Tuesday, March 26, 2013
کیا تھور کی نمائندگی گلاب کرے گا؟
یہ ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ہے۔ سندھ کے ایک وزیر نے اپنے گارڈ سے صوبے کے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی پٹائی کروائی۔ پھٹے ہوئے چہرے ،زخمی آنکھ اور تار تار لباس کے ساتھ سیکرٹری نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر صاحب پچھلی تاریخوں میں بھرتی کے ڈیڑھ سو احکام پر دستخط کرانا چاہتے تھے۔ انکار پر تشدد کیا گیا۔ وزیر صاحب نے خود اقرار کیا کہ سیکرٹری کا تو تبادلہ ہوگیا تھا اور ’’میرے پرائیویٹ سیکرٹری (پی ایس) کو سیکرٹری کا عارضی چارج دیا گیا تھا۔‘‘ یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’’پرائیویٹ سیکرٹری‘‘ ذاتی معاون ہوتا ہے !
دو دن بعد وزارت داخلہ اسلام آباد میں ایک سابق رکن قومی اسمبلی نے ایک افسر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ افسر کا بیان ہے کہ سیاست دان نے پچھلی تاریخوں میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کے لیے دبائو ڈالا ، انکار پر دفتر آکر میز ،کرسی ،ٹی وی اور فون توڑ دیا۔ مارپیٹ اور گالی گلوچ اس کے علاوہ تھی۔ سابق ایم این اے کا موقف تھا کہ ’’وزیراعظم سے منظوری کے بعد پانچ اسلحہ لائسنس وزارت داخلہ نے جاری کرنے تھے۔ ایک ماہ گزرنے پر بھی منظوری نہیں دی جارہی تھی‘‘۔
گزشتہ پانچ برس میں تین سیاسی جماعتیں بدلنے والے ایک سیاستدان کی اے لیول کی سند جعلی نکلی۔ تصدیقی سند اور مساوی سرٹیفکیٹ بھی جھوٹے ثابت ہوئے۔ یہ بھی خبر آئی کہ ان صاحب نے ایف اے کیے بغیر بی اے کرلیا ، یہ سیاست دان وفاقی وزیرتعلیم بھی رہے، پارٹی بدلنے کی تازہ ترین تقریب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ان کے تعلیم یافتہ ہونے، کرپشن سے بچنے اور پختہ کردار کا مالک ہونے کی تعریف کی !
ایک سرکاری ادارے ’’ایرا‘‘ کے سربراہ ،جو سیاست دان ہیں، الیکشن مہم میں ادارے کے ملازمین اور گاڑیاں استعمال کررہے ہیں ۔ سرکاری گاڑی کی نمبر پلیٹ اس مقصد کے لیے تبدیل کردی گئی ہے۔
ایک سیاست دان نے پرانی کاروں کی درآمد کرنے کے قانون میں اپنی مضی سے تبدیلی کراکر طاقت ورگروہوں کو اربوں کھربوں کا فائدہ پہنچایا۔ عام صارف کو بے پناہ نقصان ہوا۔ ایک اور سیاست دان نے اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے اربوں کا پلازہ کروڑوں میں حاصل کیا۔ اس کے لیے قواعدوضوابط میں ترمیم کرائی گئی اور ادارے کے سربراہ نے بے قاعدگیوں کی خود تصدیق کی۔
ایک اور سیاستدان نے ،جو وزیراعظم تھا، جاتے جاتے چونسٹھ پولیس گارڈ تاحیات اپنے نام کرالیے۔ بلٹ پروف لینڈ کروزر اور نئی ڈبل کیبنوں کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ اس سیاست دان کی ذاتی کوٹھی کی تزئین وآرائش سرکاری خرچ پر مکمل کی گئی ہے، جو سیاستدان اس سے پہلے وزیراعظم تھا، اس نے اپنے خاندان کے 26افراد کو دبئی بھیج دیا ہے جو تا اطلاع ثانی وہیں قیام کریں گے۔
سیاست دانوں کے کردار کی یہ چند جھلکیاں ہیں۔ اس میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں کہ ان کی اکثریت ۔ بہت بڑی اکثریت ۔ بددیانت ، دروغ گو اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ ان کا دامن مالی، اخلاقی ، ہرکرپشن سے ’’مالا مال ‘‘ہے۔
ہم میں سے کچھ اس کا الزام ووٹ دینے والے عوام پر دھرتے ہیں کہ وہ بددیانت امیدواروں کو کامیاب ہی کیوں کراتے ہیں؟ لیکن یہ تجزیہ سادہ لوحی کی دلیل ہے یا سطحیت کی علامت ہے۔
یہ عام سی حقیقت سب جانتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں بیری کا رس چوسیں تو شہد میں بیر کی تاثیر آتی ہے ،سرسوں کے پھولوں کا رس چوسیں تو سرسوں کی تاثیر والا شہد بنتا ہے، اٹک اور چکوال کے علاقوں میں پھلا ہی کا شہد معروف ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھلاہیوں پر بیٹھتی ہیں۔ جس معاشرے سے بددیانت ،دروغ گو، جعل ساز اور بدعنوانی میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے سیاستدانوں کو عوامی نمائندگی کے لیے چُنا جائے گا وہ معاشرہ خود کیسا ہوگا؟ آپ اس معاشرے کے ایک ایک طبقے کا، ایک ایک گروہ کا، ایک ایک پیشے کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے، سچی بات یہ ہے کہ سب اسی قبیل کے ہیں۔ ہمارے نمائندے ہماری سوفی صد درست نمائندگی کررہے ہیں۔ ہم جیسے ہیں، وہ ویسے ہی ہیں۔ جس زمین میں چاروں طرف تھور کے پودے اُگے ہوئے ہوں، وہاں تھور ہی پودوں کی نمائندگی کرے گا۔ گملے میں درخت نہیں لگایا جاسکتا۔ بھیڑوں کے بچے بھیڑبنیں گے اور بکری کا میمنا ، جتنا بھی پیار ا کیوں نہ ہو، کبھی گھوڑا یاشیرنہیں بن سکتا۔
