وہ ایک پڑھا لکھا پاکستانی تھا۔ اسے امریکہ کی ایک ایک ریاست کا محل وقوع معلوم تھا۔ اسے بالٹک ریاستوں سے لے کر ہسپانیہ کے مغربی کنارے تک یورپ کے متعلق ہر چیز معلوم تھی جیسے یورپ نہ ہو اس کی ہتھیلی ہو۔ اسے لاطینی امریکہ کا جغرافیہ بھی ازبر تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ لاطینی امریکہ میں صرف برازیل ایسا ملک ہے جہاں پرتگالی زبان بولی جاتی ہے لیکن جب میں نے اسے بتایا کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغےر کہا جاتا ہے تووہ بہت حیران ہوا۔ اس نے معصومیت سے پوچھا۔ ”تو کیا افغانستان میں صرف پختون نہیں رہتے؟“
یہ ”معصومیت“ صرف ایک پڑھے لکھے پاکستانی کا مسئلہ نہیں، ہم میں سے اکثر کو یہ نہیں معلوم کہ افغانستان میں پختون آبادی کا تناسب 45 فیصد سے زیادہ نہیں۔
یہ موضوع بلاسبب نہیں چھیڑا جا رہا۔ اہم امریکی روزنامے ”واشنگٹن پوسٹ“ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں خبر دی ہے کہ پاکستان نے اپنی روایتی پالیسی سے ہٹ کر افغانستان کے غیر پختون سیاسی رہنماﺅں سے تعلقات بڑھانے شروع کر دےئے ہیں۔ امریکی صحافیوں کا خیال ہے کہ اگر طالبان کی حکومت افغانستان میں دوبارہ قائم ہوئی تو پاکستانی طالبان کی قوت میں اضافہ ہو جائے گا اور سرحد پار ان کے ٹھکانوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی اور پاکستان کو اس کا احساس ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ فروری میں پاکستانی وزیر خارجہ نے دورہ کابل کے دوران تاجک، ازبک اور ہزارہ رہنماﺅں سے بھی ملاقات کی۔ ان حضرات کو پاکستانی سفارت خانے کے افتتاح کے موقع پر بھی مدعو کیا گیا تھا۔
یہ رپورٹ درست ہے یا نہیں، یہ تو ہمارے پالیسی ساز ہی بہتر جانتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم افغانستان کا جو تصور رکھتے ہیں اس کا اصلیت سے تعلق برائے نام ہی ہے۔ پاکستان کی افغان پالیسی اس پالیسی سے ملتی جلتی ہے جو تقسیم کے بعد ہم نے امریکہ اور روس کے معاملے میں اختیار کی۔ جس طرح ہم سوویت یونین کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر سیٹو اور سنٹو کے معاہدوں میں شریک ہوئے اور مغربی بلاک کا حصہ بن گئے، اسی طرح ہم نے افغانستان میں ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتوں کو کچھ اہمیت نہ دی۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پختون افغان آبادی کا 45 فیصد ہیں۔ کچھ اعداد و شمار یہ تعداد 42 فیصد بتاتے ہیں۔ تاجک 27 فیصد ہیں۔ ازبک 9 فیصد اور ہزارہ 10 فیصد۔ ان گروپوں کے ساتھ اگر ترکمان، بلوچ، گجر اور فارسی دان قبائل کو ملایا جائے تو تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
مسئلے کو درست تناظر میں دیکھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ افغانستان کب وجود میں آیا۔ اس علاقے کو پہلے خراسان کہا جاتا تھا۔ ایرانی حکمران نادر شاہ کے ایک جرنیل احمد شاہ ابدالی نے 1747ءمیں پشتو بولنے والے قبائل کو اکٹھا کیا اور قندھار پر قبضہ کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے غزنی اور کابل بھی اس کی قلمرو کا حصہ بن گئے۔ تین سال بعد ہرات بھی اس کے قبضے میں تھا۔ چند غیر پشتون قبیلے بھی اس کے ساتھ تھے لیکن بنیادی طور پر یہ پشتون سلطنت تھی۔ اس وقت سے لے کر سوویت یونین کے 1978ءکے حملے تک افغانستان میں پختون ہی حکمران رہے۔ کبھی درانی، کبھی محمد زئی اور کبھی غلزئی۔ تاجک، ازبک اور ہزارہ مقتدر قوتوں میں کبھی شامل نہ ہو سکے۔ قضا و قدر ہمیشہ جنوب اور جنوب مشرق کے پختونوں کے پاس ہی رہی۔ 1880ءاور 1901ءکے درمیانی عرصہ میں امیر عبدالرحمن خان کی حکومت تھی۔ کوئٹہ کے ہزارہ قبیلہ کے زیادہ تر لوگ اسی عرصہ میں ہجرت کرکے افغانستان سے آئے۔ ہزارہ قبیلے کا بیان ہے کہ عبدالرحمن خان نے منظم طریقے سے ہزارہ کی نسل کشی کی اور وہ برصغیر اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ دوسری طرف کی روایت یہ ہے کہ ہزارہ لوٹ مار بہت کرتے تھے اور ان کے علاقوں سے تجارتی قافلے سلامت نہیں گزر سکتے تھے۔
سوویت یونین کی افواج افغانستان میں شمال سے آئیں۔ انہوں نے آمو (جیحوں) پار کیا۔ آمو سے کابل تک تاجکوں اور ازبکوں کی آبادیاں ہیں۔ شمال کا شہر مزارشریف اور شمال مشرق کا بدخشاں ہمیشہ انہی کے شہر رہے۔ ان علاقوں میں سوویت یونین کا مقابلہ انہوں نے ہی کیا۔ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی تاجک تھے اور رشید دوستم ازبک۔ روسی واپس گئے تو تاجک اور ازبک تاریخ کا ورق الٹ چکے تھے۔ اب وہ اس گمنامی سے نکل آئے تھے جس میں گزشتہ دو سو سال کے دوران رہے تھے۔ ان کا حصہ روسیوں کی شکست میں پختونوں سے کم نہ تھا۔ اب انہیں اقتدار سے یکسر محروم رکھنا ممکن نہ تھا۔
پھر طالبان قندھار سے اٹھے اور جنوب اور مشرق کے صوبوں پر چھا گئے۔ تاہم احمد شاہ مسعود اور دوستم نے ان کا جم کر مقابلہ کیا۔ احمد شاہ مسعود نے اپنے زیر اثر علاقے آخر تک فتح نہ ہونے دیے۔ یہاں تک کہ امریکی آئے اور طالبان کا اقتدار ختم ہو گیا۔
ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں۔ ہم تجزیہ، اعداد و شمار اور حقائق کو پسند نہیں کرتے۔ ہم صرف وہ بات سننا چاہتے ہیں جو ہمارے خیالات سے مناسبت رکھتی ہے۔ ہم دلیل سے نہیں بلکہ اپنی بات چیخ کر، گالی دے کر، نعرہ لگا کر یا املاک جلا کر منوانا چاہتے ہیں۔ یہی طرز فکر ہم میں سے اکثر کا طالبان کے بارے میں ہے۔ ہم میں سے کچھ انہیں مقدس سمجھتے ہیں حالانکہ وہ گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ان میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ طالبان تقریباً سو فیصد ایک ہی لسانی گروہ سے کیوں تعلق رکھتے ہیں؟ اگر یہ کہا جائے کہ طالبان کا اقتدار اُسی اقتدار کا سلسلہ ہے جو احمد شاہ ابدالی نے 1747ءمیں قائم کیا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔
پھر پاکستان میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ طالبان جو کچھ بھی کرتے تھے، اسلام کے احکام کے عین مطابق تھا۔ لیکن انہوں نے مقامی ثقافت کے مظاہر کو بھی اسلام کا نام دے دیا تھا۔ پختون ثقافت کی جڑیں گہری ہیں۔ وہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مقامی ثقافت اور رسم و رواج اسلام کے ساتھ گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ آپ ”پشتون ولی“ کی روایت ہی دیکھ لیجئے۔
یہ وہ روایت ہے جس کے حوالے سے ایک پشتون کے لئے مہمان کی خدمت، بہادری، وعدے کا ایفا اور پناہ میں آئے ہوئے دشمن کی حفاظت لازم ہے۔ لیکن اس روایت کی رو سے انتقام بھی لازم ہے۔ ہر حال میں انتقام لینا یا مثلاً سوارہ کی رسم، یہ سب ثقافت کا حصہ ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے مولانا صوفی محمد نے اپنے علاقے کے ایک جلسہ عام میں حاضرین سے حلف لیا کہ وہ ہمیشہ سیاہ رنگ کی پگڑی پہنیں گے۔ بدقسمتی سے ایسی چیزوں کو اسلام کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسولﷺ نے اور ان کے بعد خلفائے راشدین نے مسلمانوں سے کوئی ایسا حلف لیا نہ اس قبیل کی پابندی ہی لگائی۔ یہ تو مقامی ثقافت ہے جسے مذہب کا لباس پہنا دیا جاتا ہے۔
ازبک اور تاجک بھی اتنے ہی اچھے مسلمان ہیں جتنے پشتون یا پنجابی یا عرب! اسلام پر اگر عربوں کی اجارہ داری ممکن نہیں تو کسی اور گروہ کی اجارہ داری کیسے قائم ہو سکتی ہے؟ ازہر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تاجک، برہان الدین ربانی نے سید قطب شہید کی کتابوں کا فارسی میں پہلی بار ترجمہ کیا۔ اس کالم نگار نے تین سال تک ازبک سکالر استاد اسد اللہ محقق سے ازبک زبان پڑھی۔ استاد محقق ہفت زبان تھے۔ جن میں روسی زبان بھی شامل ہے۔ وہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد میں تاجکی زبان و ادب کے پروفیسر تھے۔ اس عرصہ میں ازبکوں اور تاجکوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں بھی اسلامی حمیت اتنی ہی ہے جتنی دوسرے گروہوں میں۔ کون کتنا اچھا مسلمان ہے؟ اس کا فیصلہ دنیا میں نہیں ہو سکتا نہ ہی بندوق یا بارود سے اچھا مسلمان ہونے کا دعویٰ منوایا جا سکتا ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کریں گے اور جزا اور سزا کا دن ایسے ہی لاینحل مسائل طے کرنے کے لئے رکھا گیا ہے!
سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکیوں کی رخصتی کے بعد افغانستان میں کیا صورت حال ہوگی؟ کیا ایک لسانی گروہ کا وہ اقتدار پھر قائم ہو جائے گا جو احمد شاہ ابدالی نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں قائم کیا تھا یا ایک ایسی حکومت بن سکے گی جس میں افغانستان کے سارے لسانی اور تہذیبی گروہ حصہ دار ہو سکیں؟ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں امن کا دور دورہ ہو۔ امن قائم ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے حق سے محروم نہ ہو۔ کیا طالبان ایسا کر سکیں گے؟ کیا وہ بڑے بھائی کا کردار ادا کریں گے یعنی سب کو ساتھ لے کر چلیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔ یہاں قاضی حسین احمد صاحب کا ایک فقرہ نقل کرنا بے جا نہ ہوگا جو انہوں نے 2010ءمیں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا۔
”ملا عمر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جس مزاج کا آدمی ہے اس سے اگر مذاکرات کئے جائیں گے تو وہ آج بھی کسی درمیانی راستے کی طرف آنے کے بجائے اپنے اس موقف پر اصرار کرے گا کہ افغانستان کے تمام دوسرے فریق اسے بلا شرکت غیرے امیر المومنین تسلیم کرکے اس کی بیعت کر لیں۔“
حالانکہ قاضی صاحب طالبان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں ”طالبان نواز“ کہا جا سکتا ہے!
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں ہر گروہ کو اس کی آبادی کے حساب سے حکومت میں حصہ دیا جائے۔ اکثریت کو اس کی تعداد کے لحاظ سے اور دوسرے گروہوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے۔ ہر کوئی اپنا حق لے اور کسی دوسرے گروہ کی حق تلفی نہ کرے۔ اس پس منظر میں اگر یہ خبر صحیح ہے کہ پاکستان افغانستان کے تمام گروہوں کو اہمیت دے رہا ہے تو یہ قدم درست سمت میں ہے۔ پاکستان افغانستان کا خیر خواہ ہے اور اس سے محبت کرتا ہے؛ چنانچہ اس میں بسنے والے تمام نسلی، تہذیبی اور لسانی گروہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو عزیز ہیں۔
1 comment:
بہت اچھا اور معلوماتی مضمون لکھا ہے اظہار بھائی۔
واقعی بہت ہی کم لوگوں کو مسئلے کی اصل اور طالبان کی اصل اوقات کا ادراک ہے۔
خوش رہیں۔
Post a Comment