہیں اور اپنے غریب ترین شہریوں کی زندگی کی حفاظت بھی کرنا جانتا ہے۔ بھارت کی یہ غیرمعمولی فتح ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر بھارتی کوسٹل گارڈز اطالوی جہاز پر قبضہ کرچکے تھے۔ کوچی شہر کے ساحل پر اسے لنگرانداز کردیا گیا اور تفتیش شروع ہوگئی۔ جہاز والوں کا موقف کہ دونوں مقتول بحری قزاق تھے غلط ثابت ہوا۔ جہاز کے کسی حصے پر گولی کا کوئی نشان نہ تھا۔ یوں بھی بین الاقوامی طریقِ کار یہ تھا کہ اگر قزاقوں سے سامنا ہوتو جہاز کو چاہیے کہ بچ کر نکل جانے کی کوشش کرے اور گولی چلانا پڑے تو کسی کو جان سے نہ مارا جائے۔ گولی چلانے والے دونوں اطالوی فوجی تھے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے اپنے اطالوی ہم منصب سے فون پر مطالبہ کیا کہ دونوں قاتل اور جہاز کا کپتان اپنے آپ کو کیرالہ پولیس کے حوالے کردیں لیکن اطالوی حکومت نے یہ مطالبہ رد کردیا۔ 19فروری 2012ء کو کیرالہ پولیس نے دونوں ملزم فوجیوں کو گرفتار کرلیا اور کپتان سے تفتیش کی۔ دونوں فوجیوں کو چودہ دن کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ اطالوی حکومت نے اصرار کیا کہ چونکہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں تھا اس لیے بھارتی قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔ اطالوی نائب
وزیرخارجہ بنفس نفیس بھارت پہنچ گیا لیکن بات چیت ناکام رہی۔ اسی اثنا میں اطالوی حکومت نے اپنی طرف سے تفتیش شروع کردی اور بھارت کو بتایا کہ ملزموں کو اطالوی قانون کے تحت سزادی جائے گی جو اکیس سال قید سے کم نہیں ہوگی لیکن بھارت نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ 7مارچ 2012ء کو اطالوی وزیراعظم نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے فون پر اظہار افسوس کیا لیکن بھارت کے رویے میں کوئی نرمی نہ آئی۔
اب اطالوی حکومت نے ایک اور نسخہ آزمایا۔ اس نے مقتولین کے ورثا کو ایک کروڑ روپے فی مقتول خون بہا پیش کیا جو قبول کرلیا گیا۔ مشینی کشتی کے مالک نے بھی سترہ لاکھ روپے معاوضہ لے لیا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ان انتظامات کی منظوری دے دی لیکن 30اپریل کو بھارتی سپریم کورٹ نے اطالوی حکومت اور مقتولین کے ورثا کے درمیان ’’راضی نامہ‘‘ کو غیر قانونی اور ’’حیران کن‘‘ قرار دیا اور رولنگ دی کہ بھارتی قانون کے قدرتی راستے کو روکا جارہا ہے؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے جہاز کو باقی ماندہ عملے کے ہمراہ بھارتی حدود سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ تین کروڑ روپے کا ضمانتی مچلکہ پیش کرنے کے بعد جہاز کو جانے دیا گیا۔
18مئی کو نین ڈارکہ کی ساحلی پولیس نے 196صفحات پر مشتمل چارج شیٹ پیش کردی جس میں دونوں اطالوی فوجیوں کو ملزم قرار دیا گیا۔ اس کے جواب میں اٹلی نے احتجاجاً اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ اطالوی وزیراعظم نے من موہن سنگھ کو فون بھی کیا لیکن بھارتی حکومت چارج شیٹ واپس لینے پر راضی نہ ہوئی۔ دو جون کو ایک سو پانچ دن کی قید کے بعد دونوں ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا گیا؛ تاہم ان کے پاسپورٹ انہیں واپس نہ کیے گئے۔ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں کیرالہ ہائی کورٹ نے پاسپورٹ واپس دینے کا حکم دیا تاکہ ملزم کرسمس منانے کے لیے اٹلی جاسکیں بشرطیکہ بھارت کی مرکزی حکومت کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ جنوری 2013ء میں ملزم حسب وعدہ واپس بھارت پہنچ گئے۔ 18جنوری 2013ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے رولنگ دی کہ یہ مقدمہ کیرالہ کی ریاست کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے اور صرف مرکز اس معاملے پر بااختیار ہے۔ 24اور 25فروری کو اٹلی میں انتخابات ہورہے تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اطالوی سفیر کی یقین دہانی پر ملزموں کو وطن جانے کی اجازت دی اور حکم دیا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد وہ بھارت واپس آئیں۔ گیارہ مارچ 2013ء کو اٹلی کی حکومت نے یوٹرن لیا اور ملزموں کو واپس کرنے سے انکار کردیا ۔ بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ کیرالہ کے منتخب ارکان اسمبلی نے زبردست احتجاج کیا۔ من موہن سنگھ نے قوم کو یقین دلایا کہ ملزمان کی واپسی کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ بھارتی حکومت نے اطالوی سفیر کو بھارت نہ چھوڑنے کا حکم دے دیا کیونکہ قیدیوں کی واپسی کی ضمانت سفیر صاحب ہی نے دی تھی۔ اس کے بعد ایک زبردست سفارتی جنگ چھڑی۔ یورپی یونین نے اٹلی کا ساتھ دیا اور سفیر کی ’’سفارتی حُرمت‘‘ پر خوب زور دیا گیا۔ اٹلی نے بین الاقوامی ثالثی کی تجویز پیش کی جو بھارت نے رد کردی سفیرنے سفارتی استثنا کا دعویٰ کیا جو سپریم کورٹ نہ مانی۔ سپریم کورٹ نے حکم دے دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر سفیر کو بھارت سے باہر جانے کی بالکل اجازت نہیں۔ بالآخر 21مارچ کو اطالوی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ملزمان کو بھارت واپس بھیجنے کا اعلان کردیا۔
آپ دیکھیے کہ اس سارے قصے میں بھارتی حکومت اور بھارتی ایجنسیوں نے قانون کے قدرتی راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پورے یورپ کے دبائو کے باوجود بھارت اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا۔ یہ ہوتا ہے خوددار اور آزاد قوموں کا رویّہ۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کا رویّہ دیکھیے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے پاکستانی شہریوں کو قتل کیا اور اسے بچانے میں پاکستانی خود ہی پیش پیش تھے۔ اسے پاسپورٹ کے بغیر ہی بحفاظت واپس بھیج دیا گیا۔ ایمل کانسی کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کی اپنے ہی ملک میں عزت یہ ہے کہ کراچی اور اسلام آباد میں کئی بار غیرملکی سفارت کاروں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ کراچی میں ٹریفک کے معمولی جھگڑے پر غیرملکی، پاکستانی شہری کو اپنے سفارت خانے میں لے گئے اور حبس بے جا میں رکھا۔ ہماری قومی ’’غیرت ‘‘ کا یہ حال ہے کہ چیچن اور اُزبک ہمارے قوانین کو پیروں تلے روند کر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیںاور ہم انہیں مہمان قرار دیتے ہیں۔ عرب اور دوسرے اسلامی ملکوں میں ایسی ’’مہمان نوازی‘‘ کا تصورتک نہیں۔ ڈرون ہمارے شہریوں کو سالہا سال سے قتل کررہے ہیں۔ ہم پھر بھی باغیرت ہیں!
جس ملک کا وزیراعظم جاتے جاتے بھی چونسٹھ پولیس افسر اور اہلکار اپنی ذات کے لیے تاحیات محافظ بناکر لے جائے اور ملک کا سربراہ اپنے ذاتی دوستوں کو ہر حال میں وفاقی وزیر بناکر رکھے ، اس ملک میں اصل حکومت ریمنڈ ڈیوسوں کی ہوتی ہے۔ دنیا میں عزت ان ملکوں کی ہے جن کے حکمرانوں کا طرز رہائش اور طرزِ حکومت من موہن سنگھ اور عبدالکلام کی طرح ہو۔ قومی رویّے، ذاتی رویّوں سے پھوٹتے ہیں!
Friday, March 22, 2013
اے اہلِ وطن
خاکروب ماں اور خاکروب باپ کا بیٹا ذیشان لبھا مسیح مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر جوڈیشل مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو نظام ہمارے ہاں جاری و ساری ہے اور جس پر ہمیں فخر ہے‘ اس کے علاوہ بھی ایک نظام ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے‘ تاہم اس کا چلانے والا کبھی کبھی‘ کہیں کہیں‘ اس کی ایک آدھ جھلک دکھاتا ہے تاکہ ہمیں یہ احساس ہو سکے کہ ہمارا نظر آنے والا ظاہری نظام کتنا بودا‘ کھوکھلا‘ مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہے!
ذیشان لبھا مسیح نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس میں کوئی پورچ‘ لائونج اور ڈرائنگ روم نہیں تھا۔ وہ اونچی پشت والی کرسی پر بیٹھ کر بیضوی شکل والے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ اس کی ماں زمین پر بیٹھ کر کھانا پکاتی اور وہ پاس ہی زمین پر یا پیڑھی پر بیٹھ کر دال سے یا چٹنی سے یا پیاز سے روٹی کھا لیتا۔ اسے ناشتے میں پھلوں کا رس‘ آملیٹ‘ ٹوسٹ اور مارملیڈ کبھی نہیں ملا۔ اس کی سالگرہ کے دن اس کا گھر ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے بھرا‘ نہ پارٹیاں ہوئیں۔ وہ کبھی اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر لبرٹی مارکیٹ آئس کریم کھانے نہ گیا۔ اوکاڑہ کی گلیوں میں‘ جہاں اس کی ماں جھاڑو دیتی تھی اور جہاں تحصیل کونسل میں اس کا باپ صفائی کا کام کرتا تھا‘ جب وہ اپنے ہم جولیوں سے کھیلتا تو اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ میکڈانلڈ کی ایپل پائی کیا ہوتی ہے اور کے ایف سی کا زِنگر برگر کیسا ہوتا ہے۔ اسے کھانے کے لیے کبھی ٹوٹی فروٹی ملی نہ چاکلیٹ‘ نہ اس کے پاس چین کی بنی ہوئی چمکدار‘ جُھکے ہوئے ہینڈل والی‘ سائیکل تھی۔ اس نے کبھی پِنک پینتھر کے کارٹون دیکھے‘ نہ آئی پیڈ یا لیپ ٹاپ پر کبھی کوئی فلم دیکھی۔
پھر جب وہ پڑھنے کی عمر کو پہنچا تو ایف ٹین اسلام آباد کے‘ گلبرگ لاہور کے‘ حیات آباد پشاور کے اور ڈیفنس کراچی کے بچے یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ بچہ پریپ میں داخل ہوا نہ نرسری میں‘ وہاں انگلش گرامر سکول تھا‘ نہ کوئی اور ایسا تعلیمی ادارہ جس کی فیس ہزاروں میں ہو‘ وہاں تو بس چھوٹا سا سکول تھا جس کی لائبریری تھی‘ نہ لیبارٹری‘ نہ ہال۔ وہاں تو میز کرسیاں بھی نہیں تھیں۔ وہاں تو ٹاٹ بھی نہ تھے۔ ہر بچہ اپنے بیٹھنے کے لیے پلاسٹک کی خالی بوری یا کھاد والا خالی تھیلا لاتا اور اُس پر بیٹھتا۔ ذیشان نے جاگر پہنے نہ ٹی شرٹیں۔ اسے ڈرائیور گاڑی پر سکول چھوڑنے جاتا‘ نہ اس کے پاس کبابوں اور کیک سے بھرا ہوا لنچ بکس ہوتا‘ نہ کبھی سکول والے اسے تفریحی یا تعلیمی دورے پر لے کر گئے۔ ان چیزوں کا ذیشان لبھا مسیح کو تو کیا اس کے ماں باپ اور اساتذہ کو بھی معلوم نہ تھا۔ وہ واپس آ کر اپنے ڈیڑھ مرلے کے گھر کے صحن میں‘ اَلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا اور سکول کا کام کرنے لگ جاتا۔
باپ تحصیل کونسل اوکاڑہ میں جھاڑو دیتا رہا۔ ماں اوکاڑہ کی گلیاں صاف کرتی رہی۔ دھول گلیوں کی بھی اُڑتی رہی اور وقت کی بھی۔ ذیشان مسیح آگے بڑھتا گیا۔ ایک ایک انچ۔ ایک ایک قدم۔ پھر وہ وقت آیا کہ اس نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ امتحان کی تیاری کے لیے ہر روز صبح ساہی وال جاتا۔ دن بھر وہاں پڑھتا۔ واپس آ کر رات گئے تک ٹیوشن پڑھاتا۔ تھوڑا سا وقت بان کی چارپائی پر سوتا۔ صبح سویرے رات کی باسی روٹی چائے کے ساتھ کھا کر‘ ماں کا بوسہ اپنے زرد رخسار پر لے کر پھر شہر کا رُخ کرتا۔ ماں کا یہ بوسہ جو ہر صبح اُس کے رخسار پر ثبت ہوتا‘ اس کا سب سے قیمتی زادِ راہ تھا۔ یہ بوسہ اُسے بھوک میں توانائی بخشتا‘ بارش اور دھوپ میں چھتری بن جاتا اور کتاب سامنے آتی تو یہی بوسہ ذہن کے اندر روشنی دیتا ہوا چراغ بن جاتا ؎
نشاں ہونٹوں کا لَو دینے لگا ہے ذہن میں اب تو
بالآخر میں نے اس کو مشعلِ رخسار کر ڈالا
نتیجہ آیا تو وہ خواب جو بے شمار آسودہ حال گھروں کے نوجوانوں نے دیکھا تھا‘ گرا تو مفلس کی جھولی میں گرا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کچھ چیزوں کی تقسیم کائنات کے پروردگار نے اپنے ہاتھ میں رکھ لی ورنہ اُسی پروردگار کی قسم! غریبوں کو ہوا‘ روشنی‘ پانی اور ماں کا بوسہ بھی نہ ملتا اور یہ نعمتیں بھی صرف بلاولوں‘ مونس الٰہیوں اور حمزہ شہبازوں کو ملتیں یا انہیں جن کے پاس قاف لیگ‘ نون لیگ‘ پی پی پی اور جے یو آئی کی پرچیاں ہوتیں!
ذیشان لبھا مسیح کی خوش بختی کہ ذہانت بھی انہی چیزوں میں شامل تھی جن کی تقسیم خدائے برتر نے اپنے ہاتھ میں رکھی۔ ایک پائی ٹیکس نہ دینے والا وزیر اپنی صاحبزادی کو یورپی ملک کے پاکستانی سفارت خانے میں دھاندلی اور دبائو سے افسر تو لگوا سکتا ہے‘ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے لیے اسے ذہانت کہیں سے خرید کر نہیں دے سکتا! حکمران کا فرزند صوبے بھر کی مرغبانی کی صنعت پر قبضہ کر کے روزانہ کروڑوں روپے تو کما سکتا ہے لیکن الحمدللہ! عقل اور اچھی شکل دینے والی ذات اور ہے! آپ آمروں کی اولاد کو باتیں کرتے سُن لیجیے۔ خدا کی قسم ہنسی آتی ہے اور اُبکائی بھی۔ وراثت میں پارٹی کی سربراہی تو مل سکتی ہے‘ سیاسی گدی اور ’’روحانی‘‘ گدی بھی ہاتھ آ سکتی ہے لیکن عزت کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ ’’جہادی‘‘ ڈالروں سے بھرے ہوئے امریکی صندوق سرکاری ملازموں کے خاندانوں کو کھرب پتی تو بنا سکتے ہیں‘ معزز نہیں کر سکتے۔ خچر پر سونے کی زین ڈال دیں‘ لگام چاندی کی بنوا لیں‘ وہ کبھی ترکی گھوڑا نہیں بن سکتا!
ذیشان لبھا مسیح کی جیب خالی تھی۔ اس کے ماں باپ تہی دست تھے۔ ہمارے نظام نے پوری کوشش کی کہ وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ اس عظیم الشان اسلامی مملکت میں غریب کے بچے کے لیے آگے بڑھنے کا بظاہر کوئی امکان ہی نہیں! سارے راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ یہاں راستے اُن بچوں کے لیے کھلے ہیں جن کے گھروں میں کئی کئی پجارو کھڑی ہیں‘ جو بسنت اور سالگرہوں پر کروڑوں روپے خس و خاشاک کی طرح اُڑا دیتے ہیں۔ جن کی کاروں اور جن کے مکانوں کے سائز پر کوئی پابندی نہیں اور جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی زرعی زمین کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے لیکن وہ ذات جو نظر نہ آنے والا نظام چلا رہی ہے‘ کروڑوں اربوں کھربوں گنا زیادہ طاقت ور ہے۔ نظر آنے والا نظام جو چاہے کر لے‘ اُس نظام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو لبھا مسیح جیسے بے یارو مددگار بچوں کو اُوپر لے آتا ہے!
منطق کہتی ہے کہ ذیشان مسیح ابھی اور آگے جائے گا کیوں کہ جو نظام اُسے یہاں تک لے آیا ہے‘ جس کا وہ اور اس کے ماں باپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے‘ وہی نظام اُسے اور آگے بھی لے جا سکتا ہے۔ خدا کرے وہ اس سے بھی بڑا آدمی بنے لیکن وہ جتنا بھی بڑا آدمی بنے اور جہاں بھی ہو‘ اُس ماں کو نہ بھولے جو اس کے رخسار کا ٹھنڈا میٹھا بوسہ لیتی تھی۔ اُس باپ کو نہ بھولے جو جھاڑو دیتے ہوئے اُس کے لیے دعائیں کرتا رہتا تھا اور ان گلیوں کو نہ بھولے جن کے خارو خس اُس کے خون میں شامل ہیں۔
اور اے اہلِ وطن! اس خاک میں بے شمار ذیشان بکھرے پڑے ہیں۔ خدا کے لیے انہیں تلاش کرو۔ ان کے ہاتھ تھامو! ذرا ان خاک آلود گلیوں کو تو دیکھو جہاں کاریں ہیں نہ روشنیاں‘ لیکن جہاں تمہارے لعل‘ تمہارے گوہر تمہارا انتظار کر رہے ہیں!
ذیشان لبھا مسیح نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس میں کوئی پورچ‘ لائونج اور ڈرائنگ روم نہیں تھا۔ وہ اونچی پشت والی کرسی پر بیٹھ کر بیضوی شکل والے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ اس کی ماں زمین پر بیٹھ کر کھانا پکاتی اور وہ پاس ہی زمین پر یا پیڑھی پر بیٹھ کر دال سے یا چٹنی سے یا پیاز سے روٹی کھا لیتا۔ اسے ناشتے میں پھلوں کا رس‘ آملیٹ‘ ٹوسٹ اور مارملیڈ کبھی نہیں ملا۔ اس کی سالگرہ کے دن اس کا گھر ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے بھرا‘ نہ پارٹیاں ہوئیں۔ وہ کبھی اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر لبرٹی مارکیٹ آئس کریم کھانے نہ گیا۔ اوکاڑہ کی گلیوں میں‘ جہاں اس کی ماں جھاڑو دیتی تھی اور جہاں تحصیل کونسل میں اس کا باپ صفائی کا کام کرتا تھا‘ جب وہ اپنے ہم جولیوں سے کھیلتا تو اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ میکڈانلڈ کی ایپل پائی کیا ہوتی ہے اور کے ایف سی کا زِنگر برگر کیسا ہوتا ہے۔ اسے کھانے کے لیے کبھی ٹوٹی فروٹی ملی نہ چاکلیٹ‘ نہ اس کے پاس چین کی بنی ہوئی چمکدار‘ جُھکے ہوئے ہینڈل والی‘ سائیکل تھی۔ اس نے کبھی پِنک پینتھر کے کارٹون دیکھے‘ نہ آئی پیڈ یا لیپ ٹاپ پر کبھی کوئی فلم دیکھی۔
پھر جب وہ پڑھنے کی عمر کو پہنچا تو ایف ٹین اسلام آباد کے‘ گلبرگ لاہور کے‘ حیات آباد پشاور کے اور ڈیفنس کراچی کے بچے یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ بچہ پریپ میں داخل ہوا نہ نرسری میں‘ وہاں انگلش گرامر سکول تھا‘ نہ کوئی اور ایسا تعلیمی ادارہ جس کی فیس ہزاروں میں ہو‘ وہاں تو بس چھوٹا سا سکول تھا جس کی لائبریری تھی‘ نہ لیبارٹری‘ نہ ہال۔ وہاں تو میز کرسیاں بھی نہیں تھیں۔ وہاں تو ٹاٹ بھی نہ تھے۔ ہر بچہ اپنے بیٹھنے کے لیے پلاسٹک کی خالی بوری یا کھاد والا خالی تھیلا لاتا اور اُس پر بیٹھتا۔ ذیشان نے جاگر پہنے نہ ٹی شرٹیں۔ اسے ڈرائیور گاڑی پر سکول چھوڑنے جاتا‘ نہ اس کے پاس کبابوں اور کیک سے بھرا ہوا لنچ بکس ہوتا‘ نہ کبھی سکول والے اسے تفریحی یا تعلیمی دورے پر لے کر گئے۔ ان چیزوں کا ذیشان لبھا مسیح کو تو کیا اس کے ماں باپ اور اساتذہ کو بھی معلوم نہ تھا۔ وہ واپس آ کر اپنے ڈیڑھ مرلے کے گھر کے صحن میں‘ اَلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا اور سکول کا کام کرنے لگ جاتا۔
باپ تحصیل کونسل اوکاڑہ میں جھاڑو دیتا رہا۔ ماں اوکاڑہ کی گلیاں صاف کرتی رہی۔ دھول گلیوں کی بھی اُڑتی رہی اور وقت کی بھی۔ ذیشان مسیح آگے بڑھتا گیا۔ ایک ایک انچ۔ ایک ایک قدم۔ پھر وہ وقت آیا کہ اس نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ امتحان کی تیاری کے لیے ہر روز صبح ساہی وال جاتا۔ دن بھر وہاں پڑھتا۔ واپس آ کر رات گئے تک ٹیوشن پڑھاتا۔ تھوڑا سا وقت بان کی چارپائی پر سوتا۔ صبح سویرے رات کی باسی روٹی چائے کے ساتھ کھا کر‘ ماں کا بوسہ اپنے زرد رخسار پر لے کر پھر شہر کا رُخ کرتا۔ ماں کا یہ بوسہ جو ہر صبح اُس کے رخسار پر ثبت ہوتا‘ اس کا سب سے قیمتی زادِ راہ تھا۔ یہ بوسہ اُسے بھوک میں توانائی بخشتا‘ بارش اور دھوپ میں چھتری بن جاتا اور کتاب سامنے آتی تو یہی بوسہ ذہن کے اندر روشنی دیتا ہوا چراغ بن جاتا ؎
نشاں ہونٹوں کا لَو دینے لگا ہے ذہن میں اب تو
بالآخر میں نے اس کو مشعلِ رخسار کر ڈالا
نتیجہ آیا تو وہ خواب جو بے شمار آسودہ حال گھروں کے نوجوانوں نے دیکھا تھا‘ گرا تو مفلس کی جھولی میں گرا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کچھ چیزوں کی تقسیم کائنات کے پروردگار نے اپنے ہاتھ میں رکھ لی ورنہ اُسی پروردگار کی قسم! غریبوں کو ہوا‘ روشنی‘ پانی اور ماں کا بوسہ بھی نہ ملتا اور یہ نعمتیں بھی صرف بلاولوں‘ مونس الٰہیوں اور حمزہ شہبازوں کو ملتیں یا انہیں جن کے پاس قاف لیگ‘ نون لیگ‘ پی پی پی اور جے یو آئی کی پرچیاں ہوتیں!
ذیشان لبھا مسیح کی خوش بختی کہ ذہانت بھی انہی چیزوں میں شامل تھی جن کی تقسیم خدائے برتر نے اپنے ہاتھ میں رکھی۔ ایک پائی ٹیکس نہ دینے والا وزیر اپنی صاحبزادی کو یورپی ملک کے پاکستانی سفارت خانے میں دھاندلی اور دبائو سے افسر تو لگوا سکتا ہے‘ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے لیے اسے ذہانت کہیں سے خرید کر نہیں دے سکتا! حکمران کا فرزند صوبے بھر کی مرغبانی کی صنعت پر قبضہ کر کے روزانہ کروڑوں روپے تو کما سکتا ہے لیکن الحمدللہ! عقل اور اچھی شکل دینے والی ذات اور ہے! آپ آمروں کی اولاد کو باتیں کرتے سُن لیجیے۔ خدا کی قسم ہنسی آتی ہے اور اُبکائی بھی۔ وراثت میں پارٹی کی سربراہی تو مل سکتی ہے‘ سیاسی گدی اور ’’روحانی‘‘ گدی بھی ہاتھ آ سکتی ہے لیکن عزت کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ ’’جہادی‘‘ ڈالروں سے بھرے ہوئے امریکی صندوق سرکاری ملازموں کے خاندانوں کو کھرب پتی تو بنا سکتے ہیں‘ معزز نہیں کر سکتے۔ خچر پر سونے کی زین ڈال دیں‘ لگام چاندی کی بنوا لیں‘ وہ کبھی ترکی گھوڑا نہیں بن سکتا!
ذیشان لبھا مسیح کی جیب خالی تھی۔ اس کے ماں باپ تہی دست تھے۔ ہمارے نظام نے پوری کوشش کی کہ وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ اس عظیم الشان اسلامی مملکت میں غریب کے بچے کے لیے آگے بڑھنے کا بظاہر کوئی امکان ہی نہیں! سارے راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ یہاں راستے اُن بچوں کے لیے کھلے ہیں جن کے گھروں میں کئی کئی پجارو کھڑی ہیں‘ جو بسنت اور سالگرہوں پر کروڑوں روپے خس و خاشاک کی طرح اُڑا دیتے ہیں۔ جن کی کاروں اور جن کے مکانوں کے سائز پر کوئی پابندی نہیں اور جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی زرعی زمین کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے لیکن وہ ذات جو نظر نہ آنے والا نظام چلا رہی ہے‘ کروڑوں اربوں کھربوں گنا زیادہ طاقت ور ہے۔ نظر آنے والا نظام جو چاہے کر لے‘ اُس نظام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو لبھا مسیح جیسے بے یارو مددگار بچوں کو اُوپر لے آتا ہے!
منطق کہتی ہے کہ ذیشان مسیح ابھی اور آگے جائے گا کیوں کہ جو نظام اُسے یہاں تک لے آیا ہے‘ جس کا وہ اور اس کے ماں باپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے‘ وہی نظام اُسے اور آگے بھی لے جا سکتا ہے۔ خدا کرے وہ اس سے بھی بڑا آدمی بنے لیکن وہ جتنا بھی بڑا آدمی بنے اور جہاں بھی ہو‘ اُس ماں کو نہ بھولے جو اس کے رخسار کا ٹھنڈا میٹھا بوسہ لیتی تھی۔ اُس باپ کو نہ بھولے جو جھاڑو دیتے ہوئے اُس کے لیے دعائیں کرتا رہتا تھا اور ان گلیوں کو نہ بھولے جن کے خارو خس اُس کے خون میں شامل ہیں۔
اور اے اہلِ وطن! اس خاک میں بے شمار ذیشان بکھرے پڑے ہیں۔ خدا کے لیے انہیں تلاش کرو۔ ان کے ہاتھ تھامو! ذرا ان خاک آلود گلیوں کو تو دیکھو جہاں کاریں ہیں نہ روشنیاں‘ لیکن جہاں تمہارے لعل‘ تمہارے گوہر تمہارا انتظار کر رہے ہیں!
Thursday, March 21, 2013
گبول‘ ایم کیوایم اور نون لیگ
نیا موسم نئے پتوں میں نئے رنگ بھرتا ہے۔ میرؔ نے کہا تھا کہ نخلِ دار پر منصور کے سر ہی کا پھل لگتا ہے۔ لیکن سیاست وہ باغ ہے جس میں نخلِ دار ہمیشہ ویران رہتا ہے۔ ایثار ایسا پھول ہے جو اس باغ میں کم ہی کھلتا ہے۔ سیاست دان وہ پرندے ہیں جو ڈاروں کی صورت میں اس درخت کا رخ کرتے ہیں جس کی ٹہنیوں پر بوردکھائی دے۔ ڈار کے ڈار اور ریوڑ کے ریوڑ مسلم لیگ نون کا رخ کررہے ہیں۔ کیا صالحین اور کیا صالحات اور کیا پرویز مشرف کی باقیات‘ تمام مرغانِ بادنما ایک ہی سمت کی نشان دہی کررہے ہیں۔ انگریزوں نے ان اصحاب کے لیے ’’ٹرن کوٹ‘‘ کا لفظ ایجاد کیا ہے۔ غالباً اس سے مراد یہ ہے کہ جب ضرورت پڑے کوٹ کو اُلٹا کر، دوسری طرف سے پہن لو۔
عام طورپر ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے والوں کے لیے ذہن میں مثبت جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ خبرسننے یا پڑھنے والا زیرِلب انہیں برا بھلا کہتا ہے یا دل میں ان پر اخلاقی پستی کا الزام لگاتا ہے لیکن نہ جانے کیوں، کم ازکم اس کالم نگار کے دل میں، نبیل گبول کے لیے منفی جذبات بیدار نہ ہوسکے۔ اس نے تین دن قبل پیپلزپارٹی کے ساتھ اڑھائی عشروں کی رفاقت کو خیرباد کہہ کر ایم کیوایم میں شمولیت اختیار کی ہے۔ چار پانچ ہفتے پہلے کی بات ہے کہ اس نے مسلم لیگ نون کا رخ کیا تھا۔ بیانات سے یہ پتہ چلتا تھا کہ وہ نون لیگ میں شامل ہورہا ہے۔ اس نے نوازشریف کے ساتھ اپنے مضبوط خاندانی روابط کا ذکر کیا اور میاں صاحب کی جمہوریت کے لیے خدمات کی تعریف کی۔ لیکن اونٹ آخر کار ایم کیوایم کی کروٹ بیٹھا۔
اگر گبول صاحب اردو بولنے والے ہوتے اور ایم کیو ایم میں شامل ہوتے تو یہ ایک بالکل عام سی خبر ہوتی۔ اگر وہ نون لیگ میں آتے جب بھی کوئی نمایاں خبر نہ بنتی لیکن ایک نان اردو سپیکنگ سیاستدان کا، خاص طورپر جب وہ گبول جیسا معروف سیاست دان ہو، ایم کیوایم میں شامل ہونا اہم خبر ہے اور ایک مثبت تبدیلی بھی۔
بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے نبیل گبول کے دادااللہ بخش گبول سندھ اسمبلی کے پہلے ڈپٹی سپیکرتھے۔ وہ دوبار کراچی کے میئر بھی رہے۔ ایم کیوایم پر، مجموعی طورپر ، ایک مخصوص لسانی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ جب اس پارٹی نے اپنا نام مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بدلا تو اس کا ارادہ تو یہی تھا کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو، لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ وہ سالہا سال گزرنے کے باوجود مہاجر تنظیم ہی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے دامن سے آج تک کوئی قابل ذکر نان اردو سپیکنگ لیڈر وابستہ نہ ہوسکا۔ اگر یہ کالم نگار غلطی نہیں کررہا تو گبول بڑے قد کاٹھ کا پہلا نان اردو سپیکنگ سیاست دان ہے جو اس جماعت میں شامل ہوا ہے۔ یہ ملکی سیاست کے لیے نیک فال ہے۔ خدا کرے ایم کیوایم بھی اس اہم پیشرفت سے کوئی تعمیری فائدہ اٹھا سکے۔
ایم کیوایم کے سینے پر دوایسے تمغے سجے ہیں جو قابل رشک نہیں ہیں۔ ایک یہ الزام کہ وہ پاکستان کے جنوبی شہروں میں طاقت کا بے محابا استعمال کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایم کیوایم نے ہمیشہ اس سلسلے میں تردید کی ہے لیکن زبان خلق اگر نقارہ خدا ہے تو یہ تردید کارآمد کبھی ثابت نہیں ہوئی۔ الطاف حسین کا لندن میں مستقل قیام دوسرا تمغہ ہے جوایم کیوایم چھپانے کی کوشش کرتی ہے لیکن سینے پر لگا تمغہ کب چھپتا ہے۔ اس میں مجبوریاں تو ہیں مگر ایم کیوایم کبھی بھی اس پہلو سے قائل کرنے والا دفاع نہیں کرسکی!اگر پرویز مشرف ایم کیوایم میں شامل ہوئے تو یہ ایک تیسرا ناقابل دفاع داغ ہوگا ۔
ان تمام حقیقتوں کے باوجود، گبول صاحب کا مسلم لیگ نون کے بجائے ایم کیوایم میں شامل ہونا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ جنوبی پاکستان میں، جہاں سے گبول صاحب کا تعلق ہے، ایم کیوایم کی پوزیشن مسلم لیگ نون سے بدرجہا مضبوط تر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کراچی میں مسلم لیگ نون کا وجود برائے نام ہے اور محض برائے وزن بہت ہے۔ اس کے برعکس ایم کیوایم وہاں ایک بہت بڑی سٹیک ہولڈر ہے اور اگر زور اور زرکا حصہ ایک طرف بھی رکھ دیا جائے، تو اس کے باوجود ووٹروں کی اکثریت اسی کے ساتھ ہے۔ ایم کیوایم کو یہ کریڈٹ بہرطور دینا پڑتا ہے کہ اس نے مڈل کلاس کو اوپر آنے دیا۔ اگرچہ اس کے مڈل کلاس کے کچھ ’’ورکر‘‘ آج اپر کلاس میں شامل ہوچکے ہیں، تاہم فیوڈل لعنت سے یہ جماعت ابھی تک بچی ہوئی ہے۔
اس کے مقابلے میں مسلم لیگ نون آج تک پنجاب کے شہرِ لاہور اور لاہور کی ایک مخصوص کمیونٹی سے باہر نہیں نکل سکی۔ کہنے کو اس میں مشاہداللہ خان، اقبال ظفر جھگڑا، غوث علی شاہ اور چودھری نثار علی خان بھی شامل ہیں لیکن ہرشخص جانتا ہے کہ کورگروپ میں صرف وہ افراد ہیں جو یا تو میاں برادران کے اپنے خاندان سے ہیں یا ایک مخصوص علاقے یا ایک مخصوص نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسحاق ڈار ، عابد شیر علی ، حمزہ شہباز ، مریم شہباز ، کیپٹن صفدر کے علاوہ بھی کئی رشتہ دار طاقت ور پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں برادران ذہنی طورپر آج تک اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ لاہور سے اور ایک مخصوص کمیونٹی سے باہر نکل سکیں۔ اگرچہ پرویز مشرف میاں نوازشریف کی پہلی محبت تھی لیکن دوسری محبت ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھتی تھی یہ الگ بات کہ دوسری محبت کا شگوفہ کھل کر پھول نہ بن سکا۔ بقول ظفراقبال ؎
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
اکتوبر 1999ء کے قومی اخبارات میاں صاحب کی گروہی وابستگی سے بھرے پڑے ہیں، کئی خبریں انتہائی نمایاں طورپر چھپیں۔ ایک حساس ادارے میں انہوں نے تیس افراد بھرتی کیے جن میں سے اٹھائیس کا تعلق ایک خاص علاقے یا کمیونٹی سے تھا۔ بیورو کریسی میں چالیس سے زیادہ کلیدی مناصب پر یہی حال تھا۔ آج بھی بڑے میاں صاحب کا دست راست نوکرشاہی کا وہی پرزہ ہے جو اقتدار کے عروج پر ان کا کرتا دھرتا تھا اور جس کا تعلق ان کے شہر سے ہے۔ یہی حال ان باقی ریٹائرڈ حضرات کا ہے جو ان سے وابستہ ہیں۔ الغرض اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ مسلم لیگ نون عملی طورپر ایک شہر اور ایک کمیونٹی کی زنبیل میں بند ہے۔ اس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ برادر خورد کی وزارت اعلیٰ کے پورے زمانے میں، ہمائے اقتدار کا سایہ ایک شہرہی پررہا۔ اس ضمن میں ناقابل تردید اعدادوشمار کئی سیاست دانوں اور کالم نگاروں نے بارہا پیش کیے ہیں !
اس پس منظر میں گبول صاحب کا نون لیگ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ صائب نظرآتا ہے۔ وہ اگر شامل ہوتے تو ان کی حیثیت ایک اور ذوالفقار کھوسہ یا ایک اور مہتاب عباسی سے زیادہ نہ ہوتی۔ گبول صاحب کی ایم کیوایم میں شمولیت قومی نکتہ نظر سے ایک مثبت اور حوصلہ افزا پیشرفت ہے۔ اگر اس قد کاٹھ کے چند اور سیاست دان دوسرے صوبوں اور دوسری لسانی اکائیوں سے بھی ایم کیوایم میں شامل ہوجائیں تو ایم کیوایم ملک کے لیے زیادہ قیمتی اثاثہ ثابت ہوسکتی ہے!
Tuesday, March 19, 2013
بھاگتے چورلنگوٹی بھی لے گئے
کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ ننگے ہیں ؟ آپ کے اور میرے جسموں پر جولنگوٹیاں تھیں، چور بھاگتے ہوئے وہ بھی اتارلے گئے ۔
پیپلزپارٹی ، قاف لیگ، اے این پی، ایم کیوایم، جے یو آئی (ف) اور نون لیگ (کچھ ظاہری اتحادی اور کچھ خفیہ اتحادی) جاتے ہوئے جوکچھ ہاتھ آیا بوریوں میں بھر کر لے گئے۔ ان کے سروں پر پوٹلیاں تھیں، ہاتھوں میں تھیلے تھے، کندھوں پر بیگ تھے۔ یہ وہ ٹھگ تھے جو ان ٹھگوں کو بھی مات کرگئے جو انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کی شاہراہوں پر دندناتے پھرتے تھے اور مسافروں کے گلے ریشمی رومال سے گھونٹتے تھے ۔ آج کے ٹھگ جس ریشمی رومال سے لوگوں کے گلے گھونٹ گئے اس کو وہ جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔
یہ لٹیرے جوکچھ کر گئے ہیں اس کا عشرعشیر بھی سامنے نہیں آیا۔ بدنام زمانہ ڈاکو پناہ مانگتے پھررہے ہیں اور چوروں کے سردار انگشت بدنداں ہیں۔ ڈاکہ زنی کی انتہا کا اندازہ اس سے لگایئے کہ آخری تین ہفتوں میں چارکھرب 65ارب روپے کے ’’فیصلے ‘‘ کیے گئے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈاراکین اسمبلی کو پیش کیے گئے ۔ سندھ میں وزراء ، معاونین، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ۔ چوروں کے کپڑے اور ڈانگوں کے گز۔ سابقہ اراکین اسمبلی کو بھی تاحیات مراعات دے دی گئیں۔ اگر کوئی رکن دنیا سے بادل نخواستہ رخصت ہوجائے تو یہ ’’ڈاکہ ٔ جاریہ‘‘ اس کے شوہر یا بیوی کو بھی ملتا رہے گا۔ ایک دن بھی جو وزیر اعلیٰ، سپیکر یا ڈپٹی سپیکر رہا اسے گریڈسترہ کا پرائیویٹ سیکرٹری ، ایک اردلی، ایک ڈرائیور، ایک باورچی، ایک مالی اور ایک سینٹری ورکر یعنی خاکروب تاحیات بخشا جائے گا۔ گویا ڈاکوئوں کے جانے کے بعد بھی گھر ان کے قبضے ہی میں رہے گا۔
وفاق اس ڈاکہ زنی میں صوبوں سے پیچھے نہیں رہا۔ پانچ سال تک عوام کے ٹیکسوں سے شہنشاہوں کی زندگی گزارنے والی سپیکر فہمیدہ مرزا نے بھاگنے والے 342اراکین اسمبلی کے الائونس کو دوگنا کردیا۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے مطابق چالیس کروڑ روپے اس اضافے پر خرچ ہوں گے۔ قمرزمان کائرہ نے جاتے جاتے اپنے تقریباً تمام ذاتی سٹاف کو بیرون ملک تعینات کرادیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ گریڈ چودہ کے ایسے ملازم کو ترکی بھیجا جارہا ہے جو وزارت کا ملازم ہی نہیں۔ نوکرشاہی کے جوارکان بیرون ملک کئی سال گزار کر واپس آئے ہی تھے، انہیں دوبارہ باہر تعینات کردیا گیا ہے۔
جس افسر کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کاسربراہ بناتے وقت قوم کو یہ نوید دی تھی کہ ’’ہم اچھے اور ایماندار افسروں کی نئی ٹیم لائے ہیں‘‘ اسے پانچ ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا کیونکہ طاہر شہباز کی راست گوئی اور دیانت ناقابل برداشت ہورہی تھی۔ اس نے ایسے افسروں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا جو بہت طاقت ور تھے۔ کھوکھے الاٹ کرنے کرانے کا ’’کاروبار ‘‘ عروج پر تھا۔ طاہر شہباز نے پانچ سو کھوکھوں کے لائسنس منسوخ کرکے شفافیت کے لیے کوشش کی۔ ان میں ایک
ایسی شخصیت کا بھی کھوکھا تھا جو عالی مقام تھی۔ ایک قصور اس راست باز سرکاری ملازم کا یہ بھی تھا کہ اس نے چند معاملات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل پر زور دیا تھا۔
ذہنی افلاس کے اس مقابلے میں صوبے وفاق سے پیچھے نہیں رہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ’’اعزاز ‘‘ میں ، وزیراعلیٰ ہی کے ماتحت چیف سیکرٹری نے عظیم المثال تقریب کا اہتمام کیا جسے پنجاب حکومت کے الوداعیہ کا سرکاری نام دیا گیا۔ یہ وہی پنجاب حکومت ہے جس کے کسی وزیر کا نام پانچ سال کے دوران سننے میں نہیں آیا۔چیف سیکرٹری یعنی سب سے بڑے ماتحت نے وزیراعلیٰ کی شان میں جو قصیدہ گوئی کی، اسے نقل کرنے کی ہمت نہیں ہورہی اس لیے کہ قارئین کو کسی قصور کے بغیر ابکائی کی اذیت میں مبتلا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بس یہ تصور کیجیے کہ بیس وزارتیں اپنی جیب میں ڈالنے والے جمہوری وزیراعلیٰ کی گردن، چیف ماتحت کی قصیدہ گوئی سے کس طرح تن گئی ہوگی! ایک زمانہ وہ تھا کہ شرفا صرف اس تعریف کو اہمیت دیتے تھے جو مخالفین کے منہ سے سنی جاتی تھی۔ ایک صاحب نے حضرت عمرفاروقؓ کی تعریف ان کے منہ پر کی تو آپ زمین پر جھکے، مٹھی میں مٹی ڈالی اور خوشامد کرنے والے کے منہ میں ٹھونس دی۔ لیکن اب خوشامد ایک فن ہے اور جو جتنا بڑا ماتحت ہو، اتنا ہی بڑا خوشامدی ثابت ہوتا ہے۔ چیف سیکرٹری یہ ہمت تو نہ کرسکے کہ پولیس کے سینکڑوں ملازمین کو رائے ونڈ اور دوسرے متعدد محلات کی پہریداری سے ہٹا دیتے۔ اگر ایسا، یا اس قبیل کا کوئی کام کرتے تو پھر معلوم ہوتا کہ وزیراعلیٰ ان کی قصیدہ گوئی سنتے ہیں یا نہیں ؎
یہ لاالٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
اس ’’الوداعیے‘‘ میں جوکچھ پنجاب حکومت یعنی وزیراعلیٰ کے لیے مہیا کیا گیا، اس کا اندازہ صرف اس سے لگائیے کہ صرف گوشت کی خریداری پر دولاکھ روپے صرف ہوئے۔ بیس وزیروں کا کام ایک شخص کرے گا تو پروٹین (لحمیات) کی ضرورت لازماً بہت زیادہ ہوگی!!
بات ان ٹھگوں کی ہورہی تھی جو رہگیروں کو ریشمی رومالوں کے پھندوں سے ہلاک کرتے تھے۔ انگریزی حکومت نے ان کا قلع قمع کیا تو خلق خدا کی جان میں جان آئی۔ آج کے ٹھگوں کا کمال یہ ہے کہ ان کا قلع قمع ہونے کے باوجود خلق خدا ان کی لوٹ مار کا نقصان اٹھاتی رہے گی۔ اکثر اخبارات میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ فلاں شخص قتل کرنے کے بعد بھرے بازار میں چھرا لہراتا ہوا فرار ہوگیا، تو یہ ٹھگ ریشمی رومال لہراتے ہوئے فرار ہوئے ہیں۔
آخر میں قارئین کی خدمت میں مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے۔ دودن پہلے کے اخبارات میں شائع ہونے والا اشتہار ملاحظہ فرمائیے۔
’’عوام کی پہلے بھی بھرپور خدمت کی، انشاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے اور اپنے قائد میاں نواز شریف کی قیادت میں حلقے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہیں گے۔ عمرایوب خان۔ امیدوار حلقہ فلاں، پاکستان مسلم لیگ نون۔ ‘‘
یہ وہی عمر ایوب خان ہیں جو پرویز مشرف کے تمام دور میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کے ذہن میں اب یہ سوال بلبلے کی طرح اٹھ رہا ہوگا کہ آخر سیاست دان پارٹیاں کس طرح بدلتے ہیں اور کیوں بدلتے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انہیں دوسری پارٹیاں قبول کیوں کرتی ہیں ؟ مگر آپ سوالات کے اس جنگل سے نکل آئیے اور اس دن کا انتظار کیجیے جب ایسا ہی ایک اشتہار جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھی شائع ہوگا اور اشتہار کے دائیں کونے میں میاں نواز شریف کی تصویر ہوگی!!احمد ندیم قاسمی بھی کہاں یاد آگئے ؎
اک روز اس طرح بھی مرے بازوئوں میں آ
میرے ادب کو تیری حیا کو خبر نہ ہو
ادب کا تو معلوم نہیں، ہاں حیا ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی!
پیپلزپارٹی ، قاف لیگ، اے این پی، ایم کیوایم، جے یو آئی (ف) اور نون لیگ (کچھ ظاہری اتحادی اور کچھ خفیہ اتحادی) جاتے ہوئے جوکچھ ہاتھ آیا بوریوں میں بھر کر لے گئے۔ ان کے سروں پر پوٹلیاں تھیں، ہاتھوں میں تھیلے تھے، کندھوں پر بیگ تھے۔ یہ وہ ٹھگ تھے جو ان ٹھگوں کو بھی مات کرگئے جو انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کی شاہراہوں پر دندناتے پھرتے تھے اور مسافروں کے گلے ریشمی رومال سے گھونٹتے تھے ۔ آج کے ٹھگ جس ریشمی رومال سے لوگوں کے گلے گھونٹ گئے اس کو وہ جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔
یہ لٹیرے جوکچھ کر گئے ہیں اس کا عشرعشیر بھی سامنے نہیں آیا۔ بدنام زمانہ ڈاکو پناہ مانگتے پھررہے ہیں اور چوروں کے سردار انگشت بدنداں ہیں۔ ڈاکہ زنی کی انتہا کا اندازہ اس سے لگایئے کہ آخری تین ہفتوں میں چارکھرب 65ارب روپے کے ’’فیصلے ‘‘ کیے گئے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈاراکین اسمبلی کو پیش کیے گئے ۔ سندھ میں وزراء ، معاونین، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ۔ چوروں کے کپڑے اور ڈانگوں کے گز۔ سابقہ اراکین اسمبلی کو بھی تاحیات مراعات دے دی گئیں۔ اگر کوئی رکن دنیا سے بادل نخواستہ رخصت ہوجائے تو یہ ’’ڈاکہ ٔ جاریہ‘‘ اس کے شوہر یا بیوی کو بھی ملتا رہے گا۔ ایک دن بھی جو وزیر اعلیٰ، سپیکر یا ڈپٹی سپیکر رہا اسے گریڈسترہ کا پرائیویٹ سیکرٹری ، ایک اردلی، ایک ڈرائیور، ایک باورچی، ایک مالی اور ایک سینٹری ورکر یعنی خاکروب تاحیات بخشا جائے گا۔ گویا ڈاکوئوں کے جانے کے بعد بھی گھر ان کے قبضے ہی میں رہے گا۔
وفاق اس ڈاکہ زنی میں صوبوں سے پیچھے نہیں رہا۔ پانچ سال تک عوام کے ٹیکسوں سے شہنشاہوں کی زندگی گزارنے والی سپیکر فہمیدہ مرزا نے بھاگنے والے 342اراکین اسمبلی کے الائونس کو دوگنا کردیا۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے مطابق چالیس کروڑ روپے اس اضافے پر خرچ ہوں گے۔ قمرزمان کائرہ نے جاتے جاتے اپنے تقریباً تمام ذاتی سٹاف کو بیرون ملک تعینات کرادیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ گریڈ چودہ کے ایسے ملازم کو ترکی بھیجا جارہا ہے جو وزارت کا ملازم ہی نہیں۔ نوکرشاہی کے جوارکان بیرون ملک کئی سال گزار کر واپس آئے ہی تھے، انہیں دوبارہ باہر تعینات کردیا گیا ہے۔
جس افسر کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کاسربراہ بناتے وقت قوم کو یہ نوید دی تھی کہ ’’ہم اچھے اور ایماندار افسروں کی نئی ٹیم لائے ہیں‘‘ اسے پانچ ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا کیونکہ طاہر شہباز کی راست گوئی اور دیانت ناقابل برداشت ہورہی تھی۔ اس نے ایسے افسروں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا جو بہت طاقت ور تھے۔ کھوکھے الاٹ کرنے کرانے کا ’’کاروبار ‘‘ عروج پر تھا۔ طاہر شہباز نے پانچ سو کھوکھوں کے لائسنس منسوخ کرکے شفافیت کے لیے کوشش کی۔ ان میں ایک
ایسی شخصیت کا بھی کھوکھا تھا جو عالی مقام تھی۔ ایک قصور اس راست باز سرکاری ملازم کا یہ بھی تھا کہ اس نے چند معاملات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل پر زور دیا تھا۔
ذہنی افلاس کے اس مقابلے میں صوبے وفاق سے پیچھے نہیں رہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ’’اعزاز ‘‘ میں ، وزیراعلیٰ ہی کے ماتحت چیف سیکرٹری نے عظیم المثال تقریب کا اہتمام کیا جسے پنجاب حکومت کے الوداعیہ کا سرکاری نام دیا گیا۔ یہ وہی پنجاب حکومت ہے جس کے کسی وزیر کا نام پانچ سال کے دوران سننے میں نہیں آیا۔چیف سیکرٹری یعنی سب سے بڑے ماتحت نے وزیراعلیٰ کی شان میں جو قصیدہ گوئی کی، اسے نقل کرنے کی ہمت نہیں ہورہی اس لیے کہ قارئین کو کسی قصور کے بغیر ابکائی کی اذیت میں مبتلا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بس یہ تصور کیجیے کہ بیس وزارتیں اپنی جیب میں ڈالنے والے جمہوری وزیراعلیٰ کی گردن، چیف ماتحت کی قصیدہ گوئی سے کس طرح تن گئی ہوگی! ایک زمانہ وہ تھا کہ شرفا صرف اس تعریف کو اہمیت دیتے تھے جو مخالفین کے منہ سے سنی جاتی تھی۔ ایک صاحب نے حضرت عمرفاروقؓ کی تعریف ان کے منہ پر کی تو آپ زمین پر جھکے، مٹھی میں مٹی ڈالی اور خوشامد کرنے والے کے منہ میں ٹھونس دی۔ لیکن اب خوشامد ایک فن ہے اور جو جتنا بڑا ماتحت ہو، اتنا ہی بڑا خوشامدی ثابت ہوتا ہے۔ چیف سیکرٹری یہ ہمت تو نہ کرسکے کہ پولیس کے سینکڑوں ملازمین کو رائے ونڈ اور دوسرے متعدد محلات کی پہریداری سے ہٹا دیتے۔ اگر ایسا، یا اس قبیل کا کوئی کام کرتے تو پھر معلوم ہوتا کہ وزیراعلیٰ ان کی قصیدہ گوئی سنتے ہیں یا نہیں ؎
یہ لاالٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
اس ’’الوداعیے‘‘ میں جوکچھ پنجاب حکومت یعنی وزیراعلیٰ کے لیے مہیا کیا گیا، اس کا اندازہ صرف اس سے لگائیے کہ صرف گوشت کی خریداری پر دولاکھ روپے صرف ہوئے۔ بیس وزیروں کا کام ایک شخص کرے گا تو پروٹین (لحمیات) کی ضرورت لازماً بہت زیادہ ہوگی!!
بات ان ٹھگوں کی ہورہی تھی جو رہگیروں کو ریشمی رومالوں کے پھندوں سے ہلاک کرتے تھے۔ انگریزی حکومت نے ان کا قلع قمع کیا تو خلق خدا کی جان میں جان آئی۔ آج کے ٹھگوں کا کمال یہ ہے کہ ان کا قلع قمع ہونے کے باوجود خلق خدا ان کی لوٹ مار کا نقصان اٹھاتی رہے گی۔ اکثر اخبارات میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ فلاں شخص قتل کرنے کے بعد بھرے بازار میں چھرا لہراتا ہوا فرار ہوگیا، تو یہ ٹھگ ریشمی رومال لہراتے ہوئے فرار ہوئے ہیں۔
آخر میں قارئین کی خدمت میں مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے۔ دودن پہلے کے اخبارات میں شائع ہونے والا اشتہار ملاحظہ فرمائیے۔
’’عوام کی پہلے بھی بھرپور خدمت کی، انشاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے اور اپنے قائد میاں نواز شریف کی قیادت میں حلقے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہیں گے۔ عمرایوب خان۔ امیدوار حلقہ فلاں، پاکستان مسلم لیگ نون۔ ‘‘
یہ وہی عمر ایوب خان ہیں جو پرویز مشرف کے تمام دور میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کے ذہن میں اب یہ سوال بلبلے کی طرح اٹھ رہا ہوگا کہ آخر سیاست دان پارٹیاں کس طرح بدلتے ہیں اور کیوں بدلتے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انہیں دوسری پارٹیاں قبول کیوں کرتی ہیں ؟ مگر آپ سوالات کے اس جنگل سے نکل آئیے اور اس دن کا انتظار کیجیے جب ایسا ہی ایک اشتہار جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھی شائع ہوگا اور اشتہار کے دائیں کونے میں میاں نواز شریف کی تصویر ہوگی!!احمد ندیم قاسمی بھی کہاں یاد آگئے ؎
اک روز اس طرح بھی مرے بازوئوں میں آ
میرے ادب کو تیری حیا کو خبر نہ ہو
ادب کا تو معلوم نہیں، ہاں حیا ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی!
Friday, March 15, 2013
کیا عمران خان یہ اعلان کرسکتے ہیں؟
مارچ 2013ء کی تیرہ تاریخ تھی۔ سہ پہر کے اڑھائی بجے چودھری حمید کو اطلاع ملی کہ اس کے بڑے بھائی کو مری میں دل کا دورہ پڑا ہے۔ وہ اس وقت راولپنڈی صدر کے ایک بینک میں بیٹھا اپنی روزمرہ کی ملازمت نمٹا رہا تھا۔ وہ اٹھا۔ موبائل پر بیوی کو گھر اطلاع دی۔ اپنے افسر کو بتایا اور بینک سے باہر نکل آیا۔ ویگنوں کے اڈے پر پہنچا تو خوش قسمتی سے مری کی ویگن تیار تھی۔ اس نے ٹکٹ لیا اور بیٹھ گیا۔ ذہن پر دبائو اتنا شدید تھا کہ جسم سے توانائی سلب ہوگئی تھی۔ اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے جتنی دعائیں یاد تھیں، پڑھنے لگا۔ دل تھا کہ اچھل کر باہر آنا چاہتا تھا۔ والد کے بعد اس کا بڑا بھائی ہی تھا جس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ویگن کو پر لگ جائیں اور وہ اڑ کر بھائی کے پاس ہسپتال پہنچ جائے لیکن ویگن ٹریفک کے ہنگاموں سے معاملات طے کرتی‘ اپنی رفتار سے رواں تھی۔
ٹھیک اسی دن، اڑھائی بجے ملک ارشد اپنی کار پر مری سے روانہ ہوا۔ اس نے اسلام آباد کے چک لالہ ائیرپورٹ سے کراچی کا جہاز پکڑنا تھا۔ اگلی صبح کراچی میں اس کی کاروباری مصروفیت تھی۔ اس نے وقت کا حساب اس طرح کیا تھا کہ پرواز کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ جائے۔ اس کے کاروباری پارٹنر نے کراچی ائیرپورٹ سے اسے لینا تھا اور ہوٹل میں پہنچانا تھا۔
آپ مری سے آئیں تو اسلام آباد سے پہلے کنونشن سنٹر پڑتا ہے۔ کنونشن سنٹر سے پہلے، شاہراہ کے بائیں طرف ایک تفریحی پارک بنایا گیا ہے جسے لیک ویو پارک کہتے ہیں۔ چودھری حمید جس ویگن میں سوار، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے دعائیں پڑھ رہا تھا، اس ویگن کو لیک ویو پارک سے پہلے ٹریفک پولیس نے روک لیا۔ سڑک کے عین درمیان میں پولیس کے اہلکار نے ایک لمبا سا موٹرسائیکل افقی انداز میں یوں کھڑا کر رکھا تھا کہ سڑک بلاک ہوگئی تھی۔ ویگن رک گئی۔ اس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی رک گئیں۔ پانچ منٹ کے اندر اندر، ویگن کے پیچھے سینکڑوں کاروں، ویگنوں، بسوں، ٹرکوں، سوزوکیوں، موٹر سائیکلوں کی میلوں لمبی قطار وجود میں آچکی تھی۔
ملک ارشد کی کار چھتر کی بلندی سے اتری، بارہ کہو کو عبور کرتی لیک ویو پارک کے قریب پہنچی تو ٹریفک پولیس نے اسے بھی روک لیا۔ ایک سرکاری موٹرسائیکل، افقی انداز میں، اس شاہراہ پر بھی یوں پارک کیا گیا تھا کہ راستہ پوری طرح بلاک ہوگیا تھا۔ چند منٹوں میں ملک ارشد کی کار کے پیچھے بھی گاڑیوں کی طویل قطار کھڑی تھی۔
ٹریفک رکی رہی۔ چودھری حمید سیٹ پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ پریشانی کی انتہا میں اس پر متلی کے دورے پڑ رہے تھے۔ کیا وہ اپنے بھائی کو زندہ دیکھ سکے گا؟ ویگن کب چلے گی؟ رکی ہوئی ٹریفک کب رواں ہوسکے گی؟ ملک ارشد شاہراہ کے دوسری طرف بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ وقت گزر رہا تھا۔ ٹریفک بند تھی۔ ہر طرف گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کیا وہ جہاز کے وقت پر پہنچ پائے گا؟ اگر وہ کل میٹنگ اٹنڈ نہ کرسکا تو اسے لاکھوں کا نقصان ہوگا۔ سردی کے باوجود اس کی پیشانی پسینے سے تر ہوگئی۔ اس نے نکٹائی کی گرہ ڈھیلی کی، بوتل سے پانی کا گھونٹ پیا اور سیٹ کی پشت پر ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
یہ سارے چودھری حمید، یہ سارے ملک ارشد ٹریفک کے قید خانے میں اس لیے قید کر دیے گئے تھے کہ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت کے سربراہ لیک ویو پارک میں تشریف لارہے تھے۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت والے ملک کے حکمران کے لیے ٹریفک رک سکتی ہے لیکن وقت نہیں رک سکتا۔ ٹریفک قید خانے میں کھڑی ہوتی ہے نہ روشندان نہ دروازہ۔ چودھری حمید اور ملک ارشد آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے۔ ان کے بھائی ہسپتالوں میں مر جاتے ہیں۔ ان کے جہاز نکل جاتے ہیں۔ حاملہ عورتیں بچے شاہراہوں پر جنم دے دیتی ہیں۔ طالب علم کمرۂ امتحان میں نہیں پہنچ پاتے۔ کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
اس دردناک موضوع پر اس کالم نگار کی یہ پہلی تحریر نہیں۔ یہ کالم نگار کس کھیت کی مولی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سینئر کالم نگار ہو جس نے اس موضوع پر نہ لکھا ہو لیکن ضیاالحق سے لے کر پرویز مشرف تک۔ نوازشریف سے لیکر بینظیر تک اور آصف علی زرداری سے لے کر یوسف رضا گیلانی اور پرویزاشرف تک۔ کسی حکمران نے لوگوں کو اس عذاب سے رہائی نہیں دی۔ غلامی کی یہ بدترین قسم آج بھی پاکستان میں رائج ہے۔ بے بس بے کس خلق خدا کو جانوروں کی طرح روک لیا جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس والے جس لہجے میں انہیں روکتے ہیں، چرواہے اپنے ڈھور ڈنگروں کو اس سے نرم تر لہجے میں پکارتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے لندن کی ٹریفک کے سربراہ سے درخواست کی تھی کہ جب اسے غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات کرنے کیلئے دارالعوام سے اپنی سرکاری قیام گاہ آنا ہوتا ہے تو تاخیر ہوجاتی ہے۔ کیا وہ دس منٹ کے لیے ٹریفک کو متبادل راستے پر لے جا سکتا ہے؟ ٹریفک کے سربراہ نے معذرت کرتے ہوئے گرُ کی بات وزیراعظم کو یہ بتائی کہ حضور! آپ دس منٹ پہلے دارالعوام سے نکل آیا کیجئے۔
سکینڈے نیویا کے ایک ملک میں ایک وزیر کو قتل کردیا گیا۔ مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے حکومت کے سارے ستون سر جوڑ کر بیٹھے۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ سکیورٹی اقدامات مزید نہیں اٹھائے جاسکتے۔ جتنے ہیں اتنے ہی رہیں گے۔ جس نے سیاست میں آنا ہے، سوچ لے۔ خطرات اس میدان میں واضح ہیں۔ قوم کا مزید روپیہ سکیورٹی پر خرچ نہیں کیا جاسکتا!
خلق خدا پر یہ عذاب صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی شاہراہوں پر نہیں برس رہا۔ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے مظفر آباد، سکردو اور گلگت میں بھی ایسا ہی ہورہا ہو۔ صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ اس مقابلے میں وفاقی حکمرانوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں۔
ایک امید باقی ہے۔ صرف ایک امید۔ کیا عمران خان پاکستانی عوام سے وعدہ کرسکتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو اپنے لیے روٹ نہیں لگوائیں گے اور کسی اور کو بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے؟؟؟
ٹھیک اسی دن، اڑھائی بجے ملک ارشد اپنی کار پر مری سے روانہ ہوا۔ اس نے اسلام آباد کے چک لالہ ائیرپورٹ سے کراچی کا جہاز پکڑنا تھا۔ اگلی صبح کراچی میں اس کی کاروباری مصروفیت تھی۔ اس نے وقت کا حساب اس طرح کیا تھا کہ پرواز کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ جائے۔ اس کے کاروباری پارٹنر نے کراچی ائیرپورٹ سے اسے لینا تھا اور ہوٹل میں پہنچانا تھا۔
آپ مری سے آئیں تو اسلام آباد سے پہلے کنونشن سنٹر پڑتا ہے۔ کنونشن سنٹر سے پہلے، شاہراہ کے بائیں طرف ایک تفریحی پارک بنایا گیا ہے جسے لیک ویو پارک کہتے ہیں۔ چودھری حمید جس ویگن میں سوار، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے دعائیں پڑھ رہا تھا، اس ویگن کو لیک ویو پارک سے پہلے ٹریفک پولیس نے روک لیا۔ سڑک کے عین درمیان میں پولیس کے اہلکار نے ایک لمبا سا موٹرسائیکل افقی انداز میں یوں کھڑا کر رکھا تھا کہ سڑک بلاک ہوگئی تھی۔ ویگن رک گئی۔ اس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی رک گئیں۔ پانچ منٹ کے اندر اندر، ویگن کے پیچھے سینکڑوں کاروں، ویگنوں، بسوں، ٹرکوں، سوزوکیوں، موٹر سائیکلوں کی میلوں لمبی قطار وجود میں آچکی تھی۔
ملک ارشد کی کار چھتر کی بلندی سے اتری، بارہ کہو کو عبور کرتی لیک ویو پارک کے قریب پہنچی تو ٹریفک پولیس نے اسے بھی روک لیا۔ ایک سرکاری موٹرسائیکل، افقی انداز میں، اس شاہراہ پر بھی یوں پارک کیا گیا تھا کہ راستہ پوری طرح بلاک ہوگیا تھا۔ چند منٹوں میں ملک ارشد کی کار کے پیچھے بھی گاڑیوں کی طویل قطار کھڑی تھی۔
ٹریفک رکی رہی۔ چودھری حمید سیٹ پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ پریشانی کی انتہا میں اس پر متلی کے دورے پڑ رہے تھے۔ کیا وہ اپنے بھائی کو زندہ دیکھ سکے گا؟ ویگن کب چلے گی؟ رکی ہوئی ٹریفک کب رواں ہوسکے گی؟ ملک ارشد شاہراہ کے دوسری طرف بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ وقت گزر رہا تھا۔ ٹریفک بند تھی۔ ہر طرف گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کیا وہ جہاز کے وقت پر پہنچ پائے گا؟ اگر وہ کل میٹنگ اٹنڈ نہ کرسکا تو اسے لاکھوں کا نقصان ہوگا۔ سردی کے باوجود اس کی پیشانی پسینے سے تر ہوگئی۔ اس نے نکٹائی کی گرہ ڈھیلی کی، بوتل سے پانی کا گھونٹ پیا اور سیٹ کی پشت پر ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
یہ سارے چودھری حمید، یہ سارے ملک ارشد ٹریفک کے قید خانے میں اس لیے قید کر دیے گئے تھے کہ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت کے سربراہ لیک ویو پارک میں تشریف لارہے تھے۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت والے ملک کے حکمران کے لیے ٹریفک رک سکتی ہے لیکن وقت نہیں رک سکتا۔ ٹریفک قید خانے میں کھڑی ہوتی ہے نہ روشندان نہ دروازہ۔ چودھری حمید اور ملک ارشد آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے۔ ان کے بھائی ہسپتالوں میں مر جاتے ہیں۔ ان کے جہاز نکل جاتے ہیں۔ حاملہ عورتیں بچے شاہراہوں پر جنم دے دیتی ہیں۔ طالب علم کمرۂ امتحان میں نہیں پہنچ پاتے۔ کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
اس دردناک موضوع پر اس کالم نگار کی یہ پہلی تحریر نہیں۔ یہ کالم نگار کس کھیت کی مولی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سینئر کالم نگار ہو جس نے اس موضوع پر نہ لکھا ہو لیکن ضیاالحق سے لے کر پرویز مشرف تک۔ نوازشریف سے لیکر بینظیر تک اور آصف علی زرداری سے لے کر یوسف رضا گیلانی اور پرویزاشرف تک۔ کسی حکمران نے لوگوں کو اس عذاب سے رہائی نہیں دی۔ غلامی کی یہ بدترین قسم آج بھی پاکستان میں رائج ہے۔ بے بس بے کس خلق خدا کو جانوروں کی طرح روک لیا جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس والے جس لہجے میں انہیں روکتے ہیں، چرواہے اپنے ڈھور ڈنگروں کو اس سے نرم تر لہجے میں پکارتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے لندن کی ٹریفک کے سربراہ سے درخواست کی تھی کہ جب اسے غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات کرنے کیلئے دارالعوام سے اپنی سرکاری قیام گاہ آنا ہوتا ہے تو تاخیر ہوجاتی ہے۔ کیا وہ دس منٹ کے لیے ٹریفک کو متبادل راستے پر لے جا سکتا ہے؟ ٹریفک کے سربراہ نے معذرت کرتے ہوئے گرُ کی بات وزیراعظم کو یہ بتائی کہ حضور! آپ دس منٹ پہلے دارالعوام سے نکل آیا کیجئے۔
سکینڈے نیویا کے ایک ملک میں ایک وزیر کو قتل کردیا گیا۔ مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے حکومت کے سارے ستون سر جوڑ کر بیٹھے۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ سکیورٹی اقدامات مزید نہیں اٹھائے جاسکتے۔ جتنے ہیں اتنے ہی رہیں گے۔ جس نے سیاست میں آنا ہے، سوچ لے۔ خطرات اس میدان میں واضح ہیں۔ قوم کا مزید روپیہ سکیورٹی پر خرچ نہیں کیا جاسکتا!
خلق خدا پر یہ عذاب صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی شاہراہوں پر نہیں برس رہا۔ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے مظفر آباد، سکردو اور گلگت میں بھی ایسا ہی ہورہا ہو۔ صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ اس مقابلے میں وفاقی حکمرانوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں۔
ایک امید باقی ہے۔ صرف ایک امید۔ کیا عمران خان پاکستانی عوام سے وعدہ کرسکتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو اپنے لیے روٹ نہیں لگوائیں گے اور کسی اور کو بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے؟؟؟
Thursday, March 14, 2013
تو کیا غلط کہا ہے؟
’’اگر عوام نے آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی یا نون لیگ کو ووٹ دیے اور انہیں دوبارہ اقتدار ملا تو میں پاکستان چھوڑ جائوں گا۔ میرے ساتھ بہت سے دوستوں اور چاہنے والوں نے بھی طے کیا ہوا ہے کہ ہم اس بے امان ملک میں نہیں رہیں گے کہ جہاں انسان کی زندگی کی کوئی قدر نہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بہت مشکلوں کے بعدحاصل کیا تھا جب کہ چند مفاد پرست لوگوں نے ذاتی مفادات کی خاطر اس کی عزت اور وقار کو دائو پر لگادیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون چوروں اور لٹیروں کی پارٹیاں ہیں‘‘۔
یہ ابرارالحق کا بیان ہے۔ لاکھوں کروڑوں نوجوان ہرروز صبح گھر سے نکلتے ہوئے اور شام کو لوٹتے وقت یہی کچھ کہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سب ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے اور قہر درویش برجان درویش کے مصداق صرف سلگ سکتے ہیں ۔ ابرارالحق کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ وہ ایک مشہور شخصیت ہے اور موسیقی میں اس کا ایک مقام ہے۔ چنانچہ اس کے اس بیان پر مضامین لکھے گئے ، کچھ نے تمسخراڑایا اور کچھ نے دلائل دیے۔
اکثر وبیشتر جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں یہ ملک چھوڑ کر کہیں چلا جائوں گا تو یہ یاس کا اظہار اور ابلاغ کا ایک اسلوب ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مصمم ارادے یا پروگرام کا عندیہ ہو۔ کوئی بزرگ جب اپنے بیٹوں کی نافرمانی سے تنگ آکر کہتا ہے کہ میں یہ گھر چھوڑ جائوں گا ۔ یا کوئی خاتون خانہ تنگ آکر کہتی ہے کہ میں چلی جائوں گی تو یہ بیان کا ایک انداز ہے۔ غالباً ابن انشا کا شعر ہے ؎
ہوجائیں گے پردیس میں جاکر کہیں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے
تاہم معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ ملک کن حالات میں چھوڑا جاتا ہے اور ہجرت کیوں کرنا پڑتی ہے؟ جب جان‘ مال اور عزت محفوظ نہ ہوں۔ جب انصاف عنقا ہوجائے جب زمین ظلم سے بھر جائے۔ جب انسان پکار اٹھے ظہرالفساد فی البروالبحر۔ ’’خشکی اورتری میں فساد برپا ہوگیا ہے‘‘۔ جب دعا کے لیے ہاتھ بے اختیار اٹھ جائیں اور کہیں سے ایک آواز آئے۔ ’’ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے‘‘ ۔ الیس الصبح بقریب! صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے!!
جذبات کی بات الگ ہے۔ بندآنکھوں کو کوئی نہیں کھول سکتا۔ منہ سے نکلتی ہوئی جھاگ اور گلے کی ابھری ہوئی سرخ رگوں کے سامنے بولنا لاحاصل ہے، لیکن سچ کیا ہے؟ کیا اس ملک میں جان‘ عزت اور مال محفوظ ہے ؟ مراعات یافتہ طبقات کے ارکان اس صورت حال کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس سے ایک عام شہری گزررہا ہے اور دن میں کئی بار گزرتا ہے۔ آپ اس شخص کی بے چارگی کا تصور کیجیے جس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے اور قصور دوسری پارٹی کا ہے یا جس کے گھر میں چوری ہوئی ہے‘ اس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کے کاغذات پولیس والا لے جاتا ہے۔ پھر وہ ہے اور تھانے کے پھیرے ہیں۔ اس کے گھر سے چرایا ہوا مال برآمد ہوبھی جائے تو تھانے والے اسے کس طرح واپس کرتے ہیں اور کتنا واپس کرتے ہیں۔ وہ مراعات یافتہ لوگ جن کی صبحیں اور شامیں سیاست دانوں کے درباروں میں گزرتی ہیں اور مناصب اور خلعتیں جن کے لیے معمول ہیں، اس صورت حال کا کبھی بھی ادراک نہیں کرسکتے۔ کئی ہفتے تھانے کے چکر لگانے کے بعد وہ شخص ایک آہ سینے سے نکالتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے ۔ میں یہ ملک چھوڑ جائوں گا۔
اور وہ جس کی گاڑی‘ جس کی زندگی بھر کی کمائی اٹھالی جاتی ہے۔ پھر وہ دربدر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ مہینوں خاک چھاننے کے بعد اسے سراغ ملتا ہے کہ قبائلی علاقے کے فلاں گوشے میں تمہاری گاڑی دیکھی گئی ہے۔ یہ سب کچھ پولیس اور ایجنسیوں کے ان سینکڑوں اہلکاروں اور افسروں کی موجودگی میں ہوتا ہے جن پر ٹیکس دینے والے عوام کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ وہ علاقہ غیر میں پہنچتا ہے۔ حجرے میں اس کے ’’کیس‘‘ کی ’’سماعت‘‘ ہوتی ہے اور جرگہ ، جس کے سارے ارکان نمازی اور باریش ہیں۔ ’’فیصلہ‘‘ سناتا ہے کہ دس لاکھ کی گاڑی ہے تو چارلاکھ ادا کرو۔ ایسے میں وہ شخص اگر ملک چھوڑنے کا ارادہ نہ کرے تو کیا ملک پر اپنی اور اپنے بچوں کی جان قربان کرنے کا عزم کرے ؟؟
ظہرالفساد فی البر والبحر۔ ملک کا ہرگوشہ فساد سے بھر چکا ہے۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں جناب سلمان غنی نے رپورٹ فائل کی ہے ۔’’مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت حسین، سابق وزیراعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ کے ساتھ’’ڈیوٹی‘‘ پر تعینات ایک ہزار ساٹھ پولیس اہلکار اور باسٹھ گاڑیاں واپس ہورہی ہیں‘‘ فرض کیجیے فی الواقع واپس ہو بھی رہی ہیں تو پانچ سال میں اس ’’ڈیوٹی‘‘ پر کتنے اخراجات اٹھے؟ وہ ہزاروں گارڈ اور سینکڑوں گاڑیاں ان کے علاوہ ہیں جو سیاست دانوں، اراکینِ اسمبلی، وزیروں اور مشیروں کے ساتھ ’’ڈیوٹی‘‘ کررہی ہیں۔ یہی حال وفاق اور باقی صوبوں میں ہے۔ یہ کروڑوں اربوں کھربوں کا خرچ ہے جو آپ اور میں اٹھارہے ہیں کیوں کہ ٹیکس صرف آپ اور میں دے رہے ہیں۔
ملک میں انصاف کی کیا صورت حال ہے؟ جہاں شدید ترین گرانی کے ہاتھوں ستائے ہوئے مفلوک الحال کلرک چند سو روپے ماہانہ کے اضافے کے لیے ہڑتالیں کرنے پر مجبور ہیں وہاں لوٹ مار کی ایک جھلک‘ صرف ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وفاقی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ چیئرمین کی تنخواہ بڑھا کر چارلاکھ 25ہزار‘ سپیشل الائونس 60ہزار روپے‘ تفریح الائونس چھ ہزار روپے‘ کرایہ مکان 75ہزار، بجلی گیس چارجز 22ہزار ۔ اور یہ سب ماہانہ ہے۔ نجی وسرکاری استعمال کے لیے 1600سی سی کار مع شوفر اس کے
علاوہ ہے۔ اس سے پہلے چیئرمین صاحب کی تنخواہ صرف ترانوے ہزار روپے تھی۔ کمیشن کے ارکان کی تنخواہ بھی چار لاکھ کردی گئی ہے۔ ایک لاکھ 33ہزار روپے کے ماہانہ الائونس اور کارمع شوفر مع پٹرول اس کے علاوہ ہے ۔ لوٹ مار کی خبر کا عبرت ناک حصہ یہ ہے۔ ’’مشاہرے میں غیرمعمولی اضافے کرائے میں کمیشن کے رکن اور سابق سیکرٹری خزانہ کا خصوصی کردار بتایا جاتا ہے۔‘‘ اس لوٹ مار کو آپ چارسے ضرب دیجیے کہ صوبوں میں بھی پبلک سروسزکمیشن ہیں جو اس غارت گری کی پیروی کریں گے۔ اور یہ ارکان کس طرح تعینات ہوتے ہیں؟ کوئی طریق کار؟ کوئی کمیشن یا باڈی جوان کی تعیناتی طے کرتی ہے ؟ نہیں کچھ بھی نہیں! صرف، صرف اور صرف تعلقات اور رسائی۔ نوکر شاہی کے جن گماشتوں نے ریاست کی نہیں شخصیات کی ’’خدمت ‘‘ کی ہوتی ہے، انہی کووفاق اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں خدمت کے عوض ممبری ملتی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ وفاق اور صوبوں میں یہ ’’انصاف پسند‘‘ ممبر، بھرتیاں کس بنیاد پر کرتے ہوں گے!
جس ملک میں حکومت خود اعتراف کرے کہ نوے ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی ہے اور یہ نوے ارب روپے آپ اور میں ادا کررہے ہیں اور جس ملک میں دوسو سے زیادہ گھر نذر آتش ہونے کے بعد، صوبے کا وزیراعلیٰ راکھ ہو چکے گھروں کی مرمت کا سنگ بنیاد رکھتے وقت باقاعدہ تصاویر کھنچوائے اور وہ تصاویر ملک کے اطراف واکناف میں پریس کو بھیجی جائیں، اس ملک میں اگر کسی دل جلے نے آہ بھری ہے اور ملک چھوڑنے کا کہا ہے تو کیا غلط کہاہے؟
یہ ابرارالحق کا بیان ہے۔ لاکھوں کروڑوں نوجوان ہرروز صبح گھر سے نکلتے ہوئے اور شام کو لوٹتے وقت یہی کچھ کہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سب ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے اور قہر درویش برجان درویش کے مصداق صرف سلگ سکتے ہیں ۔ ابرارالحق کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ وہ ایک مشہور شخصیت ہے اور موسیقی میں اس کا ایک مقام ہے۔ چنانچہ اس کے اس بیان پر مضامین لکھے گئے ، کچھ نے تمسخراڑایا اور کچھ نے دلائل دیے۔
اکثر وبیشتر جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں یہ ملک چھوڑ کر کہیں چلا جائوں گا تو یہ یاس کا اظہار اور ابلاغ کا ایک اسلوب ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مصمم ارادے یا پروگرام کا عندیہ ہو۔ کوئی بزرگ جب اپنے بیٹوں کی نافرمانی سے تنگ آکر کہتا ہے کہ میں یہ گھر چھوڑ جائوں گا ۔ یا کوئی خاتون خانہ تنگ آکر کہتی ہے کہ میں چلی جائوں گی تو یہ بیان کا ایک انداز ہے۔ غالباً ابن انشا کا شعر ہے ؎
ہوجائیں گے پردیس میں جاکر کہیں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے
تاہم معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ ملک کن حالات میں چھوڑا جاتا ہے اور ہجرت کیوں کرنا پڑتی ہے؟ جب جان‘ مال اور عزت محفوظ نہ ہوں۔ جب انصاف عنقا ہوجائے جب زمین ظلم سے بھر جائے۔ جب انسان پکار اٹھے ظہرالفساد فی البروالبحر۔ ’’خشکی اورتری میں فساد برپا ہوگیا ہے‘‘۔ جب دعا کے لیے ہاتھ بے اختیار اٹھ جائیں اور کہیں سے ایک آواز آئے۔ ’’ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے‘‘ ۔ الیس الصبح بقریب! صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے!!
جذبات کی بات الگ ہے۔ بندآنکھوں کو کوئی نہیں کھول سکتا۔ منہ سے نکلتی ہوئی جھاگ اور گلے کی ابھری ہوئی سرخ رگوں کے سامنے بولنا لاحاصل ہے، لیکن سچ کیا ہے؟ کیا اس ملک میں جان‘ عزت اور مال محفوظ ہے ؟ مراعات یافتہ طبقات کے ارکان اس صورت حال کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس سے ایک عام شہری گزررہا ہے اور دن میں کئی بار گزرتا ہے۔ آپ اس شخص کی بے چارگی کا تصور کیجیے جس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے اور قصور دوسری پارٹی کا ہے یا جس کے گھر میں چوری ہوئی ہے‘ اس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کے کاغذات پولیس والا لے جاتا ہے۔ پھر وہ ہے اور تھانے کے پھیرے ہیں۔ اس کے گھر سے چرایا ہوا مال برآمد ہوبھی جائے تو تھانے والے اسے کس طرح واپس کرتے ہیں اور کتنا واپس کرتے ہیں۔ وہ مراعات یافتہ لوگ جن کی صبحیں اور شامیں سیاست دانوں کے درباروں میں گزرتی ہیں اور مناصب اور خلعتیں جن کے لیے معمول ہیں، اس صورت حال کا کبھی بھی ادراک نہیں کرسکتے۔ کئی ہفتے تھانے کے چکر لگانے کے بعد وہ شخص ایک آہ سینے سے نکالتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے ۔ میں یہ ملک چھوڑ جائوں گا۔
اور وہ جس کی گاڑی‘ جس کی زندگی بھر کی کمائی اٹھالی جاتی ہے۔ پھر وہ دربدر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ مہینوں خاک چھاننے کے بعد اسے سراغ ملتا ہے کہ قبائلی علاقے کے فلاں گوشے میں تمہاری گاڑی دیکھی گئی ہے۔ یہ سب کچھ پولیس اور ایجنسیوں کے ان سینکڑوں اہلکاروں اور افسروں کی موجودگی میں ہوتا ہے جن پر ٹیکس دینے والے عوام کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ وہ علاقہ غیر میں پہنچتا ہے۔ حجرے میں اس کے ’’کیس‘‘ کی ’’سماعت‘‘ ہوتی ہے اور جرگہ ، جس کے سارے ارکان نمازی اور باریش ہیں۔ ’’فیصلہ‘‘ سناتا ہے کہ دس لاکھ کی گاڑی ہے تو چارلاکھ ادا کرو۔ ایسے میں وہ شخص اگر ملک چھوڑنے کا ارادہ نہ کرے تو کیا ملک پر اپنی اور اپنے بچوں کی جان قربان کرنے کا عزم کرے ؟؟
ظہرالفساد فی البر والبحر۔ ملک کا ہرگوشہ فساد سے بھر چکا ہے۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں جناب سلمان غنی نے رپورٹ فائل کی ہے ۔’’مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت حسین، سابق وزیراعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ کے ساتھ’’ڈیوٹی‘‘ پر تعینات ایک ہزار ساٹھ پولیس اہلکار اور باسٹھ گاڑیاں واپس ہورہی ہیں‘‘ فرض کیجیے فی الواقع واپس ہو بھی رہی ہیں تو پانچ سال میں اس ’’ڈیوٹی‘‘ پر کتنے اخراجات اٹھے؟ وہ ہزاروں گارڈ اور سینکڑوں گاڑیاں ان کے علاوہ ہیں جو سیاست دانوں، اراکینِ اسمبلی، وزیروں اور مشیروں کے ساتھ ’’ڈیوٹی‘‘ کررہی ہیں۔ یہی حال وفاق اور باقی صوبوں میں ہے۔ یہ کروڑوں اربوں کھربوں کا خرچ ہے جو آپ اور میں اٹھارہے ہیں کیوں کہ ٹیکس صرف آپ اور میں دے رہے ہیں۔
ملک میں انصاف کی کیا صورت حال ہے؟ جہاں شدید ترین گرانی کے ہاتھوں ستائے ہوئے مفلوک الحال کلرک چند سو روپے ماہانہ کے اضافے کے لیے ہڑتالیں کرنے پر مجبور ہیں وہاں لوٹ مار کی ایک جھلک‘ صرف ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وفاقی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ چیئرمین کی تنخواہ بڑھا کر چارلاکھ 25ہزار‘ سپیشل الائونس 60ہزار روپے‘ تفریح الائونس چھ ہزار روپے‘ کرایہ مکان 75ہزار، بجلی گیس چارجز 22ہزار ۔ اور یہ سب ماہانہ ہے۔ نجی وسرکاری استعمال کے لیے 1600سی سی کار مع شوفر اس کے
علاوہ ہے۔ اس سے پہلے چیئرمین صاحب کی تنخواہ صرف ترانوے ہزار روپے تھی۔ کمیشن کے ارکان کی تنخواہ بھی چار لاکھ کردی گئی ہے۔ ایک لاکھ 33ہزار روپے کے ماہانہ الائونس اور کارمع شوفر مع پٹرول اس کے علاوہ ہے ۔ لوٹ مار کی خبر کا عبرت ناک حصہ یہ ہے۔ ’’مشاہرے میں غیرمعمولی اضافے کرائے میں کمیشن کے رکن اور سابق سیکرٹری خزانہ کا خصوصی کردار بتایا جاتا ہے۔‘‘ اس لوٹ مار کو آپ چارسے ضرب دیجیے کہ صوبوں میں بھی پبلک سروسزکمیشن ہیں جو اس غارت گری کی پیروی کریں گے۔ اور یہ ارکان کس طرح تعینات ہوتے ہیں؟ کوئی طریق کار؟ کوئی کمیشن یا باڈی جوان کی تعیناتی طے کرتی ہے ؟ نہیں کچھ بھی نہیں! صرف، صرف اور صرف تعلقات اور رسائی۔ نوکر شاہی کے جن گماشتوں نے ریاست کی نہیں شخصیات کی ’’خدمت ‘‘ کی ہوتی ہے، انہی کووفاق اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں خدمت کے عوض ممبری ملتی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ وفاق اور صوبوں میں یہ ’’انصاف پسند‘‘ ممبر، بھرتیاں کس بنیاد پر کرتے ہوں گے!
جس ملک میں حکومت خود اعتراف کرے کہ نوے ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی ہے اور یہ نوے ارب روپے آپ اور میں ادا کررہے ہیں اور جس ملک میں دوسو سے زیادہ گھر نذر آتش ہونے کے بعد، صوبے کا وزیراعلیٰ راکھ ہو چکے گھروں کی مرمت کا سنگ بنیاد رکھتے وقت باقاعدہ تصاویر کھنچوائے اور وہ تصاویر ملک کے اطراف واکناف میں پریس کو بھیجی جائیں، اس ملک میں اگر کسی دل جلے نے آہ بھری ہے اور ملک چھوڑنے کا کہا ہے تو کیا غلط کہاہے؟
Tuesday, March 12, 2013
بات یہیں پر ختم نہ ہوگی
لمباتڑنگا علائوالدین جسے اس کے دوست پیار سے اللہ دین کہتے ہیں سوڈان کا ہے ۔ وہ کئی سال سعودی عرب میں میڈیکل کی پریکٹس کرکے آسٹریلیا آیا جہاں وہ ’’جسمانی بحالی‘‘میں مہارت حاصل کررہا ہے۔ یہ میڈیکل کے میدان میں ایک نسبتاً نیا شعبہ ہے۔ اس کی بیوی بھی سوڈانی ہے اور ماہر نفسیات کے طورپر کامیاب پریکٹس کررہی ہے ۔
آسٹریلیا میں قیام کے دوران علائوالدین کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی ہے اس لیے کہ دوستوں کا حلقہ مشترکہ ہے۔ ایسی ہی ایک نشست میں میں نے اس سے پوچھا کہ جنوبی سوڈان کے نصرانی ملک سے الگ ہوگئے ہیں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، آخر سوڈان اس تقسیم پر کیوں راضی ہوا ؟ اس کے ساتھ ہی میں نے کچھ دلائل پیش کیے ۔ میرے دلائل کا لب لباب یہ تھا کہ سوڈان کی تقسیم میں مغربی ملکوں نے کلیدی کردار ادا کیا بالکل اسی طرح جیسے مشرقی تیمور کو دنیا کے نقشے پر لانے کے لیے ان ملکوں نے سرگرمی دکھائی تھی۔
علائوالدین جوپکا نمازی ہے، خاموش رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی باڈی لینگویج میرے دلائل کا ساتھ نہیں دے رہی۔ وہ کافی تامل کے بعد گویا ہوا :’’ ہوسکتاہے تمہارے دلائل مشرقی تیمور کے ضمن میں درست ہوں۔ مجھے وہاں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ لیکن میں سوڈانی ہوں۔ میں ڈاکٹربننے تک سوڈان ہی میں رہا۔ اس کے بعد سعودی عرب سے اور اب آسٹریلیا سے ہر سال دوتین ماہ وہیں گزارتا ہوں۔ میں جنوبی سوڈان کے نصرانیوں کو کلی طورپر سوڈان کی تقسیم کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ ہم مسلمان اگر ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، اگر ان کے حقوق ادا کرتے، اگر ملازمتوں میں انہیں ان کا جائز حصہ دیتے اور اگر سماجی حوالے سے انہیں وہ مقام عطا کرتے جس کے وہ سوڈانی شہری کے لحاظ سے حق دار تھے تو اس بدقسمت تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔‘‘
مجھے ایک نظر میں علائوالدین کے دلائل بودے اور متعصبانہ لگے، لیکن سوڈان کے بارے میں میرا علم کتابی اور اخباری تھا جس کا اس کی معلومات سے ظاہر ہے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ تاہم اس کا اصل نکتہ یہ تھا کہ ہم مسلمان غیرمسلموں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسا اگر ہم آخرت کے حوالے سے کرتے تو ہوسکتا ہے کوئی جواز ہوتا، لیکن ہم قانون اور حقوق کے حوالے سے انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے ثبوت کے طورپر کئی واقعات بیان کیے، کالم جن کی طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک یہ تھا کہ وہ ایک مسلمان ملک کے ایک شہر میں بطور ڈاکٹر کام کررہا تھا۔ ایک دن اس کی موجودگی میں ہسپتال کے ایک مسلمان اہلکار نے ایک غیرمسلم نرس کو جسمانی طورپر ہراساں کیا۔ علائوالدین اس شعبے کا سربراہ تھا۔ اس نے جسمانی مداخلت کرکے عورت کو چھڑایا، ساتھ ہی اہلکار کو لعن طعن کی اور دھمکی دی کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اہلکار خاموشی سے سنتا رہا۔ جب علائوالدین اپنا غصہ نکال چکا تو اہلکار نے ہنس کر مختصر بات کی:’’ کیا تم ایک غیرمسلم کو مجھ پر ترجیح دوگے؟ میں مسلمان ہوں۔‘‘
علائوالدین کی باتیں سن کر مجھے اسلام آباد کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ یہ چند سال پہلے کا ذکر ہے۔ سیکٹر جی 10-میں ایک دو منزلہ مکان بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے کرائے پر لے رکھا تھا۔ اوپر کی منزل میں ایک پاکستانی پروفیسر رہتا تھا۔ گرائونڈ فلور ایک مصری پروفیسر کے پاس تھا۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک خادمہ اوپر رہنے والے پاکستانی پروفیسر کے گھر کا کام کاج کرتی تھی۔ ایک دن کپڑے دھوکر وہ ٹیرس پر لٹکارہی تھی کہ نچوڑنے سے پانی یا پانی کے کچھ چھینٹے نچلی منزل پر جاپڑے۔ مصری پروفیسر صاحب اس وقت وہاں سے گزررہے تھے۔ وہ غضب ناک ہوگئے۔ خادمہ کام ختم کرکے باہر نکلنے کے لیے گرائونڈ فلور سے گزر ی تو پروفیسر صاحب انتظار کررہے تھے ۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور یکے بعد دیگرے کئی تھپڑ رسید کیے۔ پروفیسر صاحب کی بدقسمتی کہ خادمہ کی پہنچ پولیس تک تھی۔ غالباً وہ کسی پولیس افسر کے گھر میں بھی کام کرتی تھی۔ دوسرے دن ایک سپاہی آیا اور مصری پروفیسر کو بلاکر پولیس سٹیشن لے گیا۔ قصہ مختصر ، انہوں نے خادمہ سے معذرت بھی کی اور تلافی کے طورپر کچھ رقم بھی پیش کی۔ لیکن اصل بات وہ شکوہ ہے جو مصری پروفیسر نے اپنے پاکستانی رفقائے کار سے کیا۔’’میں مسلمان ہوں اور وہ خادمہ غیرمسلم۔ کیا پاکستانی پولیس کو اس کا احساس نہیں؟‘‘
نہیں معلوم کہ ہم ان چند واقعات کی بنیاد پر کوئی تعمیم (GENERALISATION) کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ علائوالدین کی رائے سوڈان کے بارے میں سوفی صد درست ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے سوڈانی اس نکتہ نظر سے اختلاف کرتے ہوں۔ بظاہر یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ ہم پاکستانی غیرمسلموں کے حوالے سے اپنے دیگر اسلامی بھائیوں کی نسبت کم متعصب ہیں ، کم ازکم میں نے کسی پاکستانی سے یہ بات نہیں سنی کہ اسے مسلمان ہونے کی بناپر قانون کی نظر میں ایک غیرمسلم کے مقابلے میں زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ لیکن یہ ساری بحث ہمیں سوچنے کی دعوت ضرور دے رہی ہے۔ ہم میں سے اگر کچھ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ہم ملکی قانون یا اسلامی قانون یا معاشرے یا خدا کے سامنے عزیز تر ہیں تو ہمیں یہ غلط فہمی فوراً اپنے ذہنوں سے نکال دینی چاہیے۔ عہد رسالت اور خلفائے راشدین کے عہد کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہیں۔ آج اگر ہم نے غیرمسلموں کو ان کے حقوق نہ دیے تو بات یہیں پر ختم نہ ہوگی۔ کل مسلمانوں ہی کا کوئی فرقہ ہمارے حقوق کو اس بنیاد پر پامال کرے گا کہ ہمارا تعلق کسی اور فرقے سے ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زنداں کی دیوار چمن تک آپہنچے!!
آسٹریلیا میں قیام کے دوران علائوالدین کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی ہے اس لیے کہ دوستوں کا حلقہ مشترکہ ہے۔ ایسی ہی ایک نشست میں میں نے اس سے پوچھا کہ جنوبی سوڈان کے نصرانی ملک سے الگ ہوگئے ہیں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، آخر سوڈان اس تقسیم پر کیوں راضی ہوا ؟ اس کے ساتھ ہی میں نے کچھ دلائل پیش کیے ۔ میرے دلائل کا لب لباب یہ تھا کہ سوڈان کی تقسیم میں مغربی ملکوں نے کلیدی کردار ادا کیا بالکل اسی طرح جیسے مشرقی تیمور کو دنیا کے نقشے پر لانے کے لیے ان ملکوں نے سرگرمی دکھائی تھی۔
علائوالدین جوپکا نمازی ہے، خاموش رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی باڈی لینگویج میرے دلائل کا ساتھ نہیں دے رہی۔ وہ کافی تامل کے بعد گویا ہوا :’’ ہوسکتاہے تمہارے دلائل مشرقی تیمور کے ضمن میں درست ہوں۔ مجھے وہاں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ لیکن میں سوڈانی ہوں۔ میں ڈاکٹربننے تک سوڈان ہی میں رہا۔ اس کے بعد سعودی عرب سے اور اب آسٹریلیا سے ہر سال دوتین ماہ وہیں گزارتا ہوں۔ میں جنوبی سوڈان کے نصرانیوں کو کلی طورپر سوڈان کی تقسیم کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ ہم مسلمان اگر ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، اگر ان کے حقوق ادا کرتے، اگر ملازمتوں میں انہیں ان کا جائز حصہ دیتے اور اگر سماجی حوالے سے انہیں وہ مقام عطا کرتے جس کے وہ سوڈانی شہری کے لحاظ سے حق دار تھے تو اس بدقسمت تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔‘‘
مجھے ایک نظر میں علائوالدین کے دلائل بودے اور متعصبانہ لگے، لیکن سوڈان کے بارے میں میرا علم کتابی اور اخباری تھا جس کا اس کی معلومات سے ظاہر ہے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ تاہم اس کا اصل نکتہ یہ تھا کہ ہم مسلمان غیرمسلموں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسا اگر ہم آخرت کے حوالے سے کرتے تو ہوسکتا ہے کوئی جواز ہوتا، لیکن ہم قانون اور حقوق کے حوالے سے انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے ثبوت کے طورپر کئی واقعات بیان کیے، کالم جن کی طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک یہ تھا کہ وہ ایک مسلمان ملک کے ایک شہر میں بطور ڈاکٹر کام کررہا تھا۔ ایک دن اس کی موجودگی میں ہسپتال کے ایک مسلمان اہلکار نے ایک غیرمسلم نرس کو جسمانی طورپر ہراساں کیا۔ علائوالدین اس شعبے کا سربراہ تھا۔ اس نے جسمانی مداخلت کرکے عورت کو چھڑایا، ساتھ ہی اہلکار کو لعن طعن کی اور دھمکی دی کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اہلکار خاموشی سے سنتا رہا۔ جب علائوالدین اپنا غصہ نکال چکا تو اہلکار نے ہنس کر مختصر بات کی:’’ کیا تم ایک غیرمسلم کو مجھ پر ترجیح دوگے؟ میں مسلمان ہوں۔‘‘
علائوالدین کی باتیں سن کر مجھے اسلام آباد کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ یہ چند سال پہلے کا ذکر ہے۔ سیکٹر جی 10-میں ایک دو منزلہ مکان بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے کرائے پر لے رکھا تھا۔ اوپر کی منزل میں ایک پاکستانی پروفیسر رہتا تھا۔ گرائونڈ فلور ایک مصری پروفیسر کے پاس تھا۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک خادمہ اوپر رہنے والے پاکستانی پروفیسر کے گھر کا کام کاج کرتی تھی۔ ایک دن کپڑے دھوکر وہ ٹیرس پر لٹکارہی تھی کہ نچوڑنے سے پانی یا پانی کے کچھ چھینٹے نچلی منزل پر جاپڑے۔ مصری پروفیسر صاحب اس وقت وہاں سے گزررہے تھے۔ وہ غضب ناک ہوگئے۔ خادمہ کام ختم کرکے باہر نکلنے کے لیے گرائونڈ فلور سے گزر ی تو پروفیسر صاحب انتظار کررہے تھے ۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور یکے بعد دیگرے کئی تھپڑ رسید کیے۔ پروفیسر صاحب کی بدقسمتی کہ خادمہ کی پہنچ پولیس تک تھی۔ غالباً وہ کسی پولیس افسر کے گھر میں بھی کام کرتی تھی۔ دوسرے دن ایک سپاہی آیا اور مصری پروفیسر کو بلاکر پولیس سٹیشن لے گیا۔ قصہ مختصر ، انہوں نے خادمہ سے معذرت بھی کی اور تلافی کے طورپر کچھ رقم بھی پیش کی۔ لیکن اصل بات وہ شکوہ ہے جو مصری پروفیسر نے اپنے پاکستانی رفقائے کار سے کیا۔’’میں مسلمان ہوں اور وہ خادمہ غیرمسلم۔ کیا پاکستانی پولیس کو اس کا احساس نہیں؟‘‘
نہیں معلوم کہ ہم ان چند واقعات کی بنیاد پر کوئی تعمیم (GENERALISATION) کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ علائوالدین کی رائے سوڈان کے بارے میں سوفی صد درست ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے سوڈانی اس نکتہ نظر سے اختلاف کرتے ہوں۔ بظاہر یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ ہم پاکستانی غیرمسلموں کے حوالے سے اپنے دیگر اسلامی بھائیوں کی نسبت کم متعصب ہیں ، کم ازکم میں نے کسی پاکستانی سے یہ بات نہیں سنی کہ اسے مسلمان ہونے کی بناپر قانون کی نظر میں ایک غیرمسلم کے مقابلے میں زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ لیکن یہ ساری بحث ہمیں سوچنے کی دعوت ضرور دے رہی ہے۔ ہم میں سے اگر کچھ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ہم ملکی قانون یا اسلامی قانون یا معاشرے یا خدا کے سامنے عزیز تر ہیں تو ہمیں یہ غلط فہمی فوراً اپنے ذہنوں سے نکال دینی چاہیے۔ عہد رسالت اور خلفائے راشدین کے عہد کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہیں۔ آج اگر ہم نے غیرمسلموں کو ان کے حقوق نہ دیے تو بات یہیں پر ختم نہ ہوگی۔ کل مسلمانوں ہی کا کوئی فرقہ ہمارے حقوق کو اس بنیاد پر پامال کرے گا کہ ہمارا تعلق کسی اور فرقے سے ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زنداں کی دیوار چمن تک آپہنچے!!
Monday, March 11, 2013
انسداد… کیا ہم سنجیدہ ہیں؟
بادامی باغ کی مسیحی بستی کے ساتھ سنیچر کے دن جو کچھ ہوا، کیا امامِ کعبہ اُسے جائز قرار دیں گے؟ کیا مسجدِ نبوی کے امام اُس کا دفاع کریں گے؟ کیا الازہر یونیورسٹی کا دارالافتا اُس کے حق میں فتویٰ دے گا؟ کیا مولانا جسٹس تقی عثمانی اُس کا جواز پیش کریں گے؟ کیا مولانا ثروت قادری حملہ آوروں کا ساتھ دیں گے؟ کیا مدرسہ نعیمیہ کے مفتی صاحب 175ہنستے بستے گھروں کو خاکستر کرنے والوں کو حق بجانب قرار دیں گے؟ لیکن ٹھہریے، پہلے ایک اور سوال کا جواب تلاش کریں۔
یہ کچھ ہی عرصہ پہلے کا واقعہ ہے۔ بہاولپور کے قریب ایک بستی میں ایک پاگل شخص پر گستاخی کا الزام لگا۔ اُسے تھانے میں محبوس کیا گیا۔ اتنے میں قصبے کی مسجدوں میں لائوڈ سپیکروں پر عوام سے باہر نکلنے اور ملزم کو کیفر کردار پہنچانے کی اپیلیں اور تقریریں شروع ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں نے تھانے کا گھیرائو کر لیا۔ پولیس نے کمک منگوائی تو راستہ بلاک کرکے کمک کو پہنچنے نہ دیا گیا۔ پولیس کے افسر اور جوان زخمی ہوئے، ان کی سرکاری گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئیں۔ ہجوم ملزم کو پکڑ کر، گھسیٹ کر تھانے سے باہر نکال لایا۔ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے اُس کے سر پر پٹرول انڈیلا گیا اور اُسے زندہ جلا دیا گیا۔ حالت یہ ہے کہ صرف انگریزی اخبارات نے اِس روح فرسا واقعے کا ذکر کیا۔ اردو اخبارات نے (روزنامہ ’’دنیا‘‘ اُس وقت تک نہیں نکلا تھا) یہ خبر یا تو چھاپی ہی نہیں یا غیر نمایاں انداز میں اس کا سرسری ذکر کیا۔ تقریباً تمام غیر ملکی پریس نے اس کی شہ سرخی بنائی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اُس وقت مجرموں کو سزا دی گئی؟ کیا قانون ہاتھ میں لینے والوں کا محاسبہ کیا گیا؟ کیا لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے عوام کو مشتعل کرنے والوں کو پکڑا گیا؟ کیا متعلقہ صوبائی حکومت نے اس سارے واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا؟ حکومت چاہے تو پولیس مجرموں کو سات زمینوں کے نیچے سے پابہ زنجیر باہر لے آتی ہے۔ اگر اُس وقت ملزموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، اگر انہیں نشانۂ عبرت بنایا جاتا تو بادامی باغ والے حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے اور اطمینان ہے کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ چاہیں تو بستیوں کی بستیاں جلا دیں، وہ چاہیں تو انسانوں کو زندہ جلا دیں‘ وہ چاہیں تو سینکڑوں رکشائیں‘ گاڑیاں‘ موٹرسائیکلیں نذرِ آتش کر دیں اور مال اسباب لوٹ کر لے جائیں۔ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور پولیس کے ہاتھ بندھے ہیں۔
حکومت اور پولیس کو بھی چھوڑیے، کیا ہمارے علمائے کرام نے اس واقعے کا نوٹس لیا؟ کیا انہوں نے غلط کو غلط کہا؟ کیا انہوں نے فتویٰ دیا کہ جو کچھ ہوا اُس کا اسلام اور اسلامی قوانین سے دُور کا بھی تعلق نہیں؟ ہمارے علمائے کرام، اگر کسی مدرسے پر چھاپہ پڑ جائے تو احتجاج کرکے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں اور حکومت کو وہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ پہاڑ لرزنے لگتے ہیں، لیکن اس واقعے پر کسی مکتبِ فکر کے کسی عالم نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی۔ ہمارے علمائے کرام کا کیا کہنا! سارے ملک میں دھماکوں سے ہزاروں بے گناہ مارے گئے، ملک کے معروف ترین عالم سے ٹیلی ویژن پر اس کے بارے میں بات کی گئی تو فرمایا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے۔ خاموشی اور کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ چند دن بعد کراچی کے جوڑیا بازار میں دھماکہ ہوا تو
ساری خاموشی اور کنارہ کشی بھک سے اُڑ گئی۔ پریس کانفرنسیں منعقد کی گئیں اور وہ احتجاج ہوا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ روایت ہے (نہ جانے صحیح یا غلط) کہ جوڑیا بازار میں مقدس ہستیوں کے مالی مفادات مجروح ہوئے تھے! حکومتی اہلکاروں نے اپنی قانونی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سرانجام دینے کے لیے کراچی کے ایک مشہور مدرسہ کی تلاشی لی تو وہ ہنگامہ کیا گیا اور رائی کا وہ پہاڑ بنایا گیا کہ الامان والحفیظ! لیکن زندہ انسانوں کو مذہب کے نام پر آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا جائے اور سینکڑوں گھروں کو مذہب کے نام پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جائے تو آہ کی ہلکی سی آواز بھی نہیں سُنائی دیتی۔
آگے چلیے، ماضی قریب میں دارالحکومت کی ایک کم سن بچی مقدس اوراق جلانے کے الزام میں پکڑی گئی تو گواہوں نے باقاعدہ ثابت کیا کہ مولوی صاحب نے خود نورانی قاعدہ کے اوراق جلے ہوئے کاغذوں میں رکھے تھے۔ کسی طرف سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی کہ مولوی صاحب پر توہین کا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ سارا قضیّہ زمین پر قبضے کا تھا۔ اگر اُس وقت انصاف کیا جاتا اور اصل قصور وار کو سزا دی جاتی تو عین ممکن تھا کہ بادامی باغ والا حادثہ رونما نہ ہوتا۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے؟ ہم دنیا پر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ہر ماہ اندرونِ سندھ سے بیسیوں غیر مسلم خاندان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اجمیر شریف کی درگاہ کے دیوان نے ہمارے وزیراعظم کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا ہے اور جو وجوہات بتائی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اِس الزام کی تردید کر سکتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے رہنما نے بنگلہ دیش کے حالات کے حوالے سے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی ہے۔ اگر بادامی باغ والی بربریت کے ضمن میں بنگلہ دیش بھی اقوامِ متحدہ کی بات کرے تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ گوگل کی جس ٹیم نے یو ٹیوب کی بندش کے متعلق بات چیت کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرنا تھا، اُس نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم الگ تھلگ ہو رہے ہیں؟ شمالی امریکہ کے 70 فیصد لوگوں نے پاکستان کو قابلِ نفرت قرار دیا ہے!
پنجاب کے وزیر قانون نے کہا ہے کہ آگ لگانے والوں کو معافی نہیں ملے گی۔ اب ان پر لازم ہے کہ ملزموں کو عبرت ناک سزا دیں تاکہ آئندہ کسی ہجوم کو ایسی بربریت کا حوصلہ نہ ہو۔
Friday, March 08, 2013
عرب بہار؟ کون سی عرب بہار؟
عرب بہار؟ کون سی عرب بہار؟ کون سی عرب سپرنگ؟ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
تونس کا حال یہ ہے کہ ایمرجنسی بدستور نافذ ہے۔ اچانک کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے 19؍فروری کو استعفیٰ دے دیا۔ کون حکومت بناتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ فروری ہی میں ایک سیاسی رہنما قتل ہوا تو ہنگامے ایک بار پھر پھوٹ پڑے۔ تنظیم اور قانون پسندی کا یہ عالم ہے کہ ستمبر میں ایک ہوٹل پرہجوم حملہ آور ہوا کہ وہاں شراب بیچی جا رہی تھی۔ ایک فرانسیسی سکول کے خلاف پورے شہر کی دیواروں پر نعرے درج کر دیے گئے۔ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہر وقت پاس رکھنا پڑتا ہے۔
مصر کا احوال سب کے سامنے ہے۔ شاید ہی کوئی جمعہ ایسا گزرا ہو کہ احتجاجی جلوس نہ نکلے ہوں۔ پورٹ سعید، سویز اور اسماعیلیہ میں زبردست سکیورٹی ہے۔ جنوری میں وہاں پولیس اور عوام کے درمیان ہنگامے ہوئے۔ بے تحاشا نقصان ہوا۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ مصر قرار پکڑ رہا ہے تو بے وقوف ہے یا دروغ گو۔
شام میں قیامت برپا ہے۔ بشار الاسد کے فوجیوں اور عوام کے گروہوں میں ایسی جنگ برپا ہے کہ شہر تباہ ہو گئے ہیں اور قصبے کھنڈر بن گئے ہیں۔ باہر سے مداخلت ہوئی تو انجام بدتر ہوگا۔ شام کی حکومت کو روس اور چین کی حمایت تو حاصل ہی ہے، لبنان کی حزب اللہ اور ایرانی حکومت کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ عرب ریاستیں اور امریکہ مخالف کیمپ میں ہیں۔ نوشتۂ دیوار صاف نظر آ رہا ہے۔ جب تک بشار الاسد کی حکومت گِر کر جاںبحق نہیں ہو جاتی، انسان ہلاک ہوتے رہیں گے۔ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ حکومت ختم ہونے پر شام نسلی اور مذہبی بنیادوں پر کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے۔ کوئی نہیں جانتا کہ شام کے دروزیوں، نصیریوں، عیسائیوں، کُردوں اور فلسطینیوں پر کیا گزرے گی۔ علوی، جو اب حکومت کر رہے ہیں، انتقام کا نشانہ بنیں گے۔ پڑوس کی ریاستیں اردن، لبنان اور عراق بھی اِس صورتِ حال سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔
نام نہاد ’عرب بہار ‘کا آغاز جب تونس سے ہوا تو قاضی حسین احمد مرحوم جیسے رومان پسندوں نے آنے والے دنوں کے خوبصورت نقشے بنانے شروع کر دیے۔ اسے عالمِ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ تک قرار دیا گیا۔ یہ وہی خواب تھے جو 1992ء میں سوویت یونین کے انہدام پر دیکھے گئے۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں لیکن کیا آزاد ہوئیں۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر ’’اختیار‘‘ کو دیکھا
پہلے یہ ریاستیں بھارت کے چنگل میں تھیں۔ اب اسرائیل کے لیے موقع نکل آیا۔ چند سالوں ہی میں ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان مختلف شعبوں میں کیے گئے معاہدوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ حکیم سعید شور مچاتے رہے کہ پاکستان کو آگے بڑھ کر اِن ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اُن دنوں پنجاب کا ایک تاجر ملک کا وزیراعظم تھا۔ جن صاحب کو ازبکستان میں سفیر مقرر کیا گیا وہ صرف گالف کھیل سکتے تھے۔ ایک وفد بھیجا گیا۔ سنا ہے کہ اس کے سربراہ ہر وقت ’’ہوش‘‘ میں رہتے تھے۔ نتیجہ معلوم۔ بینکنگ سے لے کر تعمیر تک، ہوٹل کے کاروبار سے لے کر فلمسازی تک، کفش دوزی سے لے کر پارچہ بافی تک سب کچھ بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ آج یہ ریاستیں اتنی ہی ’’آزاد‘‘ اور اتنی ہی ’’اسلامی‘‘ ہیں جتنی سوویت یونین کی غلامی میں تھیں۔
بہت سے عالی دماغ دانش وروں نے ’عرب بہار ‘کو اُس آزادی سے تشبیہ دی جو سوویت یونین ختم ہونے پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کو نصیب ہوئی۔ لیکن مشرقی یورپ کے ملکوں (پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، رومانیہ وغیرہ) کا ہدف واضح تھا۔ اوّل۔ آزاد معیشت ، دوم۔ جمہوریت، سوم۔ آزادیٔ رائے۔ ان ریاستوں کا مذہب بھی وہی تھا جو اہلِ مغرب کا تھا۔ مغربی یورپ اور امریکہ نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔
رومان پسند مسلمانوں نے ’عرب بہار ‘کا خواب دیکھا اور افسوس! اس خواب کا وہی حشر ہوا جو وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے ساتھ ہوا تھا۔ یہی حشر اُس خواب کے ساتھ ہوا جو پاکستان بنتے وقت مسلمانوں نے دیکھا تھا۔ ایک نئے آزاد ملک کا خواب جو دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے ماڈل ثابت ہوگا۔ اقتصادی ترقی کا ماڈل، سائنسی ترقی کا ماڈل، جمہوریت اور آزادیٔ فکر کا ماڈل۔ افسوس یہ خواب بھی پورا نہ ہوا کہ بقول شہزاد احمد ؎
چوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے ابر کا ٹکڑا نکلا
وہ پاکستان جسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا قرار دیا گیا تھا ،آج لوہے اور بارود کا، آگ اور خون کا آتش فشاں ہے۔ عزت محفوظ ہے نہ مال نہ جان۔ سیاست دان بے شرمی سے پارٹیوں پر پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں، بقول عباس تابش ؎
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں
حکمران اقتدار کے آخری دنوں میں، بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق کُشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔ ذہنی افلاس کا یہ عالم ہے کہ جس مملکت میں قرآن اور سیرت کو زندگیوں کا چراغ بننا تھا اور عمر فاروقؓ اور علی مرتضیٰؓ کے ٹھیٹھ منطقی اندازِ فکر کو رہنما بننا تھا، وہاں بڑے بڑے ثقہ اور قابلِ احترام دانشور اور توحید پرست کالم نگار‘ نجومیوں کی اور تصّوف کے نام پر شہرت کے بھوکے شعبدہ بازوں کی تشہیر کر رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر روحانیت کے اسرار بیچنے والے یہ دکاندار اتنے ہی طاقتور ہیں کہ اپنے پجاریوں کو مطلوبہ ہیروئنوں سے ملا دیتے ہیں تو اپنے ملک ہی کوگرداب سے نکال دیں! اقبالؒ غیب دانی اور پیر پرستی کی اِس بھوکی قوم کو یہ بتاتے بتاتے ہی رخصت ہو گئے ؎
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
پنجابی مسلمان کے بارے میں تو اقبالؒ کی تشخیص حرفِ آخر ہے ؎
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
بات ’عرب بہار ‘کی ہو رہی تھی۔ حکومتیں بدلنے سے حقیقتیں نہیں بدلتیں۔ حسنی مبارک کی جگہ مُرسی آنے سے انقلاب نہیں آتے۔ مغرب آج جس مقام پر ہے وہاں پہنچنے میں اُسے صدیاں لگ گئیں۔ نام نہاد عرب بہار جن ملکوں میں آئی ہے وہاں حقائق کیا ہیں؟ ناخواندگی، توہم پرستی، برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی، فرقہ وارانہ اور نسلی نفرتیں، کردوں اور فلسطینیوں جیسے بے گھر قبیلے، جو اپنی اپنی ریاست کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثر ملک مغرب کے اقتدار کی بدولت وجود میں آئے۔ ورنہ اردن، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا وجود کہاں تھا؟ اردن کے شاہ حسین مرحوم کے دادا نے جو کچھ ترکوں کے ساتھ کیا اور جس طرح اسرائیل وجود میں آیا، نئی نسل کو معلوم ہو تو حیرت سے گنگ ہو جائے۔
’عرب بہار ‘ابھی دُور ہے۔ بُہت دور ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
تونس کا حال یہ ہے کہ ایمرجنسی بدستور نافذ ہے۔ اچانک کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے 19؍فروری کو استعفیٰ دے دیا۔ کون حکومت بناتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ فروری ہی میں ایک سیاسی رہنما قتل ہوا تو ہنگامے ایک بار پھر پھوٹ پڑے۔ تنظیم اور قانون پسندی کا یہ عالم ہے کہ ستمبر میں ایک ہوٹل پرہجوم حملہ آور ہوا کہ وہاں شراب بیچی جا رہی تھی۔ ایک فرانسیسی سکول کے خلاف پورے شہر کی دیواروں پر نعرے درج کر دیے گئے۔ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہر وقت پاس رکھنا پڑتا ہے۔
مصر کا احوال سب کے سامنے ہے۔ شاید ہی کوئی جمعہ ایسا گزرا ہو کہ احتجاجی جلوس نہ نکلے ہوں۔ پورٹ سعید، سویز اور اسماعیلیہ میں زبردست سکیورٹی ہے۔ جنوری میں وہاں پولیس اور عوام کے درمیان ہنگامے ہوئے۔ بے تحاشا نقصان ہوا۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ مصر قرار پکڑ رہا ہے تو بے وقوف ہے یا دروغ گو۔
شام میں قیامت برپا ہے۔ بشار الاسد کے فوجیوں اور عوام کے گروہوں میں ایسی جنگ برپا ہے کہ شہر تباہ ہو گئے ہیں اور قصبے کھنڈر بن گئے ہیں۔ باہر سے مداخلت ہوئی تو انجام بدتر ہوگا۔ شام کی حکومت کو روس اور چین کی حمایت تو حاصل ہی ہے، لبنان کی حزب اللہ اور ایرانی حکومت کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ عرب ریاستیں اور امریکہ مخالف کیمپ میں ہیں۔ نوشتۂ دیوار صاف نظر آ رہا ہے۔ جب تک بشار الاسد کی حکومت گِر کر جاںبحق نہیں ہو جاتی، انسان ہلاک ہوتے رہیں گے۔ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ حکومت ختم ہونے پر شام نسلی اور مذہبی بنیادوں پر کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے۔ کوئی نہیں جانتا کہ شام کے دروزیوں، نصیریوں، عیسائیوں، کُردوں اور فلسطینیوں پر کیا گزرے گی۔ علوی، جو اب حکومت کر رہے ہیں، انتقام کا نشانہ بنیں گے۔ پڑوس کی ریاستیں اردن، لبنان اور عراق بھی اِس صورتِ حال سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔
نام نہاد ’عرب بہار ‘کا آغاز جب تونس سے ہوا تو قاضی حسین احمد مرحوم جیسے رومان پسندوں نے آنے والے دنوں کے خوبصورت نقشے بنانے شروع کر دیے۔ اسے عالمِ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ تک قرار دیا گیا۔ یہ وہی خواب تھے جو 1992ء میں سوویت یونین کے انہدام پر دیکھے گئے۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں لیکن کیا آزاد ہوئیں۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر ’’اختیار‘‘ کو دیکھا
پہلے یہ ریاستیں بھارت کے چنگل میں تھیں۔ اب اسرائیل کے لیے موقع نکل آیا۔ چند سالوں ہی میں ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان مختلف شعبوں میں کیے گئے معاہدوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ حکیم سعید شور مچاتے رہے کہ پاکستان کو آگے بڑھ کر اِن ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اُن دنوں پنجاب کا ایک تاجر ملک کا وزیراعظم تھا۔ جن صاحب کو ازبکستان میں سفیر مقرر کیا گیا وہ صرف گالف کھیل سکتے تھے۔ ایک وفد بھیجا گیا۔ سنا ہے کہ اس کے سربراہ ہر وقت ’’ہوش‘‘ میں رہتے تھے۔ نتیجہ معلوم۔ بینکنگ سے لے کر تعمیر تک، ہوٹل کے کاروبار سے لے کر فلمسازی تک، کفش دوزی سے لے کر پارچہ بافی تک سب کچھ بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ آج یہ ریاستیں اتنی ہی ’’آزاد‘‘ اور اتنی ہی ’’اسلامی‘‘ ہیں جتنی سوویت یونین کی غلامی میں تھیں۔
بہت سے عالی دماغ دانش وروں نے ’عرب بہار ‘کو اُس آزادی سے تشبیہ دی جو سوویت یونین ختم ہونے پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کو نصیب ہوئی۔ لیکن مشرقی یورپ کے ملکوں (پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، رومانیہ وغیرہ) کا ہدف واضح تھا۔ اوّل۔ آزاد معیشت ، دوم۔ جمہوریت، سوم۔ آزادیٔ رائے۔ ان ریاستوں کا مذہب بھی وہی تھا جو اہلِ مغرب کا تھا۔ مغربی یورپ اور امریکہ نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔
رومان پسند مسلمانوں نے ’عرب بہار ‘کا خواب دیکھا اور افسوس! اس خواب کا وہی حشر ہوا جو وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے ساتھ ہوا تھا۔ یہی حشر اُس خواب کے ساتھ ہوا جو پاکستان بنتے وقت مسلمانوں نے دیکھا تھا۔ ایک نئے آزاد ملک کا خواب جو دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے ماڈل ثابت ہوگا۔ اقتصادی ترقی کا ماڈل، سائنسی ترقی کا ماڈل، جمہوریت اور آزادیٔ فکر کا ماڈل۔ افسوس یہ خواب بھی پورا نہ ہوا کہ بقول شہزاد احمد ؎
چوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے ابر کا ٹکڑا نکلا
وہ پاکستان جسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا قرار دیا گیا تھا ،آج لوہے اور بارود کا، آگ اور خون کا آتش فشاں ہے۔ عزت محفوظ ہے نہ مال نہ جان۔ سیاست دان بے شرمی سے پارٹیوں پر پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں، بقول عباس تابش ؎
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں
حکمران اقتدار کے آخری دنوں میں، بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق کُشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔ ذہنی افلاس کا یہ عالم ہے کہ جس مملکت میں قرآن اور سیرت کو زندگیوں کا چراغ بننا تھا اور عمر فاروقؓ اور علی مرتضیٰؓ کے ٹھیٹھ منطقی اندازِ فکر کو رہنما بننا تھا، وہاں بڑے بڑے ثقہ اور قابلِ احترام دانشور اور توحید پرست کالم نگار‘ نجومیوں کی اور تصّوف کے نام پر شہرت کے بھوکے شعبدہ بازوں کی تشہیر کر رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر روحانیت کے اسرار بیچنے والے یہ دکاندار اتنے ہی طاقتور ہیں کہ اپنے پجاریوں کو مطلوبہ ہیروئنوں سے ملا دیتے ہیں تو اپنے ملک ہی کوگرداب سے نکال دیں! اقبالؒ غیب دانی اور پیر پرستی کی اِس بھوکی قوم کو یہ بتاتے بتاتے ہی رخصت ہو گئے ؎
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
پنجابی مسلمان کے بارے میں تو اقبالؒ کی تشخیص حرفِ آخر ہے ؎
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
بات ’عرب بہار ‘کی ہو رہی تھی۔ حکومتیں بدلنے سے حقیقتیں نہیں بدلتیں۔ حسنی مبارک کی جگہ مُرسی آنے سے انقلاب نہیں آتے۔ مغرب آج جس مقام پر ہے وہاں پہنچنے میں اُسے صدیاں لگ گئیں۔ نام نہاد عرب بہار جن ملکوں میں آئی ہے وہاں حقائق کیا ہیں؟ ناخواندگی، توہم پرستی، برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی، فرقہ وارانہ اور نسلی نفرتیں، کردوں اور فلسطینیوں جیسے بے گھر قبیلے، جو اپنی اپنی ریاست کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثر ملک مغرب کے اقتدار کی بدولت وجود میں آئے۔ ورنہ اردن، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا وجود کہاں تھا؟ اردن کے شاہ حسین مرحوم کے دادا نے جو کچھ ترکوں کے ساتھ کیا اور جس طرح اسرائیل وجود میں آیا، نئی نسل کو معلوم ہو تو حیرت سے گنگ ہو جائے۔
’عرب بہار ‘ابھی دُور ہے۔ بُہت دور ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
Thursday, March 07, 2013
کُھرا
نوجوان کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پڑی تو اُسے غصّہ آ گیا۔
’’آخر اِس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ پولیس والے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو محض تنگ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینکنے سے تو مجرم نہیں پکڑے جاتے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے تم درست ہو‘‘ ساتھ بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ شخص نے گاڑی چلانے والے نوجوان سے کہا۔
’’لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ پولیس والوں کو اتنا تجربہ ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ شکل سے جرم یا معصومیت پڑھ لیں۔ ٹارچ کی روشنی میں گاڑی چلانے والے کا چہرہ دیکھنا اتنا بھی بیکار عمل نہیں۔‘‘
عمر رسیدہ شخص کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ پاکستانی پولیس، مجرم کو ڈھونڈنے اور جرم کی بیخ کنی کرنے میں دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں، یہ سات زمینوں کے نیچے سے مجرم کو پابہ زنجیر لا سکتی ہے۔ تو پھر ناکام کیوں ہے؟ افسوس! صد ہزار افسوس! کُھرا ایک بار پھر سیاست دان کے گھر تک جا رہا ہے!
اس واقعہ میں رتی بھر مبالغہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایک اعلیٰ سطح کا پولیس افسر ریٹائر ہوا تو اُسے پنجاب کے دارالحکومت میں تین سال کی نوکری مل گئی۔ اُس نے اپنے ایک ہمدرد کو بتایا: ’’یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں نوجوان تھا۔ ایک اہم سیاسی شخصیت کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے پوچھا: ہم سے دوستی کرو گے؟ میں نے کہا‘ جی ہاں جناب۔ بس اُس کے بعد سارے کیریئر میں اُس شخصیت نے میرا خیال رکھا اور میں نے اُس کا اور اُس کے مفادات کا۔ اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ شخصیت میرا خیال رکھ رہی ہے۔‘‘
یہ اُس سرطان کی ہلکی سی جھلک ہے جو سیاست دانوں نے پولیس فورس میں پھیلایا۔ آج اس حقیقت کو کوئی احمق بھی جُھٹلا نہیں سکتا کہ ہماری پولیس مکمل طور پر سیاست زدہ ہے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے جو اعلیٰ افسر آتے ہیں، انہیں سیاست دان اچک لیتے ہیں۔ تعیناتی، ترقی، بیرون ملک تقرری، ہر چیز کی گارنٹی دے کر اُسے یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ کم ہی ایسے ہیں جو دام میں نہیں آتے اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ رہے نچلی سطح کے اہلکار تو بھرتیاں سو فیصد سیاست دانوں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ ہر صوبائی حکومت نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
فوجی افسر‘ جو پولیس سروس میں داخل ہوتے ہیں، سیاسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ کتاب میں جو طریقہ کار درج ہے، اُس پر شاید ہی عمل ہوا ہو۔ جو کسی حکمران کا اے ڈی سی تھا، عام طور پر وہی سول سروس میں داخل ہوا یا پھر وہ جو کسی جرنیل کا فرزند تھا یا کسی سیاست دان کا قریبی عزیز۔ یہاں تک کہ ایک جرنیل جو مذہب کے لبادے میں تھا اور دستارپوشی کرتا تھا، اُس نے بھی اِس ’’میرٹ‘‘ سے فائدہ اٹھایا۔ بات پھر وہی آ جاتی ہے، فضائل قرآن ہزار سال پڑھنے سے بھی وہ دیانت زندگی میں نہیں داخل ہو سکتی جو قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے چِلّے کاٹنے والے حقوق العباد میں صفر بلکہ صفر سے بھی کئی درجے نیچے ہیں ؎
یہ لااِلٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
کراچی کا علاج رینجرز ہیں نہ رحمن ملک۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی۔ ایک ہی علاج ہے۔ پولیس‘ دیانتدار اور آزاد پولیس جو کسی سیاست دان کو جواب دہ نہ ہو۔ جس کا سربراہ اپنی تعیناتی اور ترقی کے لیے کسی سیاست دان کا محتاج نہ ہو۔ جس کے اہلکار سیاست دانوں کے محلات پر پہرہ دینے پر مجبور نہ ہوں۔ کیا اس بات کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے کہ جتنی پولیس کراچی میں تعینات ہے، اُس کا نصف ایک ہفتے میں امن لوٹا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہوں اور مجرم کو چھڑانے کے لیے کوئی سیاست دان حرکت میں نہ آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر مسلح افواج کے پروموشن بورڈوں میں سیاست دان بیٹھے ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا ایک عام شہری کا بیٹا چیف آف آرمی سٹاف ہوتا؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔ خدا کی قسم! سیاست دانوں کے بیٹے، داماد، بھانجے اور بھتیجے کور کمانڈر ہوتے اور مسلّح افواج کا وہی حال ہوتا جو اِس ملک میں سول سروس کا ہوا ہے۔ فوجی افسروں کی ترقیاں اسی طرح ہوتیں جیسے حال ہی میں وزارت تجارت نے 44کمرشل کونسلر بیرون ملک تعینات کیے ہیں۔ سفارش، اقربا پروری، دھاندلی اور بدعنوانی کو بروئے کار لا کر سیاست دانوں نے اپنے اپنے گھوڑوں کو دوڑ میں کامیاب کرایا اور انہیں اس پر کوئی ندامت نہیں!
اِس ملک پر خدا کا احسان ہے کہ تھری سٹار جرنیل تک فوجی پروموشن میں سیاست دانوں کا عمل دخل نہیں۔ ان کا عمل دخل چیف آف آرمی سٹاف بنانے میں ہوتا ہے اور اس میں سیاست دانوں کا ریکارڈ اتنا سیاہ ہے کہ ان کے دلوں کی سیاہی کو بھی مات کر رہا ہے۔ سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کا گلا گھونٹ کر ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنایا۔ آج ملک جو کچھ کاٹ رہا ہے، ضیاء الحق کا کاشت کردہ ہے۔ پھر ایک سیاست دان نوازشریف نے میرٹ کو قتل کرکے پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا جو اِس ملک کی تقدیر سے آٹھ سال کھیلتا رہا۔ حیرت ہوتی ہے اُن دانش وروں اور سیاست دانوں پر جو پرویز مشرف کی مذمّت میں رات دن آتش فشاں ہیں لیکن اُس ذات شریف کا ذکر تک نہیں کرتے جو پرویز مشرف کو نیچے سے اوپر لایا‘ نہ ہی خود اس میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ پرویز مشرف کو مسلّط کرنے کے جرم پر قوم سے معافی مانگے۔
پولیس کراچی کا امن واپس لا سکتی ہے لیکن کُھرا سیاست دانوں کے گھروں تک جا رہا ہے۔
’’آخر اِس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ پولیس والے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو محض تنگ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینکنے سے تو مجرم نہیں پکڑے جاتے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے تم درست ہو‘‘ ساتھ بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ شخص نے گاڑی چلانے والے نوجوان سے کہا۔
’’لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ پولیس والوں کو اتنا تجربہ ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ شکل سے جرم یا معصومیت پڑھ لیں۔ ٹارچ کی روشنی میں گاڑی چلانے والے کا چہرہ دیکھنا اتنا بھی بیکار عمل نہیں۔‘‘
عمر رسیدہ شخص کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ پاکستانی پولیس، مجرم کو ڈھونڈنے اور جرم کی بیخ کنی کرنے میں دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں، یہ سات زمینوں کے نیچے سے مجرم کو پابہ زنجیر لا سکتی ہے۔ تو پھر ناکام کیوں ہے؟ افسوس! صد ہزار افسوس! کُھرا ایک بار پھر سیاست دان کے گھر تک جا رہا ہے!
اس واقعہ میں رتی بھر مبالغہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایک اعلیٰ سطح کا پولیس افسر ریٹائر ہوا تو اُسے پنجاب کے دارالحکومت میں تین سال کی نوکری مل گئی۔ اُس نے اپنے ایک ہمدرد کو بتایا: ’’یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں نوجوان تھا۔ ایک اہم سیاسی شخصیت کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے پوچھا: ہم سے دوستی کرو گے؟ میں نے کہا‘ جی ہاں جناب۔ بس اُس کے بعد سارے کیریئر میں اُس شخصیت نے میرا خیال رکھا اور میں نے اُس کا اور اُس کے مفادات کا۔ اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ شخصیت میرا خیال رکھ رہی ہے۔‘‘
یہ اُس سرطان کی ہلکی سی جھلک ہے جو سیاست دانوں نے پولیس فورس میں پھیلایا۔ آج اس حقیقت کو کوئی احمق بھی جُھٹلا نہیں سکتا کہ ہماری پولیس مکمل طور پر سیاست زدہ ہے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے جو اعلیٰ افسر آتے ہیں، انہیں سیاست دان اچک لیتے ہیں۔ تعیناتی، ترقی، بیرون ملک تقرری، ہر چیز کی گارنٹی دے کر اُسے یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ کم ہی ایسے ہیں جو دام میں نہیں آتے اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ رہے نچلی سطح کے اہلکار تو بھرتیاں سو فیصد سیاست دانوں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ ہر صوبائی حکومت نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
فوجی افسر‘ جو پولیس سروس میں داخل ہوتے ہیں، سیاسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ کتاب میں جو طریقہ کار درج ہے، اُس پر شاید ہی عمل ہوا ہو۔ جو کسی حکمران کا اے ڈی سی تھا، عام طور پر وہی سول سروس میں داخل ہوا یا پھر وہ جو کسی جرنیل کا فرزند تھا یا کسی سیاست دان کا قریبی عزیز۔ یہاں تک کہ ایک جرنیل جو مذہب کے لبادے میں تھا اور دستارپوشی کرتا تھا، اُس نے بھی اِس ’’میرٹ‘‘ سے فائدہ اٹھایا۔ بات پھر وہی آ جاتی ہے، فضائل قرآن ہزار سال پڑھنے سے بھی وہ دیانت زندگی میں نہیں داخل ہو سکتی جو قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے چِلّے کاٹنے والے حقوق العباد میں صفر بلکہ صفر سے بھی کئی درجے نیچے ہیں ؎
یہ لااِلٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
کراچی کا علاج رینجرز ہیں نہ رحمن ملک۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی۔ ایک ہی علاج ہے۔ پولیس‘ دیانتدار اور آزاد پولیس جو کسی سیاست دان کو جواب دہ نہ ہو۔ جس کا سربراہ اپنی تعیناتی اور ترقی کے لیے کسی سیاست دان کا محتاج نہ ہو۔ جس کے اہلکار سیاست دانوں کے محلات پر پہرہ دینے پر مجبور نہ ہوں۔ کیا اس بات کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے کہ جتنی پولیس کراچی میں تعینات ہے، اُس کا نصف ایک ہفتے میں امن لوٹا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہوں اور مجرم کو چھڑانے کے لیے کوئی سیاست دان حرکت میں نہ آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر مسلح افواج کے پروموشن بورڈوں میں سیاست دان بیٹھے ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا ایک عام شہری کا بیٹا چیف آف آرمی سٹاف ہوتا؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔ خدا کی قسم! سیاست دانوں کے بیٹے، داماد، بھانجے اور بھتیجے کور کمانڈر ہوتے اور مسلّح افواج کا وہی حال ہوتا جو اِس ملک میں سول سروس کا ہوا ہے۔ فوجی افسروں کی ترقیاں اسی طرح ہوتیں جیسے حال ہی میں وزارت تجارت نے 44کمرشل کونسلر بیرون ملک تعینات کیے ہیں۔ سفارش، اقربا پروری، دھاندلی اور بدعنوانی کو بروئے کار لا کر سیاست دانوں نے اپنے اپنے گھوڑوں کو دوڑ میں کامیاب کرایا اور انہیں اس پر کوئی ندامت نہیں!
اِس ملک پر خدا کا احسان ہے کہ تھری سٹار جرنیل تک فوجی پروموشن میں سیاست دانوں کا عمل دخل نہیں۔ ان کا عمل دخل چیف آف آرمی سٹاف بنانے میں ہوتا ہے اور اس میں سیاست دانوں کا ریکارڈ اتنا سیاہ ہے کہ ان کے دلوں کی سیاہی کو بھی مات کر رہا ہے۔ سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کا گلا گھونٹ کر ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنایا۔ آج ملک جو کچھ کاٹ رہا ہے، ضیاء الحق کا کاشت کردہ ہے۔ پھر ایک سیاست دان نوازشریف نے میرٹ کو قتل کرکے پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا جو اِس ملک کی تقدیر سے آٹھ سال کھیلتا رہا۔ حیرت ہوتی ہے اُن دانش وروں اور سیاست دانوں پر جو پرویز مشرف کی مذمّت میں رات دن آتش فشاں ہیں لیکن اُس ذات شریف کا ذکر تک نہیں کرتے جو پرویز مشرف کو نیچے سے اوپر لایا‘ نہ ہی خود اس میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ پرویز مشرف کو مسلّط کرنے کے جرم پر قوم سے معافی مانگے۔
پولیس کراچی کا امن واپس لا سکتی ہے لیکن کُھرا سیاست دانوں کے گھروں تک جا رہا ہے۔
Tuesday, March 05, 2013
گڈریا
برخوردار اپنی بیگم اور دو بچوں کے ہمراہ لائونج میں داخل ہوا تو ہم اس کے منتظر تھے۔ یہ امارات کی ایئرلائن کا جہاز تھا۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے پرواز پہنچ گئی۔
’’آسٹریلیا سے آ کر کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آسٹریلیا نہیں! دبئی کی بات کیجیے۔ ہم دبئی کے راستے آ رہے ہیں۔ دبئی، جو آسٹریلیا سے زیادہ ترقی یافتہ ہے!‘‘ برخوردار نے جواب دیا اور مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھا ہوا اہلکار دو ’’خصوصی‘‘ افراد کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’آپ کے لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ میں کیسے ٹھپہ لگا دوں، کل کو پکڑا میں جائوں گا، آپ تو کہیں نظر بھی نہ آئیں گے، اور پھر یہ دیکھیے، یہ جو قطار میں کھڑے ہیں، کیا ان کا حق فائق نہیں؟‘‘
یہ نہیں کہ سب کے ضمیر مر چکے ہیں۔ بہت سوں کے زندہ ہیں۔ وہ مدافعت کر رہے ہیں۔ امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھے اہلکار کا ضمیر زندہ تھا۔ لیکن یہاں جن کے ضمیر زندہ ہیں، ان پر مسلسل ’’کام‘‘ ہوتا ہے، تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ رام ہو جاتے ہیں یا راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مجھے وہ سرکاری افسر یاد آیا جو معائنے کے لیے ایک شہر میں پہنچا تو اس کے ماتحت نے بتایا کہ سر! آپ گاڑی میں جہاں پائوں رکھیں گے، وہاں، ربڑ کے پائیدان کے نیچے میں نے کچھ رقم رکھ دی ہے۔ شاید آپ کو ضرورت پڑے۔‘‘ اس نے رقم واپس کی اور پھر وہ فقرہ کہا جو بھولتا نہیں، ’’یہاں اگر آپ حرام کھانے سے انکار کریں تو آپ کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے۔ پھر آپ کے ہاتھ پائوں پکڑ کر، حرام منہ میں ٹھونسا جاتا ہے۔‘‘
امریکہ فرانس سوئٹزر لینڈ اور جاپان کو چھوڑیے، دبئی کی بات کیجیے۔ جنہیں ہم حقارت سے بدو کہتے تھے۔ آج ان کی معیشت دنیا پر حکومت کر رہی ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک جہاز اترتا ہے۔ سفید فام مسافر اترتے ہیں، بیگ اور فائلیں اٹھائے، بزنس کی تلاش میں، ملازمتوں کے تعاقب میں۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر یہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں قاف لیگ ہے نہ نون لیگ اور نہ ہی پیپلزپارٹی، یہاں قانون کی حکومت ہے۔ شہزادے کی کار بھی غلط پارک نہیں ہو سکتی۔ ٹیلی فون کرکے کسی مجرم کو چھڑایا نہیں جا سکتا۔ ٹیکس نہ دینے والا قومی اسمبلی میں نہیں، سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ یہ وہ دبئی ہے جس نے ترقی کا سفر ہم سے برسوں نہیں، عشروں بعد شروع کیا اور آج سینکڑوں سال آگے پہنچ چکا ہے۔ یہی حال کوریا اور سنگاپور کا ہے ؎
انجم غریب شہر تھے، اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
ایئرپورٹ سے نکلے تو ٹریفک کا بے ہنگم جنگل تھا۔ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں تھا۔ دائیں طرف سے نہیں تو بائیں طرف سے سہی، جو دائیں مڑنے کا اشارہ دے رہا ہے، اس کے اشارے کی پروا کسی کو نہیں، اور جس نے بائیں طرف مڑنا ہے، وہ اشارہ دیے بغیر ہی مڑ رہا ہے۔ ہارن بجانے کا گویا مقابلہ ہو رہا ہے، (مہذب ملکوں میں ہارن بجانا، گالی دینے کے مترادف ہے۔) ویگنیں اور بسیں موت کے ہرکارے ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں کے حلیوں پر غور کیجیے، چادر اوڑھے ہوئے، جلتا ہوا سگریٹ ہاتھ میں، زبان پر گالی، سڑک ان کی جاگیر ، قانون ان کا خانہ زاد نوکر، پکڑے جانے کا کوئی امکان نہیں! مالک کے ہاتھ لمبے ہیں، کسی نے گستاخی کر بھی دی تو چھڑا لیے جائیں گے۔
برخوردار گھر پہنچ کر اخبار دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اور خبر مجھے سنانے لگتا ہے، سوئی گیس کے ادارے نے لاہور میں دو کارخانوں پر چھاپا مارا ہے۔ دونوں چوری کی گیس استعمال کر رہے تھے۔ ایک کا مالک پیپلزپارٹی کا لیڈر ہے اور دوسرا نون لیگ کے ایم این اے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ساری صوبائی قیادت سوئی گیس کمپنی کے دفتر میں اکٹھی ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کا کارخانہ ماہانہ پانچ کروڑ روپے کی گیس چرا رہا ہے اور نون لیگ کے رکن اسمبلی کا کارخانہ ماہانہ پچیس لاکھ روپے کی۔
یہ ہے فرق پاکستان اور دبئی کا۔ پاکستان اور سنگاپور کا۔ پاکستان اورکوریا کا۔ اور اگر جان کی امان ملے تو پاکستان اور بھارت کا۔ وہاں ادارے مضبوط ہیں، یہاں معززین۔ وہاں پولیس طاقتور ہے یہاں مجرم۔ وہاں پروفیسر کی عزت ہے یہاں پٹواری اور ڈپٹی کمشنر کی۔ وہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے صبح صبح ہسپتال اتنا ہی سویرے پہنچتا ہے۔ یہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے، اسی حساب سے دیر سے آتا ہے۔ وہاں حکمران کی گاڑی سرخ اشارے پر کھڑی ہو جاتی ہے، یہاں حکمران گزر رہا ہو تو عوام کو یوں روک دیا جاتا ہے جیسے جانوروں کے ریوڑ کو۔ یہاں چونکہ جمہوریت مضبوط ہے اس لیے حاملہ عورتیں بچوں کو رُکی ہوئی ٹریفک میں جنم دے کر مر جاتی ہیں اور ہسپتال جانے والے مریض رُکی ہوئی ٹریفک میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
پھر وہ ایک اور خبر پڑھتا ہے۔ کراچی کے ایک علاقے میں دھماکے ہوئے، 45 جاں بحق 135 زخمی۔ درجنوں فلیٹ اور دکانیں تباہ۔
ملائیشیا یاد آ گیا۔ 1969ء میں نسلی فسادات ہوئے۔ لیڈرشپ سرجوڑ کر بیٹھی۔ پالیسیاں بنائیں۔ دیانتداری سے، صدقِ دل سے، نافذ کی گئیں۔ آج تک دوبارہ فساد نہیں ہوا۔
امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھا ہوا اہلکار دو ’’خصوصی‘‘ افراد کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’آپ کے لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ میں کیسے ٹھپہ لگا دوں، کل کو پکڑا میں جائوں گا، آپ تو کہیں نظر بھی نہ آئیں گے، اور پھر یہ دیکھیے، یہ جو قطار میں کھڑے ہیں، کیا ان کا حق فائق نہیں؟‘‘
یہ نہیں کہ سب کے ضمیر مر چکے ہیں۔ بہت سوں کے زندہ ہیں۔ وہ مدافعت کر رہے ہیں۔ امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھے اہلکار کا ضمیر زندہ تھا۔ لیکن یہاں جن کے ضمیر زندہ ہیں، ان پر مسلسل ’’کام‘‘ ہوتا ہے، تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ رام ہو جاتے ہیں یا راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مجھے وہ سرکاری افسر یاد آیا جو معائنے کے لیے ایک شہر میں پہنچا تو اس کے ماتحت نے بتایا کہ سر! آپ گاڑی میں جہاں پائوں رکھیں گے، وہاں، ربڑ کے پائیدان کے نیچے میں نے کچھ رقم رکھ دی ہے۔ شاید آپ کو ضرورت پڑے۔‘‘ اس نے رقم واپس کی اور پھر وہ فقرہ کہا جو بھولتا نہیں، ’’یہاں اگر آپ حرام کھانے سے انکار کریں تو آپ کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے۔ پھر آپ کے ہاتھ پائوں پکڑ کر، حرام منہ میں ٹھونسا جاتا ہے۔‘‘
امریکہ فرانس سوئٹزر لینڈ اور جاپان کو چھوڑیے، دبئی کی بات کیجیے۔ جنہیں ہم حقارت سے بدو کہتے تھے۔ آج ان کی معیشت دنیا پر حکومت کر رہی ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک جہاز اترتا ہے۔ سفید فام مسافر اترتے ہیں، بیگ اور فائلیں اٹھائے، بزنس کی تلاش میں، ملازمتوں کے تعاقب میں۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر یہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں قاف لیگ ہے نہ نون لیگ اور نہ ہی پیپلزپارٹی، یہاں قانون کی حکومت ہے۔ شہزادے کی کار بھی غلط پارک نہیں ہو سکتی۔ ٹیلی فون کرکے کسی مجرم کو چھڑایا نہیں جا سکتا۔ ٹیکس نہ دینے والا قومی اسمبلی میں نہیں، سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ یہ وہ دبئی ہے جس نے ترقی کا سفر ہم سے برسوں نہیں، عشروں بعد شروع کیا اور آج سینکڑوں سال آگے پہنچ چکا ہے۔ یہی حال کوریا اور سنگاپور کا ہے ؎
انجم غریب شہر تھے، اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
ایئرپورٹ سے نکلے تو ٹریفک کا بے ہنگم جنگل تھا۔ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں تھا۔ دائیں طرف سے نہیں تو بائیں طرف سے سہی، جو دائیں مڑنے کا اشارہ دے رہا ہے، اس کے اشارے کی پروا کسی کو نہیں، اور جس نے بائیں طرف مڑنا ہے، وہ اشارہ دیے بغیر ہی مڑ رہا ہے۔ ہارن بجانے کا گویا مقابلہ ہو رہا ہے، (مہذب ملکوں میں ہارن بجانا، گالی دینے کے مترادف ہے۔) ویگنیں اور بسیں موت کے ہرکارے ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں کے حلیوں پر غور کیجیے، چادر اوڑھے ہوئے، جلتا ہوا سگریٹ ہاتھ میں، زبان پر گالی، سڑک ان کی جاگیر ، قانون ان کا خانہ زاد نوکر، پکڑے جانے کا کوئی امکان نہیں! مالک کے ہاتھ لمبے ہیں، کسی نے گستاخی کر بھی دی تو چھڑا لیے جائیں گے۔
برخوردار گھر پہنچ کر اخبار دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اور خبر مجھے سنانے لگتا ہے، سوئی گیس کے ادارے نے لاہور میں دو کارخانوں پر چھاپا مارا ہے۔ دونوں چوری کی گیس استعمال کر رہے تھے۔ ایک کا مالک پیپلزپارٹی کا لیڈر ہے اور دوسرا نون لیگ کے ایم این اے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ساری صوبائی قیادت سوئی گیس کمپنی کے دفتر میں اکٹھی ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کا کارخانہ ماہانہ پانچ کروڑ روپے کی گیس چرا رہا ہے اور نون لیگ کے رکن اسمبلی کا کارخانہ ماہانہ پچیس لاکھ روپے کی۔
یہ ہے فرق پاکستان اور دبئی کا۔ پاکستان اور سنگاپور کا۔ پاکستان اورکوریا کا۔ اور اگر جان کی امان ملے تو پاکستان اور بھارت کا۔ وہاں ادارے مضبوط ہیں، یہاں معززین۔ وہاں پولیس طاقتور ہے یہاں مجرم۔ وہاں پروفیسر کی عزت ہے یہاں پٹواری اور ڈپٹی کمشنر کی۔ وہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے صبح صبح ہسپتال اتنا ہی سویرے پہنچتا ہے۔ یہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے، اسی حساب سے دیر سے آتا ہے۔ وہاں حکمران کی گاڑی سرخ اشارے پر کھڑی ہو جاتی ہے، یہاں حکمران گزر رہا ہو تو عوام کو یوں روک دیا جاتا ہے جیسے جانوروں کے ریوڑ کو۔ یہاں چونکہ جمہوریت مضبوط ہے اس لیے حاملہ عورتیں بچوں کو رُکی ہوئی ٹریفک میں جنم دے کر مر جاتی ہیں اور ہسپتال جانے والے مریض رُکی ہوئی ٹریفک میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
پھر وہ ایک اور خبر پڑھتا ہے۔ کراچی کے ایک علاقے میں دھماکے ہوئے، 45 جاں بحق 135 زخمی۔ درجنوں فلیٹ اور دکانیں تباہ۔
ملائیشیا یاد آ گیا۔ 1969ء میں نسلی فسادات ہوئے۔ لیڈرشپ سرجوڑ کر بیٹھی۔ پالیسیاں بنائیں۔ دیانتداری سے، صدقِ دل سے، نافذ کی گئیں۔ آج تک دوبارہ فساد نہیں ہوا۔
سنگاپور میں انڈین بھی ہیں، چینی بھی اور ملائے بھی۔ لیڈرشپ کا وژن دیکھیے، چینی کا پڑوسی چینی نہیں ہو سکتا۔ انڈین کا پڑوسی انڈین نہیں ہو سکتا اور چینی، چینی کے گھر کے ساتھ گھر نہیں بنا سکتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی ایک نسل کا کسی ایک علاقے میں ارتکاز ہی نہیں ہوا۔ جو دوسرے کے گھر کو جلائے گا، پہلے اس کا اپنا گھر جلے گا۔
لیکن یہ پالیسیاں، یہ دور اندیشیاں، یہ وژن، یہ دردمندیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں سیاست دان باکردار ہوں۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو۔ وہاں فصل کیسے محفوظ رہے گی۔ جہاں گڈریا خود بھیڑیے کا نمائندہ ہو وہاں کیسی بھیڑ اور کون سا گلّہ! ؎
اِن موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
لیکن یہ پالیسیاں، یہ دور اندیشیاں، یہ وژن، یہ دردمندیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں سیاست دان باکردار ہوں۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو۔ وہاں فصل کیسے محفوظ رہے گی۔ جہاں گڈریا خود بھیڑیے کا نمائندہ ہو وہاں کیسی بھیڑ اور کون سا گلّہ! ؎
اِن موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
Monday, March 04, 2013
ظلم کی انتہا
کُل جماعتی کانفرنس؟ کون سی کل جماعتی کانفرنس؟ ہر ذی ہوش کو علم ہے کہ یہ ایک سیاسی سرگرمی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو سیاسی پیش منظر پر نمایاں سے نمایاں تر کرنے کے لیے۔ وکی لیکس نے بتایا تھا کہ انہوں نے امریکیوں سے وزیراعظم بننے کے لیے مدد چاہی تھی۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد بھی انہوں نے امریکی سفیر کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا۔ ان کی اُفتادِ طبع انہیں بلند سے بلند تر کرنا چاہتی ہے۔ انگریزوں نے اس کے لیے ایک لفظ بنایا ہے
AMBITIOUS
۔ اس میں قباحت بھی کوئی نہیں۔ ہر شخص
کو اپنے ارمان پورے کرنے کا حق ہے۔ اگر اس ملک میں بلخ شیر مزاری، جتوئی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن سکتے ہیں تو فضل الرحمن کیوں نہیں؟ کم از کم وہ ہر روز نیا ڈیزائنر سوٹ تو نہ پہنیں گے اور کرپٹ بیوروکریٹ انہیں شیشے میں بھی نہ اُتار پائیں گے۔ سب درست لیکن کل جماعتی کانفرنس محض ایک سیاسی سرگرمی تھی۔ اس میں اے این پی کے لیے بھی ’’جوابِ آں غزل‘‘ تھا۔ پاکستانی طالبان سے معاملہ کرنا اتنا آسان ہوتا تو کنونشن سنٹر میں کل جماعتی کانفرنس بہت پہلے منعقد ہو جاتی۔ اصل فریق تین ہیں۔ پاکستانی عوام، جن کے بچے، عورتیں، بوڑھے اور مرد خودکش دھماکوں کی نذر ہوئے۔ پاکستانی افواج، جن کے افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹے گئے اور طالبان خود۔ کل جماعتی کانفرنس میں ان تینوں کی نمائندگی نہیں تھی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ طالبان جو صرف قبائلیوں پر مشتمل نہیں، ان میں تمام پاکستانی علاقوں کے لوگ شامل ہیں، اگر جنگی سرگرمیوں سے باز آ جائیں تو کریں گے کیا؟
؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ بے شمار مدرسوں میں پانی پاکستان کا پیا جاتا ہے اور امیر المومنین ملا عمر کو کہا جاتا ہے۔ اس کالم نگار نے چند ماہ قبل سکردو کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ مولوی صاحب نے آدھی تقریر ملا عمر کے فضائل پر کی۔ لاکھوں نرسریاں ہیں جن میں پودوں کو پانی دیا جا رہا ہے۔ ان پودوں کو تناور درخت بننے سے کون روک سکتا ہے؟
کون سی کل جماعتی کانفرنس؟ کون سا الیکشن کمیشن؟ کون سے انتخابات؟ کل کے اخبارات میں جو خبر شائع ہوئی، اس سے دل بیٹھ رہا ہے۔ اس ملک کے سیاست دان اس ملک کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیں گے۔ ان کی ذہنیت بیمار ہے۔ مالی کرپشن بعد کی بات ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سیاست دان ذہنی افلاس کا شکار ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے درست نہیں کر سکتی۔ جس ملک میں سیاست دان میرٹ کا قتل کریں اور اس میں ملک کا وزیراعظم پیش پیش ہو‘ اس میں کون بدبخت رہنا پسند کرے گا۔ خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے قبل سیاسی سفارشوں پر کمرشل اتاشیوں کی تعیناتیاں کر دیں۔ سفارش کرنے والوں میں وزیراعظم، نائب وزیراعظم، وزراء اور بیوروکریسی بھی شامل ہیں۔ چوالیس میں سے صرف چھ افسروں کو سفارش کے بغیر تعینات کیا گیا ہے۔ سفارش کرنے والوں کے نام دیکھیے:
جو صاحب باکو میں تعینات ہوئے ہیں ان کے سفارشی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف خود ہیں۔ جو صاحب میکسیکو میں لگائے گئے، ان کی سفارش بھی وزیراعظم نے کی۔ جو افسر میڈرڈ میں پوسٹ ہوا ہے اس کی سفارش بھی وزیراعظم نے کی۔ امین فہیم بھی اس کے سفارشی ہیں۔ سڈنی میں پوسٹ ہونے والے افسر کے سفارشی بھی وزیراعظم ہیں۔ تہران میں جو لگا ہے اس کی سفارش بھی وزیراعظم نے کی۔ جس شخص کو شکاگو میں تعینات کیا گیا ہے اس کی سفارش راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی دونوں نے کی۔ ریاض میں تعینات ہونے والے کے سفارشی بھی وزیراعظم ہیں۔ نیروبی میں بھی تعیناتی وزیراعظم نے کرائی۔ باقی گھوڑوں کے مالکان یہ ہیں: بیجنگ میں جس شخص کی تقرری ہوئی اس کے سفارشی نائب وزیراعظم پرویز الٰہی ہیں۔ بنکاک والے کے سفارشی خورشید شاہ ہیں۔ اوساکا والے کے سفارشی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل چن ہیں۔ آستانہ (قازقستان) والے کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی۔ جوہانسبرگ والے کے رانا فاروق سعید اور امین فہیم، مانچسٹر والے کے میر ہزار خان بجرانی، مونٹریال والے کے امین فہیم۔ واشنگٹن والے کے امین فہیم اور یوسف رضا گیلانی۔ ہیگ والے کے حبیب اللہ کلور، پیرس والے کے وزیر خزانہ سلیم مانڈی والا۔ کابل کے لیے مولانا فضل الرحمن نے سفارش کی۔ پراگ کے لیے امین فہیم اور چنگیز جمالی دونوں کام آئے۔
یہاں یہ ذکر بھی کر دینا چاہیے کہ ان امیدواروں کو کامیاب کرنے کے لیے امتحان میں مطلوبہ نمبروں کی حد بھی 60 سے کم کرکے 40 کی گئی تھی۔ ان لوگوں کو منتخب کرنے کی سرگرمی کا آغاز 2010ء میں ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھاندلی روکنے کے لیے حکم امتناعی دے دیا پھر جب حکومت نے یقین دلایا کہ تقرریاں میرٹ پر کی جائیں گی تو عدالت نے حکم امتناعی ختم کیا اور اب خبر کے مطابق وزارت تجارت کے حکام نومنتخب کمرشل اتاشیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ ملنے کا انتظار کیے بغیر متعلقہ ممالک میں جا کر جلد از جلد اپنے عہدے سنبھال لیں۔
جس ملک میں خود وزیراعظم میرٹ کا گلا گھونٹ کر اپنے پسندیدہ افسروں کو منتخب کروا رہا ہے، اس میں باقی سیاست دان کیسے ہوں گے۔ یہ اندازہ کرنے کے لیے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم تو پورے ملک کے نوجوانوں کے باپ کی طرح ہے۔ اسے تو میرٹ کی بالادستی قائم کرنی چاہیے۔ وزیراعظم اگر ملک کے خیر خواہ ہوتے تو اس امر کو یقینی بناتے کہ ساری تقرریاں میرٹ اور صرف میرٹ پر ہوں۔ یہ کام مشکل نہ تھا۔ لیکن ہمارا سیاست دان بدعنوانی کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، بغیر لائسنس اسلحہ، ڈیروں پر مجرموں کی پُشت پناہی، تقرریوں، تبادلوں،تعیناتیوں میں مکروہ عمل دخل، استانیوں، پٹواریوں، ڈپٹی کمشنروں، تھانیداروں کے تبادلوں میں انتہا درجے کی دلچسپی، بھرتیوں میں اپنا حصہ جگا ٹیکس کی طرح۔ پستی اس سطح پر اتر آئی ہے کہ واپڈا کے اہلکاروں کی تقرریوں پر بھی سیاست دانوں کے جھگڑے رپورٹ ہوئے ہیں اور گلیاں پکی کرانے میں بھی انہی کا عمل دخل ہے جبکہ کام ان کا اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی کا تھا!
کون سی کل جماعتی کانفرنس اور کون سا الیکشن؟ جو سیاست دان ٹہنیوں پر بیٹھ کر چہچہا رہے ہیں وہی تو درخت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ یہ میرٹ کے دشمن ہیں اور جو میرٹ کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ جب بات کی جائے تو اس میرٹ کُشی کو یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ ذہنوں پر تالے لگے ہیں۔
بادلوں کے اوپر سے ایک آواز آ رہی ہے ’’تم میں اگر ٹیلنٹ ہے تو یہاں سے نکل بھاگو، یہاں تمہارا کوئی مستقبل نہیں۔ یہاں صرف اس کا مستقبل ہے جس کی جیب میں سیاست دان ہیں۔ نکلو۔ بھاگو۔ پاسپورٹ بنوائو، ویزے لگوائو۔ کفار کے ملکوں میں میرٹ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ اسلام کے اس قلعے میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں
؎
زمین پر آگ سینہ سینہ بھڑک رہی ہے
فلک پہ ہجرت ستارہ بن کر چمک رہی ہے
اور اب اسے ایک غیب کا ہاتھ اُنڈیل دے گا
کہ ظلم کی انتہا سے بستی چھلک رہی ہے
Friday, March 01, 2013
کیا دکان کو تالہ لگا ہے؟
پنڈلی سے پنڈلی جُڑ گئی تھی۔ آنکھیں کبھی کھُلتیں کبھی بند ہو جاتیں۔ سانس کبھی آسانی سے آتے کبھی اُکھڑ جاتے۔ سب چارپائی کے گرد کھڑے تھے۔ بیٹے بھی‘ بیٹیاں اور بہوئیں بھی۔ پوتے اور نواسے بھی۔ ذرا سا ہوش آیا تو بیوی نے کلمہ پڑھا اشہد اَن لا الہ الا اللہ اور کہا کلمہ پڑھو۔ وہ جو نزع کے عالم میں تھا‘ اُس کی زبان سے لفظ نکلا، ’’دکان‘‘ اور غنودگی پھر طاری ہو گئی۔ سانس لمبے ہونے لگے۔
اِرد گرد کھڑے ہوئوں نے کلمہ خوانی اور تلاوت جاری رکھی۔ کچھ دیر کے بعد اُس نے پھر آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ اب کے بڑے بیٹے نے کہا ابا جی کلمہ پڑھیں۔ ابا جی نے ایک ہی بات کی‘ کیا دکان کو تالہ لگایا ہے؟ پھر سانس اُکھڑ گئی۔ وجود لرزا اور چہرہ ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ محلّے کے ایک بزرگ نے بعد میں بتایا کہ مرحوم کو پوری زندگی دکان ہی کی فکر رہی۔ یہی ان کا اوڑھنا تھا اور یہی بچھونا۔ کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے‘ کسی کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں یا کوئی حادثے میں زخمی ہو کر سڑک کنارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ کوئی سوالی آیا ہے یا کسی کو مدد درکار ہے‘ مرحوم کو کوئی پروا نہیں تھی۔ دکان ہی ان کی زندگی تھی۔ دکان کے نفع نقصان کے آگے ان کی آنکھ دیکھ سکتی تھی ،نہ دماغ سوچ سکتا تھا۔ مرتے وقت کلمہ پڑھنے کے بجائے زبان پر دکان تھی اور دکان کا تالہ تھا!
یہ واقعہ مدتوں پہلے ایک بزرگ نے سنایا تھا۔ آج اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے ارد گرد اُن لوگوں کی تعداد روز بروز زیادہ ہو رہی ہے جنہیں دکان کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں اور اس دکان پرستی میں وہ اُن لوگوں کی زندگیاں بھی حرام کر رہے ہیں جنہوں نے اُن کی دکانوں سے کوئی سودا نہیں لینا۔
آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ آپ کو ایئرپورٹ پہنچنا ہے۔ مہمان کا جہاز اُترنے والا ہے اور آپ پہلے ہی دیر سے روانہ ہوئے ہیں۔ اتنے میں آپ کے موبائل فون پر پیغام موصول ہونے کی مخصوص گھنٹی بجتی ہے۔ اِرد گرد گاڑیوں کا اژدہام ہے۔ آپ گاڑی چلاتے ہوئے پیغام پڑھیں تو حادثے کا خطرہ ہے لیکن آپ سخت متجسّس ہیں کہ یہ کس کا پیغام ہے۔ کیا مہمان ایئرپورٹ پر باہر آ چکا ہے؟ کیا بچہ سکول سے واپس نہیں آیا؟ کیا آپ کی بیٹی کالج میں خیریت سے ہے؟ جو حالات ملک کے ہیں اور جس طرح شاہراہوں‘ چوراہوں‘ گلیوں اور بازاروں میں موت بٹ رہی ہے‘ ڈاکے پڑ رہے ہیں اور جس طرح اغوا برائے تاوان کامیاب ترین صنعت بن چکی ہے‘ اس کے پیشِ نظر آپ کو فوراً یہ پیغام پڑھنا چاہیے۔ آپ گاڑی کو ٹریفک کے جنگل سے بمشکل نکالتے ہیں اور ایک طرف کھڑی کر کے پیغام دیکھتے ہیں۔ یہ کسی پراپرٹی ڈیلر کا پیغام ہے۔ اُس نے آپ سے فرمائش کی ہے کہ چونکہ فلاں فلاں فیشن ایبل علاقے میں اُس کے پاس فلاں فلاں سائز کے پلاٹ ہیں اس لیے آپ اُسی سے خریدیں۔ آپ کا جسم غصّے سے کانپنے لگتا ہے۔ آپ پیغام بھیجنے والے کے نمبر پر کال کرتے ہیں لیکن وہ اُٹھاتا نہیں۔ اتنے میں آپ کو یاد آتا ہے کہ پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔ آپ گاڑی کو سرپٹ ایئرپورٹ کی طرف بھگاتے ہیں۔
آپ کی بیٹی کمرۂ امتحان میں بیٹھی پرچہ حل کر رہی ہے۔ وقت کم ہے اور سوالوں کے جواب تفصیل طلب ہیں۔ اُسے پیاس لگی ہے لیکن وہ پانی نہیں مانگ رہی کہ ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ وہ سر جھکائے لکھ رہی ہے۔ لکھے جا رہی ہے۔ اتنے میں اُس کے موبائل فون پر پیغام وصول ہونے کی مخصوص آواز آتی ہے۔ اُس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ فون بیگ سے نکال کر پیغام پڑھے یا ملتوی کردے۔ پھر اچانک اُس کا بدن جھرجھری لیتا ہے۔ دادا ابو کی طبیعت خراب تھی۔ خدا خیر کرے۔ کوئی اور مسئلہ نہ ہو گیا ہو‘ پرسوں سے پڑوسیوں کا بچہ گم ہے‘ ہمارے گھر میں بھی کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ وہ قلم رکھ کر بیگ کی زِپ کھولتی ہے۔ ٹیلی فون نکالتی ہے۔ آن کرتی ہے۔ بے تابی سے پیغام پڑھتی ہے۔ یہ کسی نجی کمپنی کا اشتہار ہے جو براڈ بینڈ انٹرنیٹ کنکشن بیچ رہی ہے اور اُس کا اصرار ہے کہ انٹرنیٹ کنکشن اُسی سے لیا جائے۔ بیٹی کو سخت غصّہ آتا ہے۔ یہ اُس کی پرائیویٹ زندگی میں مکروہ مداخلت ہے جس کی اجازت قانون دیتا ہے نہ اخلاق۔ اُس کا امتحان متاثر ہوا ہے۔ اُس کا اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ مقابلہ ہے لیکن اُس کے کئی قیمتی منٹ ضائع ہو گئے ہیں۔ وہ پرچہ ختم کر کے کمرۂ امتحان سے باہر نکلتی ہے تو اشتہار دینے والے کو کال بیک کرتی ہے۔ کوئی جواب نہیں آتا۔ پھر وہ اُس نمبر پر فون کرتی ہے جو پیغام میں درج ہے۔ دکاندار فون اٹھاتا ہے۔ وہ اُسے کہتی ہے کہ تم مجھے اشتہار بھیج کر کیوں پریشان کر رہے ہو۔ دکاندار ادائے بے نیازی سے کہتا ہے کہ بی بی‘ اشتہار بھیجا ہے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے‘ آپ ہمارے ہاں سے انٹرنیٹ بے شک نہ خریدیں۔
یہ محض دو مثالیں ہیں۔ لیکن اس مکروہ مداخلت کی حد ہے نہ وقت۔ یہ اشتہار آپ کو نماز کے دوران مل سکتا ہے‘ سوتے میں جگا سکتا ہے۔ کھانا کھانے کے دوران اٹھا سکتا ہے‘ یہ ایسا غیر محرم ہے جو کسی بھی وقت آپ کے گھر میں گُھس سکتا ہے ،آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ روپیہ کمانے کی خاطر یہ دکاندار‘ یہ تاجر‘ یہ بزنس مین بائولے ہو چکے ہیں۔ ان کے مونہوں سے جھاگ نکل رہی ہے ۔انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ہر شخص کی جیب میں گھس کر گھنٹی بجانے سے ان کا مال نہیں بک سکتا ،انہیں اور ان کے پورے طبقے کو بددعائیں اور کوسنے ضرور ملتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو آخری سانسوں میں کلمہ نہیں پڑھیں گے ، کاریں ، پراپرٹی اور انٹرنیٹ کنکشن فروخت کریں گے۔
موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے کا نام پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) ہے۔اُن سے بات کی تو ذمہ دار افسر نے بتایا کہ وہ مکروہ مداخلت کے اس عفریت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔قانوناً یہ اشتہار بازی جرم ہے۔پی ٹی اے نے ANTI-SPAM-FILTER لگایا ہوا ہے۔اشتہار بھیجنے والوں کا نمبر ، اکثر و بیشتر ، اس فلٹر میں آجاتا ہے اور ان کا نمبر بلاک کردیا جاتا ہے۔یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ ادارے کے جن اصحاب سے بات ہوئی وہ خوش اخلاق تھے اور اس مسئلے کے سماجی پہلوئوں سے آگاہ ؛تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے پی ٹی اے کو ٹیلی ویژن پر اس سلسلے میں اشتہار دینے چاہئیں۔موبائل فون کمپنیوں کی بھی (جو ٹیلی فون کنکشن فروخت کرتی ہیں) اس ضمن میں ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کو سختی سے منع کریں اور ان پر واضح کریں کہ اشتہار بازی کے نتیجہ میں ان کی سم بند کی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ مہذب ترقی یافتہ ملکوں میں اس بیماری کا کوئی وجود نہیں۔
لیکن اصل مسئلہ وہ ذہنیت ہے جو تاجر کو آپے سے باہر کردیتی ہے۔یہ تاجرانہ ذہنیت ، یہ پیسے کمانے کی بیماری ، اُسے اندھا کردیتی ہے۔اُس کا دماغ شل ہوجاتا ہے اور وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جن سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو وہ یہ اشتہار بھیج رہا ہے ، ان میں سے چند ہی ہوں گے جو اس خریداری میں دلچسپی لیں گے اور اکثریت موبائل فونوں کے ان مظلوم صارفین کی ہے جو اس اشتہار بازی سے پریشان ہوں گے۔آخر یہ دکاندار اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی تو اشتہار دے سکتے ہیں!مگر شاید موبائل فون کے ذریعے یہ اشتہار بازی ارزاں پڑتی ہے۔دکاندار دوسروں کی زندگی حرام کرنے پر تیار ہے لیکن اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتا!
کاش انہیں کوئی بتائے کہ جب پنڈلی سے پنڈلی جُڑجائے گی، سانس اکھڑ رہے ہوں گے ،چہرہ ایک طرف ڈھلکنے والا ہوگا ، خلقِ خدا کو پریشان کرنے والے کے منہ سے کلمہ نہیں ، موبائل فون پر دیاجانے والا اشتہار نکلے گا۔
اِرد گرد کھڑے ہوئوں نے کلمہ خوانی اور تلاوت جاری رکھی۔ کچھ دیر کے بعد اُس نے پھر آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ اب کے بڑے بیٹے نے کہا ابا جی کلمہ پڑھیں۔ ابا جی نے ایک ہی بات کی‘ کیا دکان کو تالہ لگایا ہے؟ پھر سانس اُکھڑ گئی۔ وجود لرزا اور چہرہ ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ محلّے کے ایک بزرگ نے بعد میں بتایا کہ مرحوم کو پوری زندگی دکان ہی کی فکر رہی۔ یہی ان کا اوڑھنا تھا اور یہی بچھونا۔ کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے‘ کسی کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں یا کوئی حادثے میں زخمی ہو کر سڑک کنارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ کوئی سوالی آیا ہے یا کسی کو مدد درکار ہے‘ مرحوم کو کوئی پروا نہیں تھی۔ دکان ہی ان کی زندگی تھی۔ دکان کے نفع نقصان کے آگے ان کی آنکھ دیکھ سکتی تھی ،نہ دماغ سوچ سکتا تھا۔ مرتے وقت کلمہ پڑھنے کے بجائے زبان پر دکان تھی اور دکان کا تالہ تھا!
یہ واقعہ مدتوں پہلے ایک بزرگ نے سنایا تھا۔ آج اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے ارد گرد اُن لوگوں کی تعداد روز بروز زیادہ ہو رہی ہے جنہیں دکان کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں اور اس دکان پرستی میں وہ اُن لوگوں کی زندگیاں بھی حرام کر رہے ہیں جنہوں نے اُن کی دکانوں سے کوئی سودا نہیں لینا۔
آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ آپ کو ایئرپورٹ پہنچنا ہے۔ مہمان کا جہاز اُترنے والا ہے اور آپ پہلے ہی دیر سے روانہ ہوئے ہیں۔ اتنے میں آپ کے موبائل فون پر پیغام موصول ہونے کی مخصوص گھنٹی بجتی ہے۔ اِرد گرد گاڑیوں کا اژدہام ہے۔ آپ گاڑی چلاتے ہوئے پیغام پڑھیں تو حادثے کا خطرہ ہے لیکن آپ سخت متجسّس ہیں کہ یہ کس کا پیغام ہے۔ کیا مہمان ایئرپورٹ پر باہر آ چکا ہے؟ کیا بچہ سکول سے واپس نہیں آیا؟ کیا آپ کی بیٹی کالج میں خیریت سے ہے؟ جو حالات ملک کے ہیں اور جس طرح شاہراہوں‘ چوراہوں‘ گلیوں اور بازاروں میں موت بٹ رہی ہے‘ ڈاکے پڑ رہے ہیں اور جس طرح اغوا برائے تاوان کامیاب ترین صنعت بن چکی ہے‘ اس کے پیشِ نظر آپ کو فوراً یہ پیغام پڑھنا چاہیے۔ آپ گاڑی کو ٹریفک کے جنگل سے بمشکل نکالتے ہیں اور ایک طرف کھڑی کر کے پیغام دیکھتے ہیں۔ یہ کسی پراپرٹی ڈیلر کا پیغام ہے۔ اُس نے آپ سے فرمائش کی ہے کہ چونکہ فلاں فلاں فیشن ایبل علاقے میں اُس کے پاس فلاں فلاں سائز کے پلاٹ ہیں اس لیے آپ اُسی سے خریدیں۔ آپ کا جسم غصّے سے کانپنے لگتا ہے۔ آپ پیغام بھیجنے والے کے نمبر پر کال کرتے ہیں لیکن وہ اُٹھاتا نہیں۔ اتنے میں آپ کو یاد آتا ہے کہ پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔ آپ گاڑی کو سرپٹ ایئرپورٹ کی طرف بھگاتے ہیں۔
آپ کی بیٹی کمرۂ امتحان میں بیٹھی پرچہ حل کر رہی ہے۔ وقت کم ہے اور سوالوں کے جواب تفصیل طلب ہیں۔ اُسے پیاس لگی ہے لیکن وہ پانی نہیں مانگ رہی کہ ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ وہ سر جھکائے لکھ رہی ہے۔ لکھے جا رہی ہے۔ اتنے میں اُس کے موبائل فون پر پیغام وصول ہونے کی مخصوص آواز آتی ہے۔ اُس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ فون بیگ سے نکال کر پیغام پڑھے یا ملتوی کردے۔ پھر اچانک اُس کا بدن جھرجھری لیتا ہے۔ دادا ابو کی طبیعت خراب تھی۔ خدا خیر کرے۔ کوئی اور مسئلہ نہ ہو گیا ہو‘ پرسوں سے پڑوسیوں کا بچہ گم ہے‘ ہمارے گھر میں بھی کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ وہ قلم رکھ کر بیگ کی زِپ کھولتی ہے۔ ٹیلی فون نکالتی ہے۔ آن کرتی ہے۔ بے تابی سے پیغام پڑھتی ہے۔ یہ کسی نجی کمپنی کا اشتہار ہے جو براڈ بینڈ انٹرنیٹ کنکشن بیچ رہی ہے اور اُس کا اصرار ہے کہ انٹرنیٹ کنکشن اُسی سے لیا جائے۔ بیٹی کو سخت غصّہ آتا ہے۔ یہ اُس کی پرائیویٹ زندگی میں مکروہ مداخلت ہے جس کی اجازت قانون دیتا ہے نہ اخلاق۔ اُس کا امتحان متاثر ہوا ہے۔ اُس کا اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ مقابلہ ہے لیکن اُس کے کئی قیمتی منٹ ضائع ہو گئے ہیں۔ وہ پرچہ ختم کر کے کمرۂ امتحان سے باہر نکلتی ہے تو اشتہار دینے والے کو کال بیک کرتی ہے۔ کوئی جواب نہیں آتا۔ پھر وہ اُس نمبر پر فون کرتی ہے جو پیغام میں درج ہے۔ دکاندار فون اٹھاتا ہے۔ وہ اُسے کہتی ہے کہ تم مجھے اشتہار بھیج کر کیوں پریشان کر رہے ہو۔ دکاندار ادائے بے نیازی سے کہتا ہے کہ بی بی‘ اشتہار بھیجا ہے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے‘ آپ ہمارے ہاں سے انٹرنیٹ بے شک نہ خریدیں۔
یہ محض دو مثالیں ہیں۔ لیکن اس مکروہ مداخلت کی حد ہے نہ وقت۔ یہ اشتہار آپ کو نماز کے دوران مل سکتا ہے‘ سوتے میں جگا سکتا ہے۔ کھانا کھانے کے دوران اٹھا سکتا ہے‘ یہ ایسا غیر محرم ہے جو کسی بھی وقت آپ کے گھر میں گُھس سکتا ہے ،آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ روپیہ کمانے کی خاطر یہ دکاندار‘ یہ تاجر‘ یہ بزنس مین بائولے ہو چکے ہیں۔ ان کے مونہوں سے جھاگ نکل رہی ہے ۔انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ہر شخص کی جیب میں گھس کر گھنٹی بجانے سے ان کا مال نہیں بک سکتا ،انہیں اور ان کے پورے طبقے کو بددعائیں اور کوسنے ضرور ملتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو آخری سانسوں میں کلمہ نہیں پڑھیں گے ، کاریں ، پراپرٹی اور انٹرنیٹ کنکشن فروخت کریں گے۔
موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے کا نام پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) ہے۔اُن سے بات کی تو ذمہ دار افسر نے بتایا کہ وہ مکروہ مداخلت کے اس عفریت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔قانوناً یہ اشتہار بازی جرم ہے۔پی ٹی اے نے ANTI-SPAM-FILTER لگایا ہوا ہے۔اشتہار بھیجنے والوں کا نمبر ، اکثر و بیشتر ، اس فلٹر میں آجاتا ہے اور ان کا نمبر بلاک کردیا جاتا ہے۔یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ ادارے کے جن اصحاب سے بات ہوئی وہ خوش اخلاق تھے اور اس مسئلے کے سماجی پہلوئوں سے آگاہ ؛تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے پی ٹی اے کو ٹیلی ویژن پر اس سلسلے میں اشتہار دینے چاہئیں۔موبائل فون کمپنیوں کی بھی (جو ٹیلی فون کنکشن فروخت کرتی ہیں) اس ضمن میں ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کو سختی سے منع کریں اور ان پر واضح کریں کہ اشتہار بازی کے نتیجہ میں ان کی سم بند کی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ مہذب ترقی یافتہ ملکوں میں اس بیماری کا کوئی وجود نہیں۔
لیکن اصل مسئلہ وہ ذہنیت ہے جو تاجر کو آپے سے باہر کردیتی ہے۔یہ تاجرانہ ذہنیت ، یہ پیسے کمانے کی بیماری ، اُسے اندھا کردیتی ہے۔اُس کا دماغ شل ہوجاتا ہے اور وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جن سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو وہ یہ اشتہار بھیج رہا ہے ، ان میں سے چند ہی ہوں گے جو اس خریداری میں دلچسپی لیں گے اور اکثریت موبائل فونوں کے ان مظلوم صارفین کی ہے جو اس اشتہار بازی سے پریشان ہوں گے۔آخر یہ دکاندار اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی تو اشتہار دے سکتے ہیں!مگر شاید موبائل فون کے ذریعے یہ اشتہار بازی ارزاں پڑتی ہے۔دکاندار دوسروں کی زندگی حرام کرنے پر تیار ہے لیکن اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتا!
کاش انہیں کوئی بتائے کہ جب پنڈلی سے پنڈلی جُڑجائے گی، سانس اکھڑ رہے ہوں گے ،چہرہ ایک طرف ڈھلکنے والا ہوگا ، خلقِ خدا کو پریشان کرنے والے کے منہ سے کلمہ نہیں ، موبائل فون پر دیاجانے والا اشتہار نکلے گا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)