آج ہمارے تاجر ملاوٹ، ٹیکس چوری، ناجائز منافع خوری اور تجاوزات کے بادشاہ ہیں ۔ان کی اکثریت ، بظاہر مذہبی ہونے کے باوجود ، اکلِ حلال سے محروم ہے۔ ہمارے اساتذہ کا سارا زور تعلیمی تجارت پر ہے۔ میں ایک ایسے دانشور پروفیسر کو جانتا ہوں جو سالہا سال کلاس میں نہیں گیا، اس کی گواہی اس کے کئی رفقاء کار دیتے ہیں۔متشرع صورت والا یہ فاضل استاد تقریر کرنے پر آتا ہے تو فصاحت کے دریا بہاتا ہے اور مائک سے اسے ہٹانا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہمارے طالب علم اساتذہ کی توہین کو جواں مردی سمجھتے ہیں۔ وہ دیدہ دلیری سے بسوں اور ویگنوں میں کرایہ دینے سے انکار کرتے ہیں اور پھر گروہوں کی صورت میں شاہراہیں بلاک کرکے عوام کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ ہمارے زمیندار کسانوں ،مزارعوں اور ہاریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں، عورتوں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ ان کے بیٹے مست ہاتھیوں کی طرح ’’رعیّت‘‘ کی عزت گاہوں میں دندناتے پھرتے ہیں، ہمارے جاگیردار نوابوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں لیکن ٹیکس ادا کرتے وقت سفلہ پن کی آخری حدیں عبور کرجاتے ہیں۔ ہمارے بیوروکریٹ ، تعیناتیوں اور ترقیوں کی خاطر دیانت اور راست گوئی کو اپنی واسکٹ کے ساتھ کمرے کے کونے میں لٹکا دیتے ہیں، ان کی اکثریت ، نیم خواندہ وزیروں کے سامنے رکوع میں رہتی ہے۔ ان کی ساری زندگی کا مقصد یہ رہ جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تین چارسال کی اردل مزید میسر آجائے، ہمارے وکیل اس قدر قانون پسند ہیں کہ موکلوں اور ججوں پر جتھوں کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ کبھی تھپڑمارتے ہیں اور کبھی دشنام طرازی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کو تفریح گاہ بنائے ہوئے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو ذبح خانوں کے طورپر استعمال کررہے
ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ فزیشن مریض کو آپریشن کے لیے ریفر کرتا ہے تو سرجن سے ’’حصہ‘‘ لیتا ہے اور سرجن دوافروشوں کے ساتھ ’’معاہدے‘‘ کرتا ہے۔ اس طبقے میں جو دیانت دار ہیں وہ ملک سے بھاگ گئے ہیں اور گنتی کے چند جو باقی ہیں بھاگنا چاہتے ہیں۔ ہمارے انجینئر جتنے پانی میں ہیں، اس کی گواہی ہماری شاہراہیں ، ہمارے پُل اور ہماری سرکاری عمارتیں چیخ چیخ کر دے رہی ہیں۔ آپ ہراس ادارے پر غور کرلیں جس میں اصل کرتا دھرتا انجینئر ہیں۔ واپڈا، ریلوے، سی ڈی اے، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، دیگر شہروں کے ترقیاتی ادارے، ٹیلی فون کا محکمہ ،پی ڈبلیو ڈی، ایم ای ایس ، نیشنل ہائی وے ، ان میں کون سا ادارہ نیک نام ہے ؟ ہمارے صحافی! سبحان اللہ! ان میں سے اکثر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ، دامے، درمے ، سخنے ، وابستہ ہیں اور اپنی پسندیدہ جماعت کے سوا، ہرپارٹی پر تنقید کرنے کو دیانت کا نام دیتے ہیں، ہمارے دانش ور، لوگوں کو روحانیت اور رجال الغیب کی افیون پلا کر کوشش اور محنت سے بیگانہ کرنے میں رات دن لگے ہوئے ہیں اور جب ادب سے عرض کیا جائے کہ اللہ اور رسولؐ نے ان رجال الغیب کا ذکر کہاں کیا ہے تو دلائل عذاب کے دینے لگتے ہیں ! ہمارا عام آدمی، عام شہری، ہروہ بدعنوانی کررہا ہے جو کرسکتا ہے۔ مکان بناتے وقت سریا اور ریت سڑک پر رکھ کر راستہ بند کردیتا ہے۔ اپنے دروازے کے سامنے چارگز جگہ بھی صاف نہیں کرتا، بچوں کو جھوٹ سکھاتا ہے، موٹرسائیکل کو گاڑی کے عین پیچھے کھڑا کرتا ہے، ٹریفک کے قانون کو پائوں تلے روندتا ہے ،بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ بحث کرے تو گالی دیتا ہے!
ہاں ! ہمارے سیاست دان بددیانت ، دروغ گو اور کرپٹ ہیں، وہ ہماری نمائندگی سوفی صددرست کررہے ہیں کیونکہ ہم سب ہی ایسے ہیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment