نوجوان کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پڑی تو اُسے غصّہ آ گیا۔
’’آخر اِس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ پولیس والے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو محض تنگ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینکنے سے تو مجرم نہیں پکڑے جاتے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے تم درست ہو‘‘ ساتھ بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ شخص نے گاڑی چلانے والے نوجوان سے کہا۔
’’لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ پولیس والوں کو اتنا تجربہ ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ شکل سے جرم یا معصومیت پڑھ لیں۔ ٹارچ کی روشنی میں گاڑی چلانے والے کا چہرہ دیکھنا اتنا بھی بیکار عمل نہیں۔‘‘
عمر رسیدہ شخص کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ پاکستانی پولیس، مجرم کو ڈھونڈنے اور جرم کی بیخ کنی کرنے میں دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں، یہ سات زمینوں کے نیچے سے مجرم کو پابہ زنجیر لا سکتی ہے۔ تو پھر ناکام کیوں ہے؟ افسوس! صد ہزار افسوس! کُھرا ایک بار پھر سیاست دان کے گھر تک جا رہا ہے!
اس واقعہ میں رتی بھر مبالغہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایک اعلیٰ سطح کا پولیس افسر ریٹائر ہوا تو اُسے پنجاب کے دارالحکومت میں تین سال کی نوکری مل گئی۔ اُس نے اپنے ایک ہمدرد کو بتایا: ’’یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں نوجوان تھا۔ ایک اہم سیاسی شخصیت کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے پوچھا: ہم سے دوستی کرو گے؟ میں نے کہا‘ جی ہاں جناب۔ بس اُس کے بعد سارے کیریئر میں اُس شخصیت نے میرا خیال رکھا اور میں نے اُس کا اور اُس کے مفادات کا۔ اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ شخصیت میرا خیال رکھ رہی ہے۔‘‘
یہ اُس سرطان کی ہلکی سی جھلک ہے جو سیاست دانوں نے پولیس فورس میں پھیلایا۔ آج اس حقیقت کو کوئی احمق بھی جُھٹلا نہیں سکتا کہ ہماری پولیس مکمل طور پر سیاست زدہ ہے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے جو اعلیٰ افسر آتے ہیں، انہیں سیاست دان اچک لیتے ہیں۔ تعیناتی، ترقی، بیرون ملک تقرری، ہر چیز کی گارنٹی دے کر اُسے یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ کم ہی ایسے ہیں جو دام میں نہیں آتے اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ رہے نچلی سطح کے اہلکار تو بھرتیاں سو فیصد سیاست دانوں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ ہر صوبائی حکومت نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
فوجی افسر‘ جو پولیس سروس میں داخل ہوتے ہیں، سیاسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ کتاب میں جو طریقہ کار درج ہے، اُس پر شاید ہی عمل ہوا ہو۔ جو کسی حکمران کا اے ڈی سی تھا، عام طور پر وہی سول سروس میں داخل ہوا یا پھر وہ جو کسی جرنیل کا فرزند تھا یا کسی سیاست دان کا قریبی عزیز۔ یہاں تک کہ ایک جرنیل جو مذہب کے لبادے میں تھا اور دستارپوشی کرتا تھا، اُس نے بھی اِس ’’میرٹ‘‘ سے فائدہ اٹھایا۔ بات پھر وہی آ جاتی ہے، فضائل قرآن ہزار سال پڑھنے سے بھی وہ دیانت زندگی میں نہیں داخل ہو سکتی جو قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے چِلّے کاٹنے والے حقوق العباد میں صفر بلکہ صفر سے بھی کئی درجے نیچے ہیں ؎
یہ لااِلٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
کراچی کا علاج رینجرز ہیں نہ رحمن ملک۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی۔ ایک ہی علاج ہے۔ پولیس‘ دیانتدار اور آزاد پولیس جو کسی سیاست دان کو جواب دہ نہ ہو۔ جس کا سربراہ اپنی تعیناتی اور ترقی کے لیے کسی سیاست دان کا محتاج نہ ہو۔ جس کے اہلکار سیاست دانوں کے محلات پر پہرہ دینے پر مجبور نہ ہوں۔ کیا اس بات کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے کہ جتنی پولیس کراچی میں تعینات ہے، اُس کا نصف ایک ہفتے میں امن لوٹا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہوں اور مجرم کو چھڑانے کے لیے کوئی سیاست دان حرکت میں نہ آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر مسلح افواج کے پروموشن بورڈوں میں سیاست دان بیٹھے ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا ایک عام شہری کا بیٹا چیف آف آرمی سٹاف ہوتا؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔ خدا کی قسم! سیاست دانوں کے بیٹے، داماد، بھانجے اور بھتیجے کور کمانڈر ہوتے اور مسلّح افواج کا وہی حال ہوتا جو اِس ملک میں سول سروس کا ہوا ہے۔ فوجی افسروں کی ترقیاں اسی طرح ہوتیں جیسے حال ہی میں وزارت تجارت نے 44کمرشل کونسلر بیرون ملک تعینات کیے ہیں۔ سفارش، اقربا پروری، دھاندلی اور بدعنوانی کو بروئے کار لا کر سیاست دانوں نے اپنے اپنے گھوڑوں کو دوڑ میں کامیاب کرایا اور انہیں اس پر کوئی ندامت نہیں!
اِس ملک پر خدا کا احسان ہے کہ تھری سٹار جرنیل تک فوجی پروموشن میں سیاست دانوں کا عمل دخل نہیں۔ ان کا عمل دخل چیف آف آرمی سٹاف بنانے میں ہوتا ہے اور اس میں سیاست دانوں کا ریکارڈ اتنا سیاہ ہے کہ ان کے دلوں کی سیاہی کو بھی مات کر رہا ہے۔ سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کا گلا گھونٹ کر ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنایا۔ آج ملک جو کچھ کاٹ رہا ہے، ضیاء الحق کا کاشت کردہ ہے۔ پھر ایک سیاست دان نوازشریف نے میرٹ کو قتل کرکے پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا جو اِس ملک کی تقدیر سے آٹھ سال کھیلتا رہا۔ حیرت ہوتی ہے اُن دانش وروں اور سیاست دانوں پر جو پرویز مشرف کی مذمّت میں رات دن آتش فشاں ہیں لیکن اُس ذات شریف کا ذکر تک نہیں کرتے جو پرویز مشرف کو نیچے سے اوپر لایا‘ نہ ہی خود اس میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ پرویز مشرف کو مسلّط کرنے کے جرم پر قوم سے معافی مانگے۔
پولیس کراچی کا امن واپس لا سکتی ہے لیکن کُھرا سیاست دانوں کے گھروں تک جا رہا ہے۔
’’آخر اِس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ پولیس والے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو محض تنگ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینکنے سے تو مجرم نہیں پکڑے جاتے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے تم درست ہو‘‘ ساتھ بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ شخص نے گاڑی چلانے والے نوجوان سے کہا۔
’’لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ پولیس والوں کو اتنا تجربہ ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ شکل سے جرم یا معصومیت پڑھ لیں۔ ٹارچ کی روشنی میں گاڑی چلانے والے کا چہرہ دیکھنا اتنا بھی بیکار عمل نہیں۔‘‘
عمر رسیدہ شخص کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ پاکستانی پولیس، مجرم کو ڈھونڈنے اور جرم کی بیخ کنی کرنے میں دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں، یہ سات زمینوں کے نیچے سے مجرم کو پابہ زنجیر لا سکتی ہے۔ تو پھر ناکام کیوں ہے؟ افسوس! صد ہزار افسوس! کُھرا ایک بار پھر سیاست دان کے گھر تک جا رہا ہے!
اس واقعہ میں رتی بھر مبالغہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایک اعلیٰ سطح کا پولیس افسر ریٹائر ہوا تو اُسے پنجاب کے دارالحکومت میں تین سال کی نوکری مل گئی۔ اُس نے اپنے ایک ہمدرد کو بتایا: ’’یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں نوجوان تھا۔ ایک اہم سیاسی شخصیت کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے پوچھا: ہم سے دوستی کرو گے؟ میں نے کہا‘ جی ہاں جناب۔ بس اُس کے بعد سارے کیریئر میں اُس شخصیت نے میرا خیال رکھا اور میں نے اُس کا اور اُس کے مفادات کا۔ اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ شخصیت میرا خیال رکھ رہی ہے۔‘‘
یہ اُس سرطان کی ہلکی سی جھلک ہے جو سیاست دانوں نے پولیس فورس میں پھیلایا۔ آج اس حقیقت کو کوئی احمق بھی جُھٹلا نہیں سکتا کہ ہماری پولیس مکمل طور پر سیاست زدہ ہے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے جو اعلیٰ افسر آتے ہیں، انہیں سیاست دان اچک لیتے ہیں۔ تعیناتی، ترقی، بیرون ملک تقرری، ہر چیز کی گارنٹی دے کر اُسے یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ کم ہی ایسے ہیں جو دام میں نہیں آتے اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ رہے نچلی سطح کے اہلکار تو بھرتیاں سو فیصد سیاست دانوں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ ہر صوبائی حکومت نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
فوجی افسر‘ جو پولیس سروس میں داخل ہوتے ہیں، سیاسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ کتاب میں جو طریقہ کار درج ہے، اُس پر شاید ہی عمل ہوا ہو۔ جو کسی حکمران کا اے ڈی سی تھا، عام طور پر وہی سول سروس میں داخل ہوا یا پھر وہ جو کسی جرنیل کا فرزند تھا یا کسی سیاست دان کا قریبی عزیز۔ یہاں تک کہ ایک جرنیل جو مذہب کے لبادے میں تھا اور دستارپوشی کرتا تھا، اُس نے بھی اِس ’’میرٹ‘‘ سے فائدہ اٹھایا۔ بات پھر وہی آ جاتی ہے، فضائل قرآن ہزار سال پڑھنے سے بھی وہ دیانت زندگی میں نہیں داخل ہو سکتی جو قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے چِلّے کاٹنے والے حقوق العباد میں صفر بلکہ صفر سے بھی کئی درجے نیچے ہیں ؎
یہ لااِلٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
کراچی کا علاج رینجرز ہیں نہ رحمن ملک۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی۔ ایک ہی علاج ہے۔ پولیس‘ دیانتدار اور آزاد پولیس جو کسی سیاست دان کو جواب دہ نہ ہو۔ جس کا سربراہ اپنی تعیناتی اور ترقی کے لیے کسی سیاست دان کا محتاج نہ ہو۔ جس کے اہلکار سیاست دانوں کے محلات پر پہرہ دینے پر مجبور نہ ہوں۔ کیا اس بات کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے کہ جتنی پولیس کراچی میں تعینات ہے، اُس کا نصف ایک ہفتے میں امن لوٹا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہوں اور مجرم کو چھڑانے کے لیے کوئی سیاست دان حرکت میں نہ آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر مسلح افواج کے پروموشن بورڈوں میں سیاست دان بیٹھے ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا ایک عام شہری کا بیٹا چیف آف آرمی سٹاف ہوتا؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔ خدا کی قسم! سیاست دانوں کے بیٹے، داماد، بھانجے اور بھتیجے کور کمانڈر ہوتے اور مسلّح افواج کا وہی حال ہوتا جو اِس ملک میں سول سروس کا ہوا ہے۔ فوجی افسروں کی ترقیاں اسی طرح ہوتیں جیسے حال ہی میں وزارت تجارت نے 44کمرشل کونسلر بیرون ملک تعینات کیے ہیں۔ سفارش، اقربا پروری، دھاندلی اور بدعنوانی کو بروئے کار لا کر سیاست دانوں نے اپنے اپنے گھوڑوں کو دوڑ میں کامیاب کرایا اور انہیں اس پر کوئی ندامت نہیں!
اِس ملک پر خدا کا احسان ہے کہ تھری سٹار جرنیل تک فوجی پروموشن میں سیاست دانوں کا عمل دخل نہیں۔ ان کا عمل دخل چیف آف آرمی سٹاف بنانے میں ہوتا ہے اور اس میں سیاست دانوں کا ریکارڈ اتنا سیاہ ہے کہ ان کے دلوں کی سیاہی کو بھی مات کر رہا ہے۔ سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کا گلا گھونٹ کر ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنایا۔ آج ملک جو کچھ کاٹ رہا ہے، ضیاء الحق کا کاشت کردہ ہے۔ پھر ایک سیاست دان نوازشریف نے میرٹ کو قتل کرکے پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا جو اِس ملک کی تقدیر سے آٹھ سال کھیلتا رہا۔ حیرت ہوتی ہے اُن دانش وروں اور سیاست دانوں پر جو پرویز مشرف کی مذمّت میں رات دن آتش فشاں ہیں لیکن اُس ذات شریف کا ذکر تک نہیں کرتے جو پرویز مشرف کو نیچے سے اوپر لایا‘ نہ ہی خود اس میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ پرویز مشرف کو مسلّط کرنے کے جرم پر قوم سے معافی مانگے۔
پولیس کراچی کا امن واپس لا سکتی ہے لیکن کُھرا سیاست دانوں کے گھروں تک جا رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment